#ابوعبداللہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
53شادیاں کرنیوالے شخص نے اہم مشورہ دیدیا
53شادیاں کرنیوالے سعودی عرب نے شادی سے متعلق اہم مشورہ دیدیا ۔ ابو عبداللّٰہ نامی شخص کو زیادہ شادیاں کرنے کی وجہ سے’صدی کے کثیر الازدواجی شخص‘ کا لقب دیا ۔ کہ سچ یہ ہے کہ زندگی میں بڑی عورت کے ساتھ ملتا ہے۔ سعودی شہری نے کہا کہ پہلی شادی میں نے 20 سال کی عمر میں 6 سال بڑی خاتون سے کی۔اس وقت میں نے ایک سے زیادہ خواتین سے شادی کا ارادہ نہیں تھا۔ ابوعبداللہ نے بتایا کہ 23 سال کی عمر میں دوبارہ…
0 notes
Photo
رات کے آخری حصے میں نزول باری تعالیٰ سے کیا مراد ہے ؟ سوال ۴۰: یہ معلوم ہے کہ رات کرۂ ارض پر گھومتی رہتی ہے اور اللہ عزوجل آسمان دنیا پر اس وقت نزول فرماتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو اس کا مفہوم تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ساری رات ہی آسمان دنیا پر ہوتا ہے، اس اشکال کا کیا جواب ہے؟ جواب :ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان اسماء وصفات پر ایمان رکھیں جن کے ساتھ اس نے اپنی ذات پاک کو اپنی کتاب یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی موسوم و موصوف قرار دیا ہے اور اس بارے میں قطعاً کسی تحریف ،تعطیل ، تکییف یا تمثیل سے کام نہ لیں۔ تحریف کا تعلق نصوص سے ہے، تعطیل کا اعتقاد سے، تکییف کا صفت سے اور تمثیل کا بھی صفت سے ہے، البتہ یہ تکییف کی نسبت زیادہ خاص ہے کیونکہ تکییف مماثلت کے ساتھ مقید ہوتی ہے، لہٰذا واجب ہے کہ ان چاروں ممنوعات سے ہمارا عقیدہ پاک ہو۔ اور یہ بھی واجب ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں ’’کیوں‘‘ اور کیسے‘‘؟ سوالات سے باز رکھے۔ اور اسی طرح کیفیت کے بارے میں سوچنے سے بھی بندہ اپنے آپ کو روکے چنانچہ جو شخص یہ طریقہ اختیارکرکے زندگی گذارے گا وہ چین وسکون محسوس کرے گا۔ سلفj کا اس بارے میں یہی طریقہ تھا۔ ایک شخص امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے ابوعبداللہ! (اللہ کا فرمان ہے:) ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ تو سوال یہ ہے کہ وہ عرش پر کیسے مستوی ہوا؟ آپ نے سر جھکا لیا، پسینے سے شرابور ہوگئے اور فرمانے لگے: (الْاِسْتَوَائُ غَیْرُ مَجْہُوْلٍ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُولٍ، وَالْاِیْمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ وَمَا اَرَاکَ اِلاَّ مُبْتَدِعًا) ’’استواء مجہول نہیں ہے لیکن اس کی کیفیت عقل میں نہیں آسکتی، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور میرے خیال میں تم بدعتی ہو۔‘‘ اس شخص نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر رات کو اس وقت نزول فرماتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ ساری رات ہی آسمان دنیا پر رہتا ہے کیونکہ رات تو ساری زمین پر گھومتی ہے، لہٰذا ثلث (رات کا تہائی حصہ) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھا تھا۔ اگر کسی فرمانبردار مومن کے دل میں یہ سوال آتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرما دیتے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ہماری جہت میں رات کا ثلث اخیر باقی رہتا ہے تو اس میں نزول بھی باقی رہتا ہے اور جب ہماری جہت میں رات بیت جاتی ہے تو نزول بھی ختم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں نزول باری تعالیٰ کی کیفیت کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہمارا علم اس کا احاطہ کر سکتا ہے، البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور کہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے اتباع واطاعت کو اختیار کر لیاہے ، ہمارا فرض بھی یہی ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۹۱، ۹۲ ) #FAI00037 ID: FAI00037 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صل علی محمد و آل وعجل فرجهم
السلام علیکم مومنین و مومنات
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ 14 سو سال گزرنے کے باوجود دورِ حاضر میں دم ہلاتے اور غیر ارادی طور پر فطرت کے عین مطابق ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے ہی تین پر ڈیش ڈیش کرتے سقیفائی کتے ، ہر اُس انسان پر بھونکتے اور کاٹتے نظر آتے ہیں جو خاندانِ نبوت پر حق کو بیان کرے، اب چاہے وہ انہی کا کوئی عالم ہی کیوں نہ ہو۔
یعنی جو بھی اہل سنت عالم بھی اہل بیتؑ پر حق لکھے، جنابِ زہرا (س) کی مظلومیت کو بیان کرے، شھادتِ محسنؑ پر لکھے یا ان کے تین صاحبان کے کرتوت غیر متعصب ہو کر بیان کر دے تو یہ نا صرف اس کتاب کا انکار کر دیتے بلکہ اپنے اس عالم کے گلے میں رافضیت کی گھنٹی باندھ کر اسے ہم شیعانِ علیؑ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
تو آج میں انہی اہل سنت علماء میں سے ایک جس کا نام ابن قتیبہ دینوری جو تیسری صدی ہجری کا ایک بزرگ عالمِ اہل سنت ہے اور اس عالم کی جس کتاب سے ان نواصب کو مسئلہ ہے اُس کا نام الامامت والسیاست ہے۔
یہاں پر میں ابن قتیبہ اور ان کی کتاب کا تھوڑا سا تعارف پیش کر دوں پھر یہ ثابت کروں گا کہ نا صرف یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری کی ہے بلکہ یہ اہل سنت عالم قطعاً شیعہ نہیں اور نہ ہی اس نام سے کسی شیعہ عالم نے یہ کتاب تالیف فرمائی!
ابن قتیبہ کے جن کا پورا نام ابو محمد عبداللہ ابن مسلم ابن قتیبہ دینوری ہے یہ تیسری صدی ہجری کے حنبلی سنی مصنفین میں سے ایک ہے۔ ابن قتیبہ کی پیدائش سنہ 213 ہجری میں کوفہ میں ہوئی اور سنہ 276 کو بغداد میں فوت ہوئے۔ اہل سنت علماء ابن قتیبہ کو امام الفقیہ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں اور ان کی کتاب، امامت و سیاست حضرت رسول خدا (ص) کی شھادت کے بعد اسلام کے ابتدائی خلفاء کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ ہے۔ اس کتاب میں در حقیقت اسلامی تاریخ کے ایک انتہائی حساس اور عبرتناک دور کے واقعات کو درج کیا گیا ہے ۔
بےچارے ناصبی جتنی بھی کوشش کر لیں اور ہر میڈیم پر اپنے امام دینوری کو بدلنے کی کوشش کر لیں لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
مومنین کو بتاتا چلوں کہ ان افراد نے وکی پیڈیا تک میں غلط معلومات درج کروائی ہیں اور ابن قتیبہ کی تاریخ پیدائش کو بدل کر 213 ہجری میں ڈال دیا. جبکہ شبكة الألوكة جو ایک سلفی ادارہ ہے اس پر سے یہ بیچارے اب تک حقیقت ہٹوا نہ سکے۔
مومنین جا کراس لنک کو ملاحظہ اور ابن قتیبہ دینوری کا سنہ ولادت دیکھیں پھر وکی پیڈیا پے جا کر کراس چیک کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
لنک : https://www.alukah.net/sharia/0/108963
اور اگر کسی کو پھر بھی آرام نہ آئے تو ٹکٹ کٹوا کر سیدھا بیروت، لبنان جا کر مؤسسة الحلبي میں حاضری دے اور ان سے پوچھے کہ آپ نے جس ابن قتیبہ دینوری کی کتاب الامامت والسیاست شائع کی ہے وہ کون ہیں اور ان کا سنہ ولادت کیا ہے۔
الختصر کہ اگر یہ شیعہ کتاب تھی تو میرا سوال ہے کہ ہم شیعوں کو بتایا جائے آخر کیا وجہ تھی اس کتاب کو پوری دنیا میں اہل سنت مکاتب کی جانب سے شائع کیا گیا جن میں سب سے پہلے مصر تھا بلکہ اب تک شائع کی جا رہی ہے۔
میرا دوسرا سوال ہے کہ اگر یہ شیعہ کتاب ہے تو پھر ابن قتیبہ نے اپنی اس کتاب کے مقدمہ میں ایک ایسی حدیث کو سرنامہ کیوں بنایا جو قطعی طور پر شیعوں کے بنیادی عقائد و نظریات کے خلاف ہے جس میں ابن قتیبہ اپنے مقدمہ کا آغاز کچھ اس طرح کرتا ہے :
نفتتح كلامنا بحمد الله تعالى، ونقدس ربنا بذكره والثناء عليه، لا إله إلا هو لا شريك له، الذي اتخذ الحمد لنفسه ذكرا، ورضى به من عباه شكرا وصلى الله على سيدنا محمد الذي أرسله بالهدى، وختم به رسل الله السعدا، صلاة زاكية، وسلم تسليما كثيرا أبدا.
فضل أبي بكر وعمر رضي الله تعالى عنهما حدثنا ابن أبي مريم، قال حدثنا أسد بن موسى، قال حدثنا وكيع، عن يونس بن أبي إسحاق، عن الشعبي، عن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه، قال: كنت جالسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر وعمر رضي الله عنهما، فقال عليه الصلاة والسلام:
هذان سيدا كهول أ��ل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين عليهم السلام ولا تخبرهما يا علي.
ترجمہ : ۔۔۔ کہ امام علیؑ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ابو بکر اور عمر آئے، رسول اللہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: یہ دونوں سوائے نبیوں اور رسولوں کے اول و آخرین میں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں اور اے علی یہ بات تم انہیں مت بتانا۔
ھاھاھاھاھا صرف یہی نہیں بلکہ اس کے فوراً بعد ابن قتیبہ، مولا علیؑ اور عمر بن خطاب کے درمیان جو پیار و محبت کا اظہار فرما رہے ہیں ارے لکھنا تو دور کی بات عام معمولی سا شیعہ بھی ایسا سوچ نہیں سکتا کجا کہ کوئی شیعہ عالم ایسی بات لکھے۔۔
چلیں جی مختصر کرتا ہوں ورنہ اگر کتاب کے متن سے اس کا غیر شیعہ ہونا ثابت کرنے بیٹھ گیا تو تحریر کیا پوری کتاب ہی مرتب کرنا پڑ جائے گی۔۔
اب براہ راست اہل سنت علماء کی زبانی ابن قتیبہ اور کتاب الامامت والسیاست کو سنی ثابت کر کے تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
سب سے پہلے ارطغرل غازی میں پیش کیے جانے والے ابن عربی کی کتاب کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں:
ابن عربی کہ جن کا پورا نام قاضي محمد بن عبد الله أبو بكر بن العربي المعافري الإشبيلي المالكي ہے، جو پانچویں صدی ہجری کی ایسی شخصیت ہیں جو اہل سنت کے لیے کسی بھی تعریف کے محتاج نہیں ۔۔ وہ اپنی کتاب العواصم من القواصم في تحقيق مواقف الصحابة بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم کے باب الثامن یعنی آٹھویں باب کے صفحہ 261 پراس طرح سے کتاب الامامت والسیاست کو ابن قتیبہ کی کتاب ثابت کرتا ہے:
ابن قتيبة، فلم يبق ولم يذر للصحابة رسما في كتاب الإمامة والسياسية إن صح عنه جميع ما فيه وكالمبرد في كتابه الأدبي.
حوالہ : إبن العربي، محمد بن عبد الله أبو بكر (متوفاي۵۴۳هـ)، العواصم من القواصم في تحقيق مواقف الصحابة بعد وفاة النبي صلي الله عليه وسلم، ج ۱، ص ۲۶۱، تحقيق: محب الدين الخطيب - ومحمود مهدي الاستانبولي، ناشر: دار الجيل - لبنان - بيروت، الطبعة: الثانية، ۱۴۰۷هـ - ۱۹۸۷م.
چلیں جی اب ذرا اس کتاب سے بھی ثابت کر دیا جائے جو کنگ فیصل سینٹر نے شائع کی تھی جسے اسلامی کتابوں کے ورثہ کا خزانہ کہا جاتا ہے۔
یعنی خزانة التراث، قارئین اس کتاب میں تمام اسلامی کتابوں ، قلمی نسخوں، مخطوطات اور مکتوبات کا بیان ہے کہ یہ سب کس کے ہیں اور دنیا کی کس لائبریری میں موجود ہیں۔ اور یہ کتاب کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ یوں کہیں کہ یہ اسلامی ورثہ کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔
تو اسی کتاب : خزانة التراث فهرس مخطوطات کی جلد 52 کے صفحے 934 پر جا کر دیکھ لیں کہ کتاب الامامت والسیاست کس کی لکھی ہوئی کتاب ہے اور کہاں کہاں اس کے نسخے محفوظ ہیں، میں یہاں حصول برکت کے لیے اس کتاب سے ڈجیٹل کوڈ پیش کر دیتا ہوں:
€٥٢٠٣٤ƒسياسه شرعيه™السياسه والامامه™الامامه والسياسهŒعبد الله بن مسلم بن قتيبه، ابن قتيبه¢ابن قتيبه¢الدينوري£٢٧٦هـ$٣هـ¥©شستربيتيµايرلندا¶دبلن®٥/٤٠٤٢ (٢) ¥©مكتبه الدولهµالمانيا¶برلين®٩٤١٢¥©مكتبه برنستون (مجموعه جاريت) µالولايات المتحده الامريكيه¶برنستون®٢٢١،٢٦٨ (مجموعه بريل) ¥©المكتبه الوطنيه بباريسµفرنسا¶باريس®١٥٦٦¥©المتحف البريطانيµانجلترا¶لندن®١٢٧٢، ١٦٤٩، والملحق ٥١٩¥©جامعه سان بطرسبورجµروسيا¶سان بطرسبورج®١٥٦¥©الخديويهµمصر¶القاهره®٥/١٣¥©الرباطµالمغرب¶الرباط®٤٢٠¥©خزانه القرويينµالمغرب¶فاس®١٣١٧¥©مكتبه داودµالعراق¶الموصل®٢٥، ٧٤¥©بشاورµباكستان¶بشاور®١٤٢٣¥©خدابخشµالهند
(نوٹ: یہ عجیب غریب کوڈ دراصل لائبریری مشین لینگویج کوڈ ہوتا ہے)
اوپر کوڈ میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کتاب الامامت والسیاست جو کہ ابن قتیبہ کی ہے اس کے قلمی نسخے مکتوب و مخطوطات ڈبلن آئرلینڈ، برلن اسٹیٹ لائبریری جرمنی ، نیشنل لائبریری فرانس ، برطانیہ، امریکہ، قاہرہ مصر، عراق اور یہاں تک کہ پشاور اسٹیٹ لائبریری پاکستان تک میں موجود ہیں۔
ایک بات اور مزے کی بتاتا چلوں کہ جو ناصبی الامامت والسیاست کو ابن قتیبہ کی ماننے سے انکار کرتے ہیں وہی جاہل ناصبی ایک اور کتاب المعارف کو بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ کتاب بھی امام ابن قتیبہ دینوری سے جھوٹی منسوب کی گئی ہے اور نجانے اس میں رسول اللہ کی کتنی توہین موجود ہے اور یہ دونوں کتابیں شیعہ رافضی کی لکھی ہوئی ہیں ۔۔ ھاھاھاھا او جاہلوں ذرا مکتب شاملہ کی آفیشل ویب سائٹ پر جا کر دیکھ تو لو کہ جو کتاب المعارف ہے اس کا رائٹر کون ہے ھاھاھا
اور اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ کتاب الامامت والسیاست کا رد پیش کرتے ہوئے یہ ناصبی خود المعارف کو دلیل بناتے ہیں کہ المعارف میں امام دینوری کی ایسی کتاب کا کوئی نام موجود نہیں ھاھاھاھاھاھا پھر بعد میں المعارف کا بھی انکار کرتے ہیں.
حوالہ دے دیتا ہوں
الكتاب: المعارف المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) تحقيق: ثروت عكاشة الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة الطبعة: الثانية، 1992 م عدد الأجزاء: 1 [ترقيم الكتاب موافق للمطبوع]
لنک: https://al-maktaba.org/book/12129
چلیں جی یہ تو بیچ میں مجھے المعارف کا ایسے ہی خیال آگیا تھا ، تو اب جلدی جلدی اہل سنت آئمہ و علماء کے نام اور ان کی کتب کے حؤالہ جات پیش کردوں جس میں ان اہل سنت آئمہ و علماء نے کتاب الامامت والسیاست کو ابن قتیبہ دینوری سے منسوب کیا ہے۔
1 – امام ابن حجر هيثمي
حوالہ : تطهير الجنان و اللسان، ص۷۲
2- امام ابن شباط تنوزی
حوالہ : الصلة السمطيه، فصل دوم، باب ۳۴
3- امام تقی الدین مکی
حوالہ : العقد الثمين، ج۶، ص۷۲
4- ابن فهد مکی
حوالہ : اتحاف الوري باخبار ام القري، حوادث سال ۹۳ هـ ق
5- يوسف إليان
حؤالہ: معجم المطبوعات العربية، ج۱، ص۲۱۱
6- فريد وجدي
حوالہ : دايرة المعارف القرن العشرين، ج۲، ص۷۵۴
تو تحریر اس نتیجے پر تمام کرتا ہوں کہ سنی بزرگ علماء و آئمہ کے مطابق امامت وسیاست نامی کتاب ابن قتیبہ دینوری نے لکھی تھی اور اس کو جھٹلانے کا واضح مقصد ان سچائیوں کو چھپانا ہے جو ابن قتیبہ نے کھل کر بیان کی ہیں۔
والسلام، احقر #ابوعبداللہ
1 note
·
View note
Photo
اے رب الحسین تیرا لاکھ شکر کہ تو نے حلالی پیدا کیا.. ازقلم #ابوعبداللہ #ياعلي #السلام_على_وليد_الكعبة #وليد_الكعبة #مولود_الکعبة #کربلاویوز ٹیلی گرام : t.me/KarbalaViewsCom https://www.instagram.com/p/CLrVqqTDZ2f/?igshid=12uet5htzl7fe
0 notes
Text
ابن بطوطہ پیدائش 24 فروری
ابن بطوطہ پیدائش 24 فروری
سیاح اور مورخ، ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ مکمل نام ہے۔ مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوا۔ ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کے بعد شوق سیاحت نے افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچایا۔ جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران، شام، فلسطین، افغانستان اور ہندوستان کی سیاحت کی۔ چار بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوا۔ محمد بن تغلق کے عہد میں ہندوستان آیا…
View On WordPress
0 notes
Photo
#HadithOfTheDay حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ ". قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " مِنْ إِيمَانٍ ". مَكَانَ " مِنْ خَيْرٍ "." Narrated Anas: The Prophet (ﷺ) said, "Whoever said "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, "None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell." آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے «لا إله إلا الله» کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی ( ایمان ) ہے تو وہ ( ایک نہ ایک دن ) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص ( بھی ) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ ( بھی ) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ انس رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے «خير» کی جگہ «ايمان» کا لفظ نقل کیا ہے۔ Sahih al-Bukhari 44 In-book : Book 2, Hadith 37 USC-MSA web (English) : Vol. 1, Book 2, Hadith 43 (deprecated) #RahmaniGROUP 👉🏻Take Your Beliefs From The Qur'an And Sunnah, Sahih-Hadith... ✿ Join Our WhatsApp Group: To Subscribe: Save +919731230908 & Text Us With, Your Name & City On WhatsApp. (at Charminar Masjid Ahle Hadeeth Bangalore) https://www.instagram.com/p/B1UKf2spcIu/?igshid=10jb5semqdrzk
0 notes
Photo
The Greatness of Surah Al-Fatiha by Hadith (سورہ الفاتحہ کی عظمت) سورہ الفاتحہ کی عظمت الحمدلله وکفی وسلام علی عباده الذین اصطفی, اما بعد: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المُعَلَّى قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ: "أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ؟ " ثُمَّ قَالَ: «أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي القُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ» فَأَخَذَ بِيَدِي، فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قُلْتَ: «لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنَ القُرْآنِ» قَالَ: «الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ، هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي، وَالقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ». انظر: صحیح البخاری, کتاب فضائل القرآن- 66 , باب فضل فاتحۃ الکتاب , حدیث رقم 5006. امام بخاری (ابوعبداللہ، محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیرہ بخاری, پیدائش: 194 ھجری، جاۓ پیدائش: بخارا، وفات: 256 ھجری، جاۓ وفات: خرتنگ، جو سمرقند سے دس میل کے فاصلہ پر واقع ہے) اپنی بے نظیر کتاب صحیح بخاری (الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ۔۔۔۔۔۔یعنی وه کتاب جو جامع ہے امور دین کو, سنداحضورپاک تک سے متصل ہے ،صحیح ہے،رسول اللہ کی تمام صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیاگیا بلکہ مختصر انتخاب ہے اوراس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ کے حالات وکیفیات آپ کی سنتیں اورطریقے اورآپ کے دور کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں) میں 5 واسطوں سے ابو سعید بن معلی رضی الله عنه سے روایت کرتے هیں: علی بن عبداللہ مدینی -1 2- یحییٰ بن سعید قطان 3- شعبہ بن حجاج 4- حبیب بن عبدالرحمٰن 5- حفص بن عاصم) (ابو سعید بن معلی رض فرماتے هیں) : کہ میں نماز میں مشغول تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اس لئے میں کوئی جواب نہیں دے سکا، پھر میں نے (آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آنحضر ت نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں فرمایا ہے کہ "اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر فوراً اللہ کے رسول کے لئے لبیک کہا کرو۔“ پھر آپ نے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت میں تمہیں کیوں نہ سکھا دوں۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ مسجد کے باہر نکلنے سے پہلے آپ مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ سورت ”الحمدللہ رب العالمین“ (سورت الفاتحه) ہے یہی وہ سات آیات ہیں جو (ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ ”قرآن عظیم“ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.
0 notes
Text
عظیم سیاح اور مؤرخ ابن بطوطہ
سیاح اور مؤرخ ابن بطوبطہ کا مکمل نام ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ ہے۔ وہ مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوا۔ یہ چھوٹا سا شہر اب بھی ابن بطوطہ کی وجہ سے معروف ہے اور وہاں سیاحوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ابن بطوطہ کا اصل نام محمد بن عبداللہ ابن بطوطہ تھا۔ اس نے شمالی مراکش کے ایک ’’سنی مالکی‘‘ مدرسے سے قرآن و حدیث، ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔ اسے بچپن سے سیرو سیاحت اور نئی نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ ابن بطوطہ نے 21 سال کی عمر میں اپنے والد اور چند قریبی لوگوں کے ساتھ سرزمین حجاز جانے کی منصوبہ بندی کی۔
اس زمانے میں خشکی کے راستے مراکش سے عرب سرزمین کے پیدل سفر میں کل 16 ماہ لگتے تھے۔ تاہم ابن بطوطہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اگلے 24 سال تک اپنے وطن کو دوبارہ نہ دیکھ پائے گا۔ حج کے بعد سیاحت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ شوق سیاحت نے اسے افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچایا۔ جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان اور ہندوستان کی سیاحت کی۔ چار بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوا۔ ابن بطوطہ محمد بن تغلق کے عہد میں ہندوستان آیا تھا۔ سلطان نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں وہ ہزاروں میل کا سفر کر چکا تھا۔ آخر میں فارس کے ایک بادشاہ کے دربار میں آیا۔ اس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔
محمد شاہد
0 notes
Text
سقوط غرناطہ
غرناطہ کے آخری مسلم تاجدار ابو عبداللہ کی فوج شکست کھا چکی تھی۔ ابو عبداللہ اپنی جان بچا کر شاہی محلات سے دوڑا۔ اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ’’سات سو سال تک ہسپانیہ پر حکومت کرنے کے بعد میں ایک گدا گر کی طرح غرناطہ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ رہا ہوں‘‘ ۔ شکست خوردہ تاجدار کی کوئی منزل مقصود نہ تھی۔ وہ لکڑی کے اس ٹکڑے کی مانند تھا جو سمندرکی موجوں کے رحم وکرم پر ہو۔ ابوعبداللہ ایک پہاڑی پر رکا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ الحمرا ! دنیا کی یہ حسین ترین عمارت ابوعبداللہ کو واپس نہ بلا سکی۔ حسین و جمیل عمارتیں بنانا اور پھر ان کے تحفظ کی قوت کھو دینا کیا کم عبرتناک ہے؟ ابوعبداللہ کی تلوار کند ہو چکی تھی۔
ایک ہارا ہوا بادشاہ، الحمرا پر اس کی آخری نگاہ تھی۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔ وہ رو رہا تھا۔ بچوں کی طرح! انسانی تقدیر آنسوئوں سے نہیں بدل سکتی! ’’میرے لال تم جس الحمرا کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا حاصل؟‘‘: ابو عبداللہ کی ماں نے کہا۔ جس پہاڑی پر ابو عبداللہ نے ��ٓنسو بہائے تھے وہ آج تک ’’مور کی آخری آہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سفر کی دشواریوں کے باوجود وہ ساحلِ افریقہ پر پہنچ گیا۔ قرطا جینوں، رومیوں اور گاتھوں کے بعد عربوں نے ہسپانیہ پر قبضہ کیا۔ عربوں نے خاک اندلس کو عروج وارتقاء کی اس بلندی پر پہنچا دیا جوا س سے پہلے اسے نصیب نہ تھی۔ عربوں نے ہسپانیہ کے طول وعرض میں محلوں، مسجدوں، مدرسوں، حماموں، ہسپتالوں، نہروں اور پلوں کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا۔ ہسپانیہ کو منطقہ حارہ کے پھلوں اور سبزیوں سے پہلی مرتبہ روشناس کرایا۔
کاغذ اور شکر بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ جب یورپ کے دوسرے ملکوں میں کلیسائوں کے علاوہ کہیں کتاب دکھائی نہ دیتی تھی اس وقت قرطبہ اور غرناطہ کے بازاروں میں قاہرہ اور بغداد کے ارباب فکر کی تازہ ترین کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ شاہی کتب خانہ میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ عوام ان کتابوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ عربوں نے ہسپانیہ میں سونے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت کیں۔ ہسپانیہ میں ریشمی، سوتی اور ا��نی کپڑوں کے بیشمار کارخانے تھے۔ ان کارخانوں کے بنے ہوئے کپڑے قسطنطنیہ (استنبول) پہنچ کر دینیوب کے ذریعہ مشرقی یورپ میں فروخت ہوتے۔
جس زمانہ میں انگلستان کا پادری لاطینی کے دوجملوں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ نہیں کر سکتا تھا اور جب اٹلی میں ہراس پادری کو جادوگر خیال کیا جاتا تھا جسے ریاضی کے چند ابتدائی قاعدوں کا بھی علم ہوتا، اس زمانہ میں ہسپانیہ ہی تنہا یورپی ملک تھا جس میں ہر بچے کے لئے ابتدائی تعلیم لازمی تھی اور جس کے ہر شہر میں ایک پبلک لائبریری تھی اور جہاں ہر شخص کو کتابیں جمع کرنے خبط تھا۔ جہاں کی عورتوں نے صرف و نحو اورشعروشاعری میں نام پیدا کیا۔ ہسپانیہ کے سائنس دان کیمیائی تجربوں میں مصروف رہتے۔ رصدخانوں میں سیاروں کی گردش کا مطالعہ کیا جاتا۔ جہاں ہوائی جہازوں کے تجربے کئے جا رہے تھے۔ جس کی دانش گاہوں میں دینیات، ادب، طب، ہیئت، ریاضیات، فلسفہ،تاریخ قانون، کیمیا اور طبیعات کادرس دیا جاتا تھا۔
باری علیگ
0 notes
Text
سقوط غرناطہ
غرناطہ کے آخری مسلم تاجدار ابو عبداللہ کی فوج شکست کھا چکی تھی۔ ابو عبداللہ اپنی جان بچا کر شاہی محلات سے دوڑا۔ اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ’’سات سو سال تک ہسپانیہ پر حکومت کرنے کے بعد میں ایک گدا گر کی طرح غرناطہ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ رہا ہوں‘‘ ۔ شکست خوردہ تاجدار کی کوئی منزل مقصود نہ تھی۔ وہ لکڑی کے اس ٹکڑے کی مانند تھا جو سمندرکی موجوں کے رحم وکرم پر ہو۔ ابوعبداللہ ایک پہاڑی پر رکا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ الحمرا ! دنیا کی یہ حسین ترین عمارت ابوعبداللہ کو واپس نہ بلا سکی۔ حسین و جمیل عمارتیں بنانا اور پھر ان کے تحفظ کی قوت کھو دینا کیا کم عبرتناک ہے؟ ابوعبداللہ کی تلوار کند ہو چکی تھی۔
ایک ہارا ہوا بادشاہ، الحمرا پر اس کی آخری نگاہ تھی۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔ وہ رو رہا تھا۔ بچوں کی طرح! انسانی تقدیر آنسوئوں سے نہیں بدل سکتی! ’’میرے لال تم جس الحمرا کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا حاصل؟‘‘: ابو عبداللہ کی ماں نے کہا۔ جس پہاڑی پر ابو عبداللہ نے آنسو بہائے تھے وہ آج تک ’’مور کی آخری آہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سفر کی دشواریوں کے باوجود وہ ساحلِ افریقہ پر پہنچ گیا۔ قرطا جینوں، رومیوں اور گاتھوں کے بعد عربوں نے ہسپانیہ پر قبضہ کیا۔ عربوں نے خاک اندلس کو عروج وارتقاء کی اس بلندی پر پہنچا دیا جوا س سے پہلے اسے نصیب نہ تھی۔ عربوں نے ہسپانیہ کے طول وعرض میں محلوں، مسجدوں، مدرسوں، حماموں، ہسپتالوں، نہروں اور پلوں کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا۔ ہسپانیہ کو منطقہ حارہ کے پھلوں اور سبزیوں سے پہلی مرتبہ روشناس کرایا۔
کاغذ اور شکر بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ جب یورپ کے دوسرے ملکوں میں کلیسائوں کے علاوہ کہیں کتاب دکھائی نہ دیتی تھی اس وقت قرطبہ اور غرناطہ کے بازاروں میں قاہرہ اور بغداد کے ارباب فکر کی تازہ ترین کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ شاہی کتب خانہ میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ عوام ان کتابوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ عربوں نے ہسپانیہ میں سونے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت کیں۔ ہسپانیہ میں ریشمی، سوتی اور اونی کپڑوں کے بیشمار کارخانے تھے۔ ان کارخانوں کے بنے ہوئے کپڑے قسطنطنیہ (استنبول) پہنچ کر دینیوب کے ذریعہ مشرقی یورپ میں فروخت ہوتے۔
جس زمانہ میں انگلستان کا پادری لاطینی کے دوجملوں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ نہیں کر سکتا تھا اور جب اٹلی میں ہراس پادری کو جادوگر خیال کیا جاتا تھا جسے ریاضی کے چند ابتدائی قاعدوں کا بھی علم ہوتا، اس زمانہ میں ہسپانیہ ہی تنہا یورپی ملک تھا جس میں ہر بچے کے لئے ابتدائی تعلیم لازمی تھی اور جس کے ہر شہر میں ایک پبلک لائبریری تھی اور جہاں ہر شخص کو کتابیں جمع کرنے خبط تھا۔ جہاں کی عورتوں نے صرف و نحو اورشعروشاعری میں نام پیدا کیا۔ ہسپانیہ کے سائنس دان کیمیائی تجربوں میں مصروف رہتے۔ رصدخانوں میں سیاروں کی گردش کا مطالعہ کیا جاتا۔ جہاں ہوائی جہازوں کے تجربے کئے جا رہے تھے۔ جس کی دانش گاہوں میں دینیات، ادب، طب، ہیئت، ریاضیات، فلسفہ،تاریخ قانون، کیمیا اور طبیعات کادرس دیا جاتا تھا۔
باری علیگ
0 notes
Text
وَقَالَ اللَّيْثُ : عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، كَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ ، قَالَ الْمُبْتَاعُ : إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ ، أَصَابَهُ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ ، فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ ، وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا حَكَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ سَهْلٍ ، عَنْ زَيْدٍ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت ( درختوں پر پکنے سے پہلے ) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک ( قیمت کا ) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہو گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے ( تاکہ قیمت میں کمی کرا لیں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطو�� مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ اس کی روایت علی بن بحر نے بھی کی ہے کہ ہم سے حکام بن سلم نے بیان کیا، ان سے عنبسہ نے بیان کیا، ان سے زکریا نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے سہل بن سعد نے اور ان سے زید بن ثابت نے۔
Sahih Bukhari#2193
www.theislam360.com
0 notes
Text
صحیح البخاری - حدیث نمبر 1
┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
صحیح البخاری
کتاب: وحی کا بیان
باب: رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء کیسے ��وئی
حدیث نمبر: 1
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَی دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَی امْرَأَةٍ يَنْکِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَی مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
ترجمہ:
الشیخ امام حافظ ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بخاری (رح) نے فرمایا : اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ ہم نے بلاشبہ (اے محمد ﷺ ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔ ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول ﷺ پر عمر بن خطاب (رض) کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہوگی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
#صحیح_البخاری
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─
https://ift.tt/2xXXIwe صحیح البخاری
0 notes
Text
Sahih Muslim Hadees 6926
شعبہ نے جریر سے ، انہوں نے ابوعبداللہ جسری سے جو عنزہ قبیلے سے تھے ، انہوں نے عبداللہ بن صامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول! مجھے وہ کلمہ بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ…
View On WordPress
0 notes
Text
مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ الصوفیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت بغداد (عراق)میں ہوئی۔آپ ولی کامل اور صاحب طریقت بزرگ تھے،آپ ماہر شریعت اور منبع فیوض و برکات تھے، آپ کے خطابات و القابات میں لسان القوم بھی ملتا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ نام ور صوفی بزرگ حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے۔بیعتِ خلافت اپنے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ سے حاصل فرمائی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے شاہی پہلوان تھے۔آپ کا خاندانی نام جنید،والد محترم کا نام محمد اور دا دا کا نام بھی جنید تھا۔ دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا۔ابوالقاسم آپ کی کنیت تھی ۔حضرت جنید بغدادیؒ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، بعض تذکر ہ نگاروں نے 215 ھ سال ولادت قرار دیا ہے۔آپ کے آبائو اجداد کا تعلق نہاوند سے تھا۔حضرت جنید بغدادیؒ کے والد آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلا ت کی تجارت کیا کرتے تھے ۔
آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا، اسی وجہ سے بغدادی کہلائے۔حضرت مخدوم علی ہجویریؒ نےآپ کا اسم گرامی ان الفاظ میں تحریر کیا ہے شیخ المشائخ ،اہل طریقت، امام الائمہ ابوالقاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادیؒ ، آپ کی کنیت ابو القاسم ،لقب سید الطائفہ تھا۔ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطۂ عروج پر تھے اور مامون الرشید کے مشاغل دینی کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے باکمال علماء وفضلاء جمع تھے۔ تعلیم و تربیت آپ کے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ نے کی۔ شیخ سرّی سقطیؒ چاہتے تھے کہ آپ فقر و سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک زبردست عالم دین اور فقیہ بھی بنیں ،چناںچہ بیس سال کی عمر میں حضرت جنید بغدادیؒایک اچھے فقیہ بنے اور فتوے بھی لکھنے لگے۔ علوم دین میں تکمیل پانے کے بعد آپ نے زہدوعبادت میں رغبت حاصل کی،اس کے ساتھ دنیا کے کاروبارمیں مصروف رہے،شیشے کا کاروبار آپ نے ورثے میں پایا تھا،یہی کاروبار شروع کیا۔آپ ریاضت و مجاہدے کرتے اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہتے،ان تمام حدود شریعت کو سامنے رکھ کر فرمایا کرتے کہ تصوف قرآن وسنت کاترجمان ہے جو شخص قرآن وحدیث اورسنت سے واقف نہیں، وہ پیروی کے لائق نہیں۔ ایک وقت آیا کہ شیخ سرّی سقطیؒ نے اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو روحانیت کے اتنے بڑے مرتبے پر پہنچا دیا کہ سری سقطیؒ جیسے کامل ترین بزرگ آپ سے رائے اور صلاح مشورہ لینے لگے۔
تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے،اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادیؒ کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادیؒ کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کے لیے پیدا فرماتا ہے، وہ کام اس کے لیے آسان فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت جنید بغدادیؒ سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا تھی،اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا،جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔
حضرت جنیدؒ فرما تے ہیں کہ میں نے شیخ سرّی سقطیؒ کی ہدا یت کے مطا بق سب سے پہلے حدیث اور فقہ کا علم حضرت سفیان ثوریؒ سے حاصل کیا ، آٹھ سال آپ کی خدمت میں رہے ، پھر تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شیخ ابوعبداللہ حار ث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضری دی اور تین سال تک آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے حقیقی مرشد کی با ر گاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت سری سقطیؒ کے دستِ حق پر باقاعدہ بیعت کی ۔ شیخ فرید الدین عطا رؒ آپ کے مجاہدات بیا ن کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔ وہ آپ کو سید الطائفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے اور طائوس العلماءاور سلطان المحققین لکھتے تھے۔ آپ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت علی ہجویریؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ کو طریقت میں شیخ المشا ئخ اور شریعت میں امام الائمہ لکھا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کی ذات بابرکت علماء و فقہاء شعراء و ادباء صوفیاء و اولیاء کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی سے ہرایک مستفید ہوتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُنہیںاپنا پیشوا تسلیم کیا۔ہر عہدکے صوفیاء اپنا انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد میں باہم مختلف ہیں ،لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنیدؒ پر متفق ہیں۔ تصوف کے سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ نے جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے، ان میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی نوسلسلوں میں سے پانچ ایسے ہیں، جن کے بانیوں کا حضرت جنید ؒسے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ۔
حضرت جنید بغدادیؒ ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتاہے۔سخاوت،رضا،صبر،خاموشی،غربت،سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔
٭…سخاوت حضرت ابراہیمؑ سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔٭…صبر حضرت ایوبؑ کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔٭…خاموشی حضرت زکریا ؑسے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔٭…غربت حضرت یحییٰ ؑسے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔٭…سیاحت حضرت عیسیٰ ؑسے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔ ٭…گدڑی حضرت موسیٰ ؑ سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔٭…اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے،لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوںتو دو روز فاقے میں رہوں۔حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔
The post مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2LTgYwC via India Pakistan News
0 notes
Text
مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ الصوفیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت بغداد (عراق)میں ہوئی۔آپ ولی کامل اور صاحب طریقت بزرگ تھے،آپ ماہر شریعت اور منبع فیوض و برکات تھے، آپ کے خطابات و القابات میں لسان القوم بھی ملتا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ نام ور صوفی بزرگ حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے۔بیعتِ خلافت اپنے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ سے حاصل فرمائی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے شاہی پہلوان تھے۔آپ کا خاندانی نام جنید،والد محترم کا نام محمد اور دا دا کا نام بھی جنید تھا۔ دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا۔ابوالقاسم آپ کی کنیت تھی ۔حضرت جنید بغدادیؒ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، بعض تذکر ہ نگاروں نے 215 ھ سال ولادت قرار دیا ہے۔آپ کے آبائو اجداد کا تعلق نہاوند سے تھا۔حضرت جنید بغدادیؒ کے والد آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلا ت کی تجارت کیا کرتے تھے ۔
آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا، اسی وجہ سے بغدادی کہلائے۔حضرت مخدوم علی ہجویریؒ نےآپ کا اسم گرامی ان الفاظ میں تحریر کیا ہے شیخ المشائخ ،اہل طریقت، امام الائمہ ابوالقاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادیؒ ، آپ کی کنیت ابو القاسم ،لقب سید الطائفہ تھا۔ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطۂ عروج پر تھے اور مامون الرشید کے مشاغل دینی کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے باکمال علماء وفضلاء جمع تھے۔ تعلیم و تربیت آپ کے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ نے کی۔ شیخ سرّی سقطیؒ چاہتے تھے کہ آپ فقر و سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک زبردست عالم دین اور فقیہ بھی بنیں ،چناںچہ بیس سال کی عمر میں حضرت جنید بغدادیؒایک اچھے فقیہ بنے اور فتوے بھی لکھنے لگے۔ علوم دین میں تکمیل پانے کے بعد آپ نے زہدوعبادت میں رغبت حاصل کی،اس کے ساتھ دنیا کے کاروبارمیں مصروف رہے،شیشے کا کاروبار آپ نے ورثے میں پایا تھا،یہی کاروبار شروع کیا۔آپ ریاضت و مجاہدے کرتے اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہتے،ان تمام حدود شریعت کو سامنے رکھ کر فرمایا کرتے کہ تصوف قرآن وسنت کاترجمان ہے جو شخص قرآن وحدیث اورسنت سے واقف نہیں، وہ پیروی کے لائق نہیں۔ ایک وقت آیا کہ شیخ سرّی سقطیؒ نے اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو روحانیت کے اتنے بڑے مرتبے پر پہنچا دیا کہ سری سقطیؒ جیسے کامل ترین بزرگ آپ سے رائے اور صلاح مشورہ لینے لگے۔
تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے،اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادیؒ کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادیؒ کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کے لیے پیدا فرماتا ہے، وہ کام اس کے لیے آسان فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت جنید بغدادیؒ سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا تھی،اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا،جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔
حضرت جنیدؒ فرما تے ہیں کہ میں نے شیخ سرّی سقطیؒ کی ہدا یت کے مطا بق سب سے پہلے حدیث اور فقہ ک�� علم حضرت سفیان ثوریؒ سے حاصل کیا ، آٹھ سال آپ کی خدمت میں رہے ، پھر تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شیخ ابوعبداللہ حار ث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضری دی اور تین سال تک آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے حقیقی مرشد کی با ر گاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت سری سقطیؒ کے دستِ حق پر باقاعدہ بیعت کی ۔ شیخ فرید الدین عطا رؒ آپ کے مجاہدات بیا ن کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔ وہ آپ کو سید الطائفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے اور طائوس العلماءاور سلطان المحققین لکھتے تھے۔ آپ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت علی ہجویریؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ کو طریقت میں شیخ المشا ئخ اور شریعت میں امام الائمہ لکھا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کی ذات بابرکت علماء و فقہاء شعراء و ادباء صوفیاء و اولیاء کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی سے ہرایک مستفید ہوتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُنہیںاپنا پیشوا تسلیم کیا۔ہر عہدکے صوفیاء اپنا انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد میں باہم مختلف ہیں ،لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنیدؒ پر متفق ہیں۔ تصوف کے سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ نے جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے، ان میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی نوسلسلوں میں سے پانچ ایسے ہیں، جن کے بانیوں کا حضرت جنید ؒسے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ۔
حضرت جنید بغدادیؒ ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتاہے۔سخاوت،رضا،صبر،خاموشی،غربت،سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔
٭…سخاوت حضرت ابراہیمؑ سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔٭…صبر حضرت ایوبؑ کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔٭…خاموشی حضرت زکریا ؑسے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔٭…غربت حضرت یحییٰ ؑسے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔٭…سیاحت حضرت عیسیٰ ؑسے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔ ٭…گدڑی حضرت موسیٰ ؑ سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔٭…اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے،لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوںتو دو روز فاقے میں رہوں۔حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔
The post مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2LTgYwC via Today Urdu News
0 notes
Text
مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ الصوفیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت بغداد (عراق)میں ہوئی۔آپ ولی کامل اور صاحب طریقت بزرگ تھے،آپ ماہر شریعت اور منبع فیوض و برکات تھے، آپ کے خطابات و القابات میں لسان القوم بھی ملتا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ نام ور صوفی بزرگ حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے۔بیعتِ خلافت اپنے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ سے حاصل فرمائی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے شاہی پہلوان تھے۔آپ کا خاندانی نام جنید،والد محترم کا نام محمد اور دا دا کا نام بھی جنید تھا۔ دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا۔ابوالقاسم آپ کی کنیت تھی ۔حضرت جنید بغدادیؒ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، بعض تذکر ہ نگاروں نے 215 ھ سال ولادت قرار دیا ہے۔آپ کے آبائو اجداد کا تعلق نہاوند سے تھا۔حضرت جنید بغدادیؒ کے والد آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلا ت کی تجارت کیا کرتے تھے ۔
آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا، اسی وجہ سے بغدادی کہلائے۔حضرت مخدوم علی ہجویریؒ نےآپ کا اسم گرامی ان الفاظ میں تحریر کیا ہے شیخ المشائخ ،اہل طریقت، امام الائمہ ابوالقاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادیؒ ، آپ کی کنیت ابو القاسم ،لقب سید الطائفہ تھا۔ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطۂ عروج پر تھے اور مامون الرشید کے مشاغل دینی کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے باکمال علماء وفضلاء جمع تھے۔ تعلیم و تربیت آپ کے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ نے کی۔ شیخ سرّی سقطیؒ چاہتے تھے کہ آپ فقر و سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک زبردست عالم دین اور فقیہ بھی بنیں ،چناںچہ بیس سال کی عمر میں حضرت جنید بغدادیؒایک اچھے فقیہ بنے اور فتوے بھی لکھنے لگے۔ علوم دین میں تکمیل پانے کے بعد آپ نے زہدوعبادت میں رغبت حاصل کی،اس کے ساتھ دنیا کے کاروبارمیں مصروف رہے،شیشے کا کاروبار آپ نے ورثے میں پایا تھا،یہی کاروبار شروع کیا۔آپ ریاضت و مجاہدے کرتے اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہتے،ان تمام حدود شریعت کو سامنے رکھ کر فرمایا کرتے کہ تصوف قرآن وسنت کاترجمان ہے جو شخص قرآن وحدیث اورسنت سے واقف نہیں، وہ پیروی کے لائق نہیں۔ ایک وقت آیا کہ شیخ سرّی سقطیؒ نے اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو روحانیت کے اتنے بڑے مرتبے پر پہنچا دیا کہ سری سقطیؒ جیسے کامل ترین بزرگ آپ سے رائے اور صلاح مشورہ لینے لگے۔
تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے،اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادیؒ کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادیؒ کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کے لیے پیدا فرماتا ہے، وہ کام اس کے لیے آسان فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت جنید بغدادیؒ سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا تھی،اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا،جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔
حضرت جنیدؒ فرما تے ہیں کہ میں نے شیخ سرّی سقطیؒ کی ہدا یت کے مطا بق سب سے پہلے حدیث اور فقہ کا علم حضرت سفیان ثوریؒ سے حاصل کیا ، آٹھ سال آپ کی خدمت میں رہے ، پھر تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شیخ ابوعبداللہ حار ث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضری دی اور تین سال تک آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے حقیقی مرشد کی با ر گاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت سری سقطیؒ کے دستِ حق پر باقاعدہ بیعت کی ۔ شیخ فرید الدین عطا رؒ آپ کے مجاہدات بیا ن کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔ وہ آپ کو سید الطائفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے اور طائوس العلماءاور سلطان المحققین لکھتے تھے۔ آپ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت علی ہجویریؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ کو طریقت میں شیخ المشا ئخ اور شریعت میں امام الائمہ لکھا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کی ذات بابرکت علماء و فقہاء شعراء و ادباء صوفیاء و اولیاء کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی سے ہرایک مستفید ہوتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُنہیںاپنا پیشوا تسلیم کیا۔ہر عہدکے صوفیاء اپنا انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد میں باہم مختلف ہیں ،لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنیدؒ پر متفق ہیں۔ تصوف کے سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ نے جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے، ان میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی نوسلسلوں میں سے پانچ ایسے ہیں، جن کے بانیوں کا حضرت جنید ؒسے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ۔
حضرت جنید بغدادیؒ ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتاہے۔سخاوت،رضا،صبر،خاموشی،غربت،سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔
٭…سخاوت حضرت ابراہیمؑ سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔٭…صبر حضرت ایوبؑ کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔٭…خاموشی حضرت زکریا ؑسے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔٭…غربت حضرت یحییٰ ؑسے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔٭…سیاحت حضرت عیسیٰ ؑسے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔ ٭…گدڑی حضرت موسیٰ ؑ سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔٭…اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے،لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوںتو دو روز فاقے میں رہوں۔حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔
The post مشہور صُوفی بُزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2LTgYwC via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes