#پاکستانی فوج
Explore tagged Tumblr posts
peghamnetwork-blog · 2 years ago
Text
پاکستانی فوج
پاکستانی فوج                                                 Pakistan army تشکیلِ پاکستان(1947) سے لیکر عمران خان کی حکومت(2022) کو ناجائز حربوں سے گرانے تک پاکستانی فوج کا پاکستانی سیاست میں انتہائی بھیانک، شرمناک اور تباہ کن کردار رہا ہے! پدرِ ملت کی انتھک محنتوں سے جو ریاست پاکستان کی صورت میں تشکیل پائی اسکی تقسیم ہی غلط تھی، یوں اس غلط تقسیم کو ئی 70 سال بعد انگریز خود اس بات کا اظہار کرنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
چین کی پاکستانی حکومت اور فوج سے ناراضی کیوں برقرار ہے؟
سیاسی حلقوں میں چین اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات میں کشیدگی آنے کی افواہیں گرم ہیں۔اگرچہ شہباز حکومت پاک چین دوستانہ تعلقات میں آنے والی کسی بھی کمی کی مسلسل تردید کررہی ہے لیکن اس سوال کا جواب سامنے نہیں آ رہا کہ چینی حکام نے خاموشی کے ساتھ حکومت تک اپنے تحفظات پہنچانے کی اپنی پرانی روایت کے برخلاف کھلم کھلا اپنے خدشات کا اظہار کیوں کرنا شروع کر دیا ہے۔کیا پاکستان اور چین کے تعلقات میں کوئی…
youtube
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 5 months ago
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
Tumblr media
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
Tumblr media
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر 
بشکریہ روزنامہ جنگ
4 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر ن�� کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر ��علی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
dr-jan-baloch · 23 days ago
Text
شہدائے زاہدان ، خونی جمعہ
بلوچ قومی غیرت اور یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ایرانی گجر اور پاکستانی پنجابی تنخواہ خور فوج کی ظلم و بربریت اور دہشت گردی پر آواز بلندی کی جائے۔
#NoIranNoPakistan
#BalochWantFreeUnitedBalochistan
Free Balochistan Movement
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
14 دسمبر ہی کیوں ؟  مجیب الرخمان ٹو عمران خان اور حافظ قرآن  
 پاکستان کی تاریخ میں دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے تو 53 سال گذرنے کے باوجود ہمارے وہ زخم جو اپنوں اور غیروں نے ملکر ہمیں لگائے تازہ ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے میری اس سے مراد سقوط ڈھاکہ سے ہے جس میں اپنوں شیخ مجیب اینڈ کمپنی ، مکتی باہنی اور غیروں بھارتی فوج نے ملکر معصوم بنگالیوں کے پہلے دماغ کی اور بعد ازاں خون کی ہولی کھیلی جس کا الزام پاکستانی افواج پر لگایا گیا ۔شائد میرے الفاظ میرے جذبات کا ساتھ…
0 notes
pakistanlovers92 · 2 months ago
Text
سوچو ذرا! منافقت کی انتہا...
پاکستانی مولوی طبقہ کس قدر نیچے گر چکا ہے۔ ان کا ایمان بھی "مینول موڈ" پر چلتا ہے، جہاں ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو، وہاں فوراً جاگ جاتے ہیں، لیکن باقی وقت اپنے مفادات اور دنیاوی خواہشات میں مگن رہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اگر فرانس میں کوئی گستاخانہ حرکت ہو تو یہ جان دینے اور لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب اپنے ملک میں ظلم ہوتا ہے تو ان کی زبانیں خاموش رہتی ہیں۔
یہاں پاکستان میں ایک نمازی اللہ کے سامنے جھک رہا تھا، اور اسی وقت فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک نمازی کو شہید کر دیا۔ افسوسناک طور پر، پاکستان کی اپنی فورسز نے بھی بالکل ویسا ہی عمل دہرایا۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہماری فوج بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہی ہے؟
یہ وہی فوج ہے جس پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ ڈالنے کا الزام ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟
لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات مولوی حضرات کا رویہ ہے۔ کیا ان کی آنکھیں بند ہیں؟ کیا ان کے کان بہرے ہو گئے ہیں؟ کیا ان کا ایمان "ریسٹ موڈ" پر ہے؟
آج، ایک مسلمان ملک میں، مسلمانوں کی اپنی فورسز نے، چاہے وہ پولیس ہو یا فوج، نہ صرف ایک نمازی کو قتل کیا بلکہ اسے کنٹینر کے اوپر سے نیچے پھینک دیا۔ کیوں؟ اس بے گناہ کا قصور کیا تھا؟ کس کے حکم پر یہ سب ہوا؟ ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔
پاکستانی عوام، اپنا ایمان خود دیکھو۔ اگر تم دیکھ کر بھی خاموش رہو گے تو قیامت کے دن تمہیں بھی جواب دینا ہوگا۔ یہ صرف ایمان کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔
کیا پاکستان واقعی ایک مسلم ملک ہے؟
اب تو پاکستان کے مسلم ملک ہونے پر بھی شک ہونے لگا ہے۔
خدارا، غور کرو!
کیا تم نے یہاں ہمیشہ رہنے کا کوئی معاہدہ کیا ہوا ہے؟ ایک دن سب کو مرنا ہے، لیکن حق بات کہنے سے کون روک رہا ہے؟ اگر پاکستان تمہیں عزیز ہے تو حقیقی معنوں میں اس سے محبت کرو۔ منافقت چھوڑ دو۔ اللہ کے لیے، پاکستان میں منافقین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اللہ کے لیے، واپس آ جاؤ، سیدھے راستے پر۔
محمد عرفان اے صدیقی
#pakistankarachi#Pakistan#pakistankisituation#PakistanZindabad#pakistanislamabad
0 notes
gbtrade · 2 months ago
Text
سوچو ذرا! منافقت کی انتہا...
پاکستانی مولوی طبقہ کس قدر نیچے گر چکا ہے۔ ان کا ایمان بھی "مینول موڈ" پر چلتا ہے، جہاں ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو، وہاں فوراً جاگ جاتے ہیں، لیکن باقی وقت اپنے مفادات اور دنیاوی خواہشات میں مگن رہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اگر فرانس میں کوئی گستاخانہ حرکت ہو تو یہ جان دینے اور لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب اپنے ملک میں ظلم ہوتا ہے تو ان کی زبانیں خاموش رہتی ہیں۔
یہاں پاکستان میں ایک نمازی اللہ کے سامنے جھک رہا تھا، اور اسی وقت فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک نمازی کو شہید کر دیا۔ افسوسناک طور پر، پاکستان کی اپنی فورسز نے بھی بالکل ویسا ہی عمل دہرایا۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہماری فوج بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہی ہے؟
یہ وہی فوج ہے جس پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ ڈالنے کا الزام ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟
لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات مولوی حضرات کا رویہ ہے۔ کیا ان کی آنکھیں بند ہیں؟ کیا ان کے کان بہرے ہو گئے ہیں؟ کیا ان کا ایمان "ریسٹ موڈ" پر ہے؟
آج، ایک مسلمان ملک میں، مسلمانوں کی اپنی فورسز نے، چاہے وہ پولیس ہو یا فوج، نہ صرف ایک نمازی کو قتل کیا بلکہ اسے کنٹینر کے اوپر سے نیچے پھینک دیا۔ کیوں؟ اس بے گناہ کا قصور کیا تھا؟ کس کے حکم پر یہ سب ہوا؟ ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔
پاکستانی عوام، اپنا ایمان خود دیکھو۔ اگر تم دیکھ کر بھی خاموش رہو گے تو قیامت کے دن تمہیں بھی جواب دینا ہوگا۔ یہ صرف ایمان کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔
کیا پاکستان واقعی ایک مسلم ملک ہے؟
اب تو پاکستان کے مسلم ملک ہونے پر بھی شک ہونے لگا ہے۔
خدارا، غور کرو!
کیا تم نے یہاں ہمیشہ رہنے کا کوئی معاہدہ کیا ہوا ہے؟ ایک دن سب کو مرنا ہے، لیکن حق بات کہنے سے کون روک رہا ہے؟ اگر پاکستان تمہیں عزیز ہے تو حقیقی معنوں میں اس سے محبت کرو۔ منافقت چھوڑ دو۔ اللہ کے لیے، پاکستان میں منافقین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اللہ کے لیے، واپس آ جاؤ، سیدھے راستے پر۔
محمد عرفان اے صدیقی
#pakistankarachi#Pakistan#pakistankisituation#PakistanZindabad#pakistanislamabad
0 notes
crystalheart-kazmi · 8 months ago
Text
About the picture: The illustration depicting the internal enemies of the Pakistan Army. The image captures a metaphorical representation of the army surrounded by shadows of deceit and betrayal, highlighting the struggles faced by the institution. Original: Internal enemies of Pakistan Army – پاکستانی فوج کے اندرونی دشمنCrystal Kazmi As per evidence below, I have been requesting the Army top…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 9 months ago
Text
شاہراہ قراقرم دنیا کی بلند ترین پختہ سڑک
Tumblr media
شاہراہ قراقرم اپنے مشکل گزار راستوں کے باعث معروف ہے۔ سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔ مگر یہاں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ قراقرم ہائی وے کی تعمیر ہے جو دنیا کی ’بلند ترین پختہ سڑک‘ کہلائی جاتی ہے۔ چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے جُڑ جاتی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور اس کی تکمیل سنہ 1978 میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی بنیاد قدیم شاہراہ ریشم تھی۔ اس شاہراہ کا 887 کل��میٹر کا حصہ پاکستان جبکہ 400 کلومیٹر سے زائد حصہ چین میں ہے۔
Tumblr media
اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے دو سال قبل اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق موسم کی شدت، شدید برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر اس سڑک پر کام کرنے والوں میں سے 800 سے زائد پاکستانی جبکہ 80 سے زائد چینی شہری تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران ہلاک ہوئے۔ قراقرم کی سخت پتھریلی چٹانوں میں رستے بنانے کے لیے آٹھ ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال ہوا اور شاہراہ کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا تھا۔ 
Tumblr media Tumblr media
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
ایران کے علاقے سراوان میں حملے کے لیے پاک فوج نے ڈرونز سمیت 5 قسم کے ہتھیار استعمال کئے، تفصیلات جاری
پاک فوج نے ایران کے علاقے سروان میں جمعرات کو علی الصبح کیے گئے حملے کی تفصیلات جاری کردی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج نے حملے کے لیے ڈرون طیاروں سمیت 5 قسم کے ہتھیار استعمال کیے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ 18 جنوری 2024 کے ابتدائی اوقات میں، پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
انتخابات کے بعد رولا ہی رولا
Tumblr media
8 فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخابات کے حوالے سے دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9 مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’’آزادانہ‘‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا ۔ 9 مئی والے کون ہیں؟ اُنہوں نے کس پر حملہ کیا تھا؟ وہ کیسا اور کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے؟ وہ کس ادارے کو اپریل 2022 سے، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہ��ا، اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔ 
تحریک انصاف کےچیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت کی قیادت کا فیصلہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ کسی سے نہ کوئی انتقام لیں گے نہ ہی کسی ادارے سے لڑائی لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا بھی یہی فیصلہ ہو لیکن تحریک انصاف کے انتخابات جیتنے کی صورت میں فوری طور پر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کیا ٹرینڈ چلائے گا؟ کس کس کو نشانے پر رکھے گا؟ نئی حکومت سے کیا مطالبے کرے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کیا تحریک انصاف اور عمران خان کو اُن کا فوج اور فوج کی قیادت سے متعلق ماضی کا ایک ایک بیان اور الزام یاد نہیں دلائیں گے؟ اس سب کے ملک کے سیاسی و معاشی حالات پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر عمران خان واقعی بدل گئے ہوں اور تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی اداروں سے نفرت ختم بھی ہو گئی ہو تو دوسری طرف جن پر 9 مئی کے حملے ہوئے کیا وہ 9 مئی کو بھلا دیں گے؟
Tumblr media
کیا وہ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور جن کو وہ منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں، اُن سب کو گلے لگا لیں گے؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پربہت پہلے سوچ بچار ہونی چاہیے تھی، 9 مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے تھی، معافی تلافی کے رستے نکالنے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ بھی ایسے ہیں کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا یہ سوچ کر پاکستان کے بارے میں فکر ہوتی ہے۔ جس ’’آزاد‘‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ 
تحریک انصاف کے مطابق اُن کے 90 فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 8 فروری تک تحریک انصاف کو الیکشن میں اور کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو، اُسے انتخابات نہیں جیتنے دیا جائیگا۔ اب ایسے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی توکیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟ آگے تو رولا ہی رولا نظر آرہا ہے۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 1 month ago
Text
کیا واقعی ملک کوانتشار اور تقسیم سے پاک فوج نے بچارکھاہے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان، عراق اور شام میں پیش آنے والے واقعات پاکستان کیلئے ایک وارننگ ہیں۔ لہازا عوام کو فوج کے سامنے کھڑا کرنے کی پالیسی سے صرف اور صرف پاکستان کا نقصان ہوگا۔ انکا کہنا یے کہ مانا پاکستانی فوج نے جمہوریت کو بگاڑا ہے لیکن یاد رکھیں فوج کے بغیر جمہوریت بھی قائم نہیں رہ سکتی، جب فوج کے بغیر ریاست نہیں رہے گی تو جمہوریت کیسے بچے گی۔ لیبیا،…
0 notes
globalknock · 1 year ago
Text
پاک افغان مذاکرات ناکام، طورخم بارڈر بدستور بند
اسلام آباد: پاکستان اور افغان حکام کے درمیان طورخم بارڈرکھولنے کیلیے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے جب کہ سرحدی گزرگاہ اتوار کو پانچویں روز بھی بدستور بند رہی۔ طورخم سرحدی گزرگاہ 6 ستمبرکو پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد بند کردی گئی تھی۔جھڑپ اس وقت شروع ہوئی تھی جب افغان فورسز نے پاکستان حدود میں ایک چوکی تعمیر کرنے کی کوشش کی جسے پاکستانی فوج نے دونوں ملکوں کے مابین معاہدے کی خلاف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
Tumblr media
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
Tumblr media
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چ��ہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔ 
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
dr-jan-baloch · 27 days ago
Text
Tumblr media
بلوچ قومی تحریک اور دوسرے محکوم اقوام مل کر پنجابی جرنلوں کی جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے پروفائلنگ کرنا چاہیے ۔ حیربیار مری
https://humgaam.net/?p=100340
لندن (ہمگام نیوز) ممتاز بلوچ قومی رہنما اور فری بلوچستان مومنٹ کے صدر حیربیارمری نے مقبوضہ بلوچستان پرپاکستان کی غیرقانونی قبضہ کی مختصر پس منظر اور پنجاب کی بلادستی اور مفتوحہ کے پی کے پر منافقت پرمبنی پاکستانی میڈیا کی پالیسیوں پر پالیسی بیان دیتے ہوتے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا ہے کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو تاریخی طور پر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا، لہٰذا یہ پاکستان کا حصہ بھی نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ پاکستان خود بھارت کا حصہ تھا۔
برطانوی استعماری قوتوں نے انڈیا کو منقسم کر کے اسے کمزور کرنے کی کوشش میں اسے تقسیم کیا۔ پاکستان کی سیاسی ساخت میں پنجابی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے تسلط کا حقیقی چہرہ مسلسل بے نقاب ہوتا آ رہا ہے۔اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ پاکستانی سیاستدانوں اور میڈیا نے اس پر شدید پروپیگنڈا شروع کر دیا، گویا کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کا امن کے لیے مذاکرات کرنا پنجاب کی بالادستی کے خلاف بغاوت ہو۔
لیکن جب پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چین کا ہفتہ بھر کا دورہ کیا اور کئی معاہدے کیے، تو وہی میڈیا اور سیاستدان تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ خیبر پختونخوا کو ایک مفتوح اور شکست خوردہ زمین سمجھا جاتا ہے، جبکہ پنجاب کو اس ملک کا بلاشرکت غیرے مالک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرے معیار اور مرکزیت کی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بلوچ قومی رہنما حیربیارمری نے پاکستانی سیاست کی مفافقت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں "اسٹیبلشمنٹ" کا لفظ اکثر خوف کے مارے فوج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ وہاں حقیقت کو بیان کرنا ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ جبر کی انتہا ہے کہ آپ کسی چیز کو اس کے اصل نام سے نہیں پکار سکتے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی سیاسی بندوبست میں پنجاب کی سیاسی اور معاشی اجارہ داریت کو برقرار رکھنے کی خاطر پنجابیوں پرمشتمل پاکستان کے نام پر نام نہاد پاک فوج تشکیل دی گئی ہے۔ اس فوج کی جرنیلوں کی پروفائل اور کورکمانڈرز کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اسلام اور پاکستان کے نام پر ان پنجابی جرنیلوں کی بے وقوفانہ سیاست نے اس خطے کی کروڑوں انسانون کی امن اور خوشحالی کو نہ صرف یرغمال بنا کیا ہوا ہے بلکن بلوچستان اور پختونخوا اور افغانستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک اور دوسرے محکوم اقوام کی ساتھ ملکر تمام پنجابی جرنلوں کا پرفائلنگ کرتے ہوئے ان کی انسانیت سوز جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کرنا چاہیے تاکہ انکی نسلیں دنیا کے سامنے شرمندہ رہیں۔
0 notes