#ہدف
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
پہلا ٹی ٹوئنٹی ساؤتھ افریقہ نے پاکستان کو جیت کے لیے ہدف دے دیا
ڈربن(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان جاری پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پروٹیز نے پاکستان کو جیت کے لیے 184رنز کا ہدف دے دیا ۔ ساؤتھ افریقین بلے بازوں نے مقررہ 20اوورز میں9وکٹوں کے نقصان پر  183رنز بنائے۔ ڈربن میں شیڈول ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے میچ میں جنوبی افریقی کپتان ہینرک کلاسن نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ساؤتھ افریقہ کی بیٹنگ آغاز میں متاثر کن کھیل پیش کرنے میں…
0 notes
urdu-poetry-lover · 8 months ago
Text
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں جو
ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
بھلا دیا تو بھلانے کی انتہا کر دی
وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں کودا تو کیا ملا شاہدؔ
اسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
شاہد کبیر
6 notes · View notes
rabiabilalsblog · 11 months ago
Text
ضبط کر
اے دلِ مجروح کہ اس دنیا میں
کونسا دل ہدف گردشِ ایام نہیں
غم محبوب و غم دہر و غم جاں کی قسم
ایسے بھی غم ہیں یہاں
جن کا کوئی نام نہیں
Tumblr media
4 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تح��ے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ��ریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
googlynewstv · 7 days ago
Text
حکومت ،پی ٹی آئی مذاکرات کاہدف عمران خان کوجیل میں رکھناتھا،فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہےکہ حکومت اور  پی ٹی آئی دونوں کا مذاکرات میں ایک ہی ہدف تھا کہ بانی پی ٹی آئ�� عمران خان کو جیل میں  رکھا جائے۔ عمران خان کی جانب سے حکومت کےساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کے اعلان پر ردعمل میں سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی بتادیا تھا مذاکرات ختم ہوجائیں گے، یہ حکومت کو ویسےہی چلنے دیں گے جیسے پہلے دن سے چلنے دیا، پی ٹی آئی والے عمران خان کے جیل…
0 notes
risingpakistan · 29 days ago
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
Tumblr media
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ 
Tumblr media
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی است��کام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔ 
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
psl2025schedule · 1 month ago
Text
📣 کرکٹ شائقین کے لیے بڑی خبر! 🏏
جنوبی افریقہ 🇿🇦 کے شاندار رائٹ ہینڈ بیٹر رسی وین ڈر ڈوسن ایک بار پھر ایچ بی ایل پی ایس ایل ڈرافٹ میں واپس آ رہے ہیں! 💥
اپنی مستقل مزاجی، کلاس، اور دباؤ میں اننگز کو سنبھالنے کی صلاحیت کے لیے مشہور، رسی نہ صرف شاندار بیٹنگ کا ہنر لاتے ہیں بلکہ کھیل میں قابلِ اعتماد کارکردگی کی ضمانت بھی ہیں۔ چاہے بڑے ہدف کا تعاقب ہو یا شراکت داری بنانا، یہ اسٹار کھلاڑی اس سیزن میں ڈرافٹ کا سب سے بڑا انتخاب ثابت ہو سکتا ہے! 🔥
آپ کے خیال میں یہ اسٹار کس ٹیم کا حصہ بنے گا؟ اپنی پیشگوئیاں نیچے کمنٹ کریں! ⬇️
#HBLPSL #PSL2024 #RassieVanDerDussen #CricketLovers #PSLDraft
1 note · View note
6332033 · 2 months ago
Text
جمادی الثانیہ 3ھ/ نومبر 624ء میں نبی ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کی زیر قیادت 100افراد پر مشتمل ایک سریہ روانہ کیا جس کا ہدف قریش کا تجارتی قافلہ تھا۔
0 notes
dpr-lahore-division · 2 months ago
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر1216
وزیر اعلیٰ مریم نوازکی کسان دوست پالیسی کے ثمرات، پنجاب میں پہلی مرتبہ ربیع سیزن میں کھاد وافر دستیاب، نرخ بھی نیچے آگئے
پنجاب بھر میں گندم کی فصل کی ضرورت سے ڈی اے پی کھاد کا 30فیصد سے زائد سٹاک دستیاب،ڈی اے پی کھادکے نرخ میں 17فیصد کمی
صوبہ بھر میں یوریاکھادکا ربیع سیزن کی ضرورت سے 125فیصد زیادہ سٹاک موجود، پنجاب میں یوریاکھاد کے نرخ 25فیصد نیچے آ گئے
پنجاب بھر میں مقررہ ہدف ایک کروڑ 65لاکھ ایکڑ کے تحت بوائی کا 82فیصد ٹارگٹ مکمل، 10دسمبر تک گندم کی کاشت مکمل کر لی جائیگی
3لاکھ 26ہزارایکڑ سرکاری اراضی پربھی گندم کی کاشت، کاشتکاروں کی معاونت اور رہنمائی کیلئے 40ہزار یونیورسٹی ایگری گریجوایٹ انٹرنز فیلڈ میں موجود
وزیراعلی مریم نواز سکیم کے تحت گندم کے کاشتکاروں کومفت ایک ہزار گرین ٹریکٹر ز اور ایک ہزار لینڈ لیورلز کیلئے درخواستیں طلب
وزیراعلی مریم نوازکی زیر صدارت خصوصی اجلاس، صوبہ بھر میں گندم کی سٹوریج کیپسٹی بہتر بنانے کی ہدایت، وزیر زراعت اور ان کی ٹیم کو سراہا
لاہور26نومبر-:……وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے کسان دوستی کے ثمرات ظاہرہونا شروع ہوگئے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں گندم کی کاشت سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا اور بتایا گیا کہ پہلی مرتبہ پنجاب میں ربیع سیزن میں کھادوافر موجود ہے اورنرخ بھی نیچے آرہے ہیں۔ پنجاب بھر میں ڈی اے پی کھاد کا 30فیصد سے زائد سٹاک دستیاب ہے اور پہلی مرتبہ گندم کے سیزن میں ڈی اے پی کھادکے نرخ میں 17فیصد کمی ہوئی ہے۔ یوریاکھادکا ضرورت سے 125فیصد زیادہ سٹاک موجود ہے۔ پنجاب میں یوریاکھاد کے نرخ 25فیصد نیچے آ گئے۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں ایک کروڑ 65لاکھ ایکڑ پر گندم کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا جس کے تحت بوائی کا 82فیصد ٹارگٹ مکمل کر لیا گیا ہے اور 10دسمبر تک گندم کی کاشت مکمل کر لی جائے گی۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں 3لاکھ 26ہزارایکڑ سرکاری اراضی پربھی گندم کی کاشت کی جارہی ہے۔ گندم کے کاشتکاروں کی معاونت اور رہنمائی کے لئے صوبہ بھرمیں 40ہزار یونیورسٹی ایگری گریجوایٹ انٹرنز فیلڈ میں موجود ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزیراعلی مریم نوازشریف کی سکیم کے تحت گندم کے کاشتکاروں کومفت ایک ہزار گرین ٹریکٹر ز اور ایک ہزار لینڈ لیورلز کے لئے درخواستیں طلب کی جارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے صوبہ بھر میں گندم کی سٹوریج کیپسٹی بہتر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے خصوصی اجلاس میں وزیر زراعت اور ان کی ٹیم کو سراہا۔ اجلاس میں سینیٹر پرویز رشید،وزیر زراعت عاشق حسین کرمانی، معاون خصوصی ثانیہ عاشق جبیں،چیف سیکرٹری،پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری زراعت، سیکرٹری فنانس اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔
٭٭٭٭٭
0 notes
sunonews · 3 months ago
Text
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
کرکٹ کو نئی بلندیوں تک لے جانا اور نوجوان نسل کو متاثر کرنا ہدف ہے، آئی سی سی کے نئے چیئرمین جے شاہ کا پہلا بیان
دبئی(ڈیلی پاکستان آن لائن)انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) کے نئے چیئرمین جے شاہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ردعمل جاری کردیا۔سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے پیغام میں آئی سی سی کے نئے چیئرمین جے شاہ کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اپنے پیغام میں جے شاہ کا کہنا تھا کہ گراس روٹس سے لے کر بڑے ایونٹس تک کرکٹ کو مزید لوگوں تک…
0 notes
airnews-arngbad · 3 months ago
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 01 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  یکم نومبر ۴۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت؛ وزیرِ اعظم کا بیان۔
                ٭             ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 رائے دہندگان اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
                ٭             آج دیپوتسو کے دوران ہر طرف لکشمی پوجا؛ اسنیہہ ملن پروگراموں کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭     ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو NAAC کا A+ درجہ حاصل۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                 وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کا ہدف حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ انھوں نے علیحدگی پسند طاقتوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی ہے۔ وہ کل سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یومِ پیدائش کے موقع پر گجرات کے کیوڑیا میں قومی اتحاد دِن کے پروگرام سے خطاب کررہے تھے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 150 ویں یومِ پیدائش تقریب کل سے شروع ہوئی ہے اور ملک اگلے دو سالوں تک اس یومِ پیدائش کو منائے گا۔ قبل ازیں‘ انھوں نے ایکتا نگر میں پٹیل کے مجسمہئ اتحاد پر پھول چڑھائے اور شہریوں سے اتحاد کا عزم کیا۔ اس دوران اس یومِ یکجہتی پروگرام میں رائے گڑھ ضلع کے داخلی راستے کی نقل تیار کی گئی۔ اتحاد دِن کے پروگرام کے دوران وزیرِ اعظم نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی اور کچھ میں فوجیوں کے ساتھ دیوالی منائی۔ نئی دہلی میں صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو اور نائب صدرِ جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے پٹیل چوک میں سردار پٹیل کے مجسمہ کو ہار پہناکر خراجِ عقیدت پیش کیا۔
***** ***** *****
                سابق وزیرِ اعظم اِندرا گاندھی کو ان کی برسی کے موقع پر ہر طرف خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ لوک سبھا میں قائد ِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے نئی دلّی میں ان کی سمادھی شکتی اِستھل پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
                ریاست میں اور چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ہر طرف اندرا گاندھی اور سردار پٹیل کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
***** ***** *****
                ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25ہزار 119 رائے دہندگان اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 18 تا 19 سال کے زمرہ کے تقریباً 22 لاکھ 22 ہزار 704‘جبکہ عمر کے سو برس مکمل کرنے والے 47 ہزار 392 رائے دہندگان ہونے کی اطلاع چیف الیکشن کمیشن دفتر نے دی ہے۔
                ریاست کے خدمات شعبہ کے تقریباً ایک لاکھ 16 ہزار 170 رائے دہندگان ہیں۔ یہ تمام رائے دہندوں کیلئے ایک لاکھ 186 رائے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں شہری علاقوں کے 42 ہزار 604‘ جبکہ دیہی علاقوں کے 57 ہزار 582 رائے دہی مراکز ہوں گے۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں 27ہزار 964 معذور ووٹر اور 40 ہزار 577 ووٹر وہ ہیں جن کی عمر 85 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان ووٹرز کو فارم (12-D) پُرکرکے گھر سے ووٹ دینے کا اختیار منتخب کرنا ہے‘ ان میں سے 715 معذور اور 3537 معمر افراد نے گھر سے ووٹ دینے کا آپشن چنا ہے۔ ضلع میں دو ہزار 508 سروس ووٹر ہیں انھیں پوسٹل ووٹنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
***** ***** *****
                اسمبلی انتخابات میں مہایوتی میں بغاوت کرکے امیدواری پرچے بھرنے والے تمام افراد کو اعتماد میں لیکر ان کے ساتھ بات چیت کرکے پرچے واپس لینے کیلئے راضی کرنے کی کوشش مہایوتی کی تینوں ہی پارٹیوں کی جانب سے جاری ہے۔ کانگریس لیڈر روی راجا نے کل ممبئی میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بی جے پی لیڈر و نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے یہ اطلاع فراہم کی۔ روی راجا کا تقرر بی جے پی کے ممبئی نائب ضلع صدر کے طور پر کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
                ناندیڑ ضلع میں اس بار لوک سبھا کا ضمنی انتخاب اور اسمبلی کے عام انتخابات ہورہے ہیں۔ ضلع کے نو اسمبلی حلقوں میں ناندیڑ جنوب اور ناندیڑ شمال‘ لوہا‘ مکھیڑ‘ نائیگاؤں‘ بھوکر‘ حد گاؤں‘ کنوٹ‘ اور دیگلور شامل ہیں۔ لوک سبھا حلقہ چھ اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے‘ سوائے کنوٹ‘ حد گاؤں اور لوہا کے۔ ان چھ حلقوں کے ووٹروں کو لوک سبھا کے ضمنی انتخاب اور متعلقہ اسمبلی انتخابات کیلئے ایک ہی دِن دوبار ووٹ دینا ہوگا۔
***** ***** *****
                ونچیت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر کو کل ان کی طبعیت بگڑنے پر پونے کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فی الحال ان کی حالت مستحکم ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ اگلے کچھ دِنوں تک انھیں طبّی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اس دوران ونچیت کی الیکشن تشہیر کی ذمہ داری آگھاڑی کی ریاستی صدر ریکھا ٹھاکر‘ الیکشن کوآرڈنیشن کمیٹی اور منشور کمیٹی کے پاس ہوگی۔
***** ***** *****
                سامعین! اسمبلی انتخابات کے موقع پر ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھانچا“ پروگرام روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ آج کے پروگرام میں ناندیڑ ضلع کے اسمبلی حلقوں کا جائزہ پیش کیا جائیگا۔
***** ***** *****
                 دیپوتسو میں اہم مقام رکھنے والا لکشمی پوجا تہوار آج منایا جارہا ہے۔ صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو‘ نائب صدر جگدیپ دھنکڑ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی ہے۔ آج شام لکشمی پوجا اشون اَماوَس پر گھر گھر روایتی طریقے سے کی جائیگی۔ اس پوجا کیلئے کنول سمیت مختلف قسم کے پھول‘ نذرانے کیلئے طرح طرح کے کیک، پوجا کیلئے ہار، لکشمی کو پیش کرنے کیلئے نیک نشانات کے ساتھ ساتھ دیگر سامان کی دُکانیں سج گئی ہیں اور عوام نے ان کی خریداری کیلئے بھیڑ لگا دی ہے۔
                دیوالی کے موقع پر اسنیہہ ملن سمیت دیوالی کی صبح اور شام جیسے موسیقی پروگراموں کی ہر طرف ریل پیل ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ ان پروگراموں کو عام شائقین کی جانب سے بہتر پذیرائی مل رہی ہے۔ کل چھترپتی سمبھاجی نگر کے شاستری نگر ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے دیوالی کی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر مشہور گلوکارہ آشا کھاڑِلکر اور ویدشری کھاڑِلکر اوک کے گلوکاری کا پروگرام منعقد ہوا۔
***** ***** *****
                مہاتماگاندھی مشن اور مراٹھواڑہ آرٹ‘ کلچر اینڈ فلم فاؤنڈیشن کی جانب سے ہر سال کی طرح کل بھی دیپوتسو پروگرام منعقد ہوا۔ ناندیڑ میں کل بندا گھاٹ پر دیوالی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ضلع کلکٹر ابھیجیت راؤت اور میونسپل کمشنر ڈاکٹر مہیش کمار ڈوئی پھوڑے موجود تھے۔ اس موقع پر کلکٹر نے لوک سبھا کے ضمنی اور اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کی۔
***** ***** *****
                چھترپتی سمبھاجی نگر کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو نیشنل ایکریڈیٹیشن اینڈ کنسیشن کونسل-NAC کی جانب سے کل متوقع معیار کو پورا کرنے پر”اے پلس“ درجہ بندی دینے کا اعلان کیا گیا۔ اے پلس درجہ بندی حاصل ہونے پریونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹروجئے پھلاری نے کہا کہ مراٹھواڑہ میں بہوجن سماج کیلئے حصولِ تعلیم کے دروازے کھولنے والے بھارت رتن ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے افکار کی دولت اور وراثت کے ساتھ یونیورسٹی کی پیش رفت جاری ہے اور آنے والے سالوں میں سب کے تعاون سے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار اور ساکھ کو بلند کرنے کی مخلصانہ کوشش جاری رکھی جائیگی۔
***** ***** *****
                 لاتور شہر اسمبلی حلقہ کے انتخابی اخراجات انسپکٹر کاکرالا پرسانت کمار نے کل ضلع کلکٹر دفتر میں مختلف انتخابی اخراجات سے متعلق دستوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہر افسر اور ملازم کو اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرنے اور تشہیری جلسوں، ریلیوں اور جلوسوں میں استعمال ہونے والے سامان و آلات باریک بینی سے اندراج کرنے کی ہدایات بھی دیں۔
***** ***** *****
                 بیڑ ضلع کے گیورائی اور ماجل گاؤں اسمبلی حلقوں کے انتخابی مبصر کے طور پر لالٹ پونی وہانگ چانگ نے اسٹرانگ روم کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ الیکشن ریٹرننگ آفیسر سندیپ کھومنے اور سنتوش روئیکر موجود تھے۔
***** ***** *****
0 notes
pinoytvlivenews · 4 months ago
Text
آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ جنوبی افریقا نے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا
دبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن) آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ کےپہلےسیمی فائنل میں جنوبی افریقا نے آسٹریلیا کو 8 وکٹوں سے شکست دے دی۔ دبئی میں کھیلے گئے میچ میں جنوبی افریقا نے 135 رنز کا ہدف 17.2 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ انیک بوش ناقابل شکست 74 رنز اور لورا وولوارڈ 42 رنز کے ساتھ نمایاں رہیں۔قبل ازیں جنوبی افریقا نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا، آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے…
0 notes
emergingpakistan · 1 month ago
Text
معاشی بہتری یا طفل تسلیاں
Tumblr media
موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے کو ہیں اور کوئی شک نہیں کہ اس نے اِن نو مہینوں میں معاشی بہتری کے لیے بہت سے کام کیے ہیں لیکن کیا اُن کے نتیجے میں ہم اس خطرناک صورتحال سے باہر نکل آئے ہیں اور ڈیفالٹ ہو جانے کا خطرہ یقیناً ٹل چکا ہے۔ اس کا جواب یقیناً نہ اور نفی میں ہوگا۔ ابھی ہمارے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ صرف دو تین مہینوں کے لیے ٹلا ہے۔ 2021 برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے انتہائی برے وقت میں ہمارا ہاتھ پکڑا اور تین ارب ڈالر ہمارے خزانے میں صرف اس مقصد سے ڈیپازٹ کر دیے کہ ہم کہیں حقیقی طور پر دیوالیہ ظاہر نہ ہو جائیں۔ دنیا کی نظروں میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر سعودی عرب نے ایک حقیقی دوست اور بھائی کا کردار ادا کیا۔  حالانکہ اسے معلوم تھا کہ یہ تین ارب ڈالر اسے ایک سال میں واپس بھی نہیں ملیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ہم ہر سال ایک درخواست لے کر اُن کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور مزید ادھار مانگنے کے بجائے یہی تین ارب ڈالرزکی واپسی کے لیے مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی ارب یہ مہلت دینے سے انکار کر دے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے؟ معاشی طور پر دیوالیہ ہوجانے سے بچ جانے کے ہمارے دعوے کتنے درست اور حقیقی ثابت ہوں گے۔
کیا ہم دھڑام سے زمین بوس نہیں ہوجائیں گے۔ یہی حال UAE سے لیے تین ارب ڈالروں کا بھی ہے اور چین سے ادھار پیسوں کا بھی۔ ہم کب تک اسی طرح کام چلاتے رہیں گے اور اپنے آپ اور قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔ IMF اگر ہمیں نئے قرض کی منظوری نہیں دیتا تو بھی ہمیں ڈیفالٹ ہوجانے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا تھا۔ پھر یہ ادھار کے ڈالرز بھی کام نہیں آتے۔ IMF کی مہربانی سے ہمیں کچھ دنوں کے لیے سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے لیکن دیوالیہ ہوجانے کے خطروں سے ابھی ہم باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں IMF کے قرض سے صرف ایک قسط ملی ہے اورہم نے اپنے شاہانہ خرچ یک دم بڑھا دیے ہیں۔ ایک ماہ قبل ججوں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا اور اب اپنے پیٹی بھائیوں یعنی پارلیمنٹرین کی مشاہرے میں بڑا اضافہ کر دیا۔ حکومت ایک طرف ٹیکس جمع کرنے کے مطلوبہ ہدف کو پورا بھی نہیں کر پا رہی ہے اور دوسری طرف اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے ایک بار نہیں کئی بار قوم کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے والی ہے اور آنے والے دنوں میں ہم واضح طور پر اس کمی کو دیکھ پائیں گے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اپنے اس وعدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا۔
Tumblr media
حکمرانوں اور پارلیمنٹرین میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں سامنے آیا جس نے اس غیر ضروری اضافے کو مسترد کیا ہو یا اس کی مخالفت کی ہو۔ عوام سے تو توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اخراجات کم کر دے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتی رہے لیکن اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے یہ تمام کے تمام افراد اپنے اخراجات ایک فیصد بھی کم کرنے کو تیار نہیں، بلکہ وہ اس اضافے کے ثمرات سمیٹ لینے کے لیے مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں۔ اپوزیشن میں سے بھی کسی ایک شخص نے اس اضافے کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہیں کی۔ ویسے وہ حکومت کے ہر کام پر تنقید اور تنقیص کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ذاتی مفاد کے اس فیصلے پر وہ بھی خاموشی طاری کیے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس مہینوں میں بڑھتی مہنگائی کی شرح چھ فیصد تک لے آئی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ سمجھتی ہے کہ اس نے عام عوام کے لیے مہنگائی بہت کم کر دی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سوائے ایک آدھ چیز کے مہنگائی کسی اور شہ میں کم نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ مہنگائی کی روز افزوں شرح جو ایک سال پہلے تک تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے وہ اب چھ سات فیصد تک آگئی ہے۔
یعنی مہنگائی تو پھر بھی ہو رہی ہے۔ بے تحاشہ کے بجائے چھ سات فیصد ماہانہ کی شرح پر۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ عوام کو اس طرح کیا ریلیف ملا۔ اسے تو آج بھی اپنی اسی آمدنی سے چھ فیصد مزید مہنگی چیزیں خریدنی پڑ رہی ہے۔ بات تو جب تھی کہ جن اشیائے ضروریہ کے دام پہلے ہی بڑھ چکے تھے انھیں کم کیا جاتا۔ نہ کہ مزید چھ سات فیصد اضافہ کر کے عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے کیے جاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں وہ وہاں کے عوام کو ہمیشہ سستی اور ارزاں قیمتوں پر ملا کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔ یہاں ہر چیز چاہے وہ امپورٹ کی گئی ہو یا خود ہمارے یہاں پیدا ہوتی ہوں، بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق دستیاب ہونگی۔ گندم ، چاول اور چینی وافر مقدار میں ہمارے اپنے یہاں پیدا ہوتی ہے لیکن عوام کو وہ بھی ڈالرکی قیمت یا دوسرے ملکوں میں ملنے والی قیمت کے حساب سے مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر سستی ہونگی تو پھر ان اشیاء کی اسمگلنگ شروع ہو جائے گی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشی حوالے سے حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔
لانگ ٹرم منصوبے کیا ہیں۔ صرف وقتی علاج اور قرض حاصل کر کے خزانے کا وزن بڑھا دیا گیا ہے۔ پی آئی اے اور مالی بحران کے شکار کئی ادارے آج بھی قوم کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں۔ انھیں فروخت کرنے یا پرائیوٹائز کرنے میں سست روی دکھائی جا رہی ہے۔ دو تین برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ کئی ادارے نجی تحویل میں دیے جانے کا پروگرام ہے لیکن ایک ادارہ بھی آج تک فروخت نہیں کیا گیا۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اب اس حال میں پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی انھیں خریدنے والا نہیں۔ ملک میں پائی جانے والی معدنیات کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ انھیں نکالنے کے منصوبے ابھی تک محض کاغذوں پر موجود ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم چند مہینوں کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کر لینے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ذخائر جو دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے قائم ہیں، وہ اگر قائم نہ رہیں تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے صرف تسلیاں دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 months ago
Text
سلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائے
Tumblr media
چلیں جی اشرافیہ کو بالخصوص اور اہلِ وطن کو بالعموم آئی ایم ایف کا 24 واں سات ارب ڈالر کا قرض پیکج مبارک ہو۔ اس شبھ گھڑی میں وزیرِ اعظم برادرِ بزرگ چین، سعودی عرب، امارات نیز قرض کھینچ سرکاری ٹیم اور آرمی چیف کے بھرپور تعاون اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے۔ آپ نے حسبِ معمول یہ تکیہ کلام بھی دھرایا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، انشااللہ۔۔۔ آپ کی آواز میں اس شخص کا اعتماد پایا جاتا ہے جسے منت ترلے کے بعد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ آج کا دن ٹالنے کے لیے دو چار بھرواں سگریٹیں خریدتے وقت پُریقین انداز میں آس پاس والوں کو سنائے کہ ’اللہ رسول دی قسم آج دے بعد میں بالکل چھڈ دینی اے۔‘ اگلے تین سال کے لیے کارآمد مالیاتی ٹیکہ لگنے کے بعد ایک بار پھر پارلیمنٹ سے ’عدالتی اصلاحات کا آئینی پیکیج‘ منظور کروانے کی ایک اور بھرپور کوشش ہونے والی ہے اور لگتا ہے اس بار مطلوبہ ووٹ پورے ہو جائیں گے۔ آج بھی آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کا ترازو مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے مگر پچھلی عاجلانہ خِجالت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب ایک پلڑے میں آئینی پیکج اور دوسرے میں مولانا صاحب کی مرضی کے باٹ رکھ کے پارلیمانی ترازو برابر کیا جا رہا ہے۔ 
اس کا عندیہ جہاندیدہ مولانا کی رائے میں لچک سے بخوبی مل رہا ہے۔ (لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ مولانا کتنے کمال چمتکاری ہیں۔ اکتوبر سنہ 2007 کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو بارِ دگر منتخب کروانے کے بعد ہی انھوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑی تھی۔ پہلے ٹوٹ جاتی تو مشرف صاحب کو منتخب کرنے والا الیکٹورل کالج بھی ٹوٹ جاتا)۔ موجودہ چنتخب پارلیمنٹ ویسے بھی فارم 47 کے بارِ احسان تلے دبی پڑی ہے۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح پُراسرار نقاب پوشوں نے من چاہے انداز میں پکڑ دھکڑ کی ایک نئی مثال قائم کی اور پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری پر ٹوٹنے والے شب خون کو جس خندہ پیشانی سے سہا اس کے بعد سے فضا اس قدر سازگار ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیاراتی پر کُترنے کا اس سے بہتر موقع ملنا مشکل ہے۔ جس طرح جدید جنگوں میں حریف کو بے بس کرنے کے لیے پہلے جم کے بمباری کی جاتی ہے اس کے بعد پیادہ فوج آگے بڑھ کے مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتی ہے، اسی طرح پچھلے ایک برس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حرمت تار تار کر کے شہریوں کی نگاہ میں اس آئینی نگہبان کو بے وقعت بنانے کا کام زوروں پر ہے۔
Tumblr media
گذشتہ برس 90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کا عدالتی حکم جوتے کی نوک پر رکھا گیا۔ پھر الیکشن کمیشن نے ٹھینگا دکھانا شروع کیا اور اب ججوں اور عدالت کے اکثریتی فیصلوں کو بھی وزرا کی ٹیم، سوشل اور پروفیشنل میڈیا اور شاہراہوں پر اچانک لٹک جانے اور پھر غائب ہو جانے والے پُراسرار کردار کش بینروں کے ذریعے کُھلم کُھلا رد کرنا نیا معمول بن گیا ہے۔ خود عدالت کے اندر بھی سیندھ لگی ہوئی ہے۔ برادر ججز برادر ججوں کے فیصلوں کی صحت پر ایک دوسرے کا نام لے کر انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ بہت سے منصف طویل عرصے سے خود پر مسلسل پڑنے والے بالائے قانون دباؤ کی گوہار لگائے ہوئے ہیں مگر عدالتِ بزرگ ان کی تحریری شکایتوں پر بھی کوئی ٹھوس پیش رفت دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ وہ دن گئے جب ناپسندیدہ فیصلوں کے سامنے بھی وزیرِاعظم سر جھکا کے استعفیٰ دے دیتے تھے۔ کبھی ہوتا ہو گا فیصلہ سازوں کے دل و دماغ میں توہینِ عدالت کا خوف بھی۔ اب تو یہ سُننے کو ملتا ہے کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگرعدالت بھی اپنی حدود میں رہے۔
مگر اس سب میں نیا کیا ہے؟ اگر نئے آئینی پیکج کی شکل میں سپریم کورٹ کے متوازی آئینی عدالت بنا بھی دی گئی تو کیا قیامت آ جائے گی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی چیف کورٹ (سپریم کورٹ) کی سوتن تو کوئی متوازی عدالت نہیں تھی تو پھر انھوں نے تب کے طالع آزماؤں کو ’نظریۂ ضرورت‘ کی تلوار کیوں تھما دی جو آج تک آئین اور عدالت کی گردن سہلا رہی ہے۔ جسٹس انوار الحق، نسیم حسن شاہ، سجاد علی شاہ، سعید الزماں صدیقی، ارشاد حسن خان، افتخار چوہدری، عبدالحمید ڈوگر، جاوید اقبال، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، قاضی فائز عیسٰی۔ کس کس سنگِ میل کو ناپیں؟ رہا عام آدمی تو وہ اور اس کی رائے کبھی بھی بڑی گیم میں شامل ہی نہیں تھی۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے عضوِ معطل فرض کر کے یکسر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ خوف تو بہرحال رہتا ہی ہے کہ کسی دن روٹی اور انصاف کے متلاشی کروڑوں جوتیاں چٹخانے والے خدانخواستہ ایک ساتھ پھٹ ہی نہ پڑیں۔ (تاریخ غلاموں کی بغاوت کے واقعات سے بھری پڑی ہے)۔ 
چنانچہ اس غلام ابنِ غلام کو بھی روزمرہ کی کمرتوڑ معیشت کے شکنجے میں بُری طرح جکڑ دیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ چیخ تو سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی عدالت کبھی کبھار یہ چیخ سُن ہی لیتی تھی مگر اب اس چیخ کو دبانے کے لیے سائبر قوانین، فائر وال اور ڈیجیٹل دہشت گردی کے قلع قمع کے نام پر آنکھ، منہ، کان پر رنگارنگ ٹیپیں لگا کر عام شہری کے چہرے کو پارسل جیسا بنا دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل ٹرولی محلہ در محلہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ جن سخت جانوں کو اس طرح کے غولوں سے نہیں لرزایا جا سکتا اُن کے لیے قومی سلامتی، غداری اور فساد فی الارض کے کوڑوں کی شوں شاں کا تسلی بخش انتظام ہے۔ دیکھتے ہیں ایسا کب تلک چلے ہے۔
لگانا پڑتی ہے ڈبکی اُبھرنے سے پہلے غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
( پروین شاکر)
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
googlynewstv · 1 month ago
Text
سنچورین ٹیسٹ دلچسپ مرحلے میں داخل، جنوبی افریقا کی پاکستان کیخلاف دوسری اننگز میں بیٹنگ
پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان سنچورین ٹیسٹ کے چوتھا روز کے کھیل کا آغاز ہو گیا اور جنوبی افریقا کی اپنی دوسری نامکمل اننگز میں بیٹنگ جاری ہے۔ سنچورین میں کھیلے جا رہے ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقی ٹیم پاکستان کے 148رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہی ہے اور پروٹیز کو جیت کے لیے مزید 121رن درکار ہیں جبکہ پاکستان کو سنچورین ٹیسٹ میں کامیابی کے لیے 7 وکٹیں لینی ہیں۔ تیسرے دن کے اختتام تک جنوبی افریقا نے 3…
0 notes