#ادویات کی قیمتیں
Explore tagged Tumblr posts
Text
ادویات کی قیمتیں بڑھنے پر قائمہ کمیٹی ارکان پھٹ پڑے
ادویات کی بڑھتی قیمتوں کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پہنچ گیا،کمیٹی اراکین جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پھٹ پڑے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی کارکردگی کوتنقید کا نشانہ بناڈالا۔ ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس ہوا۔ وزارت صحت حکام کی کمیٹی کو وزارتِ صحت کے تحت کام کرنے والے اداروں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ حکام نے بتایا کہ…
0 notes
Text
معاشی ترقی کا ہدف اور ڈیفالٹ ؟
ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ممالک نے زیادہ تر ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی اور ان شعبوں کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی جن میں سرمایہ کاری کرنے کے زیادہ سے زیادہ فوائد تھے۔ ایک ڈالر صرف کر کے پانچ یا دس ڈالر سمیٹے جا سکتے تھے۔ منافع کے علاوہ افرادی قوت کی بھی زیادہ سے زیادہ کھپت ہو جاتی۔ اس طرح ملک بتدریج اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا، کیونکہ ایسے ممالک نے ہی ترقی کی جن ممالک میں کرپشن اتنی دیدہ دلیری سے نہیں کی جاتی۔ نہ ہی کرپشن ہو یا ناجائز منافع خوری یا فراڈ کے دیگر طریقے مثلاً مال دکھایا کچھ اور آرڈر ملنے پر سپلائی ذرا گھٹیا مال کی کر دی۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں درجہ بندی کا فرق بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں پر بیرون ممالک کے سرمایہ کار مختلف طریقوں سے اپنی فزیبلٹی رپورٹس حاصل کر کے اس بات کا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہاں پر کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ چاہے وہ صنعتی ہوں یا زرعی کیوں نہ ہوں ، کیونکہ اس طرح زراعت پر مبنی صنعتی اشیا کی تیاری کا عمل شروع کیا جاتا ہے یوں وہ زیادہ سے زیادہ صرف ضروری سرمایہ کاری کر کے جو یقینا ڈالر کی صورت میں ہوتا ہے اور کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے اور چلانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کارکی سب سے اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ حتیٰ کہ 4 گنا یا 5 گنا اور بعض اوقات اس سے زائد بھی سمیٹ لیتا ہے ان تمام کو ڈالرز کی صورت میں اپنے ملک لے کر چلا جاتا ہے۔ البتہ انھیں پاکستان کی معاشی ترقی یہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی سے دلچسپی نہیں ہوتی۔
البتہ سی پیک کے تحت جو منصوبے مکمل ہو رہے ہیں اس سے چونکہ یہاں کی صنعت و تجارت اور روزگارکے مواقع بڑھنے کی ضمانت دی جا رہی ہے، اسی لیے اس منصوبے کو گیم چینجر منصوبہ کہا جا رہا ہے جس کی مقررہ وقت میں تکمیل پاکستانی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے ملک کی معاشی صورتحال کے ساتھ سیاسی صورت حال نے ملک کے صنعتی شعبے، پیداواری شعبے، کاروباری شعبے حتیٰ کہ ایکسپورٹ پر بھی نہایت ہی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ صرف ڈالر کی کمی یا کمیابی یا پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف کے درشت رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان درآمدات پر بھی پابندی عائد کرتی رہی جو کہ بطور برآمدی میٹریلز استعمال ہو رہی تھیں۔ پھر اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی کو بڑھانے میں مافیاز کا کردار اور اچانک کسی بھی ضرورت کی یا خوراکی اشیا کی کمیابی کی افواہیں اور پھر بڑے بڑے تجوریوں کے مالکان کا رویہ کہ کسی شے کی قلت کے خدشات کے پیش نظر صرف اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے دام بڑھ جائیں گے مارکیٹ سے تمام مال سمیٹ کر اپنے گوداموں میں بھر لیا جاتا ہے۔
قوم اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہے کہ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی گھی، کبھی ادویات حتیٰ کہ ہارڈویئر اور سینیٹری کے آئٹمز بھی بعض اوقات ان کا خام مال کے عالمی ریٹس بڑھنے اور بندرگاہ پر پلاسٹک میٹریلز کی تیاری کے لیے درآمدی خام مال کے روکے جانے اور کئی وجوہات کی بنا پر ملک میں سینیٹری آئٹمز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔ اب اس طرح کے حالات جب پیدا کر دیے جائیں گے تو اس سے ظاہر ہے دیگر کئی امور شامل ہو کر ملکی ترقی کے شرح ہدف کو گرا دیں گی اور پاکستان میں یہی کچھ ہوا ہے کہ بتایا جا رہا ہے کہ ملکی معاشی کی شرح کا ہدف 5 فیصد طے کیا گیا تھا لیکن ہدف نصف فیصد سے بھی کم حاصل ہوا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سرمایہ کار اور بڑے بزنس مین اس طرف متوجہ ہو جائیں اور ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ سرمایہ کار چاہے ملک کا ہو یا بیرون ملک کا وہ ملکی سیاسی معاشی اور دیگر مستقبل کے بارے میں خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری سے اجتناب کرتا ہے۔
یہ وقت ہے بزنس مین کی حوصلہ افزائی کا کیونکہ ملکی کاروبار یا صنعتی اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، صنعتی پہیہ چلے گا رواں دواں ہو گا تو پھر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک کی قومی آمدنی میں اضافہ ہو گا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ پہلے سے کمی ہوئی ہے لہٰذا کاروباری لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ان کی تسلی، تشفی کے بعد ہی ملک میں سرمایہ کاری کا عمل تیز ہو گا۔ جب صنعتی پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا جب ہی جا کر معاشی ترقی کے ہدف کے قریب یا بعض اوقات ہدف سے زیادہ کا بھی حصول ممکن ہے۔ جلد ہی نئے مالی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اس میں بجٹ کے علاوہ جس امر پر زیادہ گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی وہ یہ ہے کہ افواہ سازی، بعض اوقات مافیاز اور دیگر عناصر جان بوجھ کر مختلف اقسام کی افواہیں پھیلا دیتے ہیں۔ جس سے ملک کی معاشی ترقی کے اپنے منزل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے اور خاص طور پر سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کے بعد اور گزشتہ 6 ماہ سے یہ بات سب سے زیادہ سنائی دی جاتی رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کئی معاشی ماہرین بھی یہ بات بلا جھجک کہہ رہے تھے۔
قارئین کرام کو معلوم ہے کہ اپنے کسی بھی معاشی جائزے والے کالم میں اس بات کا کبھی خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ معیشت کے اعشاریے ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں چیئرمین فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ روز کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں 10 ارب ڈالرز زرمبادلہ موجود ہے اور 28 ماہ میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کی افواہوں سے روپے پر اعتماد میں روز بروز کمی آتی رہتی ہے، لوگ ڈالر، سونے اور پلاٹ وغیرہ کو محفوظ سمجھ کر اس میں اپنا پیسہ لگا کر اپنے سرمائے کو جامد و ساکت کر دیتے ہیں اور یہی بات معیشت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس طرح معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ملک کے معاشی حکام اور معاشی پالیسی سازوں کے مدنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی کرنسی اپنا روپیہ مضبوط ہو، حکومت سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، کارخانہ داروں، کاروباری افراد، تاجروں کو اعتماد میں لے اور ملک میں کاروباری ماحول کے لیے مدد و تعاون فراہم کرے۔ چھوٹے تاجروں کو مراعات دے اور ٹیکس چوروں کو نہ چھوڑے اور ان کو بھی جو چوری کے راستے کو ان کے لیے آراستہ کرتے ہیں۔ رواں مالی سال تو آیندہ بیس روز کے بعد ماضی بن جائے گا، لیکن آیندہ مالی سال ان کوتاہیوں، غلطیوں سے اجتناب کیا جائے تاکہ معاشی ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے۔
محمد ابراہیم خلیل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
حجاج کرام کے لیے مفید مشورے
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
حج پیدل چلنے کا نام ہے جتنی آپ میں پیدل چلنے کی استطاعت مضبوط ومستحکم ہو گی آپ اسی قدر سفر حج میں کامیاب وکامران رہیں گے۔ اس لیے ممکن ہو تو ا��ھی سے پیدل چلنے کی عادت ڈالیے تاکہ وقت ضرورت پریشانی نہ ہو۔ دن میں نکلتے وقت چھتری کا استعمال کریں اور مشروبات اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔
سفر حج و عمرہ پر روانگی سے پہلے اور دوران سفر صحت کا بہت خیال رکھیں ـ پہلے سے ہلکی پھلکی ورزش کرتے رہیں ـ تیز چلنے اور دوڑنے کی عادت ڈالیں، روانگی سے پہلے ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کرائیں (یہ مشورہ آپ کی حج درخواست میں بھی درج ہے) ڈاکٹر کا نسخہ اور ضروری ٹیسٹ کا نتیجہ فوٹو کاپی کر کے اپنے پاس رکھ لیں ـ ڈاکٹر نے جو دوائی تجویز کی ہے، سارے سفر کی مدت کے لیے ساتھ لے جائیں ـ حج میڈیکل مشن پر بھی ادویات دستیاب ہونگی تاہم کمپنی/نام مختلف ہو سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہرقسم کی دوائی سعودی عرب میں مل سکتی ہے لیکن ڈاکٹر کا نسخہ دکھانا ہو گا ـ نیز وہاں قیمتیں زیادہ ہیں اور نام مختلف ہوتے ہیں۔
جب آپ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں تو مکہ اور مدینہ میں بلڈنگ معاون آپکی رہنمائی کیلئے موجود ہونگے ـ کسی بھی تکلیف کی صورت میں ان سے رابطہ کرسکتے ہیں ـ مکہ اور مدینہ منورہ کے مرکزی ہسپتال میں ڈاکٹر، لیبارٹری ، ایکسرے، داخلے کے لئے وارڈز اور علاج کی تمام سہولتیں میسر ہیں ـ نیز آپ کی رہائش گاہ کے قریب حکومت پاکستان کی طرف سے ایک ڈسپنسری موجود ہو گی ـ بوقت ضرورت ڈسپنسری کے ڈاکٹر سے طبی مشورہ لیا کریں حج کے دوران جن بیمارافراد کو کرسی (Wheel chair) پر طواف اور سعی کرایا جاتا ہے ـ وہ بیت للہ کی بالائی منزل میں جائیں ـ کیونکہ نیچے زیادہ رش کی وجہ سے اکثرافراد مریض کی کرسی سے ٹکرا کر گر جاتے ہیں ـ
بیمارافراد بھیڑ میں نہ جائیں بلکہ اوپر والی منزل یا چھت میں آرام آرام سے طواف و سعی کریں کھانے پینے میں احتیاط کریں، اپنا علیحدہ تولیہ، صابن اور مسواک یا برش استعمال کریں، اپنی رہائش گاہ، حمامات اور اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں ـ بچا ہوا کھانا ،پھلوں کے چھلکے ،استعمال شدہ برتن اور دیگر کوڑا کرکٹ مقررشدہ جگہوں تک پہنچائیں۔ اپنے حصے سے زیادہ کھانا مت لیں نیز کھانا ضائع مت کریں۔
آب زم زم پانی کے کولرکے قریب گرے ہوئے پانی پر اکثرضعیف افراد پھسل کر گرجاتے ہیں ـ اس لئے احتیاط کریں ـ آب زمزم پیتے وقت ہر بار اپنی صحت کے لئے دعا کریں کوشش کریں اپنے م��دود دوران قیام میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں حج نام ہے صبر کا اور حج پر آزمائشیں زیادہ آتی ہیں شیطان پوری کوشش کرے گا آپ کے اعمال ضائع کروانے کی جب وہ دیکھے گا کہ آپ اتنی نیکیاں لے کر جا رہے ہیں وہ پورا زور لگاے گا کہ کسی طرح آپ کو کسی حاجی سے لڑائی جھگڑا کرواے وہاں پر منی اور عرفات میں قدم قدم پر صبر کرنا پڑے گا پھر جا کر آپ کا حج حج مبرور ہو گا منی اور عرفات میں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا جھگڑنا شروع ہو جاتے ہیں اس سے بچیٔے گا اور اگر کوئی دوسرا حاجی آپ سے زیادتی کر جاۓ تو پھر بھی صبر کریں انشاللہ اس کا بہترین اجر آپ کو ملے گا
روضہ رسول پر جوتے ہاتھ میں نا پکڑے سخت بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے آپ جوتے باھر رکھ آہیں مسجد کے اندر ریک ہیں ان میں رکھ دیں یا بہتر ہے مسجد میں موضے استعمال کریں
دوران طواف فون بند کر دیں یہ بھی نماز کی طرح ہے ویڈیو کال بلکل نا کریں خاص کر خواتین کو کیونکہ دوران طواف آپ کے موبائل سے خاتون کو سب لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو آپ کے پیچھے چلتے ہیں کھانا اتنا ہی لیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔ منی میں کیمپ میں کولڈ ڈرنکس اور مالٹے دیتے ہیں۔ منی میں دوکانیں اور ہوٹل بھی موجود ہیں۔
پیدل چلنے کی عادت ڈالیں وہاں پر سخت گرمی اور خشک موسم ہو گا اور رش بھی بہت ہو گا اپنے گھر یامسجد کے اندر ننگے پاؤں چلنے کی عادت ڈالیں طواف کے دوران سبز لائٹ پر ہی طواف ختم کریں- سبز لائٹ سے پہلے ہی باھر چلے جانے سے ہیں اس سے آپ کا طواف پورا نہیں ہو گا
اپنا قیمتی سامان بڑے بیگ میں نا ڈالیں بلکہ اس کو اپنے اینڈ کیری میں رکھیں اگر خدا نخواستہ آپ کا بیگ گم بھی ہو جائے تو آپ کے لیے کم پریشانی بنے
اپنے بیگ پر اپنے کوائف لازمی لکھیں اور ایک چٹ پر لکھ کر بیرونی جیب میں بھی ڈال لیں
احرم کی چادر نیچے تہبند والی ناف سے اوپر باندھیں کیونکہ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہوتا ہے بہت سے حاجی جن کی چادر ناف سے کافی نیچے اور گھٹنے سے اوپر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ضرورت پڑنے پر احرام کی چادر کو دھویا بھی جا سکتا ہے اور تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ احرام کو بوجہ ضرورت یعنی نہانے کیلئے کھولنا اور خواتین کا وضو کرتے وقت سر کے مسح کیلئے سر کا رومال/عبایا کھولنے کی اجازت ہے۔
منی میں خیموں میں اپنی کرنٹ لوکیشن کسی ساتھ والے حاجی کو بھیج دیں اور اگر کوئی خیمہ بھول جاے تو اس لوکیشن پر جا کر آسانی سے مل جائے گا
جو حاجی ساتھ ہو نگے ان کا نمبر لازمی اپنی پاس رکھ لیں اور اگر بچھڑ جاٰئیں تو اس سے کہیں واٹس ایپ پر آپ کواپنی لوکیشن بھیج دیں اور حج کی پاکستانی ایپ PVG hajj اسٹال کر لیں
مسلکی بحث ہرگز نا کریں
طواف زیارت سے واپسی پر زیادہ تر لوگ بھول جاتے ہیں واپسی کا راستہ گوگل ماپ بیسٹ آپشن ہے
قربانی کے ٹوکن غیر مجاز لوگوں سے مت لیں بلکہ وزارت کی ہدایات پر عمل کریں
دوائیاں صرف اتنی لے جائیں جتنی ضرورت ہو باقی سعودی عرب سے مل جائیں گی اور سعودی گورنمنٹ بھی پاکستان کی طرف سے میڈیکل کیمپ سے فری دیتی ہے ان سے لے لیں
مکہ مکرمہ یا مدینہ پاک میں اگر کسی حاجی کو نسک ایپ کی سمجھ نا آئے تو پریشان ہونی کی کوئی ضرورت نہں ساتھی حجاج یا معاونین حج سے مدد طلب کریں
اگر آپ چائے کے شوقین ہیں تو بازار سے چائے خریدنے کے بجائے اسے خود ہی بنانے کا اہتمام کریں۔ ویسے تو چاے دو ریال فی کپ ملتی ہے مگر حج کے ایام میں چائے یا کھانا کا ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایک الیکٹرک کیٹل یہیں سے خرید لیں اور چاہیں تو وہیں جا کر خریدیں۔ ٹی بیگ بھی یہیں سے خریدنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ خشک دودھ اور چینی ہرگز کمپنی بند پیکنگ میں لے جائیں۔ یہ دونوں اشیا وہاں باآسانی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ الیکٹرک کیٹل میں پانی گرم کریں اور ٹی بیگ ڈال کر چائے جب چاہیں بنا کر پئیں
جانے سے قبل اپنے بیگ کا خوب جائزہ لیں کہ وہ مضبوط ہوں کیونکہ سامان کئی بار اتارا اور رکھا جاتا ہے جس میں ان کے کھلنے اور سامان کے بکھرنے کا احتمال رہتا ہے۔ احتیاط کے پیش نظر بیگ پر چڑھانے کے لیے کپڑے کے غلاف تیار کر لیں جنہیں ڈوری سے اچھی طرح باندھ لیں۔ بیگ، اٹیچی اور غلاف مہر پر اپنا نام، پتا اور فون نمبر نمایاں طور پر لکھیں اور ایک آدھ مارکر اور چند بال پین اپنے ہمراہ ہمیشہ رکھیں تاکہ ایئرپورٹ پراندراجات کے وقت پریشانی نہ ہو
اللہ پاک تمام حجاج کاحج مقبول و مبرور فرمائے۔ آمین از محمد علي کلوڑ۔ میرپورماتھیلو- گھوٹکی، سندھ، پاکستان
0 notes
Text
آئی ایم ایف پروگرام اور معیشت کی بحالی؟
پاکستان کی معیشت گزشتہ چند ماہ کے دوران جس تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئی ہے، ماضی میں اس کی مثال ڈھوندنا بھی مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کیلئے حکومت نے جان بچانے والی ادویات اور اشیائے خورونوش کے علاوہ ہر قسم کی درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے درآمدی صنعتوں کو درکار خام مال کی فراہمی تعطل کا شکار ہو چکی ہے اور برآمد کنندگان کیلئے غیر ملکی گاہکوں کے برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے اپنی ’معاشی جادوگر‘ کی شبیہ برقرار رکھنے کے لئے ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر منجمد رکھنے کی کوشش نے بھی پاکستان کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ڈالر کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھنے کی کوشش کے باعث ہنڈی اور بلیک مارکیٹ دوبارہ مضبوط ہوئی اور صرف ترسیلاتِ زر کی ��د میں پاکستان کو ہر ماہ تقریبا ایک سے دو ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑا جب کہ برآمدات میں بھی ماہانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی کمی آ چکی ہے۔ اس لاحاصل مشق کا انجام یہ نکلا کہ جیسے ہی ڈالر کی قدر پر لگائی گئی مصنوعی پابندی ختم ہوئی اس کی قیمت یکدم بیس سے تیس روپے بڑھ گئی۔
یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جو اقدامات ستمبر، اکتوبر میں کئے جا سکتے تھے ان میں خوامخوہ کی تاخیر کر کے ہر شعبے کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ تادم تحریر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گیا ہے یا اس کے لئے مزید پیشگی شرائط کو پورا کرنا ہو گا ؟ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین 9ویں جائزہ پروگرام کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد وزیر خزانہ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے معاشی پالیسیوں میں پے در پے تبدیلیوں کو مدنظر کرتے ہوئے اگلی قسط کے اجراء سے پہلے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھنے اور مستقل بنیادوں پر آمدنی بڑھانے کی شرائط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے فنڈنگ کی یقین دہانی مانگ لی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کو ان شرائط کی تکمیل اور واشنگٹن کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی بڑھے گی اور درآمدی اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ ایسے میں حکومت کے پاس واحد آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ بنیادی اشیائے خورونوش یعنی آٹا، گھی ، چینی، دودھ ، چاول اور دالوں وغیرہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور ان کی طلب و رسد میں توازن پیدا کر کے عام آدمی کے لئے ان کی فراہمی آسان بنائے۔ اس کے لئے ضلع اور تحصیل کی سطح پر انتظامی مشینری کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو عام آدمی کی آمدنی اور قوت خرید بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی ترجیح برآمدی صنعتوں کو دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم اپنی معیشت کو چلانے کے لئے خود ڈالر کمانے پر توجہ نہیں دیں گے دنیا کا کوئی مالیاتی ادارہ یا دوست ملک مستقل بنیادوں پر ہماری مالی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔
برآمدی صنعتوں کو پوری استعداد پر چلانے سے ناصرف برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ اس شعبے سے جڑے دیگر کاروباری شعبوں کا بھی پہیہ چلے گا جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ اس وقت تک حکو��ت کی سطح پر برآمدات کو بڑھانے کی کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آ رہی ۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے ایک واضح پالیسی تشکیل دے تاکہ برآمدات کو 30 سے 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکے۔ علاوہ ازیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے بھی فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے انہیں براہ راست سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے مکمل تحفظ کی پالیسی متعارف کروائی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے زرمبادلہ کے حوالے سے درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے حاصل ہونے والی ترسیلات زر کو بڑھانے پر خصوصی توجہ دی تھی جس کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے لیکن بدقسمتی سے حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس حوالے سے جاری پالیسیوں کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔
ان حالات میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم طویل المدت بنیادوں پر معیشت کی بحالی کے لئے ایسے اقدامات کریں جن سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگائی جائے اور مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جائے کہ وہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات ملک میں تیار کریں۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری اور وزیروں، مشیروں کو ملنے والی مراعات کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مقروض ملک ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جو پاکستان میں جاری ہیں۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ڈریپ نے 110 سے زائد دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کر دی
ڈریپ نے 110 سے زائد دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کر دی
400 سے زائد دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی درخواستیں موصول، وزارت صحت حکام (فوٹو : فائل) اسلام آباد: ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے 110 سے زائد دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کی ہے۔ وفاقی وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں کینسر، نفسیاتی امراض اور اعضا کی پیوند کاری سمیت جان بچانے والی ادویات کی قلت ہے۔ قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے سے کمپنیوں نے ادویات بنانا بندکردی ہیں۔ وفاقی وزارت صحت کا کہنا ہے…
View On WordPress
0 notes
Text
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
قدرتی آفات کے اثرات کو مختلف تدبیروں سے ہلکا تو کیا جا سکتا ہے مگر یکسر ٹالا نہیں جا سکتا۔ مگر بہت سی آفات محسوس تو قدرتی ہوتی ہیں لیکن ان کے پیچھے کسی نہ کسی عقلِ کل حکمران کی کارستانی ہوتی ہے جو فطرت کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے اس کا بازو مروڑ کے فطرت کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس جینیس حکمران کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ لاکھوں انسان اس کے اچھوتے ادھ بدھ تجربات کی بھینٹ ضرور چڑھ جاتے ہیں۔ سرِ دست مجھے اس تباہ کن افلاطونیت کے تعلق سے جو مثال فوری طور پر یاد آ رہی ہے وہ انیس سو تیس کے عشرے کے ��سٹالنی سوویت یونین کی ہے جب نجی کھیتوں کو اجتماعی فارموں اور کوآپریٹوز کا حصہ بنانے کی بھرپور جبری کوشش ہوئی اور کسانوں نے اس کی جان توڑ مزاحمت کی۔ اپنے ہی ہاتھوں فصلوں کو آگ لگا دی یا عالمِ طیش میں لاکھوں پالتو جانور مار ڈالے۔ اس کسان مزاحمت کا سب سے زیادہ زور سوویت یونین کا غلہ گودام کہلائی جانے والی ریاست یوکرین میں تھا۔ کسانوں سے نہ صرف زمین چھین کر انھیں اجتماعی کھیتی باڑی کے نوکرشاہ نظام کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا۔ بلکہ مزاحمت کرنے والے ہزاروں کسان خاندانوں کو بطور سزا سائبیریا اور وسطی ایشیا کے بیابانوں میں منتقل کیا گیا۔
اس اتھل پتھل کے سبب یوکرین جیسی سونا اگلتی سرزمین میں قحط سالی نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ گیہوں کا گودام کہلانے والی ریاست بربادی کے کگار پر پہنچ گئی تو دیگر سوویت ریاستوں میں بھی غلے کی شدید قلت نے اپنا رنگ دکھایا۔مگر اسٹالن نے پرواہ نہیں کی اور اجتماعی کھیتی باڑی کے نظام کو مکمل کر کے دکھایا ( بیس برس بعد چین میں بھی یہی اسٹالنی تجربہ دہرایا گیا۔ لاکھوں جانیں گئیں مگر خبریں بھی انسانوں کے ساتھ دبا دی گئیں ۔) اس سختی، راج ہٹ اور انسانی قربانی کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیتی باڑی کے نئے نظام کے تحت سوویت یونین غلے کی پیداوار میں خودکفیل ہو جاتا۔ مگر ایسا ہونا تو درکنار الٹا سوویت یونین کو بیرونی غلے کی ضرورت پڑ گئی۔ انیس سو اسی کے عشرے میں جب سرد جنگ عروج پر تھی۔ سوویت یونین اپنے سب سے بڑے نظریاتی دشمن امریکا سے سالانہ پچاس لاکھ ٹن گندم خریدتا رہا۔ غلے کی عالمی پیداوار میں سوویت یونین کا حصہ محض ایک فیصد تھا۔
البتہ جب سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد نجی شعبہ رفتہ رفتہ بحال ہوا تو کسانوں نے بھی گندم کو بطور نقد آور فصل دلجمعی سے اگانا شروع کر دیا۔ آج صورت یہ ہے کہ سوویت یونین کی جانشین ریاست یعنی روس گندم کی عالمی پیداوار میں اٹھارہ فیصد کی حصہ دا�� ہے جب کہ دوسری جانشین ریاست یوکرین کا گندم کی عالمی پیداوار میں حصہ سات سے آٹھ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں ممالک گندم کی ایک چوتھائی عالمی پیداوار کی فراہمی کے ضامن ہیں اور دنیا کے لگ بھگ اسی ممالک کا دارو مدار اسی روسی یوکرینی گندم پر ہے، جب کہ مصنوعی کھاد یعنی فاسفیٹ کی ایک چوتھائی پیداوار بھی روس اور بیلا روس سے عالمی منڈی میں پہنچتی ہے۔ اور اس وقت روس یوکرین لڑائی کے سبب گندم اور فاسفیٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سری لنکا کا شمار بھی انھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو گندم اور مصنوعی کھاد کے معاملے میں مذکورہ تین ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ مگر گزشتہ برس مئی تک بھلے چنگے سری لنکا کو بھی قحط سالی کی کگار تک صرف ایک ذہین شخص یعنی صدر گوٹا بائیا راجہ پکسا کے اس خواب نے پہنچا دیا کہ سری لنکا دنیا کا پہلا ملک ہو گا جو مصنوعی کھاد استعمال کیے بغیر خوراک میں خودکفیل ہو کر ایک عالمی مثال بنے گا۔
��س وقت صدر گوٹا بائیا نے یہ خواب دیکھا تب تک سری لنکا اپنے دو کروڑ شہریوں کی بنیادی خوراک یعنی چاول کی پیداوار میں تقریباً خود کفیل تھا۔ مگر راجہ تو راجہ ہوتا ہے اور راج ہٹ بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ راتوں رات قدرتی کھاد کا متبادل انتظام کیے بغیر مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی رسد معطل کر کے کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ نیت یہ تھی کہ مصنوعی کھاد کے زہریلے اثرات سے زمین کو پاک کر کے شدھ صحت مند خوراک اگائی جائے جیسا کہ باپ داد کے زمانے کا دستور تھا۔ ملک کے بیس لاکھ کسان جو برسوں عشروں سے رعایتی مصنوعی کھاد کے عادی بنا دیے گئے تھے ان کی سمجھ سے بالا تھا کہ اچانک حکومت کو کیا جنون سوار ہو گیا اور ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر دیا گیا۔ اب اتنی بڑی مقدار میں قدرتی کھاد اور زمین کی زرخیزی بڑھانے والے دیگر قدرتی اجزا اور کیمیکل سے پاک کیڑے مار نسخے کہاں سے حاصل کیے جائیں کیونکہ ان کی درآمد کا تو پیشگی بندوبست ہی نہیں کیا گیا تھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی سیزن میں فصلوں کی پیداوار میں چالیس سے ستر فیصد تک کی کمی ہو گئی۔ سری لنکا بیٹھے بٹھائے ایک خودکفیل زرعی ملک سے منگتے فقیر میں تبدیل ہو گیا۔ پہلی بار بیرونِ ملک سے تین لاکھ میٹرک ٹن چاول خریدنا پڑا۔جب کہ اس سے پچھلے برس بیرون ملک سے صرف چودہ ہزار میٹرک ٹن چاول خریدا گیا تھا۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تب کہیں جا کے گزشتہ ماہ صدر گوٹا بائیا راجہ پکسے جن کا اپنا تعلق بھی زرعی خاندان سے ہے نے اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ اتنی عجلت میں اتنا اہم زرعی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور حکومت اس کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ مگر تب تک زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے تھے۔ یوکرین روس تنازعے کے نتیجے میں مصنوعی کھاد کی قیمتیں دگنی ہو چکی تھیں۔ سرکار نے عالمِ گھبراہٹ میں مصنوعی کھاد خریدنے کے لیے عالمی بینک سے نیا قرضہ لیا۔ لیکن قرضہ آتے آتے بھی وقت تو لگتا ہے۔
اس دوران عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جنھیں پہلے ہی نہ دوا میسر تھی نہ خوراک اور نہ ڈیزل اور پٹرول۔ پھر یوں ہوا کہ صدر کے سگے بھائی مہندا راجہ پکسے کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے مجبوراً مستعفی ہو کر بحریہ کے ایک اڈے میں خاندان سمیت پناہ لینا پڑی۔ ان کی جگہ رانیل وکرما سنگھے کو حکومت بنانا پڑی۔ رانیل صاحب نے آتے ہی بنا کسی لاگ لپٹ عوام کو حقیقت بتا دی کہ موجودہ زرعی سیزن کے لیے مصنوعی کھاد حکومت فراہم نہیں کر سکتی۔ البتہ اگلے سیزن کے لیے ضرور کھاد اور زرعی ادویات کی رسد یقینی بنائی جائے گی۔ اگلے چند ماہ بہت تکلیف کے ہیں مگر برداشت تو کرنا ہو گا۔ اس وقت سری لنکا میں بنیادی خوراک تین ماہ پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد مہنگی ہو چکی ہے۔ پٹرول خریدنے کی سکت نہیں تو سیاحت کا شعبہ بھی ٹھپ پڑا ہے۔ امریکی زرایع اور اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ اگلے برس جن دو ممالک کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ افغانستان اور سری لنکا ہوں گے۔ خدا دونوں ممالک کے حال پر رحم کرے اور دیگر ممالک کو ان دونوں کے حال سے سبق سیکھنے کے لیے عقلِ سلیم نہ سہی کامن سنس ضرور عطا کرے۔ (آمین۔)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کرونا وائرس کے نقصانات تو بہت، فائدے کیا ہیں؟
ہلاکتیں، معاشی ابتری اور پوری دنیا میں لاک ڈاؤن، یہ کرونا وائرس کے کچھ ایسے اثرات ہیں جن سے ہر شخص پریشان ہے۔ لیکن اس وبا کے پھیلنے سے کچھ ایسی تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں جو دنیا کے لیے خوش گوار ہیں اور جن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے منفی اثرات کے ساتھ کچھ ایسے مثبت اثرات بھی آئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ آئیے ان میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہاتھ دھونے کی پابندی کرونا وائرس ہمیں باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کی پابندی سکھا رہا ہے جو کسی بھی شخص کی اچھی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے امریکی ادارے 'سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن' کے مطابق جراثیم انسان کے جسم میں ہاتھوں کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں۔ انجانے میں کسی بھی سطح یا چیز کو چھونے سے جراثیم ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر غذا کے ساتھ آپ کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ماہرین صحت یہ تاکید کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو صاف رکھا جائے اور کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے اس سے بچاؤ کی سب سے اہم احتیاطی تدابیر میں بار بار ہاتھ دھونا بھی شامل ہے۔ سو اس وبا سے بچاؤ کے دوران اگر یہ عادت ہماری زندگی کا حصہ بن جائے تو اس کے لیے ہمیں کرونا وائرس کا شکریہ ادا کرنا ہو گا۔
گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں سڑکوں، گلیوں اور محلوں کی صفائی کی جا رہی ہے اور جراثیم کش ادویات کا اسپرے بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف شہروں میں سڑکوں اور عمارتوں پر جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا جا رہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرونا وائرس کی وبا کے شدت پکڑتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کرونا وائرس کے باعث صنعتوں کا بند ہونا اور کئی ملکوں اور شہروں میں لاک ڈاؤن ہے جس کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں واضح فرق پڑا ہے۔ خام تیل کی زیادہ پیداوار اور کم استعمال کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمتوں میں واضح فرق پڑا ہے۔ اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 15 روپے فی لیٹر تک کم کی گئی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی ایک اور وجہ سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کے معاملے پر جاری چپقلش بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا کریڈٹ کرونا وائرس کو بھی جاتا ہے۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے معیشت کو فائدہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ تیل درآمد کرنے والے ملکوں کی معیشت کو اس کا خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان بھی تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہے اور اس کی درآمدات میں سب سے زیادہ تیل کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشی تجزیہ کار یہ امید بی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی یہی صورتِ حال برقرار رہی تو پاکستان کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی کرونا وائرس کے باعث جہاں صنعتیں بند ہونے سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے وہیں دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن کے سبب گاڑیوں کے استعمال میں بھی واضح کمی آ گئی ہے۔ کرونا وائرس کے سبب دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی اپنے گھروں میں بند ہے۔ اس سب کا نتیجہ پیٹرولیم مصنوعات کے کم استعمال کی صورت میں نکل رہا ہے جس کا فائدہ ماحولیات کو بھی پہنچ رہا ہے۔ آلودگی میں کمی چونکہ کرونا وائرس کے سبب انڈسٹریاں بند ہیں اور گاڑیاں بھی سڑکوں ��ے غائب ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر میں آلودگی میں نمایاں کمی آ رہی ہے اور مختلف آلودہ ترین شہریوں کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہو رہا ہے۔ کراچی کا ایئر کوالٹی انڈیکس ان دنوں 58 اے کیو آئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کراچی کی فضا میں آلودگی معتدل درجے کی ہے جس کا کوئی نقصان نہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 400 اے کیو آئی کے قریب پہ��چ گیا تھا۔ یعنی لاہور کی فضا انتہائی آلودہ ہو گئی تھی۔ لیکن اب لاہور کی ایئر کوالٹی 76 اے کیو آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈسٹریاں اور گاڑیاں بند ہونے سے آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ پنجاب ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق اگر انڈیکس کی ریڈنگ صفر سے 50 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے ہے آب و ہوا بہت اچھی ہے۔ اگر 50 سے 100 کے درمیان ایئر کوالٹی انڈیکس ہو تو آب و ہوا معتدل ہے اور اس کے نقصانات نہیں ہیں۔ لیکن اگر یہ ریڈنگ 400 سے 500 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ فضائی آلودگی زیادہ بڑھ گئی ہے جب کہ لاہور میں یہ ریڈنگ متعدد بار 580 تک پہنچ چکی ہے۔
ٹیلی ورکنگ سیکھنے کا موقع کرونا وائرس کے سبب زیادہ تر اداروں کے ملازمین یا تو چھٹیوں پر ہیں یا وہ گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ گھر سے کام کرنا پاکستان میں متعدد لوگوں کے لیے ایک منفرد تجربہ بھی ہے چونکہ یہاں دفاتر میں کام کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ لیکن اس وبا سے بچنے کے لیے لوگوں کو ایک طرف گھروں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ تو وہ اپنی سہولت کے لیے ٹیلی ورکنگ کے طریقوں اور نت نئی ایپلی کیشنز سے آشنا ہو رہے ہیں۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note
·
View note
Text
مافیا جیت گیا یا عمران خان
کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے، بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ ’’مافیا‘‘ کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو! بقول شاعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیا گیا، پھر یکمشت 25 روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب ، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔ چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کر کے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا و گندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی ، تو 200 والا چکن 300 میں سیل ہونے لگا۔
یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے، آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں ’’مافیا‘‘ کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ خان صاحب ! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا ، پٹرولیم مافیا ، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو ’’نتھ ‘‘ ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہو گا ۔ میرے خیال میں حکومت قائم کر لینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری، امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔
لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت تو آئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تو اُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔ اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس، آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے ’’ایلیٹ کارٹل ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ منافع خوروں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس عوام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا ، کپتان ہار گیا۔ یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔ لہٰذا ان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیں اُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے بحرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!
علی احمد ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
آئی ایم ایف کی شرائط پر منظور منی بجٹ میں مہنگی ہونے والی اشیاء - اردو نیوز پیڈیا
آئی ایم ایف کی شرائط پر منظور منی بجٹ میں مہنگی ہونے والی اشیاء – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: پارلیمنٹ نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ضمنی مالیاتی (منی بجٹ) بل 2021 کی صورت میں منظور کرلیا، جس کے بعد ادویات، سلائی مشین، درآمدی مصالحہ جات، گاڑیاں، موبائل فون اور بچوں کے دودھ سمیت دیگر 150 اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی سے منی بجٹ 2021 کی منظوری کے بعد ادویات، اُن کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال،…
View On WordPress
0 notes
Text
کابینہ نے ادویات کی قیمتوں میں 30 فی صد کمی کی منظوری دیدی
کابینہ نے ادویات کی قیمتوں میں 30 فی صد کمی کی منظوری دیدی
نئی 54 ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کی بھی منظوری دے دی گئی،وفاقی وزیرصحت:فوٹو:فائل اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں میں 30 فیصد تک کمی کی منظوری دے دی۔ ترجمان وزارت صحت کے بیان کے مطابق وفاقی کابینہ نے 20 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔ زیادہ ترادویات کی قیمتوں میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ بلڈ پریشر، کینسر اور آنکھوں کی بیماریوں میں…
View On WordPress
0 notes
Text
ضروری ادویات کی قیمتیں پہنچ سے باہر | ایکسپریس ٹریبیون
ضروری ادویات کی قیمتیں پہنچ سے باہر | ایکسپریس ٹریبیون
اسلام آباد: پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ صرف معاشرے کے غریب طبقے کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ متوسط آمدنی والے خاندانوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ کم درمیانی آمدن�� والی غربت کی شرح ($3.2 یومیہ) کا استعمال کرتے ہوئے، ورلڈ بینک کی ایک تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کی غربت کی شرح 39.3 فیصد رہی، یعنی تقریباً 90 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب ورلڈ بینک…
View On WordPress
0 notes
Text
ایک سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں نا قابل یقین اضافہ
ایک سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں نا قابل یقین اضافہ
دوا کو درد سے آرام کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن مہنگی دواؤں نے اسے مریضوں کے لیے مزید درد کا سامان بنا دیا،ایک سال کے دوران دواؤں کی قیمتوں میں دو گنا سے زائد اضافہ ہوگیا۔ پاکستانی مریضوں کا درد تو دردِ لادوا بن ہی چکا کیونکہ مہنگی ترین دوائیں خریدنا جو بس سے باہر ہوگیا، ایک سال کے دوران دواؤں کی قیمتوں مں ایک دفعہ تو کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت اضافہ ہوا جبکہ دو دفعہ قیمتیں فکس بھی کی گئیں۔ جان…
View On WordPress
0 notes
Text
پیرمحل ہیلتھ کئیر کمیشن اتھارٹی اور محکمہ صحت کی ملی بھگت یالاپرواہی
پیرمحل ہیلتھ کئیر کمیشن اتھارٹی اور محکمہ صحت کی ملی بھگت یالاپرواہی
پیرمحل ( نمائندہ سچ کا ساتھ) ہیلتھ کئیر کمیشن اتھارٹی اور محکمہ صحت کی ملی بھگت یالاپرواہی ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ‘جعلی ادویات کی بھرمار کے ساتھ ساتھ بیشتر سپیشلسٹ ڈاکٹروںکی بھاری فیسوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار نے غریب مریضوںکو موت کے منہ میں دھکیلنا شروع کررکھا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال کی لوٹ مار ‘ نان کوالیفائیڈ ڈاکٹرز اور عملہ مریضوں کے لئے خطرہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ان ہسپتالوں میں علاج…
View On WordPress
0 notes
Text
کرونا سمیت 38 ادویات کی قیمتوں کا تعین
کرونا سمیت 38 ادویات کی قیمتوں کا تعین
وفاقی کابینہ نے وزارت صحت کی سفارش پر 38 ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کی منظوری دے دی وفاقی کابینہ نےکورونا دوا کی قیمت کا تعین کردیا ہے جبکہ کینسر، شوگر، دمہ اور جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں کا تعین کیاگیا۔ 38 ادویات میں انجیکشن، کیپسول، گولیاں اور سیرپ شامل ہیں۔نئی فارمولیشن، نئی سٹرنتھ والی ادویات کی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔
View On WordPress
0 notes
Text
پٹرول بم گرا دیا گیا : نو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ
پاکستانی حکومت نے یکم اپریل سے تمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6.45 فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں قریب دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کے مطابق پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لیٹر چھ روپے جبہ کیروسین اور لائٹ ڈیزیل کی قیمت میں تین روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ اب مارکیٹ میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 117.43 جبکہ پٹرول کی قیمت 98.89 فی لیٹر کر دی گئی ہے۔ گزشتہ نو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں یہ سب سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد کر چکی ہے۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان میں ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ہیش ٹیگ پٹرول بم ٹرینڈ کر رہا ہے۔
کئی صارفین وزیر خزانہ اور وزیر اعظم عمران خان کی ماضی کی ٹوئٹس کو شیئر کر رہے ہیں جن میں انہوں نے اس وقت کی حکومت پر پٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر تنقید کی تھی۔ ٹوئٹر کے ایک صارف سعاد رشید نے ٹویٹ میں لکھا،''اگر قرضوں کے ساتھ پیڑول کے اضافے کا دفاع کرنا ہے توجب آپ پہلے بیان دے رہے تھے تب آپکو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آنے والے حالات کیا ہونے ہیں۔ اگر آپ بھی سیاسی بیان بازی ہی کرتے رہے ہیں تو آپ میں اور پی ایم ایل ن اور پی پی پی میں فرق کیا ہے۔‘‘
خرم ذیشان نے لکھا،’’ آخر حکومت نے پٹرول بم گرا ہی دیا۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کے وہ سب حساب کتاب جو پی ��ی آئی پچھلی حکومت کے ساتھ کیا کرتی تھی پٹرول کی قیمت کے حوالے سے وہ حساب کتاب کے اوراق کو آگ لگ گئی ہے یا کسی نے چ��را لیے ہیں؟‘‘ ٹوئٹر کے اور صارف نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا،’’ تیل سے لیکر ڈالر تک، ادویات سے لیکر نان روٹی تک، گیس سے لیکربجلی تک، گاڑی سے لیکر سائیکل تک، تعلیم سے لیکرصحت تک، انصاف سے لیکر راشن تک، کرایوں سے لیکر سفر تک، پانی سے لیکر مشروب تک، سبزی سے لیکرگوشت تک، کپڑوں سے لیکرجوتوں تک ہرچیز مہنگی۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note
·
View note
Text
Regional News Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date:15.April.2021, Time: 9.00 to 09.10 AM
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date: 15 April-2021 Time: 09:00-09:10 am آکاشوانی اورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ: ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۱ وقت: ۱۰:۹-��۰:۹ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں۔ ٭ مہاراشٹر میں گذشتہ کل سے نافذ ہوگیا ہے کرفیو؛ کرفیو کے نفاذ کے بعد سڑکو ںپر بھیڑ میں آئی کمی۔ ٭ کرفیو کے دوران عائد کی گئی پابندیو ںکو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے کے انتظامیہ کو احکامات؛ کہا ضروری خدمات کی فراہمی کے دوران ہجوم جمع نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔ ٭ CBSE نے دسویں جماعت کے امتحانات کیے ردّ‘ بارہویں جماعت کے امتحانات ملتوی۔ بارہویں جماعت کے نئے امتحانی ٹائم ٹیبل کا ایک جون کو ہوگا اعلان۔ اور ٭ رمضان کے مقدس مہینے کے دوران اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے کی اجازت دینے سے ممبئی ہائیکورٹ نے کیا انکار؛ کہا عوام کی حفاظت ہے سب سے اہم۔ ***** ***** ***** اب خبریں تفصیل سے۔۔۔ کورونا وائرس کے پھیلائو کے سلسلے کو روکنے کیلئے مہاراشٹر بھر میں گذشتہ رات آٹھ بجے سے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ کرفیو کے نفاذ کے بعد سے شہروں میں راستوں پر دیکھی جارہی بھیڑ میں قابلِ لحاظ کمی آئی ہے۔ کرفیو ایک مئی تک جاری رہے گا اور اس دوران صرف انتہائی ضروری خدمات کو جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔ واضح ہو کہ ریاست میں کورونا وائرس کی دوسری لہر زوروں پر ہے اور اس لہر میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی تعداد دِن بہ دِن بڑھتی جارہی ہے۔ کورونا پازیٹیو مریضوں کی تعداد میں ہورہے اضافے کو روکنے کیلئے یہ کرفیو نافذ ��یا گیا ہے۔ اس دوران معاشی طور پر کمزور طبقات کو راحت د ینے کیلئے ریاستی حکومت نے مالی مدد کا پہلے ہی اعلان کردیا ہے۔ اس کے تحت غذائی تحفظ منصوبے کے مستحق افراد کو مفت اناج فراہمی کے تحت فی کس تین کلو گیہوں اور دو کلو چاول ایک مہینے تک مفت دئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک مہینے تک شیو بھوجن تھالی بھی مفت دی جائیگی۔ اس بیچ وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے کرفیو کے دوران عائد کی گئی پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کی ضلع کلکٹروں اور پولس انتظامیہ کو ہدایت دی ہے۔اس بارے میں کل منعقدہ میٹنگ میں وزیرِ اعلیٰ ٹھاکرے نے کہا کہ مقامی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ضروری خدمات کی فراہمی کے دوان ہجوم جمع نہ ہو۔ وزیرِ اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ ضروری خدمات کی فراہمی کے دوران اگر بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے تومقامی انتظامیہ اس طرح کی خدمات کو فوری بند کردے۔ ***** ***** ***** مرکزی حکومت نے CBSE کے بارہویں جماعت کے امتحانات آگے بڑھا دئیے ہیں، جبکہ دسویں جماعت کے امتحانات ردّ کردئیے گئے ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی وزیرِ تعلیم اور سینئر افسران کی موجودگی میں کل CBSE کی میٹنگ ہوئی، جس میں یہ فیصلے لیے گئے۔ مرکزی وزارتِ تعلیم نے واضح کیا کہ ملک میں بڑھ رہے کورونا معاملوں کے مدِنظر یہ فیصلے لیے گئے ہیں۔ دریں اثناء ملتوی کیے گئے بارہویں جماعت کے امتحانات کی نئی تاریخوں کا اعلان‘ ایک جون کو کورونا وائرس کی اُس وقت کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا جائیگا۔ وزارت نے واضح کیا کہ امتحان کے نئے ٹائم ٹیبل کے بارے میں طلبہ کو پندرہ ��ِن پہلے اِطلاع دی جائیگی۔ دسویں جماعت کے طلبہ کے نتیجوں کیلئے CBSE پیمانے طئے کریگا۔ وزارتِ تعلیم نے کہا ہیکہ دسویں جماعت کے نتیجوںسے غیر مطمئن طلبہ کو کورونا وائرس کی صورتحال میں سدھار آنے کے بعد امتحان دینے کا موقع دیا جائیگا۔ CBSE نے کہا کہ کورونا وائرس کے بگڑتے حالات کی وجہ سے کئی ریاستو ںنے امتحانات منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد دسویں جماعت کے امتحان منسوخ کرنے اور بارہویں جماعت کے امتحان ملتوی کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ***** ***** ***** اس بیچ اورنگ آباد کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی نے بھی آرٹس‘ سائنس‘ کامرس اور انجینئرنگ شعبوں کے سبھی ڈگری امتحانات کو 2 مئی تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دیگر کورسیز کے امتحانات بھی اب 27 اپریل کی بجائے 5مئی سے شروع ہوں گے۔ کورونا وائرس کے موجودہ حالات کے تناظر میں وائس چانسلر ڈاکٹر پرمود ییولے نے امتحانات ملتوی کرنے کی امتحانی شعبے کو ہدایت دی تھی۔ یونیورسٹی کی جانب سے اپیل کی گئی ہیکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اپنے باقی بچے امتحانی پرچے آف لائن کی بجائے آن لائن طریقے سے دیں۔ ***** ***** ***** مرکزی حکومت نے ملک میں کورونا مریضوں کے علاج کیلئے درکار Remdesivir انجکشن کی پیداوار اور فراہمی میں تیزی لانے اور اس انجکشن کی قیمت میں کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی وزیر من سُکھ مانڈویا نے بتایا کہ ملک میں Remdesivir بنانے والے چھ اداروں کو ہر مہینے سات مختلف مراکز پر 10لاکھ انجکشن تیار کرنے کی حکومت نے اجازت دے دی ہے۔ فی الحال ملک میں ہر مہینہ 38لاکھ 80 ہزار Remdesivir انجکشن تیار کرنے کی گنجائش موجود ہے، جس میں مزید 30لاکھ کا اضافہ کرنے پر کمپنیاں تیار ہیں۔ اس اضافے کے بعد ملک بھر میں ہر مہینہ 78لاکھ Remdesivir انجکشن تیارکیے جاسکیں گے۔ مرکزی حکومت نے اُمید ظاہر کی کہ آنے والے ہفتے میں اس انجکشن کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔ حکومت نے مزید کہا کہ انجکشن بنانے والی کمپنیاں بھی اسکی قیمت میں کٹوتی کرنے پر راضی ہوگئی ہیں۔ ***** ***** ***** دوسری جانب مہاراشٹر کے وزیرِ صحت راجیش ٹوپے نے کہا ہیکہ ریاستی حکومت‘ Remdesivir انجکشن کی کالا بازاری کو روکنے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ جالنہ کے خانگی کووِڈ اسپتالو ںمیں ٹوپے کے ہاتھوں 10ہزار Remdesivir انجکشن کل تقسیم کیے گئے۔ اس موقعے پر انھوں نے یہ بات کہی۔ ٹوپے نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت‘ ہافکِن کمپنی کی معرفت انجکشن خریدے گی اور انہیں سرکاری اسپتالو ںکو فراہم کرے گی۔ وہیں خانگی اسپتالوں کو فراہم کیے جانے والے انجکشن پر غذا اور ادویات کا محکمہ نظر رکھے گا۔ ٹوپے نے کہا کہ Remdesivir انجکشن کی فراہمی کے عمل پر نگرانی سے کالا بازاری رُکے گی اور قیمتیں قابو میں رہ سکیں گی۔ وزیرِ صحت نے انتباہ دیا کہ دوائیوںکے اسٹاکسٹ Remdesivir کی ذخیرہ اندوزی کرکے اُس کی کالا بازاری کرنے کا کام نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ سبھی لین دین اب کمپنی اور حکومت کے درمیان ہوں گے اور اسٹاکسٹ صرف کلکٹر کے تحت کام کریں گے۔ راجیش ٹوپے نے امید ظاہر کی کہ Remdesivir انجکشن کی قلّت جلد ہی دور ہوجائیگی۔ ***** ***** ***** مہاراشٹر میں کل ایک دِن میں 58,952 نئے کورونا پازیٹیو مریض پائے گئے۔ اس اضافے کے بعد اب تک ریاست میں کورونا پازیٹیو ہوئے مریضوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 35 لاکھ 78 ہزار 160 تک جاپہنچی ہے۔ ریاست میں کل ایک دِن میں 278 کورونا مریضوں کی علاج کے دوران موت ہوگئی۔ ان اموات کے بعد مہاراشٹر میں اب تک کورونا وائرس سے جان گنوانے والوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 58 ہزار 804 ہوگئی ہے۔ ریاستی شرحِ اموات قریب 2 فیصد ہوگئی ہے۔ دوسری جانب کل ��ِن بھر میں ریاست کے مختلف اسپتالوں سے 39ہزار 624 کورونا مریضوں کو صحت یاب قرار دیکر رُخصت کیا گیا۔ مہاراشٹر میں اب تک کُل 29لاکھ 5 ہزار 721 افرا داس بیماری سے ٹھیک ہوچکے ہیں۔ کووِڈ 19- سے صحت یابی کا ریاستی تناسب 81% ہوگیا ہے۔ فی الحال مہاراشٹر میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی درج شدہ مجموعی تعداد 6 لاکھ بارہ 12 ہزار 70ہے، جو ریاست کے مختلف اسپتالو ںمیں زیرِ علاج ہیں۔ ***** ***** ***** مراٹھواڑہ میں کل ایک دِن میں 8468 نئے کورونا پازیٹیو مریض منظرِ عام پر آئے، وہیں 114 مریضوں کی موت ہوگئی۔ مرنے والو ںمیں سب سے زیادہ تعداد ناندیڑ سے رہی، جہاں 28 کورونا مریضوں کی موت کا اندراج ہوا۔ اورنگ آباد ضلعے میں 27‘ مریضوں نے کل علاج کے دوران دَم توڑ دیا۔ پربھنی میں 20 اور عثمان آباد میں 14 لوگوںکی کل موت درج کی گئی۔ جالنہ اور لاتور ضلعوں میں 8-8 اور بیڑ میں 7مریضوں نے کل جان گنوائی۔ ہنگولی ضلعے میں گذشتہ روز 2کورونا مریض چل بسے۔ دریں اثناء مراٹھواڑہ کے سبھی 8 ضلعوں میں نئے کورونا مریضوں کی تعدا دمیں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لاتور ضلع میں کہ مراٹھواڑہ میں سب سے زیادہ 1761 نئے کورونا پازیٹیو مریض پائے گئے۔ ناندیڑ ضلعے میں 1439 اور اورنگ آباد میں 1718 مریضوںکا اندراج ہوا۔ پربھنی میں گذشتہ روز 1172 اور بیڑ میں 928 لوگوںکو کورونا پازیٹیو پایا گیا۔ جالنہ میں 701 اور عثمان آباد میں 613 لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ ہنگولی ضلعے میں گذشتہ روز 136 نئے معاملے درج کیے گئے۔ ***** ***** ***** مرکزی تفتیشی بیورو‘ CBI نے کل مہاراشٹر کے سابق وزیرِ داخلہ انیل دیشمکھ سے قریب 10گھنٹوں تک پوچھ تاچھ کی۔ واضح ہو کہ ممبئی کے سابق پولس کمشنر پرم بیر سنگھ نے سابق وزیرِ داخلہ پر بدعنوانی کے الزامات لگائے ہیں، جنہیں سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے ہائیکورٹ نے CBI کے ذریعے جانچ کرنے کے احکامات دئیے ہیں۔ ہائیکورٹ نے CBI سے یہ بھی کہا ہیکہ وہ 15 دِنوں کے اندر اپنی ابتدائی جانچ مکمل کرے۔ ***** ***** ***** ممبئی ہائیکورٹ نے رمضان کے مقدس مہینے کے دوران اجتماعی نماز ادا کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنے والی درخواست خارج کردی ہے۔ ایک سماجی تنظیم نے اس مطالبے پرمبنی درخواست داخل کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ موجودہ حالات بے حد سنگین اور تشویشناک ہیں اور ان حالات میں عوام کی حفاظت سب سے اہم ہے۔ ***** ***** ***** بھارت رَتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی جینتی کے موقعے پر کل انہیں ہر طرف خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ ممبئی میں گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے چیتیہ بھومی جاکر ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسّمے پر گلہائے عقیدت پیش کیے۔ ناگپو رمیں واقع دِکشا بھومی پر ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے مجسّمے پر لوگوں نے گلہائے عقیدت پیش کیے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: اور آخر میں اہم خبریں ایک بار پھر سن لیجیے۔۔ ٭ مہاراشٹر میں گذشتہ کل سے نافذ ہوگیا ہے کرفیو؛ کرفیو کے نفاذ کے بعد سڑکو ںپر بھیڑ میں آئی کمی۔ ٭ کرفیو کے دوران عائد کی گئی پابندیو ںکو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے کے انتظامیہ کو احکامات؛ کہا ضروری خدمات کی فراہمی کے دوران ہجوم جمع نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔ ٭ CBSE نے دسویں جماعت کے امتحانات کیے ردّ‘ بارہویں جماعت کے امتحانات ملتوی۔ بارہویں جماعت کے نئے امتحانی ٹائم ٹیبل کا ایک جون کو ہوگا اعلان۔ اور ٭ رمضان کے مقدس مہینے کے دوران اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے کی اجازت دینے سے ممبئی ہائیکورٹ نے کیا انکار؛ کہا عوام کی حفاظت ہے سب سے اہم۔ ***** ***** *****
0 notes