#پاکستانی فوج
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستانی فوج
پاکستانی فوج Pakistan army تشکیلِ پاکستان(1947) سے لیکر عمران خان کی حکومت(2022) کو ناجائز حربوں سے گرانے تک پاکستانی فوج کا پاکستانی سیاست میں انتہائی بھیانک، شرمناک اور تباہ کن کردار رہا ہے! پدرِ ملت کی انتھک محنتوں سے جو ریاست پاکستان کی صورت میں تشکیل پائی اسکی تقسیم ہی غلط تھی، یوں اس غلط تقسیم کو ئی 70 سال بعد انگریز خود اس بات کا اظہار کرنے…
View On WordPress
#Asim Munir#Chief of Army Staff (Pakistan)#General Qamar Javed Bajwa#Imran Khan#Muslim League N#Nawaz Sharif#Pakistan Army#Pervez Musharraf#PPP#PTI#Raheel Sharif#Zardari#پاکستانی فوج
0 notes
Text
چین کی پاکستانی حکومت اور فوج سے ناراضی کیوں برقرار ہے؟
سیاسی حلقوں میں چین اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات میں کشیدگی آنے کی افواہیں گرم ہیں۔اگرچہ شہباز حکومت پاک چین دوستانہ تعلقات میں آنے والی کسی بھی کمی کی مسلسل تردید کررہی ہے لیکن اس سوال کا جواب سامنے نہیں آ رہا کہ چینی حکام نے خاموشی کے ساتھ حکومت تک اپنے تحفظات پہنچانے کی اپنی پرانی روایت کے برخلاف کھلم کھلا اپنے خدشات کا اظہار کیوں کرنا شروع کر دیا ہے۔کیا پاکستان اور چین کے تعلقات میں کوئی…
youtube
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے ��شمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر ن�� کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خری�� کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
About the picture: The illustration depicting the internal enemies of the Pakistan Army. The image captures a metaphorical representation of the army surrounded by shadows of deceit and betrayal, highlighting the struggles faced by the institution. Original: Internal enemies of Pakistan Army – پاکستانی فوج کے اندرونی دشمنCrystal Kazmi As per evidence below, I have been requesting the Army top…
View On WordPress
0 notes
Text
شاہراہ قراقرم دنیا کی بلند ترین پختہ سڑک
شاہراہ قراقرم اپنے مشکل گزار راستوں کے باعث معروف ہے۔ سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔ مگر یہاں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ قراقرم ہائی وے کی تعمیر ہے جو دنیا کی ’بلند ترین پختہ سڑک‘ کہلائی جاتی ہے۔ چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے جُڑ جاتی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل سنہ 1978 میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی بنیاد قدیم شاہراہ ریشم تھی۔ اس شاہراہ کا 887 کلومیٹر کا حصہ پاکستان جبکہ 400 کلومیٹر سے زائد حصہ چین میں ہے۔
اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے دو ��ال قبل اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق موسم کی شدت، شدید برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر اس سڑک پر کام کرنے والوں میں سے 800 سے زائد پاکستانی جبکہ 80 سے زائد چینی شہری تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران ہلاک ہوئے۔ قراقرم کی سخت پتھریلی چٹانوں میں رستے بنانے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال ہوا اور شاہراہ کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا تھا۔
0 notes
Text
ایران کے علاقے سراوان میں حملے کے لیے پاک فوج نے ڈرونز سمیت 5 قسم کے ہتھیار استعمال کئے، تفصیلات جاری
پاک فوج نے ایران کے علاقے سروان میں جمعرات کو علی الصبح کیے گئے حملے کی تفصیلات جاری کردی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج نے حملے کے لیے ڈرون طیاروں سمیت 5 قسم کے ہتھیار استعمال کیے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ 18 جنوری 2024 کے ابتدائی اوقات میں، پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ…
View On WordPress
0 notes
Text
انتخابات کے بعد رولا ہی رولا
8 فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ ��ائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخابات کے حوالے سے دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9 مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’’آزادانہ‘‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا ۔ 9 مئی والے کون ہیں؟ اُنہوں نے کس پر حملہ کیا تھا؟ وہ کیسا اور کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے؟ وہ کس ادارے کو اپریل 2022 سے، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔
تحریک انصاف کےچیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت کی قیادت کا فیصلہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ کسی سے نہ کوئی انتقام لیں گے نہ ہی کسی ادارے سے لڑائی لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا بھی یہی فیصلہ ہو لیکن تحریک انصاف کے انتخابات جیتنے کی صورت میں فوری طور پر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کیا ٹرینڈ چلائے گا؟ کس کس کو نشانے پر رکھے گا؟ نئی حکومت سے کیا مطالبے کرے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کیا تحریک انصاف اور عمران خان کو اُن کا فوج اور فوج کی قیادت سے متعلق ماضی کا ایک ایک بیان اور الزام یاد نہیں دلائیں گے؟ اس سب کے ملک کے سیاسی و معاشی حالات پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر عمران خان واقعی بدل گئے ہوں اور تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی اداروں سے نفرت ختم بھی ہو گئی ہو تو دوسری طرف جن پر 9 مئی کے حملے ہوئے کیا وہ 9 مئی کو بھلا دیں گے؟
کیا وہ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور جن کو وہ منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں، اُن سب کو گلے لگا لیں گے؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پربہت پہلے سوچ بچار ہونی چاہیے تھی، 9 مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے تھی، معافی تلافی کے رستے نکالنے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ بھی ایسے ہیں کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا یہ سوچ کر پاکستان کے بارے میں فکر ہوتی ہے۔ جس ’’آزاد‘‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔
تحریک انصاف کے مطابق اُن کے 90 فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 8 فروری تک تحریک انصاف کو الیکشن میں اور کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو، اُسے انتخابات نہیں جیتنے دیا جائیگا۔ اب ایسے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی توکیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟ آگے تو رولا ہی رولا نظر آرہا ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Army#Pakistan Election 2024#Pakistan establishment#Pakistan Politics#Politics#PTI#World
0 notes
Text
پاک افغان مذاکرات ناکام، طورخم بارڈر بدستور بند
اسلام آباد: پاکستان اور افغان حکام کے درمیان طورخم بارڈرکھولنے کیلیے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے جب کہ سرحدی گزرگاہ اتوار کو پانچویں روز بھی بدستور بند رہی۔ طورخم سرحدی گزرگاہ 6 ستمبرکو پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد بند کردی گئی تھی۔جھڑپ اس وقت شروع ہوئی تھی جب افغان فورسز نے پاکستان حدود میں ایک چوکی تعمیر کرنے کی کوشش کی جسے پاکستانی فوج نے دونوں ملکوں کے مابین معاہدے کی خلاف…
View On WordPress
0 notes
Text
youtube
الطاف حسین پاکستانی سیاست کے بادشاہ۔
کس کی سیاست بند گلی تک پہنچ گئی۔
قوم پرستوں کی سیات کا ڈبہ بند ہو جائے گا۔
الطاف حسین کا معافی نامہ اور اسٹیبلشمنٹ پر وار۔
فوج غصہ میں۔
مذید تفصیلات و کھرا تجزیہ و تبصرہ وڈیو لاگ میں دیکھیئے۔
#altafhussain#apmso#mqm#mqmlondon#ninezero#mqmofficial#youmetasees#mqmpakistan#mustafaazizabadi#azizabadi#nisarpanhwer#aftabborka#anismansoori#alisarwer#mingleuptweet#mingleupinsta#@mingleup#Youtube
0 notes
Text
عمران خان سے متعلق دس سوالات
