#جرمنی
Explore tagged Tumblr posts
Text
امریکی گلوکارہ کی آمد کا جرمنی کےشہر کانام تبدیل
امریکی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی آمد پر جرمنی نے اپنے شہرکا نام عارضی طورپرتبدیل کرکے گلوکارہ کے نام پررکھ دیا۔ رپورٹس کے مطابق جرمن شہر گیلسن کرچن کانام عارضی طورپرٹیلر سوئفٹ ہوگا ۔ واضح رہے کہ امریکی گلوکارہ 17سے لے کر19جولائی تک پرفارم کرنے والی ہیں جس میں ہزاروں مداح شرکت کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق گلوکارہ کے اعزاز میں شہر کا نام عارضی طور پر تبدیل کرنے کیلئے ٹیلر سوئفٹ کے ایک فین نے مہم چلائی اور…
0 notes
Text
غزہ جنگ پر ’ تعمیری‘ موقف کا صلہ، جرمنی نے سعودی عرب کو لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی منظوری دے دی
جرمنی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد مزید پابندیاں ہٹانے کے بعد یورو فائٹر ٹائفون لڑاکا طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کی اجازت دے گا۔ ریاض تقریباً 5.6 بلین ڈالر کی لاگت سے 2007 میں ابتدائی طور پر 72 کی خریداری کے بعد جرمنی سے 48 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کے طیارے پہلے ہی سعودی عرب کو پہنچائے جا چکے تھے۔ 2018 میں، جرمنی نے یمن کے خلاف جنگ میں شامل ممالک کو اسلحے…
View On WordPress
0 notes
Text
یہوواہ کے گواہ ہال میں فائرنگ کے بعد جرمنی میں غم اور صدمہ | خبریں
برلن – دکھ، یکجہتی اور صدمہ ان جذبات میں سے ہیں جن کا اظہار جرمنی میں کیا جا رہا ہے کیونکہ اس ملک میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ جس میں سات افراد کی موت ہو گئی۔ یہوواہ کے گواہ ہیمبرگ میں عبادت گاہ۔ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً 9 بجے عبادت گاہ میں ایک بندوق بردار کی جانب سے نیم خودکار پستول سے فائرنگ کرنے کے بعد کئی دیگر افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ حکام نے مجرم کی شناخت فلپ ایف کے طور پر کی ہے، جو…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمر��ل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی ب��کہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی ��الب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے وال�� دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس م��رق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری ��بادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Photo
کحچھ پرانے اپنوں سے ملاقات بہت سالوں بعد۔ جرمنی سے ہالینڈ کے گاوں کا سفر اکٹھے کیا۔ Meeting a dearest friend after many years. We met after 12 years in Europe and travelled together. Cycle of life. It’s been ages we planned and finally did it. When you do friendship in childhood. It’s stay forever and do without benefits. Value your friends and enjoy this relationship of life. #friendship #friendshipgoals #travelfriends #travelfriendship #viaggio #europetravel #eu #holland #netherlands #netherlands🇳🇱 #windmillvillage #WindmillVillage #windmillvillagebakery (at Zaanse Schans - Amsterdam, Holland) https://www.instagram.com/p/CqROOiwhdpA/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#friendship#friendshipgoals#travelfriends#travelfriendship#viaggio#europetravel#eu#holland#netherlands#netherlands🇳🇱#windmillvillage#windmillvillagebakery
6 notes
·
View notes
Text
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایف بی ایم کا جرمنی میں مظاہرہ
https://humgaam.net/?p=99861
جرمنی (ہمگام نیوز) انسانی حقوق کا دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے، جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا تھا۔ اس دن کے موقع پر فری بلوچستان موومنٹ (FBM) جرمنی برانچ نے بلوچستان میں جاری بحران کو اجاگر اور غیر قانونی قبضے سے آزادی کے مطالبے کا اعادہ کرنے کے لیے جرمنی کے شہر ہنوفر کے مرکزی اسٹیشن کے سامنے ایک احجاجی مظاہرہ کیا ۔ احتجاج کے دوران جرمن زبان میں سینکڑوں پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے تاکہ جرمن عوام میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جا سکے۔
مظاہرین سے اشفاق بلوچ، خدا داد بلوچ، بیبگر بلوچ اور ممتاز بلوچ نے خطاب کیا جبکہ ماڈریٹر کی ذمہ داری نوید بلوچ نے سرانجام دی۔
مقررین نے کہا کہ بلوچ عوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچ کئی دہائیوں سے غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ بلوچ جدوجہد اور بلوچ مغوی افراد کے خاندانوں کا مسلسل احتجاج منظم جبر و تشدد کے خلاف بہادری اور مزاحمت کی علامت ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بیبگر بلوچ نے کہا کہ فری بلوچستان موومنٹ نے آزادی کے حوالے سے اپنا موقف اپنایا ہے، چاہے وہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان ہو یا ایرانی مقبوضہ بلوچستان۔ اور آزادی سے پہلے اور بعد کا روڈ میپ پیش کیا ہے، چاہے وہ بلوچستان لبریشن چارٹر کی شکل میں ہو یا ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ۔
اس کے علاوہ مقررین نے کہا کہ عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے اور پاکستان اور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کی دستاویز اور تشہیر کریں۔ جامع اور تفصیلی رپورٹیں بین الاقوامی وکالت اور کارروائی کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
0 notes
Text

کرسمس کا جادو: خوشی اور محبت کا تہوار
جیسے ہی کرسمس کا موسم قریب آتا ہے، دنیا بھر میں ہر طرف خوشی اور جوش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ گھروں میں رنگین لائٹس کی چمک، خوشبوؤں کا سنگیت، اور دلوں میں محبت اور امن کی دعاؤں کا پی��ام پھیلتا ہے۔ کرسمس ایک ایسا تہوار ہے جو نہ صرف عیسائیوں کے لیے بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں رہنے والوں کے لیے خوشی، محبت اور دینے کے جذبے کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اس بلاگ میں ہم کرسمس کے حوالے سے اس کے تاریخی پس منظر، روایات، اور اس کے اندر چھپے ہوئے جادوئی پیغام پر بات کریں گے۔
کرسمس کی تاریخ ۔
کرسمس کا تہوار 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے۔ عیسائی دنیا میں یہ دن مذہبی اہمیت کا حامل ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرسمس نے دنیا بھر میں ثقافتی اور سماجی حیثیت بھی اختیار کر لی ہے۔ آج کرسمس کی خوشی نہ صرف عیسائی کمیونٹیز بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں منائی جاتی ہے، جہاں اس دن کو محبت، ہم آہنگی اور خیرات کے جذبے کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کرسمس کی روایات ۔
کرسمس کی خوشی کا ایک اہم حصہ اس کے مختلف روایات ہیں، جو لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہیں اور ان کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑاتی ہیں۔ کرسمس کے دوران لوگ اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، کرسمس ٹری لگاتے ہیں اور اس پر رنگین لائٹس اور خوبصورت آرائشی سامان آویزاں کرتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت روایت ہے جسے خاندان اور دوست مل کر انجام دیتے ہیں۔
کرسمس کی رات ایک خاص لمحہ ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں۔ تحفے دینا محبت اور شکرگزاری کا اظہار ہوتا ہے، اور یہ کرسمس کا سب سے خوشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ایک سادہ سا تحفہ ہو یا کسی عزیز کی پسندیدہ چیز، ہر تحفہ ��ل سے دیا جاتا ہے۔
ایک اور دلچسپ روایت کرسمس کی سویوں یا جرابوں کا لٹکانا ہے۔ بچے اپنی سویوں کو چمنی کے قریب لٹکا دیتے ہیں اور صبح کو ان میں سانتا کلاز سے چھوٹے تحفے اور مٹھائیاں ملتی ہیں۔ یہ روایت بچوں کے لیے خاص طور پر دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ وہ کرسمس کی صبح کو انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منتظر رہتے ہیں۔
کرسمس کا روحانی پیغام: دینے کا جذبہ
کرسمس کی سب سے اہم بات اس کا روحانی پیغام ہے جو محبت، ہمدردی اور انسانیت کے لئے دینے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ کرسمس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنے خاندان اور دوستوں کے لیے بلکہ ضرورت مندوں کے لیے بھی دل کھول کر دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چاہے وہ کسی خیرات کو عطیہ ہو، کسی بے کس کی مدد ہو، یا صرف ایک نرم لفظ کہنا ہو، کرسمس کا اصل پیغام دوسروں کے ساتھ محبت اور تعاون ہے۔
اس تہوار کے دوران بہت سے لوگ فلاحی اداروں کو چندہ دیتے ہیں، بے گھروں کے لیے کھانا فراہم کرتے ہیں یا بیماروں کی عیادت کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے کرسمس کا اصل پیغام دنیا بھر میں پھیلتا ہے کہ دنیا میں امن، محبت اور خیرات کا پیغام پھیلانا ضروری ہے۔
کرسمس کا موسیقی اور محافل ۔
کرسمس کا تہوار موسیقی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ کرسمس کے گانے اور کیرولز ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتے ہیں، جہاں ہر دھن میں محبت اور خوشی کی جھرمٹ محسوس ہوتی ہے۔ "جنگل بیلز" سے لے کر "سائلنٹ نائٹ" تک، کرسمس کی موسیقی دلوں میں ایک خاص سکون اور خوشی پیدا کرتی ہے۔
کرسمس کے دوران، بہت سی جگہوں پر کنسرٹس اور مذہبی محافل کا انعقاد ہوتا ہے جہاں لوگ مل کر کرسمس کے گانے گاتے ہیں اور اس کی روحانیت میں شریک ہوتے ہیں۔ کرسمس کی عبادات میں خاص طور پر "ہالیلویہ" اور "سائلنٹ نائٹ" جیسے گانے شامل ہوتے ہیں جو دلوں میں سکون اور محبت کا پیغام دیتے ہیں۔
کرسمس دنیا بھر میں ۔
اگرچہ کرسمس کی روایات مختلف ممالک اور ثقافتوں میں مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن اس کا پیغام ہر جگہ ایک جیسا ہی ہے: محبت، ہمدردی اور خوشی۔ دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ اس دن کو اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔ جرمنی میں کرسمس مارکیٹس مشہور ہیں، جہاں لوگ تحفے خریدتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ اسپین اور میکسیکو میں کرسمس کی رات پارٹیاں اور ریلیز منعقد ہوتی ہیں، جبکہ سویڈن میں "جولبورد" نامی کرسمس کا خاص کھانا پیش کیا جاتا ہے۔
فلپائن میں کرسمس کی عبادت "سمبانگ گابی" کہلاتی ہے، جو رات کے وقت ہونے والی عبادت ہے اور وہاں کے لوگ اسے بڑی عقیدت سے مناتے ہیں۔ اس طرح ہر ملک میں کرسمس کی محافل کا الگ انداز ہے لیکن اس کا جوہر ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: محبت، خوشی اور انسانیت کی خدمت۔
نتیجہ
کرسمس کا حقیقی پیغام
کرسمس صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ ایک ایسا وقت ہے جب ہم اپنے دلوں میں محبت اور شکرگزاری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ کرسمس کے دوران ہمیں اپنی زندگیوں میں چھوٹے چھوٹے خوشیوں کے لمحات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ یہ دن نہ صرف تحفے دینے کا دن ہے بلکہ محبت، امن اور خیرات کا دن بھی ہے۔
یقیناً، کرسمس کا جادو اس کے تحفوں میں نہیں بلکہ اس میں چھپے ہوئے پیغام میں ہے: اپنے آپ کو دوسروں کے لیے قربان کرنا، محبت بانٹنا اور دنیا میں خوشی پھیلانا۔
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 5 دسمبر 2024
0 notes
Text
جتنا ممکن ہو، اسمارٹ فون نظروں سے اوجھل رکھیں
دوستوں سے رابطے میں رہنا، ویڈیوز یا خبریں دیکھنا، اپوائنٹمنٹ کا خیال رکھنا اور بار بار وقت دیکھتے رہنا۔ آج کے دور میں اسمارٹ فون ہماری روزمرہ کی زندگی کو تشکیل دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے اسمارٹ فون کا استعمال بہت زیادہ ہو جاتا ہے، جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جرمنی کی ماہر نفسیات نکولا جانسن کہتی ہیں کہ سمارٹ کو اپنی جیب میں، دراز میں یا پھر کاغذ یا پیڈ کے نیچے رکھیں۔ اس ماہر نفسیات کے مطابق اسمارٹ فون کو نظروں سے دور رکھنا بہتر ہے۔ نکولا جانسن کا جرمنی کی بریمر اپولون یونیورسٹی آف ہیلتھ اکنامکس میں لیکچر دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر آپ ارتکاز یا توجہ کے ساتھ کام کرنا یا سیکھنا چاہتے ہیں تو موبائل کو خود سے رکھیں۔ ان کے مطابق کئی مطالعات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسانی دماغ اس وقت بھی اسٹریس ہارمونز خارج کرتا ہے، جب موبائل فون پر نوٹیفیکیشنز آتے ہیں اور آپ فقط کنکھیوں سے انہیں دیکھتے ہیں۔
سوتے وقت موبائل فون کمرے سے باہر رکھیے ان کا کہنا تھا کہ نیند میں خرابی پر تحقیق کرنے والے سائنسدان سیل فون کو ''بیڈ روم سے باہر‘‘ رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ نکولا جانسن کا کہنا تھا کہ سن 2010 سے سن 2017 کے درمیان نیند کی خرابی کے مسائل میں 300 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور تحقیق بتاتی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے پھیلاؤ نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر نیند پوری نہیں ہوئی اور کوئی بھی شخص، جب دن کا آغاز کم توانائی کے ساتھ کرتا ہے، تب بھی اسٹریس کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جبکہ ذہنی امراض میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے کی ایک اہم وجہ تناؤ ہے۔ اسمارٹ فون ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں لیکن ان کے صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں تاہم نکولا جانسن کا مزید کہنا تھا کہ ان کا مقصد ڈیجیٹل میڈیا کو برا بھلا کہنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی تحقیق کا مقصد اسٹریس کو کم یا اسے بہتر طریقے سے مینیج کرنے کے طریقے دریافت کرنا ہے۔
موبائل اور ٹیبلٹ کی نیلی روشنی، نیند کی دشمن اس ماہر نفسیات کے مطابق مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر نوجوان بیڈ سائیڈ ٹیبل پر سمارٹ فون کی وجہ سے پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال خود اعتمادی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ نوجوان سوشل میڈیا پر اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں اور اس موازنے سے بچنا اتنا آسان نہیں، جتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔ جانسن نے مشورہ دیا کہ اپنے کمروں میں اسمارٹ فون کے بجائے الارم والی گھڑی رکھیں اور بار بار وقت دیکھنے کے لیے بھی بازو والی گھڑی کا استعمال کریں۔ اسٹریس میں کمی کے لیے موبائل فون کے مقررہ اوقات بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر رات آٹھ بجے کے بعد سیل فون کا استعمال نہ کرنا۔ اسی طرح پُش نوٹیفیکیشن کو آف کرنا اور بلیک اینڈ وائٹ موڈ آن کرنا اسمارٹ فون کے استعمال کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ نکولا جانسن کے مطابق یہ تمام اقدامات کرنے سے اسٹریس لیول فوری طور پر کم ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنا سمارٹ فون اپنی خواہش سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں، تو آپ کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کوئی کتاب پڑھنا شروع کر دیں، کوئی ورزش کریں یا پھر چہل قدمی کے لیے نکل جائیں۔
ا ا / ش ر (کے این اے، ڈی پی اے)
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
Text
ڈاکٹر گوہر اعجاز کاجناح ہسپتال میں ساؤتھ آپریشن ٹھیٹرز کا افتتاح
(ابوبکر شیخ) گروپ لیڈر اپٹما و چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ جناح ہسپتال ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ساؤتھ آپریشن ٹھیٹرز کا افتتاح کر دیا ہے، ڈاکٹر گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ساؤتھ آپریشن ٹھیٹرز پر 40 کروڑ لاگت آئی ہے، یہ عوام کے لئے بطور تحفہ ہیں۔چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ جناح ہسپتال ڈاکٹر گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ساؤتھ آپریشن تھیٹر میں موجود تمام مشینری اورآلات جرمنی سے منگوائے گئے ہیں، تھیٹر میں ایئر ہینڈلنگ…
0 notes
Video
youtube
Travel to Germany Tips and Guide | Germany Facts in Urdu Hindi | جرمنی ک...
0 notes
Text
پائپ سےخودنہانے والی ہتھنی وائرل
ایشیائی ہتھنی کو جرمنی کےچڑیا گھرمیں پائپ سےنہاتےہوئےدیکھےجانےکےبعد اسے “نہانے کی ملکہ” کانام دےدیا گیا ہے۔ میری نامی ہتھنی کوبرلن کےچڑیا گھر میں اپنی سونڈ کا استعمال کرتےہوئےاپنے جسم کوپائپ سےدھوتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ ہاتھی نےیقینی بنانےکیلئے کہ کوئی جسم کاحصہ رہ نہ جائے، اپنی ٹانگوں کواٹھا کر پیٹ پر بھی پانی ڈالا۔ محققین نےاسے”نفیس طرزعمل” کےطورپرقرار دیا۔ تاہم ایک اورقریبی ہتھنی انچلی…
0 notes
Text
جرمنی میں جان لیوا سردی، عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل
مغربی جرمنی میں حکام نے منگل کو رہائشیوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی، جان لیوا خطرے کی وارننگ دی، موسم سرما کی برفباری کے بعد سڑکیں خطرناک بن گئیں، جس سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ موسم سرما کا اچانک آغاز جرمنی کے کئی حصوں میں برف باری کے باعث پھسلن والی سڑکوں اور گرنے والی شاخوں کی وجہ سے متعدد حادثات کا باعث بنا اور لوگ اپنی گاڑیوں میں پھنس گئے۔ Baden-Wuerttemberg کے Schwaebisch Hall ڈسٹرکٹ میں،…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارتی ایجنسی ’را‘ نے پاکستان میں 11 سکھ اور کشمیری قتل کیے: امریکی اخبارکا انکشاف
نیویارک(ڈیلی پاکستان آن لائن )کینیڈا اور امریکی تحقیقاتی اداروں نے بھارتی چہرہ بے نقاب کیا۔پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا اور بھارت کے دیگر پڑوسی ممالک کو کینیڈا اور امریکا کی تحقیقاتی ایجنسیوں کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے بھارت کے اصل چہرہ کو بے نقاب کردیا۔امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ بھارتی ایجنسی نے پاکستان میں 11سکھ اور کشمیری قتل کئے، کینیڈا سے قبل امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ اور جرمنی بھی…
0 notes
Text
بائیکاٹ اسرائیل تحریک کتنی موثر ہے؟
جولائی دو ہزار پانچ میں فلسطینی نژاد قطری ایکٹوسٹ عمر برغوتی نے مصر میں مقیم فلسطینی ایکٹوسٹ رامی شاعت سے مل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی پر اسرائیل کو مجبور کرنے کے لیے اسرائیل میں سرمایہ کاری کے بائیکاٹ اور بین الاقوامی پابندیاں لگوانے کے لیے بی ڈی ایس ( بائیکاٹ ، ڈائیویسٹمنٹ ، سینگشنز ) تحریک کی بنیاد رکھی۔ دو ہزار سترہ میں عمر کو پرامن جدوجہد میں سرگرم حصہ لینے پر گاندھی امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بی ڈی ایس سے قبل عمر نے اسرائیل کے تعلیمی و ثقافتی بائیکاٹ کی تحریک بھی شروع کی۔ عمر برغوتی کے ساتھی رامی شاعت کو دو ہزار انیس میں مصری حکومت نے دہشت گرد سرگرمیوں کے الزام میں دو برس سے زائد عرصے تک جیل میں رکھا۔ رہائی کے عوض رامی کی مصری شہریت منسوخ کر کے جبراً اردن بھیج دیا گیا اور اب وہ فرانس میں مقیم ہیں۔ بی ڈی ایس جنوبی ا��ریقہ کی شہری حقوق کی تنظیموں کی جدوجہد سے متاثر بتائی جاتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقی نسل پرست گوری حکومت کا عالمی بائیکاٹ ہوا اور یوں مسلسل عالمی دباؤ نے جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ نظام کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
بی ڈی ایس کی بائیکاٹ حکمتِ عملی اس کی فلسطین نیشنل کونسل طے کرتی ہے مگر یہ کوئی مرکز پسند تنظیم نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور نسل پرستی کے خلاف نبردآزما افراد یا تنظیمیں اپنے اپنے طور پر بھی بی ڈی ایس کے منشور پر عمل کر سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بی ڈی ایس سے متعدد ممالک کی سیکڑوں ورکرز یونینیں ، اکیڈمک تنظیمیں ، چرچ فاؤنڈیشنز اور سرکردہ روشن خیال افراد جڑتے چلے گئے اور اب اس کا دائرہ سو سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔ اسرائیل میں بی ڈی ایس کا حامی ہونا قانوناً جرم ہے۔ امریکا کی تیس ریاستوں اور جرمنی میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کی دنیا میں ان پابندیوں کا کوئی مطلب نہیں رہا۔ اس عرصے میں بی ڈی ایس نے کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ مثلاً دو ہزار نو میں اسرائیلی کاسمیٹکس کمپنی آہاوا اور چاکلیٹ ساز کمپنی میکس برینر کے بائیکاٹ کی مہم کے سبب آسٹریلیا میں بالخصوص ان کمپنیوں کو خاصا کاروباری نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بی ڈی ایس فرانسیسی کمپنی ویولا کے خلاف دو ہزار آٹھ سے مہم چلا رہی تھی کہ وہ یروشلم لائٹ ریلوے منصوبے سے الگ ہو جائے کیونکہ اس کا روٹ فلسطینی اکثریتی مقبوضہ مشرقی یروشلم سے بھی گذرتا ہے۔
بالاخر دو ہزار پندرہ میں اس نے اسرائیل میں اپنے حصص ایک ذیلی کمپنی کے سپرد کر کے بوریا بستر لپیٹ لیا۔ دو ہزار بارہ میں بی ڈی ایس کے حمایتیوں نے سب سے بڑی برطانوی عالمی سیکیورٹی کمپنی سے اسرائیل میں سرمایہ کاری کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ یورپین پارلیمنٹ نے اس سے معاہدے کی تجدید سے انکار کر دیا۔ دو ہزار چودہ میں گیٹس فاؤنڈیشن نے اس سیکیورٹی کمپنی سے ایک سو ستر ملین ڈالر کا سرمایہ نکال لیا۔ دو ہزار سولہ میں ریسٹورنٹس کی بین الاقوامی چین کرپس اینڈ ویفلز نے اس کی سیکیورٹی خدمات لینے سے معذرت کر لی۔ چنانچہ اس کمپنی نے اپنے اثاثے ایک اسرائیلی کمپنی کو فروخت کر دیے مگر اسرائیل کی پولیس اکیڈمی سے اپنا سیکیورٹی اور تربیت کا کنٹریکٹ ختم نہیں کیا۔ لہٰذا اس کا بائیکاٹ جاری ہے۔ دو ہزار چودہ میں اسرائیل سے کاروبار کرنے والی معروف جنوبی افریقی کمپنی وول ورتھ کے اسٹورز کا گھیراؤ کیا گیا۔ دو ہزار سولہ میں اس کمپنی نے فیصلہ کیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے مصنوعات نہیں خریدے گی۔
دو ہزار سولہ سے بی ڈی ایس ایک امریکی آئی ٹی کمپنی کے بائیکاٹ کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ کیونکہ اس کمپنی نے اسرائیل کو بائیومیٹرک شناختی سسٹم فراہم کیا جس کے ذریعے فلسطینیوں کو محکوم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی سال ایک فرانسیسی ٹیلی کام کمپنی کے خلاف فرانس ، مصر ، تیونس اور مراکش میں بائیکاٹ مہم چلائی گئی۔ چنانچہ اس نے اسرائیلی ٹیلی کام کمپنی پارٹنر کمیونیکیشن سے اپنا لائسنسنگ معاہدہ ختم کر دیا۔ دو ہزار اٹھارہ میں کھیلوں کا سامان بنانے والی ایک عالمی جرمن کمپنی پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اسرائیلی فٹ بال ایسوسی ایشن سے اپنا معاہدہ ختم کرے کیونکہ مقبوضہ مغربی کنارے کے چھ یہودی آبادکار کلب بھی ایسوسی ایشن میں شامل ہیں۔ اس کمپنی کے خلاف لندن انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشنوں پر پوسٹرز لگائے گئے۔ دو ہزار بیس میں ملیشیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے اس کمپنی کے لیے اپنی سپانسر شپ واپس لے لی۔ بی ڈی ایس نے اسرائیل میں منعقد ہونے والے دو ہزار انیس کے موسیقی کے یورو ویژن مقابلے کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی۔
معروف پنک فلائیڈز بینڈ کے گلوکار راجر واٹرز سمیت ایک سو سینتالیس فنکاروں نے بھی یورویژن کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔ مقابلے میں شریک آئس لینڈ کے بینڈ ہٹاری نے فائنل کے موقع پر فلسطینی جھنڈا لہرایا تو ایک ہنگامہ ہو گیا۔ آنجہانی اسٹیفن ہاکنز سمیت ہزاروں اساتذہ اسرائیل کے تعلیمی بائیکاٹ کی دستخطی مہم میں حصہ لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی کیمپسوں میں طلبا تنظیمیں یونیورسٹی انتظامیہ پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہتی ہیں کہ وہ اسرائیل سے اکیڈمک ریسرچ میں تعاون نہ کریں۔ اسی طرح جون دو ہزار اکیس میں آئس کریم کے معروف برانڈ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مقبوضہ غربِ اردن کی یہودی بستیوں میں اپنا کاروبار بند کر دے۔اب یہ کمپنی صرف اسرائیل کی حدود تک محدود ہے۔ سابق اسرائیلی وزیرِ خارجہ یائر لیپڈ نے اس کمپنی کے فیصلے پر برستے ہوئے کہا کہ وہ اپنا کاروبار بچانے کے لیے یہود دشمنوں کے سامنے جھک گئی ہے۔ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد بائیکاٹ مہم میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ دراصل جن برانڈز کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری۔
مثلاً ایک ملٹی نیشنل فوڈ کمپنی نے گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ پر چڑھائی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کو مفت برگر سپلائی کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے عالمی بائیکاٹ کے بعد اسے اب تک نو ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور اس کے حصص کی قدر میں گیارہ فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس نے اسرائیل میں فرنچائز چلانے والی کمپنی سے اپریل میں سوا دو سو ریسٹورنٹس واپس لے لیے مگر اس اقدام سے بائیکاٹ کی شدت کم نہ ہو سکی۔ اس فوڈ کمپنی کی آمدنی میں ایک فیصد کی کمی صرف فرانس میں ہوئی جہاں براعظم یورپ کی سب سے زیادہ مسلمان آبادی ہے۔ امریکانو ریسٹورنٹ چین جو خلیجی ممالک میں اپنی فرنچائز چلاتی ہے۔ اسے پچھلے دس ماہ میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک انٹرنیشنل پیزا چین نے جنوری میں اپنے سوشل میڈیا پیجز پر ایسی تصاویر شئیر کیں جن میں فوجی اس کا پیزا کھا رہے ہیں۔ مئی میں اس کمپنی نے فیس بک پر ایک اشتہار شایع کیا جس میں ایک جعلی تصویر میں سرکردہ فلسطینی سیاسی قیدی مروان برغوتی کو پیزا کھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس کا نتیجہ اس کمپنی نے اپنی عالمی آمدنی میں چار فیصد کمی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔
امریکا کی عالمی کافی چین کی یونین نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کا بیان سوشل میڈیا پر لگایا۔ انتظامیہ نے یونین پر مقدمہ کر دیا مگر اس کمپنی کی عالمی آمدنی کو خاصا دھچکا لگا ہے۔ جنوبی افریقہ کا عالمی بائیکاٹ اقوامِ متحدہ کی سطح پر ہوا تھا۔ مگر بی ڈی ایس اپنے بل بوتے پر یہ کام کررہی ہے۔ لہٰذا اسے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note