#ہدف
Explore tagged Tumblr posts
Text
پہلا ٹی ٹوئنٹی ساؤتھ افریقہ نے پاکستان کو جیت کے لیے ہدف دے دیا
ڈربن(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان جاری پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پروٹیز نے پاکستان کو جیت کے لیے 184رنز کا ہدف دے دیا ۔ ساؤتھ افریقین بلے بازوں نے مقررہ 20اوورز میں9وکٹوں کے نقصان پر 183رنز بنائے۔ ڈربن میں شیڈول ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے میچ میں جنوبی افریقی کپتان ہینرک کلاسن نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ساؤتھ افریقہ کی بیٹنگ آغاز میں متاثر کن کھیل پیش کرنے میں…
0 notes
Text
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں جو
ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
بھلا دیا تو بھلانے کی انتہا کر دی
وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں کودا تو کیا ملا شاہدؔ
اسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
شاہد کبیر
6 notes
·
View notes
Text
ضبط کر
اے دلِ مجروح کہ اس دنیا میں
کونسا دل ہدف گردشِ ایام نہیں
غم محبوب و غم دہر و غم جاں کی قسم
ایسے بھی غم ہیں یہاں
جن کا کوئی نام نہیں
4 notes
·
View notes
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
صائم نےلارا کا31 سال پرانا منفرد ریکارڈ توڑ دیا
پاکستان کےبیٹر صائم ایوب نےویسٹ انڈیزکرکٹ ٹیم کےسابق کپتان ��رائن لارا کا 31 سال پرانا ایک منفرد ریکارڈ توڑ دیا۔ جنوبی افریقاکیخلاف پہلےون ڈےمیں بیٹرصائم ایوب نےشاندار سنچری اسکور کی۔3ون ڈےمیچز کی سیریزکاپہلا میچ جنوبی افریقا کےشہرپارل میں کھیلا گیا جس میں پاکستان نےمیزبان ٹیم کو3 وکٹوں سےشکست دی۔ جنوبی افریقاکے240 رنز کے ہدف کےتعاقب میں پاکستانی اوپنرصائم ایوب نے شاندار سنچری اسکور کی اور109رنز…
0 notes
Text
جمادی الثانیہ 3ھ/ نومبر 624ء میں نبی ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کی زیر قیادت 100افراد پر مشتمل ایک سریہ روانہ کیا جس کا ہدف قریش کا تجارتی قافلہ تھا۔
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر1216
وزیر اعلیٰ مریم نوازکی کسان دوست پالیسی کے ثمرات، پنجاب میں پہلی مرتبہ ربیع سیزن میں کھاد وافر دستیاب، نرخ بھی نیچے آگئے
پنجاب بھر میں گندم کی فصل کی ضرورت سے ڈی اے پی کھاد کا 30فیصد سے زائد سٹاک دستیاب،ڈی اے پی کھادکے نرخ میں 17فیصد کمی
صوبہ بھر میں یوریاکھادکا ربیع سیزن کی ضرورت سے 125فیصد زیادہ سٹاک موجود، پنجاب میں یوریاکھاد کے نرخ 25فیصد نیچے آ گئے
پنجاب بھر میں مقررہ ہدف ایک کروڑ 65لاکھ ایکڑ کے تحت بوائی کا 82فیصد ٹارگٹ مکمل، 10دسمبر تک گندم کی کاشت مکمل کر لی جائیگی
3لاکھ 26ہزارایکڑ سرکاری اراضی پربھی گندم کی کاشت، کاشتکاروں کی معاونت اور رہنمائی کیلئے 40ہزار یونیورسٹی ایگری گریجوایٹ انٹرنز فیلڈ میں موجود
وزیراعلی مریم نواز سکیم کے تحت گندم کے کاشتکاروں کومفت ایک ہزار گرین ٹریکٹر ز اور ایک ہزار لینڈ لیورلز کیلئے درخواستیں طلب
وزیراعلی مریم نوازکی زیر صدارت خصوصی اجلاس، صوبہ بھر میں گندم کی سٹوریج کیپسٹی بہتر بنانے کی ہدایت، وزیر زراعت اور ان کی ٹیم کو سراہا
لاہور26نومبر-:……وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے کسان دوستی کے ثمرات ظاہرہونا شروع ہوگئے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں گندم کی کاشت سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا اور بتایا گیا کہ پہلی مرتبہ پنجاب میں ربیع سیزن میں کھادوافر موجود ہے اورنرخ بھی نیچے آرہے ہیں۔ پنجاب بھر میں ڈی اے پی کھاد کا 30فیصد سے زائد سٹاک دستیاب ہے اور پہلی مرتبہ گندم کے سیزن میں ڈی اے پی کھادکے نرخ میں 17فیصد کمی ہوئی ہے۔ یوریاکھادکا ضرورت سے 125فیصد زیادہ سٹاک موجود ہے۔ پنجاب میں یوریاکھاد کے نرخ 25فیصد نیچے آ گئے۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں ایک کروڑ 65لاکھ ایکڑ پر گندم کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا جس کے تحت بوائی کا 82فیصد ٹارگٹ مکمل کر لیا گیا ہے اور 10دسمبر تک گندم کی کاشت مکمل کر لی جائے گی۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں 3لاکھ 26ہزارایکڑ سرکاری اراضی پربھی گندم کی کاشت کی جارہی ہے۔ گندم کے کاشتکاروں کی معاونت اور رہنمائی کے لئے ��وبہ بھرمیں 40ہزار یونیورسٹی ایگری گریجوایٹ انٹرنز فیلڈ میں موجود ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزیراعلی مریم نوازشریف کی سکیم کے تحت گندم کے کاشتکاروں کومفت ایک ہزار گرین ٹریکٹر ز اور ایک ہزار لینڈ لیورلز کے لئے درخواستیں طلب کی جارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے صوبہ بھر میں گندم کی سٹوریج کیپسٹی بہتر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے خصوصی اجلاس میں وزیر زراعت اور ان کی ٹیم کو سراہا۔ اجلاس میں سینیٹر پرویز رشید،وزیر زراعت عاشق حسین کرمانی، معاون خصوصی ثانیہ عاشق جبیں،چیف سیکرٹری،پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری زراعت، سیکرٹری فنانس اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 01 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: یکم نومبر ۴۲۰۲ء
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت؛ وزیرِ اعظم کا بیان۔
٭ ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 رائے دہندگان اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
٭ آج دیپوتسو کے دوران ہر طرف لکشمی پوجا؛ اسنیہہ ملن پروگراموں کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو NAAC کا A+ درجہ حاصل۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ آئندہ 25 سالوں میں ترقی یافتہ بھارت کا ہدف حاصل کرنے کیلئے قومی اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ انھوں نے علیحدگی پسند طاقتوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی ہے۔ وہ کل سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یومِ پیدائش کے موقع پر گجرات کے کیوڑیا میں قومی اتحاد دِن کے پروگرام سے خطاب کررہے تھے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 150 ویں یومِ پیدائش تقریب کل سے شروع ہوئی ہے اور ملک اگلے دو سالوں تک اس یومِ پیدائش کو منائے گا۔ قبل ازیں‘ انھوں نے ایکتا نگر میں پٹیل کے مجسمہئ اتحاد پر پھول چڑھائے اور شہریوں سے اتحاد کا عزم کیا۔ اس دوران اس یومِ یکجہتی پروگرام میں رائے گڑھ ضلع کے داخلی راستے کی نقل تیار کی گئی۔ اتحاد دِن کے پروگرام کے دوران وزیرِ اعظم نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی اور کچھ میں فوجیوں کے ساتھ دیوالی منائی۔ نئی دہلی میں صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو اور نائب صدرِ جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے پٹیل چوک میں سردار پٹیل کے مجسمہ کو ہار پہناکر خراجِ عقیدت پیش کیا۔
***** ***** *****
سابق وزیرِ اعظم اِندرا گاندھی کو ان کی برسی کے موقع پر ہر طرف خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ لوک سبھا میں قائد ِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے نئی دلّی میں ان کی سمادھی شکتی اِستھل پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
ریاست میں اور چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ہر طرف اندرا گاندھی اور سردار پٹیل کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
***** ***** *****
ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 9 کروڑ 70 لاکھ 25ہزار 119 رائے دہندگان اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 18 تا 19 سال کے زمرہ کے تقریباً 22 لاکھ 22 ہزار 704‘جبکہ عمر کے سو برس مکمل کرنے والے 47 ہزار 392 رائے دہندگان ہونے کی اطلاع چیف الیکشن کمیشن دفتر نے دی ہے۔
ریاست کے خدمات شعبہ کے تقریباً ایک لاکھ 16 ہزار 170 رائے دہندگان ہیں۔ یہ تمام رائے دہندوں کیلئے ایک لاکھ 186 رائے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں شہری علاقوں کے 42 ہزار 604‘ جبکہ دیہی علاقوں کے 57 ہزار 582 رائے دہی مراکز ہوں گے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں 27ہزار 964 معذور ووٹر اور 40 ہزار 577 ووٹر وہ ہیں جن کی عمر 85 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان ووٹرز کو فارم (12-D) پُرکرکے گھر سے ووٹ دینے کا اختیار منتخب کرنا ہے‘ ان میں سے 715 معذور اور 3537 معمر افراد نے گھر سے ووٹ دینے کا آپشن چنا ہے۔ ضلع میں دو ہزار 508 سروس ووٹر ہیں انھیں پوسٹل ووٹنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں مہایوتی میں بغاوت کرکے امیدواری پرچے بھرنے والے تمام افراد کو اعتماد میں لیکر ان کے ساتھ بات چیت کرکے پرچے واپس لینے کیلئے راضی کرنے کی کوشش مہایوتی کی تینوں ہی پارٹیوں کی جانب سے جاری ہے۔ کانگریس لیڈر روی راجا نے کل ممبئی میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بی جے پی لیڈر و نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے یہ اطلاع فراہم کی۔ روی راجا کا تقرر بی جے پی کے ممبئی نائب ضلع صدر کے طور پر کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع میں اس بار لوک سبھا کا ضمنی انتخاب اور اسمبلی کے عام انتخابات ہورہے ہیں۔ ضلع کے نو اسمبلی حلقوں میں ناندیڑ جنوب اور ناندیڑ شمال‘ لوہا‘ مکھیڑ‘ نائیگاؤں‘ بھوکر‘ حد گاؤں‘ کنوٹ‘ اور دیگلور شامل ہیں۔ لوک سبھا حلقہ چھ اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے‘ سوائے کنوٹ‘ حد گاؤں اور لوہا کے۔ ان چھ حلقوں کے ووٹروں کو لوک سبھا کے ضمنی انتخاب اور متعلقہ اسمبلی انتخابات کیلئے ایک ہی دِن دوبار ووٹ دینا ہوگا۔
***** ***** *****
ونچیت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر کو کل ان کی طبعیت بگڑنے پر پونے کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فی الحال ان کی حالت مستحکم ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ اگلے کچھ دِنوں تک انھیں طبّی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اس دوران ونچیت کی الیکشن تشہیر کی ذمہ داری آگھاڑی کی ریاستی صدر ریکھا ٹھاکر‘ الیکشن کوآرڈنیشن کمیٹی اور منشور کمیٹی کے پاس ہوگی۔
***** ***** *****
سامعین! اسمبلی انتخابات کے موقع پر ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھانچا“ پروگرام روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ آج کے پروگرام میں ناندیڑ ضلع کے اسمبلی حلقوں کا جائزہ پیش کیا جائیگا۔
***** ***** *****
دیپوتسو میں اہم مقام رکھنے والا لکشمی پوجا تہوار آج منایا جارہا ہے۔ صدرِ جمہوریہ دَرَوپدی مُرمو‘ نائب صدر جگدیپ دھنکڑ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہم وطنوں کو دیوالی کی مبارکباد دی ہے۔ آج شام لکشمی پوجا اشون اَماوَس پر گھر گھر روایتی طریقے سے کی جائیگی۔ اس پوجا کیلئے کنول سمیت مختلف قسم کے پھول‘ نذرانے کیلئے طرح طرح کے کیک، پوجا کیلئے ہار، لکشمی کو پیش کرنے کیلئے نیک نشانات کے ساتھ ساتھ دیگر سامان کی دُکانیں سج گئی ہیں اور عوام نے ان کی خریداری کیلئے بھیڑ لگا دی ہے۔
دیوالی کے موقع پر اسنیہہ ملن سمیت دیوالی کی صبح اور شام جیسے موسیقی پروگراموں کی ہر طرف ریل پیل ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ ان پروگراموں کو عام شائقین کی جانب سے بہتر پذیرائی مل رہی ہے۔ کل چھترپتی سمبھاجی نگر کے شاستری نگر ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے دیوالی کی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر مشہور گلوکارہ آشا کھاڑِلکر اور ویدشری کھاڑِلکر اوک کے گلوکاری کا پروگرام منعقد ہوا۔
***** ***** *****
مہاتماگاندھی مشن اور مراٹھواڑہ آرٹ‘ کلچر اینڈ فلم فاؤنڈیشن کی جانب سے ہر سال کی طرح کل بھی دیپوتسو پروگرام منعقد ہوا۔ ناندیڑ میں کل بندا گھاٹ پر دیوالی صبح پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ضلع کلکٹر ابھیجیت راؤت اور میونسپل کمشنر ڈاکٹر مہیش کمار ڈوئی پھوڑے موجود تھے۔ اس موقع پر کلکٹر نے لوک سبھا کے ضمنی اور اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کی۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کو نیشنل ایکریڈیٹیشن اینڈ کنسیشن کونسل-NAC کی جانب سے کل متوقع معیار کو پورا کرنے پر”اے پلس“ درجہ بندی دینے کا اعلان کیا گیا۔ اے پلس درجہ بندی حاصل ہونے پریونیورسٹی کے وائس چانسل�� ڈاکٹروجئے پھلاری نے کہا کہ مراٹھواڑہ میں بہوجن سماج کیلئے حصولِ تعلیم کے دروازے کھولنے والے بھارت رتن ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے افکار کی دولت اور وراثت کے ساتھ یونیورسٹی کی پیش رفت جاری ہے اور آنے والے سالوں میں سب کے تعاون سے یونیورسٹی کے تعلیمی معیار اور ساکھ کو بلند کرنے کی مخلصانہ کوشش جاری رکھی جائیگی۔
***** ***** *****
لاتور شہر اسمبلی حلقہ کے انتخابی اخراجات انسپکٹر کاکرالا پرسانت کمار نے کل ضلع کلکٹر دفتر میں مختلف انتخابی اخراجات سے متعلق دستوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہر افسر اور ملازم کو اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرنے اور تشہیری جلسوں، ریلیوں اور جلوسوں میں استعمال ہونے والے سامان و آلات باریک بینی سے اندراج کرنے کی ہدایات بھی دیں۔
***** ***** *****
بیڑ ضلع کے گیورائی اور ماجل گاؤں اسمبلی حلقوں کے انتخابی مبصر کے طور پر لالٹ پونی وہانگ چانگ نے اسٹرانگ روم کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ الیکشن ریٹرننگ آفیسر سندیپ کھومنے اور سنتوش روئیکر موجود تھے۔
***** ***** *****
0 notes
Text
آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ جنوبی افریقا نے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا
دبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن) آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ کےپہلےسیمی فائنل میں جنوبی افریقا نے آسٹریلیا کو 8 وکٹوں سے شکست دے دی۔ دبئی میں کھیلے گئے میچ میں جنوبی افریقا نے 135 رنز کا ہدف 17.2 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ انیک بوش ناقابل شکست 74 رنز اور لورا وولوارڈ 42 رنز کے ساتھ نمایاں رہیں۔قبل ازیں جنوبی افریقا نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا، آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے…
0 notes
Text
سلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائے
چلیں جی اشرافیہ کو بالخصوص اور اہلِ وطن کو بالعموم آئی ایم ایف کا 24 واں سات ارب ڈالر کا قرض پیکج مبارک ہو�� اس شبھ گھڑی میں وزیرِ اعظم برادرِ بزرگ چین، سعودی عرب، امارات نیز قرض کھینچ سرکاری ٹیم اور آرمی چیف کے بھرپور تعاون اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے۔ آپ نے حسبِ معمول یہ تکیہ کلام بھی دھرایا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، انشااللہ۔۔۔ آپ کی آواز میں اس شخص کا اعتماد پایا جاتا ہے جسے منت ترلے کے بعد اتنے پیسے مل جائیں کہ وہ آج کا دن ٹالنے کے لیے دو چار بھرواں سگریٹیں خریدتے وقت پُریقین انداز میں آس پاس والوں کو سنائے کہ ’اللہ رسول دی قسم آج دے بعد میں بالکل چھڈ دینی اے۔‘ اگلے تین سال کے لیے کارآمد مالیاتی ٹیکہ لگنے کے بعد ایک بار پھر پارلیمنٹ سے ’عدالتی اصلاحات کا آئینی پیکیج‘ منظور کروانے کی ایک اور بھرپور کوشش ہونے والی ہے اور لگتا ہے اس بار مطلوبہ ووٹ پورے ہو جائیں گے۔ آج بھی آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کا ترازو مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے مگر پچھلی عاجلانہ خِجالت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب ایک پلڑے میں آئینی پیکج اور دوسرے میں مولانا صاحب کی مرضی کے باٹ رکھ کے پارلیمانی ترازو برابر کیا جا رہا ہے۔
اس کا عندیہ جہاندیدہ مولانا کی رائے میں لچک سے بخوبی مل رہا ہے۔ (لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ مولانا کتنے کمال چمتکاری ہیں۔ اکتوبر سنہ 2007 کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو بارِ دگر منتخب کروانے کے بعد ہی انھوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑی تھی۔ پہلے ٹوٹ جاتی تو مشرف صاحب کو منتخب کرنے والا الیکٹورل کالج بھی ٹوٹ جاتا)۔ موجودہ چنتخب پارلیمنٹ ویسے بھی فارم 47 کے بارِ احسان تلے دبی پڑی ہے۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح پُراسرار نقاب پوشوں نے من چاہے انداز میں پکڑ دھکڑ کی ایک نئی مثال قائم کی اور پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری پر ٹوٹنے والے شب خون کو جس خندہ پیشانی سے سہا اس کے بعد سے فضا اس قدر سازگار ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیاراتی پر کُترنے کا اس سے بہتر موقع ملنا مشکل ہے۔ جس طرح جدید جنگوں میں حریف کو بے بس کرنے کے لیے پہلے جم کے بمباری کی جاتی ہے اس کے بعد پیادہ فوج آگے بڑھ کے مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتی ہے، اسی طرح پچھلے ایک برس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حرمت تار تار کر کے شہریوں کی نگاہ میں اس آئینی نگہبان کو بے وقعت بنانے کا کام زوروں پر ہے۔
گذشتہ برس 90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کا عدالتی حکم جوتے کی نوک پر رکھا گیا۔ پھر الیکشن کمیشن نے ٹھینگا دکھانا شروع کیا اور اب ججوں اور عدالت کے اکثریتی فیصلوں کو بھی وزرا کی ٹیم، سوشل اور پروفیشنل میڈیا اور شاہراہوں پر اچانک لٹک جانے اور پھر غائب ہو جانے والے پُراسرار کردار کش بینروں کے ذریعے کُھلم کُھلا رد کرنا نیا معمول بن گیا ہے۔ خود عدالت کے اندر بھی سیندھ لگی ہوئی ہے۔ برادر ججز برادر ججوں کے فیصلوں کی صحت پر ایک دوسرے کا نام لے کر انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ بہت سے منصف طویل عرصے سے خود پر مسلسل پڑنے والے بالائے قانون دباؤ کی گوہار لگائے ہوئے ہیں مگر عدالتِ بزرگ ان کی تحریری شکایتوں پر بھی کوئی ٹھوس پیش رفت دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ وہ دن گئے جب ناپسندیدہ فیصلوں کے سامنے بھی وزیرِاعظم سر جھکا کے استعفیٰ دے دیتے تھے۔ کبھی ہوتا ہو گا فیصلہ سازوں کے دل و دماغ میں توہینِ عدالت کا خوف بھی۔ اب تو یہ سُننے کو ملتا ہے کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگرعدالت بھی اپنی حدود میں رہے۔
مگر اس سب میں نیا کیا ہے؟ اگر نئے آئینی پیکج کی شکل میں سپریم کورٹ کے متوازی آئینی عدالت بنا بھی دی گئی تو کیا قیامت آ جائے گی۔ چیف جسٹس محمد منیر کی چیف کورٹ (سپریم کورٹ) کی سوتن تو کوئی متوازی عدالت نہیں تھی تو پھر انھوں نے تب کے طالع آزماؤں کو ’نظریۂ ضرورت‘ کی تلوار کیوں تھما دی جو آج تک آئین اور عدالت کی گردن سہلا رہی ہے۔ جسٹس انوار الحق، نسیم حسن شاہ، سجاد علی شاہ، سعید الزماں صدیقی، ارشاد حسن خان، افتخار چوہدری، عبدالحمید ڈوگر، جاوید اقبال، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، قاضی فائز عیسٰی۔ کس کس سنگِ میل کو ناپیں؟ رہا عام آدمی تو وہ اور اس کی رائے کبھی بھی بڑی گیم میں شامل ہی نہیں تھی۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے عضوِ معطل فرض کر کے یکسر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ خوف تو بہرحال رہتا ہی ہے کہ کسی دن روٹی اور انصاف کے متلاشی کروڑوں جوتیاں چٹخانے والے خدانخواستہ ایک ساتھ پھٹ ہی نہ پڑیں۔ (تاریخ غلاموں کی بغاوت کے واقعات سے بھری پڑی ہے)۔
چنانچہ اس غلام ابنِ غلام کو بھی رو��مرہ کی کمرتوڑ معیشت کے شکنجے میں بُری طرح جکڑ دیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ چیخ تو سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی عدالت کبھی کبھار یہ چیخ سُن ہی لیتی تھی مگر اب اس چیخ کو دبانے کے لیے سائبر قوانین، فائر وال اور ڈیجیٹل دہشت گردی کے قلع قمع کے نام پر آنکھ، منہ، کان پر رنگارنگ ٹیپیں لگا کر عام شہری کے چہرے کو پارسل جیسا بنا دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل ٹرولی محلہ در محلہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ جن سخت جانوں کو اس طرح کے غولوں سے نہیں لرزایا جا سکتا اُن کے لیے قومی سلامتی، غداری اور فساد فی الارض کے کوڑوں کی شوں شاں کا تسلی بخش انتظام ہے۔ دیکھتے ہیں ایسا کب تلک چلے ہے۔
لگانا پڑتی ہے ڈبکی اُبھرنے سے پہلے غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
( پروین شاکر)
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
کرکٹ کو نئی بلندیوں تک لے جانا اور نوجوان نسل کو متاثر کرنا ہدف ہے، آئی سی سی کے نئے چیئرمین جے شاہ کا پہلا بیان
دبئی(ڈیلی پاکستان آن لائن)انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) کے نئے چیئرمین جے شاہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ردعمل جاری کردیا۔سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے پیغام میں آئی سی سی کے نئے چیئرمین جے شاہ کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اپنے پیغام میں جے شاہ کا کہنا تھا کہ گراس روٹس سے لے کر بڑے ایونٹس تک کرکٹ کو مزید لوگوں تک…
#ائی#اور#بلندیوں#بیان#پہلا#تک#جانا#جے#چیئرمین#سی#شاہ#کا#کرکٹ#کرنا#کو#کے#لے#متاثر#نئی#نئے#نسل#نوجوان#ہدف#ہے
0 notes
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسک��ی ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں ��ا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
امریکہ نے کینیڈا کا ہدف چھکوں، چوکوں میں اڑا دیا: ’امریکہ پاکستان کے لیے خطرے کی علامت بن چکا ہے‘
http://dlvr.it/T7lkhJ
0 notes
Text
قرض سے چھٹکارا کب اور کیسے؟
پاکستانی عوام مہنگائی اور مشکلات کی جس چکی سے گزر رہے ہیں، وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے میں کسی بھی قسم کی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی معیشت اور عوام کی مشکلات کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں جن میں گڈ گورننس کی کمی، ترقیاتی ہدف کی جانب نیک نیتی سے پیش قدمی کا نہ ہونا، سیاسی ماحول میں تسلسل سے کھنچاؤ لیکن معاشی اعتبار سے ان سب کی جڑ دو اہم مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ان دونوں مسئلوں کا قابل عمل حل جب تک تلاش نہ کیا جائے گا نہ تو ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو گا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی فلاح و بہبود کی جانب بڑھ سکے گی اور یہ دو معاملات ہیں پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور بجلی کی مد میں کپیسٹی چارجز کی رقم، ان دونوں مسئلوں نے پاکستانی معیشت اور عوام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئیے ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان اس حوالے سے کس مشکل میں گرفتار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے اس مالی سال کے دوران 40 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔ اس ادائیگی میں قرض کی اصل رقم تو صرف آٹھ بلین ڈالر ہو گی جب کہ باقی 32 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے پاس آمدنی ہو یا نہ ہو اسے ہر حال میں 32 بلین ڈالر تو ادا کرنے ہی ہوں گے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہر سال ایک خطیر رقم قرض پر دیے جانے والے سود کی مد میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ادھر آئی پی پی سے پیدا ہونے والی بجلی کے مد میں ہمیں ساڑھے سات بلین ڈالر کپیسٹی پیمنٹ کے طور پر دینے ہیں۔ سالہا سال گزر جانے کے باوجود حکمرانوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ان معاملات کو حل کرنے کا عزم نظر آ رہا ہے۔ ہم کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی چین کی طرف، کبھی متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی مدد دے دیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار کون ہیں۔ ہم پر کتنا قرضہ ہے اور یہ کس طرح چڑھا ہے اور اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس بار یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت اور مقتدر قوتی ایسے اصلاحی اقدامات کریں جس سے ہم خیر کی راہ پر چل نکلیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہی “ڈھاک کے تین پات” … افسوس کہ “کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا” ۔ معاشی ماہرین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اشرافیہ عوام کو ہر ایشو پر دھوکے میں رکھ رہی ہے۔
حکومت سہانے خواب دکھاتی ہے کہ 10 بلین ڈالر فلاں جگہ سے آ رہے ہیں۔ 15 ملین ایک بین الاقوامی ادارہ امداد کے طور پر دے رہا ہے اور جب یہ رقوم آجائیں گی تو ہم خسارے پر بھی قابو پا لیں گے، کپیسٹی چارجزکا مسئلہ بھی حل کر لیں گے، سود کی قسط بھی ادا کر دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مہیا کر سکیں گے۔ یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور سوچے کہ میں اب محفوظ ہو گیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک خواب دکھانے کے مترادف ہے۔ حکمران اور سیاست دانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں، صرف ڈنگ ٹپاؤ کام ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال ایک پیچیدہ اور گنجلک جال بن چکا ہے۔ اس کا سرا نہ تو کوئی نیک نیتی سے پکڑنا چاہ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہے۔ اس ملک کے حکمران اپنی آنکھیں اور دماغ کیوں نہیں کھول رہے۔ پاکستان کی نسبت کم تر وسائل رکھنے والے ملک اور مشکلات سے گھری قوموں نے بھی منزل کو جانے والا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنی ہی صورت کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس من حیث القوم وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں نعرے بازی اور بیانیے کی جنگ کو چھوڑ کرملک اور قوم کی تعمیر کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہے۔ پاکستانی عوام کے دکھ درد کا مداوا کب ہو گا؟ اور کون کرے گا؟… یہ ہے وہ سوال جو پاکستان کے عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پہلا ٹی20،پاکستان نے زمبابوے کو 166رنزکاہدف دیدیا
پاکستان نے3 ٹی 20 میچز کی سیریزکےپہلےمیچ میں زمبابوے کوجیت کےلیے166 رنز کا ہدف دے دیا۔ پاکستان نے3 ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کےپہلےمیچ میں زمبابوےکے خلاف پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔پہلےبیٹنگ کرتےہوئے پاکستان نےمقررہ20 اوورزمیں 4وکٹوں پر 165 رنز بنائے۔ قومی ٹیم کی جانب سےعثمان خان اور طیب طاہر 39، 39 رنز بناکر نمایاں رہے جب کہ عرفان خان نے 27 رنز بنائے۔ سلمان علی آغا نے ایک سوال پر کہا کہ وہ پہلے…
0 notes