#اٹے
Explore tagged Tumblr posts
Text
20کلو آٹے کا تھیلاگیس سلنڈر اور پیاز مہنگے ہو گئے
(24نیوز) ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کردئے جس کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.08 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے،سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 12.75 فیصد کی سطح پر آگئی۔ گزشتہ ہفتے 15 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ ہفتے 8 اشیا کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ 28 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں، پیاز کی فی کلو قیمت میں 7 روپے تک اضافہ ہوا،آٹے کا…
0 notes
Text
اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نھیں کہ کہاں جا رہے ہیں ہم
یوں گرد سے اٹے ہیں کہ پہچان مٹ گئی
لیکن یہ وہم ہے کہ جلا پا رہے ہیں ہم
بنیاد پختہ کا تو نا آیا کبھی خیال
چھت جھکتی آرہی ہے تو پچھتا رہے ہیں ہم
برسوں سے انتظار ہے اک نخل سبز کا
آب حیات ریت پہ ٹپکا رہے ہیں ہم
یہ سوچتے ہیں ٹوٹتے تاروں کو دیکھ کر
منزل سے رفتہ رفتہ قریب آرہے ہیں ہم
اک دائرے میں گھومتے پھرتے رہے ندیم
اس وہم میں مگن کہ بڑھے جا رہے ہیں ہم
4 notes
·
View notes
Text
فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت
خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔
اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ ک��م کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔
جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شر��ع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
0 notes
Text
نظم: سسی
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
محبت خانوادے کے حرم میں گڑ گئی اب تو
میرے ہر خواب پہ مٹی کی چادر چڑھ گئی اب تو
میرے عشوے، میرے غمزے، ادائیں مر گئی اب تو
دعائیں مر گئی اب تو، وفائیں مر گئی اب تو
پنل صحرا گواہی ہے
یہ سانسوں کی طنابوں پہ تنا خیمہ گواہی ہے
ہتھیلی کی دراڑوں میں چھپے آنسو گواہی ہیں
کھنکتی ریت پہ الجھے اٹے گیسو گواہی ہیں
کہ میں نے انتہا سے انتہا تک تم کو مانگا ہے
شہر بھمبھور کے خستہ محلوں کے فقیروں سے
سڑک پر بچھ گئے ہر دم دعا کرتے غریبوں سے
یتیموں سے، ضعیفوں سے، دلوں کے بادشاہوں سے
نیازوں میں، دعاؤں میں، صداؤں میں پکارا ہے
اماوس رات میں اٹھ کر خلاؤں میں پکارا ہے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پرانی خانقاہوں میں ، شہر کے آستانوں پر
مزاروں، مسجدوں میں، مندروں میں دیکھ لو جا کر
کہیں تعویز لٹکے ہیں کہیں دھاگے بندھے ہونگے
کہیں دیوار پر کچھ خون کے چھینٹے پڑے ہونگے
پنل منظر دہائی ہے یہ سب اسکی گواہی ہے
کہ میں نے بے نشانی تک نشاں سے تم کو مانگا ہے
تمہارے کیچ کے رستے پہ میں ہر شام رکتی تھی
ہر اک راہرو کے پیروں کو پکڑ کر التجا کرتی
کہ میرا خان لوٹا دو، میرا ایمان لوٹا دو
کوئی ہنستا کوئی روتا کوئی سکہ بڑھا دیتا
کوئی تمہارے رستے کی مسافت کا پتہ دیتا
وہ سارے لوگ جھوٹے تھے سبھی پیمان کچے تھے
پنل تم ایک سچے تھے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پنل بھمبھور کی گلیاں ، وہ کچی اینٹ کی نلیاں
جنہوں نے خادماؤں کا کبھی چہرہ نہیں دیکھا
انھوں نے ایک شہزادی کا نوحہ سن لیا آخر
دھڑک جاتی ہیں وہ ایسے، اماوس رات میں جیسے
کسی خوابوں میں لپٹی ماں کا بچہ جاگ جاتا ہے
وہ سرگوشی میں کہتی ہیں
کہ دیکھو بھوک سے اونچا بھی کوئی روگ ہے دل کا
سنا کرتے تھے کہ یہ کام ہے بس پیر کامل کا
کہ وہ الفت کو مٹی سے بڑا اعجاز کر ڈالے
یہ کس گندی نے افشاں زندگی کے راز کر ڈالے
پنل میں گندی مندی ہوگئی میں یار کی بندی
سو میری ذات سے پاکیزگی کا کھوجنا کیسا ؟
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
خدا کے واسطے مت دو
خدا کے پاس بیٹھی ہوں
رہین خانہ کرب و بلا کے پاس بیٹھی ہوں
فلک کے کائنہ خانہ جہاں سے روشنی جیسے دعائیں لوٹ آتی ہیں
زمیں سنگلاخ ویرانہ جہاں پر جانے والے لوٹ کر آتے نہیں لیکن
صدائیں لوٹ آتی ہیں
پنل آواز مت دینا
میں اب آواز کی دنیا سے آگے کی کہاںی ہوں
میں ان شہروں کی رانی ہوں
جہاں میں سوچ کے بستر پہ زلفیں کھول سکتی ہوں
جہاں میں بے کناں رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہوں
جہاں پر وقت ساکت ہے نگاہ یار کی صورت
جہاں پر عاشقوں کے جسم سے انوار کی صورت
محبت پھوٹ کر اک بے کراں ہالے میں رقصاں ہیں
مگر آواز مت دینا
کہ ہر آواز صدمہ ہے
پنل آواز مت دینا
پنل تم آدمی نکلے
کسی حوا کی سونی کوکھ سے دوجا جنم لے کر بھی
تم اک آدمی نکلے
میں آدم جام زادی تھی میں شہر آرزو کی حسرت ناکام زادی تھی
مگر پھر بھی پنل تم سے، تمہارے دیدہ گم سے
میری چاہت نے جس انداز سے نظر کرم مانگا
بتاؤ اس طرح اتنی ریاضت کون کرتا ہے ؟
بتاؤ خاک سے اتنی محبت کون کرتا ہے ؟
تمہارے ہر طرف میں تھی ، میری آواز رقصاں تھی
میری یہ ذات رقصاں تھی
کہ جیسے پھر طواف زندگی کو زندگی نکلے
کہ جیسے گھوم کر ہر چاک سے کوزہ گری نکلے
مگر تم آدمی نکلے
پنل تم آدمی نکلے
پنل واپس چلے جاؤ
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
پنل یہ ریت کے ذرے یہ خواہش کے فرشتے ہیں
جو ان دیکھے پروں کے زعم میں ٹیلوں سینوں سے
اڑانیں چاہتے ہیں پار نیلے آسمانوں کی
انھیں کیا علم کہ وہ پار تیرے کیچ کے جیسا
یہ اونٹوں کی قطاریں میرے اشکوں کی قطاریں ہیں
جو میرے گال کے صحرا کے ٹیلے سے گزرتی ہیں
تو میرے دہن کے سوکھے کنویں تک رینگ جاتی ہیں
انھیں کیا علم کہ سوکھا کنواں بھمبھور کے جیسا
پنل یہ ریت کے ٹیلے
یہ احرام حقیقت ہیں نہ جانے کتنے احراموں تلے قبر محبت ہے
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
تمہارے اشک اور نوحے یہاں کچھ کر نہیں سکتے
انھیں کہنا جو کہتے تھے فسانے مر نہیں سکتے
انھیں کہنا کہ وہ سسی جو آدم جام زادی تھی
جسے دل نے صدا تھی جو اشکوں کی منادی تھی
وہ سسی ہجر کی رسی پہ لٹکی مر گئی کب سے
طلاقیں لے کے پردیسی سہاگن گھر گئی کب سے
یہاں کوئی نہیں رہتا سوائے ریگ بسمل کے
پنل واپس چلے جاؤ
یہاں اندھی ہوائیں ٹھوکریں کھاتی ہیں ٹیلوں سے
پتہ دیتی ہیں جانے کون سے بے نام قاتل کا
یہاں کوئی نہیں رہتا
سوائے ریگ بسمل کے۔......!!!!!!!!
شاعر: عمران فیروز
1 note
·
View note
Photo
آٹے کابحران پھر پیداہوگیا،کپتان مافیا کے مقابلے کی بجائے اس کا حصہ بن گئے، حکومتی ٹیم کو نااہلوں کا ٹولہ قرار دیدیا گیا راولپنڈی(این این آئی)امیرجماعت اسلامی ضلع راولپنڈی راجا محمدجواد نے کہاہے حکومتی ٹیم نااہلوں کا ٹولہ ہے جس نے دوسال میںناکامی کے عالمی ریکارڈقائم کئے ،سابقہ حکومتوں کی کرپشن، بدیانتی اور خزانہ خالی ہونے کا رونا کب ختم ہوگا، آٹا پھرمہنگا کر دیا گیا ایک بحران ختم نہیں ہوتا دوسرا سراٹھا لیتا ہے کپتان مافیا کے مقابلے اور خاتمے کی بجائے اس کا حصہ بن گئے ،ملک لوٹنے والوں کوہرطرح کی آزادی اورحکمرانوں کی
#اٹے#اس#بجائے#بن#پھر#پیداہوگیاکپتان#ٹولہ#ٹیم#حصہ#حکومتی#دیدیا#قرار#کا#کابحران#کو#کی#کے#گئے#گیا#مافیا#مقابلے#نااہلوں
0 notes
Text
وہ نہیں ہے تو یہ مت سوچنا
اب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں
سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں
وصل کے شہر کی روشنی ایک تو
ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں
بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر
اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں
حسرتوں سے اٹے آسماں کے تلے
جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک میں
مجھ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ
بھولی بسری ہوئی داستاں ایک میں
رونقیں شور میلے جھمیلے ترے
اپنی تنہائی کا رازداں ایک میں
ایک میں اپنی ہی زندگی کا بھرم
اپنی ہی موت پر نوحہ خواں ایک میں
اس طرف سنگ باری ہر اک بام سے
اس طرف آئنوں کی دکاں ایک میں
وہ نہیں ہے تو یہ مت سوچنا
اب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں
5 notes
·
View notes
Text
X ...
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
خمار وصل تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش
غبارِ ہجر صحرا میں سرابوں سے اٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گی
چلو چھوڑو
وہ سارے خواب کچی بھربھری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہاری انگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں مرا لیکن
تمہاری انگلیاں تو عادتاً یہ جرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں صدیوں سے
چلو چھوڑو
مرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اترنے دو
مرے خوابوں کو مرنے دو
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
مرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
مری یادوں سے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
#urdupoetry#unsaid#urdu#explore#poetry#instagram#assenhaiider#pakistan#pakistani#my upload#urdu sad#urdu poetry#urdu adab#shayari urdu#urdu quotes
8 notes
·
View notes
Text
برف سے اٹے میدان میں سردی سے ٹھٹھرتے کئی پہر گذارنے کے بعد میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو صرف چند لمحے گذرے تھے، جیلر بولا "جیل کے دن برس اور رات صدیوں سے طویل ھوتی ہے".
گویا قیدی کے لئے وقت کا پیمانہ بدل جاتا ہے .پھر مجھے ایک عجیب سا ادراک ہوا. .صرف قید پر ہی کیا منحصر. .،یہاں سب کے لئے وقت الگ رفتار سے چلتا ہے..ھجر اور وصال کے دن برابر کب ہوتے ہیں بھلا ؟ ..عاشق کا وقت الگ اور محبوب کا جدا...رقیب کا زمانہ حبیب سا کہاں.؟ دھوپ کے پل چھاوں سے سوا ..صید کے لمحے صیاد سے بڑے ..انتظار کی گھڑیاں ملاقات سے لمبی.. جدائی ملن سے فزوں تر.. کسی کے لئے دو پل بھی صدیوں جیسے، اور کسی کی صدی پل بھر میں کٹ جاتی ھے..گویا ہر انسان کی گھڑی اس کے اندر نسب ہے. جس کا تعلق اس پر بیتنے والی کیفیت سے جڑا ہے. ایک ہی شہر میں چلتے پھرتے ہزاروں لوگ الگ الگ وقت میں جیتے ہیں. یہ باہر لگی گھڑیاں بھلا وقت کب بتاتی ہیں یہ تو صرف گذرنے والے سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے کا حساب رکھتی ہیں..ہمارا وقت وہی ہے جو ہمارے اندر بیت رھا ہوتا ہے .
عبداللہ. ااا
ھاشم ندیم.
9 notes
·
View notes
Text
یقین کیجیے بھارت واقعی بدل گیا ہے
سینتالیس کی تقسیم اور انیس سو ستتر میں ایمرجنسی کے ردِعمل میں اندرا گاندھی کی ہار کے بعد سے بھارت کی تہتر برس کی تاریخ میں دو ہزار انیس تیسرے سب سے بڑے اہم موڑ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اور اب بھارت جو موڑ مڑا ہے وہ کتنا لمبا ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔ دو ہزار انیس میں بھارت سیکولر ازم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر اکثریتی مذہبی طبقے کی قوم پرست جمہوری آمریت کے راستے پر مضبوطی سے چل پڑا ہے۔ یہ بات دو ہزار چودہ میں بھی کہی جا سکتی تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے کم و بیش اتنی ہی بڑی فتح حاصل کی تھی جو دو روز پہلے حاصل ہوئی۔ مگر دو ہزار چودہ میں خود بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی کہ وہ خالص نظریے کی بنیاد پر اتنی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر سکتی ہے لہذا اس نے اپنے اصل نظریے کو گودام میں رکھا اور شو روم پر ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کی پروڈکٹ رکھ دی تاکہ یہ ٹیسٹ کیا جا سکے کہ کتنے ووٹر بی جے پی کے اصل سنگھی نظریے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں۔
گذرے پانچ برسوں میں بی جے پی نے ریاستی اداروں ، سرمایہ داروں اور میڈیا ہاؤسز پر رفتہ رفتہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس کے بعد پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے نظریاتی پتے کھولنے شروع کیے۔ یہ بات شروع سے طے تھی کہ اگر اقتصادی وعدے پورے نہ ہونے پر ووٹ بینک نے سوال اٹھانے شروع کیے تو پھر آخری ڈیڑھ برس میں ووٹر کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر تفریق اور ہندو قوم پرستی کی نشاۃ ثانیہ کا کارڈ نکالا جائے گا۔ یہ کارڈ نہ صرف نکلا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ اس دن کے لیے زمین کی تیاری اب سے نہیں چورانوے برس سے ہو رہی تھی۔ انگریزی کے سب سے معروف ماہرِ لسانیات اور پہلی مربوط ڈکشنری کے خالق ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے سات اپریل سترہ سو پچھتر کو فرمایا تھا ’’ قوم پرستی غنڈوں کی آخری پناہ گاہ ہے ’’۔ یہ مقولہ کس قدر عملی ہے۔ اس کا مظاہرہ بیسویں صدی میں ہم نے انیس سو بائیس میں فاشسٹ مسولینی کی انتخابی کامیابی اور انیس سو تینتیس میں نازی ہٹلر کی جرمن عام انتخابات میں کامیابی کی شکل میں دیکھا۔ جنوبی ایشیا میں اس آئیڈیالوجی کی کھلم کھلا وارث انیس سو پچیس سے جن سنگھ چلی آ رہی ہے۔
لیکن لعن طعن یا نکتہ چینی سے دل کی بھڑاس نکل سکتی ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ مسولینی ، ہٹلر اور جن سنگھ کے پہلے پرمکھ ہیڈگوار سے لے کر آج تک کی جن سنگھی تاریخ دیکھیں تو تینوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دے گی۔ نظریے سے وفاداری اور مایوس ہوئے بغیر انتھک محنت۔ مسولینی نے جب انیس سو بائیس میں اقتدار حاصل کیا تو اٹھائیس اپریل انیس سو پینتالیس میں سرِعام پھانسی ہونے تک چین سے نہیں بیٹھا۔ ہٹلر نے انیس سو بیس کے عشرے میں ہونے والے علاقائی جرمن انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی مگر کبھی دل نہیں ہارا۔ جن سنگھ نے بھارت کی آزادی سے پہلے اور بعد کے دو عشروں تک کوئی عامل سیاسی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف اپنی قوم پرست ساکھ بنانے، پورے ملک میں تنظیم سازی اور نچلی سطح تک شاخیں کھولنے اور قبائلی سماج سے برہمن سماج تک ہر طبقے میں تعلیم و فلاح کے نام پر کام کرنے کے نام پر ایک مضبوط وقف کیڈر تشکیل دینے میں پورا وقت صرف کیا۔
جن سنگھ اس اعتبار سے مسولینی اور ہٹلر سے زیادہ بہتر اور سخت جان رہی کہ اس نے کبھی براہِ راست ٹکر لے کر خود کو برباد کر دینے والی مہم جوئی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہوئے انتہائی صبر کے ساتھ دھیرے دھیرے خود کو ذات پات سے اٹے بھارتی سماج کی جڑوں میں اتارا۔ ہمیں پہلی بھرپور جن سنگھی سیاسی سرگرمی انیس سو پچھتر کے ایمرجنسی دور میں نظر آتی ہے۔ جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پوری حزبِ اختلاف کو جیل میں ڈال دیا۔ مگر جو لوگ اچھے چال چلن کی ضمانت پر رہا ہوئے ان میں جن سنگھی رہنما بھی تھے۔ مگر جب انیس سو ستتر کے انتخابات کے لیے اندرا گاندھی کے خلاف جنتا پارٹی کا اتحاد بنا تو جن سنگھ اس اتحاد میں سب سے فعال تھی۔ اندرا گاندھی کو شکست ہوئی اور جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی مرار جی ڈیسائی کی جنتا حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔ مگر یہ حکومت تیتر بٹیر کے اتحاد کے سبب تین برس میں ہی ڈھ گئی اور انیس سو اسی کے انتخابات میں ووٹر فولادی خاتون اندرا گاندھی کو معاف کر کے دوبارہ لے آئے۔
انتخابات کے بعد جنتا پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی مگر جن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ اب خود کو پہلے کی طرح قومی سیاست سے الگ تھلگ نہیں رکھنا۔ لہذا اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور کے ایم ملکانی جیسے گرم و سرد چشیدہ گرگانِ باران دیدہ کی قیادت میں جن سنگھ کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی۔ انیس سو چوراسی کے انتخابات میں بی جے پی کو پانچ سو بیالیس کے لوک سبھا ایوان میں صرف دو نشستیں ملیں۔ فیصلہ ہوا کہ کوئی ایسا مسئلہ تلاش کیا جائے جو ووٹروں کو بیچا جا سکے۔ چنانچہ بابری مسجد کا شاخسانہ جو انیس سو انچاس سے سرد خانے میں پڑا تھا گودام سے نکال کے زندہ کر دیا گیا۔ چنانچہ انیس سو نواسی کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نشستیں دو سے بڑھ کر پچاسی، انیس سو اکیانوے میں ایک سو بیس ، انیس سو چھیانوے میں ایک سو اکسٹھ ، انیس سو اٹھانوے اور پھر ننانوے کے انتخابات میں ایک سو بیاسی تک پہنچ گئیں۔
دوہزار چار میں چار سالہ واجپائی حکومت کے باوجود بی جے پی کو ایک سو اڑتیس اور دو ہزار نو میں ایک سو سولہ نشستیں ملیں۔ بی جے پی نے مایوس ہونے کے بجائے بابری مسجد کے استعمال شدہ کارتوس کو واپس گودام میں رکھ دیا اور ترقی ، کرپشن کے خلاف جہاد اور گڈ گورننس کو مارکیٹ کرنے کی نئی حکمتِ عملی اختیار کی۔ پرانے چہروں کے بجائے فاتح گجرات نریندر مودی کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جن سنگھ کو پیچھے اور مودی کو بطور پوسٹر بوائے آگے رکھا اور یہ خواب بیچا کہ جیسے گجرات کو ترقی ملی ویسی ہی کرپشن فری اور تیز رفتار حکومت باقی بھارت کو بھی مل سکتی ہے جہاں صرف اور صرف اچھے دن ہوں گے۔
اس پیغام کو نوجوان اور شہری ووٹرز میں مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا گیا۔ زمین پر تربیت یافتہ لاکھوں جن سنگھی رضاکار متحرک ہو گئے۔ کانگریس سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے کوئی متبادل حکمتِ عملی یا وسیع تر اتحاد بنانے پر غور کرنے کے بجائے سارا وقت یہ سمجھنے میں ہی گذار دیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ چنانچہ دو ہزار چودہ کے نتائج مودی لہر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ دو ہزار سترہ میں جب اترپردیش کے صوبائی ان��خابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو اس کہانی کی حقیقت بھی کھل گئی کہ ریاست کی پندرہ فیصد مسلمان اقلیت اور دلتوں کے ووٹ بینک کی حمایت کے بغیر یو پی فتح نہیں ہو سکتا۔ بی جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا مگر دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ پھر یوگی ادتیا ناتھ کو وزیرِ اعلی بنانے کے فیصلے نے واضح کر دیا کہ اب سنگھ پریوار اتنا پر اعتماد ہے کہ وہ کھل کے نظریاتی تجربے کر سکتا ہے۔
اس سوچ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت بھوپال کی سیٹ سے دہشت گردی کے مقدمات کی ملزمہ سادھوی پرگیا ٹھاکر کی جیت ہے۔ سادھوی نے کسی للو پنجو کو نہیں بلکہ کانگریس کے انتہائی تجربے کار رہنما دگ وجے سنگھ کو شکست دی۔جب بی جے پی نے سادھوی کو ٹکٹ دیا تو مودی نے کہا کہ سادھوی کی جیت ان سب کے منہ پر طمانچہ ہو گی جو ہندوؤں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ اور پھر یہ طمانچہ بہت زور سے مارا گیا۔ پرسوں کے نتائج کے مطابق یوپی سے کانگریس صرف ایک سیٹ نکال سکی۔ وہ بھی سونیا گاندھی کی۔ راہول گاندھی یوپی میں اپنی آبائی سیٹ امیٹھی ہار گئے۔ انھیں اگر جتایا بھی تو ہزاروں کلو میٹر پرے کیرالہ کے اس حلقے نے جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے۔
مسلمانوں کی تنہائی اس قدر مکمل ہو چکی ہے کہ اور جماعتوں کو تو چھوڑئیے خود بی جے پی نے جن چھ مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے وہ سب کے سب ہار گئے۔ نئی لوک سبھا میں مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر صرف بائیس مسلمان پہنچے ہیں۔ جب کہ انیس سو اسی کی لوک سبھا میں اناسی مسلمان تھے۔ رہی بات کیمونسٹوں کی توان کا اس انتخاب میں سوائے کیرالہ کی ایک سیٹ کے پورے بھارت میں صفایا ہو گیا۔ مغربی بنگال جہاں کیمونسٹ پارٹی نے چونتیس برس حکومت کی۔ آج اس کا ایک بھی رکن بنگال سے نہیں جیت پایا۔ واقعی بھارت بدل گیا ہے۔ مودی کا کہنا درست ہے کہ اکیسویں صدی کے بھارت کو بیسویں صدی کی عینک لگا کے دیکھنے والے ’’ انٹل کچول ’’ کچھ سبق سیکھیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
اب ناسا کے مریخی خلائی جہاز کی تیاری 24 گھنٹے براہِ راست دیکھیے
خلائی جہاز اور زمین سے باہر مشن پر کام کرنے والی تاریخی تجربہ گاہ ’جیٹ پروپلشن لیبارٹری‘ کے انجینیئر اورسائنسداں اس وقت ایک اہم مریخی خلائی جہاز پر کام کر رہے ہیں اور اب 24 گھنٹے لائیو کیمرے کے ذریعے آپ اس منصوبے کے مختلف پہلو براہِ راست دیکھ سکیں گے۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں مارس 2020 کی اسمبلنگ کی جارہی ہے۔ اس روبوٹک مشن میں ایک ہیلی کاپٹر بھی نصب ہو گا جس میں نصب ہائی ریزولوشن کیمرے کے بدولت آپ سیارہ مریخ پر اس کی لینڈنگ بھی دیکھ سکیں گے۔ اگلے سال اٹلس پنجم راکٹ کے ذریعے اسے مریخ کی جانب بھیجا جائے گا۔
مارس 2020 کا زمین سے مریخ تک کا سفر خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ پہلے ارضی کشش کی زنجیر توڑ کر یہ خلا میں جائے گا اور کروڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے سیاروں کے درمیان اجنبی خلائی ماحول میں سفر کر کے سرخ سیارے تک پہنچے گا۔ لیکن آگے اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ 1000 سے زائد کلوگرام وزنی خلائی جہاز مریخی فضا میں داخل ہو گا اور دھیرے دھیرے ایک آسمانی کرین کی مدد سے گردوغبار سے اٹے مریخی فرش پر اترے گا۔ ناسا کے ماہرین نے ہر امکانی خطرے کے پیشِ نظر الگ الگ حکمتِ عملیاں وضع کی ہیں۔ جدید ترین آلات سے مزین مارس 2020 مریخ کی اوپری سطح کے نیچے کا جائزہ لے گا اور دیکھے گا کہ آیا وہاں خردبینی حیا�� کا امکان ہے یا نہیں یا ماضی میں کبھی ایسا ہوتا رہا ہے؟
جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں ہائی بے ون کلیننگ روم میں یہ لائیو کیمرہ نصب ہے۔ جس میں آپ 24 گھنٹے خلائی جہاز کی پیشرفت دیکھ سکتے ہیں۔ اس کیمرے کو ’سی اِنگ 2020‘ کا نام دیا گیا ہے جہاں آپ پیر اور جمعرات کو 5 گھنٹے تک ماہرین سے ٹیکسٹ کی صورت میں سوالات لکھ کر ان کے جوابات حاصل کر سکیں گے اور ناسا کی میڈیا ٹیم اس کے جوابات دے گی۔ مشن میں شامل ہیلی کاپٹر کا مقصد سائنسی تحقیق نہیں بلکہ مریخ کی انتہائی کم فضا میں کسی ہیلی کاپٹر کی پرواز کا تجربہ کرنا ہے۔ مارس 2020 کی تیاری براہِ راست تیاری کو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجئے اور آپ کا لنک یوٹیوب لائیو ویڈیو میں کھل جائے گا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Photo
امام مہدی انسانیت کو رب سے جوڑنے کے لیے آئیں گے. ”آؤاپنے دلوں کو محبت سے بھر لو اور اس نفرت سے جان چھڑا لو.. ”سیدنا گوہر شاہی منجانب اللہ مہدی ہیں جن کا صدیوں سے انتظار ہے آپ دین اسلام کے فروغ کی بات نہیں کرتے آپ کی تو تعلیم ہی محبت ہے۔آپ کا فرمان ہے تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں اللہ کی محبت ہے“ امام مہدی لوگوں کا دین ٹھیک کرنے نہیں آئیں گے اُس کے لئےتو انبیاء آئے اور چلے گئے امام مہدی انسانیت کو رب سے جوڑنے کے لیے آئیں گے جس کا تعلق رب سے جڑ گیا رب کی نظر میں وہ ہی سب سے بہتر ہے بھلے وہ دین دار ہو یا بے دین۔ ”امام مہدی کسی انسان کےدشمن نہیں ہیں کیونکہ امام مہدی انسانیت کے مسیحا ہیں بھلے اس کا دین کوئی ہو۔امام مہدی مذہبی شخصیت نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی عالمگیر ہستی ہیں جن کا پوری انسانیت سے تعلق ہے“ ”آؤاپنے دلوں کو محبت سے بھر لو اور اس نفرت سے جان چھڑا لو،بھول جاؤ کون کیا ہے،تم سب ایک رب کی مخلوق ہو تمہاری جلد کے رنگ جدا جدا ہو سکتے ہیں لیکن تم سب کے خون کا رنگ ایک ہے،اگر تمہارے دل پاک ہوجائیں گے توتمہارا رب تم سب کوایک نظر سے دیکھے گا۔اِس وقت تمام انسانوں کے دل غلاظت اور سیاہی سے اٹے ہوئے ہیں اوردلوں کی یہ سیاہی نہ صرف اِس دھرتی پر بلکہ انسانیت پربوجھ ہے“*تصوف باطنی علم کا نام ہے۔* #ALRATV #Sufism #YounusAlGohar #TheAwaitedOne #ImamMehdi #GoharShahi #wisdom #relatable #love #life #peace #light #Islamicpost #trending #explore #India (at Chhattisgarh , India) https://www.instagram.com/p/CbjvSWbvnAX/?utm_medium=tumblr
#alratv#sufism#younusalgohar#theawaitedone#imammehdi#goharshahi#wisdom#relatable#love#life#peace#light#islamicpost#trending#explore#india
0 notes
Text
آٹے کے بعد گھی آئل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ
(سعید احمد)آٹے کے بعد گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے لگا،اوپن مارکیٹ میں گھی ،آئل کی قیمتوں میں 50روپے فی کلو اضافہ ہو گیا۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد درجہ سوم کا گھی 390 روپے سے بڑھ کر 440 روپے فی کلو ،درجہ دوم کا گھی 450 روپے سے بڑھ کر 470 روپے فی کلو جبکہ درجہ اول کا گھی 480 روپے سے بڑھ کر 490 روپے فی کلو ہو گیا۔ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپل��ئی کا مسئلہ بھی ہے ، گھی آئل کمپنی…
0 notes
Text
کیا لاہور بھی کراچی بننے جا رہا ہے؟
حال ہی میں امریکہ کے مشہور اخبار نیویارک ٹائمز کی جانب سے دنیا کے ان علاقوں کی ایک فہرست جاری کی گئی ہے جو اس سال سیاحت کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کے 52 مقامات کی اس فہرست میں پاکستان کے شہر لاہور کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے ان مقامات کا انتخاب لوگوں سے آن لائن ان کی آراء جاننے کے بعد کیا۔ لاہور کو لوگوں نے اس کے تاریخی کلچر، روایتی کھانوں اور یہاں کے باسیوں کی خوش اخلاق اور مہمان نواز فطرت کی وجہ سے اس فہرست میں شامل کرنے کےلیے ووٹ دیے۔ لاہور کا ایک بڑے اور بین الاقوامی جریدے کی طرف سے اس فہرست میں شامل کیا جانا بلا شبہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے اور اس سے لاہور کی سیاحت کو فروغ بھی ملے گا۔ مگر اس وقت لاہور پر اگر آپ نگاہ دوڑائیں تو آپ کو اکثر مقامات پر کوڑے کے ڈھیر دیکھنے کو ملیں گے جو کہ بہت ہی افسوس ناک صورتحال ہے۔
گذشتہ کئی سالوں میں لاہور میں ایسے مناظر کبھی دیکھنے کو نہیں ملے، جس کی بڑی وجہ 2010 میں قائم کی جانے والی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عمدہ طریقے سے کام کرنا تھا۔ تو یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کمپنی کے ہوتے ہوئے اب یہ صورتحال کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ اس سوال کا جواب موجودہ صوبائی حکومت کی انتظامی نااہلی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ جس وجہ سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، اس صوبائی حکومت نے وہ وجہ ختم کر دی۔ وہ وجہ اس کمپنی کا ترک کمپنی میسرز ازٹیک سے اشتراک کا وہ معاہدہ تھا جو مارچ 2010 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کروایا تھا۔ جس کے تحت بعد میں دو مزید کمپنیوں ’البراک‘ اور ’اوزپاک‘ کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا گیا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے قیام کے بعد جب یہ معاہدہ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت اتفاقاً میں بھی اس کمپنی کے کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میاں شہباز شریف اپنے ساتھ ایک پورا وفد لے کر ترکی ’البراک‘ سے معاہدہ کرنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ان کے اس فیصلے پر مجھ سمیت کمپنی کے دیگر لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس وقت میاں صاحب کا یہ منصوبہ بھی شاید ان کے دیگر منصوبوں کی طرح ایک پبلسٹی سٹنٹ سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر بعد میں وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ سارے تحفظات اس وقت دور ہو گئے جب اسی معاہدے کے بعد لاہور میں ہم نے نہ صرف جدید مشینری اور ٹرینڈ سٹاف کے ساتھ صفائی کے بہترین نظام کو دیکھا بلکہ اکٹھے کیے گئے کوڑے کو شہر سے باہر لکھو ڈیر کے مقام پر جدید سائنسی اصولوں کے مطابق منتقل کر کے اس سے بجلی بنتی بھی دیکھی۔ یہی نہیں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے فری ہیلپ لائن کا آغاز کیا گیا۔ صفائی سے متعلق آگہی مہم بھی شروع کی گئی۔ جس میں تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی مقامات پر جا کر لوگوں میں صفائی سے متعلق آگاہی اور شعور اجاگر کرنا شامل تھا۔
یہ سارا سلسلہ گذشتہ سالوں میں ہمیں نظر آتا رہا، جس کی وجہ سے تقریباً سوا کروڑ کی آبادی کے اتنے بڑے شہر میں صفائی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ مگر سال 2020 کے اوائل میں ہی اس حوالے سے مسائل سامنے آنا شروع ہو گئے تھے، کیونکہ ل��ہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور ترکی کی کمپنیوں کے مابین کیے گئے معاہدے کی مدت مارچ 2020 میں ختم ہو رہی تھی، جسے پی ٹی آئی کی اس صوبائی حکومت نے مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر متبادل لائحہ عمل اختیار کرنے تک عارضی طور پر ان سے ہی کام جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور ان کو تین بار تین تین ماہ بعد مزید کام کرنے کا کہا گیا۔ مگر اس دوران صوبائی حکومت نہ تو کسی اور کمپنی یا فرم کو اس مقصد کے لیے ساتھ ملانے کےلیے کامیاب ہو سکی اور نہ ہی موجودہ سٹرکچر کو بہتر بنانے کے کوئی اقدامات کر سکی۔
بلکہ الٹا ’البراک‘ اور ’اوزپاک‘ کے لوگوں سے زبردستی ان کے دفاتر خالی کروا کر ایک مقامی کمپنی، جو انتظامی طور پر اس کام کے لیے نااہل تھی، اسے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا کہا گیا، جو خدشات کے مطابق بری طرح لاہور جیسے بڑے شہر کو صاف رکھنے میں ناکام ہو گئی۔ اب اس کی وجہ سے اب جگہ جگہ پر کوڑے کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں۔ اب بظاہر صوبائی حکومت نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب لاہور کی لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت جلد لاہور کو مکمل طور پر ان کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے پاک کر دے گی، مگر اب بھی شہر کے بہت سے علاقے ویسے ہی کوڑے سے اٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں پر میڈیا کے لوگ اپنے کیمرے لے کر پہنچتے ہیں، وہ علاقہ آ کر صاف کر جاتے ہیں مگر باقی علاقوں کی حالت ویسی ہی رہنے دی جاتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ حکومت پہلے سے موجود البراک اور اوزپاک سے ہی ایک نیا معاہدہ کر لیتی تاکہ اس سب کی نوبت نہ آتی۔ چلیں اگر ان کے ساتھ مزید کام نہیں کرنا تھا تو پھر کسی اور ایسی بین الاقوامی کمپنی یا فرم کی ہی خدمات حاصل کر لی جاتیں جو اس ضمن میں موثر طریقے سے کام کرتی۔ کیونکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اتنے بڑے شہروں کی مقامی انتظامیہ کے پاس ایسے وسائل ہی موجود نہیں ہیں کہ وہ صفائی کے انتظامات کو سنبھال سکیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے سامنے کراچی کی صورت میں موجود ہے، جہاں پر ہر وقت کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے رہتے ہیں اور وہاں پر بھی صفائی کے ناقص انتظامات کا رونا ہر وقت رویا جاتا ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں لاہور کی حالت بھی اس ضمن میں کراچی جیسی نہ ہو جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ صوبائی حکومت ہوش کے ناخن لے اور لاہور کی صفائی کے حوالے سے کوئی جامع اور ٹھوس اقدامات کرے، ورنہ یہ نہ ہو کہ نیویارک ٹائمز کا لاہور کو بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کیا جانا فضول ہی جائے۔
احسن بودلہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Photo
عوام کے لئے خوشخبری ، مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں کمی کیلئے بڑا قدم اٹھا لیا گیا لاہور(این این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکی زیر صدارت وزیراعلیٰ آفس میں صوبائی کابینہ کا32واں اجلاس منعقد ہوا ۔ پنجاب کابینہ نے مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں کمی کے لئے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے فلور ملوں کو گندم کے اجراء کے حوالے سے عبوری پالیسی 2020-21ء کی منظوری دی۔سرکاری گندم کے اجراء سے مارکیٹ میں 20کلوکاآٹا تھیلا1050روپے سے کم ہوکر850روپے پر دستیاب ہوگا۔
0 notes
Text
خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھامیں
کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں
بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کے خواب سارے
میری حدوں سے ِنکل ُچکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ رُکے ہیں
مسافتوں سے تھکےہوئے ہیں
غبارِ راہ سے اٹے ہوئے ہیں
تمہاری گلیوں میں ُچپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے ڈرے ہوئے ہیں
سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں...!!!
4 notes
·
View notes
Text
لاہور میں آٹےکی قیمت بے قابو، نویں بار مہنگا
لاہور میں آٹےکی قیمت بے قابو، نویں بار مہنگا
لاہور میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، نویں بار اٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔بیس کلو آٹے کا تھیلا 10روپے مزید مہنگا ہوگیا، 20کلو اٹے کے تھیلے کی قیمت 12سو 40روپے تک پہنچ گئی، تھیلے کی سرکاری قیمت 860روپے ہے۔ 20کلو اٹے کے تھیلے کی قیمت میں 3سو 60 روپے اضافہ جبکہ فی کلو 23روپے اضافہ ہوا۔ سرکاری قیمت فی کلو اٹا 43روپے ہے، مصنوعئی اضافے سے اٹا فی کلو 66روپے ہو گیا 23روپے…
View On WordPress
0 notes