#کملا ہیرس
Explore tagged Tumblr posts
Text
امریکا کا عالمی موسمیاتی فنڈ میں 3 ارب ڈالر دینے کا اعلان
نائب صدر کملا ہیرس نے ہفتے کے روز اقوام متحدہ کی COP28 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ عالمی موسمیاتی فنڈ میں 3 بلین ڈالر کا تعاون کرے گا – جو 2014 کے بعد سے اس کا پہلا وعدہ ہے۔ ہیریس نے دبئی میں موسمیاتی سربراہی اجلاس کو بتایا، “آج، ہم عمل کے ذریعے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ دنیا اس بحران سے کیسے نمٹ سکتی ہے اور اسے ضرور پورا کرنا چاہیے۔” نئی رقم، جس کی امریکی کانگریس سے منظوری ضروری ہے،…
View On WordPress
0 notes
Text
ٹرمپ کے ’47 ویں‘ امریکی صدر بننے کی راہ میں کملا ہیرس کیسے رکاوٹ بن سکتی ہیں؟
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکا میں 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ موجودہ نائب امریکی صدر اور ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کو شکست دے کر امریکا کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ امریکا کے انتخابی قوانین کے مطابق کچھ دیگر مراحل کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکا کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ تاہم اس با ت کا خدشہ بھی موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 47 ویں صدر…
0 notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
کملا ہیرس کا حملہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیسے ناکام کیا؟ جیت کی چند اہم وجوہات
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ سابق صدر، جو پچھلا الیکشن ہار چکے تھے، دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی جیت کے کچھ اہم عوامل، جو مختلف سروے اور عوامی آراء سے سامنے آئے، درج ذیل ہیں: معیشت امریکی عوام نے معیشت کو انتخابی مہم میں اہم مسئلہ قرار دیا۔ بائیڈن کے دور میں معیشت میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو…
0 notes
Link
0 notes
Text
امریکی صدارتی الیکشن میں کملا آگے اور ڈونلڈ ٹرمپ ان سے پیچھے
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین کانٹے کا مقابلہ جاری ہے اور دونوں اطراف سے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں تاہم امریکی سیاسی پنڈت کملا ہیرس کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی شکست کے بعد امریکہ میں ان کے حامی تو پریشانی کا شکار ہونگے ہی تاہم ٹرمپ کی ناکامی کے بعد پاکستانی یوتھیوں کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھتی دکھائی دے رہی ہے جو ٹرمپ کی جیت کی صورت میں عمران…
0 notes
Text
روس نے ٹورنٹو کی میئر کملا ہیرس، مارک زکربرگ پر پابندیاں عائد کر دیں۔ روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
روس نے ٹورنٹو کی میئر کملا ہیرس، مارک زکربرگ پر پابندیاں عائد کر دیں۔ روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
پابندیوں کے تازہ ترین بیڑے میں مزید امریکی حکام، میڈیا شخصیات اور کینیڈا کے جان ٹوری اور ڈگ فورڈ شامل ہیں۔ روس نے تازہ جاری کیا ہے۔ انتقامی پابندیاںجس میں ریاستہائے متحدہ کی نائب صدر کملا ہیرس، فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ، اونٹاریو کے وزیر اعظم، ڈوگ فورڈ اور ٹورنٹو کے میئر جان ٹوری پر سفری پابندیاں شامل ہیں۔ جمعرات کو جاری کی گئی 29 امریکیوں اور 61 کینیڈینوں کی وسیع فہرست میں صدر جو بائیڈن اور…
View On WordPress
0 notes
Link
Kamala Harris’s love for BTS has ARMYs swooning: ‘Madam’s got taste! ’s love for BTS has ARMYs swooning: ‘Madam’s got taste!
1 note
·
View note
Text
جوبائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر صدر منتخب ہو گئے
امریکی صدارتی انتخابات میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر امریکا کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں. صدارتی انتخاب میں کام یابی کے بعد جو بائیڈن نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اہل امریکا میں اس عظیم ملک کی قیادت کرنے کے لیے اپنا انتخاب کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے مجھے چاہے ووٹ دیا ہو یا نہیں لیکن میں وعدہ کرتا ہوں آپ سب کا صدر بن کر دکھاؤں گا اور آپ نے مجھ پر جو اعتماد کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
America, I’m honored that you have chosen me to lead our great country. The work ahead of us will be hard, but I promise you this: I will be a President for all Americans — whether you voted for me or not. I will keep the faith that you have placed in me. pic.twitter.com/moA9qhmjn8 — Joe Biden (@JoeBiden) November 7, 2020
علاوہ ازیں امریکی خبر رساں ادار کے مطابق نو منتخب صدر امریکا جو بائیڈن کی وکٹری اسپیچ تیار کر لی گئی ہے اور وہ امریکی وقت کے مطابق شام 8 بجے قوم سے خطاب کریں گے۔ اس سے قبل خبر رساں ادارے کے مطابق ریاست پنسلونیا کے 20 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے کے بعد جو بائیڈن انتخاب میں کام یاب ہو چکے ہیں۔امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق جو بائیڈن جس ریاست میں پیدا ہوئے وہاں سے انہیں برتری حاصل ہو گئی اور انہیں پنسلونیا کے 20 الیکٹورل ووٹ مل گئے۔ اس طرح ان کے مجموعی الیکٹورل ووٹ کی تعداد 273 ہو چکی ہے جب کہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیواڈا میں بھی بائیڈن کامیاب ہو چکے ہیں اور ان کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 290 بتائی جارہی ہے۔ بائیڈن کو پاپولر ووٹ میں اپنے حریف صدر ٹرمپ پر 40 لاکھ ووٹوں سے زائد کی برتری بھی حاصل ہو گئی ہے اور ان کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 7 کروڑ 48 لاکھ سے تجاوز کر گئے ہے جب کہ مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہونا باقی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 7 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں تاہم ان کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد تاحال 214 ہی ہے۔ اس طرح صدارتی الیکشن کے فاتح جو بائیڈن نے امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا ہے۔
اس سے پہلے سب سے زیادہ ووٹس حاصل کرنے کا اعزاز سابق صدر اوباما کے پاس تھا۔ انہوں نے 2008 کے انتخاب میں 6 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس بار کورونا وبا کے باعث 6 کروڑ سے زائد ووٹ ڈاک کے ذریعے کاسٹ کیے گئے جن کی گنتی کی وجہ سے الیکشن نتیجے میں تاخیر ہوئی جب کہ اس بار امریکا میں گزشتہ 112 سال کے دوران سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صدر بننے کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ جوبائیڈن کی نائب صدارت کے لیے کام یاب ہونی والی کملا ہیرس بھی امریکی تاریخ کی پہلی خاتون اور سیاہ فام نائب صدر بن گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ 1992 کے بعد پہلے صدر ہیں جو اپنی دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے میں کام یاب نہیں ہو سکے۔ نتائج سامنے آنے کے بعد کملا ہیرس نے نو منتخب صدر کے ساتھ فون پر گفتگو کی ایک ویڈیو بھی ٹوئٹ کی جس میں وہ انہیں کہہ رہی ہیں ہم نے یہ کر دکھایا اور آپ امریکا کے اگلے صدر ہوں گے۔ یوں تو کانٹے دار مقابلے میں جوبائیڈن کو ہمیشہ ہی صدر ٹرمپ پر برتری حاصل رہی لیکن کسی بھی مرحلے پر یہ سبقت بہت زیادہ فرق سے نہیں رہی اور واضح نتائج سامنے آنے تک امریکا سمیت دنیا کی نظریں نتائج پر جمی رہیں۔ جب جوبائیڈن کو ٹرمپ پر صرف 20 الیکٹورل ووٹ کی سبقت حاصل تھی تو آخری 6 ریاستوں کے نتائج کے انتظار نے مقابلے کو مزید سنسنی خیز بنا دیا اور بالآخر پنسلوینیا سے کام یابی کے بعد بائیڈن نے صدارتی انتخاب میں کام یابی کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹس کا سنگ میل طے کر لیا۔
صدر ٹرمپ کا فتح کا اعلان، الزامات کا سلسلہ جاری اس سے قبل ہی صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ میں بھارتی اکثریت سے الیکشن جیت چکا ہوں۔ ٹوئٹر نے ان کی اس پوسٹ پر انتباہ چسپاں کر دیا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس پوسٹ میں فراہم کی گئی معلومات کی توثیق نہیں ہوتی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ پینسلوینیا میں ووٹوں کی گنتی کے دوران فراڈ کیا جا رہا ہے۔ ان ووٹوں کی وجہ سے پینسلوینیا اور دوسری ریاستوں میں نتائج بدلے گئے۔ پینسلوینیا میں غیرقانونی طورپرانتخابات کے دن رات آٹھ بجے کے بعد بڑی تعداد میں ووٹ وصول ہوئے۔ واضح رہے الیکشن مہم کے آغاز کے بعد سے ٹوئٹر کی جانب سے ٹرمپ کے 38 ٹوئٹس پر انتباہ جاری کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن میں مخالف جماعت ڈیموکریٹ پر ووٹس چوری کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا اور تین ریاستوں پینسلوینیا، مشی گن اور جارجیا میں گنتی کے دوران اپنے مبصرین کی غیر موجودگی پر گنتی کا عمل رکوانے اور ریاست وسکونسن کے لیے بھی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
امریکی نائب صدر ہیرس کا COVID-19 کا ٹیسٹ مثبت آگیا ایکسپریس ٹریبیون
امریکی نائب صدر ہیرس کا COVID-19 کا ٹیسٹ مثبت آگیا ایکسپریس ٹریبیون
واشنگٹن: منگل کو ان کے دفتر نے اعلان کیا کہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کووِڈ 19 کے لیے مثبت تجربہ کیا ہے۔ ترجمان کرسٹن ایلن نے ایک بیان میں کہا کہ ہیرس نائب صدر کی رہائش گاہ سے الگ تھلگ رہیں گے اور کام جاری رکھیں گے۔ ایلن نے مزید کہا کہ “وہ CDC کے رہنما خطوط اور اپنے معالجین کے مشورے پر عمل کریں گی۔ نائب صدر کے ٹیسٹ منفی آنے پر وہ وائٹ ہاؤس واپس آئیں گی۔” ہیریس کے دفتر نے کہا کہ ہیریس امریکی…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی جیت کےلیے بھارتی گاؤں میں پوجا
نئی دہلی (ویب ڈیسک) امریکی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی انتخابات میں کامیابی کےلیے بھارتی ریاست تامل ناڈو کے گاؤں تھولاسندرا پورم میں پوجا کی گئی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق امریکا کی صدارت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس مدمقابل ہیں۔ جلد ہی اس مقابلے کے نتائج سامنے آجائیں گے اور دونوں امیدواروں میں سے کوئی ایک امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہوجائے گا۔ لیکن بھارتی ریاست تامل ناڈو کے گاؤں کے رہائشی…
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ ��وجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ و�� اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت! بائیڈن حکومت کی فلسطین اور ایران پر پالیسی کملا ہیرس کو لے ڈوبی
یہ سب اس وقت ایک بڑی سیاسی بحث کا حصہ بن چکا ہے، اور کملا ہیرس کو اب ان پالیسیوں کے خمیازے کا سامنا ہے۔ اگرچہ بائیڈن حکومت نے فلسطین اور ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی، لیکن امریکی عوام کا ردعمل اور عالمی سطح پر ان پالیسیوں کی مخالفت کملا ہیرس کی انتخابی مہم کو مزید مشکل بنا گیا۔ آخرکار، کملا ہیرس کی انتخابی ناکامی ایک گہرے سیاسی پیغام کا اشارہ ہے کہ امریکی عوام کا ردعمل…
0 notes
Text
ٹرمپ یا کملا، بطور امریکی صدر پاکستان کے حق میں بہتر کون؟
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اب صرف چند گھنٹے ہی رہ گئے ہیں۔دنیا بھر کی نظریں واشنگٹن پر جمی ہوئی ہیں۔ وہیں پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس میں سے بطور امریکی صدر پاکستان کے حق میں کون بہتر ہو گا؟ مبصرین کے مطابق چین کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی گڈبک سے نکل چکا ہے، اب صدارتی الیکشن ٹرمپ جیتے یا کملا ہیرس امریکہ کی پاکستان…
0 notes
Text
وائٹ ہاؤس ہوم لون پر طبی قرض کے دو ٹوک اثر کو منتقل کرے گا | قرض کی خبریں۔
وائٹ ہاؤس ہوم لون پر طبی قرض کے دو ٹوک اثر کو منتقل کرے گا | قرض کی خبریں۔
قرض کی اہلیت میں اب وہ چیزیں شامل نہیں ہوں گی جو درخواست دہندگان بشمول سابق فوجیوں پر ماضی کی طبی خدمات کے لیے واجب الادا ہیں۔ کی طرف سے جسٹن سنک اور نینسی ککبلومبرگ 11 اپریل 2022 کو شائع ہوا۔11 اپریل 2022 نائب صدر کملا ہیرس طبی قرضوں میں جکڑے ہوئے امریکیوں کے لیے وفاقی ہوم لون کی لاگت کو کم کرنے اور سابق فوجیوں کے لیے قرضوں کی معافی کو آسان بنانے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کریں گی، وائٹ ہاؤس…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکی نائب صدر بھی اپنے ملک میں نسلی امتیاز سے محفوظ نہیں - اردو نیوز پیڈیا
امریکی نائب صدر بھی اپنے ملک میں نسلی امتیاز سے محفوظ نہیں – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین واشنگٹن: امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس نے شکوہ کیا ہے کہ اگر میں سفید فام ہوتیں تو میڈیا کا برتاؤ مختلف ہوتا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی نائب صدر کملا ہیرس نےمیڈیا کی جانب سے امتیازی سلوک برتنے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کوریج میں ان کے ساتھ ہونے والا سلوک سفید فام خاتون نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ نائب امریکی صدر نے مزید کہا کہ میں سفید فام اور مرد ہوتیں تو…
View On WordPress
0 notes