#کردہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی کا گورنرخیبرپختونخوا کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ جانےکا اعلان
(طیب سیف )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں نہ جانے کا اعلان کردیا۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن کے قیام، مسائل اور حقوق کےلیے اے پی سی بلائی ہے جو کہ کل پشاور میں ہوگی،صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اے پی سی میں نہ جانے کا اعلان کیا ہے اور سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ…
0 notes
Text
ہاں یاد ہے وہ وہ موسمِ دیوانہ گر مجھے
ہاں یاد ہے وہ آپ کی پہلی نظر مجھے
فکرِ بہار ہے نہ خزاں کا خطر مجھے
گُل چیں نے توڑا کِھلنے ہی سے پیشتر مجھے
ہر جا دکھائی دیتا ہے وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
قسمت سے مل گئی ہے تری رہگذر مجھے
ہاں ہاں خرامِ ناز سے پامال کر مجھے
سمجھا ہے کوئی پردہ کوئی پردہ در مجھے
پہچانتی ہے چشمِ حقیقت نگر مجھے
ہنستے تھے وصل میں در و دیوار میرے ساتھ
یا رو رہے ہیں دیکھ کے دیوار و در مجھے
حسرت بھری نگاہوں کی اللہ رے بے بسی
میں چارہ گر کو دیکھتا ہوں چارہ گر مجھے
محشر میں کون دے ترے جور و ستم کی داد
لا اب ہجوم حشر سے لا ڈھونڈ کر مجھے
ہے بوالہوس مذاقِ طبیعت جدا جدا
آساں جو تجھ کو ہے وہی دشوار تَر مجھے
گم کردہ راہ ہُوں میں جہت آشنا نہیں
لے کر چلے ہیں خضر نہ جانے کدھر مجھے
نیرنگِ حُسنِ یار نے دیوانہ کر دیا
ہوشِ بہار ہے نہ خزاں کی خبر مجھے
اب منحصر ہے تیرے سہارے پہ زندگی
تنہا نہ چھوڑ ہجر میں دردِ جگر مجھے
اوجھل ہے شام ہی سے رُخِ یار نزع میں
کیا دیکھنی نصیب نہ ہو گی سحر مجھے
اب دیکھتا ہے کیا مری تربت کو بار بار
پامال کرنے آیا ہے، پامال کر مجھے
(بیدم وارثی)
8 notes
·
View notes
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں جدوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گیا۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز
4 notes
·
View notes
Text
میرے حق میں کوئی دعا سائیں
بے رنگ ہوں رنگ چڑھا سائیں
میں کون ہوں کیا ہوں کیسی ہوں
میں کچھ بھی نہیں سمجھی سائیں
میری رات تو تھی تاریک بہت
میرا دن بھی بے نور ہوا سائیں
تھا چھید پیالے کے اندر
نہیں آنکھ میں اشک بچا سائیں
وہی تشنہ لبی وہی خستہ تنی
میرا حال نہیں بدلا سائیں
گم کردہ راہ مسافر ہوں
مجھے کوئی راہ دکھا سائیں
میرے دل میں نور ظہور کرے
میرے من میں دیا جلا سائیں
میری جھولی میں پھل پھول گریں
کوئی شاخ سبز ہلا سائیں
میرے تن کا صحرا مہک اٹھے
میری ریت پہ پھول اگا سائیں
مجھے لفظوں کی خیرات ملے
میرا ہو مضمون جدا سائیں
میرے دل میں تیرا درد رہے
ہو جائے دل دریا سائیں
کوئی نہیں فقیر میرے جیسا
کہاں دہر میں تجھ جیسی سائیں
میری آنکھ میں ایک ستارہ ہو
میرے ہاتھ میں گلدستہ سائیں
تیری جانب بڑھتی جاؤں میں
اور ختم نہ ہو رستہ سائیں
تیرے پھول مہکتے رہیں سدا
تیرا جلتا رہے دیا ساٸیں
2 notes
·
View notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗘𝗡𝗧𝗠𝗘𝗡𝗧:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
8️⃣0️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗘𝗡𝗧𝗠𝗘𝗡𝗧:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝗼𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗯𝘀𝗲𝗿𝘃𝗲𝗱, "𝗦𝘂𝗰𝗰𝗲𝘀𝘀𝗳𝘂𝗹 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗵𝗼𝗺 𝗚𝗼𝗱 𝗵𝗮𝘀 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝗱𝗲𝗱 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗮𝗰𝗰𝗼𝗿𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼 𝗵𝗶𝘀 𝗻𝗲𝗲𝗱𝘀, 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗲 𝗶𝘀 𝘀𝗮𝘁𝗶𝘀𝗳𝗶𝗲𝗱 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻."
(Sunan ibn Majah, Hadith No. 4138)
● It becomes clear from this observation that the secret of success lies in being content with what one has received instead of grieving over what one has not received.
● Whenever a person in the world tries to earn according to the right principles, he will earn enough to meet his needs.
● If he agrees to what he has earned, he will get the benefit in the form of peace of mind.
● But peace always comes from contentment, which means being satisfied with what one receives.
● On the contrary, a person who underestimates what he has received and keeps running towards what he did not have will never be satisfied.
● For there is no limit to things in the world, no matter how many things a person accumulates, there will still be something that he will be tempted to acquire.
● In that way, he will always be greedy for more and more.
● Consequently, he will live a life of restlessness until the day he dies.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
0️⃣8️⃣ قناعت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا: ’’کامیاب وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کے مطابق رزق دیا اور وہ اس رزق سے راضی ہو‘‘۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4138)
● اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی کا راز جو نہیں ملا اس پر غمگین ہونے کے بجائے اس پر راضی رہنے میں مضمر ہے۔
● دنیا میں جب بھی کوئی شخص صحیح اصولوں کے مطابق کمانے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اتنا کمائے گا۔
● اگر وہ اپنی کمائی پر راضی ہو جائے تو اسے ذہنی سکون کی صورت میں فائدہ ملے گا۔
● لیکن امن ہمیشہ قناعت سے حاصل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جو کچھ ملتا ہے اس سے مطمئن رہنا۔
● اس کے برعکس، جو شخص اپنے حاصل کردہ کو کم سمجھتا ہے اور جو اس کے پاس نہیں تھا اس کی طرف دوڑتا رہتا ہے، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوگا۔
● اس لیے کہ دنیا میں چیزوں کی کوئی حد نہیں، انسان کتنی ہی چیزیں جمع کر لے، پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا جسے حاصل کرنے کے لیے اسے آزمایا جائے گا۔
● اس طرح وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کا لالچی رہے گا۔
● چنانچہ وہ مرنے کے دن تک بے سکونی کی زندگی بسر کرے گا۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
8️⃣0️⃣ संतोष:
पैगम्बरे इस्लामﷺ ने एक बार कहा था, "सफल वह व्यक्ति है जिसे अल्लाह ने उसकी आवश्यकताओं के अनुसार ��ीविका प्रदान की है और वह उस प्रावधान से संतुष्ट है।"
(सुनन इब्न माजाह, हदीस नंबर 4138)
● इस अवलोकन से यह स्पष्ट हो जाता है कि सफलता का रहस्य, जो मिला है उससे संतुष्ट रहने में निहित है, न कि जो नहीं मिला है उस पर दुखी होने में।
● दुनिया में जब भी कोई व्यक्ति सही सिद्धांतों के अनुसार कमाने की कोशिश करता है, तो वह अपनी जरूरतों को पूरा करने के लिए पर्याप्त कमा लेता है।
● यदि वह अपनी कमाई से सहमत हो जाए तो उसे मानसिक शांति के रूप में लाभ मिलेगा।
● लेकिन शांति हमेशा संतोष से आती है, जिसका अर्थ है कि जो मिलता है, उससे संतुष्ट रहना।
● इसके विपरीत, जो व्यक्ति अपने पास जो कुछ है उसे कम आंकता है तथा जो उसके पास नहीं है उसकी ओर भागता रहता है, वह कभी संतुष्ट नहीं हो सकता।
● क्योंकि संसार में वस्तुओं की कोई सीमा नहीं है, चाहे कोई व्यक्ति कितनी भी वस्तुएं एकत्रित कर ले, फिर भी कुछ न कुछ ऐसा अवश्य होगा जिसे प्राप्त करने का उसे प्रलोभन होगा।
● इस तरह, वह हमेशा अधिक से अधिक पाने का लालची रहेगा।
● परिणामस्वरूप, वह मरते दम तक बेचैनी का जीवन जीएगा।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
2 notes
·
View notes
Text
شعور کے سارے رنگ تمہارے عطا کردہ ہیں ایک شخص جو کتابوں کے صفحات کی خوشبو نہیں جانتا وہ اک "خوبصورت حصار" سے محروم ہے۔
All the colors of consciousness are bestowed by you. A person who does not know the fragrance of pages of books is deprived of a "beautiful fence"
(Farid Ahmad Farid)
52 notes
·
View notes
Text
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اما بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم اشکال جواب
📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍📍👇👇
👈اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کا حکم
وَمَنْ لَمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰئِكَ ھُمُ الکٰفِرُوْنَ.
’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ سے حکم نہیں کرتے دراصل وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘ ( المائدہ۔۔۔۔۔۔۔44.......
شیخ سلیمان بن ناصر العلوان اپنے کتاب
( التبیان بشرح نواقض الاسلام ) میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:
قال شيخ الإسلام في الاقتضاء [1/208]: (وفرق بين الكفر المُعرف باللام كما في قوله صلى الله عليه وسلم ((ليس بين العبد وبين الكفر أو الشرك إلاَّ ترك الصلاة))، وبين كفر منكر في الإثبات) أ.هـ
شیخ الاسلام رحمہ ﷲ اقتضاء میں لکھتے ہیں۔۔۔1/208
کہ الف لام کے ساتھ ’’ الکفر ‘‘ اور بغیر الف لام ’’ کفر ‘‘ میں فرق ہے الف لام کے ساتھ حدیث میں مستعمل ہے (( لیس بین العبد وبین الکفر او الشرك الا ترك الصلوٰة وبین کفر منکر فی الاثبات )) .’’ کہ کفر یا شرک اور بندے کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنے کا ہے اور منکر کے درمیان صرف اثبات کا ہے
فالكفر المعرف بالألف واللام لا يحتمل في الغالب إلاَّ الأكبر، كقوله تعالى: {فأولئك هم الكافرون} فيمن حكم بغير ما أنزل الله.
کفر کا لفظ جب الف لام کے ساتھ مستعمل ہو تو اکثر اس سے مراد بڑا کفر لیا جاتا ہے جیسا کہ ﷲ رب العالمین نے فرمایا ان لوگوں کے بارے میں جو قرآن کے بغیر اپنے فیصلے نمٹاتے ہیں (( فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکٰفِرُوْن )) کہ یہ لوگ سب سے بڑے کافر ہیں
وما جاء عن ابن عباس رضي الله عنه من قوله: (كفر دون كفر) فلا يثبت عنه فقد رواه الحاكم في مستدركه (2/313) من طريق هشام بن حجير عن طاوس عن ابن عباس به وهشام ضعفه أحمد ويحيى، وقد خولف فيه أيضاً
اور جو قول ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے منسوب ہے کہ (کفر دون کفر ) تو یہ قول ان سے ثابت نہیں ہے ، اس قول کو نقل کیا ہے حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2/313)۔۔۔۔۔۔۔
اس سند سے ہشام بن حجیر عن طاؤوس اس سند میں ہشام کو احمد رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے
، اور اس میں اور جگہ بھی اختلاف کیا گیا ہے۔
فرواه عبد الرزاق في تفسيره عن معمر عن ابن طاوس عن أبيه قال: سئل ابن عباس عن قوله تعالى: {ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون} قال: هي كفر، وهذا هو المحفوظ عن ابن عباس أي أن الآية على إطلاقها، وإطلاق الآية يدل على أن المراد بالكفر هو الأكبر
اس کو روایت کیا ہے عبد الرزاق نے اپنی تفسیر میں معمر عن ابن طاؤوس عن ابیه وہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے اس آیات کے بارے میں پوچھا گیا
(( وَمَنْ لَمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰئِكَ ھُمُ الکٰفِرُوْنَ )) جو قرآن کے مطابق فیصلے نہیں کرتے یہی لوگ کافر ہیں ، ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے کہا ( ھی کفر ) کہ یہ کفر ہے اور یہ قول ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے ثابت ہے کہ یہ آیت اس بات پر مطلق ہے کہ (( الکفر )) سے مراد سب سے بڑا کفر ہے۔
إذ كيف يقال بإسلام من نحى الشرع واعتاض عنه بآراء اليهود والنصارى وأشباههم. فهذا مع كونه تبديلاً للدين المنزل هو إعراض أيضاً عن الشرع المطهر، وهذا كفر
آخر مستقل
تو ایسے شخص کو کیسے مسلمان کہہ سکتے ہیں جو کہ شریعت سے کنارہ کشی اختیار کرے اور یہود ونصاریٰ وغیرہ کی آراء کا پابند ہو۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ دین میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے بلکہ ایک صاف ستھرے دین سے اعراض کرنے کا بھی سبب بنتی ہے تو یہ اپنی جگہ ایک مستقل کفر ہے۔
وأما ما رواه ابن جرير في تفسيره عن ابن عباس أنه قال: (ليس كمن كفر بالله واليوم الآخر وبكذا وبكذا) فليس مُراده أن الحكم بغير ما أنزل الله كفر دون كفر، ومن فهم هذا فعليه الدليل وإقامة البرهان على زعمه
اور جو قول ابن جریر رحمہ ﷲ نے اپنی تفسیر میں ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے نقل کیا ہے۔ کہ ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے کہا تھا (( لیس کمن کفر بالله والیوم الاخر وهکذ ا وهکذا)) ’’ کہ وہ شخص اس طرح کا کافر نہیں ہے جس طرح ایک شخص آخرت وغیرہ کا کافر ہو۔‘‘ اس بات سے مراد یہ نہیں ہے کہ قرآن کے بغیر اپنے فیصلے طے کرنا کفر ہے لیکن کفر کے مرتبہ سے ذرا کم ہے اور جو شخص یہ گمان کرتا ہے تو اس کو اپنے بات پر دلیل لانی چاہیے۔
والظاهر من كلامه أنه يعني أن الكفر الأكبر مراتب متفاوتة بعضها أشد من بعض، فكفر من كفر بالله وملائكته واليوم الآخر أشد من كفر الحاكم بغير ما أنزل الله.
حالانکہ مذکورہ قول کا مطلب یہ ہے کہ کفر اکبر کے کچھ مرتبے ہیں ان میں سے کچھ سخت ہے دیگر پر یعنی جس طرح ﷲ آخرت اور فرشتوں کا انکاری بڑا کافر ہے اس شخص سے جو فیصلے قرآن کی روشنی میں نہیں کرتا۔
ونحن نقول أيضاً: إن كفر الحاكم بغير ما أنزل الله أخف من كفر من كفر بالله وملائكته.. ولا يعني هذا أن الحاكم مسلم وأن كفره كفر أصغر، كلا بل هو خارج عن الدين لتنحيته الشرع، وقد نقل ابن كثير الإجماع على هذا، فأنظر البداية والنهاية [13/119])
اور ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ قرآن کے بغیر فیصلے کرنا چھوٹا کفر ہے بنسبت اس شخص کے جو ﷲ ، فرشتوں ، اور آخرت کا انکاری ہو ، اس کا مطلب یہ نہیں ہیں کہ ایک مسلمان حاکم ہو اور اس کا چھوٹا کفر ہو بلکہ حق سے کنارہ کشی کی بنیاد پر دین سے خارج ہے ابن کثیر رحمہ ﷲ نے اس بات پر اجماع بھی ذکر کیا ہے دیکھیے البدایة والنہایة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔13/119 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے ��علقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
سندھ ہائیکورٹ:ججز کی13 اسامیوں پرتعیناتیوں کیلئے سیاسی وابستگی کا انکشاف
سندھ ہائیکورٹ کے 13 ججز کی تقرری پر 46 نامزدگیاں زیر غور ہیں جن کے نام جوڈیشل کمیشن میں پیش کردیے گئے ہیں تاہم ججز کے نامزدگیوں پر سیاسی وابستگی کا انکشاف ہوا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں پیش ہونیوالےناموں میں سیاسی اور پارلیمانی شخصیات سے قربت رکھنےوالےافراد کے نام شامل ہیں۔ جوڈیشل کمیشن میں جمع کردہ ناموں کی فہرست کےمطابق میران محمد شاہ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کے بھائی ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن)کے…
0 notes
Text
کمشنر لاہور زید بن مقصود کی زیر صدارت ڈویژنل ماحولیات کمیٹی کا اجلاس۔این او سی ز کیسز کا جائزہ
کمشنر لاہور سے منظوری کیلیے ماحولیاتی کمیٹی نے پوری ڈویژن کے 30 کیسز پیش کیے
کمشنر لاہور زید بن مقصود نے 10 کیسز کو ماحولیاتی این او سیز جاری کرنے کی منظوری دی
ماحولیاتی کمیٹی نے 14 کیسز و نامکمل ہونے پر مسترد کردئیے۔6کیسز کو ملتوی کیا گیا۔
کمشنرلاہور کی زیر صدارت کمیٹی این او سیز اجراء کیلئے باقاعدگی سے ہفتہ وار اجلاس میں کیسز کا جائزہ لیتی ہے
کمشنر لاہورزید بن مقصود کی زیر صدارت کمیٹی نے پیش کردہ کل 30 این او سی اجراء درخواستوں کا تفصیلا جائزہ لیا
16 این او سی اجراء درخواستوں کو نان کمرشیلائزیشن سرٹیفکیٹ اور نان ہائٹ سرٹیفکیٹ نہ ہونے پر ملتوی/مسترد کیا گیا
این او ئس ز کیلئے تمام درخواستوں پر کمیٹی نے بریفنگ دی۔فائلوں کا ریکارڈ پیش کیا
کاروبار کے فروغ،ایز آف بزنس ڈوئنگ اصول پر این او سی اجراء کیلئے باقاعدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
۔حکومت پنجاب کا تحفظ ماحولیات پر فوکس ہے۔این او سی کیلئے مکمل فائل پر تاخیر نہیں ہے۔۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
کمشنر لاہور کی زیر صدارت کمیٹی نے کمرشل عمارت۔اپارٹمنٹ۔پولٹری فارمز۔پٹرول پمپس اور ویر ہاسز کیلئے این او سی ز کا جائزہ لیا
0 notes
Text
صدر نے سوسائٹی ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیئے
صدر مملکت آصف علی زرداری نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیےاسلام آباد: صدر پاکستان آصف علی زرداری نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق، اس قانون کے تحت…
0 notes
Text
اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ 4 قراردادیں منظور
(24نیوز)اقوام متحدہ(یو این) میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ 4 قراردادیں منظور ہوگئیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اقوام متحدہ کی فرسٹ کمیٹی نے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی 4 قراردادیں منظور کیں،اقوام متحدہ کی فرسٹ کمیٹی نے پاکستان کی پیش کردہ علاقائی تخفیف اسلحہ اور علاقائی و ذیلی علاقائی تناظر میں اعتماد سازی کے اقدامات پر قرار داد منظور کی، پاکستان کی علاقائی اور ذیلی علاقائی سطح پر روایتی…
0 notes
Text
کسی سے کوئی شکوہ ہے نہ دل میں کوئی نفرت ہے
ملے ہو تم مجھے جب سے یہ دنیا خوبصورت ہے
ہماری بن نہیں سکتی کبھی شیخ و برہمن سے
گنہ وہ جس کو کہتے ہیں وہی اپنی عبادت ہے
کہاں موقع ملا مجھ کو تمہارے ساتھ رہنے کا
سفر میں مل گئے طرزی تو یہ سمجھا سعادت ہے
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈک
اشارہ اور ہی کچھ ہے غزل کی یہ نزاکت ہے
تمہاری ہر ادا کو جانتا پہچانتا ہوں میں
خموشی ہے اگر لب پر تو یہ میری شرافت ہے
ہمارا کچھ نہیں دل تھا وہ کب کا دے دیا تجھ کو
ذہانت تھی بس اک دولت وہ بھی تیری امانت ہے
تمہارے حسن روز افزوں میں میرا بھی تو حصہ ہے
میرا حصہ مجھے دے دو، نہ دوگے تو خیانت ہے
یہ کیسی دوستی ہے دوستوں کو تشنہ رکھتے ہو
بڑھی جو تشنگی حد سے تو اعلانِ بغاوت ہے
جگر کا خون ہوتا ہے تو پھر اشعار بنتے ہیں
جگر سوزی و خوں ریزی میں ہی سچی حلاوت ہے
تمہارے مکر و سازش نے دکھایا ہے مجھے رستہ
ترے جور و ستم سے ہی میری دنیا سلامت ہے
جو نکلے خون کے قطرے چھلک کر میری آنکھوں سے
یہ خود کردہ گناہوں پر بہے اشکِ ندامت ہے
تو اپنی قدر کر ناداں تجھے نائب بنایا ہے
تری قسمت میں دنیا کی قیادت اور امامت ہے
سناتے ہیں میاں محمودؔ اب تو آپ بیتی ہی
بظاہر داستانِ غم بباطن اک حکایت ہے
- محمود عالم
2 notes
·
View notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آ�� جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
بہ فیض قائد اعظم
ناصر زیدی
ہم وہ ہیں جن کی روایات سلف کے آگے
چڑھتے سورج تھے نگوں
قیصر و کسریٰ تھے زبوں
گردش وقت سے اک ایسا زمانہ آیا
ہم نگوں سار و زبوں حال و پراگندہ ہوئے
سال ہا سال کی اس صورت حالات کے بعد
ایک انسان اٹھا ایسا کہ جس نے بڑھ کر
عزم و ہمت کا شجاعت کا چلن عام کیا
اور برسوں کی غلامی کے شکنجوں میں کسے
راہ گم کردہ بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
لفظ آزادیٔ جمہور سے آگاہ کیا
اک نئے دور درخشندہ کا پیغام دیا
قافلے بڑھتے رہے بڑھتے رہے بڑھتے رہے
سورج آزادئ انساں کے یوں ہی چڑھتے رہے
ہم کہ واقف تھے روایات سلف سے اپنی
ڈٹ گئے نظم وطن کی خاطر
عزم و ہمت سے شجاعت سے نیا کام لیا
اور قاعد کے اصولوں کا چلن عام کیا
آج ہم پھر وہی مردان جری ہیں کہ جو تھے
0 notes
Text
169- مالا از نمرا احمد
صنف: فکشن، ناول سن اشاعت:2024 ناشر: کتاب گھر مالا، نمرا احمد صاحبہ کا تحریر کردہ تازہ ترین ناول ہے۔ ہم کتابستان میں گاہے بہ گاہے ان کے ناولوں کا تعارف اور ان کے متعلق اپنی رائے پیش کرتے رہے ہیں جن کا لنک آپ کو اس بلاگ کے اختتام پہ مل جائے گا۔ نمرا احمد ان چند مصنفین میں شامل ہیں جن کے لکھے ہوئے تقریباً تمام ناولوں کا ہم نے مطالعہ کیا ہے ۔ یہ ان کے کام کی انفرادیت ہے جو ہمیں ان کی تحریروں کو…
View On WordPress
0 notes