#اردو کہاوت
Explore tagged Tumblr posts
Text
نالی کے َڈنڑ پیلنا
نالی پر ڈنڑوں کی کسرت کرنا ؛ بازاری عورت سے مجامعت کرنا ، رنڈی بازی کرنا
#نالی کے َڈنڑ پیلنا#نالی#بازاری عورت#رنڈی بازی#مجامعت#ڈنڑوں#urdu#اردو#saying#urdu saying#اردو کہاوت#کہاوت
0 notes
Text
ٹرمپ شہزادہ آگیا عمران کو باہر لائے گا وزیر اعظم بنائے گا
اردو کی مشہور کہاوت ہے “بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ” مجھے اس کہاوت کا اصل مقصد اس سے پہلے کبھی ایسے سمجھ نا آیا جیسے آج آرہا ہے ، امریکی الیکشن پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں نے جس طرح دھمال ڈالی ہے، اُس سے اس کہاوت کا مفہوم صحیع معنوں میں سمجھ آیا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ اوہ یہ تو کھلا دھوکہ ہے، پاکستان میں امریکی ویزوں کے منتظر افراد میں عمران خان بھی ��امل ہیں اور اسی لیے الیکشن امریکہ میں…
0 notes
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں ��یندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
#Anwar Ul Haq Kakar#Pakistan#Pakistan Elections#Pakistan Elections 2024#Pakistan Politics#Politics#World
0 notes
Text
🌹🌹 🆆🅸🆂🅳🅾🅼
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL LIVING**🔹
2️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *WISDOM :*
*The companion of the Prophet ﷺ , Umar ibn alKhattab r.a., said, “Kill falsehood by remaining silent about it.”*
(Hilyatul Awliya, Vol. 1, p. 55)
This statement shows the power of silence.
There is a well-known saying that it takes two hands to clap.
If you retaliate falsehood with falsehood, it will gain more support.
On the contrary, if you adopt the method of silence, the falsehood will vanish on its own.
*If you refrain from retaliation, the forces of nature will mobilize in your support. They will accomplish your job better than you.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *حکمت :*
*صحابی رسول ﷺ، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں، " غلط بات کو اس پر خاموش (صابر) رہ کر مار ڈالو۔"*
(ہلیۃ الاولیاء، جلد 1، صفحہ 55)
*اس بیان سے خاموشی کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔*
ایک مشہور کہاوت ہے کہ تالی بجانے کے لیے ہمیشہ دو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہم غلط بات کا جواب غلط بات سے دیں گے تو ، بات ( مسئلہ ) اور بھی بڑھتی ہی چلے جائے گی.
اس کے برعکس، اگر ہم خاموشی کا ط��یقہ اختیار کرتے ہیں ��و ، غلط بات (مسئلہ) اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی۔
*اگر ہم انتقامی کارروائیوں سے باز رہتے ہیں ، تب فطرت کی قوتیں ہماری حمایت میں متحرک ہوجاتی ہیں۔ اور وہ ہمارا کام ہم سے بہتر طریقے سے انجام دیتی ہیں۔*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
کہاوت
جو برداشت نہیں کرتا اسے سب سے زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
0 notes
Text
شاعر مزدور، احسان دانش
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے۔ دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ ویسے بھی دانش صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہ تھا، جس کا ہمیں عرصہ دراز سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا، وہ ان بڑے لوگوں میں سے تھے جو منہ میں سونے کا چمچہ لیے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ جنھوں نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا۔ حسب وعدہ صبح وقت مقررہ پر ٹھیک دس بجے احسان دانش نے ہمارے کمرے میں قدم رکھا تو ہمارے احساسات اور جذبات بیان سے باہر تھے۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے رکھ لے کیوں کہ ایسے مواقعے زندگی میں بار بار میسر نہیں آتے۔
وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔ ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان کے بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے، جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور انک مین کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔ وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور مددگاربھی خدمات انجام دیں اور زندگی کے آخری حصے میں کتب فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کج کلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم آخر گریز کیا۔
ان کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا، مگر علمی دنیا میں ان کی شہرت احسان دانش کے نام سے ہوئی۔ وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو خاندان کی گزر بسر کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا آبائی وطن باغت، ضلع میرٹھ تھا لیکن جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھی۔ گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا تو احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ حسن اتفاق سے ہماری جائے پیدائش بھی ضلع مظفر نگر کا ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام بگھرہ ہے۔ کاندھلہ اور تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسے علمائے کرام کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ احسان دانش کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں ان کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن نانا کی وفات کے بعد ان کے والد انھیں اپنے ساتھ لے کر کاندھلہ میں آکر مقیم ہو گئے۔ احسان دانش کو پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا لیکن خاندانی غ��بت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔
اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں بھی انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مطالعے کا شوق اور شاعری کا چسکا انھیں بچپن ہی سے تھا جس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، اس زمانے میں بعض شاعر اپنا کلام پمفلٹ کی صورت میں خود ہی چھپوا کر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر پڑھتے ہوئے فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت بوم میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام کرنے والے ایک راج مستری کے مددگار کی جاب مل گئی تو انھوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا اسے وہ لائبریری میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
آخرکار وہ دن بھی آیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے پیپرز کے ممتحن بنے اور جب وہ چیف ایگزامنر کی حیثیت سے اپنے معاوضے کا چیک لینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو ان کے پرانے ساتھی مزدور انھیں پہچان گئے اور ان کی اس عظیم الشان کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ احسان دانش نے ثابت کر دیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ’’خوش نصیبی انسان کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک ضرور دیتی ہے۔‘‘ احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔ اس ملازمت نے انھیں آرام سے پڑھنے لکھنے کی فراغت مہیا کر دی جس کے نتیجے میں ان کی شاعری ادبی وسائل و جرائد میں شایع ہو کر عوام و خواص میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور پھر وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے جس نے ان کی شہرت میں روز بہ روز اضافہ کر دیا۔
ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ملاقات گورنر ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہو گئی جس نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انھیں گورنر ہاؤس میں مالی کی ملازمت دلوائی جہاں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد احسان دانش نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور محکمہ ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا اور ایک بک اسٹال پر کام کرنے لگے۔ روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کر دیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک موڑ تھا جس کے نتیجے میں وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر ہو کر مارکسزم کا رخ بھی اختیار کر سکتے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر لگی ہوئی مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم وہ مزدور اور اس کی عظمت کے ترانے لکھتے رہے، گا��ے رہے اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نام نہاد شاعر مزدور نہیں بلکہ حقیقی شاعر مزدور کہلانے کے مستحق ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مزدوری پر ہی محیط ہے۔
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور اسکالر بھی تھے، جنھوں نے اردو لسانیات اور لغات کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو ’’حضرِ عروض‘‘، تذکیر و تانیث، لغت الاصلاح، اردو مترادفات اور دستور اردو جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔ انھوں نے بے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کی خودنوشت ’’جہان دانش‘‘ بھی ان کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہیں جن کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے، ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں نشان امتیازاور ستارہ امتیاز کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔
شکیل فاروقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
معدہ، دماغ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ خالی ہو تو کم از کم بتا تو دیتا ہے.
افریقی کہاوت
#اردو
2 notes
·
View notes
Photo
قراۃ العین حیدر
آج اردو ادب کی مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار قراۃ العین حیدر کی برسی ہے ۔ August 21, 2007 اردو ادب کی تاریخ میں قرۃ العین حیدر جیسے خوش نصیب لوگ کم ہی ہوں گے۔ جنھوں نے لازوال شہرت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور زندگی نہایت فراغت سے گزاری۔ ان کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھیں۔ تو بالکل بھی غلط نہ ہو گا۔ بات صرف دولت و شہرت تک محدود نہیں۔ بلکہ ننھیال، ددھیال دونوں علمی و ادبی، خانوادے ۔۔۔۔ جس پر انھیں بجا طور پر فخر بھی تھا اور جس کا اظہار انھوں نے اپنے سوانحی ناول ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ میں جگہ جگہ کیا ہے۔ بعض ناقدین ادب نے اسے ’’فیملی ساگا‘‘ کا نام دیا ہے۔ لیکن اس سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی ’’کار جہاں درا ز ہے‘‘ کے تین حصے ہیں۔ قرۃ العین حیدر 20جنوری 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں اور 21 اگست 2007 کو دلی میں وفات پائی۔ بے شمار انعامات حاصل کیے۔ چار افسانوی مجموعے، پانچ ناولٹ، آٹھ ناول، گیارہ رپورتاژ کے علاوہ بے شمار کتابیں مرتب کیں۔ تقریباً گیارہ مختلف زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ چار کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ساتھ ہی بچوں کے لیے بھی کئی کہانیوں کی کتابیں لکھیں ۔۔۔۔ ان کی زندگی دیکھئے تو صرف اور صرف ’’کام‘‘ ہی نظر آتا ہے۔۔۔۔ پتہ نہیں اتنی خوبصورت نثر لکھنے والی کا مزاج کیوں برہم رہتا ہے۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ لوگ ملنے سے کتراتے تھے، بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔۔۔۔۔ اس کی وجہ میری جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ایک تو انھیں منافقت نہیں آتی تھی دوسرے انھوں نے ایک بھرپور اور توانا تہذیب کو دم توڑتے، بکھرتے دیکھا، صدیوں کے رشتوں کو پامال ہوتے دیکھا۔ ان ہمسایوں کو چھریوں سے ایک دوسرے کو گھائل کرتے دیکھا، جنھوں نے دیوالی پہ چراغ ساتھ جلائے تھے۔ جنھوں نے عید پہ سویاں ایک ہی پلیٹ میں کھائی تھیں، جن کے بچوں نے پتنگیں ساتھ اڑائی تھیں۔ جن کی عورتوں نے سہاگ کی مہندیاں ساتھ ساتھ لگائی تھیں اور دوپٹہ بدل بہنیں بنی تھیں۔ جن کی کنواری لڑکیوں بالیوں نے ساون میں جھولے ساتھ جھولے تھے۔۔۔۔ پھر جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان آئیں۔ تو یہاں ’’اسلام پسندوں‘‘ کا حقیقی چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئیں، جو ایک آزاد ملک میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اپنے ان ہم مذہبوں کو دیکھ کر رنجیدہ ہو رہ�� تھیں۔ جنھوں نے بڑی قربانیوں سے دو قومی نظریے کی بنا پر یہ ملک حاصل کیا تھا لیکن اب آپس ہی میں زبانوں، مسلکوں اور علاقائی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ تب انھوں نے سوچا کہ آخر جب آپس ہی میں لڑنا مرنا تھا تو اس کے لیے ملک تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام تو وہاں بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہاں لڑائی ہندوؤں اور سکھوں سے تھی، مسلمان آپس میں متحد تھے۔۔۔۔ شاید مسلمانوں کو آپس ہی میں لڑنے مرنے کے لیے ایک علیحدہ ملک کی زیادہ ضرورت تھی۔ جہاں وہ آرام سے ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ سکیں، ایک دوسرے کو اپاہج کر سکیں، اور اپنی عبادت گاہوں اور مزارات کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ ’’آگ کا دریا‘‘ جیسا معرکتہ الآرا ناول لکھنے کے بعد بیوروکریسی کا منفی رویہ اور کچھ اپنے ہی نام نہاد دوستوں کی منافقت نے ان کا دل توڑ دیا۔ چونکہ وہ بہت حساس تھیں، ہر فنکار کی طرح۔ اس لیے یہ سب سہہ نہ سکیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کے تاریخی خطبے کو یاد کرتی ہوئی، آنسوؤں سے جھلملاتی آنکھوں کے ساتھ یہاں سے چلی گئیں۔ اور شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ کے امر ہو گئیں۔ شاید پاکستان میں انھیں وہ مقام نہ ملتا جو بھارت میں ملا۔ دراصل وہ ایک ایسا سورج تھیں جس کی آب و تاب کے سامنے تمام ستارے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ستارے بھلا سورج کی تابناکی کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ قرۃ العین حیدر پاکستان میں پی آئی اے سے بھی وابستہ رہیں بلکہ خواتین فضائی میزبانوں کی روایت انھوں ہی نے ڈالی۔ اس وقت ایئرہوسٹس کے طور پر لڑکیوں کو ملازمت کے لیے آمادہ کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن انھوں نے یہ بیڑہ اٹھایا اور ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ استعمال کر کے لڑکیوں کو اس طرف لے آئیں۔ جس دن فلائٹ جانی تھی اس سے ایک دن پہلے بڑے جوش و خروش سے ریہرسل کروائی۔ اس حوالے سے وہ بہت پر جوش اور خوش تھیں۔ لیکن صرف ایک دن پہلے بڑے صوبے کے ایک بیوروکریٹ کی سفارش علاقائی بنیادوں اور تعلقات کی بنا پر ایک ایسے صاحب کے لیے آ گئی، جن کا اس سارے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انھیں حکومت نے قرۃ العین حیدر کی جگہ جانے کے لیے منتخب کر لیا۔ وہ اس حق تلفی سے اس قدر دل برداشتہ اور دل شکستہ ہوئیں کہ فوراً ہی پی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ’’دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں‘‘ والی کہاوت صادق آ رہی تھی۔ پوری تفصیل ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ میں درج ہے ۔ قرۃ العین حیدر کے ناول ہوں، ناولٹ ہوں یا افسانے پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں البتہ ان کے رپورتاژ مجھے زیادہ متاثر نہیں کر سکے۔ اسی طرح ’’چاندنی بیگم‘‘ بھی بہت سے تضادات کا شکار ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی کتاب ’’قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں کیا ہے لیکن جہاں تک گردش رنگ چمن ، آگ کا دریا، آخر شب کے ہم سفر اور ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘ کی بات ہے۔ تو میں کہوں گی یہ تینوں ناول ایک ایسا انسانی اور تاریخی المیہ ہیں جسے فراموش کرنا ممکن نہیں حالانکہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے جواب میں ’’سنگم‘‘ اور ’’اداس نسلیں‘‘ لکھے گئے لیکن پڑھنے والے فرق جانتے ہیں۔ ’’آخرشب کے ہم سفر‘‘ میں سابقہ مشرقی پاکستان سانس لیتا نظر آتا ہے۔ انسانوں کی زندگی کا تضاد کس طرح ان کی شخصیت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ریحان الدین احمد جو کہ نام نہاد سوشلسٹ ہیں۔ کس طرح دولت ملنے کے بعد ان کی خود غرض اور کمینی فطرت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح نواب قمر الزمان جو ریحان کے ماموں تھے۔ ان کی عالیشان ارجمند منزل میں پادری بینرجی اور الشہر بینرجی جیسے غریب اور بے وقعت میاں بیوی کی بیٹی روزی پناہ لیتی ہے۔ اور پھر ایک دن ایک بڑے آدمی سے شادی کر کے رادھیکا سانیال بن جاتی ہے۔ اپنے ماں باپ اپنے طبقے سے دغا کرتی ہے۔ دیپال سرکار جو کمیونسٹ ہے وہ بھی اپنے طبقے اور آئیڈیاز سے بغاوت کر کے اعلیٰ طبقے میں شامل ہو جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے بڑی چابک دستی اور فنکاری سے نام نہاد سوشلسٹوں کا چہرہ دکھایا ہے۔ خاص طور سے روزی اور ریحان۔ اس طرح کے کردار ہم سب نے بھٹو دور میں بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ جب بہت سے ’’جیالوں‘‘ نے جیل کاٹی۔ پھر اسی وفاداری کا خراج وصول کر کے پاکستان سے باہر چلے گئے۔ جہاں وہ مکمل طور پر ’’عیش‘‘ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب سال میں ایک بار پاکستان آتے ہیں۔ اور اپنی کتاب کی رونمائی نہایت تزک و احتشام سے کرتے ہیں۔ تو ان کے توانا چہروں، قیمتی لباس، انگوٹھیوں اور بیش قیمت چشموں کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو وہی ہیں جو تھڑوں پہ سوتے تھے۔ فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ پھر ایک شارٹ کٹ دریافت ہوا’’۔۔۔۔۔ سوشلزم۔۔۔۔‘‘ اور اس ’’پارس پتھر‘‘ کو انھوں نے چوم کر جیب میں رکھ لیا اور بوقت ضرورت خوب استعمال کیا۔ اپنے پرانے ساتھیوں سے وہ اب اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ کسی راجواڑے سے آئے ہوں۔ ان کی بیٹیاں دو دو ہزار کی لپ اسٹک لگاتی، جینز پہنتی نظر آتی ہیں۔ اور یہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اصل منزل تو ان کی یہی تھی۔ دراصل دولت مندوں سے نفرت اس لیے تھی کہ خود اس سے محروم تھے۔ حسد اور جلن کی بنا پر سوشلسٹ بن گئے اور جب سوشلزم کے پارس پتھر نے انھیں بھی نو دولتیوں کی صف میں لاکھڑا کیا تو یہ سگار بھی اپنے لیڈر کے انداز میں پینے لگے۔۔۔۔!! سابقہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں انھوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا تھا ’’چائے کے باغ‘‘ جس میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل سے بھری زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی ناولوں اور افسانوں کے بیشتر کردار حقیقی ہیں۔ جنھیں انھوں نے زندگی میں کہیں نہ کہیں دیکھا تھا۔ ’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ کی ’’تارابائی‘‘ یا ۔۔۔۔’’اکثر اس طرح سے بھی رقص فغاں ہوتا ہے‘‘ کی یونی جمال آراء۔۔۔۔۔ یا ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘ کی قمرن۔۔۔۔ جس کی زندگی پہ مظفر علی نے بھارت میں ’’انجمن‘‘ نامی فلم بنائی تھی۔ جو چکن کاڑھنے والی عورتوں کی زندگی پہ مبنی تھی، اس فلم میں مرکزی کردار شبانہ اعظمی نے ادا کیا تھا۔ ’’کار جہاں دراز ہے‘‘۔۔۔۔۔ کی تیسری جلد ’’شاہراہ حریر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ حصہ سوم میں انھوں نے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا ہے۔ جو پی ای سی۔ ایچ سوسائٹی میں اکثر ہمارے گھر آتی تھیں۔ یہ تھیں نام ور رقاصہ ’’میڈم آزوری‘‘ ۔۔۔۔ لیکن اس سوانحی ناول سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصلی نام کچھ اور تھا۔ وہ ماں باپ کے رکھے ہوئے نام سے ’’آزوری‘‘ کیسے بنیں ، تمام تفصیل یہاں موجود ہے۔ میڈم آزوری نرسری پہ قائم ایک اسکول ’’قائدین اسکول میں میوزک ٹیچر تھیں۔ اور بچوں کو ٹیبلو وغیرہ کی تیاری کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت کلاسیکی رقص بھی سکھاتی تھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انتہا پسندوں نے پر امن معاشرے کو یرغمال نہیں بنایا تھا۔ میرے بھائیوں کے بچے اس اسکول میں پڑھتے تھے۔ یوں ان کی ہم سے واقفیت ہوئی تھی۔ انشاء اللہ کسی دوسرے کالم میں اس کردار سے تفصیلی ملاقات کرواؤں گی۔ اسی طرح ’’سیتا ہَرن‘‘ کی مایا کو ہم نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں دیکھا تھا۔ دبلی پتلی سی مایا جمیل جو غالباً وہاں لیکچرر تھیں۔ خاموش اور اپنی ذات میں گم رہنے والی تھیں۔ جن لوگوں نے ’’سیتا ہَرن ‘‘ پڑھا تھا۔ اور جو انھیں جانتے تھے وہ انھیں دیکھتے ہی سرگوشیاں کرتے۔۔۔۔۔ ’’وہ دیکھو وہ مایا جمیل ہیں جن کا ذکر قرۃ العین حیدر نے کیا ہے ۔۔۔۔اور ہم سب انھیں یوں چوری چوری دیکھتے کہ کہیں وہ ہماری چوری نہ پکڑ لیں۔۔۔۔۔ پھر نجانے وہ کہاں چلی گئیں۔ بہرحال قرۃ العین حیدر ایک مکمل عہد تھیں اور ان کی وفات کے بعد اس زریں عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا۔۔۔۔!!
1 note
·
View note
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گفتگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔ جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں تو پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور ��انے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی بابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
بھارتی رکن اسمبلی کے جنسی زیادتی سے لطف اندوز ہونے کے بیان پر ہنگامہ - اردو نیوز پیڈیا
بھارتی رکن اسمبلی کے جنسی زیادتی سے لطف اندوز ہونے کے بیان پر ہنگامہ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کرناٹک: بھارت میں کانگریس سے تعلق رکن والے رکن اسمبلی کے عصت دری کا لطف اُٹھانے کے بیان نے پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹک کی اسمبلی میں کسانوں کی تحریک سے متعلق بحث کے دوران اسپیکر سے تکرار پر اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن نے جواب میں ایک کہاوت سنائی کہ جب عصمت دری ناگزیر ہو تو لیٹ جاؤ اور اس کا لطف اٹھائیں بالکل ایسی صورت حال میں آپ…
View On WordPress
0 notes
Text
*-ایک کہاوت ، ایک حکایت-*
*-ایک کہاوت ، ایک حکایت-*
*جیسے کو تیسا ملے ، ملے کھیر میں کھانڈ* *تو ہے ذات کی بیڑن، میں ذات کا بھانڈ* *گھر کی بڑی بوڑھیوں کی کیا بات تھی۔ اسکول کالج کی شکل نہ دیکھی تھی مگر مکمل طور پر تہذیب یافتہ تھیں۔ ملنا ملانا ، حفظ مراتب ، دشتوں کو برتنا سب جانتی تھیں ۔ گفتگو میں شائستگی اور شگفتگی کے ساتھ برمحل محاروے ، ضرب الامثال اور کہاوتیں عام ہوتیں۔ لوگ کتابیں اور لغت چھان چھان کر اردو سیکھتے ہیں مگر میری خوش نصیبی کہ میں نے…
View On WordPress
0 notes
Text
چُونا اَور چَمار کُوٹے ہی ٹِھیک رَہْتا ہے
چونے کو جتنا زیادہ کوٹیں اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے چمار کو جوتے لگتے رہیں تو درست رہتا ہے.
#چُونا اَور چَمار کُوٹے ہی ٹِھیک رَہْتا ہے#urdu#اردو#saying#کہاوت#urdu saying#اردو کہاوت#زرب المثل#racism
0 notes
Text
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ): طالبان کی جڑیں
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ): طالبان کی جڑیں
کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ) نوٹ کرتے ہیں کہ اندرونی جھگڑے اور قبائلیت افغانستان کے لیے مقامی ہے۔
تصویر: عبداللطیف منصور ، بائیں ، شہاب الدین دلاور ، مرکز اور سہیل شاہین – طالبان کے سیاسی دفتر کے ارکان – 9 جولائی 2021 کو ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس میں۔ فوٹو: تاتیانا میک��ئیفا/رائٹرز
القاعدہ کی تلاش کے لیے امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے کے تقریبا 20 20 سال بعد 6 جولائی 2021 کو بگرام ایئر بیس سے امریکی انخلا گھڑی کو مکمل دائرے میں لے آیا۔ یہ تقریبا almost ایک پرانی فلم کو دوبارہ بنانے کی طرح لگتا ہے جہاں ولن-طالبان ایک جیسے رہتے ہیں جبکہ ہارنے والے سوویت یونین سے امریکہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو کہ ایک سابقہ سپر پاور ہے۔
یقینا ، ممکنہ متاثرین – عام افغان شہری – دونوں سانحات کے لیے پھر سے مشترک ہیں۔ اگر کوئی جدید واقعہ کہاوت ثابت کرتا ہے کہ ‘تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے’ ، یہ افغانستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے واقعات ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی حقیقت پسندانہ اندازہ لگائے کہ آنے والے واقعات کے عالمی/علاقائی اثرات کیا ہوں گے ، 1989 میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور افغانستان کو خالی کرنے کے موجودہ امریکی اقدامات کے مابین مماثلت اور فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
زیادہ تر تجزیہ تنہائی میں فوری سیاسی یا فوجی پہلو پر مرکوز ہے۔ یہ کسی حد تک ہاتھی کو بیان کرنے کی کوشش کرنے والے نابینا افراد کی مشق کی طرح رہا ہے۔
افغانستان کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں-عالمی ، علاقائی اور داخلی اور عسکری پہلو جو شورش اور انسداد شورش سے متعلق ہے۔ موجودہ مشکلات کی جڑیں قوم کے ماضی ، اس کی تاریخ اور سماجیات میں ہیں۔
ان تمام پہلوؤں کا پس منظر موجودہ واقعات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ممکنہ راستوں کا نقشہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔
تاریخی طور پر ، ہندو/بدھ مت افغانستان کو قدیم زمانے سے شمالی ہندوستان کے زرخیز میدانوں پر حملے کے لیے اسٹیجنگ پوسٹ یا راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر کا پہلا معروف استعمال تھا۔ سکندر کے بعد ہن ، منگول اور ایرانی تھے۔
یہ تمام حملہ آور فوجیں حالیہ افغانستان سے گزر گئیں اور مخلوط نسلی آبادی چھوڑ گئی جو مسلسل متحارب قبیلوں میں شامل ہو گئیں جو حسد سے اپنی نسل کی حفاظت کرتی ہیں۔
افغان تاریخ بلقان سے ملتی جلتی ہے اور اس کے مسلسل تنازعات اور انتشار کے نتائج ہیں۔ یہ بنیادی حقیقت 21 ویں صدی میں بھی افغان معاشرتی منظر نامے میں پائی جاتی ہے۔
اندرونی جھگڑا اور قبائلی ازم افغانستان کے لیے مقامی ہے۔
مستحکم ریاستیں اس وقت بنتی ہیں جب نسلی ، مذہبی ، لسانی اور تاریخی مشترکات ہوں۔
اس میٹرکس پر ، جدید افغانستان تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ یہ بمشکل 300 عجیب سالوں سے موجود ہے اور اس نے اپنے ہندو/بدھ مت ماضی کو مسترد کردیا ہے۔
پاکستان ، اس کا پڑوسی ، مذہبی شناخت کے ایک عنصر پر قائم پایا گیا کہ ایک قوم صرف ایک عنصر کی بنیاد پر متحد نہیں رہ سکتی اور 50 سال پہلے دو ٹکڑے ہو گئی۔ افغانستان کی قومیت کی یہ نزاکت موجودہ حالات کا مطالعہ کرتے وقت ایک عنصر ہے۔
تصویر: ملا عبدالغنی برادر ، بائیں ، طالبان کے اہم مذاکرات کار ، اور وفد کے دیگر ارکان 18 مارچ ، 2021 کو ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس میں شریک ہیں۔ تصویر: الیگزینڈر زیملیانچینکو/پول/رائٹرز
جدید افغانستان نے 18 ویں صدی میں احمد شاہ درانی کی قیادت میں شکل اختیار کی جس نے متحارب افغان قبائل کو متحد کیا۔ افغانستان 19 ویں صدی کی جیو پولیٹکس کے لیے اپنی آزادی کا مقروض ہے جب اسے روس کی بڑھتی ہوئی سلطنت اور ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا لالچ تھا۔
طویل لڑائی اور بعد میں دو حملوں کے بعد ، برطانوی اور روسی دونوں افغانستان کو بفر سٹیٹ کے طور پر رکھنے پر متفق ہوگئے۔
اپنی ہندوستانی سلطنت کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ، انگریزوں نے پختون قبائلی اکثریتی علاقوں کو خیبر پاس کے مشرق ، نام نہاد ڈیورنڈ لائن سے ملا دیا۔ اس نے پختونوں کو برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان مؤثر طریقے سے تقسیم کیا۔
انگریزوں اور بعد میں پاکستان نے کھلی سرحد رکھی اور پختون سرحد تک باڑ لگانے تک 2010 تک آزاد تھے۔ مشکل پہاڑی علاقے کی وجہ سے ، سرحد پار نقل و حرکت جاری ہے۔
قطع نظر اس کے کہ کون افغانستان پر حکومت کرتا ہے ، ڈیورنڈ لائن اور پختون اکثریتی علاقے کی تقسیم کسی افغان حکومت ، طالبان یا کسی طالبان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
19 ویں اور 20 ویں صدی میں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی سے افغانستان کا آزاد رہنا اینگلو روسی دشمنی کا نتیجہ ہے نہ کہ افغانیوں کی کوئی خاص خوبیاں ، لیکن اس کے باوجود افغانی استثناء کے تصور کو جنم دیا ہے۔
1979 تک افغانستان پر ایک بادشاہت کا راج تھا جو جدید اور لبرل تھا۔ لیکن افغانستان کی جدیدیت اپنے بڑے شہروں تک محدود رہی جبکہ دیہی علاقوں میں گہرے قدامت پسند رہے اور قبائلی طریقوں پر عمل کیا۔
اس سال (1979) میں ، جیسا کہ ایران میں اسلامی انقلاب نے ایران کے مغرب نواز شاہ کا تختہ الٹتے دیکھا ، روس نے اس کا موقع دیکھا اور افغانستان پر براہ راست کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں ہمیشہ مضبوط سوشلسٹ پارٹیاں تھیں – خلق اور پرچم جو ایک جدید سوشلسٹ افغانستان کے لیے کھڑے تھے۔
1979 میں ، جب سوویت افواج بائیں بازو کی حکومت کی حمایت کے لیے افغانستان میں داخل ہوئیں ، امریکہ نے سوویت یونین پر ‘ویت نام’ کرنے کا موقع دیکھا۔ سابقہ بادشاہ داؤد حکومت کے برعکس ، ببرک کارمل کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت نے افغانستان کو جدید بنانے کے لیے دیہی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ، یہ قدامت پسند قبائلی قیادت کے ساتھ براہ راست تنازعہ میں آگیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے مل کر کام کیا اور مذہبی قدامت پسندوں کی ‘دیوتا’ کمیونسٹوں کے خلاف بغاوت کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا
پاکستان نے جوش و خروش سے اس جنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بدلے میں امریکی اسلحہ اور سعودی رقم وصول کی۔ پاکستان نے اس عرصے کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کیا کیونکہ امریکہ نے اس پھیلاؤ ��ے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ‘اچھے’ جہاد کے لیے پاک سپورٹ کی قیمت دی۔
امریکہ نے افغان مہاجرین کو بنیاد پرست بنانے کے لیے خصوصی کورسز (وسکونسن یونیورسٹی میں) تیار کیے اور اسکول کی سطح پر اسلامی بنیاد پرستی کو فعال طور پر فروغ دیا تاکہ نوجوان جنونی بھرتیوں کی فوج بنائی جا سکے ، جسے بعد میں طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے ، اردو کا مطلب طالب علم ہونا ہے۔
ایک سعودی ، اسامہ بن لادن اس جہاد یا مذہبی جنگ میں شریک تھا۔
افغان مجاہدین ، پاکستان میں اڈوں کے ساتھ ، تازہ ترین امریکی اسلحے کے ساتھ بائیں بازو کی افغان حکومت کے خلاف 1979 سے 1989 تک ایک گوریلا جنگ لڑی۔
سوویت اور افغان افواج مشترکہ طور پر ہارنے لگیں جب امریکہ نے ‘سٹنگر’ اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سپلائی کیے جس نے فضائی طاقت میں سوویت فوائد کو ختم کردیا۔ بھاری جانی و مالی نقصانات کے بعد ، سوویت 1989 میں افغانستان سے نکل گئے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد ، 1992 میں سوویت یونین خود ٹوٹ گیا۔ اس وقت ڈاکٹر نجیب اللہ کی قیادت میں افغان حکومت سوویت یونین کی حمایت کے بغیر تنہا لڑنے کے لیے رہ گئی۔
اگلے ہفتے حصہ 2 کو مت چھوڑیں!
فوجی تاریخ دان کرنل انیل اے اتھلے (ریٹائرڈ) یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سابق چھترپتی شیواجی چیئر فیلو ہیں۔
فیچر پریزنٹیشن: آشیش نرسلے/ Rediff.com
. Source link
0 notes
Text
سردیوں میں کے ٹو پر مہم جوئی: کوہ پیماؤں کے چوٹی سر کرنے کے دعوے کی تصدیق کیسے ہوتی ہے؟
سردیوں میں کے ٹو پر مہم جوئی: کوہ پیماؤں کے چوٹی سر کرنے کے دعوے کی تصدیق کیسے ہوتی ہے؟
منزہ انوار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد 6 منٹ قبل ،@eliasaikaly آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہو گی ’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟‘ اب وہ مور چاہے جیسے مرضی دعوے کرتا پھرے کہ وہ کتنا اچھا ناچا، کون اس کا یقین کرے گا؟ اور اگر کوئی کوہ پیما ہزاروں فٹ اونچے کسی پہاڑ کی چوٹی سر کر لیتا ہے لیکن اسے دیکھنے کے لیے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں، تو کیا وہ واقعی چوٹی تک پہنچا ہے؟ ایسا ہی کچھ سنہ 1924 میں…
View On WordPress
0 notes
Text
,🌹🌹 *𝗛𝗨𝗠𝗜𝗟𝗜𝗧𝗬 𝗜𝗡 𝗟𝗘𝗔𝗥𝗡𝗜𝗡𝗚*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL LIVING**🔹
1️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💧 *HUMILITY IN LEARNING :*
*Abdullah ibn Masud r.a., one of the companions of the Prophet of Islam ﷺ, narrated, “When you do not know anything, say that God knows best.”*
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 4822)
This principle can be called “humility in learning”, which is essential for intellectual progress.
*There is a proverb in Arabic: (la adri nisf ul ilm), “I don’t know is half-knowledge.”*
To say, “I don’t know” is not a simple matter. It is to be aware of your ignorance.
In such a person a spirit of inquiry awakens which eventually leads him to knowledge.
When a man does not know something, he must admit this fact. The confession of not knowing is also as important as knowing.
*Without this attitude, no man can progress intellectually.*
🌹🌹 *_And Our journey_ _Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💧 *سیکھنے (علم حاصل کرنے میں) میں عاجزی :*
*عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک ہیں، بیان کرتے ہیں، ’’جب تم کچھ نہیں جانتے تو کہہ دو کہ "اللہ بہتر جانتا ہے"۔‘‘*
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4822)
اس اصول کو " *سیکھنے میں عاجزی* " کہا جا سکتا ہے۔ جو علمی و فکری ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
*عربی میں ایک کہاوت ہے: (لا ادری نصف العلم)، "میں نہیں جانتا (اس کا اعتراف) آدھا علم (حاصل کرنا) ہے۔"*
یہ کہنا کہ، "میں نہیں جانتا" کوئی معمولی بات نہیں ہے. بلکہ اپنی لاعلمی سے آگاہ ہونا ہے۔
اس اعتراف کی وجہ سے انسان میں تحقیق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے جو آخرکار اسے علم حاصل کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔
جب کوئی انسان کسی چیز یا کسی بات کو نہیں جانتا، اور اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ اعتراف علم حاصل کرنے کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہم کسی چیز کو جاننے کا اعتراف (دعویٰ) کرتے ہیں۔
*اس انداز فکر و عمل (رویہ) کے بغیر، کوئی بھی انسان علمی و فکری سطح پر ترقی نہیں کر سکتا ہے۔*
🌹🌹 *اور ہمارا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
Persian saying فارسی کہاوت
مُِشک آنَست کَہ خود بَبویَد نَہ کہ عَطَار بگوَید
مُِشک آنَست اَزخود بَویَد ، نَہ کہ عَطَار بگوَید
(فارسی کہاوت اردو میں مستعمل)
مشک وہ ہے جو کہ خود خوشبو دے نہ کہ عطار کہے یعنی کسی چیز کی خوبی یا کسی کا ہنر خود ہی بولتا ہے تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
8 notes
·
View notes