#ہوشربا
Explore tagged Tumblr posts
Text
آٹے کے بعد گھی آئل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ
(سعید احمد)آٹے کے بعد گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے لگا،اوپن مارکیٹ میں گھی ،آئل کی قیمتوں میں 50روپے فی کلو اضافہ ہو گیا۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد درجہ سوم کا گھی 390 روپے سے بڑھ کر 440 روپے فی کلو ،درجہ دوم کا گھی 450 روپے سے بڑھ کر 470 روپے فی کلو جبکہ درجہ اول کا گھی 480 روپے سے بڑھ کر 490 روپے فی کلو ہو گیا۔ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ بھی ہے ، گھی آئل کمپنی…
0 notes
Text
طلسمِ ہوشربا
#classic literature#classic books#persian literature#bookstagram#bibliophile#desiblr#desi things#desi tumblr
3 notes
·
View notes
Text
سیکرٹری انفارمیشن PTI رؤف حسن کے مزید انڈین کنکشن بے نقاب
بانی چیئرمین تحریک انصاف کے ریاست مخالف بیانیے کو پھیلانے میں ایک اور بھارتی سہولت کاری بے نقاب ہو گئی۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل رؤف حسن کے امریکی صحافی رائن گرِم، بھارتی صحافی کرن تھاپر، مائیکل کوگل مین کے بعد اب پاکستان مخالف اور را سپانسرڈ بھارتی تجزیہ نگار راہول رائے چوہدری کے ساتھ بھی واٹس ایپ کے ذریعے رابطوں کے ہوشربا انکشافات منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔ روف حسن بھارتی خفیہ ایجنسی را کے…
0 notes
Text
پاکستانی بھکاریوں کے دنیا میں چرچے
بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں حالیہ خبر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کہ ’’خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔‘‘ یہ ہوشربا انکشاف گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس میں سامنے آیا اور سیکریٹری ا��ورسیز ذوالفقار حیدر نے اجلاس میں شریک حکام کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔ سیکریٹری اوورسیز کے مطابق صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرہ کے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستانی پیشہ ور بھکاریوں کی سرگرمیاں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ یو اے ای بھی پھیل گئی ہیں۔ صرف رمضان المبارک کے دوران یو اے ای میں پہلے دو عشروں میں 200 سے زیادہ پیشہ ور پاکستانی بھکاری پکڑے اور 5 ہزار درہم جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ڈی پورٹ کئے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
یہ بھکاری یو اے ای کی نرم ویزا پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئے تھے تاکہ لوگوں کی رحمدلی کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقم بٹوری جاسکے۔ سعودی عرب اور یو اے ای حکام نے پاکستانی حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اور درخواست کی ہے کہ گداگروں کو ان ممالک میں آنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ پکڑے جانے والے بھکاریوں کو اب پاکستانی قونصلیٹ اور سفارتخانوں کے حوالے کیا جارہا ہے جبکہ یو اے ای حکومت نے پاکستانیوں کیلئے ویزے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح ایران اور عراق سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان ممالک میں بھی زیارت کے نام پر وہاں جا کر گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی حکومت ِپاکستان سے شکایت کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے حوالے سے یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ملتان ائیرپورٹ پر عمرے کی آڑ میں سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے ایک گروہ کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ ایف آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مسافروں سے امیگریشن حکام کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ افراد بھیک مانگنے کیلئے سعودی عرب جارہے تھے جہاں ایجنٹ ان کا منتظر تھا اور بھیک کی آدھی رقم اس ایجنٹ کو دینی تھی۔
اطلاعات ہیں کہ یہ ��یجنٹ ان افراد سے بیرون ملک بھیجنے کیلئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں اور یہ ایجنٹ ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح یو اے ای سے ڈی پورٹ کئے جانے والے پاکستانی بھکاریوں نے فی کس 5 ہزار درہم جو تقریباً 4 لاکھ روپے بنتے ہیں، جرمانہ یو اے ای حکومت کو ادا کیا۔ اس طرح اگر ٹکٹ، ویزا، رہائش اور ٹرانسپورٹ اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو ایک بھکاری پر 10 لاکھ روپے بنتے ہیں جو معمولی رقم نہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک میں پکڑے جانے والے غریب افراد نہیں بلکہ فیملی سمیت عرب ممالک جا کر پیشہ ور بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کو دیکھ کر انہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے اور بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی خبروں کوخوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کر رہا ہے اور مختلف وی لاگ میں تضحیک آمیز تبصرے کئے جارہے کہ پاکستان دنیا کو بھکاری (Beggars) ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔
اس طرح کے تبصرے پاکستان کی تضحیک کا سبب بن رہے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ان واقعات کے بعد وہاں مقیم پاکستانی ورکرز کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنے پر 3 سال قید کی سزا ہے مگر وکلاء اور پولیس حکام کے بقول ان پیشہ ور بھکاریوں کو یہ سزا کم ہی ملتی ہے اور وہ معمولی جرمانہ ادا کر کے دوبارہ اپنا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پیشہ ور بھکاریوں اور اس دھندے میں ملوث مافیا سے سختی سے نمٹا جائے اور سخت قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ یہ افراد ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں، جو وبا کی صورت اختیار کر گئے ہیں، کے خاتمے کیلئے بھی موثر اقدامات کیے جائیں اور ان ایجنٹس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو لوگوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر انہیں گداگری کیلئے اکسا رہے ہیں۔ اسی طرح خلیجی ممالک سے ڈی پورٹ کئے جانے والے بھکاریوں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ یہ افراد دوبارہ ان ممالک کا سفر نہ کر سکیں۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پنجاب کے سکولوں میں پلے گروپ سے پہلی کلاس تک بچوں کو مزید 7 چھٹیاں مل گئیں
بچوں میں نمونیا کے کیسز میں ہوشربا اضافے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے پلے گروپ سے پہلی کلاس کے بچوں کے لئے 7 روز کی تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے۔ پنجاب میں یکم جنوری سے 36 بچے نمونیا سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔چلڈرن ہسپتال میں 10 میں سے 8 بچے نمونیا کے مریض ہیں۔ پنجاب بھر کے اسکولوں میں 31 جنوری تک صبح کی اسمبلی پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ہدایت کی ہے کہ بچے…
View On WordPress
0 notes
Text
انقلاب کی دستک
پاکستانی قوم میں گزشتہ دو سالوں کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی، اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر مفت بجلی اور حیران کن مراعات کے تذکرے نے نوجوان طبقے کی آنکھوں میں شعلے بھر دیے ہیں۔ پاور ڈویژن کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ 73 ہزار ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جنکی سالانہ مالیت 10 ارب روپے ہے۔ جبکہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے 15 ہزار ملازمین سالانہ ایک ارب 25 کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ جسکا بوجھ پاکستان کے عوام برداشت کرتے ہیں۔ بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔ عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سابق حکمراں طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگا دیا۔
گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وفاق میں قائم ہونے والی نگراں حکومت ابھی تک فعال نہیں ہو سکی۔ نئے وزراء اگرچہ اپنی قابلیت کے حوالے سے غیر متنازع ہیں لیکن ان کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کر رہی ہے وہ پرلے درجے کی نااہل، نالائق اور کام چور افراد پر مشتمل ہے۔ وزارتوں کے سربراہ ایسے سرکاری افسران مقرر کیے گئے ہیں جو گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں ترقی کے منتظر ہیں اور وہ ترقی میں ممکنہ رکاوٹ کے خوف سے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔ افسر شاہی کے اندر ایک طرف تو نیب نے خوف کے پنجے جما رکھے ہیں تو دوسری طرف نااہلی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمارے محترم نگران وزیراعظم اپنی شخصیت اور اہلیت کے اعتبار سے ایک ''مقبول و محبوب'' شخص ہیں لیکن وہ بھی جم کر کام کرنے کے بجائے دوروں پر نکل گئے ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف نے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے علاوہ باقی تمام محکمے روایتی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ نئے سرمایہ کاروں کیلئے مناسب ماحول تو کیا پیدا ہونا تھا پہلے سے موجود سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کیلئے سرخ فیتے کی ایک ایسی لائن کھینچ دی گئی ہے جس کو عبور کر کے اپنے جائز اور قانونی کام کروانا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ رشوت کا ریٹ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ متوسط طبقے کا تاجر اپنے کام کیلئے سرکاری دفاتر کا رخ کرنے سے ہی خوف کھاتا ہے۔ قبل ازیں تو صرف پٹواری ہی رشوت لینے کیلئے بدنام تھا لیکن آج تو یوں لگتا ہے کہ پوری افسر شاہی تسبیح کی ایک دانے کی مانند اس دھاگے میں پروئی جا چکی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی نے نہ صرف معمولی مسائل کو الجھا دیا ہے بلکہ عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اختیارات مراعات اور سہولتیں کے نشے کی لت میں مبتلا حکمران ابھی تک یہ محسوس نہیں کر پا رہے ایک خونی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
بجلی کے بلوں کی وجہ سے سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کے بغیر عوام از خود مظاہروں میں مصروف ہیں۔ میرے شہر بھیرہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں اور بچوں نے بھی سیاسی قیادت کے بغیر از خود مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری اشرافیہ یہ حقیقت کیوں فراموش کر رہی ہے کہ جب احتجاج کی باگ ڈور عوام کے پاس ہوتی ہے تو اس وقت وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے تیونس، الجزائر، مصر اور سری لنکا میں ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ کوئی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ادھار لے رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ بجلی کی چوری اور حکومتی نااہلی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بل ادا نہیں کرتا جبکہ عام صارف اس کے حصے کا جرمانہ بھی ادا کرتا ہے۔ عام آدمی کو جب یہ معلوم ہوتا کہ حکمران اشرافیہ نہ تو بجلی کا بل اپنی جیب سے دیتی ہے، نہ پٹرول اپنی گرہ سے ڈلواتی ہے، انہیں گاڑیاں بھی مفت ملی ہوئی ہیں، وہ سرکاری دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال دیکھتے ہیں تو ان کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔ لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔
ادھار مانگ مانگ کر لوگ تنگ ا ٓچکے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہو گا۔ جس سے ملک کے طول و عرض میں موجود احتجاج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اور حالات میں خرابی کی تمام تر ذمہ داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، نگران حکومت کو کچھ اہم فیصلے لینا ہوں گے، محکمانہ نااہلی اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا مزید بوجھ عوام برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اب لوگ حالات کے بہتری کیلئے عام انتخابات کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ مفت کی عیاشی ختم کرنا ہو گی۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کم کرنا ہو گی۔ ورنہ انقلاب تو دستک دے ہی رہا ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کراچی مئیر الیکشن اور معاشی صورتحال
