Tumgik
#ثریا
30ahchaleh · 3 months
Text
Tumblr media
‌.
چون گذارد خشت اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج
( از صائب تبریزی )
.
چرا چون معیارِ خشت دوم ، خشت اول است ، پایه و اساس بنایی که بر اساس گذشته چیده میشود در همان راستا جلو میرود اما اگر معیار شاقول باشد و نه پیشینیان آنوقت قانون اصلاح به کمک کج بودن ها میآید
پس مهم نیست خشت اول یا هر خشت دیگری در هر مرتبه‌ای کج هست یا راست مهم آن است که معیار خشت بعدی بر چه اساس هست
خوشبختانه علمیون به این اصل رسیده‌اند که در اصلاح فهمشون تعصب نداشته باشند
⭐واقعیتگرایی
بیاید شاعرانه یا آزمایشگاهی فکر نکنیم آنوقت میدانیم بسیار بسیار سخت میتوان از انحراف در مقیاس ریز اجتناب کرد و این خودش را در اهداف کلان به خوبی نشان میدهد
یعنی بالاخره همه چی پس از مدتی منحرف میشود مگر آنکه پس از دوره‌ای هر چیدمانی ، توجه کنید هر چیدمانی بنا به شاقول ـش اصلاح شود
مثلا این قانون در پرتاب فضاپیماها برای رسیدن به اهداف خیلی دور اعمال میشود و به آن اصلاح موقعیت میگویند
.
میتوان در زندگی از (قانون اصلاح) اینگونه بهره برد که برای رسیدن به اهداف دور یا بزرگ ، باید اهداف نزدیک‌و دست یافتی یا همان کوچکتر علامت گذاری شود تا اینگونه متوجه درست پیمودن مسیر بشویم
شاقول نگاهت به دور که "همان هدف" هست باشد ولی قدم‌هایت را خـُرد خـُرد بردار
.
اگر قرار بود در طبیعت ، معیار ، "خشت اول" باشد هرگز تکامل رخ نمیداد شاقول طبیعت ، بهینه زندگی کردن است بنابراین خشت بعدی بر آن مبنا گذاشته شد و اصلاح رخ داد چنانکه میتوان به این نتیجه رسید که
تکامل ، نتیجه انحراف هست
یا
اصلاح انحراف از بهینه زندگی کردن ، تکامل است
خلاصه آنکه
چیدن = Picking & Putting
تکامل در طبیعت
یعنی "چـ😏ـیدن" براساس بهینه زندگی کردن
.
یکی از نتایج این بحث آنستکه متوجه میشویم چرا باید برای فهمیدن یا دانستن یا حس کردن مسائل کلان یکی از اصول آن این باشد که آنرا باید خـُرد خـُرد دریافت کرد
.
گفتم (یکی) چون قانون هضم با قانون اصلاح فرق دارد
در هر دو قانون ما نیاز به خـُرد کردن داریم
در اصلاح ، مسیر را
و
در هضم ، مسئله را
.
فاز دو ی رستگاری در کائنات :
الف : دانستن قوانین کائنات و پیامدهای آن
ـ( قوانین کائنات و پیامدهای آن کلان هستند )ـ
ب : به تکامل رساندن قانون الف
ـ( برای دانستن یک قانون کلان باید آنرا قسمت به قسمت دریافت کرد یک دفعه نمیشود ، این خودش از قانون هضم و قانون اصلاح تبعیت میکند )ـ
END
۰
Photo made by:
پ.ن : عکس این پـُست درخواستی بود از همکار این روز های مـ😅ـن
DALL·E 3. For @30ahchaleh
در عکس ، "شاقول" تعادل است نه کج و راستی سنگ اول
.
.
.
1 note · View note
sina-ahmadi-niat · 4 months
Text
🏆 Obtaining #3rd national rank 🥉 in the fifth #event of digital content production all over the country, #Khorasan_Razavi team (ICE Rose Studio) named #Fatihan_Soriya - March 2024 🏆 کسب رتبه سوم کشوری 🥉در پنجمین رویداد تولید محتوای دیجیتال سراسر کشور ،توسط تیم خراسان رضوی (ICE Rose Studio) با نام فاتحان ثریا سرنوشت این بود که حضرت رقیه(سلام الله) به واسطه «بازی سارا» 7 ساله، این جایزه را در دستان من، سینا و سیدجواد حسینی عزیز قرار دهد
1 note · View note
urduchronicle · 7 months
Text
ثریا بی بی چترال سے جنرل الیکشن پر جیتنے والی پہلی خاتون
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے اپر چترال سے پہلی بار خاتون امیدوار جنرل نشست پر کامیاب ہوگئیں۔ آزاد امیدوار ثریا بی بی نے صوبائی حلقے پی کے ون اپر چترال سے 18 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے جمعیت علما اسلام  کے امیدوار کو شکست دی۔ ثریا بی بی چترال کی تاریخ کی پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے جنرل نشست پر انتخاب جیتا۔ ثریا بی بی کی جیت پر علاقے میں جشن کا سماں ہے جب کہ صوبے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
aiklahori · 1 year
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، ��و کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار ��رس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کر��ے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
abbasnawazish · 2 months
Video
جمشید مشایخی، ثریا قاسمی در فیلم سینمایی ایرانی حریف دل - Persian Movies...
0 notes
nazaninvaziri · 3 months
Text
Tumblr media
Calligraphy painting
The ISTANBUL Collection
Calligraphic text:
‎‏AYNI ŞEHIRDE
SEN VARSIN ,
BEN VARIM ,
BIZ YOKUZ
“CEMAL SÜREYA”
‎شهری که هم تو هستی
هم من
ولی ما نیستیم
‎جمال ثریا
Acrylic & gold sheet on canvas
90 × 90 cm
2021
1 note · View note
persian-carpet-blog · 6 months
Text
سفارش سجاده فرش
در جستجوی لحظاتی از آرامش و زیبایی در محیط مسجد انتخاب صحیح سجاده فرش برای فضای زندگی ما مهم است. اما نه هر فرشی، نه هر طرحی می‌تواند این احساس را به ما منتقل کند. در این راستا، فرش سجاده ای کاشان به عنوان یکی از شاهکارهای هنری فرش با تاریخی عمیق، نه تنها زیبایی و آرامش را به فضای زندگی ما می‌آورد بلکه بازتاب فرهنگ و تاریخ خاص خود را نیز با خود به همراه دارد.
پیش درامد:
سفارش سجاده فرش کاشان یکی از نمونه‌های بارز هنر فرش‌بافی ایرانی است که از دیرباز تاکنون جایگاه ویژه‌ای در صنایع دستی و هنرهای تزیینی دنیا دارد. شهر کاشان، با تاریخچه‌ای گنج و بلند در فرش‌بافی، به عنوان یکی از قطب‌های اصلی تولید فرش مسجد و نمازخانه معروف است. این فرش‌ها با ترکیب رنگ‌های زیبا، طرح‌های هنری و کیفیت بافت بی‌نظیر، توانسته‌اند جایگاهی ویژه در بازار جهانی فرش‌های دستبافته را به خود اختصاص دهند.
Tumblr media
اولین اقدام انتخاب کارخانه برای سفارش سجاده فرش
سفارش فرش سجاده برای مساجد و فضاهای مذهبی اسلامی، به عنوان یک نماد مهم، نقش بسیار اساسی در ایجاد ارتباط عمیق با نمازگزاران دارد. از این رو، هیأت‌های امنای مساجد و بانیان خیر با دغدغه بهبود فضاهای مذهبی خود، به دنبال سفارش سجاده فرش با کیفیت و مناسب هستند.
در مقاله، تأکید شده است که انتخاب یک کارخانه تولیدی با تاریخچه قوی و شهرت در تولید فرش مسجدی از اهمیت بالایی برخوردار است. این انتخاب می‌تواند باعث اطمینان از کیفیت محصولات شود. مسئولان مساجد، با انجام تحقیقات حضوری یا غیرحضوری، می‌توانند به انتخاب یک واحد تولیدی باتجربه و با کیفیت برسند.
پس از انتخاب کارخانه، مرحله بعدی مقاله به انتخاب مدل و طرح فرش سجاده ای می‌پردازد. این انتخاب باید با معماری و سلیقه محل عبادت سازگار باشد تا به ایجاد یک فضای مطلوب و متناسب با فرهنگ و مذهب مردم کمک کند. در نتیجه، مقاله به مسئله اهمیت انتخاب کارخانه و طرح مناسب فرش نماز برای فضاهای مذهبی پرداخته و این موضوعات را از زوایای مختلف بررسی می‌کند.
برای سفارش سجاده فرش چه مراحلی باید طی شود؟
این مقاله تأکید دارد که فرآیند خرید فرش سجاده کاشان مستقیم از کارخانه، نه‌تنها موجب کاهش هزینه‌ها می‌شود بلکه اطمینان از کیفیت و اصالت محصول را نیز فراهم می‌کند. در زیر به برخی از نکات کلیدی این مقاله اشاره می‌شود:
کاهش هزینه‌ها: انتخاب خرید مستقیم از کارخانه و سفارش سجاده ای مسجد از طریق حذف واسطه‌ها و لایه‌های واسطه‌ای، موجب کاهش هزینه‌های نهایی می‌شود. این موضوع می‌تواند به مسئولان مساجد کمک کند تا منابع خود را به‌شکل بهینه‌تری مدیریت کنند.
ارتقاء کیفیت: کارخانه‌های تولیدکننده، معمولاً دارای تجهیزات پیشرفته و تخصصی هستند که می‌توانند بهبود کیفیت محصولات را تضمین کنند. این انتخاب به مسئولان اماکن مذهبی امکان می‌دهد تا از فرش سجاده ای محرابی با کیفیت و متناسب با نیازهایشان بهره‌مند شوند.
انعطاف‌پذیری در طراحی: خرید مستقیم فرش نماز از کارخانه، به مسئولان اماکن مذهبی امکان می‌دهد تا طراحی‌های مختلف و تنوع در رنگ‌ها و الگوها را بررسی و انتخاب کنند. این انعطاف‌پذیری با معماری و سلیقه محل عبادت سازگاری بیشتری دارد.
حفظ اصالت محصول و پشتیبانی: انتخاب خرید فرش ماشینی مسجدی مستقیم از کارخانه، به معنای اطمینان از اصالت و اصلی بودن محصول است. همچنین این انتخاب می‌تواند با خدمات پشتیبانی بهتری همراه باشد که در صورت نیاز به خدمات پس از فروش یا تعمیرات، به‌شکلی مؤثرتر و سریع‌تر به مسئولان مساجد خدمت بدهد.
این مقاله به ویژگی‌ها و مزایای سفارش سجاده فرش از کارخانه به طور جامع می‌پردازد و به مسئولان مساجد و نمازخانه‌ها کمک می‌کند تا تصمیم بهتری در خرید فرش‌های مذهبی خود بگیرند.
Tumblr media
انتخاب رنگبندی و طرح در سفارش فرش سجاده ای مسجدی
در زیر به برخی از نکات مهم این مقاله اشاره می‌شود:
هماهنگی با محیط مذهبی: انتخاب رنگبندی و طرح در سفارش سجاده فرش باید با معماری و دکوراسیون مکان مذهبی هماهنگ باشد. این امر به متولیان مساجد و حسینیه‌ها کمک می‌کند تا با ایجاد هماهنگی مناسب، فضایی ارامش‌بخش و متناسب با فضای عبادی ایجاد کنند.
تنوع طرح‌ها: شرکت ثریا کویر کاشان با تنوع فراوان در طرح‌ها، از طرح‌های کلاسیک گل‌ها گرفته تا طرح‌های هنری و نوآورانه، امکان انتخاب طرح مناسب برای هر سلیقه و سبک دکوراسیونی را فراهم می‌کند. این تنوع، به متولیان اماکن مذهبی این امکان را می‌دهد تا بر اساس نیاز خود بهترین گزینه را انتخاب کنند.
رنگبندی: رنگ فرش سجاده کاشان نیز از جنبه‌های مهم در تعیین زیبایی و جذابیت آن است. رنگبندی‌های زمینه برای فرش مسجدی بیش‌تر در حول سه رنگ آبی فیروزه‌ای، سبز یشمی و قرمز روناسی حرکت می‌کند که این انتخابها بر اساس ذوق مردم و تطابق با فضای عبادی انجام می‌شود.
این مقاله به مسئله اهمیت انتخاب طرح و رنگ در سفارش فرش نمازخانه ای با توجه به محیط مذهبی پرداخته و مزایای انتخاب مناسب طرح و رنگ را برای فضاهای عبادی توضیح می‌دهد.
سفارش سجاده فرش کاشان با انتخاب جنس نخ
انتخاب جنس نخ: جنس نخ یکی از عوامل حیاتی در تعیین کیفیت و دوام فرش مسجدی است. این مقاله به بررسی دو نوع جنس نخ پلی استر و اکری��یک می‌پردازد و بیان می‌کند که جنس نخ اکریلیک به دلیل ویژگی‌های منحصربه‌فرد خود، گزینه‌ای برجسته برای سفارش سجاده فرش است. این ویژگی‌ها شامل مقاومت در برابر فشار و نرمی می‌شود.
تعداد شانه: تعداد شانه یکی دیگر از عوامل مهم در ارزیابی کیفیت فرش مسجد است. مقاله به بررسی دو گزینه پرفروش در بازار که شامل ۷۰۰ شانه و ۵۰۰ شانه است، می‌پردازد. این دو نوع فرش نماز دارای مقاومت و دوام بالا بوده و همچنین با دقت و هنر در بافت، زیبایی خاصی را به آن‌ها می‌بخشد.
میزان تراکم: تراکم نیز از جمله موارد مهم در سفارش سجاده فرش است. مقاله به بررسی اهمیت تراکم در احساس نرمی، ضخامت و پایداری فرش مسجدی می‌پردازد. با توجه به نیازهای مساجد و نمازخانه‌ها، تراکم بالا به عنوان یک مزیت مهم مطرح می‌شود.
این مقاله به مسئله انتخاب نخ و شانه در سفارش فرش سجاده ای کاشان از جنبه‌های مختلف به‌صورت جامع پرداخته و به متخصصان و مسئولان مساجد کمک می‌کند تا تصمیمات بهتری در انتخاب فرش‌های مذهبی خود بگیرند.
گام آخر در راستای سفارش فرش مسجد و نمازخانه
در این مرحله، پس از تعیین متراژ دقیق و هزینه‌ی تولید، نوبت به مرحله پیش‌پرداخت می‌رسد. این پیش‌پرداخت جهت تضمین نهایی شدن سفارش سجاده فرش و شروع فرآیند بافت انجام می‌شود.
در این مرحله، مبلغ تعیین شده به‌عنوان پیش‌پرداخت باید به حساب شرکت واریز شود. اطلاعات حساب بانکی به مشتری اعلام می‌شود و با انجام این مرحله، فرآیند تولید فرش سجاده آغاز می‌شود. این اقدام از جانب مشتری، نشان دهنده تعهد و جدیت در انجام سفارش است و به شرکت تولیدی اطمینان می‌دهد که مشتری برای دریافت محصول آماده و قادر به پرداخت هزینه‌های مربوطه است.
پس از اتمام فرآیند بافت فرش مسجد مرحله بعدی ارتباط با خریدار است. در این مرحله، با تماس با خریدار، هماهنگی‌های لازم برای ارسال و نصب فرش صورت می‌گیرد. این اطمینان از ارتباط مداوم با مشتری و تنظیم هماهنگی‌های لازم جهت تحویل محصول نهایی است که از جانب شرکت تولیدی انجام می‌شود.
به طور کلی، این مقاله به مراحل آخرین گام در فرآیند سفارش و تولید فرش محرابی سجاده ای پرداخته و اهمیت پیش‌پرداخت و هماهنگی با مشتری را برای رسیدن به محصول نهایی بیان می‌کند.
0 notes
mohajer1 · 7 months
Text
‍ دیر شد. اونقدر منتظر موندیم و نشد و نیومد و درست نشد که دیگه واقعا دیر شد. جمال ثریا میگه:
چنان تنهایی درونمان بزرگ شده است
که آن‌ زمانی که دوست‌ داشته شدن را
انتظار کشیده‌ایم،
منتظر ماندن را دوست داشته‌ایم...
0 notes
bazmeur · 10 months
Text
سید نصیر حسین خاں خیال ۔۔۔ ارشد مسعود ہاشمی
سید نصیر حسین خاں خیال ارشد مسعود ہاشمی ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل ای پب فائل کنڈل فائل …..کتاب کا نمونہ پڑھیں خیال کا عظیم آباد کسی زمانے میں دولت مآب تھا پٹنہ پسند خاطر ہر شیخ و شاب تھا پٹنہ فلک شکوہ ثریا جناب تھا پٹنہ نجوم شہر تھے سب آفتاب تھا پٹنہ جہاں میں عزت و شوکت کی اس سے تھی بنیاد عظیم آباد تھا اک وقت میں عظیم آباد (’’یاد عظیم آباد‘‘، سید علی محمد شاد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kokchapress · 11 months
Text
چگونه ترکیه از شر پناهندگان ناخواسته خلاص می شود
گزارش از ثریا نذری در حالی که ترکیه از هوا به مناطق کردنشین عراق و شمال شرق سوریه حمله می کند و افراد بیشتری را مجبور به فرار می کند، عضو ناتو اتحادیه اروپا همچنان به عنوان کشور سوم امن برای پناهندگان در نظر گرفته می شود. نانسی فایسر، وزیر کشور ترکیه در جریان سفر دولتی خود در پایان نوامبر از همکاری مقامات امنیتی آلمان و ترکیه در مبارزه با “جنایت سازمان یافته” و “مهاجرت غیرقانونی” ستایش کرد و تنها…
View On WordPress
0 notes
beh-music · 1 year
Photo
Tumblr media
دانلود قسمت اول سریال تاریخی سیاسی خانوادگی سرزمین کهن
سریال سرزمین کهن قسمت 1 با لینک مستقیم
با حضور ستارگان مطرح سینما و تلویزیون
  درباره ی سریال :
سرزمین مادری با نام اولیهٔ سرزمین کهن، یک مجموعه تلویزیونی ایرانی به کارگردانی کمال تبریزی و نویسندگی علیرضا طالب‌زاده محصول سال ۱۳۹۲ است که به بررسی وقایع سیاسی ایران از سال ۱۳۲۰ خورشیدی تا وقوع انقلاب ۱۳۵۷ در بستر زندگی پسری نوجوان می‌پردازد. کمال تبریزی آثار جنجالی ای همچون لیلی با من است و مارمولک را کارگردانی کرده که هر کدام نسبت به زمانه خود، دید متفاوتی به جریان جامعه داشتند. این کارگردان در تلویزیون یکی از معروف‌ترین سریال‌های زندگینامه‌ای به نام شهریار را کارگردانی کرده و در سال ۱۳۸۷تا ۱۳۹۲ دست به ساخت سریالی تاریخی و جنجالی به نام سرزمین کهن زد.
خلاصه داستان :
این مجموعه به بررسی تاریخ سیاسی-اجتماعی ایران از سال ۱۳۲۰ تا پیروزی انقلاب ۱۳۵۷ ایران در بستر زندگی یک پسربچه می‌پردازد که در قالب سه فصل برای پخش آماده شده‌است. در فصل اول سریال، کودکی رهی (با بازی علی شادمان) که شخصیت اصلی سریال است به تصویر کشیده می‌شود. رهی بعد از بمباران دهکده محل سکونت‌شان توسط نیروهای متفقین، از زیر آوار بیرون کشیده می‌شود. پس از چند روز مراقبت توسط مادرش راهی تهران می‌شود. سال‌ها بعد او (بزرگسالی رهی با بازی شهاب حسینی) در یک خانواده توده‌ای بزرگ می‌شود، اما بر اثر به وقوع پیوستن ماجراهایی او به یک خانواده درباری سپرده می‌شود. در این خانواده است که او رفته رفته به هویت خود پی می‌برد. همین باعث می‌شود به یک خانواده دیگر که مذهبی هستند، سپرده شود، اما این پایان ماجراهای او و اطرافیانش نیست…
  کارگردان : کمال تبریزی
با هنرمندی : شهاب حسینی، جواد عزتی، بابک حمیدیان، الهام حمیدی، امیر آقایی، علی شادمان، نیکی کریمی، محمدرضا فروتن، محسن تنابنده، پژمان بازغی، شبنم قلی‌خانی، ثریا قاسمی، مرحوم پرویز پورحسینی، حسین محجوب، فرهاد قائمیان، هنگامه قاضیانی، حسن پورشیرازی، جعفر دهقان، فرشته صدرعرفایی، علیرضا خمسه، میترا حجار، رضا کیانیان، هومن سیدی، سام درخشانی، سعید راد، لیلا زارع، مهران رجبی، ترلان پروانه، ارسلان قاسمی، پریوش نظریه، حسین مهری و …
  منبع :
دانلود قسمت اول سریال سرزمین کهن ۱
0 notes
mehdioloumi · 1 year
Text
هدیه
بفرستید برای ثریا یادگاری از طرف طائب بگویید آخرین سیگارش را نیز با فندکی که او برایش هدیه گرفته بود، روشن کرد. بفرستید برای فائزه یادگاری از طرف محمود بگویید تمام نامه هایش را با همین خودنویس می نوشت. بفرستید برای فاطمه یادگاری از طرف جلال بگویید عاشق این دستکش ها بود که تو برایش بافته بودی. حتی امروز که نیمه تابستان است آنها را با خود در کوله اش داشت. میگفت قلب عاشق به سرخی رنگ این دستکشها می…
View On WordPress
0 notes
makesite4seo · 2 years
Photo
Tumblr media
تو زندگی من هیچ چیز مهمتر از حفظ شخصیت ام نیست، زمانی نچندان دور شهرت زیادی داشتم ولی از درون تهی بودم، آنقدر خوندم،دیدم،نخوابیدم و امروز خیلی از خودم راضی ام، اصلا کلا از خود راضی ام، چون هم درون تهی رو از بین بردم و نه در ایران در بسیاری از کشورها سرشناس شدم و پیشنهاد همکاری زیادی دارم ،نه کشورهای ضعیف، آخریش از انگلیس بود که رد کردم، من تا روزی که زنده ام کارمند کسی نمیشم و این رو مدیون شخصیتم هستم 🥂 #زندگی #تلاش #دستفروشی #کوشش #امید #شکست #شکست #شکست #موفقیت #رضایت #عشق_به_خود #عشق_به_کار #پیج_اینستاگرام_خشایار #اکسپلور #جملات_ناب #دیالوگ_ماندگار اگر می خواستم به تعداد شکست هایی که خوردم هشتگ بزنم تا ثریا باید میزدم و یه چیزی رو خیلی دوست دارم در شخصیت ام، اینکه شبیه توپ هستم، هرچی محکم‌تر زمین میخورم بالاتر میرم 😤 https://www.instagram.com/p/Cn-OIThjLnh/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
gamekai · 2 years
Text
فرقت کاکوروی :داغ مفارقت کوکہاں تک نہ روئیے
رانا ثریا ؔ ظرافت نگاری ایک مشکل فن ہے ذرا سی لغزش سے ظرافت ابتذال تک پہنچ جاتی ہے ۔ فرقت کاکوروی ظرافت اور متانت میں توازن رکھنے کا خاصی سلیقہ تھا ۔ وہ نہ صرف شوخ طبع تھے بلکہ نکتہ فہم اور نکتہ سخن بھی تھے ان کی شہرت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تھی ۔ غرضِ فرقت صاحب بلاشبہ طنز ومزاح کے دریا کے عظیم شناور تھے ۔ وہ تحریر میںسادگی اور لوچ سے کام لیتے تھے۔ایک بیٹی کے لیے اپنے والد کے بارے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shahzamani1357 · 2 years
Photo
Tumblr media
مردم تهران در طول دوره سلطنت محمد رضا پهلوی در رنج و عذاب ناشی از کمبود امکانات بهداشتی به‌سر می‌بردند   به عنوان نمونه ثريا اسفندياري، همسر دوم محمدرضا پهلوی در خاطراتش می‌گوید: در سال 1333، در تهران فقط يك بيمارستان دولتي وجود دارد كه آن هم فاقد اتاق عمل است. يك بيمارستان هم برای مادران فقير و فرزندانشان پيش‌بينی شده كه از پنج سال پيش تا حالا، فقط شالوده‌ آن را ريخته‌اند. او در ادامه خاطرات خود می‌‎افزاید: در سال 1333، از يک پرورشگاه، بدون اطلاع قبلی بازديد می‌كنم و بچه‌هايی را می‌بينم كه تمام بدنشان پوشيده از چرک و دمل است. ثریا اسفندیاری این وضعیت را به خانه مرگ تشبیه می‌کند و می‌نویسد: میزان مرگ و مير اين خانه‌ مرگ به‌مراتب بيشتر از خانه‌ سالمندان است.   #شاه #پهلوی #برانداز #ولیعهد #ساواک #آریامهر #رضاشاه #سلطنت #رضاخان #شاهنشاه #ثریا_پهلوی #فرح_پهلوی #محمدرضا_شاه #محمدرضا_پهلوی #شهبانو_فرح_پهلوی #شاهزاده_رضا_پهلوی #mohammadreza_pahlavi #mohammadreza_shah #Reza_pahlavi #rezapahlavi #Reza_shah #pahlavi #shahzamani_1357 @shahzamani_1357 https://www.instagram.com/p/CmhWb6poFHp/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes