Tumgik
#چیف جسٹس ثاقب نثار
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
urduchronicle · 9 months
Text
آڈیو لیکس کیس: آئی بی انکوائری کر کے 3 ہفتوں میں رپورٹ جمع کرائے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیک کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر معلومات جاری کرنے کے سورس کے تعین کی صلاحیت موجود نہیں۔ بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ آڈیو لیک کے خلاف درخواست زیر سماعت ہے، جس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔ اپریل میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
پاکستانی اور امریکی سپریم کورٹ کا ضابطۂ اخلاق، ایک موازنہ
Tumblr media
امریکی سپریم کورٹ نے تاریخ میں پہلی بار اپنے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے اور یہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق سے کتنا مختلف ہے؟ امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی سب سے اہم بات اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ اور جواب دہی کا احساس ہے۔ اس کی شان نزول ہی خود پر ہونے والے تنقید کو بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ضابطے میں لکھا ہے کہ وہ یہ ضابطہ تحریری طور پر اس لیے جاری کر رہی ہے کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی کہ امریکی سپریم کورٹ کسی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق 2009 میں جاری کیا گیا تھا اور اس کی شان نزول میں ایسی کوئی بات بیان نہیں کی گئی تھی۔ یہ بس ایک ضابطہ تھا جسے آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کرنا تھا تو اس نے جاری کر دیا۔ ہو سکتا ہے پاکستان سپریم کورٹ کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی ایسی ’غلط فہمی‘ نہ پائی جاتی ہو جیسی امریکی سپریم کورٹ کے بارے امریکہ میں پائی جاتی ہے یا پھر شاید امریکہ میں اسے معیوب نہ سمجھا جاتا ہو کہ اپنے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمی کو تسلیم کیا جائے اور پھر اس کا ازالہ کیا جائے۔
امریکی ضابطہ اخلاق کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ اس غلط فہمی کے خاتمے کے لیے یہ ضابطہ اخلاق جاری کر رہے ہیں اور یہ کوئی نئے اصولوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ہم کامن لا کے جن اخلاقی ضابطوں پر عمل پیرا ہیں انہی کو تحریری شکل دے رہے ہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق کو بھی عمومی اخلاقیات اور روایات کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے خود جاری کیا ہے اور آخر میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا ضابطہ اخلاق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کیا ہے اور یہ اس کے سیکریٹری ڈاکٹر فقیر حسین کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ یعنی امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک عہد اجتماعی کا رنگ غالب ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق پر ایک حکم نامے کا رنگ غالب ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق واضح ہے اور اس پر ایک قانون کا سا گمان ہوتا ہے جس میں ججوں سے متعلق ایک ایک چیز کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے، جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق عمومی اخلاقی اصول طے کرتا ہے اور زیادہ جزئیات میں نہیں جاتا۔
Tumblr media
امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کے مطالعے سے لگتا ہے آپ قانون کی کوئی دستاویز پڑھ رہے ہیں جو اپنے متن کی شرح میں بہت واضح ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق سے بعض مقامات پر ایسے لگتا ہے جیسے آپ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 جیسی کسی چیز کا مطالعہ کر رہے ہیں جہاں بہت کچھ تشریح طلب ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 53 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صرف چھ جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ اس سے امریکی ضابطہ اخلاق پر یہ تنقید ہو رہی ہے کہ یہ دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا مجموعہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 11 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور سات جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ یعنی اگر ’should‘ کے استعمال سے ’دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز‘ کا تاثر جاتا ہے تو پاکستانی دستاویز میں دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا عنصر قدرے کم ہے۔ 
سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کا ذکر دونوں میں ہے، عوامی اجتماعات پر جانے کے بارے میں البتہ امریکی ضابطہ اخلاق میں زیادہ تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح امریکی ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ قانون سے متعلق امور پر جج لیکچر بھی دے سکتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے۔ یعنی قانونی امور پر لکھنے کے لیے اس کا ریٹائر ہونا ضروری نہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق میں ایسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ایسا کلچر بھی نہیں ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہاں جج صاحبان کم ہی قانونی امور پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی شاید صرف جناب قاضی فائز عیسیٰ نے دیے ہیں ورنہ ایسی کوئی رسم بھی یہاں نہیں ہے۔ البتہ جج صاحبان بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کے تعلیمی اداروں میں لیکچر اور خطاب کی خبریں آتی رہتی ہیں۔  امریکہ میں ججوں کو فنڈ ریزنگ کی مہم میں مشروط شرکت کی اجازت ہے جب کہ پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں اسے زیر بحث نہیں لایا گیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ کے بعد البتہ اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ضابطہ اخلاق اس بارے میں رہنمائی کرے کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ 
امریکی ضابطہ اخلاق میں کتاب اور علم کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ شاید یہ معاشرے کے عمومی ماحول کا فرق ہو۔ وہاں لکھا ہے کہ جج کسی کمرشل تقریب یا کسی کی پروموشن کے لیے کسی کاروباری تقریب میں نہیں جائے گا لیکن اگر اس کی اپنی کتاب کہیں برائے فروخت رکھی ہو تو اس تقریب میں جا سکتا ہے۔ یعنی وہاں جج دوران ملازمت بھی کتاب لکھ سکتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں البتہ بعض مقامات پر ادبی اور شاعرانہ اسلوب میں بات کی گئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ انگریزی بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہے۔ لیکن امریکی ججوں نے اپنے ضابطہ اخلاق میں سادہ، سیدھے، واضح اور دوٹوک انداز سے بات لکھی ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ انصاف کرتے ہوئے جج کو وہ شہرت مل جاتی ہے جو اس کے لیے اچھی ہوتی ہوتی ہے اس لیے اسے اس سے زیادہ شہرت کی طلب نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیز امریکی ضابطے میں نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں خاموش ہے۔ شاید یہ بھی ماحول کا فرق ہو۔
پاکستانی ضابطے میں جج کے لیے خدا خوفی کی شرط موجود ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ اختیارات کا مالک اللہ ہے اس لیے انصاف کا ماخذ بھی اللہ ہی کی ذات ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق تو اپنی روایات کے باب میں کامن لا کا ذکر کرتا ہے، ہماری سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں روایات کے حوالے سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ بھی کامن لا اور نو آبادیاتی دور غلامی کی روایات ہیں یا ان کی تعلق اسلام کی عدالتی روایات سے ہے؟ اسلام کی روایات سے ہے تو کیا وجہ ہے کہ فیصلوں میں کامن لا کے حوالے تو موجود ہیں لیکن اسلامی فقہ سے کم ہی کوئی حوالہ دیا جاتا ہے؟ آداب القاضی کب اس ضابطے کا حصہ بنیں گے؟ امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک بڑی تنقید یہ ہو رہی ہے کہ اس میں عمل درآمد کی شقیں موجود نہیں ہیں۔ یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ ضابطہ اخلاق کی کس شق پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ان پر عمل درآمد یقینی کیسے بنایا جائے، ’should‘ والی شقوں پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ’must‘ والی شقوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ عمل درآمد کی شقیں پاکستانی ضابطہ اخلاق میں بھی موجود نہیں ہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا ب��ا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
جنرل باجوہ کیا کہتے ہیں؟
Tumblr media
وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے جو تازہ الزام عائد کیا ہے اُس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ملک صاحب نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار پر اثر انداز ہو کر بنی گالہ رہائش گاہ کے کیس کا فیصلہ عمران خان کے حق میں کروایا۔ یہ وہی کیس ہے جس میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا گیا تھا۔ ملک صاحب کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس شواہد موجود ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا اور کس کو کس کے ذریعے کیا پیغام دیا گیا؟ یہ بات انہوں نے چند روز قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں کی۔ اس پر میں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کیا تو اُنہیں نے ملک صاحب کے الزام کی سختی سے تردید کی اور قسم اُٹھا کر کہا کہ یہ سب جھوٹ اور لغو ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے اس سلسلے میں جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے بھی بات کی جن کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے خود تو ثاقب نثار صاحب یا عدلیہ سے رابطہ نہیں کیا لیکن اُنہوں نے عمران خان کو نااہلی سے بچانے کیلئے ایک ایجنسی کے سربراہ کے ذریعے خان صاحب کو این آر او دیا۔ 
جب ملک احمد خان کہہ رہے ہیں کہ اُن کے پاس ثبوت موجود ہیں تو پھر اس معاملےکی تحقیقات کا نہ ہونا افسوس ناک ہو گا۔ سچ جو بھی ہے وہ سامنے آنا چاہئے۔ پاکستان کی تاریخ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ملاپ سے سیاسی انجینئرنگ کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عدلیہ پر بڑے بڑے الزامات لگتے رہے لیکن کبھی کسی نے تحقیقات کرنے کا فیصلہ نہ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی جج خود بتاتے رہے کہ کیسے اُن پر دباؤ ڈال کر مرضی کے سیاسی فیصلے کروائے گئے۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ ماضی قریب میں اُس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے بحیثیت جج دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے، اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے بینچ بنواتی ہے، اپنی مرضی کے کیس مرضی کے بینچوں کے سامنے لگواتی ہے۔ جو کچھ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا اُس پر اُس وقت کے چیف جسٹس کو سوموٹو لینا چاہئے تھا اور انکوائری کا حکم دینا چاہئے تھا لیکن جو ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔
Tumblr media
جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں تحقیقات شروع کر دی گئیں اور اُنہیں جج کے عہدے سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ شوکت صدیقی صاحب نے اپنے حلفیہ بیان میں تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کا کون سا افسر ملنے آیا، کس نے رابطہ کیا اور کیا مطالبہ کیا لیکن یہ سب کچھ سننے پر کوئی تیار ہی نہ تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی صاحب کو جج کے عہدے سے فارغ کیا تو اُنہوں نے کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی لیکن کوئی تین چارسال گزر چکے ہیں، صدیقی صاحب ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کب اُن کی اپیل کا فیصلہ کرتی ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اُن کو جج کے عہدے سے فارغ کرنے سے متعلق تھا۔ جہاں تک صدیقی صاحب کے اُس الزام کا تعلق ہے کہ جج اور عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کیسے کنٹرول کرتی تھی، اُس پر تحقیقات کا ہونا اب ایک خواب یا خواہش ہی ہوسکتی ہے۔ ہمارے حالات بہت خراب ہیں۔ 
جس طرف دیکھیں مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اداروں کا بُرا حال ہے، حکومت کسی کی بھی ہو معاملات نہ سدھرتے ہیں نہ انہیں سدھارنے کی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ میری نظر میں تمام خرابیوں کی جڑ ہمارے نظامِ عدل کی خرابی ہے۔ اگر ہماری عدلیہ ٹھیک ہوتی، اگر یہاں انصاف دیا جاتا تو بہت سی خرابیاں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ نہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کر رہی ہوتی، نہ ہمارے ادارے، پولیس، سول سروس کو موجودہ تباہ حالی کا سامنا کرنا پڑتا۔ آزاد عدلیہ حکومتوں کا بھی قبلہ درست رکھتی، میرٹ اور رول آف لاء کو بھی یقینی بناتی لیکن افسوس کہ ہم آزاد عدلیہ کی نعمت سے محروم رہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ثاقب نثار کے اعترافات
Tumblr media
پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔
یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔
Tumblr media
(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔ 
مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ 
یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹیل کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
osarothomprince · 1 year
Text
عدالتی اصلاحات بل؛ سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری اور ثاقب نثار کے فیصلوں کے متاثرین کو اپیل کا حق
اسلام آباد: عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے دور میں ازخود نوٹس فیصلوں کے متاثرین کو اپیل کا حق مل گیا۔  ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور سابق چیف جسٹس ثاقب کی جانب سے…عدالتی اصلاحات بل؛ سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری اور ثاقب نثار کے فیصلوں کے متاثرین کو اپیل کا حق
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
مریم نواز کی حاضر اور سابق ججوں پر شدید تنقید
مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر سرگودھا میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان کے بیانیے کے رد میں کہا کہ اصل سازش عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے نہیں بلکہ نواز شریف کے خلاف ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جلسہ گاہ میں لگی سکرینوں پر پانچ لوگوں کی تصویریں چلائیں جن میں سپریم کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور لطیف کھوسہ، سپریم کورٹ کے دو حالیہ جج اور آئی ایس ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کی تصویریں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
نظامِ انصاف کا نوحہ
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی قوم عدلیہ کی کارکردگی سےمطمئن ہے تو انہوں نے یہ سوال سامعین کی طرف اچھال دیا۔ اس اجلاس کے سامعین بھی عدلیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن یہ سوال سننے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہ کہہ سکا کہ پاکستانی عدلیہ عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کی سیاہی اس کے دامن پر انڈیل دی۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کو سند جواز بھی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے عطا کی اور جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو وہ سب کچھ عطا کر دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس کی داستانیں آج افسانوی کہانیوں کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے ریکوڈک سے لے کر افسران کی تقرری تک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ان کے اس تسلسل کو جسٹس ثاقب نثار نے بھی خوب نبھایا عدالت عظمیٰ سے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہونے لگی۔ کبھی اسکولوں کی چیکنگ کے لیے جج صاحبان کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ سابق چیف جسٹس معززین کو بے عزت کرنے کے علاوہ شاید کوئی کام جانتے ہی نہیں تھے۔ موصوف نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مذکورہ اصحاب نے پاکستانی عدلیہ کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔ اگر عدالتی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس شفیع الرحمٰن جیسے جج صاحبان کا نام نہ ہو تویہ تاریخ ناقابلِ بیان دستاویز بن کر رہ جاے؟ پھر پاکستان کی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ یوسف رضا گیلانی عدالتی انا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نااہل ہوئے۔
میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ انہیں بار بار نااہل قرار دیا گیا، مریم نواز اور ان کا خاوند اسی عدالت عظمیٰ سے نہ صرف سزا یافتہ ہوئے بلکہ نااہل بھی ٹھہرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتی پیشیاں کیسے فراموش کی جا سکتی ہیں پاکستان کے ایک اور مقبول ترین لیڈر عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے رات 12 بجے یہی عدالتیں کھلیں۔ کبھی شاہراہ دستور پر واقع عدالت عظمیٰ نے رات گئے انگڑائی لی تو کبھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے رات کو انصاف کا بول بالا کرنے کی کہانی تحریر کی۔ وہی عمران خان عدالتی وقار کی خاطر معافی مانگنے جج صاحبہ کی عدالت میں پیش ہوا تو جج صاحبہ نے عدالت میں بیٹھنے کے بجائے رخصت پر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ کیا اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے عدلیہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے تمام کردار غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اس کی دہلیز پر سیاستدانوں کی کردار کشی کے چھینٹے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا خون بھی۔
انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اس میں کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہے اور ہمارے بعد کمبوڈیا اور افغانستان جیسے ممالک ہیں جہاں پر نظام انصاف سرے سے موجود ہی نہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ خود عدلیہ کے ارکان کو۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے محترمہ مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جس پر تمام قانون پسند حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ یہ کیسا چمتکار ہو گیا۔ اگر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا فیصلہ درست مان لیا جائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز کی قیدو بند اور کردار کشی کا حساب دیں گے؟ جےآئی ٹی کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے،؟
کبھی یہی عدالت عظمی اور عالیہ تھیں جن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ معزز جج صاحبان یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملزمان کے خلاف صفحہ مثل پر ایک بھی ثبوت موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے دس والیم پر مشتمل ثبوت اگر ناکافی تھے تو سپریم کورٹ نے سزا کس بنیاد پر دی تھی؟ اور اگر وہ ثبوت کافی تھے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی قرار کیوں دیا؟ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ عدلیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ عدالتوں میں احتساب کا فقدان ہے، تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک معزز جج کے اثاثوں کے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تو گویا قیامت سی آ گئی۔حکومت کو وہ ریفرنس واپس لینا پڑا۔ قوم سراپا سوال ہے کہ اگر سیاستدان اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب دہ ہے تو عدلیہ کے جج صاحبان کیوں نہیں؟حالیہ برسوں میں ماتحت عدالتوں کے لکھے گئے فیصلوں کے معیار پر سینئر وکلا کی گفتگو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
عدلیہ کی حالیہ کارکردگی سے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں، لیکن اشرافیہ کے مقدمے فاسٹ ٹریک پر سنے جا رہے ہیں۔ معزز جج صاحبان اور وکلا حضرات کو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ''معاشرہ کفر کے ساتھ چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،‘‘ اب عدالتوں کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مقدمات پر توجہ دینا ہو گی ورنہ عوامی عدالت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
خواہش تھی نئی گج ڈیم کی تعمیر کا معاملہ میرے ہوتے ہوئے حل ہوجاتا، چیف جسٹس چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریمارکس دیے ہیں کہ خواہش تھی کہ میرے ہوتے ہوئے معاملہ حل ہوجاتا، مگر کچھ خواہشیں، خواہشیں ہی رہ جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سمات ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے اجلاس میں ڈیم تعمیر کرنے کی سفارش نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کو کردی گئی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح تو یہ معاملہ ایکنک میں جاکر پھنس جائے گا، خواہش تھی کہ میرے ہوتے ہوئے معاملہ حل ہوجاتا، مگر بعض خواہشیں خواہشیں ہی رہ جاتی ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا اصغرخان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ بعد ازاں عدالت نے پیر 14 جنوری تک سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس کے منٹس عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے منگل کو وزیر توانائی عمر ایوب خان، وزیر خزانہ اسد عمر اور سیکریٹری کابینہ کو طلب کرلیا۔ نئی گج ایک ہل ٹورینٹ (پانی کا ماخذ) ہے جو بلوچستان کے خضدار ضلع سے نکلتا ہے اور کچ کے میدانی علاقوں سے گزرنے کے بعد یہ بالاخر منچھر جھیل میں داخل ہوتا ہے، نئی گج کا علاقہ 8 ماہ کے لیے خشک رہتا ہے جبکہ مون سون کے سیزن کے دوران 4 ماہ یہاں پانی رہتا ہے۔ منچھر جھیل کے اپنی حد تک پر پہنچنے اور مون سون سیزن میں میں مزید پانی حاصل کرنے کی پوزیشن نہ ہونے پر نئی گج سے بہنے والا پانی عمومی طور پر سیلاب کے تحفظ کے باندھے گئے بند کو تباہ کرتا اور زرعی زمین کو زیر آب لے آتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ زرعی زمین کے زیر آب آنے، گھروں کے تباہ ہونے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پنچانے کے بعد مون سون کا پانی سمندر میں گرتا ہے اور ایسا کرنے سے بڑی تعداد میں پانی ضائع ہوتا ہے۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے نئی گج ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا اور 25 اپریل 2012 میں سندھ کے ضلع دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے کو اپریل 2015 تک مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے یہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے اس ڈیم کی لاگت کا تخمینہ بھی بڑھ گیا ہے، جسے کم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے اتفاق سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
دستی بم حملے سے چند منٹ پہلے ثاقب نثار گھر پہنچے، پولیس نے واقعہ کی ویڈیوز حاصل کر لیں
تحقیقاتی اداروں نے علاقے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے گھر پر دستی بم حملے کی 2 سی سی ٹی وی ویڈیوز حاصل کر لیں۔ سی سی ٹی وی ویڈیو میں موٹر سائیکل پر سوار 2 افراد کو آتے جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دونوں سی سی ٹی وی فوٹیجز رات 8 بج کر 37 منٹ سے 8 بج کر 41 منٹ کے درمیان کی ہیں۔ذرائع کے مطابق پولیس کو سابق چیف جسٹس کے گھر دستی بم حملے کی اطلاع 8 بج کر 40 منٹ پر ملی تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا نواز شریف فی سبیل اللہ واپس آ رہے ہیں؟
Tumblr media
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تین بار وزیرِ اعظم اور اندرون ملک جیل میں سڑنے کے بجائے دو بار طویل عرصے کے لیے بیرونِ ملک رہنے والے نواز شریف اکیس اکتوبر کو لاہور میں اتریں گے۔ اس کے بعد یا تو وہ اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کر کے گھر یا جیل جائیں گے یا پھر ایئرپورٹ سے براہِ راست جیل جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انہوں نے گیم کے طے شدہ ضوابط کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی اور انہیں ایک بار پھر البرٹ پنٹو کی طرح اچانک غصہ آ گیا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سابق حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے مبینہ کرداروں سابق جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ پر پہلے کی طرح برس پڑے تو ہو سکتا ہے کہ انصاف ملنے تک جیل میں ہی رہیں۔ حالانکہ مسلم لیگ نون اور نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی سے قانون کا سامنا کرنے آ رہے ہیں اور کوئی ڈیل شیل یا سودے بازی نہیں ہوئی۔ مگر نون لیگ کے سابق اتحادی اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ڈیل نہ ہونے یا نواز شریف کو کسی بھی طرح کی پیشگی یقین دہانیاں نہ کروانے کے بیانات پر ہرگز یقین نہیں۔
بقول اسپیکر نواز شریف کو اگرغیر مشروط ہی واپس آ کر مقدمات کا سامنا کرنا تھا تو عمران خان کے دور میں نہ سہی ان کے دور کے خاتمے کے بعد ہی پچھلے ڈیڑھ برس میں برادرِ خورد کی حکومت کے سائے میں واپس چلے آتے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈیل نہ ہوئی ہو مگر پچھلے چالیس برس میں پاکستانی سیاست میں اتنی ثالثیاں اور سودے بازیاں ہوئی ہیں کہ اب ہر چھوٹی بڑی پیش رفت پر شک ہوتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مارچ انیس سو ستتر کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزبِ اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ پورا ملک منجمد ہو گیا۔ بیسیوں لوگ مظاہروں میں ہلاک ہوئے۔ دو شہروں میں مارشل لا لگ گیا اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فتوی دے دیا کہ دراصل پی این اے امریکی تائید سے ان کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور پی این اے والے بھٹو کے سر سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے۔ ایسے موقع پر پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب نے انتھک ثالثی کی اور فریقین کو مذاکرات کے زریعے بحران کا حل نکالنے پر آمادہ کر لیا۔ سمجھوتہ ہو بھی گیا مگر جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی کو پورے نظام کا ٹھیلہ الٹ دیا۔ پاکستانی سیاست میں کھلی غیر ملکی ثالثی کی یہ پہلی مثال تھی۔
Tumblr media
جب بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اس سے ایک ماہ پہلے ان کے بھائی شہباز شریف نے ہوا کا رخ بھانپ کے واشنگٹن کا دورہ کیا تاکہ امریکیوں پر زور دے سکیں کہ وہ پاکستانی فوجی قیادت کو کسی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے اپنا روایتی اثر و رسوخ استعمال کریں۔ مگر تختہ الٹنے سے ثابت ہوا کہ امریکیوں نے بھی بڑے بھائی کو بچانے کے لیے چھوٹے بھائی کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حالانکہ پرویز مشرف نے کارگل میں بطور سپاہ سالار جو گل کھلائے تھے، امریکی اس حرکت پر خوش نہیں تھے۔ مگر مشرف کے اقتدار پر قبضے کے دو برس بعد جب نائن الیون ہو گیا تو مشرف صاحب امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہو گئے، جس طرح ایوب خان سرد جنگ میں اڈے دینے پر اور ضیا االحق افغان جنگ میں کودنے پر امریکہ کی آنکھ کا تارہ بنے تھے۔ پرویز مشرف نے چونکہ اقتدار شریف خاندان سے چھینا تھا لہذا ان پر ہائی جیکنگ، بغاوت، کرپشن اور جانے کیا کیا مقدمات لاد دیے گئے۔ مگر پھر ایک چمتکار ہوا۔ سن دو ہزار کے دسمبر کی ایک رات ایک نجی سعودی طیارہ آیا اور نواز شریف کو اٹک کے قلعے سے ایئرپورٹ لایا گیا۔ دی��ر اٹھارہ اہلِ خانہ سمیت طیارے میں بٹھایا گیا اور طیارہ جدہ پرواز کر گیا۔
یہ ڈیل شاہ فہد کے زور دینے پر ہوئی۔ اس سودے بازی کے عوض قیدی ( نواز شریف ) نے جیلر ( پرویز مشرف ) کو بطور گواہ سعودی انٹیلی جنس چیف کی تائید سے لکھ کے دیا کہ وہ دس برس تک پ��کستان میں قدم نہیں رکھیں گے۔ اس کے بعد دونوں شریفین ( نواز و شہباز ) جدہ کے سرور پیلس میں اگلے سات برس خادمِ حرمین و شریفین کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب اکتوبر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت عدلیہ بحالی تحریک اور فوج میں اپنے بارے میں بڑھتی ہوئی اکتاہٹ کے سبب کمزور ہو گئی تو نواز شریف موقع غنیمت جان کے پاکستان آ گئے۔ اس بار انہیں سرکار نے چند ماہ پہلے کی طرح ڈنڈہ ڈولی کر کے واپس سعودی عرب نہیں بھیجا بلکہ حکومت کا رویہ کچھ یوں تھا کہ نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے ( انور دہلوی ) جس طرح انیس سو ستتر میں پی این اے کو بھٹو صاحب کے وعدوں پر اعتبار نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح دو ہزار سات میں دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطن بے نظیر بھٹو کو جنرل پرویز مشرف پر اعتبار نہیں تھا۔ مگر مشرف کو سپاہ سالار کی وردی اترنے کے بعد ہر سابق آمر کی طرح ایک سیاسی صدر بننے کی شدید خواہش تھی۔ نواز شریف سے تو ان کا ٹانکا فٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو سے وہ ایسی سیاسی ڈیل کے خواہش مند تھے، جس میں وہ صدر ہوں اور بے نظیر انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم بن جائیں اور مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ قاف جونیئر پارٹنر ہو۔
چنانچہ پرویز مشرف نے امریکیوں سے رابطہ کیا اور وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے بالاخر بے نظیر بھٹو کو راضی کر لیا کہ اس وقت پاکستان کو جس خطرناک مذہبی انتہاپسندی سے خطرہ لاحق ہے اس کا تقاضا ہے کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت ہو۔ اس کے عوض پرویز مشرف قومی مصالحتی آرڈیننس ( این آر او ) جاری کرنے پر آمادہ تھے۔ یوں چار اکتوبر کو این آر او جاری ہو گیا۔ مگر جب اٹھارہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو ان کے جلوس پر خود کش حملے میں ان کی پارٹی کے لگ بھگ ڈیڑھ سو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ این آر او کو سپریم کورٹ نے بعد میں کالعدم قرار دے دیا۔ مشرف نےآئین معطل کر کے ایمرجنسی لگا دی اور پھر ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو ایک خود کش حملے کا نشانہ بن گئیں۔ مشرف پر سے امریکہ، خلیجی دوستوں، فوجی قیادت سمیت سب نے ہاتھ اٹھا لیا۔ یوں پرویز مشرف اگلے آٹھ ماہ کے لیے علامتی صدر بن کے رھ گئے اور اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو آخری سلیوٹ لے کے کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ ( جسے تفصیلاً جاننا ہے وہ کونڈولیزا رائس کی کتاب ” نو ہائر آنر‘‘ پڑھ لے)۔ 
جب دو ہزار تیرہ میں مشرف کے دشمن نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو مشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔ مشرف کو فوجی قیادت نے جیل تو نہیں جانے دیا البتہ حکومت نے ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگا دی۔ جنوری دو ہزار چودہ میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل اسلام آباد آئے اور چند روز بعد حکومت نے اچانک پرویز مشرف کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ نو برس بعد ان کی پاکستان واپسی اس سال فروری میں تابوت میں بند ہو کے ہوئی۔ اس پس منظر میں اس کہانی پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی ”فی سبیل اللہ‘‘ ہو رہی ہے۔ چند ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی کہ جو لوگ نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لائے تھے وہ عمران خان کو اتار کے نواز شریف کو کیوں لائے؟ یا پھر نواز شریف کو کب الہام ہوا کہ یہی واپسی کا وقت ہے۔  
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note · View note
risingpakistan · 2 years
Text
پاکستان، بات کرو یا مرو تک پہنچ چکی ہے
Tumblr media
جو اصلاحات بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھیں، ان اصلاحات کو آئی ایم ایف اب بازو مروڑ کے کروانا چاہ رہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جیسے ہی گرفت ڈھیلی ہوئی حکمران اشرافیہ کی زندگی پھر سے ادھار کو آمدنی سمجھنے کی لت کی جانب چل پڑے گی۔ اس وقت پاکستان میں ٹیکس کی مد میں ریاست کو جو کچھ بھی مل رہا ہے، اس کا اسی فیصد بلاواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں مل رہا ہے۔ کم و بیش سب قابلِ ٹیکس شہری و شعبے ٹیکس چھپانے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی خوشی خوشی براہِ راست ٹیکس دینے کو تیار نہیں سوائے ان افراد، ملازمین اور اداروں کے، جن کا ٹیکس یا تو پیشگی یا پھر براہِ راست زبردستی کاٹ لیا جاتا ہے۔ مگر اب یہ چمتکار بھی چمک کھو چکا ہے۔ پہلے، جو خسارہ بیرونِ ملک سے قرض ادھار لے کر یا مختلف ممالک کو کرایے کی خدمات فراہم کر کے پورا کر لیا جاتا تھا، اب وہ خسارہ بھی اربوں کی حدود سے نکل کے کھربوں میں داخل ہو چکا ہے۔
ان حالات میں ملک کا انتظام بھی، جیسے کیسے چلانا ہے، ضرورت سے زیادہ حساس اداروں کے مالی مفادات کو بھی بہت زیادہ نہیں چھیڑنا، عوام کو بھی اس سراب میں رکھنا ہے کہ ان کا کمر توڑ معاشی بوجھ ایک آدھ کلو کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بیرونی قرضوں کی بیس سے بائیس ارب ڈالر کی واجب الادا قسطوں کو بھی ”کچھ دو کچھ ٹالو کچھ کو تھوڑا اور آگے کرا لو‘‘ کی بنیاد پر موجودہ مالی سال میں ہی جھیلنا ہے۔ پھر بھی اس مد میں اگلے چھ ماہ میں آٹھ ارب ڈالر تو چاہیے ہی چاہئیں۔ اوپر سے افراطِ زر، روپے کی تیز رفتار بے قدری اور دہشت گردی کی تازہ لہر سے نمٹنے کا اضافی مالی بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ چلیں مان لیا کہ آئی ایم ایف نے اگلے ہفتے ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر دے دیے اور اس کی بنیاد پر چین، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب نے بھی، جو تین تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں اس شرط پر رکھوائے ہیں کہ انہیں بس دیکھنے کی اجازت ہے چھونے کی نہیں۔ یہ کاغذ پر زرِمبادلہ کے قومی ذخائر میں تو دکھائے جا سکتے ہیں مگر دیگر بینکوں، مالیاتی اداروں کی قسطوں یا بانڈز کی ادائیگی ان سے نہیں ہو سکتی۔
Tumblr media
یعنی فرض کریں کہ مل ملا کے لگ بھگ بارہ بلین ڈالر اگلے چھ ماہ کے دوران آ گئے۔ اب ان میں دو ارب ڈالر ماہانہ تارکینِ وطن کا پاکستان بھیجا جانے والا پیسہ بھی جوڑ لیں اور تقریباً ایک ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس بھی جوڑ لیں۔ گویا چھ ماہ میں آپ نےکسی نہ کسی طرح پندرہ بلین ڈالر کھاتے میں دکھا دیے۔ اب ان جمع کردہ پندرہ بلین ڈالر میں سے آٹھ بلین ڈالر قسطوں کی ادائیگی، تین بلین ڈالر درآمدات کی ایل سیز کی ادائیگی کی مد میں رکھ لیں اور باقی پیسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے دو کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرضے اور لگ بھگ مزید دو کھرب روپے روزمرہ انتظامی و دفاعی اخراجات و ناگہانی خرچوں کی مد میں رکھ لیں۔ جو باقی بچا، وہ جون میں بھی اتنا ہی ہو گا جتنا آج ہے۔ ی��نی اسٹیٹ بینک کے کھیسے میں وہی تین ارب ڈالر، جو آج پڑے ہوئے ہیں۔ چھ ماہ بعد بھی یہی کیفیت ہو گی، جون کے بعد کیا کریں گے؟
چنانچہ اب یہ سوچا گیا ہے کہ اضافی آمدنی کے لیے متحدہ عرب امارات کی دو بڑی کمپنیوں ( ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ اور انٹر نیشنل ہولڈنگز ) سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے منافع بخش یا خسارہ زدہ اداروں کے مالکانہ حصص خریدنے پر راضی کیا جائے۔ ان میں آئل اینڈ گیس کارپوریشن ، پاکستان پٹرولیم، نیشنل بینک جیسے منافع بخش اور پی آئی اے اور نیشنل شپنگ جیسے خسارہ زدہ ادارے فی الحال برائے فروخت حاضر ہیں۔ نیز کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے منافع بخش ایئرپورٹس کا انتظام و انصرام بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کے لیے مکمل آمادگی ہے تاکہ اس کے عوض تین سے چار ارب ڈالر اضافی حاصل ہو سکیں۔ اقتصادی تنہائی رفتہ رفتہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے پیارے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے غریبوں کو لنگر کھلانے والے اور بے گھروں کو پناہ دینے والے سابق حکومت کے شیلٹر ہومز پروجیکٹ کا انتظام سنبھالنے والے فلاحی ادارے سیلانی ٹرسٹ کی یہ تجویز مان لی ہے کہ تین چار مقامی مخیر ادارے مل کے ریاستِ پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے کی خاطر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے صفر منافع پر پانچ برس کے لیے دو ارب ڈالر ڈیپازٹ لینے کی مہم چلائیں، انشااللہ آخرت میں نفع ہو گا۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیرونِ ملک پاکستانی آخر کتنا کریں گے؟ انیس سو اٹھانوے میں ان کے سامنے نواز شریف کی دوسری حکومت نے ”قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کی خاطر چندے کے لیے جھولی پھیلائی اور جو اربوں روپے جمع ہوئے، اللہ جانے کہاں گئے؟ پھر عمران خان نے وزیرِ اعظم بننے سے پہلے تصور کر لیا کہ ان کی ایک پکار پر بیرونِ ملک پاکستانی اتنا پیسہ دے دیں گے کہ آئی ایم ایف کی پشت پر لات مار دی جائے گی مگر ایسا تو نہیں ہوا؟ پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ سنا ہے کہ دس ارب روپے جمع ہو کر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پڑے ہیں۔ خدا معلوم چیف جسٹس کو کس نے پٹی پڑھائی تھی کہ یہ ڈیم، جس پر لاگت کا تخمینہ اٹھائیس ارب ڈالر ہے، بیرونِ ملک پاکستانی ایک ماہ میں جمع کر لیں گے۔ اب اسحاق ڈار سیلانی ٹرسٹ کو ان پردیسی پاکستانیوں کے پیچھے لگنے کو کہہ رہے ہیں اور خود ان بے چاروں کی حالت یہ ہے کہ پہلے تین ارب ڈالر ماہانہ پاکستان بھیج رہے تھے، اب وہ دو ارب ڈالر ہی بھیج پا رہے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ سب کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، پاؤں پڑ جاؤ مگر، جو کرنے کا کام ہے، وہ اگلی حکومت کے لیے چھوڑ دو۔ قانونی، معاشی، سماجی، سیاسی، انتظامی اور تعلیمی ڈھانچے کی بنیادی سرجری کی کسی میں جرات نہیں۔ اب تو راستے بھی تیزی سے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کرو یا مرو والا مرحلہ ہے، ورنہ انارکی اور طالبان تو نکڑ پر کھڑے ہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
nuktaguidance · 6 years
Photo
Tumblr media
Shakirullah vs Justice Saqib Nisar یہاں دیکھیں عدالت میں چیف جسٹس اور شاکراللہ کی لڑائی کیوں ہوئی، اور یہ لڑائی کب سے جاری ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار شاکراللہ کے خلاف توہین عدالت کیوں نہیں کرسکتے ، شاکراللہ کو پاگل کیوں کہا، اور اب شاکراللہ چیف جسٹس کو کیا کہہ رہا ہے۔
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
رانا شمیم ​​نے 'غلط، غیر ضروری حلف نامہ' پر دوبارہ معافی مانگ لی
رانا شمیم ​​نے ‘غلط، غیر ضروری حلف نامہ’ پر دوبارہ معافی مانگ لی
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم۔ فائل اسلام آباد: گلگت بلتستان (جی بی) کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم ​​نے ٹینڈر کیا۔ غیر مشروط معافی اسلام آباد ہائی کورٹ میں “غلط اور غیر ضروری حلف نامے” کے لیے، جس میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف عدالتی ہیرا پھیری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جمعہ کو جمع کرائے گئے اپنے تازہ معافی میں، رانا شمیم سنجیدگی سے تصدیق کی، “میں ایک حلف نامے کے لیے غیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار دسمبر 2018 میں اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو تعریفی شیلڈ پیش کر رہے ہیں۔ -اے پی پی/فائل ثاقب نثار نے عمران خان سے لاہور میں پی ٹی آئی چیئرمین کی رہائش گاہ زمان پارک میں ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سابق چیف جسٹس سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ نثار کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدلیہ مخالف مہم پر تحفظات کا اظہار کیا۔ لاہور: معزول وزیراعظم اور پی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes