#پارٹیز
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی کا گورنرخیبرپختونخوا کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ جانےکا اعلان
(طیب سیف )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں نہ جانے کا اعلان کردیا۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن کے قیام، مسائل اور حقوق کےلیے اے پی سی بلائی ہے جو کہ کل پشاور میں ہوگی،صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اے پی سی میں نہ جانے کا اعلان کیا ہے اور سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ…
0 notes
Text
ایکس (ٹوئٹر) کا صارفین کا ڈیٹا تھرڈ پارٹیز کو فراہم کرنیکا فیصلہ
سان فرانسسکو(ڈیلی پاکستان آن لائن)سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) نے نئی ��رائیویسی پالیسی تیار کرلی ہے جس کا اطلاق 15 نومبر 2024 سے ہو رہا ہے۔ ایلون مسک کے زیر ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی پرائیویسی پالیسی صارفین کی پرائیویسی کے لیے زیادہ اچھی نہیں۔کمپنی نے اس پرائیویسی پالیسی کو آن لائن بھی جاری کر دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت سوشل میڈیا کمپنی تھرڈ پارٹیز کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا آرٹی فیشل…
0 notes
Text
اپوزیشن اتحاد کی اخترمینگل کو آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کی دعوت
اپوزیشن اتحاد کی بی این پی سربراہ اخترمینگل سے ملاقات ختم،اپوزیشن اتحاد نےاختر مینگل کو آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دیدی۔ اپوزیشن اتحاد نے اختر مینگل کو آل پارٹیز کانفرنس سے متعلق اعتماد میں لیا۔ اخترمینگل نے کہاکہ اپوزیشن ملاقات نے آل پارٹیز کانفرنس سے متعلق گفتگو کی ہے،اپوزیشن اتحاد سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں،بلوچستان کی صورتحال کشیدہ ہے۔ملکی صورتحال کے پیش نظر سنجیدہ فیصلے کرنے…
0 notes
Text
شہید حکیم محمد سعید … یادیں اور باتیں
کتاب ’’شہید حکیم محمد سعید…. یادیں اور باتیں‘‘ میں سعدیہ راشد ’’ابا جان‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ’’یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔‘‘ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔‘‘
سعدیہ لکھتی ہیں ’’ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ’’مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھ��ٹہ اور کم کرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے، ’’نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔
اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔‘‘ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔
زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔ ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہو گئے۔‘‘
رفیع الزمان زبیری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس کو اہم کیوں نہیں سمجھتی؟
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی عدم استحکام کی بدستور موجودگی کے باوجود سیاسی رہنما مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے سے معترض ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے جس کی تاحال نئی تاریخ نہیں دی گئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔ حکومتی اتحاد میں پہلے ہی 11 جماعتیں شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن میں…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس کو اہم کیوں نہیں سمجھتی؟
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی عدم استحکام کی بدستور موجودگی کے باوجود سیاسی رہنما مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے سے معترض ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے جس کی تاحال نئی تاریخ نہیں دی گئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔ حکومتی اتحاد میں پہلے ہی 11 جماعتیں شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن میں…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس کو اہم کیوں نہیں سمجھتی؟
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی عدم استحکام کی بدستور موجودگی کے باوجود سیاسی رہنما مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے سے معترض ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے جس کی تاحال نئی تاریخ نہیں دی گئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔ حکومتی اتحاد میں پہلے ہی 11 جماعتیں شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن میں…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا حکومت کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر غور
اے پی سی میں شرکت کے لیے پارتی نمائندہ منتخب کرنے کے لیے چوہدری شجاعت نے عمران خان کو مشورہ دیدیا (فوٹو فائل) لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کی جانب سے دعوت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر غور شروع کردیا ہے۔ یہ خبر بھی پڑھیں: عمران خان حکومتی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے، اسد عمر ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے اے پی سی میں شرکت کے لیے شیخ رشید احمد اور اعظم سواتی کو…
View On WordPress
0 notes
Photo
آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف کی جگہ شرکت کون کرے گا ؟نام سامنے آگیا لاہور (آن لائن) کرونا وائرس کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بلائی جانیوالی آل پارٹیز ویڈیو کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف شرکت نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے اس اقدام پر شہباز شریف نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے۔ جبکہ شہباز شریف کی جگہ سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق شرکت کریں گے۔ The post آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف کی جگہ شرکت کون کرے گا ؟نام سامنے آگیا appeared first on JavedCh.Com.
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا گورنر خیبر پختونخوا کیجانب سےمنعقدآل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کااعلان
(طیب سیف)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات کے مطابق فیصلہ مظلوم، نہتے اور پرامن شہریوں کے قتلِ عام میں خاموش سہولتکاری کرنے اور سیاسی اجرت کے عوض قاتلوں کی ہمنوائی کے پیشِ نظر کیا گیا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف پر پابندی کے…
0 notes
Text
آپریشن عزم استحکام پرآل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ
وزیراعظم شہبازشریف نے بیرون ملک سے وطن واپسی پر آپریشن عزم استحکام کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیراعظم شہبازشریف عزم استحکام آپریشن کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے ۔مشاورت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کااعلان ہوگا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل شہبازشریف کی زیرصدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی ۔ تحریک انصاف کی جانب سے آپریشن عزم…
0 notes
Text
عمران خان کا سیاسی سکور کارڈ
پاکستان کے لاکھوں لوگ اب بھی عمران خان پر یقین رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں موجودہ سیاسی شخصیات میں سب سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن سوال پھر بھی یہی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان سیاسی قیادت کا موقع فی الحال گنوا چکے ہیں یا وہ کسی نہ کسی صورت میں اگلے الیکشن میں پارلیمان میں واپس آ سکتے ہیں؟ ان کا فی الحال اگلے وزیراعظم بننے کا بظاہر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نو مئی کے بعد عمران خان پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ان مشکلات کا براہ راست اثر عمران خان کی پارلیمانی سیاست پر ہو گا۔ وہ ذاتی طور پر جتنے بھی پرعزم اور غیرمتزلزل دکھائی دیں، ان مشکلات سے عمران خان کی پارلیمانی سیاست یقیناً کمزور پڑے گی۔ سیاسی رہنما انفرادی طور پر جتنا بھی مقبول ہو پارلیمانی سیاست کی کامیابی کا دارومدار ایک مربوط سیاسی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ہونے کی صورت میں سیاسی حکمت عملی اور سیاسی ڈھانچہ ایک ثانوی حی��یت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا مسلم لیگ ن پیدائش کے وقت، اس کے بعد مسلم لیگ قاف، پھر کسی حد تک پاکستان تحریک انصاف 2013 اور 2018 میں ان جماعتوں کو جب اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملا تو سیاسی ڈھانچے اور حکمت عملی کا بھی کچھ' انتظام' ہو ہی گیا-
جب اسٹیبلشمنٹ کے آپ منظور نظر ہو تو پھر مقابلہ ہی کیسا؟ جو لاڈلا ہو تو جیسے پی ٹی آئی کے موجودہ صدر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ آپ کے ڈائپر بھی بدلتی ہے۔‘ گود لی ہوئی پارٹیز کو کسی حقیقی سیاسی اکھاڑے میں اترنا نہیں پڑتا- معاملات اب پی ٹی آئی کے لیے بہت مختلف ہیں۔ یہ نیا سیاسی سفر جس کا آغاز قریب 2021 کے آخر میں شروع ہوا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے ایک حقیقی سیاسی مقابلے کا سفر ہے۔ حقیقی آزادی آج کی ��ات ہے اور اس کے خدوخال کی بھی تشریح کرنا مشکل ہے۔ ہاں نعرہ بازی خوب ہے اور جذبہ جنون بھی خوب سے خوب تر رہا، لیکن معاملہ سنجیدہ پی ٹی آئی کے لیے تب ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے پاور پلے کے اکھاڑے میں اتر کر ایک قسم کا اعلان جنگ کر دیا۔ عمران خان کچھ تذبذب کا شکار ہیں اور کچھ سوچ میں تضاد کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ مثلا جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھتے اور کبھی ان کو دوسری ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے، کبھی ان سے ملاقات کرتے اور کبھی ان کو اپنا سیاسی دشمن بھانپتے۔
شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ جب سے عمران خان نے جنرل باجوہ سے سیاسی راہیں جدا کیں انہوں نے کسی بھی موقع پر نیک قول اور فعل سے یہ نہیں دکھایا کہ وہ دور دور سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست یا پاکستان کے درینہ اور دائمی پاور پلے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں۔ ہاں عمران خان نہایت شدت کے ساتھ اپنی سوچ اور اپنی بات کا برملا اظہار کرنا جانتے ہیں اور یہی انہوں نے اپنی دور حکومت میں بھی کیا۔ اس پاکستانی قوم کو جو ایک باعزت، ترقی پزیر، خوددار، خوشحال اور ایمان دار قیادت کی تلاش میں تھی اس کے لیے عمران خان نے اپنی بات اور اظہار کے ذریعے ایک نفسیاتی سحر پیدا کیا۔ چاہے یہ بات حقائق سے جتنی بھی دور ہو عمران خان کی بات تھی۔ یہ باتیں ان کے اپنے ماضی کے قول اور فعل کی نفی کرتی تھیں اور پھر کمال یہ تھا کہ اس پر اعتراض کرنے پر سیاست دان، صحافی، سوشل میڈیا والوں کو عموماً نہایت ��یرمہذب تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بہت حد تک جب ’اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ‘ تھا کوئی حقیقی سیاسی مقابلے کا سامنا نہیں تھا اور تنقید کو سختی سے روندھا جاتا تھا، عمران خان پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ اب عمران خان کے لیے حالات بہت حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔
لاکھوں دلوں پر آج بھی راج کرنے والے اور اپنے حق میں سوشل میڈیا پر بے تحاشہ حمایت حاصل کرنے والے عمران خان نو مئی کے واقعات کے بعد پارلیمانی سیاست میں تقریباً تنہا اور دباؤ سے دوچار ہیں۔ ان کی بہت سی مشکلات میں سے سات ایسی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور اور تقریباً شکست خوردہ کر دیا ہے۔ ایک: پی ٹی آئی کے تقریباً 70 رہنما جن میں سے بہت سے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں تھے وہ زیادہ تر ’خوف، دباؤ اور ڈر‘ کی فضا میں پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔ دو: عمران خان کے خلاف کوئی 140 سے زیادہ مقدمات ہیں جن میں کچھ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت چاہے تو ان کی نااہلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ تین: اس وقت عمران کی سب سے بڑی طاقت ان کے حامی اب سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔ چار: عمران خان سے حکومت مذاکرات کرنے کے لیے فی الحال بالکل تیار نہیں ہے۔ پانچ: ملک کی عدالتیں جو حال ہی میں عمران خان کے لیے ایک قسم کی طاقت دکھائی دیتی تھیں اس وقت بظاہر نسبتاً بے اختیار ہیں۔ چھ: عمران خان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل خارج الامکان نہیں ہے۔
سات: پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز کی اپنے نئے سیاسی سفر کی اڑان شروع ہو چکی ہے اس وقت مسلم لیگ ق اور جہانگیر ترین کے گروپ نے پاکستانی سیاست کے فصلی بٹیروں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے وفادار جن میں عمر رسیدہ اور علیل ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمر چیمہ اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی اثاثے کے سہارے سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مثلا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود اور متعدد سینیٹرز وہ مستقبل کی پی ٹی آئی کو اور عمران خان کے سیاسی کردار کو محفوظ بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ہے اب ملین ڈالر سوال۔
نسیم زہرہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل #Kashmir #India #aajkalpk
لاہور: بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل ہوگئے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیری آج یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریہ پر کاربند مودی سرکار نے بھارتی پارلیمان سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دلوا کر مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی اور لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے وفاق کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ اس اقدام…
View On WordPress
0 notes
Text
آل پارٹیز کانفرنس کب اور کہاں ہوگی؟ مقام تبدیل
File Photo اسلام آباد : وفاقی حکومت نے پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کا مقام تبدیل کردیا۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اپوزیشن جماعت کے مطالبے پر اے پی سی کی تاریخ اور اس کا مقام تبدیل کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس 9فروری کو صبح11بجے پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر2میں منعقد ہوگی، کانفرنس کے ایجنڈے میں دہشت گردی اور…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان حکومتی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے، اسد عمر
جمعرات تک پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ ہوجائے گا، رہنما پی ٹی ��ٓئی (فوٹو: فائل) لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکرٹری اسد عمر کا کہنا ہے کہ عمران خان آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کا پابند ہے، معاشی حالات اس میں آڑے نہیں آسکتے۔ جمعرات تک پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ ہوجائے…
View On WordPress
0 notes
Photo
آل پارٹیز کانفرنس،مولانا فضل الرحمن کے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے رابطے مکمل،حتمی فیصلہ سنادیاگیا اسلام آباد (این این آئی)اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا معاملہ،مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے رابطے مکمل کرلیئے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی، ن لیگ، اے این پی، قومی وطن پارٹی
#آل#اپوزیشن#الرحمن#پارٹیز#تمام#جماعتوں#رابطے#سنادیاگیا#سے#فضل#فیصلہ#قائدین#کانفرنسمولانا#کے#مکملحتمی
0 notes