#جرمن وزیر خارجہ
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
کروشیا کے وزیر خارجہ کا جرمن ہم منصب کو بوسہ تنازع کا باعث بن گیا
جمعرات کو برلن میں یورپی یونین کے وزراء کے اجلاس میں کروشیا کے وزیر خارجہ نے اپنے جرمن ہم منصب کو بوسہ دے کر تنازعہ کو جنم دیا۔ Gordan Grlić-Radman نے جرمن وزیر خارجہ Annalena Baerbock سے مصافحہ کیا، پھر اسے چومنے کے لیے آگے جھک گئے۔ The Croatian Minister of Foreign Affairs tried to kiss Analena Berbok, she slipped away pic.twitter.com/bsuOiSwJvu — S p r i n t e r X (@SprinterX99880) November 4,…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 11 months ago
Text
جرمنی نے تو امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
Tumblr media
امریکا پر تو خیر کیا اثر ہو گا البتہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کو تقریباً نسل کشی قرار دینے کی بابت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی عبوری رولنگ میں اسرائیل کے ممکنہ مواخذے کی رائے سامنے آنے کے بعد یورپی یونین میں اسرائیل کا غیر مشروط ساتھ دینے کے بارے میں اختلاف بڑھ گیا ہے۔ مثلاً سلووینیا نے یہ رولنگ سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق عالمی عدالت میں دائر ایک اور درخواست کا بھی حمایتی ہے۔ آئرلینڈ نے بھی اس معاملے میں فلسطین کے پلڑے میں وزن ڈال رکھا ہے۔ جب کہ اسپین کی مخلوط حکومت بٹی ہوئی ہے۔ بائیں بازو کی ایک اتحادی جماعت سومار پارٹی فوری جنگ بندی کی حامی ہے اور اس کی حامی ایک خاتون وزیر حال ہی میں حکومت کی جانب سے گومگو کے موقف کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے چکی ہیں۔ جب کہ بیلجیئم نے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں متاثرہ آبادی تک ا��سانی امداد کی ہنگامی فراہمی کا در کھل سکے۔ دوسری جانب یورپ کے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ برطانیہ تو خیر اس معاملے میں امریکا کا دائمی مرید ہے۔ البتہ آسٹریا، چیک جمہوریہ، ہنگری اور ہالینڈ بھی بدستور اسرائیل کو مظلوم سمجھنے پر بضد ہیں۔ 
فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو نسل کش سمجھنا تمام مروجہ اخلاقی اقدار پھلانگنے کے برابر ہے اور فرانس اس بارے میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔ جرمنی نے تو اس معاملے میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر نسل کشی کی پیٹیشن کی اگلی سماعتوں میں اسرائیل کے حق میں فریق بننے کی بھی درخواست کی ہے۔ ایسی وفاداری تو سترہ رکنی بنچ میں شامل اسرائیلی جج نے بھی نہیں دکھائی جس نے اسرائیل پر عائد پانچ میں سے دو الزامات سے اتفاق کیا ہے۔ نمیبیا نے جرمنی کی اسرائیل سے اندھی محبت اور بین الاقوامی عدا لتِ انصاف کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے مقدمے میں فریق بننے کے اعلان پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ نمیبیا جیسے دور دراز افریقی ملک کا ذکر اچانک کیوں آ گیا اور اس کا جرمنی کے موقف سے کیا لینا دینا ؟ یہ بات ہے اٹھارہ سو چوراسی کی جب برلن میں تیرہ یورپی سامراجی طاقتوں کی سال بھر طویل کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکا بھی شریک تھا۔ میز پر افریقہ کا نقشہ پھیلا کے بندربانٹ ہوئی اور جرمنی کے حصے میں تنزانیہ (زنجبار، ٹانگا نیکا) اور نمیبیا آیا۔ نمیبیا کا رقبہ کم و بیش جرمنی کے ہی برابر ہے مگر آبادی محض ڈھائی لاکھ ہے۔
Tumblr media
جب برلن کانفرنس میں افریقہ کا تھان کھول کے اسے بانسوں کے گز سے ناپا گیا تو جرمنی بھی قبضہ لینے نمیبیا پہنچا اور پسماندہ مکینوں کی اس سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے لگ بھگ پانچ ہزار جرمن آبادکاروں کو بسایا گیا ( جیسے یہودی آبادکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں بسایا گیا)۔سب سے بڑے دو قبائل ہریرو اور ناما کو ایک مخصوص علاقے میں دھکیل دیا گیا   جیسے اسرائیل نے فلسطینیوں کو دھکیلا)۔ جس جس نے مزاحمت دکھائی اسے کوڑے مارے گئے یا پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اکتوبر انیس سو چار میں ہریرو اور ناما نے اجتماعی بغاوت (انتفادہ) کر دی اور لگ بھگ ایک سو بیس جرمن آبادکاروں کو قتل کر دیا (جیسے سات اکتوبر کو حماس نے کیا)۔ قبائلیوں کے پاس تیر کمان ، نیزے اور بھالے تھے اور ڈیڑھ ہزار جرمن فوجیوں کے پاس توپیں اور مشین گنیں۔ غاصب جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان ٹروٹھا نے حکم جاری کیا کہ ’’ہر مسلح و غیر مسلح ہریرو اور ناما کو اس کے جانوروں سمیت مار دیا جائے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو بیابانوں میں دھکیل دیا جائے اور اگر وہ کہیں دوبارہ نظر آئیں تو اڑا دیا جائے‘‘۔
( جرمن جنرل کے اس فرمان کے ایک سو انیس برس بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز قرار دینے کے لیے تورات کی آیات کا حوالہ دیا۔ جن میں بنی اسرائیل کے حریف صحراِ سینا میں آباد قدیم امالک قبیلے کے ہر مرد اور بچے کو جانوروں سمیت قتل کرنے اور ان کی املاک مٹا دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو جدید زمانے کا امالک قرار دیا جو یہودیوں کے خون کے پیاسے ہیں لہٰذا انھیں بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دینا چاہیے)۔ جب انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں قائم نظربندی کیمپ ختم کر دیے گئے۔ تب تک اسی فیصد ہریرو قبائلی ( نوے ہزار ) اور نصف ناما قبیلہ ( بیس ہزار ) مٹ چکا تھا۔ کنسنٹریشن کیمپوں میں قید بچی کھچی آبادی کو مسلح جرمن آبادکاروں کی جبری بیگار پر لگا دیا گیا۔ یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ نافرمانوں کے قتل کی صورت میں آبادکاروں پر کرمنل دفعات لاگو نہیں ہوں گی۔ ہریرو اور ناما کا قتلِ عام بیسویں صدی کی پہلی منظم نسل کشی تھی۔ سیکڑوں کھوپڑیاں نمبر لگا کے جرمنی کی جامعات، اسپتالوں اور عجائب گھروں تک پہنچائی گئیں۔ وہاں عمرانیات اور اینتھروپولوجی کے ماہرین نے ان کھوپڑیوں کی ناپ تول کر کے نسلی برتری و کمتری کے بارے میں اپنے نظریات کو ’’ سائنسی انداز ‘‘ میں سیقل کیا ( ان میں سے کچھ کھوپڑیاں دو ہزار اٹھارہ میں نمیبیا کو واپس کی گئیں جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا)۔
گویا جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کنسنٹریشن کیمپوں میں نسلی برتری کے نشے میں یہودیوں کی جس صنعتی پیمانے پر نسل کشی کی۔ اس کی بنیاد نمیبیا میں انیس سو چار تا آٹھ نسل کشی، کنسنٹریشن کیمپوں کے قیام اور جبری مشقت کے تجربات اور مقتولوں کی کھوپڑیوں کا حجم ناپنے کی بنیاد پر سائنسی انداز میں نسل کشی کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔ جسے جرمنوں کی اگلی پڑھی لکھی پیڑھی نے صنعتی پیمانے پر اختیار کیا۔ آج نمیبیا میں جرمن آبادکاروں کی آبادی محض دو فیصد ہے مگر ستر فیصد قابلِ زراعت اراضی ان کی ملکیت ہے۔ انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں ہیروں کی کانیں دریافت ہوئیں۔ ان کی بدولت ایک عرصے تک ہیروں کی تیس فیصد عالمی تجارت پر جرمن تسلط تھا۔ مجموعی طور پر جرمنی نے نمیبیا کی کتنی زمینی دولت لوٹی اس کا کوئی منظم تخمینہ نہیں مگر بدلے میں کیا ہرجانہ دیا ؟ ایک سو سترہ برس بعد دو ہزار اکیس میں جرمنی نے ان مظالم پر نمیبیا سے باقاعدہ معافی مانگی۔ نمیبیا کو تین برس کی سودے بازی کے بعد بطور ہرجانہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب یورو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ مگر متاثرین کے ورثا نے اس قلیل معاوضے کو قومی توہین قرار دیتے ہوئے اسے نمیبیا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ مقامی اور جرمن حکومت کو عدالت نے نوٹس جاری کر دیے اور یہ مقدمہ اب تک زیرِ التوا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
weaajkal · 6 years ago
Photo
Tumblr media
امید ہے بات چیت کے ذریعے پاک بھارت کشیدگی دور کی جائے گی، جرمن وزیر خارجہ #Pakistan #Germany #aajkalpk اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی پر تشویش ہے، امید ہے دونوں ملک بات چیت کے ذریعے کشیدگی دور کریں گے۔
0 notes
pakistan-news · 4 years ago
Text
امریکا کی عالمی رسوائی
امریکا اور اہلِ مغرب اپنے آپ کوعالَم انسانیت کے لیے جمہوری اقداراور انسانی حقوق کے آئیڈیل اور علمبردارقرار دیتے ہیں، لیکن آج دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریہ امریکا برسر عام رسوا ہو رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ 2020 کے صدارتی انتخابات کو جعلی قرار دیتے ہیں اور سرعام کہہ رہے ہیں: ''انتخابات چوری ہو گئے ہیں، ہم معاف نہیں کریں گے اور ہم ان انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ 3 نومبر سے آج تک انہوں نے اپنی شکست کودل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں اور ریپبلکن پارٹی کو صدارتی انتخاب کے نتائج کو قبول نہ کرنے اور ردّ کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2016ء کا صدارتی انتخاب سفید فام نسلی عصبیت کو ابھار کر جیتا اور وہ آج تک اس عصبیت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ہم معاف نہیں کریں گے، ہم کبھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم انتخابات کی چوری روکیں گے، ہم پنسلوینیا ایوینیو جائیں گے، ہم کیپٹل ہل جائیں گے، ہم کمزور ریپبلکنز کو جرأت سکھائیں گے، امریکا کو واپس حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
صدارتی انتخابا ت کے لیے امریکا کا انتخابی نظام انتہائی پیچیدہ ہے، اس پر ہم پہلے بھی ایک کالم لکھ چکے ہیں، یہ براہِ راست اور بالواسطہ انتخابی نظام کا ملغوبہ ہے، اس کے کئی مراحل ہیں اور آخری مرحلہ کانگریس سے الیکٹورل ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی توثیق کا ہے، جس کی کانگریس سے 6 جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر حملے کے بعد بمشکل توثیق ہوئی۔ ٹرمپ ایری زونا، پنسلوینیا اور جارجیا کے انتخابی نتائج کو متنازع قرار دیتے رہے ہیں، انہوں نے اپنے حامیوں کو اکسایا اور انہوں نے کیپٹل ہل پر چڑھائی کر دی اور توڑپھوڑ کی۔ واضح رہے کہ کیپٹل ہل میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ہوتے ہیں اور ان کے دفاتر ہیں، یہ امریکی جمہوریت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے اور ایسا سیاہ داغ ہے جو کبھی مٹایا نہ جا سکے گا، بلکہ خود ��رمپ نے کہا: ''آج کے دن کو بھلایا نہیں جاسکے گا‘‘، ابتدا میں انہوں نے بلوائیوں کو شہ دی، ان کے موقف اور طرزِ عمل کو درست قرار دیا، لیکن پھر شدید دبائو آنے کے بعد انہوں نے یوٹرن لیا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ''حملہ آور قانونی انجام سے بچ نہیں سکیں گے‘‘۔
سابق امریکی صدور، عالمی رہنمائوں اور امریکی زعما نے کیپٹل ہل پرحملے کی شدید مذمت کی، بش نے کہا: ''انتخابی نتائج کو بدلنا امریکا میں نہیں‘ بنانا ریپبلک میں ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی جمہوریت آئی سی یو میں ہے اور سسکیاں لے رہی ہے‘‘۔ اوباما نے کہا: ''یہ ذلّت اور شرم کا مقام ہے، ریپبلکن پارٹی اور دائیں بازو کا میڈیا اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے، آج کے تشدد کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی، منصبِ صدارت پر بیٹھے ہوئے شخص نے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کو قانونی انتخابی نتائج کے خلاف ابھارا‘‘۔ کلنٹن نے کہا: ''آج ہمارے کیپٹل، ہمارے دستور اور ہمارے ملک کی توہین ہوئی ہے، یہ ٹرمپ کے چار سالہ زہرآلود بیانات کا منطقی نتیجہ تھا‘‘۔ جمی کارٹرنے کہا: ''یہ قومی المیہ ہے، یہ شرم ناک حرکت ہماری قوم کی نمائندگی نہیں کرتی‘‘۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا: ''ہم اس ذلّت آمیز منظر کی مذمت کرتے ہیں، امریکا دنیا بھر میں جمہوریت کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے، اب یہ لازمی ہے کہ پُرامن اور منظم انتقال اقتدار ہو‘‘۔ 
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا: ''امریکن کانگریس پر حملہ کرنے والے حملہ آور باغی تھے، میں ان مناظر کو دیکھ کر شدید غصے اور غم کی کیفیت میں ہوں، مجھے افسوس ہے کہ ٹرمپ نے ابھی تک اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ وہ بدستور امریکی انتخابات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں‘‘۔ چین نے اس موقع کو قرض چکانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہا: ''امریکی انتخابی نتائج کو تبدیل کرانے کے لیے کیپٹل ہل پرحملہ آوروں اور گزشتہ سال ہانگ کانگ میں قانون ساز کونسل پر چڑھائی کرنے والے مظاہرین میں مماثلت ہے‘‘، بلکہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہوا چُن ینگ نے کہا: ''ہانگ کانگ کے مظاہرے اس سے زیادہ سنگین تھے، مگر وہاں ایک بھی احتجاج کرنے والا ہلاک نہیں ہوا‘‘۔ واضح رہے کہ امریکا اور اہلِ مغرب ہانگ کانگ مظاہرین کی حمایت کر رہے تھے اور انہیں شہ دے رہے تھے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروف نے کہا: ''امریکا کا انتخابی نظام فرسودہ ہے، یہ موجودہ جمہوری معیارات پر پورا نہیں اترتا، کئی طرح کی خلاف ورزیوں کو جنم دیتا ہے اور امریکی میڈیا کی سیاست زدگی واشنگٹن کے فسادات کا سبب ہے‘‘۔ 
فرانسیسی صدر میکرون نے کہا: ''جب دنیا کی قدیم ترین جمہوریت میں رخصت ہونے والے صدر کے حامی مسلح ہو کر قانون کے تحت منعقدہ انتخابات کو چیلنج کریں گے، تو ''ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کے عالمگیر نظریے کی بے توقیری ہو گی۔ جو کچھ واشنگٹن ڈی سی میں ہوا، یقینا یہ امریکی اقدار کے خلاف ہے، ہم اپنی اور امریکی جمہوریت کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ یورپین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے کہا: ''امریکی کانگریس جمہوریت کا عبادت خانہ ہے، آج رات واشنگٹن ڈی سی میں جو منظر دیکھا، اس سے شدید صدمہ ہوا، ہمیں یقین ہے کہ امریکا میں پُرامن انتقالِ اقتدار کو یقینی بنایا جائے گا‘‘۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا: ''کیپٹل ہل واشنگٹن میں جو منظر دیکھا، اس سے غمزدہ ہو گیا ہوں‘‘۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا: ''جمہوریت پر حملے کی وجہ سے انتہائی غمزدہ اور پریشان ہو گیا، تشدّد کبھی بھی عوام کے فیصلے کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو گا، امریکا میں جمہوریت ہر قیمت قائم رہنی چاہیے اور یہ رہے گی‘‘۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے ٹویٹ کیا: ''جمہوریت، عوام کے ووٹ دینے کا حق ہے، ان کی آواز سنی جائے اور ان کے فیصلے کو پُرامن طریقے سے تسلیم کیا جائے، اسے کسی ہجوم کے ذریعے کالعدم نہ کیا جائے‘‘۔ وینزویلا کی حکومت، جسے امریکا قانونی تسلیم نہیں کرتا، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ''اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکیوں نے جو حالات دوسرے ملکوں میں پیدا کیے، آج وہ خود انہی افسوسناک حالات سے گزر رہے ہیں، یعنی یہ مکافاتِ عمل ہے‘‘۔ 2006ء میں فجی میں انقلاب لانے والے وزیر اعظم نے کہا: ''آج ہم نے جو مناظر واشنگٹن میں دیکھے، یہ دنیا بھر میں جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہیں، سچی اور اصلی جمہوریت ایک قیمتی دولت ہے، جوکسی بھی قوم کو خیرات میں نہیں ملتی، ہمیں یقین ہے کہ امریکا میں یہ بدصورت باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گا‘‘۔ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا: ''آج امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو تشدد پر اُکسایا‘‘۔ سابق امریکی خاتونِ اول میشل اوباما نے کہا:''امریکی مرکزِ اقتدار کی بے حرمتی کی گئی، حیرت ہے دسیوں لاکھوں امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا جو اپنی اَنا کی خاطر ہماری جمہوریت کو شعلوں کی نذر کرنا چاہتا ہے‘‘۔ 
دارالعوام کی سپیکر نینسی پلوسی نے کہا: ''ٹرمپ کو ایوانِ صدر سے نکال دینا چاہیے‘‘۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر نے نائب صدر سے کہا: ''دستور کی پچیسویں ترمیم کے تحت ٹرمپ کو صدارت سے نکال دیں‘‘۔ امریکی سینیٹ میں ریپبلکن لیڈرمچ مکونل نے ایوان میں کھڑے ہوکر کہا: ''اگر آج ہم نے اپنے ووٹرز، عدالتوں اور ریاستوں کے انتخابی فیصلوں کو ردّ کر دیا تو ہم اپنی جمہوریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے، اگر آج ہم نے ایسا کیا تو آئندہ عوام کبھی بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا: ''کل ہم نے امریکا میں جو کچھ دیکھا، اس سے واضح ہو گیا گیا کہ مغربی جمہوریت تباہ ہو چکی ہے‘‘۔ سابق اٹارنی جنرل بل برنے کہا: ''ٹرمپ کا اقدام اپنے منصب اور حامیوں سے دھوکا تھا‘‘۔ جو بائیڈن نے کہا: ''میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ٹی وی پر آئیں اور اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ کریں، کیپٹل ہل میں گھس جانا، کھڑکیاں توڑنا، امریکی سینیٹ کے دفاتر پر قبضہ کر��ا اور منتخب اراکین کے لیے خطرہ بننا، احتجاج نہیں، بغاوت ہے‘‘۔ 
جو بائیڈن کے اس پیغام کے بعد ٹویٹر پر اپنے ایک وڈیو پیغام میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخاب چوری کیے جانے کا الزام دہراتے ہوئے کیپٹل ہل کے اندر اور باہر موجود اپنے حامی مظاہرین سے اپنے گھروں کو لوٹ جانے کا مطالبہ کیا۔ اپنے وڈیو پیغام میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا :''مجھے معلوم ہے آپ تکلیف میں ہیں، آپ کو دکھ ہوا ہے، ہم سے الیکشن چرایا گیا ہے، یہ ہر کوئی جانتا ہے، خاص طور پر دوسری جانب والے، لیکن اب آپ کو گھر جانا ہو گا، ہمیں امن حاصل کرنا ہو گا، ہمیں آئین اور قانون نافذ کرنا ہو گا‘‘۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا: ''میں نے عمارت کو محفوظ بنانے اور گھسنے والوں کو بے دخل کرنے کے لیے فوری طور پر نیشنل گارڈز اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کیا، میری مہم نے انتخابی نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر قانونی راستہ اپنانے کی بھر پور کوشش کی۔ میرا واحد مقصد ووٹوں کی سا لمیت کو یقینی بنانا تھا، 20 جنوری کو ایک نئی انتظامیہ کی شروعات ہو گی، میری توجہ اب اقتدار کی منظم اور بلا رکاوٹ تبدیلی کو یقینی بنانے پر ہے‘‘۔
کیپٹل ہل پر حملوں کی تاریخ :1814ء میں برطانوی فوج نے کیپٹل ہل کی بلڈنگ کو جلانے کی کوشش کی تھی، حملہ آوروں نے پہلے بلڈنگ کو لوٹا اور پھر شمالی اور جنوبی حصوں میں آگ لگا دی، 1915ء میں ہارڈورڈیونیورسٹی کے جرمن نژاد پروفیسر ایرک میوٹرنے جرمنی کے دشمنوں کوامریکی اسلحہ بیچنے پراحتجاج کرنے کے لیے کیپٹل ہل میں بارود رکھا تھا، 1954ء میں پورٹوریکوکے قوم پرست گروپ نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا، اس میں کانگریس کے پانچ ارکان زخمی ہوئے تھے، 1971ء میں بائیں بازوکے شدت پسندوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف کیپٹل ہل کے واش روم میں بم رکھنے کی ذمہ داری قبول کی تھی، حالیہ حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، باون افراد گرفتار ہوئے اورتحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ دارالعوام کی ایک قرارداد کے ذریعے نائب صدرمائیک پینس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پچیسیویں آئینی ترمیم کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوے ٹرمپ کو صدارت سے فارغ کر دیں، مگر انہوں نے دارالعوام کی سپیکر کو لکھا: ''میرے نزدیک پچیسیویں آئینی ترمیم ہمارے آئین کی روح کے منافی ہے، اس سے غلط روایت قائم ہو گی، میں یقین دلاتا ہوں کہ انتقالِ اقتدار نیک نیتی سے ہو گا، میں موجودہ صورتحال میں سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گا‘‘۔ 
دارالعوام میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی جاچکی ہے کہ ٹرمپ کا ایوانِ صدرمیں مزید رہنا قومی سلامتی، جمہوریت اور آئین کے لیے خطرے کا باعث ہے، وائٹ ہائوس کے ذرائع نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر بیس ریپبلکن ارکان کانگریس قرارداد کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ہم نے یہ جائزہ اس لیے پیش کیا ہے تاکہ ہمارے قارئین کومعلوم ہو کہ آج روس، چین، وینزویلا اور فجی کے رہنما بھی امریکا کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں، امریکا کے لیے اس سے بڑھ کر رسوائی اور کیا ہو گی، نیز وہ یہ بھی باور کرا رہے ہیں: ''اے بادِصبا! ایں ہمہ آوردئہ تست‘‘�� یعنی تم نے جو کچھ دوسروں کے لیے بویا تھا، آج اس کی تیارفصل تمہیں خود کاٹنا پڑ رہی ہے۔ 
مفتی منیب الرحمٰن
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
omega-news · 3 years ago
Text
جرمنی کی وزیرخارجہ پاکستان پہنچتے ہی کرونا میں مبتلا
جرمنی کی وزیرخارجہ پاکستان پہنچتے ہی کرونا میں مبتلا
پاکستان کے دورے پر موجود جرمنی کی وزیر خارجہ اینا لینا بیئر بوک کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا جس کے بعد انہوں نے آئندہ کی تمام شیڈول مصروفیات منسوخ ک�� دی ہیں ۔ خیال رہے کہ جرمن وزیر خارجہ اینا لینا بیئر بوک صبح ہی پاکستان پہنچی ہیں ، انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے تفصیلی ملاقات کی اور بعد میں مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی تھی
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 3 years ago
Text
جرمن ایف ایم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بلاول کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو دنیا کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔
جرمن ایف ایم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بلاول کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو دنیا کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو (ر) اپنی جرمن ہم منصب اینالینا بیئربوک کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ تصویر انس ملک ٹویٹر اسلام آباد: وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے منگل کو طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترے۔ وزیر خارجہ جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جو بلاول بھٹو کی دعوت پر دو روزہ دورے پر اسلام آباد میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dailyawaznews-me-blog · 3 years ago
Text
افغانستان سے انخلا میں پاکستان کو اہم پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں، جرمنی
افغانستان سے انخلا میں پاکستان کو اہم پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں، جرمنی
برلن (آواز نیوز) جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک افغانستان میں طالبان حکام پر انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے دباﺅ بڑھانا چاہتی ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جرمن وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ بیئربوک پاکستان کے دورے پر اسلام آباد حکومت سے بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیں گی ۔ جرمن وزارت خارجہ کے مطابق جرمن حکومت افغانستان سے عام شہریوں کے انخلا کے معاملے میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
روس اور امریکا کے مابین نیوکلیئر ٹریٹی ختم
جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ آئی این ایف ٹریٹی کے ختم ہو جانے سے یورپ کو سیکورٹی کے بڑے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ اس طرح خطے میں اسلحے کی دوڑ میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ امریکا اور روس کے مابین نیوکلیئر ٹریٹی (آئی این ایف) کا خاتمہ یورپ میں امن اور سکیورٹی سے جڑے معاملات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے اصرار کیا ہے کہ ان ممالک کو 'انٹر رینج نیوکلیئر فورسز‘ کے خاتمے بعد ان ممالک کو اسلحے کی دوڑ کو روکنے کی خاطر کیے گئے دیگر معاہدوں پر عمل رہنا چاہیے۔
آئی این ایف نامی تاریخی ٹریٹی سن انیس سو ستاسی میں طے پائی تھی۔ اس وقت امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت صدر میخائیل گورنا چوف نے اس ڈیل پر دستخط کیے تھے، جس کے نتیجے میں زمین سے درمیانے رینج کے میزائلوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ میزائل مغربی یورپی ممالک سے روس تک مار کر سکتے تھے اور روس سے یورپی ممالک تک۔ فروری میں امریکا نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اس ٹریٹی سے دستبردار ہو جائے گا۔ تب امریکا نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایسے ہتھیار بنا رہا ہے، جو اس ٹریٹی کی خلاف ورزی ہیں۔ واشنگٹن نے کہا تھا کہ اگر روس دو اگست تک اس ٹریٹی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تو اس وہ اس ٹریٹی سے دستبردار ہو جائے گا۔ 
اس امریکی انتباہ کے بعد روس نے بھی اس ٹریٹی کو ختم کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس ڈیل کے ممکنہ خاتمے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ظاہری طور پر روس کو قصوروار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں افسوس ہے کہ روس اس ٹریٹی کو بچانے کی خاطر ضروری اقدامات کرنے سے قاصر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں ممالک کو کوشش کرنا چاہیے کہ اسلحے کی دوڑ سے بچنے کی خاطر کوشش کی جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس ٹریٹی کے ممکنہ خاتمے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرد جنگ کے زمانے میں طے پانے والا یہ معاہدہ اُس دور میں جوہری جنگ کو روکنے میں بہت اہم ثابت ہوا تھا۔ جمعرات کے دن نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹریٹی کی موت سے بیلسٹک میزائلوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note · View note
pakistan-news · 3 years ago
Text
روس یوکرین پر حملہ کیوں کرے گا ؟
اس وقت روس کی ایک لاکھ 30 ہزار فوج یوکرین کی سرحد پر موجود ہے جب کہ 30 ہزار روسی فوجی بیلاروس میں ہیں۔ اس صورت حال پیش نظر ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بحران روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونبس میں لڑائی شروع ہونے کے آٹھ سال بعد سامنے آیا ہے جہاں تب سے نچلی سطح پر ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یوکرین اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان یہ لڑائی اب تک جاری ہے۔ اگرچہ مغربی ملکوں کو امید ہے کہ وہ کشیدگی کم کروانے اور مشرقی یورپ میں خونریز جنگ کو ٹالنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن کریملن اور نیٹو اتحادیوں کے درمیان سفارتی بات چیت کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اس وقت جو حالات ہیں ان سے واضح نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔
برطانیہ کی مسلح افواج کے وزیر جیمز ہیپی نے خبردار کیا ہے کہ گذشتہ 70 سالوں میں کسی بھی مرحلے کے مقابلے میں جنگ کے زیادہ قریب ہے۔ شمالی بحر اوقیانوس کے فوجی اتحاد نے کہا ہے کہ وہ پولینڈ اور لتھوانیا جیسے پڑوسی مشرقی ملکوں میں تعیناتی کے لیے اضافی بحری جہاز اور لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے جو لڑائی شروع ہونے کی صورت میں پناہ گزینوں کی آمد کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین سے سفارت کاروں کے خاندانوں کو احتیاطی تدبیر کے طور پر واپس بلا لیا ہے۔ بعض فضائی کمپنیوں نے کیف کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کشیدگی کم کروانے کے لیے حالیہ ہفتوں میں یورپ کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے روسی ہم منصب، یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی اور دوسرے یورپی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں روس پر زور دیا کہ وہ سرد جنگ کی دشمنیوں کی واپسی سے بچیں۔ برطانوی وزیر خارجہ لزٹرس اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں بھی اسی مقصد کے لیے ماسکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ جرمن چانسلراولاف شولز نے پہلے زیلنسکی اور پھر ولادی میر پوتن سے تازہ ترین ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی ایسے ہی کرنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن کریملن نے اس بات کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ کریملن کا کہنا ہے کہ امریکہ۔روس تعلقات اس وقت ’بہت نچلے درجے‘پر ہیں۔ بائیڈن اور شولز حال ہی میں واشنگٹن میں ملاقات کر چکے ہیں تاکہ یوکرین کے تنازعے کے حوالے سے کسی حکمت عملی پر بات کی جا سکے۔ دونوں رہنماؤں نے روس کو دھمکی دی ہے کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں اس کی نورڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن جو بحیرہ بالٹک کے نیچے سے گزر کر جرمنی جا رہی ہے اسے بند کر دیا جائے گا۔ اگر پوتن آگے بڑھے اور انہوں نے’بڑی غلطی‘ کی تو مغربی اتحادیوں کے حوالے سے توقع ہو گی کہ وہ دوسرے اقدامات کریں گے جن میں یوکرین کو مزید فوجی وسائل کی فراہمی سے لے کر روس پر کئی طرح کی سخت معاشی پابندیاں لگانا شامل ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں کہ دھمکیاں کریملن کو روک پائیں گی جس نے روسی معیشت کو ’پابندیوں سے محفوظ‘ بنانے کے لیے کام کیا ہے۔
پوتن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کو نیٹو کا دائرہ یوکرین جیسے ملکوں تک بڑھانے کے عمل کو درست کرنے کی سمت میں پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ یہ ملک 1989 میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ماضی میں اس کی حکمرانی میں تھے۔ رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین کے شہریوں کی بڑی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کا ملک فوجی اتحاد کا رکن بنے۔ ماسکو چاہتا ہے کہ مغرب وعدہ کرے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ نیٹو نے یہ وعدہ واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ گذشتہ سال موسم گرما میں شائع ہونے والے پانچ ہزار الفاظ کے مضمون میں پوتن نے یوکرین کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا تھا۔ سٹاک ہوم فری ورلڈ فورم میں سینیئر فیلو اینڈرس اسلنڈ کی رائے میں’روسی اور یوکرینی شہریوں کا تاریخی اتحاد‘ کے عنوان سے والے اس مضمون میں بس یہ کمی تھی کہ اعلان جنگ نہیں کیا گیا تھا۔ روسی صدر نے یہ دعویٰ دہرایا کہ روسی اور یوکرینی شہری‘ ایک لوگ‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یوکرین سے یو ایس ایس آر سے آزادی حاصل کی تو ان کے وطن کو’لوٹا‘ گیا۔
مضمون میں ایک جگہ پوتن نے کیف کو مزید کھلی دھمکیاں دیں۔ انہوں نے لکھا: ’مجھے یقین ہے کہ یوکرین کی حقیقی خود مختاری صرف روس کے ساتھ شراکت داری سے ہی ممکن ہے۔‘ چند ماہ بعد روسی صدر نے ہزاروں فوجی یوکرین کی سرحد پر بھیج دیے۔ برطانیہ اور امریکہ نے یوکرین کو حال ہی میں فوجی مدد فراہم کی ہے۔ برطانیہ کی جانب سے یوکرین کو پرواز کرنے والے ٹینک شکن ہتھیار دیے گئے جب کہ پولینڈ میں ساڑھے تین سو فوجی تعینات کیے گئے۔ ایک ہزار فوجیوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔ تاہم ان اقدامات سے روسی حملے کے خطرے کا سامنا کرنے کی صورت میں کیف کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ مستقبل میں ممکنہ طور پر جنگ کرنے والے روس اور یوکرین کے درمیان فوجی طاقت کی وسیع خلیج موجود ہے۔ یوکرین کی فوج ڈھائی لاکھ سے کم ہے اور وہ اس میں مزید ایک 30 ہزار کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روسی فوجی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے۔ وہ کہیں زیادہ جدید اور بڑی تعداد میں ہتھیاروں کا مالک ہے۔
روس اور یوکرین کی فوجی طاقت کے فرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے برطانیہ میں یوکرین کے سفیر وادم پرستائیکو نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ان کا ملک نیٹو کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہم اس خاندان کا حصہ نہیں ہیں اور ہمیں یورپ میں سب سے بڑی فوج کا اپنے طور پر سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کئی بار انکار کر چکے ہیں کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کا یہ کہہ کر دفاع کیا دراصل کشیدگی کا الزام یوکرین کو مغربی ہتھیاروں کی فراہمی، یوکرین کی فوجی مشقوں اور نیٹو کے طیاروں کی سر پر پروازوں کو جاتا ہے۔ لیکن شائد حملے سے قبل کی کارروائی کے طور پر جنوری میں یوکرینی حکومت کی ایک درجن سے زیادہ ویب سائٹس ہیک کر لی گئی تھیں۔ اس موقعے پر یوکرین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس کارروائی کا کسی کو الزام دینا بہت قبل از وقت ہو گا۔ تاہم وزارت نے اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ’یوکرین پر روسی سائبر حملوں کا طویل ریکارڈ موجود ہے۔‘
ہیکروں نے ہیک کی گئی ویب سائٹس پر خبردار کرنے والا پیغام تحریر کیا کہ’یوکرین! آپ کا تمام نجی ڈیٹا عام نیٹ ورک پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے۔ کمپیوٹر پر موجود تمام ڈیٹا تباہ کر دیا گیا ہے۔ اسے واپس حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘ پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’آپ کے بارے میں تمام معلومات عام ہو گئی ہیں۔ ڈریں اور اس سے زیادہ برے کی توقع رکھیں۔ یہ آپ کا ماضی، حال اور مستقبل ہے۔‘
روری سلیون  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
امریکی وزیر خارجہ برلن میں، یوکرائن کا بحران سنگین ہوتا ہوا
امریکی وزیر خارجہ برلن میں، یوکرائن کا بحران سنگین ہوتا ہوا
امریکی وزیر خارجہ برلن میں، یوکرائن کا بحران سنگین ہوتا ہوا واشنگٹن ،20؍ جنوری(آئی این ایس انڈیا) امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن آج برلن کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں وہ مشرقی یوکرائن کے تنازعے کی حل کی خاطر جرمن رہنماؤں سے مذاکرات کریں گے۔ وہ جمعے کے دن اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوورف سے ملنے والے ہیں، جس سے قبل وہ اپنے اتحادی یورپی ممالک سے یقین دہانیاں چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ ہنگامی دورہ بدھ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
جرمن، انڈونیشیا کے سفیروں نے جنرل باجوہ سے افغان مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ ایکسپریس ٹریبیون
جرمن، انڈونیشیا کے سفیروں نے جنرل باجوہ سے افغان مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ ایکسپریس ٹریبیون
راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جرمنی کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان و پاکستان (ایس آر اے پی) جاسپر ویک اور انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو لیسٹاری پرانصاری مارسودی نے ہفتہ کو جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات کی جس میں افغانستان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فوج کے میڈیا ونگ کی ��انب سے جاری بیان کے مطابق ملاقاتوں کے دوران دو طرفہ مفادات اور افغانستان سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 3 years ago
Text
آسٹریا کے وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر شلن برگ اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ 16 فروری 2022 کو برلن میں وزارت خارجہ میں ملاقات سے قبل ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ — اے ایف پی/فائل وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی دعوت پر آسٹریا کے وفاقی وزیر برائے یورپی اور بین الاقوامی امور الیگزینڈر شلنبرگ 16 سے 19 مارچ تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آسٹریا کے وزیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years ago
Text
طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا آنے والے دنوں میں علم ہوگا، وزیر خارجہ
طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا آنے والے دنوں میں علم ہوگا، وزیر خارجہ @SMQureshiPTI #USArmy #Taliban #Aajkalpk
اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ طالبان سمجھ چکے ہیں کہ وہ غیر ملکی حمایت کے بغیر نہیں چل سکتےاور دنیا کو افغانستان میں امن تباہ کرنے والوں کو پہچاننا ہوگا۔  اپوزیشن کا ایک ہی کردار ہے، حکومت کے مخالف شیطان سے بھی اتحاد ہو جائے تو کرنا ہے’ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مسئلے پر جرمن وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو ہوتی رہی ہے، دورے سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 years ago
Text
چین نے جرمنی پر برتری حاصل کر لی ہے
شاید یورپی یونین کیلئے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے سب سے بڑا جغرافیائی مسئلہ چین کے ساتھ مستقبل کے تعلقات ہیں۔ گزشتہ ہفتے جرمن کے بزنس میگزین نے رپورٹ دی کہ چانسلر اینگلا مرکل کے سینئر حکام نے انسداد جاسوسی معاہدے کی کوشش کیلئے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح کے معاہدوں کی عموما کاغذٰ پر تحریر اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ اس دورے کا سیاق و سباق چین کی ٹیلی کمیونیکشن سامان ساز کمپنی ہووائے کی جانب سے جرمنی میں ففتھ جنریشن موبائل لائسنس کیلئے درخواست تھی (جس کا فیصلہ رواں ماہ کسی تاریخ کو ہونا ہے)۔ جاسوسی نہ کرنے کا معاہدہ جرمنی کو یہ ظاہر کرنے کی اجازت دے گا کہ اسے چین سے سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات کافی دلچسپ ہیں۔ چین کے بارے میں جرمنی تذبذب کا شکار ہے۔ اسے چین کی ہواوئے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے موبائل فون آپریٹرز ہواوئے کی فائیو جی درخواست پر خاص طور پر کافی آرزومند ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے نیٹ ورکس میں چینی کمپنی کے ہارڈویئر استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم جرمنی بھی اس کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے والی چینی کمپنیوں کے بارے میں فکرمند ہے۔ گزشتہ دسمبر نئے قانون نے ایکویٹی اسٹیک کی حد میں کمی کر دی جو خودکار طریقے سے تحقیقات کو متحرک کرتا ہے۔ وزیر اقتصادیات پیٹر الٹمیئر نے چینی مہارت سے ایئر کرافٹ، فنانس، ٹیلی کمیونیکشن، ٹرین، انرجی اور روبوٹکس سمیت تمام شعبوں کی حفاظت کیلئے حال ہی میں نئی صنعتی حکمت عملی پیش کی۔
پرتگال کے سابق یورپی وزیر نے اپنی حالیہ کتاب میں نوٹ کیا کہ چین اور جرمنی کے تعلقات بدرجہ غایت بدل گئے ہیں۔ جرمنی جو پہلے کبھی چین کو اپنی مشینری کی برآمدات کے لئے ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتا تھا جس کے ساتھ چین اپنی صنعتی بنیاد تیار کرے گا۔ آج، چین تعلقات میں ایک سینئر پارٹنر بن رہا ہے۔ کار کی صنعت اہمیت کی حامل بننے جا رہی ہے۔ یہ جرمنی کی ماضی کی کامیابی اور چین کی مستقبل کی خوشحالی کا ذریعہ ہے۔ تاہم دونوں اطراف مخالف مفادات رکھتے ہیں۔ ڈیزل ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار نے جرمن کو کار انڈسٹری میں برقی بیٹریوں اور مصنوعی انٹیلی جنس میں تاخیر سے سرمایہ کاری کرنے والا بنا دیا۔ برونو میکیس نے نوٹ کیا کہ چین نے ایک مختلف کھیل کھیلا ہے۔ چین ابتدائی طور پر پیداواری پلانٹس کو محفوظ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ پوری الیکٹرک کار ویلیو چین کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ 
ایسا کرنے کے لئے چین نے بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی لازمی دھات کوبالٹ کی عالمی سپلائی کے بڑے حصے کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ دونوں ممالک میں کافی کچھ مشترک ہے۔ دونوں بڑے پیمانے پر بیرونی بچت کے اضافے کے ساتھ برآمدات پر انحصار کرنے والی معیشتیں ہیں۔ تاہم جرمنی کی اقتصادی حکمت عملی تقریبا مستقل نہیں ہے۔ جرمنی کی سیاسی ترجیح یہ ہے کہ عوامی قرض کو کم کیا جائے۔ اس وقت تک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے۔ حد سے زیادہ مالی استحکام سڑکوں، ٹیلی کام نیٹ ورکس اور دیگر نئی ٹیکنالوجیز میں کم سرمایہ کاری کا بنیادی سبب رہا ہے۔
جرمنی اپنے دفاعی شعبے میں بھی کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔ وزیر دفاع ارسولا وین ڈیر لین نے حال ہی میں دفاعی بجٹ 2023 تک مجموعی ملکی پیداوار کا موجودہ 1.3 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد بڑھانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ لیکن وزیر خزانہ اولف شلز نے اس پر اعتراض کیا۔ یہ ضمنی واقعہ بنیادی یورپی مسائل کا علامتی مظہر ہے: چین کے برعکس اقتصادی پالیسی، صنعتی پالیسی اور خارجہ و سیکیورٹی پالیسی ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ ہواوئے کی فائیو جی کی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین سیکیورٹی اور صنعتی پالیسی کے درمیان ربط کے ساتھ نبٹنے کے لئے اچھی طرح سے تیار نہیں ہے۔ اور نہ ہی یورپ نے ان کے مالیاتی قوانین کے اثرات پر بہت توجہ دی ہے اور نہ ہی کم از کم دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیوں پر۔ اس کے برعکس چین کا اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ مربوط نکتہ نظر ہے۔
چین تجارتی اشیاء کی مارکیٹوں کی کرنسی کے طور پر ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے حتمی مقصد کے ساتھ رینمنبی کو بطور عالمی کرنسی کے فروغ دے رہا ہے۔ یورپی سیاستدان اس طرح کی پالیسیوں کے بارے میں سوچنے کے عادی نہیں ہیں۔ خاص طور پر جرمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یورو زون یورو کو عالمی کرنسی کے طور پر فروغ دے۔ ماضی میں جرمنی کی انتہائی قدامت پسند میکرو اکنامک سوچ کم یا زیادہ اپنے صنعتی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی۔ یہ اب نہیں رہی، یورپی یونین دو مخالف اقتصادی طاقتوں کے درمیان دب چکا ہے اور بحران کا شکار کرنسی والی حکومت ہے۔
عوامی شعبے کے قرض میں کمی ایک سیاسی انتخاب تھا۔ اگر جرمنی اس کی بجائے دفاع اور مستقبل کے صنعتی فوائد میں سرمایہ کاری کرے، مالیاتی حیثیت جہاں جانا چاہتی اسے وہاں جانے کی اجازت دے تو ہم آج ایک مختلف جگہ پر ہوں گے۔ لیکن اس کیلئے جغرافیائی حکمت عملی کی ضرورت ہو گی جو یورپی یونین بھر میں پالیسی کے مباحثوں میں غائب ہے۔ شاید یورپی گزشتہ دس سال سے اپنے معاملات میں اتنے غرق رہے کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کیا آرہا ہے۔ اب ابھرتی ہوئی تحفظ پسن��ی، چین کے کاروبار پر قبضے کے خلاف تحفظ کی ضرورت کا اچانک ادراک، نشانیاں ہیں کہ اطمینان گھبراہٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ولفگنگ منچا
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
روس نے یوکرین کے قریب فوجی مشقوں میں توسیع کر دی جب کہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%b1%d9%88%d8%b3-%d9%86%db%92-%db%8c%d9%88%da%a9%d8%b1%db%8c%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%82%d8%b1%db%8c%d8%a8-%d9%81%d9%88%d8%ac%db%8c-%d9%85%d8%b4%d9%82%d9%88%da%ba-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%aa%d9%88%d8%b3/
روس نے یوکرین کے قریب فوجی مشقوں میں توسیع کر دی جب کہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
روس قریب توسیع شدہ فوجی مشقیں یوکرین کا مشرقی یوکرین میں فوجیوں اور روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان رابطہ لائن کے ساتھ دو دن تک مسلسل گولہ باری کے اندیشوں کے درمیان اتوار کو شمالی سرحدیں حملے کو جنم دے سکتی ہیں۔
مشقیں، جو اصل میں اتوار کو ختم ہونے والی تھیں، روسی افواج کا ایک بڑا دستہ ہمسایہ ملک بیلاروس لے کر آیا، جس کی سرحد شمال میں یوکرین سے ملتی ہے۔ روسی فوجیوں کی موجودگی نے تشویش میں اضافہ کیا کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیف پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
یہ اعلان بیلاروس کے وزیر دفاع کی طرف سے آیا، جس نے کہا کہ دونوں ممالک “جوابی قوتوں کی جانچ جاری رکھیں گے۔”
مغربی رہنماؤں نے خبردار کیا کہ روس اپنے پڑوسی پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے، جس کا تین طرف سے تقریباً 150,000 روسی فوجی، جنگی طیاروں اور ساز و سامان کا سامنا ہے۔ روس نے ہفتے کے روز جوہری مشقوں کے ساتھ ساتھ بیلاروس میں روایتی مشقیں کیں، اور بحیرہ اسود میں ساحل سے دور بحری مشقیں جاری ہیں۔
Tumblr media
یوکرین کا ایک فوجی ہفتہ، 19 فروری، 2022 کو، مشرقی یوکرین میں کریمسکے کے فرنٹ لائن گاؤں کے قریب ایک مشاہداتی مقام پر کھڑا ہے۔ (اے پی فوٹو/وادیم غردا)
G7 وزرائے خارجہ نے روس کی تعمیر کا سامنا کرتے ہوئے یوکرین کی خودمختاری کے لیے ‘غیر متزلزل عزم’ کا عہد کیا
امریکہ اور کئی یورپی ممالک کئی مہینوں سے الزام لگا رہے ہیں کہ روس حملہ کرنے کے بہانے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوری پابندیاں لگائی جائیں گی۔
یوروپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار چارلس مشیل نے اتوار کو کہا کہ “بڑا سوال باقی ہے: کیا کریملن بات چیت چاہتا ہے؟”
میونخ سیکورٹی کانفرنس میں یورپی کونسل کے صدر میشل نے کہا کہ “ہم ہمیشہ کے لیے زیتون کی شاخ نہیں دے سکتے جب تک کہ روس میزائل تجربات کرتا ہے اور فوجیوں کو جمع کرنا جاری رکھتا ہے۔” “ایک بات یقینی ہے کہ اگر مزید فوجی جارحیت کی گئی تو ہم بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کریں گے۔”
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روسی صدر ولادیمیر سے ملاقات کی۔ پوٹن ایک ایسی جگہ کا انتخاب کرنا جہاں دونوں رہنما مل کر بحران کو حل کرنے کی کوشش کر سکیں۔ روس نے حملے کے منصوبے کی تردید کی ہے۔
زیلنسکی نے ہفتے کے روز جرمنی کے شہر میونخ میں ایک بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس میں کہا، “یوکرین پرامن تصفیے کے لیے صرف سفارتی راستے پر چلنا جاری رکھے گا۔” کریملن کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند رہنماؤں نے ہفتے کے روز مکمل فوجی متحرک ہونے اور مزید شہریوں کو روس بھیجنے کا حکم دیا، جس نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کے باشندوں کو تقریباً 700,000 پاسپورٹ جاری کیے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ روسی شہریوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے فوجی کارروائی کے جواز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Tumblr media
یوکرین کے فوجی اہلکار 19 فروری، 2022 بروز ہفتہ، مشرقی یوکرین میں، لوہا��سک کے علاقے کرمسکے کے فرنٹ لائن گاؤں کے قریب ایک تباہ شدہ مکان کے پاس کھڑے ہیں۔ (اے پی فوٹو/وادیم غردا)
روس کے حملے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، کانگریس منظوری کی حکمت عملی پر منقسم
علیحدگی پسند علاقوں میں حکام نے دعویٰ کیا کہ یوکرائنی افواج نے گزشتہ روز توپ خانے سے کئی حملے کیے اور روسی سرحد کے قریب ایک گاؤں پر ناکام حملے میں دو شہری مارے گئے۔
نائب صدر کملا ہیرس نے اتوار کو اس لمحے کی اہمیت پر زور دیا جس کا یورپ کو سامنا ہے۔
ہیریس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس میں کہا کہ “ہم یورپ میں جنگ کے امکانات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔” “70 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان 70 سالوں میں… امن اور سلامتی رہی ہے۔”
یوکرین کے رہنما نے روس پر نئی پابندیوں کو روکنے پر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ زیلنسکی نے کانفرنس سے پہلے اپنے تبصروں میں یوکرین کو فوری طور پر نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے مغرب کے انکار پر بھی سوال اٹھایا۔
پیوٹن نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو یوکرین کو رکن کے طور پر نہ لے۔ ہیرس پابندیوں کو روکنے کے امریکی فیصلے پر قائم ہیں لیکن کہا کہ وہ زیلنسکی کی “اپنے ملک کے لیے خواہشات” کا دوسرا اندازہ نہیں لگائیں گی۔
ان خدشات کے نئے آثار میں کہ دنوں میں جنگ شروع ہو سکتی ہے، جرمنی اور آسٹریا نے اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کو کہا۔ جرمن ہوائی جہاز Lufthansa نے دارالحکومت کیف اور بحیرہ اسود کی بندرگاہ اوڈیسا کے لیے پروازیں منسوخ کر دیں جو حملے میں ایک اہم ہدف ہو سکتی ہے۔
کیف میں نیٹو کے رابطہ دفتر نے کہا کہ وہ اپنے عملے کو برسلز اور یوکرین کے مغربی شہر لویف میں منتقل کر رہا ہے۔
صدر جو بائیڈن جمعہ کو دیر گئے کہا کہ تازہ ترین امریکی انٹیلی جنس کی بنیاد پر، انہیں اب “یقین” ہو گیا ہے کہ پوٹن نے آنے والے دنوں میں یوکرین پر حملہ کرنے اور دارالحکومت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک امریکی فوجی اہلکار نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ان زمینی افواج میں سے 40 سے 50 فیصد سرحد کے قریب حملہ کرنے والی جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ اس اہلکار نے، جس نے امریکہ کے داخلی جائزوں پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا کہ یہ تبدیلی تقریباً ایک ہفتے سے جاری ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوٹن نے حملہ کر دیا ہے۔
ماسکو اور مغرب کے درمیان رابطے کی لائنیں کھلی رہیں: امریکی اور روسی دفاعی سربراہوں نے جمعہ کو بات کی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اتوار کے روز یوکرائنی صدر سے فون پر تقریباً دو گھنٹے تک پوٹن سے بات کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اگلے ہفتے ملاقات پر اتفاق کیا۔
پیلوسی کا کہنا ہے کہ پوٹن یوکرین کے حملے کے بغیر بھی ادائیگی کرے گا: آپ ‘دنیا کو دھونس اور سیر نہیں کر سکتے’
فوری طور پر تشویش مشرقی یوکرین پر مرکوز ہے، جہاں یوکرین کی افواج 2014 سے روس نواز باغیوں سے اس تنازع میں لڑ رہی ہیں جس میں تقریباً 14,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یوکرین اور علیحدگی پسند رہنماؤں نے کشیدگی میں اضافے کے الزامات کی تجارت کی۔ روس نے ہفتے کے روز کہا کہ مشرقی یوکرین کے حکومت کے زیر قبضہ حصے سے فائر کیے گئے کم از کم دو گولے سرحد کے پار گرے، لیکن یوکرین کے وزیر خارجہ نے اس دعوے کو “جعلی بیان” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
مشرقی یوکرین میں تقریباً آٹھ سال سے جاری علیحدگی پسند تنازعے کے محاذ کے دورے کے دوران یوکرین کے اعلیٰ فوجی اہلکار گولہ باری کی زد میں آئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی کے مطابق جو دورے پر تھے۔
فوج نے اتوار کو علیحدگی پسند علاقے کی طرف جانے والی ایک اہم چوکی کو بار بار گولہ باری کی زد میں آنے کے بعد بند کر دیا۔
دوسری جگہوں پر، یوکرین کے فوجیوں نے کہا کہ وہ جوابی فائرنگ نہ کرنے کے احکامات کے تحت ہیں۔ ظہر لیشوشن، پیرسکوپ کے ساتھ فاصلے پر جھانکتے ہوئے، سارا دن ایک خندق سے خبروں کی پیروی کرتا رہا جہاں وہ زولوٹ قصبے کے قریب تعینات ہے۔
“ابھی، ہم ان کی آگ کا جواب نہیں دیتے کیونکہ…” سپاہی نے آنے والے گولے کی آواز سے روکے جانے سے پہلے سمجھانا شروع کر دیا۔ “اوہ! وہ اب ہم پر گولی چلا رہے ہیں۔ وہ کمانڈ پوسٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔”
یوکرائنی افواج کو روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں سے الگ کرنے والی لائن کے ساتھ ساتھ برسوں سے چھٹپٹا تشدد پھوٹ پڑا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں جو اضافہ دیکھا گیا ہے وہ بین الاقوامی مانیٹروں کے ذریعہ ریکارڈ کی گئی کسی بھی چیز سے زیادہ شدت کے احکامات ہیں: 24 گھنٹوں میں تقریباً 1,500 دھماکے ریکارڈ کیے گئے۔
یوکرین کے ڈونیٹسک علاقے میں روس نواز علیحدگی پسند حکومت کے سربراہ ڈینس پوشیلین نے اپنے اعلان میں یوکرین کی افواج کی جانب سے “جارحیت کے فوری خطرے” کا حوالہ دیا۔ یوکرائنی حکام نے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کے منصوبے کی سختی سے تردید کی۔
پشیلن نے کہا، “میں جمہوریہ کے تمام مردوں سے اپیل کرتا ہوں جو اپنے خاندانوں، اپنے بچوں، بیویوں، ماؤں کے دفاع کے لیے ہتھیار رکھ سکتے ہیں۔” “ہم ایک ساتھ مل کر وہ مائشٹھیت فتح حاصل کریں گے جس کی ہم سب کو ضرورت ہے۔”
Tumblr media
یوکرین کا ایک سپاہی آئینے میں جھلک رہا ہے جب وہ یوکرین- اور باغیوں کے زیر قبضہ علاقے زولوٹ، یوکرین، ہفتہ، 19 فروری 2022 کے درمیان علیحدگی کی لائن پر ایک پوزیشن پر سگریٹ پی رہا ہے۔ (اے پی فوٹو/ایوجینی مالولیٹکا)
کملا ہیریس کا کہنا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو اسے اہم اقتصادی لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا: ‘سوئفٹ اور شدید’
لوہانسک کے علاقے میں ان کے ہم منصب کی طرف سے اسی طرح کا بیان سامنے آیا۔ جمعے کو باغیوں نے ایک اعلان کے ساتھ شہریوں کو روس منتقل کرنا شروع کر دیا جو یوکرین کو جارح کے طور پر رنگنے کی ان کی اور ماسکو کی کوششوں کا حصہ تھا۔
AP نے تصدیق کی کہ علیحدگی پسندوں کی طرف سے شہریوں کو روس کے انخلا کا اعلان کرنے والی دو ویڈیوز کے میٹا ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائلیں دو دن پہلے بنائی گئی تھیں۔ امریکی حکام نے الزام لگایا ہے کہ حملے کا بہانہ بنانے کی کریملن کی کوشش میں پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیوز شامل ہو سکتی ہیں۔
یوکرین کی فوج نے کہا کہ اس کے دو فوجی ہفتے کے روز علیحدگی پسندوں کی طرف سے فائرنگ میں مارے گئے۔
مشرقی یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے علاقے روستوو میں حکام نے انخلاء کی آمد کے باعث ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔ ہفتے کے روز میڈیا رپورٹس میں کچھ کیمپوں میں افراتفری کو بیان کیا گیا جو انہیں رہائش کے لیے تفویض کیے گئے تھے۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پوتن نے روسی حکومت کو حکم دیا کہ وہ ہر انخلاء کو 10,000 روبل (تقریباً 130 ڈالر) پیش کرے، جو مشرقی یوکرین میں اوسط ماہانہ تنخواہ کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔
یوکرین کے علیحدگی پسند علاقے، جیسے ملک کے مشرقی حصے میں، اکثریت روسی بولنے والوں کی ہے۔ پوتن نے منگل کے روز ان کے تحفظ کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے وہاں “نسل کشی” کے الزامات کو دہرایا۔
انخلا کرنے والوں میں سے ایک ڈونیٹسک کا رہائشی جس نے اپنی شناخت صرف ویاچسلاو کے نام سے کروائی، اپنی حالت زار کا ذمہ دار یوکرین کی حکومت کو ٹھہرایا۔
“انہیں پرسکون ہونے دو،” انہوں نے کہا۔ “یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم یوکرینی نہیں بولنا چاہتے، کیا یہ ہے؟”
Source link
0 notes
pakistan-news · 3 years ago
Text
کوئی تو ہے جسے اب بھی فلسطین یاد ہے
’آخر عربوں نے یورپی یہودیوں کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ یہ تو جرمن عیسائی تھے جنہوں نے ان کے گھر اور جانیں ہتھیا لیں۔ جرمنوں کو اس کی قیمت ادا کرنے دیں‘۔ یہ الفاظ سعودی بادشاہ عبد العزیز نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے کہے تھے۔ کسی بھی سعودی بادشاہ اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ملاقات 14 فروری 1945ء کو نہر سوئز میں امریکی جنگی ��حری جہاز کوئنسی پر ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم اپنے انجام کے قریب تھی۔ وہ 20 ویں صدی کے وسط کی بات تھی اور اب 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں ہمیں کوئی ایسا عرب حکمران ڈھونڈنا پڑے گا جو مغربی رہنماؤں کے سامنے یہ الفاظ کہہ سکے۔ اس وقت اسرائیل ایک کے بعد ایک سفارتی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر بھی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے۔
کیا اسرائیل نے امن کے لیے عرب کوششوں کا جواب دیا ہے جنہیں معاہداتِ ابراہیمی کا پُر فریب نام دیا گیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آخر مشرق وسطیٰ کی سپر پاور اس کا جواب کیوں دیتی؟ کیا اسرائیل عسکری اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے عرب ممالک کی طرح صفر ہے؟ گزشتہ سال نومبر میں تب ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا جب اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات سے تل ابیب آنے والی پہلی مسافر پرواز کو ’السلام علیکم‘ کہہ کر خوش آمدید کہا اور انہیں بار بار اسرائیل آنے کا کہا۔ بلاشبہ پروازوں کا آنا اور سفارتخانوں کا کھلنا اسرائیل کے لیے کسی بڑی سفارتی فتح سے کم نہیں تھا اور اس کام میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی پالیسی نے بہت مدد کی۔ 14 جولائی کو متحدہ عرب امارات نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جی ہاں تل ابیب میں۔ ویسے بھی اگر امارات اپنی تمام تر حکمت اختیار کرتے ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ یروشلم میں بھی اپنا سفارت خانہ قائم کر لیتا تو فلسطینی کیا کر لیتے؟
دوسری جانب خیلج میں بھی اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپید نے ابو ظہبی میں اسرائیلی سفارت خانے کا افتتاح کیا۔ یوں متحدہ عرب امارات اسرائیلی سفارت خانہ رکھنے والا پہلا خلیجی ملک بن گیا۔ بعد ازاں دبئی میں بھی ایک اسرائیلی کونسل خانے کا افتتاح کیا گیا۔ آپ عرب حکمرانوں کے حوالے سے اسرائیل کے ہتک آمیز رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی یہ حکمران 19ویں صدی کے افریقی ایشیائی خادموں کی طرح ہیں جو اپنا اقتدار بچانے کے لیے یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے معمولی افسران کے آگے جھک جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ صیہونیوں نے عربوں کی رضامندی کو بالائے طاق ہی رکھا ہے۔ اسرائیلی رہنما شائستگی کی خاطر عارضی طور پر بھی سفارتی طریقوں کا خیال نہیں رکھتے۔ چند سال پہلے تک، اسرائیلی رہنما دو ریاستی حل پر بھی کچھ گفتگو کر لیتے تھے اور یہودی بستیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ تاہم اب اسرائیلی قیادت خلیجی رہنماؤں کی فرمانبرداری کے بارے میں اس قدر پراعتماد ہے کہ اسے سفارتی دوغلے پن کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔   اگست میں امریکی صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل مزید بستیاں تعمیر کرے گا اور 1967ء میں قبضہ کیے گئے علاقوں پر کسی فلسطینی ریاست کے ��یام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بیان پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ایک ہزار نئی بستیوں کی تعمیر کے ٹینڈر جاری کر دیے۔ اسرائیل کے اس اقدام پر بائیڈن انتظامیہ کو بھی امریکا میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی کے خلاف جاتے ہوئے یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ مشرقی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ امریکا نے تو یہ بیان جاری کر دیا لیکن اسرائیل کے نام نہاد عرب اتحادیوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں آیا۔ اسرائیل نے اپنے عرب دوستوں کا اصل امتحان تو مئی کے مہینے میں لیا جب اس نے 11 دنوں تک غزہ میں تباہی مچائے رکھی اس دوران رہائشی اور کاروباری عمارتوں کو زمین بوس کیا گیا۔ 
ان میں ایک ایسی عمارت بھی شامل تھی جس میں میڈیا (بشمول الجزیرہ) کے دفاتر بھی موجود تھے۔ اسرائیلی حملوں میں 39 خواتین اور 66 بچوں سمیت تقریباً 250 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران اسرائیل نے اوسطاً 25 منٹوں میں 125 بم گرائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا عرب ریاستوں کی مشترکہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا جس کا ثبوت اسرائیل، امریکا اور دو خلیجی ریاستوں یعنی بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے گزشتہ ماہ بحیرہ احمر میں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقیں ہیں۔ اسرائیلی بحریہ کے ایک ترجمان کے مطابق ان مشقوں کا مقصد خلیج میں ایران کی جانب سے طاقت کے بڑھتے ہوئے اظہار کا مقابلہ کرنا تھا۔ اگر عرب ریاستوں نے فلسطین کو بھلا دیا ہے تو کوئی ہے جسے اب بھی فلسطین یاد ہے۔ شاید یہ سننے میں عجیب لگے لیکن اینجلا مرکل نے بطور جرمن چانسلر اپنے آخری دورہ اسرائیل میں میزبانوں کو یہ یاد دلوایا کہ انہیں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
ایک اسرائیلی تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے مرکل کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارتی اقدامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ ہمیں فلسطینیوں کے لیے زندگی گزارنے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے کسی بھی صورت میں دو ریاستی حل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے پھر چاہے نئی بستیوں کی تعمیر سے یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو جائے‘۔ تو کیا اب کوئی عرب ریاست جرمنوں کی مدد کرے گی؟
محمد علی صدیقی   یہ مضمون 12 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes