#بدترین فیصلہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
ٹر مپ کو غیر قانونی احکامات سے کیسے روکیں، پینٹاگون میں غور وفکر شروع
واشنگٹن (آئی این پی ) نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے غیرقانونی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے، اس کے علاوہ امریکی اسٹبلشمنٹ سے اپنے مخالفین کو فارغ کرنیکا بھی فیصلہ کیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق محکمہ دفاع پینٹاگون اہلکار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم بدترین صورتحال کے لیے تیاری کر رہے ہیں لیکن فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا،قانون عسکری حکام کو غیر قانونی…
0 notes
Text
بنگلہ دیشی طلبہ کا سول نافرمانی تحریک چلانے کا اعلان
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو مظاہرین پر کیے گئے پولیس کریک ڈاون کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب بنگلہ دیشی طلبہ نے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی ریلیاں نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سول سروس کے ملازمین کے کوٹے کے خلاف ریلیوں نے جان لیوا فسادات کو جنم دیا تھا۔ ان فسادات کی وجہ سے حسینہ واجد کے 15 سالہ دور کی بدترین…
0 notes
Text
شہباز شریف کی کمزور مخلوط حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
نو منتخب وزیراعظم نے اقلیتی حکومت جوکہ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ہے، کے لیے جرات مندانہ اہداف طے کر لیے ہیں۔ انہوں نے خطرات کے پیش نظر ملکی حالات کو بہتر کرنے کا عزم کیا ہے۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا عہد ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسری بار برسرِاقتدار آئے ہیں۔ تاہم اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویشناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 8 فروری کے عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات، نئی حکومت کے لیے اچھا آغاز نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی، وہ ملک میں بگڑتے ہوئی سیاسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی استحکام حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے جو اس وقت ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ ماحول میں شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت کی کال کا کسی نے مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ خواتین سمیت سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں قید ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے جس نے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے ابھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کی تشکیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزارتوں پر اتحادیوں کے ساتھ اب بھی کچھ مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے تمام چھ اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اس مشکل وقت میں پرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی سے زیادہ امید نہیں کہ حکومت ڈیلیور کر پائے گی۔ بلاشبہ اصل فیصلہ بڑے بھائی نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا؟ اگرچہ ’معاشی گرو‘ کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی کے امکانات کم ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر اس دوڑ سے باہر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بطور وزیرِخزانہ ان کی واپسی ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بری خبر ہو گی۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی کرسی کے لیے ان کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جا سکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ��رین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔
قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہو گی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔ شہباز حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہو گا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کر دی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے سخت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ مذاکرات میں ان کی براہِ راست شرکت کی۔ ایسے میں اسحٰق ڈار کی واپسی کا کوئی بھی امکان تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔
ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں، ایسے میں بہت کم امید ہے کہ ان کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ایسی حکومت جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات ہوں، ملک میں وہ استحکام نہیں لا سکتی جس سے حالات میں بہتری آسکے۔
زاہد حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایک��پریس نیوز
0 notes
Text
کون کس سے فریاد کرے
پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔
سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔
حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔
لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔
میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔
جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔
سلمان عابد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
#Economic crisis#Economy#Pakistan#Pakistan Economy#Pakistan Nation#Pakistan poverty#Pakistan Society#World
0 notes
Text
🌹🌹 *ꓕSՈꓤꓕ ƎHꓕ NꓤՈꓕƎꓤ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RETURN THE TRUST*
*The Quran urges, “O people, pay the trust to the trustees.”*
(Quran 4:58)
*This Quranic command relates to the whole of life.*
One form of trust is that if one has another’s property as a trust, it is obligatory for them to deliver it to its owner.
In the same way, a teacher of a school is also a trustee, and the students are in his trust.
The teacher must understand his responsibility and should not neglect the rights of the students entrusted to him.
In the same way, when a person becomes the ruler of a country, that country has come under his trust and he has become its trustee.
*In such a case, the ruler must fulfill the expectations of the people.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *"امانت داری" :*
*قرآن مجید میں "اللہ سبحانہ وتعالی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔"*
(قرآن 4:58)
*اس قرآنی حکم کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے معاملات سے ہے۔*
*"امانت داری"* کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دوسروں کی جائیداد، روپیہ پیسہ اور زیورات بطور امانت ہوں، تو اسے *ان کے مالکان تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔*
اسی طرح اسکول کا استاد بھی امانت دار ہوتا ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہوتے ہیں۔
اس لیے استاد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے سپرد طلبہ کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، جب کوئی شخص کسی ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان کاحکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) بنتا ہے، تب وہ ملک، تنظیم، دفتر اور افراد خاندان اس کی امانت میں ہوتے ہیں اور وہ ان کا امانت دار بن جاتا ہے۔
*اس صورت میں حکمران ( نگراں ، ذمہ دار ) کو اپنے زیر دست لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *امانت داری* 🍂
*دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے* ، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک *“ امانت داری “* بھی ہے۔
اسلام میں *امانت داری* کی بڑی اہمیت ہے۔ *اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :" بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو۔"*
🍂 *رسولُ اللہ ﷺ اور امانت داری :*
*رسولُ اللہ ﷺ کی ز ندگی امانت داری کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔*
🍂 *قابلِ تعریف افراد :*
*جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔*
*رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ [یعنی ایمان کا مل نہیں]*
🍂 *امانت داری کا وسیع مفہوم :*
*آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صر ف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دی��ا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔*
*اللہ پاک اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰة دینا ، حج کرنا ، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان ، آنکھ ، کان ، ہا تھ وغیرہ بھی اللہ پاک کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانت داری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا ، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا ، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔*
🍂 *ہم اور امانت داری :*
*جس طرح آج ہمارے معاشرے میں دیگر کئی اچھائیاں دَم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فُقدان نظر آتاہے۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔ گویا معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ بُرائی کو اچھائی اور اچھائی کو بُرائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔*
🍁 *اللہ پاک ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ایک امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔*🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
نیا جام صادق یا سانجھے کی ہانڈی؟ سیاسی لڑائی کس کروٹ بیٹھے گی
کھیل کا میدان گلی محلے کا ہو یا ملکی اور عالمی سیاست کا ۔۔۔ اصول، قاعدے، چالیں، چالاکیاں کم و بیش ایک جیسے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بات حال ہی میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے مابین پیدا ہونے والے نئے تنازعہ کو دیکھنے کے بعد یاد آئی۔ سال 2021 کی آخری سہ ماہی میں جب عمران سرکار کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے یکجا ہوکر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تو ماضی کے بدترین حریف عمران خان کے مقابلے میں ایسے…
View On WordPress
0 notes
Text
مصر کا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو شہریت دینے کا اعلان
مصر نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی ناقابل واپسی سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری اخبار الاحرام کے مطابق وزیراعظم م��طفیٰ مدبعولی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ درخواست گزاروں کو 4 شرائط پر مصر کی شہریت دیں گے۔
مصری حکومت کی اعلان کردہ 4 شرائط درج ذیل ہیں۔
مصر میں 3 لاکھ ڈالر کی جائیداد خریدیں، ساڑھے 3 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں، مصر کے کسی بینک اکاؤنٹ میں 5 لاکھ ڈالر جمع کروائیں یا سرکاری خزانے کے غیر ملکی ریونیو میں ناقابل واپسی ڈھائی لاکھ ڈالر کی رقم جمع کروائیں۔
مصر کی طرف سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے یہ نئے اقدامات ہیں۔
واضح رہے کہ مصر میں اس وقت ڈالر کی شدید قلت ہے اور وہ بدترین مہنگائی سے نبرد آزما ہے۔
2018 میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت غیر ملکی افراد 4 لاکھ ڈالر یا 70 لاکھ مصری پاؤنڈ جمع کروانے کے عوض مصر کی شہریت کیلئے اہل قرار دیے گئے۔
لیکن اب وزیراعظم نے شرط رکھی ہے کہ ڈپازٹ صرف ڈالر میں ہونا چاہیے کیونکہ ملک میں ڈالر کا بحران جاری ہے۔
قاہرہ کے زر مبادلہ ذخائر 34.35 ارب ڈالر ہیں جس میں سے 28 ارب ڈالر امیر خلیجی ممالک کی طرف سے ڈپازٹ کروائے گئے ہیں۔
یہ خلیجی ممالک مصر کے کئی سرکاری اثاثے خریدنا چاہتے تھے لیکن وہ معاملات اس لیے طے نہیں پائے کیونکہ کرنسی مستقل روبہ زوال ہے۔
ایک سال میں مصری پاؤنڈ کی قدر آدھی رہ گئی ہے، مہنگائی کی شرح 26.5 ہوچکی ہے۔
پچھلے سال کے آخری ایام میں آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا جو 46 مہینوں میں دیا جانا تھا۔
from Blogger https://ift.tt/aFgf2uS via IFTTT
1 note
·
View note
Text
ترک حکام کی مصروفیات، وزیراعظم کا دورہِ ترکیہ منسوخ
ترک حکام کی مصروفیات کی وجہ سے وزیراعظم میاں شہبازشریف کا دورہِ ترکیہ منسوخ ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نےکل ترکیہ روانہ ہونا تھا تاہم ترک حکام کی مصروفیات کی وجہ سے دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ بدترین زلزلے سے ہونے والی تباہی اور قیمتی جانی نقصان پر ترک عوام سے اظہارِ ہمدردی کے لیے وزیراعظم نے ترکیہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی وزیراعظم کے ساتھ دورہ پر…
View On WordPress
0 notes
Text
WWII کے بعد سے بدترین انسداد سیمیٹک ہجوم میں جرمنی کا فیصلہ
WWII کے بعد سے بدترین انسداد سیمیٹک ہجوم میں جرمنی کا فیصلہ
جرمنی کی ایک عدالت 2019 میں ہلے میں ہونے والے ایک مہلک دائیں طرف سے ہونے والے حملے کے بارے میں پیر کو اپنا فیصلہ سنانے والی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی ملک کے بدترین یہودی مظالم کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ 6 دسمبر کو ہونے والے ڈبلیو ڈبلیو آئی کے بم دھماکے کی وجہ سے فرینکفرٹ میں انخلا اور نقل و حمل میں خلل پڑا۔ فوٹو: وی سی جی استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہودی سال کا سب سے مقدس د�� ، یادگار واشیم کے…
View On WordPress
0 notes
Text
انگلینڈ سےبدترین شکست پی سی بی کا شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)انگلینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کے بعد قومی ٹیم کے کپتان شان مسعود کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا، شان مسعود کی قیادت میں پاکستان ٹیم کو مسلسل 6 ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ملتان میں پاکستان کو تاریخ کی بدترین شکست کے بعد شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ذرائع کے مطابق شان…
0 notes
Text
کیا انتخابات کے نتیجے میں مضبوط حکومت بن سکے گی؟
موجودہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں دو ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے جس کے بعد پی ڈی ایم اتحاد اقتدار چھوڑنے کا پابند ہو گا اور اس کی جگہ نگراں حکومتیں لے لیں گی، جو انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن انتخابات کے حوالے سے اب بھی غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ وزرا کی جانب سے مبہم موقف اختیار کرنے کی وجہ سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آیا انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں۔ بے یقینی میں اضافہ حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری نے کیا ہے۔ خبریں کے مطابق انتخابات کی تاریخ اکتوبر سے آگے بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہوں گی۔ جبکہ دوسری جانب معیشت کا مستقبل بھی واضح نہیں ہے۔ آئینی طور پر طے شدہ تاریخ سے ہٹ کر انتخابات کی تاریخ سے کھلواڑ کی کوئی بھی کوشش ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ پی ڈی ایم حکومت کی معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکامی کو دیکھا جائے تو انتخابات میں تاخیر کے لیے وہ معیشت کو مشکل سے ہی بہانے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ عارضی اقدامات کرکے حکومت نے اصل بحران سے نمٹنے کے بجائے اسے ٹالا ہے ج��کہ بحران کے ساختی ذرائع کے حل کے لیے بہت کم موثر اقدامات لیے ہیں۔
آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کو بحال کرنے میں ان کی ناکامی سے حکومت کی بدانتظامی واضح ہوتی ہے۔ انتخابات کے امکانات کے پیش نظر، اصلاحات مخالف حکومت خطرناک معاشی حالات سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے سے گریز کررہی ہے۔ سیاسی خدشات کو مستحکم معیشت پر فوقیت دے کر بجٹ جیسا اہم موقع بھی گنوا دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے آمدنی اور اخراجات دونوں طرف اقدامات کے فقدان پر تنقید کی۔ اس کے نتیجے میں معاہدہ ہونے کے امکانات مزید کم ہو گئے ہیں۔ بے یقینی صرف معیشت تک محدود نہیں۔ اس نے انتخابی میدان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اب اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخاب لڑنے کی اجازت کس کو ہو گی اور کس کو نہیں، اور کیا پی ٹی آئی چیئرمین کو ان کے خلاف کسی ایک قانونی مقدمے میں نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ سینیئر وزرا الزام لگارہے ہیں کہ 9 مئی کے تشدد کی اجازت پارٹی اور اس کی ہائی کمان نے دی تھی۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی قسمت بھی غیر واضح ہے۔ اس بات سے قطع نظر کے کہ انتخابی عمل کی ساکھ کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، مائنس پی ٹی آئی انتخابات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
پی ٹی آئی کے زیادہ تر دوسری سطح کی قیادت پر مشتمل ایک نئی پارٹی، استحکامِ پاکستان کو ایسے نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے بنایا کیا گیا ہے تاکہ ووٹرز کو دو روایتی جماعتوں سے ہٹ کر انتخاب کی پیشکش کی جاسکے اور مقابلے کو کافی حد تک حقیقی بنانے کی کوشش کی جاسکے۔ لیکن کیا یہ پارٹی واقعی مقابلہ کر پائے گی؟ یہ فیصلہ ووٹرز کریں گے۔ گیلپ پاکستان کے تازہ ترین سروے سے نے انکشاف کیا ہے کہ صرف ایک چوتھائی پاکستانیوں نے آئندہ انتخابات کے منصفانہ ہونے پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ووٹر ٹرن آؤٹ اس بات کا کلیدی اشارہ ہو گا کہ ووٹر کس حد تک انتخابی عمل کو آزاد اور منصفانہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ انتخابات کے راستے میں بہت سے نامعلوم عناصر ہیں، لیکن یہ یقین کے ساتھ کیا کہا جاسکتا ہے کہ کم ٹرن آؤٹ کے بعد جیتنے والی حکومت کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان ضرور اٹھیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 51 فیصد (2018ء)، 53 فیصد (2013ء)، 44 فیصد (2008ء) اور 41 فیصد (2002ء) کے درمیان رہا۔ 2002ء میں سب سے کم ٹرن آؤٹ فوجی حکومت کے تحت ہونے والے انتخابات کے بارے میں رائے دہندگان کے ردعمل کی عکاسی کرتا ہے اور اس لیے اسے آزاد یا منصفانہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
اگر ووٹرز ٹرن آؤٹ مذکورہ بالا انتخابات سے بھی کم ہو جاتا ہے تو جو لوگ کم ٹرن آؤٹ پر اقلیتی ووٹ کے ذریعے عوامی عہدہ حاصل کریں گے، ان کا عوامی نمائندگی کا مینڈیٹ بھی کمزور ہو گا۔ اس سے ان کی جیت کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوں گے اور یہ ان کی قانونی حیثیت کو بھی کمزور کرے گا۔ عوامی عدم اعتماد کے اس ماحول میں ایک کمزور مینڈیٹ حاصل کرنا، جس میں رائے دہندگان کی اکثریت ووٹ ڈالنے سے گریز کرسکتی ہے، اس سے نہ تو حقیقی اختیارات حاصل ہوں گے اور نہ ہی یہ کمزور جمہوریت کو بااختیار بنائے گی۔ یقیناً یہ اس بات پر بھی منحصر ہو گا کہ دونوں روایتی جماعتیں کس طرح اپنے پروگرام یا پالیسی سے ووٹ ڈالنے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان کے موجودہ طرزِ عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں اور ان کی قیادت، پی ٹی آئی کو بدنام کرنے میں حد سے زیادہ مصروف ہیں۔ دونوں جماعتوں پر حکومت کا بوجھ بھی ہے خاص طور پر ملک کو درپیش بدترین معاشی بحران کی روشنی میں، مہنگائی نے بڑے پیمانے پر عوامی عدم اطمینان کو ہوا دی ہے۔
دونوں جماعتوں کے پاس مستقبل کے لیے کوئی وژن نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتایا جارہا ہے کہ آخر وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹیں گی۔ اب تک عوام تک ان کی پیغام رسانی پیچیدہ، منفی اور بے سمت ہے۔ یہ ووٹرز بالخصوص نئے ووٹرز کو پُرجوش کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ 2018ء کے بعد، 5 سالوں میں ووٹر لسٹوں میں 2 کروڑ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ مجموعی ووٹرز کے تناسب کا 16 فیصد ہے۔ ووٹرز ٹرن آؤٹ کے علاوہ ایک اور منظرنامے کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار پی ٹی آئی کو مائنس عمران خان کے فارمولے کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں انتخابی معرکہ منفرد شکل اختیار کر لے گا جہاں قومی اسمبلی کی نشستیں 4 جماعتوں (مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، استحکامِ پاکستان پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی) میں تقسیم ہو جائیں گی حالانکہ صوبے میں مؤخر الذکر کی حمایت کافی عرصے سے کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے مجموعی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔
کمزور مینڈیٹ والی اتحادی حکومت معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے درکار جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ معیشت کو ٹھیک کرنے کے تقاضوں سے مطابقت نہ رکھنے والے سیاسی نتائج کا امکان انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ معیشت کو متعدد منفی رجحانات کا سامنا ہے، جو آنے والے مہینوں میں تبدیل ہونے کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ اندرونی اور بیرونی مالیاتی عدم توازن بہ دستور وسیع ہے، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، ملکی اور غیر ملکی قرضے غیر مستحکم سطح پر پہنچ چکے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، ترقی جمود کا شکار ہے، برآمدات میں کمی آئی ہے، بیرون ملک ترسیلاتِ زر میں کمی آئی ہے اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان بیرونی قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے۔ اسے جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں تقریباً 23 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا سامنا ہے جبکہ اس وقت ہمارے پاس صرف 4 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔
قرضوں کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قرض لینے سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ قرضوں پر ریلیف حاصل کیا جائے۔ لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک ایک مضبوط اصلاح پسند حکومت نہ ہو اور وہ ایک طویل المدتی پالیسی منصوبے تحت ساختی اقدامات کرنے کے لیے پُرعزم ہو۔ کیا انتخابات سے ایسی حکومت وجود میں آئے گی؟
ملیحہ لودھی یہ مضمون 19 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
سیاستدانوں کے لئے آخری موقع
جیسے جیسے ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں ویسے ویسے سیاستدانوں کے رویوں کو دیکھ کر سیاست سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں تو کسی سنگدل سے سنگدل شخص کا دل بھی نرم پڑ جاتا ہے لیکن نجانے ہمارے سیاستدانوں کے دل اور دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے کہ وہ ان بدترین حالات میں بھی اس ملک کا نہیں سوچ رہے جس کی وجہ سے اُن کی سیاست زندہ ہے اور جس کی وجہ سے وہ باری باری اقتدار کا مزا لیتے ہیں۔ بھئی یہ وقت ملک بچانے کا ہے جس کے لئے سیاستدانوں سے صرف ایک ہی مطالبہ اور ایک ہی توقع ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے، اس ملک کو ان مشکل حالات سے نکالنے کے لئے ایک ساتھ بیٹھ جائیں۔ پاکستان کی خاطر، اس قوم کی خاطر اپنی اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کو بچا لیں لیکن یہ ایسے پتھر دل ہیں کہ سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں، جن کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے، ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ حکومت کرنے والے اپنے مخالف کو فتنہ اور نجانے کیسے کیسے القابات دے کر کہتے ہیں کہ اس سے جان چھُڑا کر ہی پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے۔ حکومتی اتحاد اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں۔
آئین جو مرضی کہے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا بھی اعلان ہو گیا، خیبر پختون خوا میں بھی ایک دو دن میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا لیکن کسی کو اب بھی یقین نہیں کہ الیکشن ہوں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا سارا زور فوری الیکشن اور اقتدارکے حصول کیلئے ہے جس کی خاطر وہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنے پر تیار ہے۔ حکمراں اتحاد اس لئے الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں کہ اُسے معلوم ہے کہ اگر فوری الیکشن ہوتے ہیں تو عمران خان جیت جائے گا۔ دوسری طرف گزشتہ روز عمران خان نے پھر فوری الیکشن کو ہی پاکستان کے مسائل کا حل قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اُس کے تناظر میں وہ سب کو معاف کرنے کے لئے تیار ہیں بشمول اُن کو جنہوں نے اُن کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ سب کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے راضی ہیں لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ بات نہیں کر سکتے۔ یعنی حکمراں اتحاد ن لیگ اور پی پی پی جنہیں وہ چور ڈاکو کہتے ہیں، اُن سے بات نہیں ہو سکتی۔
میری فواد چوہدری صاحب سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کی خاطر سب کو معاف کرنے اور سب کے ساتھ ملک بیٹھنے کو تیار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ تو ساتھ ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ڈاکووں، چوروں یعنی ن لیگ اور پی پی پی سے بات نہیں ہو سکتی تو پھر معاملہ کیسے حل ہو گا ؟ اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ خان صاحب کے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ کسی بات چیت میں کسی کے کرپشن کیس ختم کرنے پر بات نہیں کر سکتے۔ خان صاحب اگر واقعی یہی چاہتے ہیں تو سب سے بات چیت کرنے کا عندیہ دینے کے ساتھ یہ وضاحت کر دیں کہ بات چیت کا مقصد کسی کے کرپشن کیس ختم کرنا نہیں ہو گا۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ عمران خان کی طرف سے اُن کی ماضی کی پالیسی میں ایک ایسی نرمی ہے جسے خوش آمدید کہنا چاہئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایک دو بار کہہ چکے ہیں کہ سب کو مل بیٹھ کر پاکستان کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اُن کے وزیر، مشیر اور ن لیگ کے دوسرے رہنما بشمول مریم نواز اپنے مخالف عمران خان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔
سیاستدانوں نے اپنے اختلافات کو دشمنی میں بدل لیا ہے اور یہ ملک کب سے ترس رہا ہے کہ یہ لوگ اس کی خاطرمل کر بیٹھیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا، جس کے نتیجے میں ہمیں آج ایسے معاشی، آئینی، انتظامی بحرانوں کا سامنا ہے جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔ سیاستدانوں کے پاس اب بھی وقت ہے، ملک کو بچانے کے لئے ایک ساتھ مل بیٹھیں، معیشت کو سنبھالنے کے لئے ایک ہو جائیں، مہنگائی کو قابو میں لانے کے لئے اتفاق رائے سے پالیسی بنائیں، ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی وقت میں الیکشن کا فیصلہ کر کے آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں، گورننس اور احتساب کے نظام میں بہتری کے لئے مل کر اصلاحات پر کام کریں۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا راستہ دیں۔ پاکستان کو بچانے کے لئے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملک کے خوشحال مستقبل کے لئے بنیادی اصولوں اور معاشی و انتظامی امور کی بہتری کے لئے اصلاحات کا متفقہ پروگرام دیں، جس پر جس کی بھی حکومت ہو مکمل عمل کیا جائے۔ خدارا، پاکستان کو بچانے کے اس موقعے کو ضائع مت کیجئے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
آغا شورش کاشمیری اور ان کی کاٹ دار تحریریں
قوم اپنی اعلیٰ اقدار اور روایات کھو چکی اور اس میں ایک زوال پذیر معاشرے کی تمام خامیاں نشوونما پا چکی ہیں۔ زوال کی اس سے بڑی نشانی کیا ہو گی کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی قومی زبان کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کواپنی تاریخ اور مذہب بھی غیر ملکی زبان میں پڑھاتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بات ذرا بھی تشویش کا باعث نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے بچّے اپنی قومی زبان اردو نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کی غلط انگریزی سن کر والدین فخر محسوس کرتے ہیں جو بدترین احساسِ کمتری کی نشانی ہے۔ جو نسل اردو زبان سے نا بلد ہے، وہ اپنی تاریخ اور آزادی کی تحریک سے بھی بے خبر رہی گی اور جس غیر ملکی زبان کو وہ برتر سمجھتی ہے، اُسی کی تہذیب اور معاشرت کی تقلید کرے گی اور اسی کی غلامی کو اپنا عقیدہ اور ایمان بنا لیگی۔
اب بھی وقت ہے کہ اربابِ اختیار، والدین اور اہلِ قلم ایک بھرپور جدّوجہد کے ذریعے نئی نسل کو انگریزی کی ذہنی غلامی سے نجات دلا کر اردو کی جانب راغب کریں۔ اس سلسلے میں راقم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اردو زبان کے معروف تخلیق کاروں کی منتخب نگارشات قارئین سے گاہے بہ گاہے شئیر کرتا رہوں گا۔ آغاز آغا شورشؔ کاشمیری سے کیا جا رہا ہے۔ غالبؔ ، اقبالؔ ، اور فیضؔ کی شاعری پر بھی بات ہوتی رہے گی۔ شورشؔ کاشمیری کی شاعری بڑی جاندار اور نثر اس سے بھی کاٹ دار تھی ، نظم اور نثر دونوں ولولے، طنطنے کے علاوہ انقلابیّت سے بھرپور ہے۔ مگر ان کی وجہء شہرت ان کی بے مثال خطابت تھی۔ برّصغیر نے بڑے بلند پایہ مقرّر اور خطیب پیدا کیے ہیں۔ اردوخطابت کے حرفِ آخر کا نام سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ہے۔ شاہ جی کو اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب مانا جاتا ہے۔ خطابت کے اُسی قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیری تھا۔
زندگی کی آخری دھائی میں اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب (Public Speaker) بلا شبہ آغا شورش تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے کو مٹھی میں لینے اور ان کے جذبات کو آگ لگا دینے کا فن جانتے تھے، بے پناہ مطالعے کے باعث وہ زبان و بیان کے رموز پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ہم قافیہ الفاظ ان کے منہ سے آبشار کے پانی کی طرح نکلتے اور دریا کی روانی کیطرح بہتے چلے جاتے تھے۔ وہ انگریزوں اور دیسی حکمرانوں سے ٹکرّ لیتے رہے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ میٹرک کے بعد ہم ان کا ہفت روزہ چٹان (جسکی 1970 کی دھائی میں سرکولیشن ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی تھی) باقاعدگی سے پڑھتے رہے۔ بارھا ان کی تقریر یں سننے کا اتفاق ہوا اور چند مرتبہ مرکزی مجلسِ اقبال کی تقریب میں بھی ان کے خطاب سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ موجودہ دور میں آغا شورش کاشمیری پر سرکاری سطح پر کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ حالانکہ موجودہ حکومت کی کابینہ کے دو ارکان (ایک وزیر اور ایک مشیر) تو آغا صاحب کے شاگرد ہونے کا دعوٰ ی کرتے ہیں۔
وزیر صاحب تقریر میں ان کی نقّالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر موصوف کا مطالعہ قلیل اور زبان طویل ہے جسکے باعث دو تین فقرے روانی سے نہیں بول پاتے۔ مشیر محنتی ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر آغا صاحب کے شعر استعمال کرتے ہیں۔ پرانی کتابوں میں سے” مضامینِ شورش” کے نام سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی جو آغا صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جسے پروفیسر اقبال جاوید نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ پروفیسر اقبال جاوید لکھتے ہیں، ” شورش ؔکے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ اقبال ؒ کا مفکرانہ سوز و ساز، ظفرعلی خانؒ کا نعرہء پیکار، محمد علی جوہرؒ کا پر خلوص طنطنہ ، ابوالکلام آزاد کی پُر شکوہ علمیّت اور ��یّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے خطیبانہ زمزمے فضاؤں میں منتشر ہو کر دلوں کے انجماد کو اضطراب بخش رہے تھے”۔
عبد السلام خورشید کے الفاظ میں ” شورش کو ابوالکلام نے شعور بخشا، اقبال ؒ نے فکر دی، ظفر علی خان نے سج دھج عطاء کی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے پاکیزہ ذوق نے ان کی زبان کو خاراشگافی کی صلاحیتّیں بخشیں” ۔ اور اب آغا صاحب کی چند تحریروں سے لطف اُٹھائیں۔ “ کیا ہمارے ملک میں اسوقت کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہے ؟ ” کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ”اس حقیقت کے سامنے بہر حال سر جھکانا پڑتا ہے کہ ہماری ادبی اور شعری صفیں باعظمت لوگوں سے خالی ہیں۔ سن رسیدہ اہلِ قلم میں غلام رسول مہر اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے نام لیے جا سکتے ہیں مگر ان کے ادب میں علم ہے یا تاریخ ۔ مولانا مودودی تو ایک ادیب کی نسبت ایک عالم یا مفکّر زیادہ ہیں، شاعروں میں حفیظ جالندھری کا بڑا کام ہے، پختہ مشق شعراء میں احسان دانش بوڑھے ہو گئے، جوش ملیح آبادی آثار قدیمہ میں سے ہیں، فیض احمد فیض کو بڑے شاعر کی حیثیّت سے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کی تائید ادبی رائے سے کم اور سیاسی راستے سے زیادہ ہوتی ہے۔
” پھر لکھتے ہیں” غالب مسلّمہ طور پر ایک عظیم شاعر ہے ، حالی ؔقوم کا مرثیہ خواں تھا۔ اقبال ؒ نے ملّت کو نصب العین اور ایشیاء میں اسلام کو شعلہء نوا بخشا ، جوش نے نظم کا رخ پھیرا۔ حفیظ ؔنے بھی کبھی گرمیء محفل پیدا کی اور فیضؔ نے آشفتہ مغز نوجوانوں کی جماعت کو متا ثر کیا۔” “وہ کتابیں جنھوں نے مجھے متاثر کیا “ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں “کتابوں کی طاقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، پوری دنیا کتابوں کی مرہون ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کتاب کو جدید انسان کی شریک ِ حیات قرار دیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ ایک بہترین ساتھی، شائستہ ترین دوست اور ہر وقت فراہم ہونے والی رفیقہء حیات ہے۔” لکھتے ہیں ”میں 1935 سے 1946 تک جیل میں رہا، یہ زمانہ ایسا تھا جس میں مَیں نے اچھی بری کتابوں کو پڑھا ہی نہیں کھنگال ڈال، بے شمار کتابوں اور مصنفوں نے گرویدہ کیا لیکن میں کسی کے سایہء افکار میں ٹھہرا نہیں۔
میں نے فکر و نظر کا دامن بھرنے کے بعد اس سے نکل جانے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے رو سو کے اعترافات میں بڑی لذّت محسوس کی ہے ھیوگو وکٹر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ والٹیئر نے مجھ پر خاصا اثر کیا۔ کارل مارکس کے سرمایہ کو میں نے بہ التزام سبقََا سبقََا پڑھا ہے۔ افلاطون کی جمہوریّت نے بھی میرے خیالات کو متاثر کیا۔ لیکن جن مصنفّوں نے میرے عقیدے میں پختگی پیدا کی وہ دو ہی تھے۔ مولانا ابولکلام آزادؔ اور علّامہ اقبال۔ ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن اور الہلال نے میری تعمیر میں حصّہ لیا ہے اور کلام ِ اقبالؔ نے مجھ میں نہ صرف مسلمانوں سے یک گونہ وابستگی پیدا کر دی ہے بلکہ اسلام کے ماضی کا شَیداء، حال کا نقّاد اور مستقبل کا سپاہی بنا دیا ہے” ۔ آغا صاحب نے کئی نامور شخصیات کے خاکے لکھے ہیں۔ حکیم محمد سعید کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں، “ دلّی اپنے ساتھ مسلمانوں کی جملہ روایتیں لے کر کراچی آئی، ثقافت کا ہمہمہ، فراست کا طنطنہ، زبان کا لوچ، لہجے کی نزاکت، رہن سہن کی نفاست، دماغ کا نور ، دل کا سرور۔
ان لوگوں کا اثاثہ مہاجرت تھا جو دہلی سے رخصت ہو کر پاکستان پہنچے اور کراچی کو بسایا اور دیکھتی آنکھوں ایک ایسا شہر جوان ہو گیا جو سمندر کے ساحل پر ایک بے قابو شہر تھا۔ یہاں بولی کے اضلاع کا نچوڑ اٹھ آیا تھا، حیدرآباد کی فراست چلی آئی تھی اور دہلی جو مسلمانوں کی نو سو سالہ عظمت کاچمکا ہوا نشان تھا اس کی وجاہتیں رَختِ سفر باندھ کر کراچی کو عروس البلاد بنا رہی تھیں” ۔ سعادت حسن منٹو اور اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں ” دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں مثلََا دونوں شراب کی نذر ہو گئے ، دونوں نے اسطرح پی کہ ان کی زندگی میں سے شراب نکال دی جائے تو ایک چوتھائی رہ جاتی ہے”۔ اور آخر میں آغا شورشؔ کی زبانی اختر شیرانی کا ایک واقعہ سن لیں۔ “عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کیمونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، ان سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اختر شیرانی اُسوقت تک دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اوراُنکے ہوش قائم نہ تھے، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ کسی نے ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، وہ اپنے موڈ میں تھا کہا ” یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے قدموں میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا ؟ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک بدبخت نے سوال کر دیا۔
آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اللہ اللہ ایک شرابی پر جیسے کوئی برق گری ہو۔ بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کو دے مارا ۔ پھر کہا “بد بخت ایک عاصی سے سوال کر تا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ ” تمام جسم کانپ رہا تھا ۔ رونا شروع کر دیا ، گھِگھی بندھ ہو گئی، پھر بولے” تم نے اس حالت میں یہ پاک نام کیوں لیا۔ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ ” گستاخ ! بے ادب !مسلسل روتے جاتے اور کہتے جاتے۔” کمبخت ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گناہگار ضرور ہوں مگر یہ مجھے کافر بنانا چاہتے ہیں” ۔ شیخ سعدیؒ یا د آتے ہیں جو فرما گئے کہ ہزار باربشویم دھن زمشک وگلاب،ھنوز نامی تو گفتن کمالِ بے ادبی ست (ہزار بار بھی اگر منہ مشک و گلاب سے دھوؤں تو پھر بھی آپﷺ کا پاکیزہ نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے)
ذوالفقار احمد چیمہ
4 notes
·
View notes
Text
قاتل انسانیت
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد اسی طرح نیکیوں کو کها جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کها جاتی ہے- (ابو داود، کتاب الاداب، باب الحسد، ابن ماجہ، کتاب الذهد) اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا : یعنی کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں هو سکتے- (نسائی، کتاب الجہاد)
حسد قاتل ایمان اور قاتل انسانیت ہے حسد کا نقصان یہ ہے کہ وه آدمی سے اعلی ایمانی کیفیات کو چهین لیتا ہے- حسد اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ آدمی کے سینہ میں وه دینی جذبات پرورش پائیں جو اس کو اللہ کے قریب کرنے والے ہیں اور جس کا انعام اس کو جنت کی صورت میں ملے گا-
موجوده دنیا میں ایسا هوتا ہے کہ کبهی ایک شخص بظاہر بڑا هو جاتا ہے اور دوسرا شخص بظاہر چهوٹا- یہ امتحان کے لئے هوتا ہے- وه اس لئے ہے کہ اس فرق کو خدائی فیصلہ سمجهہ کر اسے قبول کر لیا جائے مگر جب آدمی بڑے کی بڑائی کا اعتراف نہ کرے اور اس کو چهوٹا کرنے کی کوشش میں مصروف هو جائے تو گویا کہ وه خدا کے فیصلہ کو بدلنا چاہتا ہے- ایسا آدمی خدا کی قربت کی لذتوں سے محروم رہے گا-
حقوق العباد کے سلسلہ میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی کے دل میں دوسرے انسانوں کے لئے شفقت اور ہمدردی کا جذبہ هو مگر حسد آدمی کے اندر سے انسانی ہمدردی کا جذبہ ختم کر دیتا ہے- اس کا نقصان اس کو بدترین صورت میں ملتا ہے کہ وه اس حدیث کا مصداق بن جاتا ہے : یعنی اللہ اس آدمی پر رحم نہیں کرے گا جو انسانوں پر رحم نہ کرے- (البخاری، کتاب التوحید)
قرآن میں تقوی کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ کسی سے دشمنی هو تب بهی آدمی اس کے بارے میں عدل و انصاف کی بات کہے- (المائده ) مگر جس آدمی کے دل میں کسی کے خلاف حسد اور جلن هو اس کے بارے میں انصاف کی بات کہنا اس کے لئے مشکل هو جائے گا- حسد کا جذبہ اس کو مجبور کرے گا کہ وه اپنے محسود کے بارے میں وه بات کہے جس میں اس کے دل کو تسکین ملتی هو نہ کہ وه بات جو بطور واقعہ درست هو- اس طرح حسد آدمی کو خدا کی نظر میں ظلم اور بے انصافی کا مجرم بنا دے گا-
انسانیت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر موضوعیت (objectivity) هو- وه لوگوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ رائے قائم کرے- وه معاملات کو حقیقت پسندانہ نظر سے دیکهہ سکے- اس قسم کی حقیقت پسندی دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے- مگر حسد آدمی کے لئے اس میں مانع بن جاتا ہے کہ وه بے آمیز رائے قائم کر سکے- حسد آدمی کے اندر متاثر ذہن پیدا کر دیتا ہے، اور متاثر ذہن کے ساتھ آدمی کبهی کوئی بڑی طرقی نہیں کر سکتا- حسد بلاشبہہ خود حاسد کے لئے سب سے بڑی محرومی ہے-
مطالعہ حدیث
مولانا وحیدالدین خان
17 notes
·
View notes
Text
بدترین فیصلہ۔۔۔ محمد عامر خاکوانی
بدترین فیصلہ۔۔۔ محمد عامر خاکوانی
دو دن پہلے دوستوں کی ایک محفل میں گفتگو ہو رہی تھی، ہم اس پر کڑھ رہے تھے کہ نجانے بطور قوم ہم اس قدر غیر ذمے دار اور لاابالی کیوں بن چکے ہیں کہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں، اسے بے ڈھنگے پن سے بگاڑ دیتے ہیں۔
فائدہ پہنچنے کا امکان ہو تب بھی ہمارے حصے میں نقصان ہی آتا ہے۔مثالیں تو بے شمار دی جاسکتی ہیں، مگر ہماری بحث حالیہ کوالامپور کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم کی عدم شمولیت کے حوالے سے تھی۔ یہ پورا…
View On WordPress
0 notes