#پارٹیز
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی کا گورنرخیبرپختونخوا کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں نہ جانےکا اعلان
(طیب سیف )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں نہ جانے کا اعلان کردیا۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن کے قیام، مسائل اور حقوق کےلیے اے پی سی بلائی ہے جو کہ کل پشاور میں ہوگی،صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اے پی سی میں نہ جانے کا اعلان کیا ہے اور سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ…
0 notes
Text
ایکس (ٹوئٹر) کا صارفین کا ڈیٹا تھرڈ پارٹیز کو فراہم کرنیکا فیصلہ
سان فرانسسکو(ڈیلی پاکستان آن لائن)سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) نے نئی پرائیویسی پالیسی تیار کرلی ہے جس کا اطلاق 15 نومبر 2024 سے ہو رہا ہے۔ ایلون مسک کے زیر ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی پرائیویسی پالیسی صارفین کی پرائیویسی کے لیے زیادہ اچھی نہیں۔کمپنی نے اس پرائیویسی پالیسی کو آن لائن بھی جاری کر دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت سوشل میڈیا کمپنی تھرڈ پارٹیز کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا آرٹی فیشل…
0 notes
Text
اپوزیشن اتحاد کی اخترمینگل کو آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کی دعوت
اپوزیشن اتحاد کی بی این پی سربراہ اخترمینگل سے ملاقات ختم،اپوزیشن اتحاد نےاختر مینگل کو آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دیدی۔ اپوزیشن اتحاد نے اختر مینگل کو آل پارٹیز کانفرنس سے متعلق اعتماد میں لیا۔ اخترمینگل نے کہاکہ اپوزیشن ملاقات نے آل پارٹیز کانفرنس سے متعلق گفتگو کی ہے،اپوزیشن اتحاد سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں،بلوچستان کی صورتحال کشیدہ ہے۔ملکی صورتحال کے پیش نظر سنجیدہ فیصلے کرنے…
0 notes
Text
شہید حکیم محمد سعید … یادیں اور باتیں
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/b20dd472e4c282fc4430ebb5fdbafd75/8bff4e51cea6e755-db/s400x600/886226bbb0f651ae1164a9844e8ea16cbda310d4.jpg)
کتاب ’’شہید حکیم محمد سعید…. یادیں اور باتیں‘‘ میں سعدیہ راشد ’’ابا جان‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ’’یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔‘‘ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔‘‘
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/3cbd497b663106661bdad8a9735b9a48/8bff4e51cea6e755-c7/s250x250_c1/0438f8895251675c7464732f8e2793a3f872942f.jpg)
سعدیہ لکھتی ہیں ’’ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر ��پنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ’’مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اور کم کرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے، ’’نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔
اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔‘‘ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔
زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔ ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہو گئے۔‘‘
رفیع الزمان زبیری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/8cb30903efe1030e991bbe8b16d92f68/c6d09e676ba7ffa2-c3/s540x810/42af3933e0c3471e1789041841117d7098185c9a.jpg)
آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف کی جگہ شرکت کون کرے گا ؟نام سامنے آگیا لاہور (آن لائن) کرونا وائرس کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بلائی جانیوالی آل پارٹیز ویڈیو کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف شرکت نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے اس اقدام پر شہباز شریف نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے۔ جبکہ شہباز شریف کی جگہ سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق شرکت کریں گے۔ The post آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف کی جگہ شرکت کون کرے گا ؟نام سامنے آگیا appeared first on JavedCh.Com.
0 notes
Text
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل #Kashmir #India #aajkalpk
لاہور: بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے آج دو سال مکمل ہوگئے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیری آج یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریہ پر کاربند مودی سرکار نے بھارتی پارلیمان سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دلوا کر مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی اور لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے وفاق کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ اس اقدام…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e2d16310921539ff5bc8fbc8cba27a73/101b3487a2b28ad8-74/s540x810/2bfd74fbc2ce4ec3be6691895d669ac6effaeb80.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا گ��رنر خیبر پختونخوا کیجانب سےمنعقدآل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کااعلان
(طیب سیف)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات کے مطابق فیصلہ مظلوم، نہتے اور پرامن شہریوں کے قتلِ عام میں خاموش سہولتکاری کرنے اور سیاسی اجرت کے عوض قاتلوں کی ہمنوائی کے پیشِ نظر کیا گیا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف پر پابندی کے…
0 notes
Text
آپریشن عزم استحکام پرآل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ
وزیراعظم شہبازشریف نے بیرون ملک سے وطن واپسی پر آپریشن عزم استحکام کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیراعظم شہبازشریف عزم استحکام آپریشن کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے ۔مشاورت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کااعلان ہوگا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل شہبازشریف کی زیرصدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی ۔ تحریک انصاف کی جانب سے آپریشن عزم…
0 notes
Text
عمران خان کا سیاسی سکور کارڈ
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/69a78c248fd938bd69bd0ff39fcaebe7/d05e495b3dc52e3f-47/s400x600/8f9b73002cd85220d666cc254a4efcec20a3d688.jpg)
پاکستان کے لاکھوں لوگ اب بھی عمران خان پر یقین رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں موجودہ سیاسی شخصیات میں سب سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن سوال پھر بھی یہی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان سیاسی قیادت کا موقع فی الحال گنوا چکے ہیں یا وہ کسی نہ کسی صورت میں اگلے الیکشن میں پارلیمان میں واپس آ سکتے ہیں؟ ان کا فی الحال اگلے وزیراعظم بننے کا بظاہر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نو مئی کے بعد عمران خان پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ان مشکلات کا براہ راست اثر عمران خان کی پارلیمانی سیاست پر ہو گا۔ وہ ذاتی طور پر جتنے بھی پرعزم اور غیرمتزلزل دکھائی دیں، ان مشکلات سے عمران خان کی پارلیمانی سیاست یقیناً کمزور پڑے گی۔ سیاسی رہنما انفرادی طور پر جتنا بھی مقبول ہو پارلیمانی سیاست کی کامیابی کا دارومدار ایک م��بوط سیاسی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ہونے کی صورت میں سیاسی حکمت عملی اور سیاسی ڈھانچہ ایک ثانوی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا مسلم لیگ ن پیدائش کے وقت، اس کے بعد مسلم لیگ قاف، پھر کسی حد تک پاکستان تحریک انصاف 2013 اور 2018 میں ان جماعتوں کو جب اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملا تو سیاسی ڈھانچے اور حکمت عملی کا بھی کچھ' انتظام' ہو ہی گیا-
جب اسٹیبلشمنٹ کے آپ منظور نظر ہو تو پھر مقابلہ ہی کیسا؟ جو لاڈلا ہو تو جیسے پی ٹی آئی کے موجودہ صدر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ آپ کے ڈائپر بھی بدلتی ہے۔‘ گود لی ہوئی پارٹیز کو کسی حقیقی سیاسی اکھاڑے میں اترنا نہیں پڑتا- معاملات اب پی ٹی آئی کے لیے بہت مختلف ہیں۔ یہ نیا سیاسی سفر جس کا آغاز قریب 2021 کے آخر میں شروع ہوا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے ایک حقیقی سیاسی مقابلے کا سفر ہے۔ حقیقی آزادی آج کی بات ہے اور اس کے خدوخال کی بھی تشریح کرنا مشکل ہے۔ ہاں نعرہ بازی خوب ہے اور جذبہ جنون بھی خوب سے خوب تر رہا، لیکن معاملہ سنجیدہ پی ٹی آئی کے لیے تب ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے پاور پلے کے اکھاڑے میں اتر کر ایک قسم کا اعلان جنگ کر دیا۔ عمران خان کچھ تذبذب کا شکار ہیں اور کچھ سوچ میں تضاد کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ مثلا جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھتے اور کبھی ان کو دوسری ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے، کبھی ان سے ملاقات کرتے اور کبھی ان کو اپنا سیاسی دشمن بھانپتے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/90ea0425101c5410b1b776ca54f95f97/d05e495b3dc52e3f-c8/s400x600/0cd923791e8840ddc42c9559ad7c8cd10fa25663.jpg)
شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ جب سے عمران خان نے جنرل باجوہ سے سیاسی راہیں جدا کیں انہوں نے کسی بھی موقع پر نیک قول اور فعل سے یہ نہیں دکھایا کہ وہ دور دور سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست یا پاکستان کے درینہ اور دائمی پاور پلے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں۔ ہاں عمران خان نہایت شدت کے ساتھ اپنی سوچ اور اپنی بات کا برملا اظہار کرنا جانتے ہیں اور یہی انہوں نے اپنی دور حکومت میں بھی کیا۔ اس پاکستانی قوم کو جو ایک باعزت، ترقی پزیر، خوددار، خوشحال اور ایمان دار قیادت کی تلاش میں تھی اس کے لیے عمران خان نے اپنی بات اور اظہار کے ذریعے ایک نفسیاتی سحر پیدا کیا۔ چاہے یہ بات حقائق سے جتنی بھی دور ہو عمران خان کی بات تھی۔ یہ باتیں ان کے اپنے ماضی کے قول اور فعل کی نفی کرتی تھیں اور پھر کمال یہ تھا کہ اس پر اعتراض کرنے پر سیاست دان، صحافی، سوشل میڈیا والوں کو عموماً نہایت غیرمہذب تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بہت حد تک جب ’اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ‘ تھا کوئی حقیقی سیاسی مقابلے کا سامنا نہیں تھا اور تنقید کو سختی سے روندھا جاتا تھا، عمران خان پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ اب عمران خان کے لیے حالات بہت حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔
لاکھوں دلوں پر آج بھی راج کرنے والے اور اپنے حق میں سوشل میڈیا پر بے تحاشہ حمایت حاصل کرنے والے عمران خان نو مئی کے واقعات کے بعد پارلیمانی سیاست میں تقریباً تنہا اور دباؤ سے دوچار ہیں۔ ان کی بہت سی مشکلات میں سے سات ایسی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور اور تقریباً شکست خوردہ کر دیا ہے۔ ایک: پی ٹی آئی کے تقریباً 70 رہنما جن میں سے بہت سے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں تھے وہ زیادہ تر ’خوف، دباؤ اور ڈر‘ کی فضا میں پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔ دو: عمران خان کے خلاف کوئی 140 سے زیادہ مقدمات ہیں جن میں کچھ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت چاہے تو ان کی نااہلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ تین: اس وقت عمران کی سب سے بڑی طاقت ان کے حامی اب سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔ چار: عمران خان سے حکومت مذاکرات کرنے کے لیے فی الحال بالکل تیار نہیں ہے۔ پانچ: ملک کی عدالتیں جو حال ہی میں عمران خان کے لیے ایک قسم کی طاقت دکھائی دیتی تھیں اس وقت بظاہر نسبتاً بے اختیار ہیں۔ چھ: عمران خان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل خارج الامکان نہیں ہے۔
سات: پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز کی اپنے نئے سیاسی سفر کی اڑان شروع ہو چکی ہے اس وقت مسلم لیگ ق اور جہانگیر ترین کے گروپ نے پاکستانی سیاست کے فصلی بٹیروں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے وفادار جن میں عمر رسیدہ اور علیل ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمر چیمہ اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی اثاثے کے سہارے سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مثلا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود اور متعدد سینیٹرز وہ مستقبل کی پی ٹی آئی کو اور عمران خان کے سیاسی کردار کو محفوظ بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ہے اب ملین ڈالر سوال۔
نسیم زہرہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/918f6ff62aafc748d236d2d663dde0da/f47b7483b687a72f-e0/s540x810/d1b6450ee0cfdf0e9757ab9b4b5b18262f503328.jpg)
آل پارٹیز کانفرنس،مولانا فضل الرحمن کے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے رابطے مکمل،حتمی فیصلہ سنادیاگیا اسلام آباد (این این آئی)اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا معاملہ،مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے رابطے مکمل کرلیئے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی، ن لیگ، اے این پی، قومی وطن پارٹی
#آل#اپوزیشن#الرحمن#پارٹیز#تمام#جماعتوں#رابطے#سنادیاگیا#سے#فضل#فیصلہ#قائدین#کانفرنسمولانا#کے#مکملحتمی
0 notes
Text
طالبان… ’’پراسرار بندوں‘‘ کی کہانی
جنیوا معاہدے کے تحت 15 فروری 1989ء کی طے شدہ تاریخ سے ایک روز قبل ہی آخری سوویت فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تھا‘ لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ کابل سمیت کچھ بڑے شہروں پر ماسکو کی کٹھ پتلی نجیب انتظامیہ ( اور اس کے جرنیلوں) کا تسلط برقرار تھا۔ جنیوا مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق سوویت انخلا کے ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد (عبوری) حکومت کے قیام پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن وزیر اعظم جونیجو پر اپنی (سویلین ) اتھارٹی منوانے کی دھن سوار تھی۔ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی (جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں) اور وسیع البنیا�� حکومت کی شرط کے بغیر ہی جنیوا معاہدے پر دستخط کی ''منظوری‘‘ حاصل کر لی۔ ''افغان پالیسی‘‘ کے معمار صدر جنرل ضیاء الحق (اور ان کے عسکری رفقا) دانت پیس کر رہ گئے۔
سوویت انخلا کے بعد اب افغانستان کو ایک نئی خونی کشمکش کا سامنا تھا۔ جنرل ضیاء الحق (اور ان کے اہم رفقا) کی سانحہ بہاولپور میں اگلے جہاں رخصتی کے بعد‘ نومبر 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار اس طرح منتقل ہوا کہ دفاعی اور خارجی امور ان کے دائرہ ٔ اختیار سے باہر تھے (ظاہر ہے‘ اس میں افغانستان کا معاملہ بھی تھا) اس دوران جلال آباد کا ''ایڈونچر‘‘ ناکام رہا ‘ گوریلا جنگ کی مہارت رکھنے والے افغان مجاہدین کو کھلے میدان میں جنگ کا تجربہ تھا ‘ نہ اس کے لیے ضروری سازوسامان ان کے پاس تھا؛ چنانچہ وہ میدانِ جنگ میں ہزاروں لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئے (پیر صاحب پگارا اس پر ہمارے ویژنری جنرل کو طنزاً ''فاتح جلال آباد‘‘ کہا کرتے تھے)۔
نوازشریف کو اپنی پہلی حکومت میں افغان مسئلہ ورثے میں ملا تھا۔ اب صورتِ حال محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سے مختلف تھی۔ افغان مجاہدین کی تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ کابل میں (سب کے لیے قابلِ قبول) افغان حکومت ان کی ترجیح اوّل تھی۔ ان کی کوششیں اس حد تک رنگ لے آئیں کہ باہم برسرپیکار افغان مجاہدین ''پشاور معاہدے‘‘ پر متفق ہو گئے (23 اپریل 1992ئ)۔ ان میں گلبدین حکمت یار بھی تھے۔ لیکن پرامن افغانستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ 28 اپریل کو کابل میں دن بھر جشن کا سماں تھا لیکن شام کو حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کے مجاہدین ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ صدارتی محل‘ ایئرپورٹ اور قلعہ بالا حصار پر قبضے کے لیے مجاہدین کے دونوں دھڑوں میں جھڑپیں جاری تھیں‘ طیاروں سے بمباری اس کے علاوہ تھی۔ 29 اپریل کو وزیر اعظم نوازشریف کابل پہنچ گئے۔
عبوری انتظامیہ کے صدر صبغت اللہ مجددی سے مذاکرات میں انہوں نے کابل میں اس صورت حال پراظہارِ تشویش کے ساتھ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 25 کروڑ روپے کا چیک پیش کیا اور اس کے علاوہ 50 ہزار ٹن گند م بھیجنے کا اعلان بھی ۔ 6 مارچ 1993ء کا معاہدہ اسلام آباد نوازشریف حکومت کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کے لیے دوسری بھرپور کوشش تھی‘ جس میں برہان الدین ربانی کی صدارت اور حکمت یار کی وزارتِ عظمیٰ پر اتفاق کیا گیا۔ کابینہ میں تمام مجاہدین تنظیموں کی نمائندگی طے پائی۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ ماہ کے اندر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانا تھے۔ آئین کی تیاری کے بعد 18 ماہ میں صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب ہونا تھا۔ نوازشریف نے تمام افغان رہنمائوں کے ساتھ پہلے ریاض اور پھر تہران کا رخ کیا (کہ سعودی عرب اورایران بھی افغانستان میں ''سٹیک ہولڈرز‘‘ تھے) اگلے ماہ نوازشریف حکومت کی برطرفی کے بعد معاہدہ اسلام آباد کا فالو اپ پر اسس بھی جاری نہ رہا۔
مجاہد تنظیمیں پھر باہم دست بہ گریباں تھیں۔ جہاد کے پرُجوش حامی بھی کہنے لگے تھے کہ اب یہ جہاد نہیں ‘ فساد ہے۔ ایسے میں افغانستان کی سرزمین پر ایک نیا عنصر اُبھر رہا تھا۔ اگست 1994ء میں ملا عمر کی قیادت میں 15 طالبان پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ وجود میں آیا جس نے صرف تین ماہ بعد افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پھر اس کی برق رفتار کامیابیوں نے ایک دنیا کو حیرت میں ڈال دیا‘ جو پہلی بار طالبان اور ملا عمر کے نام سے آشنا ہوئی تھی۔ یہ ''پراسرار بندے‘‘ کون تھے؟ ایک ملاقات میں ہم نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا :''کچھ طالبان کے بارے میں بتائیے۔ جنرل نصیر اللہ بابر ان کی تخلیق کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور بڑے فخر سے انہیں اپنا ''بے بی ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق انہیں اپنا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ بعض حلقے امریکن سی آئی اے اور اپنی آ ئی ایس آئی کا نام بھی لیتے ہیں‘‘۔ مولانا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور گویا ہوئے:
''یہ نوجوان دراصل 14 سالہ جہاد افغانستان کے سپاہی تھے۔ یہ ابتدا میں ان نوجوانوں کی تنظیم تھی جو جہاد میں زخمی ہوئے۔ ان میں بیشتر کا تعلق قندھار سے تھا جہاں پروفیسر برہان الدین ربانی کی حکومت کی رسائی نہیں تھی؛ چنانچہ یہاں مختلف نوعیت کے جرائم اپنے انتہا کو پہنچ رہے تھے۔ چمن سے پاک افغان سرحد عبورکرنے کے بعد پہلا گائوں سپن بولدک ہے۔ یہاں سے قندھار تک 40/45 میل کے علاقے میں بلا مبالغہ ہر ایک سو قدم پر رہزن بیریئر لگائے ہر گزرنے والے قافلے کو لوٹنے کے لیے موجود ہوتے ۔ وہ مال ومتاع کے علاوہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بھی چھین لیتے۔ سڑک کے گردوپیش مکانات کو انہوں نے فحاشی و بدکاری کے اڈوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ انسانوں کے روپ میں ان درندوں کے لیے ہر غیر انسانی حرکت روا تھی۔
ان حالات میں بعض نوجوانوں کو یہ احساس بے چین کئے رکھتا کہ انہوں نے روسی فوجوں (اور ان کی کٹھ پتلی انتظامیہ) کے خلاف جہاد اس لیے تو نہیں کیا تھا کہ آزادی کے بعد یہ علاقے جرائم کے گڑھ بن جائیں۔ ان نوجوانوں نے علما سے فتویٰ حاصل کیا‘ جنہوں نے ازروئے شریعت اسے جائز قرار دیا کہ اگر حکمران عوام کے جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں تو مقامی آبادی اپنے طور پر منظم ہو کر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اور یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہو گا۔ تب ان نوجوانوں کے کوئی لمبے چوڑے عزائم نہیں تھے۔ انہوں نے سپن بولدک اور قندھار کے درمیان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ انہوں نے بولدک میں مختلف جہادی تنظیموں کے دفاتر پر بھی قبضہ کر لیا‘ جہاں سے انہیں کافی اسلحہ ہاتھ لگا۔ یہ نوجوان دراصل انہی تنظیموں سے آئے تھے اور قیام امن میں ان کی ناکامی کے بعد ان سے باغی ہو گئے تھے۔
قندھار کے لوگوں نے امن وامان کے قیام پر سکھ کا سانس لیا اور ان کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کر دیئے۔ بدامنی کے شکار دیگرعلاقوں کے لوگ بھی ان کا انتظار کرنے لگے۔ انہوں نے جدھر کا رخ کیا عوام نے ان کا خیر مقدم کیا‘ جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قندھار کے علاوہ غزنی اور ہلمند وغیرہ کی ''سرکاری انتظامیہ‘‘ بھی رضا کارانہ طور پر ان کے حق میں دستبردار ہو گئی۔ پھر یہ ہوا کہ گلبدین حکمت یار نے طا لبان کے زیر کنٹرول علاقے پر حملہ کر دیا۔ حکمت یار کا خیال تھا کہ یہ ''لڑکے بالے‘‘ان کے مقابلے میں کہاں ٹھہر سکیں گے‘ لیکن ان کے اندازے غلط نکلے۔ طالبان نے کامیابی سے اپنا دفاع کرتے ہوئے حکمت یار کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ طالبان حکمت یار کی پسپا ہوتی''فوج‘‘ کے تعاقب میں پیش قدمی کرتے چلے گئے۔ وہ پہلے''میدان‘‘ تک پہنچے اور پھر ''چہار آسیاب‘‘ بھی جا پہنچے جو حکمت یار کا بہت اہم ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہاں وہ ربانی حکومت کے مدمقابل جا کھڑے ہوئے تھے۔
''پاکستان کا طالبان سے رابطہ کب ہوا؟‘‘. قندھار میں نوجوان ملا عمر کی زیر قیادت طالبان کا ظہور، ان کی برق رفتار فتوحات اور تھوڑے سے عرصے میں کابل میں ان کی حکومت کا قیام، ایک دلچسپ اور حیرت ناک کہانی تھی، جو مولانا فضل الرحمن سے اس انٹرویو کا بنیادی موضوع تھی (یہ انٹرویو ستمبر 1998 میں لاہور میں کیا گیا تھا)۔ ''پاکستان کا طالبان سے رابطہ کب ہوا؟‘‘ پاکستان اپنے پڑوس میں ابھرتی ہوئی اس نئی قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ پاکستان افغانستان کے راستے (سڑک اور ریلوے کے ذریعے) سوویت یونین (مرحوم) کے قبضے سے، آزاد وسطی ایشیا تک رسائی چاہتا تھا۔ طالبان ایک مؤثر قوت بننے لگے تو پاکستان نے انہیں سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت پاکستان کے الفاظ میں یہ ''سیاسی حمایت‘‘ تھی۔ وہ اس قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتی تھی جس نے پاکستان کی سرحد کے قریب مختلف (اور اہم) علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ پاکستان کی سپورٹ سے طالبان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ خانہ جنگی کے شکار افغان عوام کی طرف سے پذیرائی نے بھی ان کے سامنے ''امکانات‘‘ کے نئے دروازے کھول دیئے تھے؛ چنانچہ انہوں نے مختلف صوبوں کی انتظامیہ کے سامنے دو مطالبات پیش کئے:
(1) اقتدار ہمارے حوالے کر دو (2) اپنا اسلحہ بھی سرنڈر کر دو۔
چہار آسیاب (گلبدین حکمت یار کے بہت اہم ہیڈ کوارٹر) پر قبضے کے بعد طالبان کابل کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے‘ لیکن احمد شاہ مسعود نے کابل سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ تب طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ہرات، نمروز اور فرح کے صوبوں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس مہم میں انہیں ہرات میں اصل جنگ کا سامنا کرنا پڑا‘ جس میں بالآخر وہ فتح مند ہوئے، اس کے بعد، ایک سال میں وہ جلال آباد پر قبضے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے ان پر فتوحات کے نئے در وا ہونے لگے۔ یہیں سے وہ حکمت یار کے ہیڈ کوارٹر ''سروبی‘‘ پر قبضے میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد انہوں نے کابل کے تمام راستے کاٹ دیئے، اب دارالحکومت ان کے محاصرے میں تھا۔ اگست 1996 میں احمد شاہ مسعود نے جنگ کے بغیر کابل چھوڑ دیا۔ ادھر صوبہ پغمان سے پروفیسر عبدالرب رسول سیاف بھی پسپا ہو گئے‘‘۔ ''اس سے پہلے قاضی حسین احمد صاحب نے پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ حکمت یار کی صلح بھی تو کرا دی تھی جس کے بعد حکمت یار، احمد شاہ مسعود کے زیر قبضہ کابل میں پہلی بار بطور وزیر اعظم داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے‘‘۔
''انہوں نے اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ مولوی محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، مولوی محمد نبی محمدی اور مولوی ارسلان خان سمیت تمام جید علما کرام نے طالبان کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ طالبان اور علما ایک قوت بن گئے‘ جس کا بہت سا ''کریڈٹ‘‘ قاضی حسین احمد صاحب کو بھی جاتا ہے‘‘ (مولانا فضل الرحمن نے ہنستے ہوئے کہا)۔ اگلی بڑی جنگ مزار شریف پر ہوئی، جہاں طالبان نے پہلے مرحلے میں شکست کھائی۔ انہوں نے کوئی بہتر جنگی تدبیر اختیار نہیں کی تھی۔ انہیں مزار شریف میں داخل ہونے دیا گیا جو دراصل ان کے گھیرائو کی حکمت عملی تھی۔ جنرل مالک نے بد عہدی کی جس کے نتیجے میں طالبان کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا (جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہزار کے قریب تھی) اڑھائی ہزار تو ایک ہی جگہ مارے گئے۔
بعد میں مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد یہاں کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، جن میں سینکڑوں طالبان کو دفن کیا گیا تھا۔ مزار شریف پر قبضے کے بعد تقریباً پورا افغانستان طالبان کے زیر نگیں آ گیا۔ بہت تھوڑا علاقہ احمد شاہ مسعود کے پاس رہ گیا تھا۔ (مولانا نے یہاں یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ افغانستان میں سوویت یونین والے داخل ہوئے تو ان کے والد محترم، مفتی محمود صاحب نے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ طالبان نے اس کی لاج رکھی) اس طویل انٹرویو میں، افغانستان (اور وسطی ایشیا) میں اپنے اپنے قومی مفادات کے حوالے سے پاک، ایران کشمکش پر بھی گفتگو ہوئی، لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں... طالبان اور ان کی تیز رفتار فتوحات کے حوالے سے بھی یہ مولانا کا اپنا نقطۂ نظر تھا۔ بعض ''باخبر‘‘ لوگ اس حوالے سے ہمارے دستِ غیب کی کار فرمائی اور نادیدہ قوتوں کی معجز نمائی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
کابل پر طالبان کا قبضہ اگست 1996 (پاکستان میں محترمہ کے دوسرے دور) میں ہوا‘ لیکن طالبان کی ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو ��اکستان نے نواز شریف کے (دوسرے) دور میں تسلیم کیا۔ دنیا میں صرف تین ممالک نے اسے تسلیم کیا تھا، دیگر دو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ طالبان کے طرزِ حکومت سے اختلاف کے باوجود، ایک دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ طالبان نے افغانستان کو امن دیا، وار لارڈز کا خاتمہ ہوا۔ مجاہد تنظیموں کی باہمی خون ریزی بھی اختتام کو پہنچی۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق افغانستان پوست کی کاشت سے مکمل طور پر پاک ہو گیا تھا۔ ''نائن الیون‘‘ کے بعد کیا ہوا؟ یہ ایک الگ المناک کہانی ہے۔ پاکستان میں تب جنرل پرویز مشرف مالک و مختار تھے۔ وہ کبھی طالبان کو پاکستان کی فرسٹ ڈیفنس لائن قرار دیا کرتے تھے۔ نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے ایک ہی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے۔
باب وڈ ورڈز کی کتاب ''Bush At War‘‘ کے مطابق یہ صدر بش نہیں، امریکی وزیر خارجہ کولن پاول تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو کال کی تھی۔ پاکستان کا کمانڈو صدر (خود اپنے بقول) کسی سے ''ڈرتا ورتا‘‘ نہیں تھا‘ لیکن اب ''پاکستان فرسٹ‘‘ کے اصول پر اس نے کولن پاول کے ساتوں مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔ وائٹ ہائوس میں صدر بش کی زیر صدارت امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، جب کولن پاول سچوایشن ہال میں داخل ہوئے۔ اپنے کارنامے کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا : معزز اراکینِ کونسل! صدر مشرف نے سارے مطالبات تسلیم کر لیے۔ صدر بش کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے حیرت اور مسرت سے معمور لہجے میں اپنے وزیر خارجہ سے کہا: گویا تم نے جو چاہا، پا لیا؟ ''دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ میں یہ ''غیر مشروط اور لا محدود تعاون‘‘ (Unconditional and unlimited co-opration) امریکیوں کے لیے حیران کن تھا۔
دوسرے ملکوں سے معاملات کرتے ہوئے، سرمایہ دار امریکہ کا رویہ خالصتاً ''تاجرانہ‘‘ ہوتا ہے‘ لنڈے کے اس دکان دار کی مانند جو کسی چیز کی قیمت سو روپے بتاتا اور پھر مول تول کر کے اسے چالیس پچاس میں فروخت کر دیتا ہے۔ امریکیوں کا خیال تھا، جنرل مشرف سات میں سے دو، تین مطالبات مان لیں گے ، ایک دو سے انکار کر دیں گے، اور باقی ایک، دو کو کابینہ کی منظوری سے مشروط کر دیں گے۔ ''بش ایٹ وار‘‘ میں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی ہے۔ جب نائن الیون ہوا، جنرل محمود واشنگٹن میں تھے۔ (12 اکتوبر 1999 کی کارروائی کے مردِ آہن، راولپنڈی کے کور کمانڈر اب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو ''پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے‘‘ کی دھمکی، نائب صدر رچرڈ آرمٹیج نے انہی کو دی تھی۔ واللہ اعلم۔
رئوف طاہر
بشکریہ دنیا نیوز
1 note
·
View note
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/6682dac64990b1b6cd291af129f17091/3cffaf1f52062a02-57/s540x810/d40da0e2539daff2ec584e116724551edfaac645.jpg)
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی #APC #Opposition #Pakistan #aajkalpk اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق اے پی سی میں اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر اتفاق نہ ہوسکا۔
0 notes
Text
بریکنگ نیوز: اپوزیشن پھر متحرک-!! حکومت کیخلاف آل پارٹیز بلانے کا اعلان
بریکنگ نیوز: اپوزیشن پھر متحرک-!! حکومت کیخلاف آل پارٹیز بلانے کا اعلان
لاہور (ویب ڈیسک) پیپلز پارٹی نے پنجاب میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا-اس حوالے سے قمرزمان کائرہ اور چودھری منظور احمد نے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں- قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت کورونا جیسے سنگین بحران پر رہنمائی دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے،
حکومت کی مسلسل کنفیوز پالیسی نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے جبکہ حکومت نے صوبوں کے ساتھ محاذ آرائی کرکے قومی یکجہتی…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس مؤخر
Urdu News on https://goo.gl/tAvKK1
پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس مؤخر
ترجمان پیٹ کے ��علان کے مطابق، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس مؤخر کر دی ہے ہے۔ عوامی تحریک کے زیراہتمام اے پی سی اب 28 کی بجائے 30 دسمبر کو ہو گی۔
ذرائع کے مطابق، ڈاکٹر طاہر القادری نے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے کئے اور انہیں کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بلائی گئی اے پی سی میں نون لیگ ن کے سواء تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی شرکت کا امکان ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس 28 دسمبر کے بجائے 30 دسمبر کو ہوگی۔ نوراللہ صدیقی ترجمان پاکستان عوامی تحریک@SecInfoPAT#ModelTown #BaqirNajfiReport pic.twitter.com/7mY8cYVxAV
— PAT (@PATofficialPK) December 23, 2017
واضح رہے کہ طاہر القادری نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر 31 دسمبر تک مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔
#Breaking Pakistani News#Daily Pakistan News#Online Pakistani News#Pakistan latest News#Pakistan News#Pakistan Urdu News#Pakistani Khabrain#Top Pakistani News#ال#تحریک#عوامی#مؤخر#پارٹیز#پاکستان#کانفرنس#کی
0 notes
Text
ایکس (ٹوئٹر) کا صارفین کا ڈیٹا تھرڈ پارٹیز کو فراہم کرنیکا فیصلہ
سان فرانسسکو(ڈیلی پاکستان آن لائن)سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) نے نئی پرائیویسی پالیسی تیار کرلی ہے جس کا اطلاق 15 نومبر 2024 سے ہو رہا ہے۔ ایلون مسک کے زیر ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی پرائیویسی پالیسی صارفین کی پرائیویسی کے لیے زیادہ اچھی نہیں۔کمپنی نے اس پرائیویسی پالیسی کو آن لائن بھی جاری کر دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت سوشل میڈیا کمپنی تھرڈ پارٹیز کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا آرٹی فیشل…
0 notes
Text
پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس کو اہم کیوں نہیں سمجھتی؟
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی عدم استحکام کی بدستور موجودگی کے باوجود سیاسی رہنما مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے سے معترض ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے جس کی تاحال نئی تاریخ نہیں دی گئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔ حکومتی اتحاد میں ��ہلے ہی 11 جماعتیں شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن میں…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/4773ce55dcce5e3d45a564365e9772b3/a7382ea0304b6509-30/s540x810/b5e660f50ce2572744234087f39c95083f16cf91.jpg)
View On WordPress
0 notes