#ہوا نہ لگنے دو
Explore tagged Tumblr posts
therealmehikikomori · 2 years ago
Text
ہِینگ َلگا کَر َرکّھو/لگا رکھا کرو
بچا کر رکھو ، خود حفاظت سے رکھو ، ہوا نہ لگنے دو ؛ (طنزاً) سینت کر رکھو ؛ کسی کو نہ دو (بخیل سے طنزاً کہتے ہیں)
0 notes
shiningpakistan · 6 months ago
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچ�� ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
aireenruhee · 1 year ago
Text
اللہ کا امر کب غالب ہوگا؟
اللّہ اپنے منصوبوں میں کسی قسم کی مداخلت کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنے اہداف تک بہت خاموش اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ہے۔
یوسف علیہ السلام کو بادشاہی کا خواب دکھایا۔ والد کو بھی پتہ چل گیا۔
والد موجودہ نبی ہے تو بیٹا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ ہوگا کیسے؟
خواب خوشی کا تھا، لیکن اللہ کی حکمت دیکھیے کہ چکر غم کا چلا دیا۔
ہے نا عجیب بات!
یوسف چند کلومیٹر کے فاصلے پر کنوئیں میں پڑے ہیں، والد کو خوشبو نہیں آنے دی۔
اگر خوشبو آ گئی تو آخر کو باپ ہے، رہ نہیں سکے گا، جا کر بیٹے کو نکلوا لے گا۔ جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے شروع ہونا ہے، اللہ کے منصوبے میں لکھا یہی گیا تھا۔
اگر یعقوب کو سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ اچھا نہیں لگے گا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا بھی ہے کہ نہیں!
لہذا سارا نظم اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔
اب اگر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا اصل میں بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف کی حسد میں مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہو رہے ہیں تو وہ یوسف کو کنوئیں میں گرانے کے بجائے ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو۔
یوسف علیہ السلام جب عزیز مصر کے گھر پہنچے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ
"ان مع العسرِ یسراً " کہ یقینا" ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اب جیل کے ساتھیوں کے خوابوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو میرے بارے میں ذکر کردینا بادشاہ کے دربار میں۔
مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کے اللہ کے منصوبے کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا۔
یوں شیطان بھی اللہ کے اس منصوبے کو نہ سمجھ سکا اور اللہ کے منصوبے میں بطورِ آلہ کار استعمال ہوگیا۔
غور کیجیے کہ اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر بادشاہ کے سامنے ہو جاتا تو یوسف علیہ السلام سوالی ہوتے اور رب تعالٰی کو یہ بالکل پسند نہیں تھا کہ یوسف سوالی بن کر اور درخواست کرتے ہوئے بادشاہ کے سامنے آئیں۔
اللہ کے منصوبے میں تو بادشاہ کو سوالی بن کر یوسف کے پاس آنا تھا نا!
و مکرو و مکر اللہ واللہ خیر الماکرین
اور وہ منصوبہ بناتے ہیں اور اللہ اپنا منصوبہ بناتا ہے۔ اور اللہ سب سے بہترین منصوبہ ساز ہے۔
کیسے؟ ذرا دیکھتے ہیں۔۔۔
اور پھر ہوا کیا؟
عزیز مصر کو خواب دکھا کر سوالی بنادیا، معلوم ہوا کہ ایک قیدی ہے جو خوابوں کی تعبیر کیا ہی درست بتاتا ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ میں تو اس قیدی سے ملنا چاہتا ہوں اور اب یوسف علیہ السلام پوری عزت کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں بلائے گئے۔
عزیز مصر کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ ششدر رہ گیا، بات دل کو لگی اور اللہ نے باشاہ کے اوپر یوسف علیہ السلام کی عقل و دانش کا سکہ بٹھا دیا۔
بادشاہ نے رہائی کا حکم دیا تو فرمایا میں اس طرح سے اپنے اوپر ایک ناکردہ جرم کا داغ لیے باہر نہیں آؤں گا کیونکہ مجھ پر عورتوں والا ایک مقدمہ ہے۔ جب تک اس معاملے میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے، مجھے آزادی نہیں چاہیے۔
اب ان خواتین کو بلوایا گیا، سب آگئیں اور سب نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دے دی، یہاں تک کہ مدعیہ خاتون نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ :
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَٰوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِۦ ۚ قُلْنَ حَـٰشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوٓءٍۢ ۚ قَالَتِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْـَٔـٰنَ حَصْحَصَ ٱلْحَقُّ أَنَا۠ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ۔ (سورہ یوسف - 51)
"بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ پاکی اللہ ہی کے لیے ہے اور ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچے ہیں۔"
وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا، وہی قحط ہانک کر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بھی بادشاہ کے دربار میں لے آیا۔
اب اللہ نے یہ دکھا دیا کہ یہ وہی بے بس معصوم بچہ ہے جسے تم نے حسد کی وجہ سے کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور آج تمہارے حسد نے اسے بادشاہ بنادیا ہے۔
اب یوسف علیہ السلام نے فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر والد صاحب کے پاس گئے تھے لیکن تم لوگوں نے جھوٹ گھڑا تھا، جس کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر مجھے یاد کرکے رویا کرتے تھے۔
فرمایا کہ اچھا اب یہ کرتہ لے کر جاؤ، یہ ان کی وہ کھوئی ہوئی بینائی واپس لے آئے گا۔
اب یوسف نہیں یوسف علیہ السلام کا کرتا مصر سے چلا ھے تو
کنعان کے صحرا یوسف کی خوشبو سے مہک اٹھے ھیں۔
ادھر یعقوب علیہ السلام چیخ پڑے ھیں :
وَلَمَّا فَصَلَتِ الۡعِيۡرُ قَالَ اَبُوۡهُمۡ اِنِّىۡ لَاَجِدُ رِيۡحَ يُوۡسُفَ‌ لَوۡلَاۤ اَنۡ تُفَـنِّدُوۡنِ‏ ﴿۹۴﴾
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر تم مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) سٹھیا گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔
سبحان اللہ!
جب رب نہیں چاہتا تھا تو چند کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی۔
اور جب رب نے بیٹے کی خوشبو کو حکم کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئی ہے۔
وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۔
اور اللہ کا امر غالب ہوکر ہی رہتا ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔
تو یاد رکھیے!
دنیا میں جب آپ کوئی حالات دیکھتے ہیں، آپ کے ساتھ کسی نے چالاکیاں کی ہیں، کوئی آپ سے حسد کرتا ہے، کوئی آپ کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی آپ کو حالات کے کنوئیں میں دھکا دے کر گراتا ہے۔۔۔
تو یہ ساری چالیں، حسد اور ظلم شاید اللہ کے آپ کے لیے خیر کے منصوبے کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی اپنی چال ہوتی ہے جس سے آپ اور آپ کے حاسدین بے خبر ہوتے ہیں۔
انہیں وہ کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں۔ آپ اللہ سبحانہ و تعالٰی سے خیر مانگیں اور اپنا کام کرتے جائیں۔
اسی طرح ہم قوم کے اور امت کے بہت سے حالات دیکھتے ہیں اور کڑھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے، کوئی کچھ کر کیوں نہیں رہا، ہم ظلم کی اس چکی میں کیوں پس رہے ہیں، آخر یہ کب ختم ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
تو کڑھنے ��ے اور سوچتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
آپ کے اور میرے کرنے کا کام کیا ہے؟
1۔ اللہ نے جو عقل عطا فرمائی ہے، اس کا درست استعمال کرنا سیکھیں۔ اپنے آپ کو عقلی، روحانی اور جذباتی اعتبار سے مضبوط کریں۔
2۔ اپنا وقت فضول مباحث اور شر کا جواب شر سے دینے میں ضائع کرنے کے بجائے، اپنے آپ کو اس امت کا ایک بہترین اثاثہ بنانے پر لگائیں۔
3۔ اپنے میدان میں دنیا کے ٹاپ 5 فیصد لوگوں میں شامل ہونے کی طرف پیش قدمی کریں۔
4۔ ڈھیلی ڈھالی عامیانہ زندگی گزارنا اور ہر وقت کا رونا دھونا بند کریں کہ ہائے ہائے! لٹ گئے، برباد ہوگئے، اب کیا ہوگا! یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے۔
5۔ آپ ایک عام انسان نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو "میں تو عام آدمی ہوں" کہنا بند کردیں۔ آپ اگر امتی ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے تو یقین کیجیے کہ آپ بہت خاص ہیں، آپ عام انسان نہیں ہیں۔
6۔ اپنے علم اور صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ ایک تھکی ہوئی اور وقت اور توانائی کو ضائع کرنے والی زندگی نہ گزاریں۔ یوسف علیہ السلام کی طرح سوچنے سمجھنے والی اور بھرپور زندگی گزارنے کا عزم کیجیے۔
اور یاد رکھیے!
اس دنیا کے ہر معاملے پر اللہ تعالٰی کا اختیار ہی کامل ہے۔ لہٰذا کوئی کچھ بھی کرلے، بالآخر اللہ کا ہی امر غالب ہوکر رہے گا۔
تو پھر یوسف علیہ السلام کی طرح فوکس ہوجائیے اور آگے بڑھتے چلے جائیے۔
یمین الدین احمد
یکم مارچ 2024ء
کراچی، پاکستان۔
1 note · View note
risingpakistan · 1 year ago
Text
آؤ نیا وزیراعظم ـ ’سلیکٹ‘ کریں
Tumblr media
سب سے پہلے تو پوری قوم کو نیا سال مبارک ہو، شکر کریں سال 2023 کو توسیع نہیں دی گئی۔ اب سنا ہے نئے سال میں کچھ ’’الیکشن و لیکشن‘‘ ہونے جا رہا ہے۔ سلیکشن کمیٹی خاصی محترک ہے بہت سے بلامقابلہ جیت نہیں پا رہے تو دوسروں کو بلا مقابلہ ہرایا جا رہا ہے۔ کوئی جیت کر بھی ہارتا نظر آ رہا ہے اور کوئی ہار کر بھی جیتتا۔ اب یہ بھی کیا حسن ِاتفاق ہے کہ صرف ایک پارٹی کی پوری اے ٹیم کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کیا کپتان کیا نائب کپتان، کیا پارٹی کا صدر یا قریب ترین ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ’’بدقسمتی‘‘ کس کے ہاتھ آتی ہے، لگتا کچھ یوں ہے کوئی نیا پروجیکٹ تیار نہیں ہو پا رہا تو عبوری دور کیلئے پرانے پروجیکٹ کو ہی آزمانے کی تیاری آخری مرحلوں میں ہے، یہ نہ ہو پایا تو کہیں ’’فیکٹری کو سیل نہ کرنا پڑ جائے۔‘‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں، سوال بہت سادہ سا پوچھا جاتا ہے ’’کیا الیکشن واقعی ہو رہے ہیں۔ نظر نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کو آنے دیا جائے گا۔ کپتان کا کیا بنے گا۔‘‘ زیادہ تر سوالات ہم جیسے صحافیوں سے ہی کیے جاتے ہیں سادہ سا جواب تو یہ دیتا ہوں جب تک الیکشن ملتوی نہ ہوں سمجھ لیں ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں، آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے، اب بھی اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام نئے پرانے پروجیکٹ بند ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال ابھی تک تو کچھ الیکشن ولیکشن ہو رہا ہے کچھ ویسا ہی جیساکہ ہوتا آیا ہے البتہ اس بار ذرا مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ پرانے پروجیکٹ کو چند سال میں اتنا نقصان پہنچا کہ لوگ اب اسے قبول کرنےکو مشکل سے ہی تیار ہوںگے اب اگر سرکار آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کسی کو لانے کا یا کسی کو نہ آنے دینے کا تو کیسا ووٹ اور کیسی اس کی عزت۔ یہ سال تو ان کیلئے بھی مشکل ترین سال رہا جنہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی راولپنڈی میں اور پنڈی کی طرف دیکھتے ہوئے گزار دی انہیں بھی چلے پر بیٹھنا پڑ گیا اور وہ گجرات کے چوہدری جو جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہمنوا رہے پہلے خود تقسیم ہوئے پھر نہ جانے ایک گھر سے مٹھائی کھا کر نکلے تو اس گھر اور شخص کو ہمراہ لیا جو انکے بیٹے کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جو کبھی گجرات سے الیکشن نہیں ہارا آج اس کے بھی کاغذات مسترد ہو گئے۔ دیکھیں اپیل کا کیا بنتا ہے۔ دوستو یہ ہے سال 2023 کے سیاسی منظر نامہ کا مختصر جائزہ۔ 
Tumblr media
یقین جانیں اس سب کی ضرورت نہ پڑتی اگر پی ڈی ایم تین چار بڑی غلطیاں نہ کرتی۔ پہلی مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کا لانا۔ دوسری تحریک کے منظور ہونے کے بعد شہباز شریف یا کسی بھی شریف کو وزیر اعظم بنانا (اس سے سب سے زیادہ نقصان خود میاں صاحب کو ہوا)۔ تیسری اور سب سے بڑی غلطی سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹا کر فوراً الیکشن نہ کرانا، اس سب کے باوجود اگر اگست 2023 میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نومبر میں ہی الیکشن ہو جاتے تب بھی یہ ساکھ تو شہباز صاحب کے حق میں جاتی کے وقت پر الیکشن ہو گئے۔ میاں صاحب اس بات کو ماننے پر تیار ہوں یا نہیں آج کا پنجاب 90 کے پنجاب سے مختلف ہے، ویسے بھی اس صوبہ کے مزاج میں غصہ بھی ہے اور وہ بہادر کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا ہے اسی لیے ذوالفقار علیٰ بھٹو پھانسی لگنے کے بعد بھی زندہ ہے اور جنرل ضیاء نت نئے پروجیکٹ لانے کے بعد بھی اس کی مقبولیت ختم نہ کر سکے، انکے دو پروجیکٹ تھے محمد خان جونیجو دوسرے، شریف برادران۔ ایک کو اس لیے لایا گیا کہ سندھ کا احساس محرومی کم کیا جائے مگر اس نے تو پہلی تقریر میں ہی کہہ دیا کہ ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ 
دوسرے میاں صاحب تھے جنہیں بھٹو اور پی پی پی کا زور توڑنے کیلئے لایا گیا مگر پھر جنرل حمید گل مرحوم ان سے بھی ناراض ہو گئے کیونکہ وہ لاڈلے پن سے باہر آنا چاہتے تھے اور پھر عمران خان پہ کام شروع ہوا اور اب وہ بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ماشاء اللہ کپتان سے بھی کمال غلطیاں ہوئیں۔ 2013 سے 2022 تک جنرل ظہیر سے جنرل پاشا تک اور جنرل باجوہ سے جنرل فیض تک وہ انکے ساتھ جڑے رہے اور پھر آخر میں ان ہی میں سے ایک جنرل باجوہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع اور پھر مزید توسیع کیلئے سب دربار میں حاضر تھے، ہی کے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ مارچ اور اپریل 2022 کی کہانی ہے۔ خان صاحب کی تاریخی غلطیوں میں ان پر سیاسی معاملات میں اعتماد کرنا، پرانا پنجاب عثمان بزدار کے حوالے کرنا ، دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی کور کمیٹی کا حصہ بنانا، سیاسی مخالفین سے بات نہ کرنا، پنجاب اور کے پی کی حکومتیں ختم کر کے اپنی فیلڈ مخالفین کے حوالے کر دینا۔ ان غلطیوں کے باوجود آج بھی عمران اپنے سیاسی مخالفین سے آگے نظر آتا ہے جسکی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی 18 ماہ کی کارکردگی اور مظلومیت کارڈ ہے۔ 
اب آپ سارے کاغذات مسترد بھی کر دیں، نااہل اور سزا برقرار بھی رکھیں، ایک ٹیم کو میچ سے ہی باہر کر دیں۔ لاتعداد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس یا انٹرویو کروا دیں یقین جانیں یہ وہی سیاسی غلطیاں ہیں جو 1956 سے ہماری حکمراں اشرافیہ کرتی آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا اگر عمران کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی اور جیسا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے دوستوں کا خدشہ تھا وہ جنرل فیض کو آرمی چیف بنا بھی دیتا، کوئی صدارتی نظام سے بھی آتا تو کیا جمہوری جدوجہد ختم ہو جاتی یہ صرف خدشات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام تر اقدامات کے باوجود خان کی مقبولیت کا گراف بدستور اوپر ہے۔ آخر میں طاقتور لوگوں سے بس ایک گزارش ہے کہ پروجیکٹ بنانا ختم کرنا پھر نیا پروجیکٹ تیار کرنا پھر اسے ہٹا کر کوئی اور یا پرانا کچھ تکنیکی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کرنا، جماعتیں بنانا توڑنا، حکومتیں گرانا اور توڑنا چھوڑ دیں۔ غلطیاں کرنی ہی ہیں تو نئے سال میں نئی غلطیاں کریں پاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 1 year ago
Text
وطن کی فکر کر ناداں
Tumblr media
دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔  حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔
وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔
Tumblr media
کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟
اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔
ذوالفقار احمد چیمہ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year ago
Text
🌹🌹𝕽𝕰𝕮𝕺𝕸𝕻𝕰𝕹𝕾𝕰 𝕱𝕺𝕽
𝕲𝕺𝕺𝕯𝕹𝕰𝕾𝕾
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RECOMPENSE FOR GOODNESS*
*The Prophet of Islam ﷺ said, “When a person does good to you, try to recompense him. And if you cannot recompense him, then pray to God for him.”*
(Sunan Abu Dawud, Hadith No. 5109)
*It is gentlemanly behavior that when another person does a good deed to you, you should do good to him in return.*
*If you aren’t able to do so, then you should make the best prayers to God for him.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *نیکی کا بدلہ :*
*آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے، اسے پناہ دے دو، جو اللہ کے واسطے سے مانگے، اسے دے دو، جو تم سے فریادکرے، اس کی مدد کرو، جوتمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے، اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس اسے بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو، تواس کے لیے اتنی دعائیں کروکہ تمھیں لگنے لگے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے‘‘۔* (سنن ابوداؤد)
*یہ ایک شریفانہ رویہ ہے کہ جب کوئی دوسرا شخص آپ کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے، تو تمہیں بھی بدلے میں اس کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔*
*اور اگر آپ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں، تو پھر آپ کو اس کے لیے خدا سے بہترین دعا (دعائے خیر) کرنی چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🌹🌹 *احسان شناسی :*
🍁 *ایک اعلی انسانی صفت*
*‘‘اجتماع’’* انسانی ضرورت ہے یعنی آدمی کا اپنے ابناء جنس کے ساتھ مل جل کر رہنا ایسالابدی امر ہے جس سے راہ فراراختیار نہیں کی جاسکتی۔ مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے اور *ہرانسان اپنی ضروریات زندگی کے لیے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج اور معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔* جب یہ حقیقت ہے کہ بنی آدم کسی نہ اعتبار سے ایک دوسرے کے محسن و معاون ہیں تو اس احسان کا تقاضا ہے کہ *اپنے محسن کے ساتھ وفاداری اور احسان شناسی کا معاملہ کیاجائے، اس کے تعاون کا اچھا بدلہ دیاجائے، اگر بدلے میں کوئی مادی چیز دینے کی استطاعت نہ ہو تو خلوص دل کے ساتھ دعائے خیر دی جائے اور اپنے قول و عمل سے ہرگز اس طرح ظاہر نہ کیاجائے جس سے احسان فراموشی کی بو آتی ہو۔*
احسان شناسی کی ضد احسان فراموشی ہے، جو ان دنوں جنس ارزاں کی طرح عام ہوتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کا معاملہ نہ صرف محسن انسانوں کے ساتھ؛بلکہ *خودمنعم حقیقی کے ساتھ اس درجہ احسان فراموشی کا ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ زندگی جیسی عظیم نعمت اور مزید لاتعداد نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود بھی کفران نعمت اور ناشکری جیسی انتہا سے باز نہیں آتااور نتیجتاً قانون قدرت کے مطابق عذاب الہی کا مستحق قرار پاتاہے۔* *احسان فراموشی کی صفت جس انسان میں پائی جاتی ہے، وہ دنیا میں ا��نی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی بیش بہا نعمتوں کے دروازے بند کرلیتا ہے اور روز قیامت عتاب خداوندی کا سزاوار ٹہرتا ہے۔*
🍂 *احسان شناسی؛کتاب و سنت کی روشنی میں :*
*ہم پراحسان خواہ والدین کا ہو یا کسی بھی دوسرے انسان کا، شریعتِ مطہرہ نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم احسان شناسی کا ثبوت دیں۔* صاحبِ استطاعت ہونے کے بعدہمارا فریضہ ہے کہ اپنے والدین اور اساتذہ کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات پوری کریں، ان کوہر قسم کی راحت و آسائش پہنچانے کی فکر کریں، جیساکہ وہ ہمارے بچپن میں ہماری فکر کرتے تھے۔ *ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بے شک اللہ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے‘‘۔* (البقرہ:237) دوسری جگہ اپنی نعمتوں کویاددلاتے ہوئے فرماتا ہے: *’’اگر تم اس کا شکر ادا کروگے، تووہ تم سے راضی ہوگا‘‘۔* (الزمر:7)
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکۂ بلقیس کے واقعے کے ضمن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا: *’’وہ (جن)جس کے پاس کتاب کا علم تھا، اس نے کہاکہ میں (ملکۂ بلقیس کے تخت کو)آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا، توجب حضرت سلیمان نے اس عرش کو اپنے پاس دیکھا تو کہا یہ میرے رب کا احسا ن اور فضل ہے، جومجھے آزمانا چاہتاہے کہ میں اس کی نعمت کا شکر اداکرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتاہوں، اور جس نے شکریہ اداکیا، اس نے اپنے لیے کیا اور جس نے کفرانِ نعمت کیا، توبلاشبہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اورکرم فرما ہے‘‘۔* (النمل:40)
*اسی طرح سورۂ رحمان میں نہایت بلیغ بات ارشاد فرمائی:ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔* (الرحمن:60) *تمہیں اس بات پر تعجب کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو یہ ساری نعمتیں ��ینے والا ہے! آخر نیکی اور پاک بازی کا بدلہ کیا ہونا چاہیے؟ انعام و اکرام ہی ہونا چاہیے یا کچھ اور؟ ظاہرہے کہ جس بندہ نے بندہ ہو کر بندگی کے حقوق کو بہ حسن و خوبی پورا کیا، کیا رب ذوالجلال والاکرام پروردگار عالم ہو کر اپنی شان بندہ نوازی میں کوئی کمی رہنے دے گا؟نہیں، ہرگز نہیں !! اللہ تعالیٰ تو ہر ایک انسان کو اس کے احسان کا اچھابدلہ دینے والا ہے وہ تو کسی کی نیکی کو رائیگاں نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کا اجر دینے میں کبھی بخل سے کام لے گا۔*
*نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:" جو شخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتا، وہ اللہ کابھی شکرادانہیں کر سکتا"۔* (جامع ترمذی)
*نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔* (بخاری شریف)
🍂 *فساد و بگاڑ کا اصل سبب:*
*اس وقت مجموعی طور پر دنیا میں جو فساد اور اختلاف برپا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ؛جن میں ایک وجہ احسان شناسی کا فقدان ہے۔ اگر احسان شناسی طبیعت ثانیہ بن جائے تو پھر نہ خانگی زندگی میں کوئی اختلاف ہو نہ ادارہ جاتی سطح پر کوئی فساد؛ بل کہ خاوند اپنی بیوی کا احسان شناس ہو اور بیوی اپنے خاوند کی، حاکم اپنے محکوم کا منت شناس ہو اور محکوم اپنے حاکم کا۔ اس طرح امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر ہو اور کبھی ناچاقی کی نوبت ہی نہ آئے۔*
اخیر میں *سب سے زیادہ ہمیں جن لوگوں کے احسانات کی قدر کرنی چاہیے، وہ ہمارے ماں باپ ہیں، کیوں کہ ہم چاہے جس قدربھی ان کے حقوق اداکردیں، پورے طور پراس سے عہدہ برآنہیں ہوسکتے، اسی طرح ہمیں اپنے اساتذہ اورہماری پرورش و پرداخت میں حصہ لینے والوں کی بھی قدر کرنی چاہیے اور ان کے احسانات کا اعتراف کرنا چاہیے، اسی طرح شوہروبیوی کوبھی ایک دوسرے کا احسان شناس رہنا چاہیے اور اگر اتفاقاً طلاق اور باہم قطعِ تعلق کی نوبت آجائے، توبھی ایک دوسرے کا قدردان رہنا چاہیے۔ اسی طرح زندگی کے کسی بھی موڑپرکسی بھی شخص کے ذریعے ہمیں کسی قسم کی مددیاہم دردی حاصل ہوتوہمیں وہ یادرکھنا چاہیے۔*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
1 note · View note
emergingpakistan · 2 years ago
Text
آئی ایم ایف معاہدے کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز
Tumblr media
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے تاکہ ڈالر آنے کے وہ دروازے کھل سکیں جو معاہدے کے اب تک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس میں مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کی امداد بھی شامل ہے جس میں سے چین نے 1.5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس رول اوور کر دیئے ہیں لیکن پروگرام بحالی سے قبل آئی ایم ایف ان تمام ممالک سے گارنٹی پر بضد ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ آئی ایم ایف سے لی گئی رقم سے چین کے قرضوں کی ��دائیگی نہ کی جائے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں آئی ایم ایف پر کئی کالم لکھ چکا ہوں لیکن آج کے کالم میں معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات شیئر کرنا چاہوں گا۔ آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام جو 2019ء میں سائن کیا گیا تھا، ایک سال کی توسیع کے بعد جون 2023ء میں ختم ہو رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی بحالی اپریل تک متوقع ہے لہٰذا ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے ہمیں فوراً آئی ایم ایف کے 24 ویں پروگرام کی طرف جانا ہو گا لیکن افسوس آئی ایم ایف کے 23 پروگراموں کے باوجود ہم اہم شعبوں میں اصلاحات نہ لانے کے باعث معیشت میں بہتری نہ لاسکے اور نتیجتاً ملکی معیشت بگڑتی گئی۔
حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ اخراجات سے مالی خسارہ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زراعت اور مینوفیکچرنگ شعبوں کو نظر انداز کر کے سروس سیکٹر کو فروغ دیا گیا جس سے ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ حاصل کرنے کے بجائے امپورٹ پر انحصار کیا گیا جس سے ناقابل برداشت تجارتی خسارے نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح تک پہنچا دیا اور روپیہ شدید دبائو کے باعث انٹربینک میں 285 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 290 روپے پر پہنچ گیا، روپے کی قدر میں کمی سے ملکی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 5200 ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے جس کیلئے آئی ایم ایف نے منی بجٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جو ملک میں مہنگائی کا سبب ہیں، ہم آئی ایم ایف کے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے مطالبے کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور پرانے ڈپازٹس کو رول اوور کر کے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لے رہے ہیں جس سے سود کی ادائیگی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ ہم نے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے حقیقی ذرائع سے اپنے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ نہیں کیا، آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 562 ارب ڈالر جبکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے صرف 4.3 ارب ڈالر ہیں۔ 
Tumblr media
ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں SMEs نہ لگنے اور ڈالر ک�� کمی کی وجہ سے امپورٹ LC پر پابندی کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کے مطالبے پر ملکی GDP گروتھ کو کم کر کے 2 فیصد تک کر دیا گیا ہے جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی گزشتہ 50 سال میں بڑھ کر 42 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے غریب کے علاوہ متوسط طبقے کا گزارہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے موجودہ معاشی بحران میں آئی ایم ایف کے رویے کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کو پروگرام کی بحالی سے منسلک کر دیا ہے جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اعتماد میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 3 سے 4 سال میں پاکستان کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مستقبل قریب میں ملکی معیشت میں کوئی فوری بہتری کی امید نہیں۔ پیداواری اور مالی لاگت میں اضافے سے ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹس میں کمی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں بڑے فرق کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی غیر مطمئن صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں منفی رجحان واضح ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث آنے والے وقت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ مشکل ہے جبکہ آئی ایم ایف نے جون 2023 تک 10 ارب ڈالر کا ہدف دیا ہے۔ 
آئی ایم ایف پروگرام نے ملکی معاشی گروتھ کو سست کرنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے ہماری معاشی گروتھ بہت کمزور ہو گئی ہے جبکہ ہمیں نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے تیز معاشی گروتھ کی ضرورت ہے۔ ممتاز معیشت دانوں کا خیال ہے کہ معیشت کی ترقی کیلئے پاکستان کو کم از کم 6 سے 7 فیصد معاشی گروتھ حاصل کرنا ہو گی جو ان حالات اور موجودہ آئی ایم ایف شرائط میں ممکن نہیں۔ پرتعیش اشیا پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لگا کر ان اشیا کی امپورٹ کو روکنے کے عمل کو میں سراہتا ہوں لیکن ادویات، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے خام مال، پرزہ جات اور آلات کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کے ملکی معیشت اور ایکسپورٹ پر منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک اور FBR کو نہایت احتیاط کیساتھ امپورٹ پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔ اس کیساتھ ساتھ اشرافیہ کی مراعات میں کمی بھی ایک خوش آئند قدم ہے، حکومت کوغیر پیداواری اخراجات میں اضافے کو کنٹرول کرنا ہو گا اور ملکی بقا کےعزم کیساتھ اخراجات میں کمی لانا ہو گی۔ اس موقع پر میں سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاسی اختلافات بھلا کر ملکی بقا کیلئے میثاق معیشت پر متفق ہوں جو ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد ایک روڈ میپ دے سکے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years ago
Text
Tumblr media
تیری اللہ والی چُپ ...
نجانے یہ سطر کہاں پڑھی تھی پر اتنا یاد ہے کہ پڑھی ضرور تھی ، پہلا خیال آیا کہ کیا مطلب ہے اس بات کا؟
کیا ہوتی ہے اللہ والی چُپ؟
سوال پوچھا تو جواب ملا کہ ابنِ آدم و بنت ہوا پہ یہ کیفیت ضرور آکر رہتی ہے۔ اور جب تک یہ آتی نہیں، تب تک آپ اسے سمجھ نہیں سکتے .
کم عمر تھا تو بس مزید نہ پوچھا پر جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ سطر شعور و لاشعور کا ایسا جُزو بنتی گئی جس سے باوجود کوشش میں جان و سوچ نہیں چھڑا پا رہا تھا .
پھر یوں ہوا کہ یہ سطر سمجھ آنا شروع ہوگئی یا شاید میری ذات میں اُترنا شروع ہوگئی ، جس کی وجوہات ہزاروں تھیں شاید اسی لیے یہ سطر ذات کا حصہ بننے لگی ۔
لوگ سوال کرتے ، میرے پاس جواب ہوتے پر میں چُپ ..
لوگ الزام لگاتے میرے پاس وضاحت ہوتی پر میں چُپ..
لوگ بے حس بولتے میں انکے لیے اپنے دل کے جذبات دکھا سکتا تھا پر میں چُپ
لوگ دور جارہے ہوتے میں اُنہیں آواز دیکر روک سکتا تھا لیکن ... لیکن میں بس چُپ
دوست بنتے گئے، رشتے بنتے گئے پر جوں ہی یہ اللہ والی چُپ مجھ پہ حاوی ہوتی وہ دور ہوجاتے ۔ اُنہیں لگتا تھا میں تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں اسلئے خاموش ہوجاتا ہُوں .. تو بس وہ چلے جاتے !
پھر سوال کیا لوگ چھوڑ کیوں جاتے؟ کیا یہ چُپ اتنی بری؟
لوگ خدا کو بھی تو اسی چُپ کیوجہ سے چھوڑ جاتے ہیں .. عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ، ماتھے ٹیکتے ہیں اور وہ عرضیاں سامنے رکھتے ہیں جن کا اُنہیں یقین ہوتا خدا ضرور پوری کرے گا لیکن خدا چُپ ہوتا ہے ، خدا بولتا کہاں ہے؟ اُسکی بولی اُسکی چُپ ہی ہے ۔ سب دیکھتے رہنا ، سب جانتے رہنا ، سب معلوم ہونا لیکن بس چُپ رہنا۔ تو لوگ خدا کو بھی تو چھوڑ دیتے ہیں۔
بتاؤ! کیا نہیں چھوڑتے؟
تو خدا ایسا کیوں کرتا ہے؟
جواب ملا جو چُپ (خامشی) ہی نہ سمجھے وہ عاشق ہی کیسا؟ جو چُپ نہ سنے وہ ولی اللہ کیوں ہو؟ جو چُپ نہ مانیں وہ محبوب کیسے ہو؟ جو چُپ پہ سر تسلیم خم نہ کرے وہ عابد کیسا؟ وہ تابعدار کیسا؟
اللہ کی چُپ ہی سربستہ راز ، جو اُسکی چُپ پہ راضی وہ اسی پہ چُپ کی زبان کھولتا ہے وہ اُسی کو چُپ کے راز دکھلاتا ہے
پھر میں ابنِ آدم کیا کروں؟
وہی جو خدا کرتا ہے۔۔
جانے والوں کو جانے دو۔ جو قابل ہوا وہ جائے گا ہی نہیں .. وہ رہے گا ، وہ تب تک رہے گا جب تک تمہاری چُپ اُسے گفتگو نہ لگنے لگے ، جب تک تمہاری چُپ میں اُسے تمہارا دل نہ دِکھنے لگے، جب تک تمہاری چُپ میں اُسے تمہاری چیخیں ،آنسو و درد نہ دِکھنے لگے۔ اور جب ایسا کوئی ہوگا تب ہی ٹوٹے گی یہ چُپ .. یہ تیری اللہ والی چُپ ..
11 notes · View notes
onlyurdunovels · 6 years ago
Text
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
"کیٹ" جب بھی بوریت کا شکار ہوتی تو وہ اس عالیشان بنگلے کے پیچھے بنے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے نکل آتی کیونکہ اتنے بڑے بنگلے میں وہ واحد گوشہ ہی اسے پر سکون جگہ محسوس ہوتی تھی....
و��سے تو اس بنگلے میں رہنے والے سبھی افراد اس کے آپنے تھے اور وہ سب اسے جی جان سے چاہتے تھے مگر اس دنیا میں والدین سے بڑھ کے قریبی اور مخلص رشتہ کوئ اور نہیں ہوتا اس لیے اسے جب بھی آپنے مرحوم والدین کی یاد ستاتی تو وہ اس باغیچے میں نکل آتی اور اس باغیچے میں موجود تمام درخت اور پودے اسے آپنے غمگسار اور ہمدرد نظر آتے....
اتنے عرصے بعد آج پھر اسے آپنے والدین کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے پوری زندگی خوشیوں کی خواہش میں گزار دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کے خوشیاں آپنوں کے ہی وجہ سے ہوتی ہیں جب آپنے قریبی ہی آپنے پاس نا ہوں تو بڑی خوشی بھی بے معنی ہوجاتی ہے اور یہ بات اس سے بہتر کوئ بھی نی جانتاتھا....
دو دن بعد اس کی زندگی کا نیا خوشیوں بھرا باب شروع ہونے جا رہا تھا ..........مائکل جسے وہ آٹھ برس سے شدت سے چاہتی آرہی تھی وہ اس کے ساتھ ایک نئ زندگی شروع کرنے جا رہی تھی اور یہ احساس کسی بھی محبت کرنے والے انسان کے لیے بے پناہ خوشی کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ خوشی ادھوری محسوس ہورہی تھی.....
رات کے بارہ بجے تو دور سے گھنٹہ گھر میں گھنٹہ بجنے کی آواز سنائ دی.....
سردیوں کے دن تھے اس لیے کیٹ نے شدت سے لونگ بوٹ اور لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی پورا ب��گلہ پراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چند لائٹس ہی جل رہی تھیں وہ چند لائٹس اتنے بڑے بنگلے کی تاریکی دور کرنے سے قاصر تھیں اور بنگلے کے پیچھے جانب باغ کے کونے میں ایک بلب جل رہا تھا جو دس کنال کے باغیچے کے باغیچے کے حساب سے نا ہونے کے برابر تھا چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور پھر اوپر سے ہونے والی داھند نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی.....
کیٹ کو جب نیند آنے لگی تو وہ باغیچے کے درمیان میں موجود بنچ پر سے اٹھ کھڑی ہوئ اس نے واپس جانے کے بارے میں جیسے ہی سوچا....
اچانک باغیچے کے کونے میں لگے بلب کی روشنی کم ہونے لگی اور ساتھ ہی اسے آواز آنے لگی جیسے بلب اسپارکنگ کر رہا ہو....
کیٹ حیرت سے اچانک خراب ہونے والے بلب کو دیکھنے لگی جس کی روشنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو رہی تھی کیٹ آہستہ آہستہ چلتی ہوئ بلب کے پاس آکے اسے حیرت سے دیکھنے لگی لیکین اس سے پہلے کہ وہ اس کی خرابی کی وجہ جان پاتی بلب کی روشنی یکدم اتنی تیز ہو گئ کہ کیٹ کو آپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بلب دھماکے سے پھٹ گیا اور باغیچے میں یکدم گھپ اندھیرا چھا گیا.....
اففف""""" کیا مصیبت ہے اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا""""" کیٹ بڑ بڑائ اور جیکٹ کی جیب سے آپنا سیل فون نکالا اس کی ٹارچ آن کی اور واپسی کے لیے مُڑی....
وہ ابھی بمشکل چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے آپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئ تو وہ یکدم مڑی...
کون ہے........؟
اس نے بے آپنی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا... مگر اسے بکھرے ہوئے خشک پتوں کے علاوہ کچھ نظر نا آیا اس نے آپنا وہم جانا اور پھر چل پڑی مگر اس بار وہ دو قدم ہی چلی کے اسے پھر آہٹ محسوس ہوئ اور اس بار تو اس نے باقاعدہ پتوں کی آواز سنی جیسے کوئ اسکے پیچھے دیمی چال چل کر آرہا ہو وہ مُڑی اور موبائل کی ٹارچ کی مدد سے ارد گرد دیکھنے لگی.....
ک.....کک..........کون ہے.... ؟
اس بار اس کے لہجے میں لرزش تھی مگر اسکی بات کا کسی نے جواب نہ دیا وہاں تھا تو صرف پرہول سناٹا وہ مُڑی اور اس بار اس قدر تیز قدموں سے چلنے لگی کیونکہ اب خوف کا احساس اسے اب ہونے لگا تھا تیز چلنے کی وجہ سے اسکا پاؤں کسی چیز سے الجھا اور وہ بُری طرح سے گِری.... موبائل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گِرا مگر اس کی روشنی کا رُخ اس کی طرف تھا اسے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا پاؤ پکڑ لیا..... برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤں سے لپٹی ہوئ تھی..... اس کے غور کرنے پر معلوم ہوا کے برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤ کے گِرد سانپ کی طرح بل کھا کر اس کا پاؤں جکڑنے لگی تو "کیٹ" کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوف سے پھیل گئ اس نے فوراً لونگ بوٹ کا تسمہ کھولا اور آپنا پیر بوٹ سے باہر نکال لیا....
اسکا پاؤں آذاد ہو گیا اور بنگلے کی جانب بھاگ کھڑی ہوئ اسے آپنے پیچھے بے پناہ پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور ٹہنیوں کے چیخنے کی آواز سنائ دی تو اس نے بھاگتے بھاگتے مُڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اس کی جان نکل گئ کیونکہ اب تو برگد کا درخت تیزی سے اسکے پیچھے آرہا تھا یہ دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگنے لگی اور دوڑتے دوڑتے گیلری میں گھسی تو گیلری کی دیوار پر لگی پینٹنگ کی تصویریں درخت کی شاخیں لگنے کی وجہ سے گر گئیں.....
کیٹ دوڑتی ہوئ آپنے کمرے میں داخل ہوئ اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے تیزی سے دروازہ لاک کر دیا اور جلدی سے بیڈ پر چڑھ کے کمبل اوڑھ لیا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا تھا اس لیے اسے توڑنا آسان نا تھا تھوڑی دیر بعد یکدم دروازہ ہلنا بند ہو گیا.....
کیٹ کمبل ہٹا کے دروازے کو غور سے سے دیکھنے لگی اس کا انگ انگ پسینے میں ڈوبا ہوا کانپ رہا تھا شاید وہ چلا گیا................ کیٹ نے تھوک نگلتے ہوئے سوچا مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی اس کی پشت پر موجود کھڑکی جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک دھماکے سے ٹوٹ کے اندر گری تو کیٹ نے پلٹ کے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی پورا بنگلہ اس کی دل دوز چیخ سے گونج اٹھا........
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
ریلوے سٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رُکی تو ٹرین کا خودکات دروازہ کھلا اور ایک نو جوان سوٹ کیس لیے اترا اس کے اترتے ہی ٹرین کا دروازہ بند ہوا اور ٹرین ایک بار پھر چل پڑی.......
اس سٹیشن کا وہ اکلوتا مسافر تھا اسٹیشن سن سنسان تھا اور وہاں کا عملہ بھی غائب تھا شاید انہیں بھی یہاں پر کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی اس لیے وہ کہیں دبک کر سو رہے تھے ویسے بھی بھی شدید سردیوں کا موسم تھا اوپر سے رات کے 12 بج رہے تھے------ رہی سہی کسر طوفانی بارش نے پوری کردی تھی......
نو جوان سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا---- بال بکھرے ہوئے تھے----- شیو ہلکی بڑھی ہوئ تھی ----- سوٹ میں زرہ بھی شکن نہیں تھی لیکین اس نے اسے بے ترتیبی سے پہن رکھا تھا شرٹ کے اگلے دو بٹن کھلے تھے ٹائ ڈھیلی ہو کر گلے میں جھول رہی تھی چہرے کا رنگ سفید تھا مگر اس میں پیلاہٹ شبہ ہوتا تھا آنکھوں کے گِرد سیاہ ہلکے تھے اور آنکھیں ایسے سُرخ تھی جیسے وہ کافی دنو سے نا سویا ہو مجموعی طور پر وہ کافی ہینڈسم نوجوان تھا اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر کی مدد سے سگرٹ سلگائ اور سوٹ کیس اٹھا کے بارش کی پرواہ کیے بغیر چل پڑا.....
سڑک پر ہوکا عالم طاری تھا اور سڑک کے کنارے سرچ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رستہ دیکھنا کسی عام آدمی کے لیے کافی مشکل تھا لیکین وہ اس طرح کے حالات کا عادی معلوم ہوتا تھا اس لیے بے فکری سے سگریٹ پھونکتے چلا جارہا تھا......
بادلو کی چمک سے کبھی کبھی ماحول روشن ہوجاتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا وہ تیز بارش اور سردی کی شدت کو یوں ہی نظر انداز کیے چلا آرہا تھا جیسے یہ سب معنی نا رکھتی ہوں......
تین کلو میٹر یونہی پیدل چلنے کے بعد وہ ایک بڑے بیت بڑے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا """براؤن ولا""" اس نے گیٹ پر لگی تختی کو زیرلب پڑھا اور سگرٹ کا آخری کش لگا کے پھینک دیا اور گیٹ پر لگی بیل بجائ تو چند لمحوں بعد ایک گارڈ نے باہر جھانکا.....
کون ہو تم......؟ گارڈ نے سختی سے پوچھا مگر نوجوان نے کوئ جواب نا دیا کیونکہ وہ نئ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا...
میں نے پوچھا کون ہوتم......؟ گارڈ نے اور سختی سے پوچھا....
"""""جان ویک"""""" نوجوان نے بے فکری سے دھواں اڑاتے ہوا کہا... جو بھی ہو جاؤ یہاں سے ناجانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں---------- گارڈ نے کہا اور گیٹ بند کرنا چاہا مگر گیٹ بند نا ہوا تو گارڈ نے حیرت سے نوجوان کو دیکھا جس نے گیٹ کے درمیان پاؤں رکھ دیا تھا.....
اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے دوست"""""" نواجوان نے مسکرا کے کہا اس سے پہلے کے گارڈ اسے کوئ جواب دیتا اندر سے ایک خوش شکل نوجوان باہر نکلا ------- کہیں آپ جان ویک تو نہیں ہیں .......؟ نوجوان نے سوالیہ انداز میں پوچھا.... تو کیا مجھ سے پہلے بھی اس نام کا کوئ آدمی یہاں آیا تھا----- جان نے سگرٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے کہا....
اوہ سوری میں آپکو پہچان نی پایا آپ پلیز اندر آجائیں----- باہر آنے والے والے نوجوان نے شرمندگی سے کہا اور جان کو لیے ہوئے اندر داخل ہوا..... آپ نے آپنے آنے کی آگر اطلاع کر دی ہوتی تو میں خود آپ کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا آپکا کوئ فون نمبر بھی نہیں تھا ساتھ والے گرجا گھر کے فادر کے کہنے پر ہم نے شہر کے چرچ کو آپ کے نام خط لکھا ویسے حیرت ہے آپ ٹیکنالوجی کے اس دور میں میں بھی موبائل فون نہیں رکھتے-------- نوجوان نے حیرانگی سے کہا....
ہاں مجھے نفرت ہے اس چیز سے جو انسان کا سکون برباد کرے....
جاری ہے
2 notes · View notes
urduclassic · 6 years ago
Text
کراچی، موسموں کا شہر : مشتاق احمد یوسفی
میں اپنے شہر(کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔) ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دِوالوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ 
ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنے میں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بنا پر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضُور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں… سِیلن سے جِنس اور دالوں کا وزن دُگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو چوتھائی سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘ اور کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ 10 سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ 
لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہل کراچی اس قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لُو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھِٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چُولوں کے کھٹمل گِن لیجیے۔
مشتاق احمد یوسفی
4 notes · View notes
rooh-e-insan · 2 years ago
Text
Mann o Salwa || مَنّ و سَلوٰی کیا ہے || Islamic Information || Rooh-e-Insan
Mann o Salwa || مَنّ و سَلوٰی کیا ہے || Islamic Information || Rooh-e-Insan
https://youtu.be/jqaEI3yOi3A اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ Welcome To Our Channel: Rooh-e-Insan #mannosalwa #islaminformation #islam #islamic
کیا آپ جانتے ہیں کہ مَنّ و سَلوٰی کیا ہے اور یہ کھاناکس پر نازل ہوا؟ اگر نہیں تو جانئے من و سلوی کے بارے کچھ عجیب اور دلچسپ۔۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدانِ تیہ میں مقیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے کھانے کے لئے آسمان سے دو کھانے اتارے۔ ایک کا نام ''من'' اور دوسرے کا نام ''سلویٰ'' تھا۔ من بالکل سفید شہد کی طرح ایک حلوہ تھا۔ یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا شمار کراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:۔
وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی
ترجمہ :۔اور تم پر مَن اور سلویٰ اُتارا ۔(پ1،البقرۃ:57)
اس مَن و سلویٰ کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم تھا کہ روزانہ تم لوگ اس کو کھالیا کرو اور کل کے لئے ہرگز ہرگز اس کا ذخیرہ مت کرنا۔ مگر بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں کو یہ ڈر لگنے لگا اگر کسی دن من و سلویٰ نہ اترا تو ہم لوگ اس بے آب و گیاہ، چٹیل میدان میں بھوکے مرجائیں گے۔ چنانچہ اُن لوگوں نے کچھ چھپا کر کل کے لئے رکھ لیا تو نبی کی نافرمانی سے ایسی نحوست پھیل گئی کہ جو کچھ لوگوں نے کل کے لئے جمع کیا تھا وہ سب سڑ گیا اور آئندہ کے لئے اس کا اُترنا بند ہو گیا اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ یہ کھانا کبھی خراب ہوتا اور نہ گوشت سڑتا، کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اسی تاریخ سے شروع ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے نہ کھانا بگڑتا تھا نہ گوشت سڑتا تھا۔
Please Shear Our Videos: Please Apne Dosto ke Sath Videos ko Share Karan. Takhe har Muslim Our Non-Muslim Insan ko Fida ho. Hum Nay Is Channel (Rooh-e-Insan) ko is leya Banaya hy kay Har insan Duniya mein aur Akhirat mein Kamyab Ho saky.
براہ کرم اپنے دوست کے ساتھ ویڈیوز شیئر کریں. (مسلم) - (غیر مسلم) انسانو ں کو فدا ہو۔
More Videos Click Here: Duniya Mein Sab Se Ziyada Kon Roya || Islamic Information || Rooh-e-Insan https://youtu.be/QJpo6skFFu8
YouTube Channel (Rooh-e-Insan) Pages: https://www.youtube.com/channel/UCJO4xazPWaZwqcP5IkaRFXQ/ Facebook: https://www.facebook.com/Rooh-e-Insan... Twitter: https://twitter.com/RooheInsan1 Tumblr: https://www.tumblr.com/blog/view/rooh... Reddit: https://www.reddit.com/user/Rooh-e-Insan Linkedin: https://www.linkedin.com/in/rooh-e-insan-6b8872210/
Don't Forget to bell icon and SUBSCRIBE our Channel Rooh-e-Insan (:🎞❤❤❤ Thank You.
Editor by Muhammad Madni Khoja
0 notes
pakistanpolitics · 2 years ago
Text
کسی مجبور وزیرِ اعظم نے کبھی استعفیٰ دیا ؟
پچھتر برس سے سنتے سنتے کان جھڑ گئے کہ پاکستان میں اب تک کوئی بھی وزیرِاعظم اپنی آئینی مدتِ اقتدار پوری نہیں کر پایا۔ ہر وزیرِاعظم انتحابی یا نامزدگیانہ رسم سے گزر کے جب پہلے دن کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس سے زیادہ اہل، جانفشاں، زیرک، ذہین اور ملک کو بیک بینی و دو گوش مسائل کی دلدل سے نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جب اسے کسی بھی آئینی یا بالائے آئین حربے سے چلتا کیا جاتا ہے تو اس سے زیادہ نااہل، کرپٹ اور معیشت و نظام کی لٹیا ڈبونے والا کوئی اور نہیں ہوتا۔ ریاست کا وہی پبلسٹی اور مارکیٹنگ ونگ جو ہر نئے وزیراعظم کو ارسطوِ سے بھی سوا درجے اوپر کا ثابت کرتا ہے۔ تین سے چار برس بعد اسی ارسطوِ کی قانونی و غیر قانونی معزولی کے سمے اسے شیطان کا خالو قرار دینے میں لمحے بھر کی دیر نہیں لگاتا۔ اکیسویں صدی کی سائنس بھی اس سوال کے جواب میں بغلیں جھانک رہی ہے کہ ’آئن سٹائن کے لیول کا دماغ‘ صرف تین سے چار برس وزیرِ اعظم کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے کیسے چغد قرار پا جاتا ہے؟ اس کا بظاہر مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ یا تو اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے جھوٹ بولا گیا یا پھر ہٹاتے ہوئے سچ نہیں بتایا گیا۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دونوں بار سچ ہی بولا گیا تو ایسا کیوں ہے کہ جسے پہلی بار کرپٹ، نااہل اور کامن سینس سے عاری قرار دے کر معزول کیا گیا اسے چند برس کے وقفے کے بعد دوبارہ اسی کرسی پر بٹھا دیا گیا اور پھر نااہل و سازشی وغیرہ وغیرہ قرار دے کر ہٹا دیا گیا اور پھر ایمان دار فرض کر کے تیسری بار اقتدار تھما دیا گیا اور پھر چھین لیا گیا اور پھر بلاواس��ہ انداز میں سونپ دیا گیا۔ ہر وزیرِ اعظم ناطاقتی و بے اختیاری کا اتیاچار مسلسل سہنے کے باوجود آخری گھنٹے تک آخر کس امید پر اپنی لولی کرسی کے ہتھے پکڑے رہتا ہے؟ نااہل سے اہل پھر نااہل پھر اہل پھر۔۔۔ یہ تو گنیز بُک میں درج ورلڈ ریکارڈز سے بھی اوپر کا معجزہ ہو گیا۔ اتنی بار تو غریب حسرت موہانی کو بھی جنوں کا نام خرد اور خرد کا نام جنوں رکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ اقتدار دینے اور لینے والا کوئی اور ہے اور عام انتخابات کی مشق اور عوامی طاقت کا احترام تیسرے درجے کے ڈرامے میں ڈالے گئے بے جان مناظر کے سوا عملاً کچھ نہیں۔
ہم یہ مرثیہ تو سنتے ہیں کہ مجھے کرسی پر بٹھایا تو گیا مگر میرے ہاتھ پاؤں بندھے تھے اور جب میں نے انھیں ڈھیلا کرنے کی کوشش کی تو مجھے ڈنڈا ڈولی کر دیا گیا مگر یہ بات تب ہی کیوں پتا چلتی ہے جب اٹھا کے باہر کر دیا جائے۔ ہر وزیراعظم ناطاقتی و بے اختیاری کا اتیاچار مسلسل سہنے کے باوجود آخری گھنٹے تک آخر کس امید پر اپنی لولی کرسی کے ہتھے پکڑے رہتا ہے؟ اسے کیوں یقین ہوتا ہے کہ جو پچھلوں کے ساتھ ہوا وہ اس کے ساتھ نہیں ہو گا۔ حتیٰ کہ کرسی سمیت محل کے باہر فٹ پاتھ پر نہ رکھ دیا جائے۔ یا تو وہ اس ادھاری عرصے میں اپنی تصوراتی بااختیار جنت میں مست رہتا ہے۔ عین ممکن ہے دماغ مسلسل کچکوکے لگاتا رہتا ہو کہ عہدے کا چپکا ہوا ٹیگ بھی اتار پھینک مگر دل کمینہ احتجاجاً استعفیٰ دے کر باہر نکلنے سے روکے رکھتا ہے۔ یا پھر اس کرسی گیر کو لگتا ہو گا کہ اگر جراتِ رندانہ سے کام لینے کا خطرہ مول لے لیا تو آگے کا ایک فیصد چانس بھی کہیں مارا نہ جائے۔
اسی لیے ہم نے آج تک سابق وزرائے اعظم کا رونا گانا تو خوب سنا مگر پچھلی ساڑھے سات دہائیوں میں ایک بھی مثال ایسی نہیں کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی لاچار کرسی کو لات مارتے ہوئے نعرہِ مستانہ بلند کیا ہو کہ جہنم میں جائے تمھاری خیراتی سرپرستی۔ میں اب تب ہی لوٹوں گا جب عوام اپنے کندھے پر بٹھا کے خود اس محل کی چوکھٹ پر اتاریں گے۔ اب تو مجھے اکثر لگنے لگا ہے کہ کسی بھی سیاستدان کو عوام اور جمہوری طاقت پر اتنا بھی یقین نہیں رہا جتنا عہدِ حاضر کے مولوی کو خدا پر ہے۔ عوامی طاقت آج محض تاش کا وہ اکا ہے جسے دکھا کے پاور کیسینو میں اپنی سودے باز حیثیت جتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ کسی کو بھی اب کسی کا دیوانہ بننے یا زیادہ سنجیدہ لینے یا منھ سے جھاگ نکالنے یا ایک ٹانگ پر ناچنے کی ضرورت نہیں۔ یہ پالٹیکس نہیں پالیٹینمنٹ ہے۔ بس مفت کا سرکس دیکھیے اور ’انجوائز ‘ لیجیے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 
Tumblr media
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 5 years ago
Text
پیدائش سے پہلے مرنے والا خوش نصیب بچہ : وسعت اللہ خان
میں خیرمقدم کرتا ہوں ان سورما جہادیوں کا جنھوں نے کابل کے ایک زچہ بچہ ہسپتال میں کافر نوزائیدہ بچوں، ان کی دس دین دشمن ماؤں، اغیار کی ایجنٹ چند نرسوں اور ایک مشرک سیکورٹی گارڈ سمیت چوبیس ناپاک روحوں کو قتل اور سولہ کو زخمی کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے ہسپتال میں جس کا انتظام و انصرام یہود و نصاری کی پروردہ تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس این) کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے ازحد خوشی ہے کہ اس قتلِ عام میں اس بچے کو بھی دو گولیاں لگیں جو ابھی اپنی ماں (حاجرہ سروری) کے پیٹ میں تھا اور اسی شام اس دنیا میں آنے کے لئے بے تاب تھا۔ مگر وہ ماں کی کوکھ میں پڑے پڑے ہی منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔ دراصل حاجرہ کے بیٹے کو نہ جنموا کر اوپر والے نے اس دنیا کا پردہ رکھ لیا۔
کاش حلب کا وہ تین سالہ بچہ بھی حاجرہ کے بے نام بچے کی طرح ماں کی کوکھ میں ہی مر جاتا جسے یہی نہیں پتا چلا کہ اسے کیوں اور کس کے بم کے ٹکڑے لگے اور اب اتنی جلد واپس اوپر کیوں جا رہا ہے۔ مگر جاتے جاتے بھی کیا یادگار تھپڑ مار گیا۔ ’میں خدا سے ایک ایک کی شکایت کروں گا۔ میں اسے سب بتاؤں گا۔‘ بچے تو نا سمجھی میں جانے کیا کیا بول جاتے ہیں البتہ شکر ہے خدا نے عشروں پر پھیلے ممکنہ عذابِ ارض سے اس بچے کو تین برس میں ہی مکتی دلوا دی۔ وہ بچہ اب جنت میں ہے کہ کہیں اور؟ مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ وہ زمین پر نہیں زمین میں ہے۔ اور جب میں ایک اور تین سالہ بچے ایلان الکردی کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جس کی اوندھے منہ لاش ترک ساحل پر پڑی ملی تھی تو مجھے ایلان کی قسمت پر بھی رشک آتا ہے۔
خدا کا کرم کہ ایلان بھی ذہنی بلوغت کے عذاب میں قدم رکھنے سے بہت پہلے جانے کس کس ممکنہ ذلت سے نجات پا گیا۔ مجھے اور اچھا لگنے لگتا ہے حاملہ افغان ماں حاجرہ سروری کے پیٹ میں لگنے والی دو گولیوں سے مرنے والا بچہ۔ جب میں سنتا اور دیکھتا ہوں کہ کابل سے ہزار کلومیٹر پرے ایک اور عورت اپنے جیسے سینکڑوں دیگر کے ہمراہ لاک ڈاؤن زدہ انڈین پنجاب سے جھانسی کی جانب چھ سو کلومیٹر کے سفر پر پیدل چلی جا رہی ہے۔ وہ ایک سوٹ کیس کھینچ رہی ہے۔ اسی سوٹ کیس سے اس کا تین چار سال کا بچہ بھی سوتے سوتے آدھا لٹک رہا ہے۔ اور جب ایک پترکار اس عورت سے کہتا ہے کہ سرکاری بسیں چل پڑی ہیں تم اس میں بیٹھ کر چلی جاؤ تو یہ عورت اس پترکار کو ایسی نظروں سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہے جیسی نظروں سے حکومت عام آدمی کو مسلسل دیکھتی ہے۔
حاجرہ سروری کے پیٹ سے برآمد ہوئے بغیر موت کا ذائقہ چکھنے والے بچے کا مقدر اس بچے کی قسمت سے بھی زیادہ اچھا ہے جو بلوچستان یا سندھ کے کسی گوٹھ یا دور دراز قبائلی علاقے میں روزانہ اپنی ماں کا پلو کھینچتے ہوئے پوچھتا ہے کہ بابا کب آئیں گے۔ تم نے جھوٹ کیوں بولا کہ وہ اسی ہفتے آ جائیں گے۔ تم ہر ہفتے جھوٹ کیوں بولتی ہو ماں۔ یہ سب کے سب وہ بچے ہیں جنھوں نے ریاست، حکومت، سماج، فرد اور مقدر سمیت ایک ایک کے کپڑے اتار کر یہ کپڑے ان کے کندھے پر رکھ دیے اور ایسی زندگی کے منہ پر تھوکتے ہوئے وہیں لوٹ گئے جہاں سے اترے تھے۔ ’ہر نوزائیدہ بچہ ثبوت ہے کہ خدا ابھی دنیا سے مایوس نہیں ہوا۔‘ اے خدا اس شخص کا بھی تو کچھ کر جس نے یہ مقولہ تجھ سے منسوب کرنے کی جسارت کی۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note · View note
pakistan-news · 3 years ago
Text
تحریک عدم اعتماد یہ کبھی کامیاب نہیں ہو گی
اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سرگرم ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد محض بیانات کی حد تک ہی محدود رہے گی لیکن اگر یہ تحریک پیش بھی ہوئی تو کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاں اگر ناکام ہوئی تو وہ حکومت کی اپنی ناقص کارکردگی ہے، وزراء کے بے لگام تبصرے ہیں، ناکام خارجہ پالیسی ہے، ناکام داخلہ پالیسیاں ہیں، وزارت خزانہ کی ناکام پالیسیاں ہیں، اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو اُس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ اگلی حکومت کس کو ملنی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں روزانہ کی بنیاد پر ناصرف سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں بلکہ آپس کی پرانی ’’رنجشیں‘‘ بھی دور کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقاتیں، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی میاں شہباز شریف سے ملاقات، شہباز شریف کا چوہدری برادران کے گھر جانا۔ 
پھر مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کا ایک نکتے پر اتفاق کر جانا، یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ہو رہا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اسے کب کب استعمال کیا گیا۔ ’’تحریک عدم اعتماد ‘‘یا ’’عدم اعتماد بل‘‘ اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کے خلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم، وفاقی وزیر، وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ، صوبائی وزیر، وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔
آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا، پیسے میں کس قدر طاقت ہے۔ اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ جب مطلوبہ تعداد پوری ہو گئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اس کے بعد قرارداد جمع کرا دی گئی، لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بولیاں لگنے لگیں، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ناکام ہو گئی، اور محترمہ بال بال بچ گئیں۔
دوسری تحریک عدم اعتماد قومی نہیں بلکہ صوبائی تھی، یہ تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تھی۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا، اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔ میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت میسر تھی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ اب تیسری مرتبہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اُس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان جب کہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ سینیٹ چیئرمین، اپوزیشن لیڈر کے انتخاب سے لے کر پچھلے دنوں ہوئے قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل پاس کرانے تک اپوزیشن کا ریکارڈ اچھا ہوتا تو شاید اس حوالے سے بھی کامیابی کی نوید سنا سکتے تھے مگر بقول شاعر
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے
تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کو بدلنے کا آئینی طریقہ ہے، اس میں کوئی عیب کی بات نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا اپوزیشن ایسا کر پائے گی۔ بہرکیف میرے خیال میں یہ تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہو گی اور نہ ہی حکومت وقت سے پہلے گھر جائے گی، کیوں کہ جولائی میں تو ویسے بھی حکومت کو اقتدار میں آئے 4 سال ہو جائیں گے اور آخری سال ہمیشہ الیکشن کا سال ہوا کرتا ہے، اس لیے یہ سب الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ ویسے ہمیں اس وقت خطے کی مخصوص صورت حال، بیرونی تعلقات سے حاصل مواقعے اور خطرات پر توجہ دینی چاہیے، ہمیں مہنگائی، تھانہ کچہری کلچر اور کرپشن، پن بجلی منصوبوں کی بحالی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سرگرمیوں، کنسٹرکشن سیکٹر کی سرگرمیوں، ہینڈ میک مینجمنٹ ، ہیلتھ کارڈ کی کامیابی اور دیگر سیکڑوں قسم کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام اس حوالے سے کبھی شش و پنج میں مبتلا نہ ہوں کہ اُن کا اس ملک میں والی وارث کوئی نہیں ہے۔
علی احمد ڈھلوں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
مشی گن میں 5 سالہ لڑکا چہرے پر گولیوں کے نشان سے مردہ پایا گیا، ماں اور بوائے فرینڈ کو بھی قتل کیا گیا: پولیس #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%85%d8%b4%db%8c-%da%af%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-5-%d8%b3%d8%a7%d9%84%db%81-%d9%84%da%91%da%a9%d8%a7-%da%86%db%81%d8%b1%db%92-%d9%be%d8%b1-%da%af%d9%88%d9%84%db%8c%d9%88%da%ba-%da%a9%db%92-%d9%86/
مشی گن میں 5 سالہ لڑکا چہرے پر گولیوں کے نشان سے مردہ پایا گیا، ماں اور بوائے فرینڈ کو بھی قتل کیا گیا: پولیس
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
ایک 5 سالہ مشی گن ہفتے کے آخر میں مردہ پائے جانے والے لڑکے کے چہرے پر گولیوں کے سوراخ تھے اور اسے اس کے ساتھ ہی پھانسی کے انداز میں مارا گیا تھا۔ ماں اور اس کا بوائے فرینڈ، حکام نے بتایا۔
اس لڑکے کا نام کالیب تھا۔ قتل اس کے اپنے گھر میں اور اس کی ماں، لاشون مارشل، اور اس کا بوائے فرینڈ، آرون بینسن، بھی اتوار کو گھر میں مردہ پائے گئے، ڈیٹرائٹ پولیس کہا، فاکس 29 نے رپورٹ کیا۔ پولیس نے کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قتل اتوار سے پہلے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، کچھ دیر تک ان کی بات نہ سننے کے بعد خاندان کا ایک رکن پریشان ہوا اور گھر کا دورہ کیا، جہاں انہیں دو بالغ لاشیں ملیں اور ہنگامی خدمات کو مطلع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ قانون ن��فذ کرنے والے افسران اس کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے اور لڑکے کو دوسرے کمرے میں پایا۔
چھوٹے بچے، 2 بالغوں کو ڈیٹرائٹ ہوم کے اندر گولی لگنے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا
“اس میں کوئی کیا ذہنیت رکھ سکتا ہے۔ گولی مار جان بوجھ کر چہرے پر ایک بچہ؟” سابق ریاستی نمائندے شیری گی-ڈگنوگو سے پوچھا، خاندان کے ایک رشتہ دار، فاکس 29 نے رپورٹ کیا۔ “آپ کو بے دل ہونا پڑے گا۔ یہاں تک کہ اسکور میں ایک چیز ہے یا کسی بالغ کے ساتھ مسئلہ ہے لیکن بچے؟ ایک بچہ حد سے باہر ہے۔”
Tumblr media
ڈیٹرائٹ پولیس ٹرپل ہلاکت خیز فائرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ دو بالغ اور ایک بچہ. (WJBK)
کالیب کی پھوپھی شیلسا فلائیڈ نے بھی اسی طرح کہا کہ جب انہیں موت کا علم ہوا تو اسے “انتہائی تباہ کن خبر” ملی، فاکس 29 اطلاع دی.
فلائیڈ نے مزید کہا: “وہ بڑا ہو کر کچھ بھی بن سکتا تھا جو وہ چاہتا تھا۔ وہ ہمارا مستقبل ہے، وہ ہمارا مستقبل ہے۔ تم میرے پوتے کو مجھ سے کیوں چھین لو گے؟ میں ابھی کھو گیا ہوں، میں تباہ ہو گیا ہوں۔”
مشی گن کے ڈرائیور نے جان بوجھ کر مارا، ریٹائر کو ہلاک کر دیا تاکہ وہ اس کے جسم کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکے، حکام کا کہنا ہے کہ
ڈیٹرائٹ پولیس تینوں قتل کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ابھی تک کسی مشتبہ شخص کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
Tumblr media
ڈیٹرائٹ پولیس چیف جیمز وائٹ نے کہا کہ شہر نے 2021 میں قتل عام میں معمولی کمی دیکھی، تشدد کے جرائم میں اضافے کے درمیان بہت سے خطوں میں ایسا اعداد و شمار نہیں دیکھا گیا۔ (ڈیٹرائٹ پولیس ڈیپارٹمنٹ)
ڈیٹرائٹ پولیس چیف جیمز وائٹ نے اتوار کی شام کہا، “ہمارے پاس موجود ہر وسائل اس شخص کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے کے لیے وقف کیا جائے گا جس نے اس بچے اور اس گھر کے لوگوں کو قتل کیا ہے۔”
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے جرم کے بارے میں معلومات رکھنے والے کسی سے بھی آگے آنے کو کہتے ہیں۔
Source link
0 notes