پاکستان تحریک انصاف جس صورت حال سے دوچار ہے اسے پوسٹ ٹروتھ کی روایتی جذباتیت سے نہیں، عقل و شعور اور سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چند سوالات نہایت اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست نے اس دفعہ عمران خان کے معاملے میں جو دو ٹوک اور سخت رد عمل دیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بدلتے ��ویے کا تعلق صرف سیاست سے ہے یا معاملہ ملکی سلامتی کا بن چکا ہے؟ عمران خان ہمارے معاشرے میں جارج آرول کے ’مور ایکول‘ تھے۔ قانون سے بالاتر اور بے نیاز۔ اب مگر پہلی بار قانون نے انہیں نظر بھر کر دیکھا ہے۔ اپنے پرائے کا کوئی فرق نہیں رہا۔ بڑی بڑی سفارشیں ٹھکرا دی گئی ہیں اور قانون کا اطلاق سب پر ہو رہا ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ سیاست کا یا ریاست کا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ نو مئی کو جو ہوا وہ اضطراری رد عمل تھا یا باقاعدہ ایک منصوبہ؟ منصوبہ تھا تو اس کی جڑیں داخل میں تھیں یا خارج میں؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ عمران خان نے سازش کا الزام بھی امریکہ پر عائد کیا اور ان کے حق میں آوازیں بھی صرف امریکی کانگریس کے نمائندوں نے اٹھائیں۔ زلمے خلیل زاد جیسے کردار بھی امریکی حکومتی ڈھانچے کے قریب ہیں، جو بھلے اقتدار کا حصہ نہیں لیکن امریکی پالیسی سازی میں بطور عامل ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بریڈلے شرمن سے زلمے خلیل زاد تک سب کا عمران کے لیے اس حد تک چلے جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔
تیسرے سوال کا تعلق عمران خان کے ’سائفر بیانیے‘ سے ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ نے سازش کی کیونکہ امریکہ عمران کے دورہ روس سے ناراض تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر عمران کے حق میں روس سے آوازیں کیوں نہیں اٹھ رہیں؟ یہ آوازیں امریکہ سے کیوں اٹھ رہی ہیں؟ اس صورت میں تو امریکہ سے مخالفت ہونا چاہیے تھی اور روس سے حمایت ملنا چاہیے تھی۔ معاملہ اس کے برعکس کیوں ہے؟ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ امریکہ عمران کو نکال کر جو حکومت لایا، وہی حکومت اسی روس سے تیل خرید چکی ہے اور اس کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ بھی گئی ہے۔ چوتھا سوال محترمہ جمائما کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی سے ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان کا پاکستانی سیاست میں کیا لینا دینا ہے جو انہیں بےچین رکھتا ہے؟ اگر عمران خان صاحب کے صاحبزادے یہاں سیاست کر رہے ہوتے تو ایک ماں کی دلچسپی سمجھ میں آتی، لیکن قاسم اور سلمان کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں۔ وہ یہاں کے شہری ہی نہیں تو پاکستانی سیاست میں جما ئمہ صاحبہ اور ان کے بھائی کی دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟
عمران خان نے پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم کو تحریک انصاف بمقابلہ فوج اور تحریک انصاف بمقابلہ ریاست بنا دیا۔ یہ بیانیہ ایک سیاسی قوت کا نہیں تھا، یہ ایک نیم عسکری گروہ ک�� بیانیہ تھا۔ یہ کسی سیاسی جماعت کا رویہ نہیں تھا۔ ایسے رویے کے اہداف بھی بالعموم سیاسی نہیں ہوتے۔ پانچواں سوال گویا یہ ہوا کہ ایک سیاسی قوت کو اس انتہا پر لے جانا عمران خان کی عزیمت سمجھی جائے یا یہ کسی اور کھیل کی ابتدا تھی؟ نیز اس بیانیے کا مخاطب پاکستانی عوام تھی یا مخاطب ملک سے باہر کچھ اور لوگ اور کچھ اور قوتیں تھیں؟ چھٹا سوال عمران خان کے اپنے رویے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا 9 مئی کے واقعات میں ان کی جماعت کے لوگ شامل نہیں تھے۔ اگر چہ واقعاتی طور پر یہ غلط بیانی ہے۔ تاہم اگر ان کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے یوم تکریم شہدا پر بطور جماعت مکمل لاتعلقی کیوں اختیار کی؟ ذمہ داری کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ اس موقع پر وہ کہتے کہ شہدا تو ہم سب کے سانجھے ہیں اور ریاست اگر شہدا کی تکریم کا دن منا رہی ہے تو ہم بھی اس عمل میں شامل ہیں۔
موجودہ حالات میں کچھ اور ممکن نہ تھا تو ایک عدد ٹویٹ ہی کر دی جاتی۔ اگر وہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی میں شامل نہیں تھے، اگر یہ ان کی مرضی اور حکم سے نہیں ہوا، اگر یہ ان کی پالیسی نہیں تھی، اگر یہ توہین کرنے والے ان کی جماعت کے لوگ نہیں تھے تو شہدا کے یوم تکریم سے انہوں نے ایسی سرد مہری سے لاتعلقی کیوں اختیار کی؟ کیا اس سے اپنے کارکنان کو کسی خاص فکری سمت میں دھکیل کر لے جانا مقصود تھا؟ ساتواں سوال بنا کر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو حکیم سعید مرحوم جیسے لوگ کر گئے ہیں۔ آٹھواں سوال یہ ہے کہ جو لوگ پریس کانفرنسیں کر کے پارٹی چھوڑ رہے ہیں کیا یہ ہمارے سیاسی منظر نامے کے روایتی دباؤ کا نتیجہ ہے یا ان رہنماؤں پر بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ اب سیاست کا نہیں، قومی سلامتی کا بن چکا ہے اور اس کے یہ شواہد ہیں؟ یعنی یہ پریس کانفرنسیں دباؤ کا نتیجہ ہیں یا کچھ سنگین شواہد کا؟ نواں سوال یہ ہے کہ عمران خان کے اس سارے سیاسی سفر میں جمہوری عمل اور اہل سیاست معتبر ہوئے یا کمزور؟ یعنی عمران خان نے سماج کو، ملک کو، سیاست کو کیا دیا؟ غلام اسحاق خاں زندہ ہوتے تو دسواں سوال یہ پوچھتا کہ پیر مغاں کا کام تمام ہوا یا انگور کے خوشوں میں کچھ رس ابھی باقی ہے؟
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
کیا عسکری قیادت عمراندار ججز کو قابوکرنے میں کامیاب ہوگی؟
فوج کا سیاسی کردار چھین کر حکومتیں بنانے اور گرانے والی پاکستانی عدلیہ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ آئینی ترامیم کے ذریعے ججز کا سیاسی کردار محدود کیا جا سکے جو کہ ماضی میں فوج کے پاس ہوتا تھا۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس لڑائی میں چیف جسٹس اور آرمی چیف حکومت کے ساتھ ہیں جبکہ عدلیہ کے اندر سے ہی ایک عمرانی دھڑا تحریک انصاف کا سیاسی…
0 notes
Text
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے بیل آئوٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا ��جم کم کرے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گ��ا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 ( سولہ ہزار ) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے۔ پاکستان کی طرح سری لنکا کی فوج سے بھی داخلی امور میں بہت مدد لی جاتی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اسے خصوصی ٹاسک سونپے گئے۔
فوج سے پولیسنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے، قدرتی آفات میں بھی فوج ریسکیو اور ریلیف کا کام کرتی ہے۔ سری لنکا کی سرحدوں کی صورت حال بھی کسی طرح اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے باوجود سری لنکا کے معاشی حالات نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی افواج کا حجم کم کرے۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلے روز اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ نہ کر جائے اور کہیں پاکستان سے بھی اپنی افواج میں کٹوتی کرنے کا مطالبہ نہ کر دیا جائے۔ عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے، وہ خدشہ بے جواز نہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور اگر ان کی ( یعنی عمران خان کی ) حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت ہے اور یہ کہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے عالمی طاقتیں عمران خان کو اقتدار میں لائیں تاکہ وہ ان ( عمران خان ) سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرا سکیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس کی ذمہ داری موجودہ یا پچھلی دو تین سیاسی حکومتوں پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ حالات اس نظام کے منہدم ہو جانے کا نتیجہ ہیں، جسکے ذریعہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس ملک کو چلایا ۔ پاکستان کو اس مرحلے تک پہنچانے کیلئے بہت پہلے سے کام ہو رہا تھا ۔ بقول کسے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق پاکستانی افواج دنیا کی ساتویں طاقتور ترین افواج ہیں۔ صرف یہی نہیں پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بھی ہے۔ اس کی معیشت کا اس حال تک پہنچنا انتہائی تشویش ناک ہے۔ آئی ایم ایف جو ’’ معاشی اصلاحات ‘‘ تجویز کر رہا ہے، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے، جو ورلڈ آرڈر کے تحت چلتا ہے۔
یہ ورلڈ آرڈر امریکہ اور اس کے حواریوں کا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا۔ خصوصاً پاکستانی افواج نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ ایک زمانہ تھا ، جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستانی افواج زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ کمیونزم کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کیلئے پاکستان کو دو عالمی دفاعی معاہدوں میں شامل کیا گیا۔ یہ دو عالمی معاہدے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو ) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) یا معاہدہ بغداد تھے ۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی افواج اگرچہ تنظیم معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس ( نیٹو ) کا حصہ تو نہیں تھیں لیکن افغانستان میں دو دفعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں میں نیٹو افواج کا بھرپور ساتھ دیا ۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ بڑی افواج بنانے کی حوصلہ افزائی کی اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اسٹیٹ بننے کی طرف دھکیلا ، جہاں جمہوریت نہ پنپ سکی ۔ پاکستان کو اسی راستے پر چلتے رہنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا دیا گیا ۔ اب آئی ایم ایف سے پاکستان شاید 23 واں پیکیج حاصل کرے گا ، جس کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اتنی بڑی اور مضبوط پاکستانی افواج کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نہیں رہی تو کیا یہ بڑی اور مضبوط افواج امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب آئی ایم ایف کی ان شرائط سے مل جائے گا ، جو پیکیج دینے کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں ۔ اگر اس پیکیج میں فوج کا حجم کم کرنے یا دفاعی اخراجات کم کرنے کی شرط نہ لگائی گئی تو اگلے ایک دو سال میں نئے پیکیج کیلئے یہ شرط ضرور ہو گی ۔ خدشہ ہے کہ صرف فوج کا حجم کم کرنے کی شرط نہیں ہو گی۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کوئی شرط سامنے آسکتی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ۔ اب ہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے حقیقی حکمران ہیں ، جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ابتدا سے ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں۔
ہماری عدلیہ ، ہمارا میڈیا ، ہمارے دانشور اور ہمارے سیاست دان شریک مجرمان ہیں ۔ جن سیاست دانوں نے پاکستان کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی، اس نے اس کی خوف ناک قیمت ادا کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر کوئی پیسہ کما کے اپنے بچوں کو باہر بھیج رہا ہے لیکن حالات سے فرار ممکن نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے۔ عوام پر زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کی بجائے ادارے اپنے اخراجات میں رضاکارانہ کمی کریں۔ ورن�� غریب عوام کی اکثریت تو پہلے ہی حالات کو بھگت رہی ہے، آزمائش اب کسی اور کیلئے ہو گی۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
مجھے لگا میں مرگیا مگر پاکستانی فوج نے ملبے سے نکال لیا، ترک نوجوان پاک فوج کا شکر گزار
شکریہ پاکستانی فوج کی ریسکیو ٹیم کا جنہوں نے میری بہت مدد کی، ترک نوجوان باران (فوٹو : فائل) راولپنڈی: ترکی میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ملنے سے نکلنے والے ایک نوجوان باران کی کہانی سامنے آئی ہے، باران نے کہا کہ مجھے لگا جیسے میں مرچکا ہوں اور سب ختم ہو چکا ہے مگر میں بچ گیا، بہت شکریہ پاکستانی فوج کی ریسکیو ٹیم کا جنہوں نے میری بہت مدد کی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق ترکیہ زلزلے میں زندہ بچ جانے…
View On WordPress
0 notes
Text
فوج مجھ سے اہم والا عمران کھو گیا
عمران خان رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ لگاتار فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویوز میں ایک طرف اُنہوں نے آرمی چیف کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف اُنہوں نے مئی 9 کے سانحہ پر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو False Flag Operation تھا، جس کا مقصد اُنہیں فوجی عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں ڈالنا تھا۔ پہلے اُنہوں نے کہا یہ ایجنسیوں کا کام ہے پھر کہا اُن کے ورکرز نے اُن کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا منظر دیکھ کر یہ ردعمل دیا۔ جو تباہی اور گھنائونا کام 9 مئی کو ہوا تھا اُس کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اُنہوں نے ایک بار یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اُنہیں پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ردعمل آئے گا۔ تحریک انصاف نے جناح ہاؤس حملہ میں شامل ایک شخص کو ایجنسیوں کا آدمی بنا کر پیش کیا تھا، وہ ��ھی آج پکڑا گیا اور تحریک انصاف کا ہی ووٹر، سپورٹر نکلا۔ جو کچھ 9 مئی کو ہوا اُس پر اُنہیں شرمندگی ہونی چاہئے تھی، اُس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہئے تھی، اُس کی بغیر کسی لگی لپٹی کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن یہاں تو کھیل ہی نیا کھیلا جا رہا ہے۔
اب تو حدہی ہو گئی ہے کہ امریکہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، جن کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے، وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان کے خلاف ہی سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان افراد میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو خود کو عمران خان کا امریکہ میں فوکل پرسن کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا امریکہ میں سابق صدر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی کانگریس اراکین کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دباو ڈالنے کیلئے کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو بات بہت سنگین ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ میں ایک قانون سازی کروائی جائے جس کا مقصد امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوج کی کسی بھی قسم کی امداد کو انسانی حقوق کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ یہ نہیں معلوم کہ عمران خان کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا پی ٹی آئی امریکہ یہ سب کچھ اپنی تئیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک عمران خان یا تحریک انصاف کی طرف سے اس اقدام سے نہ تو لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت کی گئی ہے۔
جو کوئی بھی اس حرکت کے پیچھے ہے اُسے امریکہ کا ماضی یاد رکھنا چاہئے جس نے جمہوریت، انسانی حقوق، حقوق نسواں جیسے بہانے تراش کر عراق، لیبیا، افغانستان اور شام وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 2011-12 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جو میموگیٹ اسکینڈل سامنے آیا تھا اُس میں امریکی حکومت کی جانب سے پاک فوج پر دبائو ڈالنے کی بات کی گئی تھی۔ اُس میموگیٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ایک کمیشن بنا جس نے یہ تصدیق کی کہ میمو ایک حقیقت تھی، اُس میموگیٹ کے مقابلے میں اِس وقت امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وہ تو کھل کر پاکستان پر دباو ڈالنے اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کی تجویز دے رہے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ تحریک انصاف تو امریکہ کی مداخلت کے خلاف تھی اور اسی لئے Absolutely not کا نعرہ بھی بلند کیا تھا لیکن اپنے سیاسی مفاد کیلئے اُسی امریکہ کواب پاکستان پر دباو ڈالنے، پاکستان کی امداد پر پابندیاں لگانے اور یہاں مداخلت کرنے کی کھلی دعوت دے رہی ہے!
عمران خان تو کہتے تھے کہ پاکستانی فوج اُن سے زیادہ اہم ہے لیکن اب نہ پاکستان کا، نہ ہی پاکستانی فوج کا مفاد دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی پالیسی نہیں چلے گی۔ کوئی بھی پاکستانی رہنما چاہے وہ نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان، پاکستان سے اہم نہیں۔ اور عمران خان کے ماضی کے بیانات کے مطابق پاک فوج پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے اور اگر پاک فوج کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ کوئی عمران خان کو ماضی میں دیئے گئے ان کے یہ بیانات یاد دلائے اور احساس دلوائے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، جو کچھ تحریک انصاف نے 9 مئی کو کیا اور جو کچھ تحریک انصاف امریکہ میں کر رہی ہے، کیا وہ پاک فوج کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں۔؟ جو عمران خان کہتے تھے کہ فوج مجھ سے زیادہ اہم ہے، وہ عمران خان کہاں کھو گئے ہیں۔؟
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes