#ٹوٹی
Explore tagged Tumblr posts
Text
اے آئی ٹوٹی ہڈیوں کی تشخیص میں بھی معاون ہوسکتی ہے
(ویب ڈیسک)آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی تشخیص میں بھی ڈاکٹروں کی مددگار ہوسکتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (این آئی سی ای) کے مطابق مصنوعی ذہانت میں ڈاکٹروں کے ایکس رے کا تجزیہ کرتے وقت ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی جلد اور مؤثر شناخت کرنے کی صلاحیت ہے۔ ادارے کااس حوالے سے کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی محفوظ ہے اور یہ تشخیص کو تیز کر سکتی ہے،…
0 notes
Text
اللہ تبارک وتعالیٰ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو خوبصورتی سے استعمال کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے بادل بارش برساتے ہیں، ٹوٹی ہوئی مٹی کھیت کے طور پر، ٹوٹی ہوئی فصل کے بیج، ٹوٹے ہوئے بیج نئے پودوں کو زندگی بخشتے ہیں۔ لہذا جب آپ محسوس کریں کہ آپ ٹوٹے ہوئے ہیں، تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو کسی عظیم کام کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔
Allāhﷻ uses broken things beautifully, broken clouds pour rain, broken soil sets as field, broken crop yield seeds, broken seeds give life to new plants. So when you feel you are broken, be rest assured that Allāh ﷻ is planning to utilize you for something great.
323 notes
·
View notes
Text
کہنے کو تو گزرے کئی طوفان بھی سر سے
کہنے کو تو گزرے کئی طوفان بھی سر سے ہم لوگ مگر شہر میں رونے کو بھی ترسے
لفظوں کے غلافوں میں چھپاؤں اسے کب تک بجلی ہے تو ٹوٹے، کوئی ��ادل ہے تو برسے
لشکر مہ و انجم کا کہاں دفن ہوا ہے فرصت ہو تو پوچھو کبھی گلنار سحر سے
اِک پل کو رکا دیدۂ پرنم تو میں سمجھا جیسے پلٹ آیا ہو سمندر کے سفر سے
کچھ دیر ٹھہر جا اب��ی اے موج تلاطم ٹوٹی ہوئی کشتی کو الجھنے دے بھنور سے
اس جنس کا گاہک کوئی ملتا نہیں ورنہ اِس دور میں سستا ہے بشر، لعل و گہر سے
ہمسائے کے گھر کون مقید تھا کہ شب بھر رہ رہ کے ہوا سر کو پٹختی رہی در سے
ان تیز ہواؤں میں کہاں جاؤ گے محسن راتوں کو تو پاگل بھی نکلتے نہیں گھر سے
محسن نقوی
2 notes
·
View notes
Text
جب بھی تری یادوں کی چلنے لگی پُروائی
ہر زخم ہوا تازہ ، ہر چوٹ ابھر آئی
اس بات پہ حیراں ہیں ساحل کے تماشائی
اک ٹوٹی ہوئی کشتی ہر موج سے ٹکرائی
میخانے تک آ پہنچی انصاف کی رسوائی
ساقی سے ہوئی لغزش رندوں نے سزا پائی
ہنگامہ ہوا برپا، اک جام اگر ٹوٹا--!!!
دل ٹوٹ گئے لاکھوں، آواز نہیں آئی
اک رات بسر کر لیں آرام سے دیوانے
ایسا بھی کوئی وعدہ!! اے جانِ شکیبائی
کس درجہ ستم گر ہے یہ گردشِ دوراں بھی
خود آج تماشا ہیں، کل تھے جو تماشائی
کیا جانئے کیا غم تھا مل کر بھی یہ عالم تھا
بے خواب رہے وہ بھی، ہم کو بھی نہ نیند آئی
(حفیظ بنارسی)
5 notes
·
View notes
Text
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
پروین شاکر
2 notes
·
View notes
Text
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں آنگنوں سڑکوں گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
تمہیں کس وقت کس سے کس جگہ ملنا ہے کس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے بیچوں بیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو شیشی ہاتھ سے گر جائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنا سے پہلے بے سر و سامان ہو جاؤ
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے آب جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
سلیم کوثر 🥀
2 notes
·
View notes
Text
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
عید کہ اِس پُر مسرّت موقع پر اللّٰہ تعالیٰ آپ پر اور آپکے اہلِ خانَہ پر خصوصی رحم فرمائے۔
ہماری عبادات اور ٹوٹی پھوٹی محنتوں کو اپنی رحمت بےانتہا کہ طفیل اپنی بارگاہِ بےنیاز میں شَرْفِ قَبُولِیَّت عطا فرمائے۔ آپسی محبّت اور اتفاق عطا فرمائے۔ شیطان کہ شر و فتن سے حفظ و امان عطا فرمائے۔ اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنےقُرب سے سرفراز فرمائے۔جملہ عالمِ اسلام کی جان، مال ،دین آبرو کی حفاظت فرمائے۔ بالخصوص فلسطین پر رحم وکرم کے ساتھ راحت و آسانی کا معاملہ فرمائے ۔
پُر خلوص حقير کی جانب سے دِل کی گہرائیوں سے عید الفطر مبارک ہو!
فی امان اللہ۔
6 notes
·
View notes
Text
”ادھوری نظم“
اپنے پُر تنہا کمرے کی آدھے
کھلی ہوئی کھڑکی سےجب
سرد ہوا اندر آنے کے لئے
زور لگاتی ہے،
تیری یاد، ، تیری زلف،
میرے خیال کا پلو پکڑ کر
میرے سینہ چاک کرنے
لگ جاتی ہے.
میں بھی ذرا سہم کر دروازے
پر پیٹھ دیے دُور رستے کو تکنے
لگ جاتا ہوں،
کئے انجانے لوگ ہیں اس پر
آتے جاتے ہیں بہت ہیں اس پر
کوئی راہی گھر کو ہے جائے،
کوئی لوٹ پردیس کو جائے،
میں گھر کی دھلیز پہ بیٹھے
تکتی نگاہ کے پر پھیلائے جیسے
آنگن میں ہے کوئی آئے، جیسے
ویران بگیا میں رنگ کھل آئے.
سوچ سمجھ کا بھید نہیں ہے
یہ الجھے دل کا دوش نہیں ہے
اُن بلکتی آنکھوں سے کئی خواب
ٹوٹے ہیں. جیسے نوبہار دوشیزۂ
کے مہندی سے چھلکتے ہوئے پاؤن
کی جھانجھر ٹوٹ جائے.
پر بھی اے غم یار تم اس ٹوٹی
پایل کو جوڑ کر، ہر موتی موتی
سنگ لیے، اس رنگ، دھنک، اور
جھنجھار اپنے کو ساتھ لیے،
اُس رستے پر چل آؤ جس راستے
پر میں آنکھیں ٹکائے ہوں بیٹھا.
پھر سے سرد ہوا کے جھونکے نے
کھڑکی کو زور سے ہے کھولا.
جیسے شام کے دھندلکے نے
سندیسہ ہے بیجھا راہی اپنی
راہ پر ہے،
ہے سفر کٹھن ان سپنوں کا،
خیال تو پھر بھی اپنے ہیں،
سارے خواب بھی تو اپنے ہیں
پھر یوں تم بھی تو اپنے ہو،
اب دیر بہت ہے ہو چکی اک
روشن چراغ بھے اپنے ساتھ
لیے تم بھی گھر کو آجاؤ،
سنا ہے بلائیں شام ہوتے ہی
راستوں پر رقص کرتی ہیں
تم بھی گھر کو آجاؤ اب رات
بہت ہے ہو چکی،
اب مجھ کو ڈر سا لگتا ہے
اب چپ سہما سا رہتا ہوں
راتیں آسیب سی لگتی ہیں
شامیں آزار سی لگتی ہیں
آنکھیں موند لیں ہے میں نے
سانسیں روک دی ہیں میں نے
آنسو تھم سے گئے ہیں اب تو،
سنا ہے بلائیں رات ہوتے ہی
راستوں پر رقص کرتی ہیں
تم بھی گھر کو آجاؤ اب رات
بہت ہے ہو چکی،
” دانش دھرمانی “
3 notes
·
View notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
نواز شریف کی سیاست تباہ دے آئینی ترمیم تو وڑ گئی
نواز شریف کا پ��لا دور حکومت تھاجب اسحاق خان صدر اور نواز شریف وزیر اعظم تھے، لیکن حسب روایت دونوں میں ٹھن گئی۔غلام اسحاق خان نے حکومت کو چلتا کیا ،اور دوبارہ انتخابات کا شور مچادیا ،بچے اسحاق خان بھی نہیں ،دونوں گھر گئے۔ جس دن اسمبلی ٹوٹی تو لاہور ریلوے روڈ پر ایک کونسلر مقصود کی بیٹھک میں شہباز شریف کی آمد ہوئی۔ میں ے بھرے مجمے میں کہا “میاں صاحب کیا ضرورت تھی بم کو لات مارنے کی ؟” شہباز شریف نے…
0 notes
Text
گنڈاپور کی نااہلی نے خیبرپختونخوا میں گورننس کاجنازہ کیسے نکالا؟
حکومتی بد انتطامی، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے خیبرپختونخوا مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف ٹوٹی سڑکیں عوام کا منہ چھاتی ہیں وہیں سکولوں کی حالت زار پی ٹی آئی کی سیاہ۔کاریوں کی ان کہی روداد بیان کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال نے تحریک انصاف کی ریاست مخالف پالیسیوں کا راز کھول رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں خیبر پختونخوا کو مسلسل بطور تجربہ گاہ استعمال کیا…
0 notes
Text
وضو کی ٹوٹیاں اور شیطان کی ٹوٹی ,جسٹس شاہد کریم کے نام کُھلا خط
جناب مسٹرجسٹس لاہور ہائیکورٹ ، شاہد کریم صاحب !آج آپ کو ایک فلم کی کہانی سناتا ہوں ہالی ووڈ میں یونیورسل سٹوڈیو کے بینر تلے بننے والی اینیمیٹیڈ یا کارٹون فلم کا نام ہے “لاریکس” اس فلم کی کہانی ڈاکٹر “سیس” نے لکھی ہے لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہمارے شہر لاہور اور آپ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے جی ہاں آپ جناب جسٹس شاہد کریم کوسامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔جناب عالیٰ…
0 notes
Text
"اور جس کو لگتا ہے تکلیفیں آسان ہوتی ہیں درحقیقت اس پر کبھی ٹوٹی نہیں ہوتیں"
"And he who thinks that suffering is easy is never really broken."
(Sayyid al-Khatre Laban al-Jawzi p. 36)
24 notes
·
View notes
Photo
باریک پھٹی ہوئی جرابوں اور پٹی پر مسح کا کیا حکم ہے؟ سوال ۱۴۳: پھٹی ہوئی اور باریک جراب پر مسح کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :راجح قول یہ ہے کہ ایسی جراب پر مسح کرنا بھی جائز ہے، جو پھٹی ہو یا اس قدر باریک ہو کہ اس سے جسم نظر آتا ہو، کیونکہ جراب وغیرہ پر مسح کے جواز سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اس نے پاؤں کو چھپایا ہو کیونکہ پاؤں پردہ کا مقام نہیں ہے کہ جسے چھپانا واجب ہو، مسح سے مقصود تو مکلف کے لیے رخصت اور سہولت ہے، لہٰذا اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ وضو کرتے وقت جراب یا موزے کو اتارے بلکہ اس کے لیے مسح کر لینا ہی کافی ہے۔ رخصت اور سہولت کی وجہ سے موزوں پر مسح کو جائز قرار دیا گیا ہے اور اس علت کی وجہ سے موزہ اور جراب پھٹا ہو یا صحیح سالم، ہلکا ہو یا بھاری سب برابر ہیں۔ سوال ۱۴۴: پٹی پر مسح کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ جبیرہ (پٹی) کسے کہتے ہیں؟ جبیرہ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ ٹوٹی ہوئی چیز کو باندھا جائے۔ اور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد وہ چیز ہے جسے بوقت ضرورت طہارت کی جگہ پر رکھا گیا ہو مثلاً وہ پلستر جسے ٹوٹی ہوئی ہڈی پر باندھا گیا ہو یا وہ پٹی جسے زخم یا درد وغیرہ کے مقام پر باندھا گیا ہو اسے دھونے کے بجائے اس پر مسح کرنا جائز ہے، مثلاً اگر وضو کرنے والے نے بوقت ضرورت زخم پر پٹی باندھی ہو تو وہ اسے دھونے کے بجائے اس پر مسح کرے گا اور یہ طہارت کامل ہوگی جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ شخص اگر بالفرض اس پلستر یا پٹی کو اتار دے تو اس کی طہارت باقی رہے گی ختم نہیں ہوگی کیونکہ طہارت شرعی طریقے سے مکمل ہوئی تھی اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ پٹی اتارنے سے وضو یا طہارت ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے پٹی پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی دلیل بھی معارضہ سے خالی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں تمام احادیث ضعیف ہیں، تاہم بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مجموعی طور پر یہ احادیث اس قابل ہیں کہ ان سے استدلال کیا جا سکے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ضعیف ہونے کی وجہ سے ان احادیث سے استدلال نہیں کیا جا سکتا اور پھر ان حضرات کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ پٹی کی جگہ سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اس جگہ کو دھونے سے عاجز ہے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تیمم کرے لیکن اس پر مسح نہ کرے۔ اس بارے میں احادیث سے قطع نظر یہ قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسح کر لے اور یہ مسح اسے تیمم سے بے نیاز کر دے گا، اس کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اعضائے طہارت میں سے کسی عضو میں زخم ہو تو اس کی کئی صورتیں ہوں گی: ٭ زخم ننگا ہو اور دھونا اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو اس صورت میں اسے دھونا واجب ہوگا، بشرطیکہ زخم ایسی جگہ ہو جسے دھونا واجب ہو۔ ٭ زخم ننگا ہو، اسے دھونا اس کے لیے نقصان دہ ہو، مگر مسح کرنا نقصان دہ نہ ہو تو اس صورت میں مسح کرنا واجب ہے، دھونا واجب نہیں ہے۔ ٭ زخم چھپا ہوا ہو اور اس پر پٹی وغیرہ بندھی ہو تو اس صورت میں اس پر مسح کیا جائے گا اور یہ مسح کرنا اسے دھونے یا تیمم کرنے سے بے نیاز کر دے گا۔ سوال ۱۴۵: کیا پٹی پر تیمم اور مسح دونوں واجب ہیں یا نہیں؟ جواب :مسح اور تیمم دونوں بیک وقت واجب نہیں ہوتے ، کیونکہ ایک عضو پر طہارت کے دو طریقوں کو واجب قرار دینا، قواعد شریعت کے خلاف ہے، کیونکہ ایک وقت میں عضو کی طہارت،( مسح کی صورت میں واجب ہے یا تیمم کی صورت میں)بألفاظ دیگر بیک وقت طہارت کے دو طریقوں کو واجب قرار دینے کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو ایسی دو عبادتوں کا مکلف قرار نہیں دیتا جن کا سبب ایک ہو۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۰۹، ۲۱۰ ) #FAI00121 ID: FAI00121 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
وہ اک نظر جو دل سے جگر تک اتر گئی
افسانۂ حیات کی تکمیل کر گئی
کیا پوچھتے ہو مجھ سے جوانی کدھر گئی
بس اتنا یاد ہے ادھر آئی ادھر گئی
ان کی نگاہِ لطف یہ احسان کر گئی
دامانِ دل امید کے پھولوں سے بھر گئی
کیا جانے کوئی کیسی قیامت اٹھائے گی
دل سے نکل کے آہ فلک تک اگر گئی
اپنی جگہ قرینے سے ہر شے ہ�� بزم میں
وہ کیا گئے کہ رونقِ دیوار و در گئی
دو دن میں ان کے پھول سے چہرے کو کیا ہوا
دو دن میں ان کی چاند سی صورت اتر گئی
زیدیؔ بہ فیض مرگ یہ ثابت ہوا کہ زیست
موتی کی اک لڑی تھی کہ ٹوٹی بکھر گئی
- تہور علی زیدی
10 notes
·
View notes
Text
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
10 notes
·
View notes