Tumgik
#شہباز حکومت
googlynewstv · 3 months
Text
کیا شہباز حکومت خطرے میں ہےیا سارا بحران ٹوپی ڈرامہ ہے؟
عام انتخابات کے بعد بیساکھیوں کے سہارے تشکیل پانے والی شہباز حکومت اپنے قیام کے بعد سے ہی گرم پانیوں میں نظر آرہی ہے اگرچہ ابھی اِس کو بنے تقریباً ساڑھے تین مہینے ہوئے ہیں لیکن حکومتی اتحاد ابھی سے ڈگمگانا شروع ہوگیا ہے۔ جہاں ایک طرف بڑی حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے وہیں دوسری جانب دوسری اتحادی جماعت ایم کیو…
youtube
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پنجاب میں اہم عہدوں کے لیے مریم نواز، حمزہ شہباز، ملک احمد خان کے نام زیرغور
مسلم لیگ ن  پنجاب میں حکومت سازی کی طرف بڑھنے  لگی ،وزارت اعلیٰ کیلئے مریم نواز ہاٹ فیورٹ ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے 297 حلقوں کے نتائج جاری ہوگئے۔ مسلم لیگ ن پہلے نمبر کی جماعت بن گئی۔ ایک سو سینتیس نشستیں حاصل کیں۔ مخصوص نشستیں ملا کر مسلم لیگ ن کا سیکور ایک سو ستر ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی  دس نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ،ایک مخصوص نشست کے ساتھ انکے گیارہ ارکان ہوجائیں گے۔ پارٹی ذرائع  کے مطابق مریم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
Tumblr media
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
Tumblr media
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
4 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
Tumblr media
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔ 
Tumblr media
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ 
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی  
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes · View notes
dpr-lahore-division · 5 hours
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1031
وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف کا وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے اقوام متحدہ جنرل سے خطاب کو زبردست خراج تحسین
وزیر اعظم شہبازشریف نے بھارت کو جارحیت کامنہ توڑ پیغام دیکرجرات مندانہ اقدام کیا، ہر پاکستانی کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی: مریم نواز
پاکستان اہل کشمیر اور فلسطین کے ساتھ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، پاکستان مسلم ن کی حکومت نے ہمیشہ کشمیر کا مقدمہ ہر عالمی فورم پرپیش کیا
لاہور28ستمبر:……وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے وزیر اعظم محمد شہبازشریف کے اقوام متحدہ جنرل سے خطاب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے اہل فلسطین کا مقدمہ ��اندار طریقے سے پیش کیا۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ہر پاکستانی کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی۔وزیر اعظم محمدشہبازشریف نے کشمیریوں کا مقدمہ زور دار طریقے سے پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ��اکستان اہل کشمیر اور فلسطین کے ساتھ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے بھارت کو جارحیت کامنہ توڑ پیغام دیکرجرات مندانہ اقدام کیا۔وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان مسلم ن کی حکومت نے ہمیشہ کشمیر کا مقدمہ ہر عالمی فورم پرپیش کیا۔ پنجاب اہل پنجاب کے دل فلسطینیوں اور کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
٭٭٭٭
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
بجلی، گیس کی قیمتیں اور عوام
Tumblr media
گزشتہ چند سال سے پاکستان کے عوام کو نا کردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی بار بار ضرورت پڑ رہی ہے۔ بجلی اور گیس چوری کوئی اور کرتا ہے، نقصان حکومت کا ہوتا ہے اور پھر اس نقصان کا ازالہ بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے، قیمتیں بڑھا کر۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار، حکومت کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار۔ آخر کیوں ؟ پچھلے چند سال میں بجلی کا فی یونٹ 2 روپے سے 50 روپے تک پہنچ گیا ہے مگر پھر بھی بجلی کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو رہا۔ فی یونٹ بجلی 100 روپے بھی ہو گئی تب بھی ان کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو گا۔ لائن لاسز اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر حکومت اور یہ کمپنیاں عوام پر بوجھ ڈالتی ہیں۔ حکومت چاہے عمران خان کی ہو یا شہباز شریف کی، سب حکومتیں صرف بجلی مہنگی کرتی آئی ہیں۔ کسی حکومت نے بجلی چوری اور لائن لاسز کو ختم کرنے پر توجہ نہ دی۔ گیس کے شعبے میں بھی یہی مسئلہ رہا کہ حکومتیں بجائے گیس کی چوری پر توجہ دیتیں انھوں نے گیس مہنگی کرنے میں عافیت جانی ۔ 
چند دن پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے اگلے مالی سال کیلئے دو پبلک یوٹیلیٹز کی آمدنی کی ضروریات کے پیش نظر SNGPL کی اوسط تجویز کردہ گیس کی قیمتوں میں 10pc اور SSGC میں 4pc کی کمی کی۔ اوسطاً، SNGPL صارفین کو اگلے مالی سال کے دوران 179.17 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کم ادا کرنا چاہیے، جبکہ ایس ایس جی سی کے صارفین کو 59.23 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا ریلیف ملنا چاہیے۔ تاہم، جہاں ایس این جی پی ایل کے صارفین کا تعلق ہے ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت ان سے 581 بلین روپے کا ٹیرف ڈیفرنس وصول کرنا چاہتی ہے جو گزشتہ چھ سال کے دوران انہیں نہیں دیا گیا۔ مالی سال 19 سے مالی سال 24 کے درمیان اوسط قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایس این جی پی ایل کے مالی نقصانات کا اوگرا کا تعین، جسے حکومت نے سیاسی ردعمل کے خوف سے صارفین کو مکمل طور پر منتقل نہیں کیا، اگلے سال کمپنی کی گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ کرنے پر مجبور کر دے گا۔ 
Tumblr media
اس بات کے امکانات ہیں کہ حکومت مہنگائی سے متاثرہ گیس صارفین سے ایک سال میں پوری رقم وصول کرنے کے بجائے اسے چند سال میں پھیلا دے۔ ایک طرف حکمراں پہلے ہی نئے مالی سال سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے منصوبے تیار کیے بیٹھے ہیں دوسری طرف آئی ایم ایف بھی ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ عوام تو عوام صنعتکاروں کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف پوری کوشش کرے گا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ کروانے میں کامیاب ہو جائے جس سے صنعتکار اپنے کارخانے بند کر دیں اور ہر طرف بھوک افلاس کے ڈیرے ہوں، جس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو آئی ایم ایف اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ ضرور ہو گا۔ ہمیں ہندوستان سے کم از کم یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کس طرح آئی ایم ایف کے دروازے ہندوستان میں ہمیشہ کیلئے بند کیے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے مگر وہاں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں واجپائی ہو یا منموہن سنگھ یا پھر مودی سب کے سب عام آدمی تھے نہ کہ صنعتکار، چوہدری، سردار یا وڈیرے۔ 
انھیں اندازہ تھا کہ اگر ملک ہو گا تو وہ ہوں گے مگر ہمارے حکمرانوں کا تو سب کچھ ملک سے باہر ہوتا ہے لہٰذا انھیں کوئی فکر نہیں ہم غریبوں کی۔ پاکستان میں توانائی کی قیمتیں گزشتہ چند سال میں روزمرہ کی زندگی پر اتنی اثر انداز ہوئی ہیں کہ عام آدمی دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہو گیا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ خیراتی ادارے لوگوں کو کھانا کھلاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ کمی مہنگائی میں نہیں ہورہی بلکہ کمی خریداری میں ہو رہی ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اگلے مالی سال کے دوران یقینی ہے کیوں کہ بجلی اور گیس کمپنیوں کو اپنے اربوں روپے کے نقصانات پورے کرنے ہیں۔ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اپنے منصوبے بھی آئی ایم ایف کو دے دیئے ہیں۔ اسکے علاوہ، حکومت کو اپنی آمدنی کو جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ان اقدامات سے مہنگائی پھر بڑھے گی اور عوام پر مزید اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ عوام کا صبر جواب دے جائے اور ملک میں مظاہرے شروع ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ حکومت فی الفور بجلی اور گیس چوری پر قابو پائے کیونکہ پاکستان اب مزید مظاہروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduintl · 5 months
Text
0 notes
rising-gwadar · 6 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پاکستان چین کا 5 نئی اقتصادی راہداریوں کے لیے کوششیں تیز، ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق_
ان رہداریوں کو 5 ایز فریم ورک سے منسلک کیا جائے گا_ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چینی سفیر کا ملاقات میں اتفاق
یہ اتفاق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں کیا گیا_
چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پروفیسر احسن اقبال کو چوتھی بار وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی_
واضح رہے کہ ان پانچ نئے اقتصادی راہداریوں پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاہے گا ان راہداریوں ملازمتوں کی تخلیق کی راہداری، اختراع کی راہداری، گرین انرجی کی راہداری، اور جامع علاقائی ترقی شامل ہیں_
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ چین کی وزارت منصوبہ بندی اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) اور وزرات منصوبہ بندی اقتصادی راہدریوں پر الگ الگ Concept Paper مرتب کریں گے، جو مستقبل میں ہر شعبے کے لیے ایک واضح روڈ میپ فراہم کریں گے_
جبکہ بعدآزں یہ Concept Paper جے سی سی میں پیش کی جاہیں گی_
یاد رہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے پہلے ہی 5Es فریم ورک پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور ماحولیات شامل ہیں_
وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت ہر شعبے میں پاکستان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ فریم ورک پانچ نئے اقتصادی راہداریوں کے ساتھ منسلک کیا جائے گا_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صلاحیتوں کو تیز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا_
انہوں نے ایک "ون پلس فور" ماڈل تجویز کیا، جس کے تحت پاکستان میں ہر SEZ کو چین کے ایک صوبے کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی، SEZs کے اندر خصوصی کلسٹرز تیار کرنے کے لیے ایک صنعتی گروپ، تکنیکی مہارت فراہم کرنے کے لیے چین سے ایک SEZ، اور ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی_
جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زور اشتراکی فریم ورک پاکستان میں SEZs کے قیام اور ترقی کو تیز کرے گا، ان کی مسابقت اور سرمایہ کاروں کے لیے کشش میں اضافہ کرے گا_
اس موقع پر چین کے سفیر کے سی پیک کے فیز ٹو پر عمل دررامد تیز کرنے پر پاکستان کی کاوشوں کو سراہا_
انہوں نے خصوصی طور پر وفاقی وزیر کی سی پیک کے منصوبوں پر دلچسبیبی لینے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر کوششوں کو سراہا_
جبکہ وفاقی وزیر کو خصوصی طور پر مسٹر سی پیک کے لقب سے مخاطب کرتے ہوے کہا چینی قیادت اپکی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے_
مزید براں، پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ SEZs کی کامیابی کا انحصار ان کی مخصوص صنعتوں کے کلسٹر بننے، پیمانے کی معیشتوں کو فروغ دینے، اور جدت اور ترقی کے لیے سازگار ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر ہے_
ملاقات میں بات گوادر پورٹ اور M-8 موٹروے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خصوصی زور دینے کے ساتھ علاقائی روابط بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو تجارتی روابط کو مضبوط کریں گے اور علاقائی انضمام کو آسان بنائیں گے_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت چینی حکام کی سیکورٹی کے کیے بھر پور اقدامات اٹھا رہئ ہے_
1 note · View note
emergingkarachi · 9 months
Text
قصہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا
Tumblr media
سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جسٹس مقبول باقر بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے وفد میں شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے سی آر کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بنیادی مقصد تجارت و صنعت کو فروغ دینا ہے اور کے سی آر صرف ٹریکس اور اسٹیشنوں کا قیام ہی نہیں بلکہ معاشی فوائد کو کراچی سے پاکستان کے اہم شہروں تک پہنچانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سرکلر ریلوے بحال ہو گئی تو روزانہ لاکھ سے زیادہ مسافر ان ریل گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اس منصوبہ پر 2 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور سرکلر ریلوے کی لائن 43 کلومیٹر طویل ہو گی۔ کے سی آر شہر کے خاصے علاقوں سے گزرے گی۔ پھر یہ بھی کہا کہ سندھ کی نگراں حکومت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ جب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سی پیک منصوبہ پر دستخط کرنے کی تقریب بیجنگ میں منعقد ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وزیر اعظم کے وفد میں شامل تھے۔ انھوں نے واپسی پر کراچی آکر اعلان کیا کہ چین کے سی آر کی بحالی کے لیے تیار ہے۔
میاں نواز شریف کے اس وفد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل تھے، انھوں نے لاہور پہنچنے پر اعلان کیا کہ سی پیک کے منصوبہ میں لاہور کی اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، یوں لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں قائم ہوئی تو منصوبہ کئی مہینوں کے لیے التواء کا شکار ہوا، مگر یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے ساتھ بیجنگ گئے اور واپسی پر یہ بری خبر سنائی کہ چین کو اس منصوبے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی بد امنی کیس میں سماعت کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ ان کی توجہ کے سی آر کے التواء کے منصوبہ پڑ گئی۔ انھوں نے اس منصوبے کی عدم تکمیل پر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت کے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو طلب کیا گیا اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ سرکلر ریلوے پر قائم تجاوزات کو ہنگامی طور پر ہٹایا جائے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ سرکاری مشینری نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا۔ سرکلر ریلوے کی لائن پر سیکڑوں بستیاں، اسپتال اور سرکاری دفاتر حتیٰ کہ تھانے قائم تھے۔
Tumblr media
حکومتی عملے نے سپریم کورٹ کے طے شدہ وقت کے مطابق کام مکمل کیا۔ اس وقت کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار ہے اس بناء پر حکومت سندھ کو کے سی آر کی بحالی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مختلف جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کو پلاننگ کی وزارت کی سربراہی سونپی گئی۔ احسن اقبال کی قیادت میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے دوسری فزیبلٹی تیار کی گئی جس پر 2.027 ملین ڈالرکا تخمینہ لگایا گیا۔ اس فزیبلٹی کے مطابق یہ منصوبہ 38 مہینوں میں مکمل ہونا تھا۔ احسن اقبال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ چین کی حکومت پھر اس منصوبہ میں دلچسپی لے رہی ہے اس بناء پر نئی فزیبلٹی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے 43.13 کلومیٹر طویل ہو گی، جس میں سے 17.74 کلومیٹر ریلوے لائن زمین پر تعمیر ہو گی اور 25.51 کلومیٹر ایلی ویٹر پر تعمیر ہو گی۔
اس فزیبلٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے کے سی آر کی ملکیت وفاقی حکومت ہو گی اور پھر یہ بتدریج حکومت سندھ کو منتقل ہو جائے گی مگر یہ معاملہ محض فزیبلٹی تک محدود ہو گیا۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ چین کی حکومت پشاور سے کراچی کے لیے تعمیر ہونے والی نئی ریلوے لائن ایم۔ ون پر فوری طور پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ اب نگراں وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے چین کے دار الحکومت بیجنگ گئے تو پھر دونوں منصوبوں کی تجدید ہوئی۔ سرکلر ریلوے جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں تعمیرکی گئی، اس وقت شہر میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ S.I.T.S میں بہت سے کارخانے قائم ہوئے یوں سرکلر ریلوے ایک نیم دائرہ کی شکل میں چلنے لگی۔ یہ سرکلر ریلوے پپری سے کراچی آنے کے لیے کم وقت میں سب سے زیادہ مناسب سواری تھی۔ اسی طرح وزیر منشن کیماڑی سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ سے سی او ڈی تک کے علاوہ سے ہوتی ہوئی مرکزی ریلوے سے منسلک ہوجاتی تھی۔ پھر مضافات کے علاقوں سے روزانہ علیٰ الصبح ہزاروں مسافر آدھے گھنٹہ میں (لانڈھی اور ملیر سٹی سے ) سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکاری ادارے، اسکول اور دیگر کاروباری اداروں کے دفاتر میکلوروڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے اپنے گھروں تک آرام دہ سفر کے ذریعے واپس پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں اندرون شہر میں ٹرام وے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار اور چاکیواڑہ تک ٹرام سفر کے لیے بہترین سواری تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں ٹرانسپورٹ مافیا ارتقاء پذیر ہوئی۔  بیوروکریسی نے ساری دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرام میں تبدیلی کرنے کے بجائے اس بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ ٹرام کی پٹری ٹریفک میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ٹرام کی جگہ چھوٹی منی بسوں نے لے لی جن میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکلر ریلوے 1984 میں بند ہو گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے گورنر عشرت العباد نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو کراچی بلا کر سرکلر ریلوے کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔
یہ سرکلر ریلوے چنیسر ہالٹ تک جاتی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی بند ہو گئی، بعد ازاں شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ آگیا۔ انھوں نے ریلوے کے ملازمین کو صبح پپری مارشلنگ یارڈ لے جانے والی ریل گاڑی کو سرکلر ریلوے کا نام دیا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی بناء پر 80ء کی دہائی میں کراچی خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا مگر کسی حکومت نے کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال کراچی والوں پر ایک احسان کیا۔ پیپلز بس سروس کے نام پر 250 بسیں چلنے لگیں۔ اس سروس سے مسافروں کو خاصا فائدہ ہوا مگر نگران صوبائی وزیر منصوبہ بندی کے وزیر یونس دھاگہ کا تجزیہ ہے کہ شہر میں کم از کم 5 ہزار بسیں چلنی چاہئیں۔ اب نگران وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کا عزم کیا ہے مگر کوئی شہری اس خبر پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو ممبئی، کلکتہ، دہلی اور ڈھاکا کی طرز پر انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید سفر کی سہولتیں سے اس صدی میں مستفید ہونے کا موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
وطن کی فکر کر ناداں
Tumblr media
دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔  حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔
وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔
Tumblr media
کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟
اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔
ذوالفقار احمد چیمہ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
googlynewstv · 6 days
Text
پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنان مریم نواز حکومت سے بیزار کیوں؟
آئینی ترمیم  کی منظوری کیلئے نمبر گیم پوری کرنے میں ناکامی کے بعد جہاں شہباز شریف نے اپنا وزن بلاول بھٹو کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور آئینی ترمیمی پیکج کی پیشوائی بلاول بھٹو کے حوالے کر دی ہے وہیں دوسری جانب مریم نواز اپنے چچا کے برخلاف پیپلز پارٹی کے طے شدہ معاملات ماننے سے انکاری ہیں۔ جس کے بعد پنجاب میں پاور شیئرنگ کے معاملے پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مابین تحفظات تاحال برقرار ہیں…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
بلاول فارمولا اور ممکنہ سرپرائز
الیکشن 2024 کے نتائج پر تبصرے تجزئیے جاری ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، نہیں ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے۔ اگر ہوئی ہے تو اس کے دعویدار اسے عدالتوں میں ثابت کرلیں گے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ اس بار یہ پنتیس پنکچرز کی بجائے پنتیس درجن پنکچروں کا کیس بنے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ مقدمہ عدالتوں میں کب تک چلتا ہے اور کون اس کی کس طرح پیروی کرتا ہے؟  یار لوگوں کا خیال ہے کہ دھاندلی کے شکایت کنندگان کو طویل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ
Tumblr media
عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 
Tumblr media
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔
اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 
اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے ��ہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
dpr-lahore-division · 2 months
Text
باتسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
تاریخ یکم اگست2024 (ہینڈ آؤٹ نمبر354)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکرز برائے الیکٹرانک میڈیا
مون سون /شدید بارش
قصور۔ ڈپٹی کمشنر محمد ارشد بھٹی کا شدید بارش میں شہر کا دورہ۔
قصور۔ نکاسی آب کے کاموں کا جائزہ لیا۔
قصور۔ ڈپٹی کمشنر نے بلدیہ چوک، مسجد نور، پرانا لاری اڈا، چاندنی چوک، نیشنل بینک چوک، شہباز روڈ، سٹیل باغ چوک، نور محل چوک سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔
قصور۔ ڈپٹی کمشنر کی تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور میونسپل کمیٹیوں کے افسران کو فیلڈ میں موجود رہنے کی ہدایت۔
قصور۔ ضلع بھر میں بارشی پانی کی جلد نکاسی کا حکم۔
قصور۔ ڈپٹی کمشنر کا بارش کے پانی کے نکاس کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت۔
قصور۔ سڑکوں اور نشیبی علاقوں میں نکاسی آپ کیلئے بلا تعطل کام کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر
قصور۔ اسسٹنٹ کمشنرز اورمتعلقہ چیف آفیسر میونسپل کمیٹیز بارش کے پانی کی نکاسی تک فیلڈ میں موجود رہیں۔ ڈپٹی کمشنر محمد ارشد بھٹی کی ہدایت
قصور۔ گلی محلوں اور روڈز سے بارش کے پانی کی نکاسی کا آپریشن جلد مکمل کیا جائے۔ ڈی سی قصور
قصور۔ صبح 9بجے تک تحصیل قصور میں 78ایم ایم، تحصیل کوٹ رادھاکشن میں 63ایم ایم، چونیاں میں 24ایم ایم جبکہ پتوکی میں 26ایم ایم بارش ہوئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر
قصور۔ نکاسی آب کیلئے ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹیوں کا عملہ فیلڈ میں متحرک ہے۔ ڈی سی محمد ارشد بھٹی
قصور۔ضلع بھر میں بارش کے نکاسی آب کے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر قصور
٭٭٭٭٭
0 notes
shiningpakistan · 9 months
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو اب یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریش��ن ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes