#ٹوپی
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
ڈان بریڈ مین کی ٹوپی اتنی مہنگی فروخت ہونے کی توقع کہ یقین نہ آئے
 سڈنی (ڈیلی پاکستان آن لائن)آسٹریلیا کے عظیم بلے باز ڈان بریڈمین کی پہنی ہوئی ٹوپی (بیگی گرین) منگل کو سڈنی میں نیلام کی جائے گی، اور توقع ہے کہ یہ پرانی ٹوپی دو لاکھ 60 ہزار امریکی ڈالر (تقریباً سات کروڑ 22 لاکھ روپے) تک قیمت حاصل کرے گی۔ بریڈمین نے یہ اونی ٹوپی 1947-48 میں بھارت کے دورۂ آسٹریلیا کے دوران پہنی تھی۔ آزادی کے بعد یہ بھارت کی پہلی غیر ملکی ٹیسٹ سیریز تھی۔  نیلامی ہاؤس بونہیمز نے…
0 notes
azmathfan · 2 months ago
Text
ٹین کا بندر
سنگلاخ چٹانوں کے بیچ ایک پرانی آبادی میں مٹی پتھر اور لکڑی کے بنے خوبصورت محل نما گھروں میں روزمرّہ کا کام جاری ہے بوڑھے اکتوبر نومبر کے ریشمی جھاڑوں میں کھلے آنگنوں میں بیٹھے دھوپ سیک رہے ہیں سورج آہستہ آہستہ سرکتا ہوا ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی جانب محوِ سفر ہے درختوں کے ساے بڑھ رہے ہیں گاوں کا حجام ایک صحن میں چھوٹے بڑوں کی حجمامت میں مصروف ہے بچے حجام کے گرد دائرہ بناے بیٹھےاپنی باری کاانتظارکررےہیں جسے ہی کسی بچے کا نمبر آتا ہے کوہی بڑا آ کے بیٹھ جاتا ہے بچے مایوسی اور غصے کے ملے جُلے جذبات کا اظہار سرگوشیوں میں کر رہے ایک بچہ سکول بیگ زمین پہ رکھتے ہوے باقی بچوں کو ذرہ دھیمی آواز میں کہہ رہا ہے ہمارے بڑے بھی نا پکے سامراجی ہیں حجمامت کرواتے چاچےپھنڈو کا غصے سے چہرہ سوا کُٹ [سرخ] ہو جاتا ہے کوبرا سانپ کی طرح پھنکارتے ہوے چاچا پھنڈو اپنی ترنگ میں بولے جا رہا ہے آج کل کے بچوں میں احترام نام کی کوہی چیز ہی نہیں میں ان کے باپ کی عمر کا ہوں مجھے مر چی کہہ دیا ہے یہ اپنے ماں باپ کا کیا احترام کرتے ہوں گے موب لیل کی پیداوار کہیں کے
ساے بڑھتے جا رہے ہیں آبادی میں مٹی کے بنے چولہوں پہ چاے اُبل رہی ہے ماہیں اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی ہیں آچھو چا پی ہینو [آو چاے پی لو] چاے کی پیالیوں سے اٹھتی بھاپ فضا میں تحلیل ہو رہی ہے فضاہیں محطر ہیں آبادی میں جادوہی سماں ہے۔
ساے بڑھتے بڑھتے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پہ پہنچ چکے ہیں پہاڑ کی چوٹی سے ایک مداری بندر کے گلے میں رسی ڈالے آہستہ آہستہ آبادی کی طرف بڑھ رہا ہے ہر کوہی ماتھے پہ ہاتھ رکھے آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے ہوے پہاڑ کی چوٹی سے اترتے مداری اور بندر کی طرف دیکھ رہا ہے سورج تھک کر لال ہو چکا ہے ساے غاہب ہو رہے ہیں مداری آبادی کے ایک صحن میں پہنچ چکاہے بچے سہم کر دیکھ رہے ہیں کہ مداری نے جس کے گلے میں رسی ڈال رکھی ہے یہ چیز کیا ہے کوہی جن بھوت ہے بلا ہے یا کہکو ہے آبادی میں رہنے والے بچے بندر پہلی بار دیکھ رہے تھے چاچا پھنڈو طیش میں آکر پھر بچوں پہ غصہ نکال رہا ہے کہہ دیخنیو بوجا دا یو نہی چک مارنا [ کیا دیکھ رہے ہو بندر ہے یہ نہیں کاٹے گا] حجام ہتھیلی پہ استرا تیز کرتے ہوے بچوں کو سمجھا رہا ہے یہ پڑھ�� ہوا بوجا ہے مالک کی سنتا ہے مالک اسے جو حکم دیتا ہے وہی کرتا ہے انسان بھی بندر سے انسان بنے ہیں ڈرو نہیں
بچے حجام کی راے کا احترام کرتے ہوے مداری کے پاس جمح ہو گے مداری سب کچھ بھانپ رہا تھا بندر کے گلے میں گھنگوروں جڑا پٹہ اور کمر پہ چمڑے کا بیلٹ تھا مداری نے سر پہ ٹوپی رکھتے ہوے ڈگڈگی بجاہی بندر دونوں ہاتھ اٹھا کر ناچنا شروع کر دیتا ہے چاچے پھنڈو کی جھڑکیوں سے تنگ بچوں کو خوشی کے چند لمحات ملے تو انھوں نے زور زور سے تالیاں بجانا شروع کر دی تالیوں کی آواز سن کر قرب و جوار کے بچے بھی جمح ہو گے ایک ماحول بن گیا
شام گہری ہوتی جا رہی ہے
مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے، ڈنڈا ہر وقت بندر کے سر کے اوپر ہے۔ مداری نے اپنے دائیں ہاتھ پر بندر کے گلے میں بندھی رسی کو بل دے کر بندر کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اگر کچھ چھوٹ دینا ہوتی ہے تو وہ ہاتھ کو آگے کرتا ورنہ پھر کھینچ کر بندر کو اپنے تابع رکھتا، اُس دوران میں ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا بندر کے سر کے اوپر مسلسل رہتا۔ مداری بائیں ہاتھ سے متواتر ڈگڈگی بجا رہا ہے اور بچوں کو تسلسل کے ساتھ کہانی سنا رہا ہے۔ مداری کو کہانی بیان کرنے کا ہنر ہے۔ اُس نے کامیابی سے کئی تماشے لگائے اور سمیٹے ہیں۔
بندر کو ٹوپی پہنا دی گئی۔ مداری نے زمیں پر ایک چھوٹا ٹین کا ڈبہ رکھا، رسی سے بندھے بندر کو مداری نے بتایا ہے کہ یہ تیری کرسی ہے، چل اب اس پر چل کے بیٹھ
بندر نخرے دکھا رہا ہے، بندر ایسی کرسی پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ مداری نے زبان بدل لی، اُس نے کسی بدیسی سے کچھ انگریزی زبان سیکھی لگتی ہے۔ حاضرین کو بتاتا ہے کہ بندر انگریزی سمجھتا ہے۔ سو بندر کو انگریزی میں حکم دیا، ” گو اینڈ شِٹ ڈاون”۔ انگریزی اور ڈنڈے دونوں کے اکٹھ سے حکم بندر کو سمجھ آجاتا ہے اور وہ ٹین کے ڈبے پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
بچے خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں بندر مٹک مٹک کر ڈانس کر رہا ہے مداری خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے کہ ایک لمبے عرصے بعد اسے داد مل رہی ہے دھندہ ٹھپ ہو چکا تھا شکر ہے بچوں نے بندر تماشہ پہلی بار دیکھا
اب رات کا سماں ہے بچے مداری اور بندر کے لیے مخملی بستر بچھا دیتے ہیں بندر اور مداری کو انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں
مداری اور بندر آبادی کے محترم مہمان بن جاتے ہیں روزانہ بندر تماشہ لگایا جاتا ہے شب و روز یونہی گذر رہے ہیں دور دراز آبادیوں سے لوگ آ کر بندر تماشہ دیکھ رہے ہیں
اچانک ایک دن مداری کے رشتے دار آبادی میں داخل ہو کر مداری اور بندر کی تلاش شروع کر دیتے ہیں مداری کے رشتے دار کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں گھر سے بھاگے ہوے ہیں بندر ہمارا ہے ہم اس سے نہیں چھوڑیں گے
بچے بندر کو کسی دوسری جگہ بھاگادیتے ہیں مداری کے رشتے دار مایوس گھر کو لوٹ جاتے ہیں بیابانوں جنگلوں میں سر پٹخ رہے ہیں بندر نظر بھی آ جاے تو مداری کے ڈر سے اس کے قریب نہیں جاتے
اب مداری کے رشتے دار تلاش بسیار کے بعد وحشی ہو چکے ہیں گھپ اندھیری رات میں آبادی پہ دھاوا بول دیتے ہیں جن بچوں نے بندر تماشہ دیکھا انھیں سبق سکھا رہے ہیں ہر طرف آہ و بکا ہے بچے جو ماوں کی گود میں تھے مداری کے رشتے دار انھیں بغل میں دبا کر بھاگ رہے ہیں
بڑے بچے چھوٹے بچوں کو چھوڑاتے ہوے لہو لہان ہیں پگٹڈیوں پہ لہو کی پپڑیاں جمحی ہیں
فضاہیں محصوم خون کی خوشبو سے عطر بیز ہیں مداری کے رشتے دار بھی زخم چاٹ رہے ہیں
آبادی کی صبح افسردہ ہے معصوم بچے مٹی کے چولہوں کے پاس بیٹھے خاموشی سے سراپا سوال ہیں کہ آج ماہیں آگ کیوں نہیں جلا رہے ہیں چاے کیوں نہیں بناہی جا رہی
بندر مداری کے اشاروں پہ دور کہیں گھنے جنگلوں میں ٹہنیوں پہ چلانگیں لگا رہا ہے مداری کے
رشتے دار چاہ رہے ہیں کہ بندر خود ہی پنجرے میں آ کر بیٹھ جاے
چاچا پھنڈو محفل سجا کر کچے ذہن کے بچوں پہ پھٹکار بھیج رہا ہے کاش یہ چاچا پھنڈو اپنے نمبر پہ حجمامت ک��واتا تو بچے بقول چاچا پھنڈو کے یوں بدتمیز نہ ہوتے
خیر اب
موسم بدل رہا ہے دسمبر کی سرمئ شاموں سرد راتوں حناہی صبحوں کا قہر ٹوٹنے والا ہے
سر پہ خاک ڈالے تار تار دامن ننگے پاوں آبلہ پا آشفتہ سر ملنگ ہمالے کی چوٹیوں پہ افسردہ شکستہ دِل سے اپنے آپ کو کوس رہا ہے
اپنا چہرہ نوچ رہا ہے
کہ کاش میں آبادی کہ محصوم ہیرے موتیوں نڈر چیتے کا جگر رکھنے والے بچوں کو مداری اور بندر کے کھیل کی حقیقت سمجھا دیتا یا سمجھا پاتا
عظمت حسین
جدہ سعودی عربیہ
۱۳ ،نومبر ۲۰۲۴
Tumblr media
3 notes · View notes
asliahlesunnet · 7 months ago
Photo
Tumblr media
نظر کی حقیقت اور اس کا علاج سوال ۶۵: کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ کیا نظر سے بچنا توکل کے منافی ہے؟ جواب :نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ﴾ (القلم: ۵۱) ’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتْ الْعَیْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۸۔) ’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔‘‘ اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَنْ تَتَّہِمُوْنَ ٖ) ’’تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَلَامَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِیہِ مَا یُعْجِبُہُ فَلْیَدْعُ لَہُ بِالْبَرَکَۃ))ِ (سنن ابن ماجہ، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔) ’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: (وَاَمَرَہُ اَنْ یَّک��فَأَ الْاِنَائَ مِنْ خَلْفِہٖ) ’’اور آپ نے عائن کو حکم دیا کہ وہ معین کے پیچھے کی طرف سے اس پر پانی کے اس برتن کو انڈیل دیں۔‘‘ واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ ۶۔ دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا رُقْیَۃَ اِلاَّ مِنْ عَیْنٍ اَوْ حُمَۃٍ)) (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… ح:۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب، ح:۲۲۰۔) ’’ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا بخار ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے: ((بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ، مِنْ کُلَّ شَیْئٍ یُؤْذِیْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ، بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔) ’’اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘ ۲۔ دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔ نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللّٰہ اعلم نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: ((أَعِیْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ))( صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱ وسنن ابن ماجہ، الطب، باب ما عوذ بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما عوذ بہ، ح: ۳۵۲۵ ولفظہا: اعوذ بکلمات االلّٰه … وسنن ابی داود، السنۃ، باب فی القرآن، ح:۴۷۳۷ وجامع الترمذی، الطب، باب کیف یعوذ الصبیان، ح:۲۰۶۰۔) ’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق رحمہم اللہ کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۷ ) #FAI00058 ID: FAI00058 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
واکر شاداب بلوچ  نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنالی۔
معروف اور عالمی ریکارڈ یافتہ واکر شاداب بلوچ  نے گنیز بک اف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنالی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سینتس سالہ لانگ ڈیٹینس رنر شاداب بلوچ نے امریکن اتھیلیٹ کا قائم کردہ لمبی ٹوپی پہن کر دس میٹر کی واک مکمل کرکے ریکارڈ بریک کر دیا, شاداب بلوچ نے  یوایس اے کے ایتھلیٹ اوڈیلون اوزار کا گنیز ورلڈ ریکارڈ  اپنے نام کیا۔ اوڈیلون اوزارے نے دنیا کی سب سے اونچی ٹوپی بنائی ۔ جس کی لمبائی پندرہ فٹ…
0 notes
idararohaniamliyat · 7 months ago
Text
Nazron Se Gayab Hone Ka Amal Sirf 5 Minut Main | Nazron se Gayab Hone Wa...
youtube
https://yt.openinapp.co/zb0w2
*Nazron Se Gayab hone ka Amal sirf 5 minut mein*
Nazron Se Gayab Hone Wali topi
*نظروں سے غائب ہونے کا عمل صرف 5منٹ میں*
نظروں سے غائب ہونے والی ٹوپی
VIDEO DEKHNE SE PAHLE
CHANNEL KO SUBSCRIBE KAREN
BELL ICON KO DABAE
ALL SELECT KAR DE
TAKI HAMARA HAR AMAL AAPKO SABSE PAHLE MIL JAAYE
VIDEO KO LIKE KAREN
VIDEO KO AAGE JYADA SE JYADA HAR JAGAH SHARE KAREN
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
اب تو ووٹ نہیں ڈالنا؟ عیش کرو، سینیٹر طلحہ الیکشن ہارنے کے بعد رقوم تقسیم کرتے رہے
چترال این اے 1 سے جے یو آٸی کے  امیدوار سینیٹر طلحہٰ محمود الیکشن ہار گئے لیکن شکست کے بعد ایک عجیب بات ہوئی، طلحہ محمود الیکشن ہارنے کے بعد لوگوں میں رقوم تقسیم کرتے نظر آئے اور رقم لینے والوں میں تحریک انصاف کے جھنڈے والی ٹوپی پہنے نوجوان بھی نظر آئے۔ سینیٹر طلحہ مح محمود کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں الیکشن ہارنے کے بعد وہ لوگوں میں رقوم تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ویڈیو میں سینیٹر طلحہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dasteen-e-dil · 2 years ago
Text
جاپان کا ٹیکسی ڈرائیور کی کھانی @everyone جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص ٹیکسی میں سوار ہوا۔ زبان نہ آنے کی وجہ سے زیادہ بات تو نہ کر سکا، بس اس انسٹیٹوٹ کا نام لیا جہاں اسے جانا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور سمجھ گیا، اس نے سر جھکایا اور مسافر کو دروازہ کھول کر بٹھایا۔ اسطرح بٹھانا انکا کلچر ہے۔ سفر کا آغاز ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے میٹر آن کیا، تھوڑی دیر کے بعد بند کر دیا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آن کر دیا۔ مسافر حیران تھا مگر زبان نہ آنے کی وجہ سے چپ رہا۔ جب انسٹیٹوٹ پہنچا تو استقبال کرنے والوں سے کہنے لگا، پہلے تو آپ اس ٹیکسی ڈرائیور سے یہ پوچھیں کہ اس نے دورانِ سفر کچھ دیر گاڑی کا میٹر کیوں بند رکھا؟ لوگوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا تو وہ بولا ’’راستے میں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے جس جگہ سے مڑنا تھا، وہاں سے نہ ��ڑ سکا، اگلا یوٹرن کافی دور تھا، میری غلطی کے باعث دو ڈھائی کلومیٹر سفر اضافی کرنا پڑا، اس دوران میں نے گاڑی کا میٹر بند رکھا، جو مسافت میں نے اپنی غلطی سے بڑھائی اس کے پیسے میں مسافر سے نہیں لے سکتا‘‘۔ میں حیران ہوں کہ اس ڈرائیور نے نہ چِلہ لگایا تھا، نہ وہ نماز پڑھتا تھا، نہ کلمہ، نہ اس کی داڑھی تھی، نہ جُبہ، نہ ٹوپی مگر دیانتداری تھی۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر ایمانداری نہیں ہے۔ ہم مسلمان ضرور ہیں مگر ہمارے پاس اسلام نہیں ہے۔ اسلام پگڑی، کُرتے، پاجامے اور داڑھی کا نام نہیں بلکہ اسلام سچ بولنے، صحیح ناپنے تولنے کا نام ہے۔ اسلام دیانتداری کا نام ھے۔۔ آئیے اب ہم اپنا موازنہ کر لیتے ہیں……… https://youtu.be/Rq3v5DnQqKU
1 note · View note
risingpakistan · 2 years ago
Text
آئی ایم ایف اور بھرا ہوا سگریٹ
Tumblr media
گزشتہ ہفتے جو سالانہ وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، اس میں یکم جولائی سے کم سے کم ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار روپے سے بڑھا کے بتیس ہزار روپے کر دی گئی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی اکثریت کے لیے پنشن کی کم ازکم حد ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کے دس ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ تو کیا اس اضافے کو ایک ایسی معیشت میں خوشخبری سمجھا جائے جس میں سالانہ بڑھوتری محض اعشاریہ انتیس فیصد ہوئی ہے۔ مہنگائی کا ماہانہ گراف اڑتیس فیصد سے اوپر جا چکا ہے، شرح سود اکیس فیصد پر برقرار ہے، ایک ڈالر ایک برس کے دوران مزید سو روپے کھا چکا ہے اور پاکستانیوں کی فی کس آمدنی گزشتہ برس کی سترہ سو چھیاسٹھ ڈالر کی حد سے اوپر نکلنے کے بجائے پندرہ سو اڑسٹھ ڈالر تک گر گئی ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے موجودہ سیٹ اپ پر عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس کے مقابلے میں جاری مالی سال میں ساڑھے تین ارب ڈالر کم بھیجے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت جب اس ملک کو ایک ایک ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔
زرعی شعبے میں گندم اور مکئی کی پیداوار میں اگرچہ چھ فیصد اضافہ ہوا ہے مگر پاکستان کو زرِمبادلہ فراہم کرنے والی کپاس کی فصل میں اکتالیس فیصد اور چاول کی پیداوار میں بائیس فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ صنعتی شعبہ بھی لگ بھگ تین فیصد سکڑ گیا ہے۔ کار ساز کمپنیاں تو بوریا بستر گول یا چھوٹا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہی ہیں۔ اب شیل پٹرولیم نے بھی اپنی سرمایہ کاری نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔  ان تمام خبروں سے بیمار معیشت پر اور تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن جو بیرونی سرمایہ کار تھوڑا بہت پیسہ لگانے کے لیے سوچ بھی رہے تھے انہوں نے اب تک یہ سوچ کے پر دوبارہ سمیٹ لیے ہوں گے کہ جب شیل جیسی بڑی کمپنی اتنے برس منافع کمانے کے بعد بھی پاؤں مزید ٹکانے میں دشواری محسوس کر رہی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ گراچی میں ایک محاورہ عام ہے ٹوپی گھمانا۔ اس کا مطلب ہے کہ احمد سے ادھار لی گئی ٹوپی محمود کے سر پر رکھ دو اور جب احمد واپسی کا تقاضا کرے تو محمود کے سر پر رکھی ٹوپی احمد کے سر پے رکھ کے کسی نئے شخص کو شیشے میں اتار کے اس کی ٹوپی محمود کے سر پے رکھ دو۔
Tumblr media
پاکستانی معیشت بھی گزشتہ ایک برس سے ٹوپی گھمانے کے اصول پر رواں ہے۔چین سے قرضہ لے کے متحدہ عرب امارات کو واپس کر دو اور پھر امارات سے دوبارہ وہی قرضہ واپس لے کے چین کو لوٹا دو اور پھر امارات تقاضا کرے تو سعودی عرب سے قرضہ لے کے امارات کو دے دو اور پھر چین سے وہی پرانا قرضہ رول اوور کے نام سے چین سے لے کے سعودی عرب کو واپس کر کے اس ��ے دوبارہ وہی پیسے لے کے چین کو لوٹا دو اور اگلے دن پھر واپس لے لو۔ جب تک آپ کو پوری طرح ٹوپی گھمانے کا آرٹ سمجھ میں آئے تب تک خود آپ کے سر پر ٹوپی گھمائی جا چکی ہو گی۔ جیسا کہ میں نے شروع میں مثال دی کہ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی ماہانہ شرح میں اڑتیس فیصد اضافے کے بعد غریبوں کی کم ازکم تنخواہ بڑھا کے انہیں محسوس کروایا گیا کہ سرکار کو ان کا کتنا درد ہے اور پھر اس اضافے کو پٹرول، ڈیزل اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کھا جائے گا۔ یوں سب ناراض اور سب بیک وقت خوش۔ اسے کہتے ہیں ڈارنامکس ۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران آئی ایم ایف نے شائد ہی کسی ملک کی جانب سے قرضے یا قسط کی درخواست مسترد کی ہو۔ مگر ہمارے وزیرِ خزانہ جس طرح آئی ایم ایف کو کبھی آنکھیں دکھاتے ہیں، کبھی ہر شرط مان لینے کا عندیہ دیتے ہیں اور پھر فوراً طعنہ زنی شروع کر دیتے ہیں۔ اس رویے نے آئی ایم ایف کو بھی کنفیوز کر رکھا ہے۔ چنانچہ وہ کچھ شرائط پوری ہونے کے بعد مزید کچھ شرائط پیش کر دیتا ہے۔  آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ مالی انتظام کی معیاد تیس جون کو ختم ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف نے سوا ارب ڈالر کی وہ قسط جو اکتوبر میں جاری کرنا تھی آج آٹھ مہینہ بعد بھی اسے بانس سے لٹکایا ہوا ہے۔ اسحاق ڈار ایک دن کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف دراصل پ��کستان کو سری لنکا کی طرح دیوالیہ دیکھ کر ہمارے گھٹنے ٹیکوانا چاہتا ہے اور دوسری ہی سانس میں یہ پیش کش بھی کر دیتے ہیں کہ میں نے جو بجٹ پیش کیا ہے اگر آئی ایم ایف کو اس میں دی گئی رعائیتوں پر اعتراض ہے تو بجٹ سفارشات میں اب بھی رد و بدل ممکن ہے۔
پاکستان کا معاشی بدن ٹوٹ رہا ہے اور آئی ایم ایف اس بار ایک اور بھرا ہوا سگریٹ دوبارہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ ہر بار اسے یہی سننے کو ملتا ہے کہ خدا کی قسم یہ آخری ہے، اس کے بعد نہیں پیئوں گا۔ لہذا جس طرح کمہار کا غصہ بالاخر گدھے پر نکلتا ہے۔ بعینہہ ڈار صاحب کا غصہ عملاً پہلے سے ادھ موئے عوام پر نکل رہا ہے۔ کم ازکم تنخواہ میں سات ہزار روپے اور پنشن میں ڈیڑھ سے ساڑھے تین ہزار روپے کا اضافہ کرنے کے بعد عام آدمی کو مہنگائی کے بھیڑیے سے بھڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب یہ ستر فیصد پاکستانی شہریوں کا امتحان ہے کہ بتیس ہزار روپے میں چار نفوس کا کنبہ روٹی ، دوا ، چھت اور تعلیم کا خرچہ پورا کر کے دکھائیں اور پنشنرز بارہ ہزار روپے میں پورا مہینہ نکال کے دکھائے۔ اس وقت اگر یہ سماج پوری طرح بکھر نہیں پا رہا تو اس کی وجہ بس وہ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ ہے، جس سے اس کا مالک بارہ گھنٹے کی شفٹ کروانے کے بعد سرکار کی کم ازکم مقرر کردہ پچیس ہزار روپے کی تنخواہ کے واؤچر پر دستخط کروا کے اسے پندرہ سے بیس ہزار روپے دیتا ہے، کیونکہ اس سیکورٹی گارڈ نے اب تک کمپنی کی فراہم کردہ بندوق یا پستول کا رخ کسی موٹی توند والے سیٹھ کی طرف نہیں کیا۔ 
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
forgottengenius · 2 years ago
Text
سوشل میڈیا بلیک آؤٹ سے بچانے والا وی پی این کیا ہے؟
Tumblr media
جس طرح لوک کہانیوں میں ایک سلیمانی ٹوپی کا ذکر ملتا ہے جسے پہن کر آپ دوسروں کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں، اسی طرح وی پی این یا ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ایک طرح کی سلیمانی ٹوپی ہے جو انٹرنیٹ صارفین کی لوکیشن کو چھپا دیتی ہے اور حکام کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس جگہ سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صارفین وی پی این کی مدد سے ایک ملک میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی اور ملک میں موجود ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ پاکستان میں ہیں، لیکن وی پی این کی مدد سے خود کو برطانیہ، بیلجیئم یا کینیڈا، غرض کسی بھی ملک میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے وہ اپنے ملک میں موجود کسی بھی قسم کی پابندی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔
Tumblr media
مثال کے طور پر پاکستان میں اس وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر سرکاری سطح پر پابندی عائد ہے لیکن جب کوئی صارف وی پی این کے ذریعے ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرے تو وہ اس پابندی کو بائی پاس کر سکتا ہے۔ پاکستان میں وی پی این کے استعمال کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے سروس کو رجسٹر کروانا ضروری ہے اور غیر رجسٹرڈ وی پی این کو استعمال کرنا خلاف قانون ہے۔ عالمی سطح پر کئی کمپنیاں وی پی این سہولت مہیا کرتی ہیں جو صارفین مفت یا فیس ادا کر کے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صارف قمر شہباز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تقریباً چھ سال سے وی پی این سروس استعمال کر رہے ہیں۔ قمر کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ امریکی برانڈز کے لیے ایمازون پر ورچوئل اسسٹنٹ ہوں۔ مجھے اپنے کام کے لیے ایسے سوفٹ ویئر استعمال کرنا پڑتے ہیں جو صرف امریکہ کے اندر رہتے ہوئے استعمال ہو سکتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وی پی این کے ذریعے میرے کمپیوٹر کی لوکیشن وقتی طور پر امریکہ کی ظاہر ہو جاتی ہے جس سے میں ان سافٹ ویئرز پر کام کر سکتا ہوں۔‘ قمر نے یہ بھی بتایا کہ وہ جو وی پی این استعمال کرتے ہیں اس کی فیس ادا کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے وی پی اینز بھی موجود ہیں جو مفت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ’مفت سروس میں محدود گھنٹوں کے لیے ہی وی پی این استعمال کی جا سکتی ہے۔‘ وی پی این کا ایک اور استعمال یوں کیا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر نیٹ فلکس کے کچھ پروگرام امریکہ میں دیکھے جا سکتے ہیں مگر پاکستان میں نہیں۔ لوگ وی پی این کی مدد سے اپنے آپ کو امریکہ میں ظاہر کر کے یہ پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔
محمد حسان گُل 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
ہم اور ہمارے بچے کیا کھا رہے ہیں ؟
Tumblr media
حالانکہ کھانا زندہ رہنے کے لیے کھایا جاتا ہے لیکن کبھی کبھی کھانا زندگی چھین بھی لیتا ہے۔ یہی بات سمجھانے کے لیے ہر برس کی طرح کل محفوظ خوراک کے فروغ کا عالمی دن ( سات جون ) منایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ رزق کا وعدہ اوپر والے نے کیا ہے۔ یہ بھی بجا کہ غذا وہ کھانی چاہیے جو حلال اور صحت بخش ہو۔اس کے باوجود خوراک پاک و صاف ماحول میں تیار نہ کی جائے تو حلال خوراک کو مضرِ صحت یا حرام بننے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔ اپنی اولاد کو سونے کا نوالہ بے شک کھلائیں مگر وہ سونا اور اسے کھلانے والے ہاتھ اور برتن اگر صاف نہ ہوں تو پھر سونے کو بھی بیمار نوالہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ خوراک کی شکل میں زہر خورانی (فوڈ پوائزننگ) کے جتنے بھی واقعات سامنے آتے ہیں وہ باورچی خانے سے زیادہ گھر کے باہر ہوتے ہیں۔ جوں جوں آؤٹ ڈور ڈائیننگ کا رواج بڑھ رہا ہے توں توں ہمارے معدوں میں غیر معیاری خوراک بھی جا رہی ہے اور ہم یہ خوراک پیسے دے کے خرید رہے ہیں اور اپنے گھروں میں اس کی ڈلیوری بھی کروا رہے ہیں۔ باسی خوراک یا صحت دشمن بکٹیریاز، وائرس، انسانی خون پر پلنے والے ��یراسائٹس اور ملاوٹ زدہ نیم پکی کچی خوراک کے سبب روزانہ دنیا میں لگ بھگ سولہ لاکھ انسان زہر خورانی اور دیگر جسمانی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان میں سے لگ بھگ چار لاکھ بیس ہزار انسان بیماری کے سبب مر بھی جاتے ہیں۔ان میں پانچ برس یا اس سے کم کے لگ بھگ سوا لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ کیونکہ ان کے نازک اور نمو پذیر جسمانی نظام پر غیرمعیاری خوراک سب سے پہلے حملہ کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے ناقص خوراک میں شامل بکٹیریاز ، وائرس، پیراسائٹس، مضرِ کیمیاوی مادے مل ملا کے ڈائریا سے کینسر تک مختلف اقسام کی لگ بھگ دو سو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ نتیجہ اوسطاً ایک سو دس ارب ڈالر سالانہ کے معاشی نقصان کی شکل میں نکل رہا ہے۔ یعنی پچانوے ارب ڈالر صاحبِ روزگار انسانوں کے بیمار ہونے کے سبب لاکھوں پیداواری گھنٹوں کی شکل میں ضایع ہوتے ہیں اور پندرہ ارب ڈالر علاج معالجے پر صرف ہو جاتے ہیں۔ جب تک زندگی سادہ تھی تب تک مسائل بھی سادہ تھے۔ اب چونکہ خوراک سمیت ہر شے ڈسپوزایبل ہے اور صارف کے منہ تک پہنچتے پہنچتے ایک طویل اور گنجلک سپلائی چین سے گذرتی ہے لہٰذا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کس مقام پر کون سی خوراک کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا۔
Tumblr media
غیر معیاری خوراک کی ترسیل اور اس کی روک تھام کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر لالچ اور بدنئیتی کی پیداوار ہیں۔ مثلاً کھانے پینے کی اشیا کی ایک مدتِ استعمال ہوتی ہے جس کے بعد اسے برتنے سے بیمار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یار لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایکسپائری ڈیٹ یا تو مٹا دی جاتی ہے یا جعلی طریقے سے بڑھا دی جاتی ہے، اور یہ کام نہ صرف خوراک بلکہ ادویات کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ آپ بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورز میں بھی شیلف پر پڑی درآمد کردہ اشیائے خور و نوش دھیان سے دیکھیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی اشیا جن کی ایکسپائری چھ ماہ سے کم ہو انھیں شیلف سے ہٹانا شروع کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کے نرخ گھٹا دیے جاتے ہیں تاکہ ان کا اسٹاک تیزی سے بک جائے۔ ہمارے تاجر باہر سے منگواتے ہی وہ خوردنی اشیا ہیں جن کی ایکسپائری ڈیٹ چھ ماہ یا اس سے کم رہ گئی ہو۔ یہ اشیا ان تاجروں کو نصف یا چوتھائی قیمت پر مل جاتی ہیں جنھیں وہ ہمیں اور آپ کو پوری قیمت پر فروخت کر کے بھاری منافع کماتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی بھی قابِل ذکر معروف دکان پر چلے جائیں، اگر کہیں درآمدی چاکلیٹ ، بسکٹس اور دودھ سے تیار اشیا کی ایکسپائری چھ ماہ سے زیادہ کی ہو تو مجھے بھی مطلع کیجیے گا تاکہ میں اس دکان دار کے لیے فراخیِ رزق کی دعا کر سکوں۔
غیر معیاری و غیر صحت بخش کھانے کا ایک بڑا مرکز ریستوران کا کچن ہے۔پاکستان میں شاید درجن بھر ہی ایسے ریسٹورنٹ ہوں گے جہاں کچن کی صفائی ستھرائی کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہو۔ باقی دنیا میں کچن ریسٹورنٹ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نوے فیصد ریسٹورنٹس کی پکوائی سڑک کے رخ کھلے آسمان تلے ہوتی ہے۔ بار بی کیو کا گوشت فضا میں جھول رہا ہوتا ہے۔ کڑاھی گوشت سامنے بن رہا ہوتا ہے اور اس میں سڑک سے آنے والے دھواں اور گرد کی لہر کھانے کا ذائقہ دوبالا کر دیتی ہے۔ جو باورچی یہ کھانا تیار کر رہے ہوتے ہیں انھوں نے کام پر کھڑا ہونے سے پہلے کب اور کس طرح ہاتھ دھوئے ہوں گے یہ وہی جانتے ہیں۔ ان کی انگلیاں بار بار پسینہ زدہ بالوں اور چہرے اور جسم کے مختلف حصوں میں گھومتی کھجلاتی پھرتی ہیں۔ اور پھر یہ متحرک ہاتھ لذیز پکوان ، روٹی اور مشروبات گاہک کو پیش کرتے ہیں۔ بہت کم باورچی اور وہ بھی مہنگے ریسٹورنٹس میں شاید ایسے ہوتے ہوں جو ہاتھوں میں پلاسٹک کے دستانے، کوٹ یا سر پر کوئی ٹوپی نما شے پہنتے ہوں تاکہ جسم کے بال یا ذرات و پسینہ کھانے میں شامل نہ ہوں۔
اور پھر ہم خوشی خوشی یہ کھانا گھر لے جا کے اس فریج میں رکھ دیتے ہیں جسے قاعدے سے کم از کم ہر ماہ صاف ہونا چاہیے۔ مگر فریج کے اندر کی باقاعدہ صفائی ترجیحاتی فہرست میں اگر ہوتی بھی ہے تو کہیں بہت نیچے۔ گویا ہم گھر کے اندر ہی بیماریوں کی میزبانی کے لیے ایک ٹھنڈا گھر کھول لیتے ہیں۔ ہم بازار سے جو گوشت اور تیار شدہ مصالحے خریدتے ہیں یا ریسٹورنٹس میں جا کے جو کباب یا قیمہ فرائی کھاتے ہیں۔ اس میں کون جانے کہ کتنا گوشت ، کتنی آنتیں اور دیگر کتنی آلائشیں کوٹ دی جاتی ہیں۔ اور یہ جو سامنے بار بی کیو چکن بن رہا ہے یہ یہاں آنے سے پہلے ، زندہ تھا ، ذبح شدہ تھا یا پھر لاش تھا ؟ ہم میں سے کتنے بزرگ ، جوان ، خواتین اور بچے دن میں کتنی بار ہاتھ دھوتے یا دھلواتے ہیں۔ کھانے یا پکانے سے پہلے گوشت یا سبزی کس طرح صاف کرتے ہیں۔ پھل دھو کے کھاتے ہیں یا بس کھا لیتے ہیں۔ اس بابت ہم ذاتی صحت و صفائی کے سلسلے میں نئی نسل کی تربیت پر گھر اور اسکول میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔ حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ صارف تک معیاری خوراک کی یقینی ترسیل کے قوانین پر سختی سے عمل کروائے۔ 
ہمیں ریستوران و دکان سر بہ مہر ہونے، امپورٹر ایکسپورٹرز کے گوداموں اور گلی سڑی اشیا بیچنے والوں پر چھاپوں اور جرمانوں کی بھی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔پھر بھی کیا ��بب ہے کہ غیر معیاری خوراک کی ترسیل و تقسیم و استعمال کا حجم اور دائرہ کم نہیں ہو پا رہا۔ خلیجی ریاستوں و صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں غیر معیاری خوراک سے متاثر افراد کیوں کم ہیں اور ہم جیسے ملک کیوں ڈمپنگ گراؤنڈز بنے ہوئے ہے۔ کیا وہ آسمان سے اترے ہیں یا ہم پاتال سے ابھرے ہیں؟ کل کا دن اسی بارے میں سوچ بچار کے لیے ہی ہے۔ اگر اپنے یا اپنے بچوں کے لیے وقت ملے؟
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptoguys657 · 2 years ago
Text
’یہ آدمی عوام کو صرف ٹوپی پہناتا ہے‘، اڈانی کا نام لیے بغیر مہوا موئترا نے لوک سبھا میں لہرائی ٹوپی
’یہ آدمی عوام کو صرف ٹوپی پہناتا ہے‘، اڈانی کا نام لیے بغیر مہوا موئترا نے لوک سبھا میں لہرائی ٹوپی نئی دہلی، 8؍فروری (ایس او نیوز؍ایجنسی ) ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے منگل کے روز لوک سبھا میں مرکز کی مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اڈانی کا نام لیے بغیر انھوں نے مرکز پر حملہ کیا اور لوک سبھا میں ٹوپی لہراتے ہوئے کہا کہ ’’یہ آدمی صرف ٹوپی پہنانے کا کام کرتا ہے‘‘۔ موئترا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
مہاوا موئترا کا لوک سبھا میں اڈانی پر زبردست لفظی حملہ ’اس شاندار ملک کو اس شخص نے ٹوپی پہنائی ہے‘۔ - Siasat Daily
ان کے تقریر ختم کرنے کے فوری بعد ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی) اوربی جے پی ممبرس کے درمیان میں ناراضگی کے ساتھ لفظی حملے ہوئے‘موئترا کا بعض قابل اعتراض لفظوں کا استعمال کرتے سناگیا‘ جس پر چیرمن نے اعتراض کیا اور ممبرس سے طنزیہ الفاظ کے استعمال سے باز رہنے کا زوردیا نئی دہلی۔ اڈانی ہنڈنبرگ معاملے پر حکومت کو ٹی ایم سی ایم مہاوا موئترا نے اپنے نشانے پر لیا اور کہاکہ کھرب پتی کاروباری نے ملک کو ’ٹوپی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
کیا شہباز حکومت خطرے میں ہےیا سارا بحران ٹوپی ڈرامہ ہے؟
عام انتخابات کے بعد بیساکھیوں کے سہارے تشکیل پانے والی شہباز حکومت اپنے قیام کے بعد سے ہی گرم پانیوں میں نظر آرہی ہے اگرچہ ابھی اِس کو بنے تقریباً ساڑھے تین مہینے ہوئے ہیں لیکن حکومتی اتحاد ابھی سے ڈگمگانا شروع ہوگیا ہے۔ جہاں ایک طرف بڑی حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے وہیں دوسری جانب دوسری اتحادی جماعت ایم کیو…
youtube
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years ago
Text
مہاوا موئترا کا لوک سبھا میں اڈانی پر زبردست لفظی حملہ ’اس شاندار ملک کو اس شخص نے ٹوپی پہنائی ہے‘۔ - Siasat Daily
ان کے تقریر ختم کرنے کے فوری بعد ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی) اوربی جے پی ممبرس کے درمیان میں ناراضگی کے ساتھ لفظی حملے ہوئے‘موئترا کا بعض قابل اعتراض لفظوں کا استعمال کرتے سناگیا‘ جس پر چیرمن نے اعتراض کیا اور ممبرس سے طنزیہ الفاظ کے استعمال سے باز رہنے کا زوردیا نئی دہلی۔ اڈانی ہنڈنبرگ معاملے پر حکومت کو ٹی ایم سی ایم مہاوا موئترا نے اپنے نشانے پر لیا اور کہاکہ کھرب پتی کاروباری نے ملک کو ’ٹوپی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years ago
Text
مہاوا موئترا کا لوک سبھا میں اڈانی پر زبردست لفظی حملہ ’اس شاندار ملک کو اس شخص نے ٹوپی پہنائی ہے‘۔ - Siasat Daily
ان کے تقریر ختم کرنے کے فوری بعد ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی) اوربی جے پی ممبرس کے درمیان میں ناراضگی کے ساتھ لفظی حملے ہوئے‘موئترا کا بعض قابل اعتراض لفظوں کا استعمال کرتے سناگیا‘ جس پر چیرمن نے اعتراض کیا اور ممبرس سے طنزیہ الفاظ کے استعمال سے باز رہنے کا زوردیا نئی دہلی۔ اڈانی ہنڈنبرگ معاملے پر حکومت کو ٹی ایم سی ایم مہاوا موئترا نے اپنے نشانے پر لیا اور کہاکہ کھرب پتی کاروباری نے ملک کو ’ٹوپی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 3 years ago
Text
یہ ٹوپی نہیں بلکہ ’ماحول دوست‘ فٹبال اسٹیڈیم ہے
یہ ٹوپی نہیں بلکہ ’ماحول دوست‘ فٹبال اسٹیڈیم ہے
دوحہ: گرم صحرا میں کسی چوڑی روایتی ٹوپی کی طرح دکھائی دینے والی یہ چیز دراصل ایک فٹبال اسٹیڈیم ہے جسے 2022 فیفا ورلڈ کپ کےلیے تعمیر کیا گیا ہے جو قطر میں کھیلا جائے گا۔ اس کا نام ’الثمامہ اسٹیڈیم‘ ہے جو قطری دارالحکومت دوحہ سے کچھ دوری پر صحرا میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر کچھ دن پہلے ہی مکمل ہوئی ہے جبکہ اسے قطر کے معروف ماہرِ تعمیرات، ابراہیم محمد جیداہ نے ڈیزائن کیا ہے۔ ابراہیم جیداہ کے مطابق،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes