#ایک ہی برس
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 10 days ago
Text
ایک ہی برس میں پاکستان میں حکمرانی کے انڈیکس میں بہتری آ گئی
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے مقابلے میں سال 2024 میں پی پی پی اور پی ایم ایل این کے دور حکومت میں ایک ہی برس میں پاکستان میں حکمرانی کے انڈیکس میں بہتری آ گئی ہے۔ پاکستان کی عالمی درجہ بندی 129 ویں نمبر پر ہے ورلڈ جسٹس پرواجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق، کل 142؍ ممالک میں سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی 129 ویں نمبر پر ہے۔ 2023 میں قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں پاکستان کا درجہ 142…
0 notes
zokoshok · 4 months ago
Text
Tumblr media
گلزار کی نظمیں
1
اکیلے
کس قدر سیدھا، سہل، صاف ہے رستہ دیکھو
نہ کسی شاخ کا سایہ ہے، نہ دیوار کی ٹیک
نہ کسی آنکھ کی آہٹ، نہ کسی چہرے کا شور
دور تک کوئی نہیں، کوئی نہیں، کوئی نہیں
چند قدموں کے نشاں ہاں کبھی ملتے ہیں کہیں
ساتھ چلتے ہیں جو کچھ دور فقط چند قدم
اور پھر ٹوٹ کے گر جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے
اپنی تنہائی لیے آپ چلو، تنہا اکیلے
ساتھ آئے جو یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں
کس قدر سیدھا، سہل، صاف ہے رستہ دیکھو
2
نظم
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
مصرعے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا
بس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی!
3
گرہیں
مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلاہے
اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے
جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بننے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
اک بھی گانٹھ گرہ بنتر کی
دیکھ نہیں سکتا ہے کوئی
میں نے تو اک بار بنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں
صاف نظر آتی ہیں میرے یار جلاہے!
4
بےخودی
دو سوندھے سوندھے سے جسم جس وقت
ایک مٹھی میں سو رہے تھے
لبوں کی مدھم طویل سرگوشیوں میں سانسیں الجھ گئی تھیں
مندے ہوئے ساحلوں پہ جیسے کہیں بہت دور
ٹھنڈا ساون برس رہا تھا
بس ایک روح ہی جاگتی تھی
بتا تو اس وقت میں کہاں تھا؟
بتا تو اس وقت تو کہاں تھی؟
5
دیکھو آہستہ چلو
دیکھو آہستہ چلو اور بھی آہستہ ذرا
دیکھنا سوچ سنبھل کر ذرا پاؤں رکھنا
زور سے بج نہ اٹھے پیروں کی آواز کہیں
کانچ کے خواب ہیں بکھرے ہوئے تنہائی میں
خواب ٹوٹے نہ کوئی جاگ نہ جائے دیکھو
جاگ جائے گا کوئی خواب تو مر جائے گا
6
اخبار
سارا دن میں خون میں لت پت رہتا ہوں
سارے دن میں سوکھ سوکھ کے کالا پڑ جاتا ہے خون
پپڑی سی جم جاتی ہے
کھرچ کھرچ کے ناخونوں سے
چمڑی چھلنے لگتی ہے
ناک میں خون کی کچی بو
اور کپڑوں پر کچھ کالے کالے چکتے سے رہ جاتے ہیں
روز صبح اخبار مرے گھر
خون میں لت پت آتا ہے
7
اسکیچ
یاد ہے اک دن
میری میز پہ بیٹھے بیٹھے
سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے
ایک اسکیچ بنایا تھا
آ کر دیکھو
اس پودے پر پھول آیا ہے!
8
لباس
میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے
تیرا خوش رنگ لباس!
گھر پہ دھوتا ہوں ہر بار اسے اور سکھا کے پھر سے
اپنے ہاتھوں سے اسے استری کرتا ہوں مگر
استری کرنے سے جاتی نہیں شکنیں اس کی
اور دھونے سے گلے شکوؤں کے چکتے نہیں مٹتے!
زندگی کس قدر آساں ہوتی
رشتے گر ہوتے لباس
اور بدل لیتے قمیضوں کی طرح!
9
برف پگھلے گی
برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے
اور وادی سے کہرا سمٹے گا
بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے
اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے
سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلانوں پر
غور سے دیکھنا بہاروں میں
پچھلے موسم کے بھی نشاں ہوں گے
کونپلوں کی اداس آنکھوں میں
آنسوؤں کی نمی بچی ہوگی
10
دیر آمد
آٹھ ہی بلین عمر زمیں کی ہوگی شاید
ایسا ہی اندازہ ہے کچھ سائنس کا
چار اعشاریہ بلین سالوں کی عمر تو بیت چکی ہے
کتنی دیر لگا دی تم نے آنے میں
اور اب مل کر
کس دنیا کی دنیا داری سوچ رہی ہو
کس مذہب اور ذات اور پات کی فکر لگی ہے
آؤ چلیں اب
تین ہی بلین سال بچے ہیں
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 year ago
Text
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے
مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
آج اگر بھر آئی ہے بوندیں، برس جائیں گی
کل کیا پتا ان کے لیے آنکھیں ترس جائیں گی
جانے کب گم ہوا کہاں کھویا ایک آنسو چھپا کے رکھا تھا
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
زندگی تیرے غم نے ہمیں رشتے نئے سمجھائے
ملے جو ہمیں دھوپ میں ملے چھاؤں کے ٹھنڈے سائے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
گلزارِ
10 notes · View notes
my-urdu-soul · 1 year ago
Text
دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا
اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا
نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے
وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا
سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں
صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا
سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب
یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا
یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ
مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا
سب کو حروف التجا ہ�� نذر کر چکے
دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا
- نگار بلراج کومل
8 notes · View notes
urduu · 1 year ago
Text
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار ملازم ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔
اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزنس منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،
اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے
Harvard University Business Review
اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،
اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.
یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔
آپ خود بھی یقیناً ایک ڈگری ہولڈر ہوں گے ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔
ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی
آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔
اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے مطلب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*
*مسلسل نالج*
آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں
*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔
نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔
آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ
دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری کا حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔
دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔
یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ
دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے
9 notes · View notes
urduclassic · 10 months ago
Text
آخری چند دن دسمبر کے
Tumblr media
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی ڈائری، دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
امجد اسلام امجد   
4 notes · View notes
the-royal-inkpot · 1 year ago
Text
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پڑا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
جسمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
2 notes · View notes
jhelumupdates · 2 days ago
Text
آئرلینڈ میں ہالووین پریڈ کے لیے طرح طرح کے خوفناک کوسٹیوم پہنے اور میک اپ کے ذریعے جن یا بھوت کا روپ دھارے ہزاروں افراد جمع ہوگئے اور منتظمین کی راہ تکے رہ گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ہالووین کے تہوار پر شہریوں کے ساتھ اپنی نوعیت کا منفرد آن لائن فراڈ ہوگیا۔ ہالووین لباس میں ملبوس ہزاروں شہری پریڈ کے انتظار میں سڑکوں پر کھڑے تھے جس کے باعث دونوں اطراف ٹریفک جام ہوگیا لیکن پروگرام کے منتظمین کا دور تک اتا پتا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پولیس کو مداخلت کرنا پڑی اور شہریوں کو بتایا کہ یہاں کوئی ہالووین پریڈ نہیں ہورہی ہے کیوں کہ کسی نے اس مقام پر پروگرام کے لیے اجازت نامہ نہیں لیا۔ جس پر لوگ حیران اور پریشان رہ گئے۔ جلد ہی شہریوں اور پولیس کو اندازہ ہوگیا کہ انھیں آن لائن مدعو کرکے بیوقوف بنایا گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق پریڈ کا اعلان ’مائی اسپرٹ ہالووین‘ نامی مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ایک ویب سائٹ سے کیا گیا تھا جو پاکستان سے ہوسٹ کی جاتی ہے۔ ویب سائٹ پر ہی اس بات کا اعلان کیا گیا کہ جمعرات کی شام 7 بجے سے 9 بجے تک ہالووین ڈے پریڈ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اگرچہ ویب سائٹ کی جانب سے اس جھوٹے اعلان کا سبب تو سامنے نہیں آسکا لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ویب سائٹ کا مقصد اشتہارات سے پیسے کمانا تھا۔ ویب سائٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ ڈبلن ہالووین پریڈ کی اطلاع کوئی دھاکا یا مذاق نہیں بلکہ 'ایک غلطی' ہے۔ ویب سائٹ کے مالک نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہالووین پریڈ کی اس سال کی فہرست میں سب ایڈیٹر نے ڈبلن کا نام بھی صرف اس بنیاد پر شائع کردیا کیوں کہ گزشتہ برس بھی یہاں ہالووین پریڈ ہوئی تھی۔ ویب سائٹ کے مالک نے مزید کہا کہ ہمیں شام کو بتایا گیا کہ اس سال ڈبلن میں ہالویون پریڈ نہیں ہورہی ہے لیکن تب تک یہ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ہوچکا تھا۔ اگر پہلے پتا چلتا تو ہم ہٹا دیتے۔ ویب سائٹ کے مالک نے مزید کہا کہ ہم انتہائی شرمندہ ہیں اور اس واقعے پر افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے لوگوں نے اپنا وقت اور پیسا برباد کیا۔ تاہم شرکا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ویب سائٹ نے ایسا صرف زیادہ سے زیادہ اشتہارات کے حصول کی نیت سے کیا تھا۔ خیال رہے کہ اس ویب سائٹ میں آئرلینڈ اور دیگر ممالک میں ہالووین پروگرامز کے مقام کی فہرستیں شائع کی گئی تھیں ��امل ہیں۔
0 notes
airnews-arngbad · 4 days ago
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 01 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  یکم نومبر ۴۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت؛ وزیرِ اعظم کا بیان۔
                ٭             ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 رائے دہندگان اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
                ٭             آج دیپوتسو کے دوران ہر طرف لکشمی پوجا؛ اسنیہہ ملن پروگراموں کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭     ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو NAAC کا A+ درجہ حاصل۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                 وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کا ہدف حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ انھوں نے علیحدگی پسند طاقتوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی ہے۔ وہ کل سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یومِ پیدائش کے موقع پر گجرات کے کیوڑیا میں قومی اتحاد دِن کے پروگرام سے خطاب کررہے تھے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 150 ویں یومِ پیدائش تقریب کل سے شروع ہوئی ہے اور ملک اگلے دو سالوں تک اس یومِ پیدائش کو منائے گا۔ قبل ازیں‘ انھوں نے ایکتا نگر میں پٹیل کے مجسمہئ اتحاد پر پھول چڑھائے اور شہریوں سے اتحاد کا عزم کیا۔ اس دوران اس یومِ یکجہتی پروگرام میں رائے گڑھ ضلع کے داخلی راستے کی نقل تیار کی گئی۔ اتحاد دِن کے پروگرام کے دوران وزیرِ اعظم نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی اور کچھ میں فوجیوں کے ساتھ دیوالی منائی۔ نئی دہلی میں صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو اور نائب صدرِ جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے پٹیل چوک میں سردار پٹیل کے مجسمہ کو ہار پہناکر خراجِ عقیدت پیش کیا۔
***** ***** *****
                سابق وزیرِ اعظم اِندرا گاندھی کو ان کی برسی کے موقع پر ہر طرف خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ لوک سبھا میں قائد ِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے نئی دلّی میں ان کی سمادھی شکتی اِستھل پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
                ریاست میں اور چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ہر طرف اندرا گاندھی اور سردار پٹیل کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
***** ***** *****
                ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25ہزار 119 رائے دہندگان اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 18 تا 19 سال کے زمرہ کے تقریباً 22 لاکھ 22 ہزار 704‘جبکہ عمر کے سو برس مکمل کرنے والے 47 ہزار 392 رائے دہندگان ہونے کی اطلاع چیف الیکشن کمیشن دفتر نے دی ہے��
                ریاست کے خدمات شعبہ کے تقریباً ایک لاکھ 16 ہزار 170 رائے دہندگان ہیں۔ یہ تمام رائے دہندوں کیلئے ایک لاکھ 186 رائے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں شہری علاقوں کے 42 ہزار 604‘ جبکہ دیہی علاقوں کے 57 ہزار 582 رائے دہی مراکز ہوں گے۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں 27ہزار 964 معذور ووٹر اور 40 ہزار 577 ووٹر وہ ہیں جن کی عمر 85 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان ووٹرز کو فارم (12-D) پُرک��کے گھر سے ووٹ دینے کا اختیار منتخب کرنا ہے‘ ان میں سے 715 معذور اور 3537 معمر افراد نے گھر سے ووٹ دینے کا آپشن چنا ہے۔ ضلع میں دو ہزار 508 سروس ووٹر ہیں انھیں پوسٹل ووٹنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
***** ***** *****
                اسمبلی انتخابات میں مہایوتی میں بغاوت کرکے امیدواری پرچے بھرنے والے تمام افراد کو اعتماد میں لیکر ان کے ساتھ بات چیت کرکے پرچے واپس لینے کیلئے راضی کرنے کی کوشش مہایوتی کی تینوں ہی پارٹیوں کی جانب سے جاری ہے۔ کانگریس لیڈر روی راجا نے کل ممبئی میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بی جے پی لیڈر و نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے یہ اطلاع فراہم کی۔ روی راجا کا تقرر بی جے پی کے ممبئی نائب ضلع صدر کے طور پر کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
                ناندیڑ ضلع میں اس بار لوک سبھا کا ضمنی انتخاب اور اسمبلی کے عام انتخابات ہورہے ہیں۔ ضلع کے نو اسمبلی حلقوں میں ناندیڑ جنوب اور ناندیڑ شمال‘ لوہا‘ مکھیڑ‘ نائیگاؤں‘ بھوکر‘ حد گاؤں‘ کنوٹ‘ اور دیگلور شامل ہیں۔ لوک سبھا حلقہ چھ اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے‘ سوائے کنوٹ‘ حد گاؤں اور لوہا کے۔ ان چھ حلقوں کے ووٹروں کو لوک سبھا کے ضمنی انتخاب اور متعلقہ اسمبلی انتخابات کیلئے ایک ہی دِن دوبار ووٹ دینا ہوگا۔
***** ***** *****
                ونچیت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر کو کل ان کی طبعیت بگڑنے پر پونے کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فی الحال ان کی حالت مستحکم ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ اگلے کچھ دِنوں تک انھیں طبّی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اس دوران ونچیت کی الیکشن تشہیر کی ذمہ داری آگھاڑی کی ریاستی صدر ریکھا ٹھاکر‘ الیکشن کوآرڈنیشن کمیٹی اور منشور کمیٹی کے پاس ہوگی۔
***** ***** *****
                سامعین! اسمبلی انتخابات کے موقع پر ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھانچا“ پروگرام روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ آج کے پروگرام میں ناندیڑ ضلع کے اسمبلی حلقوں کا جائزہ پیش کیا جائیگا۔
***** ***** *****
                 دیپوتسو میں اہم مقام رکھنے والا لکشمی پوجا تہوار آج منایا جارہا ہے۔ صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو‘ نائب صدر جگدیپ دھنکڑ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی ہے۔ آج شام لکشمی پوجا اشون اَماوَس پر گھر گھر روایتی طریقے سے کی جائیگی۔ اس پوجا کیلئے کنول سمیت مختلف قسم کے پھول‘ نذرانے کیلئے طرح طرح کے کیک، پوجا کیلئے ہار، لکشمی کو پیش کرنے کیلئے نیک نشانات کے ساتھ ساتھ دیگر سامان کی دُکانیں سج گئی ہیں اور عوام نے ان کی خریداری کیلئے بھیڑ لگا دی ہے۔
                دیوالی کے موقع پر اسنیہہ ملن سمیت دیوالی کی صبح اور شام جیسے موسیقی پروگراموں کی ہر طرف ریل پیل ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ ان پروگراموں کو عام شائقین کی جانب سے بہتر پذیرائی مل رہی ہے۔ کل چھترپتی سمبھاجی نگر کے شاستری نگر ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے دیوالی کی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر مشہور گلوکارہ آشا کھاڑِلکر اور ویدشری کھاڑِلکر اوک کے گلوکاری کا پروگرام منعقد ہوا۔
***** ***** *****
                مہاتماگاندھی مشن اور مراٹھواڑہ آرٹ‘ کلچر اینڈ فلم فاؤنڈیشن کی جانب سے ہر سال کی طرح کل بھی دیپوتسو پروگرام منعقد ہوا۔ ناندیڑ میں کل بندا گھاٹ پر دیوالی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ضلع کلکٹر ابھیجیت راؤت اور میونسپل کمشنر ڈاکٹر مہیش کمار ڈوئی پھوڑے موجود تھے۔ اس موقع پر کلکٹر نے لوک سبھا کے ضمنی اور اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کی۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو نیشنل ایکریڈیٹیشن اینڈ کنسیشن کونسل-NAC کی جانب سے کل متوقع معیار کو پورا کرنے پر”اے پلس“ درجہ بندی دینے کا اعلان کیا گیا۔ اے پلس درجہ بندی حاصل ہونے پریونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹروجئے پھلاری نے کہا کہ مراٹھواڑہ میں بہوجن سماج کیلئے حصولِ تعلیم کے دروازے کھولنے والے بھارت رتن ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے افکار کی دولت اور وراثت کے ساتھ یونیورسٹی کی پیش رفت جاری ہے اور آنے والے سالوں میں سب کے تعاون سے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار اور ساکھ کو بلند کرنے کی مخلصانہ کوشش جاری رکھی جائیگی۔
***** ***** *****
                 لاتور شہر اسمبلی حلقہ کے انتخابی اخراجات انسپکٹر کاکرالا پرسانت کمار نے کل ضلع کلکٹر دفتر میں مختلف انتخابی اخراجات سے متعلق دستوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہر افسر اور ملازم کو اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرنے اور تشہیری جلسوں، ریلیوں اور جلوسوں میں استعمال ہونے والے سامان و آلات باریک بینی سے اندراج کرنے کی ہدایات بھی دیں۔
***** ***** *****
                 بیڑ ضلع کے گیورائی اور ماجل گاؤں اسمبلی حلقوں کے انتخابی مبصر کے طور پر لالٹ پونی وہانگ چانگ نے اسٹرانگ روم کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ الیکشن ریٹرننگ آفیسر سندیپ کھومنے اور سنتوش روئیکر موجود تھے۔
***** ***** *****
0 notes
moizkhan1967 · 14 days ago
Text
کہاں آ کے رُکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اُسے بُھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن، اُسے بُھول جا، اُسے بُھول جا
میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں، تِری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، میرے ساتھ آ، اُسے بُھول جا
کِسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا، تُوبھی مُسکرا، اُسے بُھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اُسے بُھول جا
کیوں اَٹا ہوا ہے غبارمیں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اُسے بُھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، ترا جاگنا، اُسے بُھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ، اُسے بُھول جا
جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا، اُسے مت بُلا، اُسے بُھول جا
تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے اُسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئی اور تھا، اُسے بُھول جا
تجھے چاند بن کے مِلا تھا جو، ترے ساحلوں پہ کِھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اُتر گیا، اُسے بُھول جا
امجد اسلام امجد
#zaali_awan
0 notes
topurdunews · 21 days ago
Text
میں پاکستان ہوں
میں 77 برس کا ہوگیا ہوں ،میرا 78 واں جنم دن منایا جارہا ہے،میرے دن پر کچھ لوگ ترانے گارہے ہیں تو کچھ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اپنے جذبے کا اظہار کررہے ہیں،بچے ’’باجے‘‘بجا کر میرے وجود کو اذیت بخش رہے ہیں،میرا پیدا ہونا دنیا کیلئے  حیران کن تھا اور دشمنوں کیلئے پریشان کن ۔  یہ  ایک بہت لمبی کہانی ہے۔ ایک کٹھن سفر ہے،میں وہ واحد ملک ہوں جس کا نام اور کام  پیدا ہونے سے پہلے ہی  تجویز کرلیا…
0 notes
shiningpakistan · 27 days ago
Text
سلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائے
Tumblr media
چلیں جی اشرافیہ کو بالخصوص اور اہلِ وطن کو بالعموم آئی ایم ایف کا 24 واں سات ارب ڈالر کا قرض پیکج مبارک ہو۔ اس شبھ گھڑی میں وزیرِ اعظم برادرِ بزرگ چین، سعودی عرب، امارات نیز قرض کھینچ سرکاری ٹیم اور آرمی چیف کے بھرپور تعاون اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے۔ آپ نے حسبِ معمول یہ تکیہ کلام بھی دھرایا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، انشااللہ۔۔۔ آپ کی آواز میں اس شخص کا اعتماد پایا جاتا ہے جسے منت ترلے کے بعد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ آج کا دن ٹالنے کے لیے دو چار بھرواں سگریٹیں خریدتے وقت پُریقین انداز میں آس پاس والوں کو سنائے کہ ’اللہ رسول دی قسم آج دے بعد میں بالکل چھڈ دینی اے۔‘ اگلے تین سال کے لیے کارآمد مالیاتی ٹیکہ لگنے کے بعد ایک بار پھر پارلیمنٹ سے ’عدالتی اصلاحات کا آئینی پیکیج‘ منظور کروانے کی ایک اور بھرپور کوشش ہونے والی ہے اور لگتا ہے اس بار مطلوبہ ووٹ پورے ہو جائیں گے۔ آج بھی آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کا ترازو مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے مگر پچھلی عاجلانہ خِجالت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب ایک پلڑے میں آئینی پیکج اور دوسرے میں مولانا صاحب کی مرضی کے باٹ رکھ کے پارلیمانی ترازو برابر کیا جا رہا ہے۔ 
اس کا عندیہ جہاندیدہ مولانا کی رائے میں لچک سے بخوبی مل رہا ہے۔ (لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ مولانا کتنے کمال چمتکاری ہیں۔ اکتوبر سنہ 2007 کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو بارِ دگر منتخب کروانے کے بعد ہی انھوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑی تھی۔ پہلے ٹوٹ جاتی تو مشرف صاحب کو منتخب کرنے والا الیکٹورل کالج بھی ٹوٹ جاتا)۔ موجودہ چنتخب پارلیمنٹ ویسے بھی فارم 47 کے بارِ احسان تلے دبی پڑی ہے۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح پُراسرار نقاب پوشوں نے من چاہے انداز میں پکڑ دھکڑ کی ایک نئی مثال قائم کی اور پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری پر ٹوٹنے والے شب خون کو جس خندہ پیشانی سے سہا اس کے بعد سے فضا اس قدر سازگار ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیاراتی پر کُترنے کا اس سے بہتر موقع ملنا مشکل ہے۔ جس طرح جدید جنگوں میں حریف کو بے بس کرنے کے لیے پہلے جم کے بمباری کی جاتی ہے اس کے بعد پیادہ فوج آگے بڑھ کے مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتی ہے، اسی طرح پچھلے ایک برس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حرمت تار تار کر کے شہریوں کی نگاہ میں اس آئینی نگہبان کو بے وقعت بنانے کا کام زوروں پر ہے۔
Tumblr media
گذشتہ برس 90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کا عدالتی حکم جوتے کی نوک پر رکھا گیا۔ پھر الیکشن کمیشن نے ٹھینگا دکھانا شروع کیا اور اب ججوں اور عدالت کے اکثریتی فیصلوں کو بھی وزرا کی ٹیم، سوشل اور پروفیشنل میڈیا اور شاہراہوں پر اچانک لٹک جانے اور پھر غائب ہو جانے والے پُراسرار کردار کش بینروں کے ذریعے کُھلم کُھلا رد کرنا نیا معمول بن گیا ہے۔ خود عدالت کے اندر بھی سیندھ لگی ہوئی ہے۔ برادر ججز برادر ججوں کے فیصلوں کی صحت پر ایک دوسرے کا نام لے کر انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ بہت سے منصف طویل عرصے سے خود پر مسلسل پڑنے والے بالائے قانون دباؤ کی گوہار لگائے ہوئے ہیں مگر عدالتِ بزرگ ان کی تحریری شکایتوں پر بھی کوئی ٹھوس پیش رفت دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ وہ دن گئے جب ناپسندیدہ فیصلوں کے سامنے بھی وزیرِاعظم سر جھکا کے استعف��ٰ دے دیتے تھے۔ کبھی ہوتا ہو گا فیصلہ سازوں کے دل و دماغ میں توہینِ عدالت کا خوف بھی۔ اب تو یہ سُننے کو ملتا ہے کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگرعدالت بھی اپنی حدود میں رہے۔
مگر اس سب میں نیا کیا ہے؟ اگر نئے آئینی پیکج کی شکل میں سپریم کورٹ کے متوازی آئینی عدالت بنا بھی دی گئی تو کیا قیامت آ جائے گی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی چیف کورٹ (سپریم کورٹ) کی سوتن تو کوئی متوازی عدالت نہیں تھی تو پھر انھوں نے تب کے طالع آزماؤں کو ’نظریۂ ضرورت‘ کی تلوار کیوں تھما دی جو آج تک آئین اور عدالت کی گردن سہلا رہی ہے۔ جسٹس انوار الحق، نسیم حسن شاہ، سجاد علی شاہ، سعید الزماں صدیقی، ارشاد حسن خان، افتخار چوہدری، عبدالحمید ڈوگر، جاوید اقبال، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، قاضی فائز عیسٰی۔ کس کس سنگِ میل کو ناپیں؟ رہا عام آدمی تو وہ اور اس کی رائے کبھی بھی بڑی گیم میں ��امل ہی نہیں تھی۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے عضوِ معطل فرض کر کے یکسر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ خوف تو بہرحال رہتا ہی ہے کہ کسی دن روٹی اور انصاف کے متلاشی کروڑوں جوتیاں چٹخانے والے خدانخواستہ ایک ساتھ پھٹ ہی نہ پڑیں۔ (تاریخ غلاموں کی بغاوت کے واقعات سے بھری پڑی ہے)۔ 
چنانچہ اس غلام ابنِ غلام کو بھی روزمرہ کی کمرتوڑ معیشت کے شکنجے میں بُری طرح جکڑ دیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ چیخ تو سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی عدالت کبھی کبھار یہ چیخ سُن ہی لیتی تھی مگر اب اس چیخ کو دبانے کے لیے سائبر قوانین، فائر وال اور ڈیجیٹل دہشت گردی کے قلع قمع کے نام پر آنکھ، منہ، کان پر رنگارنگ ٹیپیں لگا کر عام شہری کے چہرے کو پارسل جیسا بنا دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل ٹرولی محلہ در محلہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ جن سخت جانوں کو اس طرح کے غولوں سے نہیں لرزایا جا سکتا اُن کے لیے قومی سلامتی، غداری اور فساد فی الارض کے کوڑوں کی شوں شاں کا تسلی بخش انتظام ہے۔ دیکھتے ہیں ایسا کب تلک چلے ہے۔
لگانا پڑتی ہے ڈبکی اُبھرنے سے پہلے غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
( پروین شاکر)
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 28 days ago
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
Tumblr media
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکا�� ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
Tumblr media
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ ��یں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
googlynewstv · 2 months ago
Text
عمران خان کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ فیض حمید نے نہیں ہونے دیا
پراجیکٹ عمران کے چیف منصوبہ ساز جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ان کی سیاہ کاریاں سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کس طرح ریاستی مفادات کے برعکس عمران خان کے تحفظ کیلئے دن رات ایک کئے رکھے۔ یہ جنرل فیض حمید ہی تھا جس نے پی ٹی آئی کیخلاف اوپن اینڈ شٹ قرار دئیے جانے والے فارن فنڈنگ کیس کو شیطان کی آنت کی طرح آٹھ برس تک لٹکائے رکھا۔ آخرکار اگست دو ہزار بائیس میں اس کا فیصلہ…
0 notes
emergingpakistan · 2 months ago
Text
کون جال میں پھنسا ؟ حماس یا اسرائیل ؟
Tumblr media
سات اکتوبر سے پہلے تک اسرائیلی فوج اس عسکری ڈاکٹرائن کے تحت مشقیں کرتی رہی کہ اس پر بیک وقت چہار جانب سے عرب ممالک کی افواج چڑھ دوڑی ہیں اور اب اپنی بقا کے لیے کیا فوجی حکمتِ عملی اپنانی ہے ؟ انیس سو اڑتالیس انچاس میں ایسا ہی ہوا جب نوزائیدہ اسرائیلی ریاست نے عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی پیش قدمی کامیابی سے روک دی۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں بھی اسرائیل نے پہل کر کے صرف پانچ دن میں مصر ، شام اور اردن کی اجتماعی عددی برتری چت کر دی۔ اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو سرپرائز ملا جب مصر اور شام نے اچانک دو طرفہ حملہ کر دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اسرائیل سنبھل گیا اور اس نے بھرپور امریکی مدد سے عرب پیش قدمی کو بیچ میں ہی روک دیا۔ انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے بیروت سے پی ایل او کو لبنانی فلانجسٹوں کی مدد سے کامیابی سے کھدیڑ دیا اور لبنان کی جنوبی پٹی کو اگلے اٹھارہ برس تک بطور بفر زون استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل نے اس دوران اپنی طفیلی ساؤتھ لبنان آرمی بھی تشکیل دے دی۔ مگر مئی دو ہزار میں اسرائیل ایران و شام کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی تاب نہ لا سکا۔ اسے عجلت میں جنوبی لبنان کی پٹی چھوڑنا پڑی۔ ساؤتھ لبنان آرمی کا وجود بھی اسرائیلی پسپائی کے ساتھ تحلیل ہو گیا۔اٹھارہ برس کے قبضے کی قیمت ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں کی موت کی صورت میں چکانی پڑی۔
جولائی دو ہزار چھ میں جب حزب اللہ نے ایک شبخون میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو اغوا کر لیے تو اسرائیل نے حزب اللہ کو مزہ چکھانے کے لیے جنوبی لبنان میں بھرپور فضائی و بری کارروائی شروع کی مگر الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جب حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل شمالی اسرائیل کے سرحدی قصبوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے۔ اسرائیل سوائے اس کے کچھ نہ کر سکا کہ حزب اللہ کو برابر کا فریق سمجھ کر جنگ بندی پر راضی ہو کر اس کمبل سے عارضی طور پر جان چھڑا لے۔ حزب اللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور طاقت پکڑتی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شمالی اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے راکٹوں کی زد میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ اسرائیلی شہری گھر بار چھوڑ کے نقل مکانی کر چکے ہیں اور غزہ میں الجھنے کے سبب اسرائیل حزب اللہ سے ایک اور بھرپور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی جوا��ی کارروائیاں محض فضائی حملوں اور حزب اللہ کمانڈروں کو انفرادی طور پر ہدف بنانے تک محدود ہیں۔ اسرائیل کے ملٹری ��اکٹرائن میں فلسطینی کبھی بھی ایسی عسکری قوت کے طور پر نہیں دیکھے گئے جن سے اسرائیل کو بقائی خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ اسرائیلی نصاب میں فلسطینیوں کو ایک پسماندہ نیم انسان کی شکل میں ہی پیش کیا گیا جو محض دہشت گرد ہیں اور کوئی بھرپور جنگ لڑنے کے اہل نہیں۔
Tumblr media
چنانچہ اسرائیلی فوج کو شہری علاقوں میں ایک بھرپور مزاحمتی شورش سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ اسے فلسطینیوں کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک پولیس فورس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کی باقاعدہ بری فوج محض سوا لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ باقی فوجی طاقت ہر بالغ اور اہل شہری کے لیے تین برس کی لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بس تین برس کی لازمی مدت پوری کر کے اپنے شعبوں اور اداروں میں لوٹ جاتے ہیں اور بہت کم مستقل فوجی ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتی تھی کہ حماس یا اسلامی جہاد جیسی تنظیمیں محض اکادکا گھریلو ساختہ راکٹ چلانے کے سوا اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا کبھی اتنی طاقت ور ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے اندر گھس کے کوئی بھرپور پروفیشنل فوجی مشن انجام دے سکیں۔ اسرائیل کو ماضی میں الفتح ، پاپولر فرنٹ یا دیگر مسلح فلسطینی تنظیموں کے اتحاد پی ایل او کا تجربہ تھا۔ اسے اچھے سے معلوم تھا کہ فلسطینی گوریلے یا فدائین زیادہ سے زیادہ سرحدی علاقہ عبور کر کے مختصر و محدود چھاپہ مار کارروائی کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کہیں کوئی بم دھماکا کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اسرائیلی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عارضی طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں۔
اسرائیل نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی چھٹ پٹ مسلح کارروائیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کر لیا۔ جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو سیاسی و سفارتی طور پر تسلیم کر کے اسرائیل اور امریکا کی من مانی شرائط پر ہتھیار رکھ کے جو بھی ملا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیا تو اسرائیلی عسکری قیادت کے دل سے یہ آخری کھٹکا بھی نکل گیا کہ فلسطینی اب کبھی اس قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک سنگین عسکری چیلنج بن سکیں۔ اسرائیل نے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تاثر کو اپنے مغربی اتحادیوں اور عرب دنیا کی نظروں میں اس قدر مستحکم کر دیا کہ خود فلسطینیوں کے سابق اتحادی ممالک بھی اس مسلسل پروپیگنڈے کے قائل ہوتے چلے گئے کہ فلسطینی کسی کے لیے بھی کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکتے۔چنانچہ فلسطینیوں کو عرب حکومتوں نے پہلے کی طرح احترام اور برابری کا درجہ دینے کے بجائے ان پر ترس کھانا شروع کر دیا۔ جب عربوں نے دیکھا کہ خود پی ایل او کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی بھی عملاً اسرائیل کو ایک ناقابلِ شکست طاقت سمجھ کے انتظامی طور پر اس کی بی ٹیم بننے پر تیار ہے تو پھر عرب ممالک نے مسلسل گھاٹے کے فلسطینی نظریاتی سودے کو نظرانداز کرتے ہوئے براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اسرائیل سے اپنے سفارتی ، اقتصادی و اسٹرٹیجک معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیے۔
پہل مصر نے کی، پھر اردن نے مصالحت کی اور اس کے بعد خلیجی ریاستوں نے امریکا سے قربت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل سے دو ریاستی حل کی شرط منوائے بغیر ہاتھ ملا لیا۔ مگر سات اکتوبر کو حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح کیڈر نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کئی گھنٹوں تک جو کارروائی کی۔ اس کے سبب اسرائیل کا روایتی فوجی نظریہ ملیامیٹ ہو گیا کہ فلسطینی نہ اپنا دفاع ٹھیک سے کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام۔ حماس کے آپریشن کے بعد اگلے بہتر گھنٹے تک پوری اسرائیلی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سکتے کی حالت میں رہی۔ وہ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے ساتھ دراصل کیا ہاتھ ہو گیا۔ غزہ میں قدم قدم پر جاسوسی کے جال اور غزہ کو تین طرف سے خاردار تاروں سے الگ تھلگ کرنے اور وہاں کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کا فوری پتہ چلانے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ جدید آلات سے لیس نگرانی کے ٹاورز کی موجودگی میں یہ کیسے ہو گیا ؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اسرائیل کے ممکنہ ردِ عمل کا غلط اندازہ لگایا یا پھر حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کو غزہ میں پھنسانے کے لیے جو کانٹا ڈالا اسرائیل اسے حماس کی توقعات کے مطابق نگل گیا؟ اور دنیا اب اسرائیل کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اس کا اصل چہرہ دیکھ پا رہی ہے ؟  
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
moinhameed · 3 months ago
Text
✨☀✨جشنِ آزادی مبارک✨☀✨
🌟🌟💫🌟🌟 جشنِ آزادی کے پُر مسرّت یومِ سعید پر آپ سب کو لاکھوں لاکھوں مبارک باد۔ ربِ کریم کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان اور اہل وطن کو ہمیشہ شاد ، آباد اور کامیاب و کامران بنائے۔ اہل وطن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام، محبت اور خیر خواہی کے پاکیزہ جذبات میں بے پناں اضافہ ہو، قیامِ پاکستان اور بقائے پاکستان میں اپنا مالی ،جانی، اخلاقی نذرانے پیش کرنے والوں کو ظاہری و باطنی رحمتیں و برکتیں نصیب ہوں۔ اللہ پاک ملک و ملّت کا بول بالا رکھے ۔ آمین یا رب العالمین۔ الحمد اللہ ، آج ہم سب پاکستان کا ۷۰ واںیومِ آزادی شایان شان طریقے سے منا رہے ہیں۔دیکھا جائے تو ستر برس کا یہ طویل اور صبر آزما سفر اہل وطن اور عظیم لیڈروں کے ایمان و یقینِ محکم، عزمِ صمیم و اعلیٰ ہمتی اور سعئ پیہم کی ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔ لِہٰذا آج کا یہ مبارک تاریخی دن سرزمینِ پاکستان سے اپنی بے غرض وفا داری،بے لوث خدمت اور حب الوطنی کے ارفع جذبے کو تر و تازہ کرنے اور تعمیر وترقیِ پاکستان میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہ کرنے کے عہد کی تجدید کا دن ہے یہ شکرگزاری کا بھی دن ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں نیلے آسمان تلے ایسی سرزمین عطا فرمائی جہاں پر ہم اپنی مذہبی ، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اورتہذیبی اقدار کا اظہارنہایت پُر سکون اور پُر اعتماد انداز سے کر سکتے ہیں۔ یقیناًآزادی ایک انمول نعمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے ایک منفرد تحفہ ہے ۔ ساری مخلوقات میں صرف انسان ہی آزادی کے لطیف اور پُر لطف احساسات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اگر اس کا مول جاننا چاہتے ہو تو کھلے سمندر کی مچھلی سے پوچھو جسے تالاب میں قید کر دیا گیا ہے، اُس پرندے سے جانئے جس کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کیا گیا ہے، وہ شخص جو سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی عمر قید کاٹ رہا ہے، ننھا چوزہ جو انڈے کے خول سے نکلنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے ،نرم و نازک بیج جسے مٹی کے تہوں میں دفنایا گیا ہے جو روشنی کی تلاش میں زحمتیں جھیل رہا ہے اور ذرا اپنے اردگرد، مشرق و مغرب کی جانب نظریں پھیلائیں اور دیکھیں کہ دنیا کے مختلف خطّوں کے متنازعہ علاقوں میں آزادی کی جنگ لڑنے والے سپاہیوں اور کارکنوں سے دریافت کیجئے کہ آزادی کس قدر قیمتی اور گراں قدر دولت ہے آغاز میں ہدیہ کی گئی آیتِ قرآنی کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں(آزادی) کی قدر دانی اور اس کا صحیح مصرف بجا لائیں گے تو اللہ پاک اس میں برکت اور کشادگی عنایت فرمائیں گے اور ناشکری ، نافرمانی، ناقدری یعنی کفرانِ نعمت کی ایسی مثالیں ہیں کہ جس سے وہ نعمت مختصریا چھن جاتی ہے۔ خدا وند مہربان آزادی کی عظیم نعمت سے دینی اخلاقیات کے مطابق کما حقہ ہو مستفیض ہونے کی اعلیٰ ظرف عطا فرمائے۔ آمین 🌟🌟💫🌟🌟
مُعین حمید عبدالحمید
اے ہمارے پالنہار!ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا کر اور ہمارے لئے ہمارے معاملات کی درستی کا سامان مہیا کر دے۔” آمین یا رب العالمین پاکستان زندہ باد۔
١٤ اگست ٢٠٢٤
جشنِ آزادی مبارک
Tumblr media
0 notes