کراچی میئر کے انتخابات میں تحریک انصاف کے 31 ارکان کے اغواء اور دھاندلی کے ذریعے پیپلز پارٹی کے امید وار مرتضی وہاب کی کامیابی نے وطن عزیز پاکستان کے انتخابی نظام سے متعلق کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دھونس و جبر کے ذریعے دھاندلی زدہ الیکشن کو کراچی کے عوام آخر کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ کراچی ایک سیاسی شعور رکھنے والا شہر ہے۔ اس کو اپنی حقیقی قیادت سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسا مذاق ہے کہ جماعت اسلامی کی حمایت کرنے والے تحریک انصاف کے اکتیس ارکان کو انتخابی عمل سے دور کر دیا گیا؟ جماعت اسلامی کی طرف سے مئیر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی کے عوام کے حق پر ڈاکہ مارا گیا ہے اور وہ اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایک سو اکیانوے ارکان کی اکثریت رکھنے والے حافظ نعیم الرحمن کو ہرا دیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی ایک سو تہتر ارکان کے ساتھ مرتضی وہاب کو جتوانے میں بالاآخر کامیاب ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کا مئیر نہیں بننے دیا گیا۔ تحریک انصاف کے اکتیس ارکان کے لاپتہ ہونے کے بعد تو کراچی مئیر کے الیکشن کا سارا عمل ہی مشکوک ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی میں اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی پارٹی جماعت اسلامی کو مئیر شپ دے دینی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی اگر کراچی میں حقیقی نمائندگی حافظ نعیم الرحمن کو دے دیتی تو شہر قائد کی حالت بدل جاتی اور ترقی کا عمل شروع ہو جاتا۔ حافط نعیم الرحمن نے بھی واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کو چرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکتیس ارکان کو اغواء کرنے اور کراچی کے مینڈیٹ کو ہتھیانے کے خلاف وہ پرامن احتجاج کریں گے اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ اب پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا یہ امتحان ہے کہ وہ اس سنگین اور مشکل صورتحال سے کیسے نکلتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی مئیر کے الیکشن میں کھلم کھلا دھاندلی اور جبرو دھونس سے سندھ حکومت کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اگر حافط نعیم الرحمن کراچی کا مئیر بن جاتا تو کون سی قیامت آجاتی؟۔ پیپلزپارٹی کو اپنے اس غیر جمہوری روئیے پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
کراچی کی طرح پورے ملک میں عوام غیر یقینی کیفیت اور اضطراب میں مبتلاء ہیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی نے بھی غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اب لوگ دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرح پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دور حکومت میں بد ترین معاشی کارکردگی دکھائی ہے۔ اب پاکستان کے عوام کی نظر یں اکتوبر میں عام انتخابات پر ہیں کیونکہ ملک کے تمام مسائل کا حل بروقت اور شفاف انتخابات میں ہے۔ مقام افسوس ہے کہ پی ڈی ایم کے بعض وزراء کی جانب اس سال اکتوبر میں الیکشن کی تاخیر کے بیانات آئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اکتوبر میں الیکشن نہیں چاہتی بلکہ وہ عام انتخابات کو اگلے سال تک لے جانا چاہتی ہے۔ انتخابات میں تاخیر جمہوریت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے۔
عوام پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں، سب نے عوام کو مہنگائی کے عذاب تلے دبائے رکھا، ان لوگوں کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، نا اہل اور کرپٹ مافیا کو جب تک مسترد نہیں کر دیا جاتا، اور ملک کی بھاگ دوڑ ایماندار لوگوں کے سپرد نہیں کر دی جاتی اس وقت تک ملکی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ وطن عزیز میں چور دروازے سے جو بھی بر سر اقتدار آیا اس نے 25 کروڑ عوام کو صرف مایوس کیا ہے۔ اس نے لوٹ مار کر کے اپنی تجوریوں کو بھرا۔ ان کے نزدیک عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔ پاکستان اس وقت نازک ترین موڑ پر پہنچ چکا ہے، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اتحاد کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں 10 کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے بھی قو م کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔
طرفا تماشا یہ ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ 144 کھرب 60 ارب روپے کا ہے جو بجٹ 69 کھرب 24 کھرب خسارے کا بجٹ ہے۔ یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتا ہے جس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ حکومت کو تنخواہوں اور پنشن میں بھی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح مزدور کی کم از کم اجرت 40 ہزار روپے کی جانی چاہئے تھی تاکہ مہنگائی سے تنگ عوام کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ کم آمدنی والوں کے لئے تو وفاقی بجٹ میں توقع کے مطابق کچھ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معاشی استحکام اور ��ہنگائی کم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 6 فیصد جبکہ فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر کی کم ترین سطح پر اور معیشت سکڑ کر 341 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ اگر رواں سال اکتوبر میں صاف شفاف انتخابات ہونگے تو ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ اس وقت اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
مہنگائی بےقابو، ایک ہفتے میں ہوشربا اضافہ
اسلام آباد : ملک بھر میں مہنگائی کا نہ رکنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے، اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اۤسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کردیئے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ہفتے بھی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی2.78 فیصد مزید بڑھ گئی، ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وارشرح42.98 فیصد تک ریکارڈ کی گئی…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا
وزیراعظم کسے منتخب کرنا ہے یہ فیصلہ عوام کا ہونا چاہیے،عمران خان:فوٹو:فائل اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے صدرمملکت عارف علوی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران عوامی سطح پر نہایت ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں۔ منظر عام پر آنے والی…
View On WordPress
0 notes
Text
گیس کے نرخوں میں 113 فیصد تک اضافہ
مہنگائی کا نیا طوفان، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کے نرخوں میں 113 فیصد تک اضافےکا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ پیٹرولیم ڈویژن کی ایڈوائس پر گیس ٹیرف میں اضافےکا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے بعد گھریلو صارفین سمیت مختلف شعبوں کیلئےگیس 16 تا 113 فیصد مہنگی ہو گئی۔ گھریلوصارفین کو پروٹیکٹڈ…
View On WordPress
0 notes
Text
#SSGC سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پیٹرولیم کا اجلاس
اسلام آباد: سندھ میں عام صارفین کو گیس کیوں میسر نہیں؟ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم میں ہوشربا انکشافات سامنے آگئے۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹر عبد القادرکی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس ہوا، اجلاس میں سندھ میں عام صارفین کو گیس ملنے کی مشکلات کی بازگشت سنائی دی گئی۔ دوران اجلاس گیس حکام نے ہوشربا انکشاف کیا کہ سندھ میں صنعتوں میں بڑے کمپریسر نصب ہیں ان کمپریسر کی وجہ…
View On WordPress
0 notes
Text
#PIA اچانک ہوائی جہاز کے ٹکٹ آخر اتنے مہنگے کیوں ہوگئے؟
#PIA اچانک ہوائی جہاز کے ٹکٹ آخر اتنے مہنگے کیوں ہوگئے؟
کراچی: پی آئی اے اور دیگر نجی ایئر لائنز نے اندورن ملک سفر کرنے والے مسافروں پر بجلی گرادی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) اور دیگر نجی ملکی ایئرلائنز نے اندورن ملک کرایوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ اطلاعات کے مطابق پی آئی اے کا کراچی سے اسلام آباد کا یکطرفہ 36000 ہزار جبکہ دو طرفہ کرایہ71 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ حکام کے مطابق کرسمس اور موسم سرما کی تعطیلات اور نئے سال کی آمد…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارت میں ایڈز سے مزید 47طلبہ ہلاک
بھارت میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی مزید47طلبہ ہلاک ہو گئے تفصیلات کے مطابق بھارت ریاست تریپور�� میں 828 طلبا کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آیا ہے جب کہ 47 طلبا پہلے ہی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ایڈز کنٹرول سوسائٹی کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر ایڈز کے 5 سے 7 نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں ۔متاثرہ طلبا کی تعداد 828 ہوگئی جب کہ 47 طلبا ہلاک ہوچکے۔ ریاست تریپورہ کے…
0 notes
Text
عوام کب کا ڈیفالٹ کر چکے
گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ ’’ ہم نے بہت مشکل سے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔‘‘ ہمارے ملک میں اشرافیہ ہی ڈیفالٹ کا مزہ نہیں چکھ پائِی لیکن ایک عام آدمی توکب کا ڈیفالٹ کر چکا۔ اس ملک کا کرپٹ بیوروکریٹ، سیاستدان اور اشرافیہ کیا جانے کہ اس وقت بازار میں آٹے اور دال کا کیا بھائو ہے کیونکہ انھوں نے کبھی خود توخریداری کی نہیں ہوتی بلکہ روزمرہ کی اشیاء ضرورت بھی ان کے گھروں میں مفت پہنچ جاتی ہے۔ ان کی لگژری گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل سرکارکے کھاتے سے مفت مل جاتا ہے انھیں کیا معلوم کہ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیزکی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ بے شمار بچوں کے والدین ان کی فیسیں ادا کرنے کے لیے اپنے زیورات اور گھر کی دیگر اشیا ء بیچ رہے ہیں جب کہ دوسری جانب یہ اربوں کھربوں میں کھیلنے والی اشرافیہ، جن کے بچے ملک میں اور بیرون ملک بھی مہنگے ترین اسکولوں میں، ملک سے لوٹی ہوئی رقم سے عیاشیاں کر رہے ہیں۔
یہ اشرافیہ میڈیا کے ذریعہ ملنے والی کسی خودکشی کی خبر سن کر شاید صرف افسوس کے چند الفاظ ادا کر دیتے ہوں گے لیکن انھیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہو سکتا کہ خودکشی کرنے والا باپ یا ماں صرف اس لیے پھندے سے لٹک گئے کہ وہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا نہیں کر پائے، کیونکہ ہر شخص کسی دوسرے سے مانگنے کی ہمت نہیں رکھتا اور بالآخر اس کا نتیجہ اس کی خودکشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اشرافیہ، اپنے پرتعیش محلوں اور اپنی بڑی بڑی گاڑیوں سے باہر آکر دیکھے کہ ڈیفالٹ کسے کہتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ایک تنخواہ دارطبقہ اپنی ساری تنخواہ بجلی کے بلوں میں ادا کر دیتا ہے تو سوچیں پھر گھر کے دیگر معاملات کس طرح چلا رہا ہو گا ؟ اور ظلم تو یہ ہے کہ کوئی سننے والا بھی نہیں ہے۔ جن حکمرانوں کی یہ ذمے داری ہے وہ ایک عام آدمی کے پاس سے اپنی بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں میں، گارڈز کی فوج کے ہمراہ دھول اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔
ایک ایک وقت میں ہزاروں روپے کا کھانا کھانے والے لوگو، آئو اور دیکھو کہ رفاہی اداروں کے دستر خوانوں پر دن بدن رش بڑھتا جا رہا ہے اور یہاں آج کل صرف بے گھر لوگ ہی کھانا کھانے نہیں آتے بلکہ وہ سفید پوش نوکری پیشہ افراد بھی ان فٹ پاتھوں پر موجود دستر خوانوں پر منہ چھپا چھپا کر کھانا کھانے آتے ہیں جو اپنی قلیل تنخواہ میں روزانہ باہرکھانا کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ان دسترخوانوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کی طرف نظر نہ ڈالوں کہ کہیں ایسے دستر خوان پر کھانا کھاتے کسی شخص سے نگاہ نہ مل جائے اور اس کی عزت نفس نہ مجروح ہو۔ ہوشربا مہنگائی کا اندازہ صرف اس سے لگا لیں کہ چینی 165 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ ملک میں پچھلے چند سالوں میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، جب کہ تنخواہوں میں اضافہ اس مہنگائی کی مناسبت سے کبھی بھی نہ ہو پایا۔ ملک میں تین اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق چینی کی خوردہ قیمت اگست 2018 میں ساٹھ روپے تھی جو بڑھ کر 165 روپے ہو چکی ہے بلکہ کئی مقامات پر دکاندار اپنی من مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اگست 2018 میں آٹے کے قیمت 37 روپے کلو تھی جو ان دنوں 170 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح گھی وخوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست 2018 میں 900 روپے یعنی 180 روپے کلو تھی وہ اگست 2023 کے اختتام تک 2500 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر گزشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً چالیس فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر صرف آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے، جب کہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں ورکرزکی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
کراچی وہ شہر ہے جہاں پورے پاکستان سے لوگ تلاش معاش کے لیے آتے ہیں جن میں زیادہ تعداد مزدوروں کی ہے جسے پورے مہینے کام کر کے بمشکل اٹھارہ سے بیس ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ اس ملک کا کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹ اور ’’اشرافیہ ‘‘ ایک دن میں ہی اٹھارہ ہزار روپے سے زیادہ کا پٹرول اپنی بڑی بڑی لگژری گاڑیوں میں پھونک دیتے ہیں اور اپنی پوری فیملی یا دوستوں کے ساتھ ملک کر ایک دن میں اتنی رقم سے کہیں زیادہ کا کھانا کھا جاتے ہیں۔ ایک عام آدمی جو ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کما پاتا ہے اسے اس کا بڑا حصہ اپنی فیملی کے اخراجات کے لیے گھر بجھوانا پڑتا ہے۔ اسی تنخواہ میں اسے اپنے لیے دو وقت روٹی کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے اور اسی قلیل رقم سے اسے اپنی لیے صرف اتنی سی ��ہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے جہاں جب وہ رات کو تھکن سے چور ہو کر پہنچے تو چند گھنٹے کی نیند کر سکے، لیکن اب ایسا کرنا ایک مزدورکے لیے ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ راتوں میں کراچی کے فٹ پاتھوں اور پارکس میں سونے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ایک مزدور کے لیے اب اپنے لیے ایک کمرے کی عیاشی بھی کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔
جب کہ دوسری جانب تمام تر سیاستدان ایک بار پھر اقتدارکی ہوس میں صبح شام اسی غم میں کڑے جا رہے ہیں کہ الیکشن کب اورکیسے ہوں اور کس طرح وہ ’’ اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کی مدد سے حکومتی ایوانوں میں براجمان ہو سکیں۔ میں ان تمام سیاستدانوں سے مخاطب ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ مودبانہ عرض ہے کہ ملک ایک عام آدمی سے ہوتا ہے، جو کب کا ڈیفالٹ کرچکا۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’ وہ جنھوں نے سردی اور گرمی صرف کھڑکیوں دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔‘‘ تو نہ اس ملک میں کبھی عام آدمی کو قیادت ملے گی اور نہ ہی اس ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گی۔
امتیاز بانڈے
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
Text
لاہور میں شٹر ڈاؤن ہڑتال، اکا دکا دکانیں کھلی نظر آئیں، سڑکوں پر ٹریفک بھی کم
جماعت اسلامی ، قومی تاجر تحاد ،لاہور چیمبر اآف کامرس اور مقامی تاجر تنظیموں کی جانب سے مہنگائی، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف ہڑتال کی کال پر صوبائی دارالحکومت میں مکمل شٹر ڈائون ہڑتال ہے۔ ہڑتال کے دوران گلی محلے کی دوکانوں کے ساتھ لاہور بھر میں سویٹ شاپس، چھوٹے ریسٹورنٹس اور ڈھابے، میڈیکل سٹور کھلے رہے جبکہ تمام اہم مارکیٹس بند رہیں۔ شاہ عالم مارکیٹ ،اعظم…
View On WordPress
0 notes
Text
انسانی جان کی قیمت، دس کلو آٹا
ذرا تصور کریں کہ ایک شخص دن بھر محنت مزدوری کرنے کی بجائے آٹے کے حصول کے لئے طویل قطار میں لگا رہے، اہلکاروں کی ڈانٹ اور لاٹھی چارج بھی سہتا رہے، لیکن باری آنے پر اسے کہا جائے کہ آٹا ختم ہو گیا تو اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ وہ کس طرح اپنے بچوں سے منہ چھپا کر گھر میں داخل ہوا ہو گا؟ اس نے کس طرح اپنے معصوم بچوں کے سوالات کا سامنا کیا ہو گا؟ ذرا سوچئے تو سہی ایک بزرگ اپنے گھر والوں کو یہ امید دلا کر نکلتا ہے کہ وہ آج ان کے لیے آٹا لے کر آئے گا لیکن شام کو آٹے کے بجائے اس بزرگ کی لاش گھر آئے۔ کراچی کی فیکٹری تصور کریں جہاں سینکڑوں لوگ مفت راشن کے حصول کیلئے جمع ہوئے لیکن وہاں آٹے کی بوریوں کے بجائے لوگوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آئیں، ہر دن افسوسناک اور شرمناک کہانیاں لئے طلوع ہوتا ہے اور وحشت ناک حقائق لیے غروب ہوتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں راشن کے نام پر قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ اپریل 2023 ء میں پاکستان کے مختلف شہروں میں مفت اشیا ء لینے کے لئے بھگدڑ مچنے سے 15 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہو چکے ہیں۔ کراچی میں زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران 3 بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے۔ خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں رمضان المبارک کے پہلے دن مفت آٹا لینے کیلئے جمع ہونے والے لوگوں میں بھگدڑ مچنے سے ایک شخص جاں بحق اور آٹھ زخمی ہو گئے۔
میرپورخاص میں ایک جاں بحق، سکرنڈ ٹاؤن، شہید بینظیر آباد میں ایک کمسن بچی سمیت تین خواتین زخمی ہو گئیں۔ وہاڑی اور مظفر گڑھ میں مفت آٹا نہ ملنے سے ایک معمر شخص جاں بحق اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔ جو واقعات رپورٹ نہیں ہو سکے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ مفت آٹے کے نام پر انسانیت کی تذلیل کی جارہی ہے۔اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے مقامی انتظامیہ تک نااہلی کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ جو حکومت دس کلو آٹا ڈھنگ سے نہ دے سکے وہ ملک خاک چلائے گی؟ کیا انسانی جان اتنی ارزاں ہو گئی ہے کہ دس کلو آٹے کی خاطر اسے قربان کر دیا جائے؟ اپنی تقریروں کے دوران مائیک گرا کر، بازو لہرا لہرا کر خلافت راشدہ کی مثالیں دینے والے ہمارے وزیراعظم کو کوئی جا کر بتلائے کہ اسلامی ریاست میں دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مر جاتا تو اس کا ذمہ دار حکمراں ٹھہرتا تھا یہاں تو ان گنت لاشیں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ ہے کوئی ان کی خبر لینے والا؟ ہے کوئی ان کے لواحقین کے آنسو پونچھنے والا؟ پہلے زمانوں میں بے حس لوگوں کے خون سفید ہوتے تھے لیکن آج نااہل حکمرانوں کے سائے تلے، سفید آٹے کے حصول کی خاطر میری دھرتی، معصوم شہریوں کے خون سے رنگین ہو چکی ہے۔رجیم چینج آپریشن کے بعد اس ملک پر بدبختی کے سائے کچھ ایسے پھیلے ہیں کہ یہاں کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو رہا۔
بیرون ملک امداد مانگنے جاتے ہیں تو ٹکا سا جواب ملتا ہے، دوست ممالک کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں، نااہلی کا یہ عالم کہ مہنگائی کا جن، بوتل سے باہر ہے اور بند ہونے کا نام نہیں لے رہا، بدانتظامی کی یہ کیفیت کہ راشن کے حصول میں لوگ اپنی جان دے رہے ہیں، اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ملک کے تمام موقر اداروں کی توقیر خاک میں ملائی جارہی ہے۔ پورا ملک اس وقت راشن کے مصنوعی بحران کا شکار ہے۔حکومت کی جانب سے تو دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس مرتبہ گندم کے ذخائر اطمینان بخش ہیں۔ 220 روپے فی من گندم خریدی گئی، حکومت کی اسٹاک کی ہوئی گندم کون سے ’’چوہے‘‘کھا گئے، ذرائع کے مطابق گزشتہ تین سال میں 30 ارب روپے کی گندم سندھ کے سرکاری گوداموں سے غائب ہوچکی ہے۔ اور وہاں کی حکمراں جماعت جمہوریت کی چیمپئن ہونے کی دعوے دار ہے۔ حکمرانوں کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ ضروری ادویات، طبی سامان اور خوردنی تیل سمیت صحت، اشیائے خورونوش سے بھرے ہوئے سینکڑوں کنٹینر کراچی پورٹ پر کھڑے ہیں لیکن انہیں کلیئر نہیں کیا جا رہا۔
مگر ایک مخصوص تعداد میں لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دے دی گئی ہے، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، سنگین معاشی حالات اور بے روزگاری کے باعث ایک طرف خودکشیوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے تو دوسری طرف چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ چکی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس وقت ملک ایک ہمہ جہت بحران کا شکار ہے۔ سیاسی حکومت کمزور اور انتظامیہ کمزور تر ہے۔ حکمرانوں کی انا کے بت بہت مضبوط ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی، پاگل پن کی حد تک بڑھ چکی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت اور پنجاب کی نگران حکومت کی ساری توجہ عمران خان پر مختلف مقدمات قائم کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔ حکمران طبقہ یہ نہ بھولے کہ ملک میں الیکشن جلد ہوں یا دیر سے، سپریم کورٹ آف پاکستان میں بنچ بنتے رہیں یا ٹوٹتے رہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین پر مقدمات کی ڈبل سنچری بن جائے،عمران خان کے ساتھیوں پر ملک کے چاروں صوبے میں مقدمات درج کر لئے جائیں، لیکن موجودہ حکمرانوں کو دس کلو آٹے کی خاطر جانیں قربان کرنے والے لوگوں کے خون ناحق کا حساب دینا ہو گا۔ بروز حشر ان غریب لوگوں کے ہاتھ ہوں گے اور موجودہ حکمرانوں کا گریبان ہو گا۔ وہ پوچھیں گے ہمیں کس جرم میں مار دیا گیا؟ تو حکمرانوں کے پاس کیا جواب ہو گا؟
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes