#ہیلری
Explore tagged Tumblr posts
Text
تنازعات کا شکار ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر کیسے بنا؟
جب رنگین مزاج ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار ہیلری کلنٹن کے خلاف صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے تو یہ سوچنا بھی محال تھا کہ وہ کامیاب ہو پائیں گے، لیکن جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد کمیلا ہیرس کو ہرا کر دوسری بار صدر بن نے والے ٹرمپ نے نہ صرف ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے بلکہ ساری دنیا کو حیران بھی کر دیا ہے۔ 2016 میں امریکہ کی صدارت کے لیے پہلے بار امیدوار بننے سے پہلے ڈونلڈ کا شمار ملک کے رنگین مزاج ترین…
0 notes
Text
ہیلری کلنٹن کی مشیر ہما عابدین کا امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام
ہیلری کلنٹن کی مشیر ہما عابدین کا امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام
واشنگٹن: ہیلری کلنٹن کی سیاسی مشیر اور پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہما عابدین نے امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگادیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہما عابدین نے اپنی سوانح حیات تحریر کی ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ 2000ء میں ایک امریکی سینیٹر نے انہیں اپنے گھر بلاکر ان سے دست درازی کی کوشش کی تھی، تاہم ہما عابدین نے انہیں سختی سے جھڑکتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔ ہما عابدین نے اس سینیٹر کا…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/4262331ac5275bcdb7bf0efe4a66d8d6/3fb7cb3701d6bdfb-83/s540x810/cdcfd7feb5bb3938cbb061e9576449285ffae37c.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/6318d0dd7d233fc3f095addf6b608916/e69645bad41f1afe-ab/s400x600/9c5f679deeca56bf5bc60b4ebcd552c5c783f2d8.jpg)
رجنی کانت ہندی سینما کا ایک بڑا نام ہے. منفرد سٹائل اور ایکشن نے اسے بہت شہرت دی. 1977 میں فلم کیریئر کی شروعات میں ساوتھ کے مشہور فلم سٹوڈیو AVM پر ایک فلم میں سائیڈ رول ملا. رجنی کانت کا معاوضہ ہزار روپے طے ہوا. رجنی نے تین دن کام کیا اور تین دن فلم مینجر سے کچھ پیسے ایڈوانس مانگتے گزارے. کیونکہ اس کی جیب خالی تھی.
تیسرے دن بھی یہ مینجر سے یہی بات کررہا تھا کہ فلم پروڈیوسر اپنی ایمبسڈر گاڑی میں سٹوڈیو میں داخل ہوا. رجنی کو مینجر سے بات کرتے دیکھ کر وجہ پوچھی اور وجہ نے اسے آگ لگا دی. کہا ایک تو چانس دیا اوپر سے بڑے ہیرو کی طرح ایڈوانس مانگ رہے ہو. کھڑے کھڑے فلم سے نکال دیا. رجنی نے کہا مجھے کم از کم شہر تک تو چھوڑ آو کیونکہ اے وی ایم سٹوڈیو شہر سے باہر تھا. پروڈیوسر نے کہا شُکر کر ہم تم سے شہر سے یہاں تک لانے کا کرایہ نہیں مانگ رہے.
ڈھائی سال بعد ر��نی کانت مشہور اور کامیاب ہوچکا تھا. پہلی سپر ہٹ فلم کے پیسوں سے پہلے دن اس نے ایک امپورٹڈ گاڑی خریدی. ایک شوفر رکھا اور کہا اے وی ایم چلو. جہاں پروڈیوسر نے گاڑی کھڑی کی تھی عین اسی مقام پر ڈرائیور سے کہا گاڑی روکو. باہر نکل کر سٹائل سے گھوما کر عینک لگائی. 555 کا سگریٹ پیکٹ نکالا. گاڑی سے ٹیک لگا کر اطمینان سے ایک سگریٹ پیا. واپس بیٹھا اور شوفر سے کہا واپس چلو.
دیکھیں مسئلہ غصہ کبھی نہیں ہوتا. مسئلہ ہمیشہ غصے کا غلط اظہار ہوتا ہے. غصہ تو ایک توانائی ہے جو ہم اکثر غلط وقت غلط مقام اور غلط افراد پر ضائع کردیتے ہیں. سر ایڈمنڈ ہیلری نے جب پہلی بار ماونٹ ایورسٹ سر کی تب انسانیت کا وہاں پہلا قدم تھا. لیکن یہ اب ہر سال جان جوکھوں کا یہ سفر مختلف انسان کیوں کر رہے ہیں.؟
اس ہر کیوں کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے. کیا آپ کے سفر کے پیچھے بھی کوئی کہانی ہے.؟ آپ کی منزل آپ کی یہ کہانی سنائے جانے یا دکھائے جانے کی منتظر ہے.
6 notes
·
View notes
Text
ٹرمپ کے اقدامات دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہیں، ہیلری کلنٹن
Urdu News on https://goo.gl/hymEFp
ٹرمپ کے اقدامات دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہیں، ہیلری کلنٹن
واشنگٹن : سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات پوری دنیا کے لیے خطرے کا موجب بن گئے ہیں جس سے تشویش، بدامنی اور بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہے.
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کیا، ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گو کہ امریکی صدر نے کچھ کامیابیاں ضرورحاصل کی ہیں لیکن زیادہ تر ان کی غلط پالیسیوں اور مضحکہ خیز بیانات پوری دنیا میں امریکا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں.
پرتگال: جنگلات میں آتشزدگی سے 27 افراد ہلاک
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی غیرسنجیدگی اورعجیب وغریب گفتگوامریکی عوام کے لیے باعث ندامت ہیں اور دنیا بھر میں امریکی صدر کے اس طرزعمل کو بہ طور مذاق لیا جاتا ہے جس کے باعث امریکی وقار اور نیک نامی کو شدید دھچکا پہنچا ہے.
داعش کو جلد الرقہ سے باہر دھکیل دیا جائے گا، کرد ملیشیا
اپنے انٹرو میں روس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ہیلری کلنٹن نے اپنی شکست کا ذمہ دار روسی صدر کو ق��قر دیتے ہوئے کہا کہ روسی صدر نے امریکی انتخابات کے دوران روسی انتظامیہ کو میرے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی دلانے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
ہیلری کلنٹن نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پرامریکا کو بد عہدی اور بد اعتمادی کے ساتھ روشناس کرایا جس سے امریکی ساکھ متاثر ہو رہی ہے.
انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے ایران کو دھمکی دینے کو خطرناک قراردیا اور امریکی صدر کی اس پالیسی کو خطے کے لیے پریشان کن بتاتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے اس رویے سے تلخی میں اضافہ ہوگا اور خطے میں کشیدگی پھیلے گی.
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا سے معاملات کو جذباتیت کے بجائے پیشہ ورانہ طور پرسفارتی سطح پر حل کیے جائیں کیوں جنگ و جدل کسی بھی چیز کا حل نہیں ہوتے.
قالب وردپرس
#Pakistan World News#Pakistani News#Top World News#Urdu Khabrain#Urdu News#Viral World News#World Khabrain#World News#World Urdu News#اقدامات#انٹرنیشنل#باعث#خطرے#دنیا#لیے#ٹرمپ#کا#کلنٹن#کے#ہیلری#ہیں
0 notes
Text
ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک ہفتے میں دس کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران رواں ہفتے 10 کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی وجہ مبینہ طور پر ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑنے والے ’خطرناک رش‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ نیپالی حکام کے مطابق صرف گذشتہ منگل کو 120 سے زائد کوہ پیماؤں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ ان میں سے کچھ رش کی وجہ سے ڈھلوان پر پھنس گئے جس کے بعد تھکن اور پیاس کی شدت سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ 8 ہزار 850 میٹرز یعنی 29 ہزار 35 فٹ بلند ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کے دوران بھارت سے تعلق رکھنے والے تین کوہ پیما، جن میں دو خواتین اور ایک مرد شامل تھا، تھکن سے ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کوہ پیما 54 سالہ انجلی شردھ کلکرنی، 49 سالہ کلپنا داس جبکہ مرد کوہ پیما 27 سالپ نہال اشپک بگوان شامل ہیں۔
ٹور انتظامیہ کے مطابق بگوان رش کی وجہ سے 12 گھنٹے تک ڈھلوان پر پھنسے رہے اور وہ بری طرح تھک چکے تھے۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایک کوہ پیما کی بھی ہلاکت ہوئی۔ 44 سالہ برطانوی کوہ پیما روبن فشر ہفتے کی صبح چوٹی تک پہنچ گئے تھے، تاہم پھر وہ ڈھلوان سے 150 میٹرز نیچ گر کر ہلاک ہو گئے۔ ٹور انتظامیہ سے منسلک موراری شرما نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمارے گائیڈز نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ فوراً ہی دم توڑ گئے۔‘ ماؤنٹ ایورسٹ پر تبت کی جانب بھی ایک 56 سالہ آئرش کوہ پیما کی موت واقع ہوئی، جس کی تصدیق ان کی ٹور انتنظامیہ نے فیس بک پیج کے ذریعے کی۔
مذکورہ کوہ پیما نے چوٹی سر کیے بغیر ہی واپسی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وہ 22 ہزار 965 فٹ کی بلندی پر اپنے خیمے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ صرف اس سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک افراد کی تعداد گذشتہ سال میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ گذشتہ برس یہ تعداد پانچ تھی۔ نیپالی حکومت کی جانب سے اس سال ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کے لیے 380 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 365 تھی۔ 2016 میں 289 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔ اس سے قبل اس ہفتے ہلاک ہونے والے دیگر کوہ پیماؤں میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ شخص بھی شامل تھے جو تبت کی شمالی سمت میں ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں ایک اور بھارتی اور امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والے 55 سالہ امریکی کوہ پیما ڈان کیش نے ایورسٹ کو سر کر کے ہر براعظم میں بلند ترین چوٹی سر کرنے کا اپنا خواب پورا کر لیا تھا۔ گائیڈ مہیا کرنے والی کمپنی پائنیر ایڈوینچر کے سربراہ پسنگ تنیجا کہتے ہیں: ’جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو وہ گر پڑے۔ ان کے ساتھ موجود افراد نے ان کو مساج اور مصنوعی سانس دینے کی کوشش کی جس کے بعد وہ ہوش میں آگئے لیکن کچھ دیر بعد ہیلری سٹیپ کے قریب وہ دوباہ گر گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں بلند مقام پر رہنے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔‘ ایورسٹ بلاگر ایلن آرنیٹ کے مطابق جمعرات کو تبت کی جانب سے آنے والے افراد میں ایک سوئس کوہ پیما ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیما کا نام ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر سیموئس لالیس بھی 16 مئی کے بعد سے نہیں دیکھے گئے۔ مارچ سے شروع ہونے والے اس کوہ پیمائی کے سیزن میں ہمالیہ کی مختلف چوٹیوں پر 17 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سات کا تعلق بھارت سے ہے۔ آرنیٹ اپنے بلاگ میں کہتے ہیں: ’تیز ہوائیں واپس آچکی ہیں اور پہاڑ کے دونوں اطراف میں لوگوں کی بڑی تعداد رش کا سبب رہی ہے۔ اس بار پہاڑ سر کرنے کے مواقع کم مل رہے ہیں۔‘ واضح رہے کہ بلند مقام پر آکسیجن کی کم مقدار کے باعث انسان اکثر سر درد، قے، سانس لینے میں دشواری اور دماغ ماؤف ہونے جیسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
ایلون مسک کے ہاتھوں ٹوئٹر کی موت
میں نے جنوری 2013 میں ایک دوست کے کہنے پر اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا۔ صرف چند دن پہلے، میرا نیویارک ٹائمز میں پہلا قومی مضمون شائع ہوا تھا اور فیڈ بیک سمندری لہروں کی طرح آ رہا تھا: اجنبیوں کی طرف سے ای میلز، فیس بک پر پیغامات، ان گنت شیئرز۔ مجھے ٹوئٹر کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ ٹوئٹر اس وقت سال پہلے وجود میں آیا تھا اور سات سال بعد ہر جگہ نظر آنے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم تھا۔ جو آج ہر جگہ موجود سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جس کی شروعات سات سال پہلے ہوئی تھی (یہ جنریشن ایکس میں مضبوطی سے سرایت کرنے کا منفی پہلو ہے)۔ میں نے اکاؤنٹ بنایا اور باقی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس درمیانی دہائی میں، میں نے اپنی چھوٹی سی ٹوئٹر دنیا بنائی، جو اب نیلے رنگ کے چیک کے ساتھ تصدیق شدہ ہے۔ اپنے بہترین وقت میں ٹوئٹر ایک ایسی جگہ تھی جہاں میرے جیسے لوگ، ایک صحافی، ہم خیالوں کے ساتھ دکھ در بانٹ سکتے تھے۔ یہ ایک خیالات اور کام شیئر کرنے والی جگہ تھی، جہاں مذاق اور طنز کیا جا سکتا تھا، اور ایسی جگہ تھی جہاں سے زندگی میں میرا نقطہ نظر شیئر کرنے والے لوگوں سے تسلی ملتی تھی۔
اپنے بدترین وقت میں ٹوئٹر عوام کا دشمن تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ٹوئٹر کا سہارا لیا، نہ کہ انسٹاگرام کا، کیوں کہ اس طرح وہ مداحوں کو ابھارنا چاہتے تھے۔ ٹوئٹر پر اپنے محدود الفاظ (280 حروف - اگرچہ جب پلیٹ فارم لانچ ہوا تو یہ آدھے تھے) سے کچے پکے خیالات اور فوری پیغامات بھیجے جا سکتے ہیں، جذباتی خیالات کے لیے، جو سیاق و سباق کے بغیر درمیان میں لٹکے رہتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم زبانی ڈائنامائٹ کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایک ٹوئٹ کریں اور اسے پھتٹتا ہوا دیکھیں۔ بہترین ٹویٹس پر اثر اور پیارا تھا، تال اور تکنیک سے بھرپور۔ بدترین والے نے انسانی فطرت کو چند ��نیادی کی بورڈ سوائپس تک محدود کر دیا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں ٹوئٹر سی غلطی ہوئی، یقیناً، اور، برے خیالات کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں ایک دہکتی ہوئی سرخ دائیں بازو کی تحریک ابھری۔ گذشتہ چند برسوں میں، ہم - مجھے یقین نہیں ہے کہ ’ہم‘ واقعی کون ہیں، ہم میں سے ان لوگوں کے علاوہ جو ایک زیادہ فعال معاشرے کے خواہاں ہیں، نے انٹرنیٹ کے اس حصے پر بدترین جذبات کو درست کرنے کی کوشش کی۔
اور بہت سوں کے ساتھ ٹرمپ بھی اس پلیٹ فارم نکال دیا گیا تھا (حال ہی میں: گلوکار جو پہلے کانیے کے نام سے جانے جاتے تھے۔) لیکن اب، جیسا کہ ایلون مسک نے ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اور آغاز ہی لوگوں کو ملازمت سے فارغ کرنے سے کیا ہے، یہ اس کو الوداع کہنے کا وقت ہے جو کبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹوئٹر کی دنیا کے قابلِ نفرت حصوں پر کبھی بھی اچھے لوگوں کا غلبہ رہا ہو (میں کسی بھی غیر یہودی شخص کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ ایک دن کانیے ویسٹ کی یہود دشمن ٹویٹس کے جواب میں صرف ایک وائرل ٹویٹ کے ردِعمل پڑھ کر ایک دن گزارے اور اس لگ پتہ جائے گا کہ ٹوئٹر کتنی قابلِ نفرت جگہ ہے اور رہی ہے۔) پھر بھی، یہ ہم میں سے کچھ کے لیے اطمینان کی بات تھی کہ کچھ کو شرکت سے روک دیا گیا۔ یہ ایک تسلی کی بات تھی کہ ’آزادی اظہار‘ اور ’نفرت انگیز تقریر‘ غیر معمولی طور پر کراس ریفرنس نہیں تھے، جیسا کہ کچھ تباہ کن اور خوفناک بات کرنا ایک کمپنی کے نجی بائی لاز کے تحت مساوی تحفظ کا مستحق ہے۔
ایلون مسک، یقینا، خود ایک دائیں بازو کے بنیاد پرست ہیں، اور انہوں نے اپنے ارادے ظاہر نہیں کیے۔ ٹوئٹر کو خریدنے کے متعلق ایلون مسک نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’میں نے ایسا انسانیت کی مدد کے لیے کیا۔ تہذیب کے مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ورچوئل مرکز ہو، جہاں تشدد کا سہارا لیے بغیر، صحت مند انداز میں عقائد پر بحث کی جا سکتی ہے۔‘ مجھے لگتا ہے کہ ایلون مسک کو زبان اور تشدد کے درمیان باہمی تعلق کی سمجھ نہیں جو کہ ‘لوگ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں‘ کے درمیان ضروری لنک ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر کسی قسم کی زبان اور عقائد پر پابندی لگائی جائے تو اس سے تشدد جنم نہیں لے گا۔ ٹوئٹر کے کچھ اچھے لمحات بھی تھے۔ سنہ 2016 میں ہیلری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنے کا کہہ کر وائرل ہو گئی تھیں۔ کیٹلین جینر نے ٹویٹر پر خود کو دنیا کے سامنے دوبارہ متعارف کرایا۔
براک اوباما نے اپنی اہلیہ اور سابق خاتون اول کی ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں لکھا کہ ’مزید چار سال۔‘ ہم نے ٹوئٹر پر مزے کیے۔ ہم کریزی ویڈیوز دیکھتے تھے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑتا تھا کہ لباس نیلا اور سیاہ یا سفید اور سنہرہ تھا؟ میں اب بھی واقعی اس ایک کے بارے میں پریقین نہیں ہوں۔ ٹوئٹر خطرناک بھی تھا۔ ہمیں ایک ایسے صدر کا سامنا کرنا پڑا جس نے لوگوں میں فاصلے پیدا کر دیے۔ چار سال سے زیادہ عرصے تک، ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اس لیے اپنی سانسیں روکے رکھیں کہ اس کے بعد بکواس کا کون سا سلسلہ آتا ہے۔ اس مرثیے کو لکھنے میں، ایسا ٹویٹ تلاش کرنا مشکل ہے جو ایک ہی وقت میں، مکمل طور پر جارحانہ بھی ہو اور اس بات کا اشارہ بھی ہو کہ ٹوئٹر ماضی میں کیا تھا۔ شاید یہ ایک ہے، ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات کے بعد ٹویٹ کیا، ’وہ صرف جعلی نیوز میڈیا کی آنکھوں میں جیت گئے ہیں ٹرمپ نے اپنے پیروکاروں کو کیپٹل پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔ یہ اچھی بحث نہیں تھی. تاہم، یہ بہت زیادہ تشدد تھا۔‘
الوداع، پرانے دوست۔ جب آپ اچھے تھے، تو آپ مزے دار تھے۔ جب آپ برے تھے تو، آپ ٹرولز کا انبار تھے۔ جیسے ہی آپ اس اچھی دنیا سے رخصت ہوں گے تو ہمیں توقع ہے کہ آپ کے جانے سے جمہوریت کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ہینا سلنجر
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گفتگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔ جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں تو پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی ��ابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
ہیلری ڈف کو بیٹی کی ویڈیو پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا
ہیلری ڈف کو بیٹی کی ویڈیو پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا
ہلیری ڈف نے اس وقت شدید ردعمل کا اظہار کیا جب اس کی تین سالہ بیٹی بینکس کو پیر کے روز سواری کے دوران کار سیٹ کے بغیر ایک ویڈیو میں دیکھا گیا۔ ��مریکی اداکارہ اور گلوکارہ کے مداحوں نے ویڈیو میں نابالغ کو کار سیٹ کے بغیر دیکھ کر اپنے ��صے کا اظہار کیا، جس میں ایک نے لکھا: ‘اسے بحفاظت کیوں نہیں باندھا جاتا،’ ایک مداح نے لکھا، جب کہ دوسرے نے غصے سے کہا: ‘وہ پیاری ہے لیکن ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ایک…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/bc2878080b0df62bb5eff37377730b7e/aae3b77804c0bbc1-f0/s540x810/1a3dfd7a4847b13de8996fb39fb8d73dbd6bb4a1.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
ٹرمپ کی جیت سے پاکستان میں کسی سیاسی تبدیلی کاامکان صفر کیوں؟
اگر 2016 میں اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے مسخرہ قرار دیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی کر سب کو حیران و پریشان کر دیا تھا تو 202 میں اسی مسخرے نے کمیلا ہیرس کو دھوبی پٹرا مار کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی یے۔ ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی پر بی بی سی کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں سینیئر صحافی وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ امریکہ میں صدر کی تبدیلی کا پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں…
0 notes
Text
ہیلری کلنٹن کی مشیر ہما عابدین کا امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام - اردو نیوز پیڈیا
ہیلری کلنٹن کی مشیر ہما عابدین کا امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین واشنگٹن: ہیلری کلنٹن کی سیاسی مشیر اور پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہما عابدین نے امریکی سینیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگادیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہما عابدین نے اپنی سوانح حیات تحریر کی ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ 2000ء میں ایک امریکی سینیٹر نے انہیں اپنے گھر بلاکر ان سے دست درازی کی کوشش کی تھی، تاہم ہما عابدین نے انہیں سختی سے جھڑکتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/d7bfae15cf8ca7f5d97da6a851d7da82/9dda53263fc5ad88-94/s540x810/b1d8e86fa5d666274101752d3c831272ab68ae4e.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
وہ اہم راز جو جولین اسانج نے افشا کیے
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سفارت خانے نے انھیں سنہ 2012 سے پناہ دے رکھی تھی ۔ امریکہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے چیلسی میننگ کے ساتھ مل کر دفاعی ادارے کے کمپیوٹرز میں موجود خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی سازش کی۔ اس جرم کی پاداش میں انھیں پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سنہ 2006 میں اپنے باقاعدہ آغاز کے بعد سے اب تک وکی لیکس ہزاروں خفیہ دستاویزات شائع کر کے مشہور ہو چکا ہے۔ یہ خفیہ معلومات فلم انڈسٹری سے لے کر قومی سلامتی اور جنگوں سے متعلق رازوں پر مشتمل ہیں۔
ہیلی کاپٹر حملہ سنہ 2010 میں وکی لیکس نے امریکہ کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر سے بنائی گئی ویڈیو نشر کی جس میں عراق کے شہر بغداد میں شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جس میں پائلٹس کو اکسایا جا رہا ہے کہ ان سب کو مار دو اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے گلیوں میں موجود شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جب ایک گاڑی جائے حادثہ سے زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آتی ہے تو اس پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز سے منسلک فوٹو گرافر نمیر نور الدین اور ان کے معاون سعید چماغ بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی فوجی انٹیلیجینس وکی لیکس نے ان ہزار ہا دستاویزات کو بھی شائع کیا جو سابقہ امریکی انٹیلیجینس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے ان کو فراہم کیں۔ افغانستان میں جنگ سے متعلقہ دستاویزات کے ذریعے یہ راز فاش ہوا کہ کیسے امریکی فوج نے سیکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور یہ واقعات رپورٹ نہ ہو پائے۔ عراق جنگ سے متعلق دستاویزات سے یہ پتا چلا کہ 66 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے کم ہے جو رپورٹ ہوئی تھی۔ دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ عراقی فورسز نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ان لیکس میں وہ دو لاکھ پچاس ہزار پیغامات بھی شامل تھے جو امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کلیدی عہدیداروں کے بائیو گرافک اور ��ائیو میٹرک معلومات جیسا کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس حاصل کرنا چاہتا تھا۔
9/11 کے پیغامات وکی لیکس نے تقریباً 573000 ریکارڈ کیے گئے وہ پیغامات بھی شائع کیے جو 9/11 میں شدت پسندوں کے امریکہ میں حملوں کے دوران بھیجے گئے۔ ان پیغامات میں وہ پیغامات بھی شامل تھے جو مختلف امریکی خاندانوں نے اپنے پیاروں سے رابطوں کے لیے اور حکومتی اداروں نے ایک دوسرے کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے تھے۔ ایک پیغام میں کہا گیا 'صدرِ مملکت کو اپنے روٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وہ واشنگٹن واپس نہیں آ رہے لیکن اس بات کا یقین نہیں کہ وہ کہاں جائیں گے۔'
ڈیموکریٹس کی ای میلز وکی لیکس نے ہزاروں وہ ای میلز بھی شائع کیں جو سنہ 2016 میں سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی الیکشن مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا کے اکاؤنٹ سے ہیک کی گئی تھیں۔ ان ای میلز میں جان پوڈیسٹا ہیلری کلنٹن کے مخالف برنی سینڈرز کو پیرس میں ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر تنفید کرنے کی وجہ سے 'بیوقوف' کہتے ہوئے پائے گئے۔ ای میلز سے یہ بھی پتا چلا کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا ایک صحافی کلنٹن کی ٹیم کو ایک سوال کے بارے میں بتا رہا ہے جو ان سے الیکشن ڈیبیٹ کے دوران اس نشریاتی ادارے نے پوچھنا تھا۔ ان ای میلز کے ایسے وقت میں سامنے آنے پر ویکی لیکس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہیلری کلنٹن کو الیکشن سے قبل بدنام کرنا چاہتا ہے۔ وکی لیکس نے ریپبلیکن امیدوار سارہ پیلن کے یاہو اکاؤنٹ کی ای میلز کو بھی سنہ 2008 میں شائع کیا۔
برٹش نیشنل پارٹی کے ممبران سنہ 2008 میں وکی لیکس نے برٹش نیشنل پارٹی کے 13 ہزار سے زائد ممبران کے نام، پتے، اور رابطے کی معلومات بھی شائع کیں۔ اس سیاسی جماعت کے منشور میں تجویز دی گئی تھی کہ مسلمان ممالک سے تارکین وطن کی امیگریشن پر پابندی عائد کی جائے اور برطانیہ کے باسیوں کو کہا جائے کہ وہ نسلی بنیادوں پر اپنے علاقوں میں واپس آ کر آباد ہوں۔ ایک سابق ممبر کو یہ راز فاش کرنے پر 200 برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
سونی پکچرز ہیک سنہ 2015 میں وکی لیکس نے ایک لاکھ ستر ہزار ای میلز اور 20 ہزار وہ دستاویزات شائع کر دیں جو فلم سٹوڈیو سونی پکچرز سے چرائی گئیں تھیں۔ اس کمپنی کو شمالی کوریا پر بنائی گئی فلم دی انٹرویو کی ریلیز سے چند ہفتوں قبل سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان ای میلز سے پتہ چلا کہ اداکاراؤں جینیفر لورینس اور ایمی ایڈمز کو فلم امریکن ہسل کے لیے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے کم معاوضہ دیا گیا۔ جب کہ وہ پیغامات بھی تھے جن میں اس کمپنی کے ہدایت کار اور اعلی عہدیداران مشہور فلمی شخصیات بشمول اینجلینا جولی کی بے عزتی کرتے پائے گئے۔ سونی پکچرز کی ایک فلم مسترد کرنے پر اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کو 'کمینہ' کہا گیا۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کا کہنا ہے کہ یہ ای میلز عوامی مفاد میں جاری کی گئیں کیونکہ ان کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنی میں اندرونِ خانہ کام کرنے کے طریقہ کار کا پتا چلتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Text
اسٹیٹ آف ٹیرر: 'سسپنس اور تھرلر سے بھرپور' ہیلری کلنٹن کی نئی کتاب اکتوبر میں آئے گی
اسٹیٹ آف ٹیرر: ‘سسپنس اور تھرلر سے بھرپور’ ہیلری کلنٹن کی نئی کتاب اکتوبر میں آئے گی
ویب ڈیسک — امریکہ کی سابق خاتونِ اوّل، سابق وزیرِ خارجہ اور 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی ایک کتاب جلد منظرِ عام پر آنے والی ہے جو “سسپنس اور تھرلر سے بھرپور” ہو گی۔ کتاب کے ناشر ‘سائمن اینڈ شسٹر’ اور ‘سینٹ مارٹنز پریس’ ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے یہ کتاب کینیڈین مصنفہ لوئز پینی کے ساتھ مل کر لکھی ہے جو رواں برس اکتوبر میں شائع ہو گی۔ پبلشرز کے…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/05a04039993fd50bb16ab81cdd892299/08e72fbed3294d46-a0/s540x810/47d5edaba65dc1c924b8f86f9bddeffad20385be.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
امریکی جمہوریت کا کڑا امتحان
چار سال قبل ٹرمپ امریکی سیاست کے لیے ایک اجنبی نام تھا اور یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ امریکی سیاست کے بااثر حلقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی نے ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا اور صدارتی امیدواروں کے لیے ہونے والی روایتی کڑی جانچ پڑتال کے بغیر ہی انھیں میدان میں اترنے دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ’’ریڈ نیک‘‘ (سرخ گردن) کہلائے جانے والے سفید فام امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس طبقے کی اکثریت فیکٹری مزدور ہے اور ری پبلکن پارٹی ان میں مقبول رہی ہے۔ اجر��وں کی زائد لاگت کے باعث امریکا کی کئی صنعتیں دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئیں۔ غیر ملکی تارکین وطن نے امریکا آکر مقامی سفید فام آبادی سے کم اجرتوں پر کام کرنا شروع کر دیا اور لاکھوں سفید فام بے روزگار ہو گئے۔ ملک میں فرسودہ ہوتے انفرا اسٹرکچر اور صنعتوں میں آنے والی جدت کا جائزہ لینے کے بجائے امریکا نے ترقی پذیر ممالک میں فلاح و بہبود کے منصوبوں پر دریا دلی سے امداد دی۔
امریکا اپنے بڑے شہروں میں بسی غربت زدہ آبادی کو نظر انداز کرتا رہا۔ ان شہری ملازمت اور مزدوری پیشہ حلقوں ہی میں ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت زیادہ تھی۔ نسلوں سے محفوظ روزگار رکھنے والے ان امریکیوں سے روزگار ہی چھن گیا۔ یہ وہ ہنر مند اور مزدور طبقہ تھا جو ہفتے کے باقی دن صرف کام کرتا ہے اور اتوار کو چرچ میں جمع ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے مل جل کر وقت گزارتا ہے، ان کی زندگی اسی دائرے میں بسر ہوتی ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے ہونے والی خانہ جنگی کے بعد امریکی آبادی کا ایک محدود لیکن بااثر طبقہ نسل پرستانہ رجحان رکھتا ہے۔ بے روزگاری اور شدت پسندی نے نسل پرستی کے ان دبے انگاروں کو ہوا دے کر شعلوں میں تبدیل کر دیا۔ اس طبقے کو اپنی طرز زندگی خطرے میں محسوس ہونے لگا اور ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ غیر سفید فام آبادی ان پر غالب آجائے گی، ٹرمپ نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس صورت حال کا اندازہ ہونے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ٹرمپ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے ہر وعدے پر قائم رہے۔ امریکی مفادات کے لیے ہر معاہدے پر کڑا بھاؤ تاؤ کر کے نظر ثانی کروائی۔ اس سے بڑھ کر ٹرمپ کئی امریکی صنعتوں کو ملک واپس لے آئے اور انھیں امریکا میں کام کرنے پر مجبور بھی کیا۔ ٹرمپ نے امریکا کا تجارتی توازن بہتر کرنے کے لیے چین اور یورپ وغیرہ پر بھاری ٹیکس لگائے اور نیٹو کے بجٹ کے لیے دیگر نیٹو ارکان سے زیادہ بڑا حصہ ادا کروایا۔ روزگار کے مواقعے پیدا ہونے اور ٹیکس میں بڑی چھوٹ ملنے سے لاکھوں امریکیوں کی زندگی میں بہتری آئی ، غریب کو روزگار ملا اور امیر مزید امیر ہو گئے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے، عراق اور شام وغیرہ سے اپنی فوج واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ نیٹو بھی ان جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے کے لیے آمادہ ہو گئی۔ امریکا کی معاشی ترقی کے لیے درکار سرمایہ بے دریغ ان جنگوں میں صرف ہو رہا تھا۔
اس بار ٹرمپ کے مخالف عناصر ایک جگہ جمع ہو گئے اور تہیہ کر لیا کہ اسے دوبارہ منتخب نہیں ہونے دیں گے۔ انتخابی مہم ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ امریکا کو وبا نے آلیا۔ جوبائیڈن کئی ڈیموکریٹ امیدواروں میں سے ایک تھے لیکن بدلتے حالات نے انھیں بہتر امیدوار بنا دیا۔ برنی سینڈر نے ٹرمپ کو شکست دینے کے مشترکہ مقصد کے تحت بائیڈن کے ساتھ ٹکر کا مقابلہ کیا۔ ٹرمپ نے حال ہی میں امریکی اداروں پر ہونے والے بڑے ہیکنگ کے حملے کا الزام بھی روس پر عائد کرنے سے انکار کر دیا۔ روسی صدر پیوتن ففتھ جنریشن وار کو ایک نئی سطح پر لے جا چکے ہیں اور کوئی لیڈر اپنے قومی مفاد کے لیے ایسا کیوں نہیں کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پیوتن کے پاس ٹرمپ کا ایسا کچھ ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ روس سے ڈرتا ہے۔ اسی وجہ سے ٹرمپ کی چار سال کی کامیابیاں بھی دھندلا گئیں۔ مارچ 2020 تک ٹرمپ کو انتخابی نتائج کا اندازہ ہو چکا تھا۔ رواں برس مئی میں اپنی شکست یقینی نظر آنے کی وجہ سے ٹرمپ نے پوسٹل ووٹنگ میں جعل سازی پر واویلا شروع کر دیا۔
امریکی میڈیا میں پائی جانے والی ٹرمپ کی مخالفت کی وجہ سے انتخابات سے متعلق رپورٹس اور سرویز سے ڈیموکریٹس کی برتری کا تاثر ملنا یقینی بات تھی۔امریکا کے ایوان نمایندگان میں ڈیموکریٹس کی برتری کے بعد اب سینیٹ میں ریپبلکنز کی برتری کا انحصار 6 جنوری کو جارجیا میں سینیٹ کی نشست کے لیے ہونے والے انتخاب پر ہے۔ سینیٹ میں عددی صورت حال 50-50 ہے اور نائب صدر کے ووٹ سے حزب اقتدار کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ کا جارجیا کا دورہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے ’’بوسۂ مرگ‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ہنگامہ خیزی میں کئی مرتبہ یہ محسوس ہوا کہ امریکا کا جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ لیکن سپریم کورٹ سے ٹرمپ کے انتخابی اعتراضات مسترد ہونے اور ریپبلکنز کے سینیٹرز اور ایوان نمایندگان کے ارکان کی اکثریت کی جانب سے انتخابی نتائج تسلیم کر لینے سے تمام تر دباؤ کے باوجود نظام محفوظ رہا۔ بائیڈن کو ٹرمپ پر یوں بھی 70 لاکھ ووٹوں کی برتری مل گئی تھی۔
ٹرمپ کے قریبی ساتھی روڈی جیولیانی اور اس کی ٹیم کی جانب سے افواہوں کی گرم بازاری اور ٹرمپ کے سوئنگ اسٹیٹ کے نمایندگان سے رابطوں کے باوجود کوئی منتخب نمایندہ ’بے ضمیر‘ نہیں ہوا۔ جب حال ہی میں ثابت شدہ مجرم لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلین کو صدارتی معافی دی گئی تو کئی خدشات پیدا ہوئے، اس کے ساتھ ہی انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے لیے ’مارشل لاء‘ لگانے کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ پاکستان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ فلین چند دنوں کے لیے ٹرمپ کا قومی سلامتی کا مشیر رہا کیوں کہ یہ وہ مشتبہ شخص ہے جو یہ عہدہ ملنے سے قبل پاکستان پر بمباری کا پُرزور حامی تھا۔ بہر حال ، ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف اور سینیئر قانونی مشیروں نے ’مارشل لاء‘ کی تجویز مسترد کر دی۔ مبینہ طور پر پینٹا گون میں ٹرمپ کے طرز عمل پر گہری تشویش پیدا ہوئی اور خاص طور پر مارشل لاء سے متعلق مشاورت نے سنجیدہ سوالات پیدا کر دیے۔ امریکی فوج میں بھرتی کے وقت ہر فرد ’’میں صدر امریکا کے تمام احکامات بجا لاؤں گا‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔
تاہم یونیفارم کوڈ آف ملٹری جسٹس کے آرٹیکل 90 میں درج ہے کہ افواج کے اہل کار اپنے افسر بالا ’’قانونی‘‘ احکامات مانے گا۔ لیکن کیا کوئی فوجی اپنے سینیر افسر، سیکریٹری دفاع یا صدر کے ’’خلاف قانون‘‘ احکامات ماننے سے انکار بھی کر سکتا ہے؟ ایسے حالات میں سپاہی کو آئین میں بیان کردہ قانونی اور اخلاقی حدود میں رہنا چاہیے اور کسی بھی خلاف قانون حکم ماننے سے انکار کردینا چاہیے۔ ٹرمپ کے وفاداروں اور دوستوں کے اکسانے کے باوجود نظام کی مضبوطی ثابت ہوئی۔ ٹرمپ ہی کے مقرر کیے گئے سپریم کورٹ کے تین ججوں نے جمہوری نظام کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکی انتخاب کی اس ہنگامہ خیزی کے بعد جمہوریت کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوئی۔
اکرام سہگل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
لامتناہی بحثوں کا دور، یوکرین سے لے کر روس گیٹ تک ویکسین تک #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%84%d8%a7%d9%85%d8%aa%d9%86%d8%a7%db%81%db%8c-%d8%a8%d8%ad%d8%ab%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%af%d9%88%d8%b1%d8%8c-%db%8c%d9%88%da%a9%d8%b1%db%8c%d9%86-%d8%b3%db%92-%d9%84%db%92-%da%a9%d8%b1-%d8%b1/
لامتناہی بحثوں کا دور، یوکرین سے لے کر روس گیٹ تک ویکسین تک
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
ولادیمیر پوٹن پلک جھپکنا یا شاید یہ صرف ایک سر جعلی ہے.
ایک دن بعد یوکرین کا صدر نے کہا روسی یلغار آج شروع ہو جائے گی- پھر کہا کہ یہ محض طنز تھا- دنیا ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آخر کیا ہو رہا ہے۔ پیوٹن کا دعویٰ ہے کہ وہ سرحد پر اپنے کچھ فوجی یونٹوں کو واپس بلا رہے ہیں، لیکن نیٹو شکی ہے.
یوکرین جنگوں کا گراؤنڈ ہاگ ڈے ہے – ہم ہمیشہ دہانے پر ہوتے ہیں، جب تک کہ سفارت کاروں کو کچھ سائے نظر نہ آئیں۔ پھر بائیڈن پیوٹن کی ایک اور کال آتی ہے، یا فرانس یا جرمنی کے رہنما اس میں شامل ہو جاتے ہیں، پنڈولم پھر سے امید اور مایوسی کے درمیان جھومتا ہے، اور میڈیا جنگی بنیادوں پر رہتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن 14 فروری 2022 کو ماسکو میں کریملن میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کے ساتھ ملاقات میں شریک ہیں۔ ((تصویر بذریعہ ALEXEI NIKOLSKY/Sputnik/AFP بذریعہ گیٹی امیجز))
یوکرین کا تعطل، جو کئی مہینوں سے بنا ہوا ہے، ان دنوں بہت سے دوسرے میڈیا اور سیاسی تنازعات کی طرح ہے جو تقریباً ہمیشہ کے لیے گھسیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترقی اور ناکامیاں، کامیابیاں اور ناکامیاں ہیں، لیکن آخر میں ہر مسئلہ پریس اور سوشل میڈیا میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث میں بدل جاتا ہے۔
ٹرمپ کے مار-اے-لاگو دستاویزات میں خفیہ مواد شامل ہو سکتا ہے۔ سب سے زیادہ ہلیری ناقدین خاموش
شاید اس وبائی بیماری سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے، جو اب دنیا بھر میں زندگی کو درہم برہم کرنے کے اپنے تیسرے سال کا آغاز کر رہی ہے۔ ہم لاک ڈاؤن اور بڑے پیمانے پر خوف سے اس اعتماد پر چلے گئے ہیں کہ ویکسین وائرس کو اومیکرون اضافے سے مایوسی سے شکست دے گی اس امید کے لیے کہ زندگی جلد ہی معمول پر آجائے گی۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا۔
بحث ختم ویکسین ایسا لگتا ہے کہ مینڈیٹ نے سب سے طویل عرصے تک مرکز کا مرحلہ لیا ہے۔ اور میڈیا اور ڈیموکریٹس آخر کار ماسک مینڈیٹ پر اپنی دھن تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ وائرس کا اضافہ کم ہو رہا ہے (حالانکہ اب بھی روزانہ 150,000 نئے کیسز ہیں)، ریپبلکنز کے ساتھ مسلسل لڑائی کے بعد جن پر لوگوں کی حفاظت کی پرواہ نہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
اسکولوں میں ماسک کی ضروریات کے بارے میں بحث اور بھی تلخ ہو گئی ہے، جن میں سے کچھ کو اٹھانا شروع ہو گیا ہے، یہاں تک کہ ناراض والدین جو ڈیموکریٹس کے طور پر شناخت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کے پاس طلباء کو سارا دن چہرہ ڈھانپنا پڑتا ہے۔
ویکسینیشن کے قوانین پر ہونے والے مظاہروں نے اب کینیڈا کو مفلوج کر دیا ہے، جہاں جسٹن ٹروڈو اوٹاوا کو خالی کرنے کے لیے ہنگامی طاقتوں اور ٹرکوں کے ڈیٹرائٹ جانے والے پل کی درخواست کر رہے ہیں جنہوں نے ٹریفک کو بند کر دیا ہے۔ اینٹی ویکس مینڈیٹ کے احتجاج کے طور پر جو کچھ شروع ہوا وہ اب وبائی قوانین اور وزیر اعظم کے خلاف ایک عام بغاوت میں تبدیل ہو گیا ہے ، جن پر دونوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ افراتفری کا مقابلہ کرنے میں بہت کمزور ہیں اور ��زادی اظہار کو کچلنے کے لئے بھی تیار ہیں۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/49c6b37fa345e5439f6132fdba9bad52/5ae774130a62f8a0-b0/s540x810/7fe0db91cf0bf88e306b0c189c02d7163351abf4.jpg)
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے COVID-19 ویکسین مینڈیٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے کینیڈین ٹرک ڈرائیوروں کی حمایت جاری ہے (فاکس نیوز ڈیجیٹل)
ویکسینیشن کے بارے میں شدید جذبات نے جو روگن کو بوٹ کرنے کے دباؤ سے لے کر اسپاٹائف سے نوواک جوکووچ کو آسٹریلین اوپن سے نکالے جانے تک کی کہانیوں میں جنم لیا ہے۔ درحقیقت، ٹینس اسٹار نے کل کہا کہ وہ شاٹس نہ لینے کے لیے اتنے پرعزم ہیں کہ وہ فرنچ اوپن اور ومبلڈن کو بھی یاد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
خواہش مند سوچ؟ دو اخبار نویسوں نے درمیانی مدت میں ٹرمپ کے اثر و رسوخ میں کمی کا اعلان کیا
لیکن سب سے طویل چلنے والا ڈرامہ ہونا چاہئے جو روس گیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے اپنے محکمہ انصاف کی طرف سے ایک خصوصی وکیل کا نام لینے کے ساتھ شروع میں ایک جائز کہانی، میڈیا کی طرف سے اس کو اس قدر بے لگام اور زیادہ فروخت کیا گیا کہ تحقیقات کو دھندلا ہوا دیکھا گیا۔
اس کے بعد تفتیش کاروں کی تفتیش سامنے آئی، جس کی سربراہی وفاقی پراسیکیوٹر جان ڈرہم کر رہے تھے۔ انہوں نے ہیلری کلنٹن کی مہم کے سابق وکیل مائیکل سوسمین پر ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے پر فرد جرم حاصل کر لی ہے۔ ہفتے کے آخر میں ایک عدالت میں دائر کی گئی فائلنگ میں، ڈرہم نے کہا کہ سوسمین نے ایک ٹیک ایگزیکٹو کے ساتھ کام کیا جس نے ٹرمپ ٹاور اور وائٹ ہاؤس کے سرورز تک رسائی کا استعمال کیا “اس مقصد کے لیے توہین آمیز معلومات اکٹھی کرنے کے لیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ“
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/ff413a0b9f210ef711fc1bc7e6ca0309/5ae774130a62f8a0-11/s540x810/e56b69fee7daacd75073d6eeb08777d07e4224f6.jpg)
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ، 26 دسمبر، 2018 کو عراق کے الاسد ایئر بیس پر ایک ہینگر ریلی کے دوران خاتون اول میلانیا ٹرمپ کو بوسہ دیا۔ (اے پی فوٹو/اینڈریو ہارنک)
یہ فاکس نیوز اور مٹھی بھر دائیں طرف جھکاؤ والی سائٹس پر ایک بڑی کہانی تھی اور کافی شاندار پیش رفت میں، دوسرے نیٹ ورکس اور بڑے اخبارات نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، حالانکہ اسے عدالتی کاغذات میں بطور ثبوت پیش کیا گیا تھا۔ جیسا کہ میں نے آن ایئر کہا، بہت کچھ ہے جو ہم نہیں جانتے، بشمول ان آن لائن سویپس نے کیا پایا اور کیا کلنٹن کیمپ کو اس کے بارے میں معلوم تھا۔
کل ایک جوابی حملہ شروع کیا گیا، جس کی قیادت نیویارک ٹائمز نے کی بلکہ واشنگٹن پوسٹ اور ایم ایس این بی سی نے بھی کہا کہ معلومات پرانی ہیں اور اس کی غلط تشہیر کی جا رہی ہے، اور دائیں بازو کے میڈیا کی طرف سے پوری چیز کو اچھالا جا رہا ہے۔ تو اب ہمارے پاس ٹرمپ اور روس کے بارے میں اس میڈیا بحث کا 10,000 واں دور کچھ خوبصورت گھنے مواد پر ہے۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یا ہم ٹیون آؤٹ کر سکتے ہیں اور یوکرین جیسی آسان چیز کی طرف واپس جا سکتے ہیں۔
Source link
0 notes
Text
ہیلری ڈف نے بیٹے لوکا کی میتھیو کوما سے شادی کے لیے ان کی خوبصورت نظم کی نقاب کشائی کی۔
ہیلری ڈف نے بیٹے لوکا کی میتھیو کوما سے شادی کے لیے ان کی خوبصورت نظم کی نقاب کشائی کی۔
ہیلری ڈف نے بیٹے لوکا کی میتھیو کوما سے شادی کے لیے ان کی خوبصورت نظم کی نقاب کشائی کی۔ ہیلری ڈف نے انسٹاگرام اسٹوریز کی طرف رجوع کیا تاکہ شادی کی نظم پر ایک واضح نظر شیئر کی جاسکے کہ اس کے بیٹے لوکا نے شادی کے دن اس کے اور اس کے شوہر میتھیو کوما کے لیے لکھا تھا۔ لوکا نے اپنی نظم کو اپنی ماں کی 2019 کی مخلوط شادی کے لیے لکھا جب وہ 7 سال کی تھی۔ اس نظم میں لکھا ہے ، “آؤٹ فیملی ایک کہکشاں ہے ، جو…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/62abcd7ec06ea816910bf3cc6c5ceba0/630e44fb03c494f4-5b/s540x810/c88808ba462cceb7d8de6c217926437055d89fdf.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
کلنٹن پر یہ احسان کیا کہ طلاق نہ لی
کلنٹن پر یہ احسان کیا کہ طلاق نہ لی
امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ کلنٹن سے طلاق نہ لے کر ان پر احسان کیا ہے. اگر انہوں نے اپنی زندگی میں اب تک کوئی سب سے جرات مندانہ کام کیا ہے تو وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن سے طلاق نہ لینا ہے۔ ہیلری کلٹن اپنی بیٹی چیلسی کلنٹن کے ہمراہ اے بی سی کے مارننگ شو کا حصہ بنیں، جہاں وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی کتاب ‘دی گٹسی ویمن’ کی تشہیر کے لیے جلوہ گر ہوئیں تھی۔اس دوران شو کی میزبان…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/276ba0465fcd79f77b2f97eb7dc611f7/18a2a05bcbbc217a-d5/s540x810/e69385164b3e93ea588c8298ce753dc994740697.jpg)
View On WordPress
0 notes