#ورثا
Explore tagged Tumblr posts
Text
پنجاب یونیورسٹی؛طالبہ کی میت بغیرپوسٹمارٹم ورثا کے حوالے،طلبا کا تحقیقات کا مطالبہ
(اسرار خان،عمران یونس)پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں خودکشی کرنیوالی طالبہ کی میت بغیر پوسٹمارٹم کے ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق 23 سالہ ام حبیبہ شعبہ آئی ای آر میں زیر تعلیم تھی،ام حبیبہ نے گزشتہ شام کمرہ نمبر 91 میں گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کی تھی، سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کی رہائشی ام حبیبہ کے والدین نے پولیس کو بیان حلفی جمع کروایا،بیان حلفی میں والد محمد منشا اور والدہ زوبیہ…
0 notes
Text

مقبوضہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے زہری سے قابض پنجابی ریاست کے دہشتگرد فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ نوجوانوں کے مائیں بہنیں و دیگر ورثا نے آج دوپہر سے سوراب و انجییرہ ایریا سے کراچی کوئٹہ شاہراہ و سی پیک روٹ احتجاجاً بند کردی ہے۔
دو روزہ چھاپوں کے دوران خالد بلوچ ولد عبدالصمد
شبیر بلوچ ولد علی اکبر، فیض بلوچ ولد علی اکبر •عمران بلوچ ولد علی اکبر ،بلال بلوچ ولد علی اکبر، فہد بلوچ ولد علی اکبر
زبیر بلوچ ولد محمد اسحاق، جہانزیب بلوچ ولد عبدالخالق
نادر بلوچ ولد سرور، فردین بلوچ ولد کریم•داؤد بلوچ ولد قادر و
محمد کریم ولد بہا دین کو لاپتہ گیا۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے پیاروں کو رہا نہیں کر دیا جاتا شاہراہوں پر دھرنا دیں گے۔
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
كانت المرأة قبل الاسلام تـُحرم هي وأطفالها من حقهم في ميراث رب الأسرة، وعندما جاء الاسلام أصلح هذا الفساد، وجعل القرآن الكريم للمرأة حقاً في الميراث، وجعل لها نصيباً باعتبارها زوجة وبنتاً وأماً وأختاً . فقد منحت الشريعة الإسلامية للمرأة كامل الحرية في إدارة شؤونها المالية من أموال وأملاك وتجارة وإجارة ، ووقف ، وبيع ،وشراء، واستغلال، وشركة ورهن ، وهبة أو وصية .
2-نظام المواريث في الإسلام نظام غني جدا وعادل فقد وضعه خالق هذا الكون الذي لا يمكن أن يظلم. ومن جهلنا وغفلتنا عن دراسة هذا النظام لا نعرف منه إلا (( للذكر مثل حظ الأنثيين ))وقد تمسك خصوم الإسلام وأعداءه بهذا الحكم لإبراز ظلم الإسلام للمرأة كما يزعمون ، وجهل هؤلاء أو تجاهلوا أن الشريعة كل متكامل ،فإذا أردنا مناقشة أحكامها فلا بد أن ندرسها من جميع الجوانب والزوايا.
فيجعل هؤلاء الجهال من قوله تعالى (( للذكر مثل حظ الأنثيين )) قا��دة مطردة نافذة في حال كل رجل وامرأة يلتقيان على قسمة الميراث .
إن الآية تبدأ بقول الله تعالى (( يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين )) إذن فبيان الله تعالى يقرر هذا الحكم في حق الولدين أو الأولاد أما الورثة الآخرون ذكورا وإناثا ، فلهم أحكامهم الواضحة الخاصة بكل منهم ، ونصيب الذكور والإناث واحد في أكثر الحالات ، وربما زاد نصيب الأنثى على الذكر في بعض الأحيان
وإليكم طائفة من الأمثلة:
1-إذا ترك الميت أولادا وأبا وأما ، ورث كل من أبويه سدس التركة ، دون تفريق بين ذكورة الأب، وأنوثة الأم وذلك عملا بقوله تعالى: (( ولابويه لكل واحد منهما السدس))
2-إذا تركت المرأة المتوفاة زوجها وابنتها فإن ابنتها ترث النصف ويرث والدها الذي هو زوج المتوفى الربع، أي أن الأنثى ترث هنا ضعف ما يرثه الذكر .
3- إذا ترك الميت زوجة وابنتين وأخا له فإن الزوجة ترث ثمن المال وترث البنتان الثلثين وما بقي فهو لعمهما وهو شقيق الميت وبذلك ترث كل من البنتين أكثر من عمهما.
إذن فقد تبين قوله تعالى (( للذكر مثل حظ الأنثيين )) ليس قاعدة عامة بل هي قيد للحالة الذي ذكرها الله تعالى أي الحالة التي يعصب فيها الذكر أخته.
وإنما جعل الإسلام نصيب المرأة من الميراث نصف نصيب الرجل لكون الرجل هو المسؤول عن دفع المهر عند الزواج بالمرأة، وهو المسؤول على الإنفاق على زوجته وأولاده وفي المقابل
لايكلف الإسلام المرأة الإنفاق على الأسرة مهما كانت غنية ومهما كان زوجها فقيرا إلا أن يكون ذلك مكرمة منها وفضلا.
ولنضرب لذلك مثلا: أخ وأخت ورثا ثلاثة آلاف دينار للأخ ألفان وللأخت ألف، الأخ مكلف بالإنفاق على أخته حتى تتزوج شرعا.
وهي لا تنفق من ميراثها درهما واحدا، هو مكلف بالإنفاق على أسرته وعلى ولده وإن لم تكن له أسرة فعليه أن يسعى في زواج نفسه بالمال الذي يدفعه بالأثاث الذي يشتريه، فإذاً الأعباء الاقتصادية التي تترتب على الرجل أعظم بكثير من الأعباء الاقتصادية التي تطالب بها المرأة.
ولهذا يلاحظ أن المرأة قبل زواجها يلزم أبوها بالإنفاق عليها وبعد الزواج يلزم الزوج بذلك فإن لم يكن لها زوج ولا أب يلزم الإخوة فإن لم يكن لها إخوة فأقاربها
ولذلك ترى الدكتورة بنت الشاطئ عائشة عبد الرحمن (( أن المرأة في الواقع أكثر من الرجل امتيازا ذلك أنها ترث نصف ما يرث الرجل ولكنها ترث هذا النصف معفيا من كل تضييق ...حتى تكليف الإنفاق على أولادها بل إن المرأة في كل حالاتها بنتا أو زوجة أو أما غير مكلفة شرعا بان تسعى على رزقها وإنما المكلف بالإنفاق عليها في جميع تلك الحالات أقرب رجل من أهلها)).
صحيح وحق أن آيات الميراث فى القرآن الكريم قد جاء فيها قول الله سبحانه وتعالى للذكر مثل حظ الأنثيين ) (1) ؛ لكن كثيرين من الذين يثيرون الشبهات حول أهـلية المرأة فى الإسـلام ، متخـذين من التمايز فى الميراث سبيلاً إلى ذلك لا يفقـهون أن توريث المـرأة على النصـف من الرجل ليس موقفًا عامًا ولا قاعدة مطّردة فى توريث الإسلام لكل الذكور وكل الإناث.
فالقرآن الكريم لم يقل: يوصيكم الله فى المواريث والوارثين للذكر مثل حظ الأنثيين.. إنما قال: ( يوصيكم الله فى أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين)..
أى أن هذا التمييز ليس قاعدة مطّردة فى كل حـالات الميراث ، وإنما هو فى حالات خاصة ، بل ومحدودة من بين حالات الميراث.
بل إن الفقه الحقيقى لفلسفة الإسلام فى الميراث تكشف عن أن التمايـز فى أنصبة الوارثين والوارثات لا يرجع إلى معيار الذكورة والأنوثة.. وإنما لهذه الفلسفة الإسلامية فى التوريث حِكَم إلهية ومقاصد ربانية قد خفيت عن الذين جعلوا التفاوت بين الذكور والإناث فى بعض مسائل الميراث وحالاته شبهة على كمال أهلية المرأة فى الإسلام.
0 notes
Text
جوان رکشہ ڈرائیور کا قتل، جسم پر کئی گھاؤ، پنجاب پولیس ہی گنٹھیا کے مریض کو ’ تنہا‘ قاتل ثابت کرسکتی ہے، ورثا کا تفتیش پر عدم اعتماد
31 جولائی کی صبح لاہور کے تھانے شمالی چھاؤنی کے علاقے بدر کالونی میں رکشہ ڈرائیور کی کٹی پھٹی لاش اس کے گھر کے بیرونی کمرے میں پڑی ملی،شمس شہ رگ اور گردن کی دیگر رگیں کٹی ہوئی تھیں۔ شمس کے دائیں بازو کو کندھے سے نصف سے زیادہ کاٹ دیا گیا تھا اور بائیں گردے کے قریب سے چھریوں کے وار کر کے انتڑیاں تک نکال دی گئیں تھیں،دائیں بازو کی ہڈی ہاتھ کے قریب سے آہنی شے کے وارسے توڑ دی گئی تھی اس کے علاوہ اس…

View On WordPress
0 notes
Text
راہ رو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا

اب سے پانچ دن پہلے فتح محمد ملک کے بیٹے طارق ملک نے نادرا کی سربراہی سے دوسری بار استعفیٰ دے دیا۔ دو ہزار چودہ میں بھی مسلم لیگ ن کے دور میں اسی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا کیونکہ اس وقت کے انا پرست وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو طارق ملک میں ’’ یس سر جی سر بالکل سر‘‘ کی شدید قلت کے سبب ان کی شکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ چوہدری صاحب یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ ووٹروں اور حامیوں کی توقعات اپنی جگہ مگر طارق ملک کا نادرا ایک ٹکنیکل ادارہ ہے اس لیے دیگر سرکاری اداروں کے برعکس یہاں پرچی کے بجائے میرٹ پر ہی بھرتیاں ہو سکتی ہیں۔ نیز یہ کہ ٹیکنالوجی اختیار کر کے شفاف ای گورنمنٹ تشکیل دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ٹیکنالوجی کو سیاسی مصلحتوں کی لگام سے کنٹرول کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ تازہ استعفی محض سادہ استعفی نہیں بلکہ یہ ہمارے اس اشرافی کردار کا آئینہ ہے جو زبان پے کچھ اور عمل میں کچھ ہے۔ چیئرمین نادرا نے اپنے تیاگ پتر میں لکھا کہ انھیں جون دو ہزار اکیس میں متعدد انٹرویوز کے بعد ایک سو سے زائد امیدواروں میں سے اس منصب کے لیے چنا گیا۔
تب وہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے نیویارک ہیڈ کوارٹر میں بطور چیف ٹکنیکل ایڈوائزر کام کر رہے تھے۔ مگر پاکستان چونکہ ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت ہے لہٰذا جب انھیں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب کیا گیا تو وہ پینتالیس نئے اہداف لے کر واپس آئے اور دو برس کی قلیل مدت میں سب کے سب مکمل بھی کر لیے۔ ان اہداف میں آٹو میٹڈ فنگر آئیڈینٹٹی سسٹم کا نفاز بھی تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اڑسٹھ بلین ڈالر کی عالمی بائیومیٹرک سلوشن مارکیٹ میں امریکا، برطانیہ ، یورپی یونین اور روس کے ہم پلہ ہونے کے قابل ہو گیا۔ پاکستان موبائل ایپ کے ذریعے ایک عام صارف کو دستاویزات کی آن لائن بائیومیٹرک توثیق و تصدیق کی سہولت فراہم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفکیٹس کے اجرائی نظام کے سبب روائیتی عدالتی بوجھ میں تیس فیصد تک کمی آ گئی اور خواتین ورثا کی جائداد میں حصہ داری کی دعویداری کا عمل بھی سہل اور شفاف ہو گیا۔ مختلف وزارتوں ، اداروں اور ایجنسیوں کی کارکردگی کو ای گورننس کے قالب میں ڈھالنے کے لیے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام شروع ہوا۔

اس عرصے میں تئیس ہزار اہلکاروں پر مشتمل اس ادارے کو میرٹ کے اصول پر اس طرح ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سماج کے تمام طبقات کو بلاامتیاز و حیل و حجت ڈیجیٹل شناخت و تصدیق سمیت دیگر سہولتوں کی چھتری تلے لا سکے۔ ان اصلاحات کے سبب ڈیجیٹل سہولتوں سے استفادے میں حائل صنفی فرق کو چودہ فیصد سے گھٹا کے آٹھ فیصد تک لانے میں کامیابی ہوئی۔ گزشتہ دو برس میں ساڑھے پانچ لاکھ خصوصی افراد، پچاس لاکھ اقلیتی شہریوں اور ہزاروں ٹرانس جنڈر پاکستانیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ پہلی قومی ڈیجیٹل مردم شماری کو شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے خصوصی سافٹ وئیر سے مزین ایک لاکھ چھبیس ہزار ڈیجیٹل ٹیبلٹس محمکہ شماریات کو فراہم کی گئیں۔ وہ ضعیف شہری جن کے انگوٹھے کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے تصدیق سروس، ڈیجیٹل پاور آف اٹارنی کا اجرا، اور شہریوں کے کوائف استعمال کرنے سے پہلے ان کی پیشگی اجازت کے لیے ڈیجیٹل سروس متعارف کروائی گئی۔ کوویڈ اور سیلاب کے بحرانی دنوں میں ضرورت مندوں کی بروقت امداد کے لیے ان کے شناختی ڈیٹا کی متعلقہ اداروں کو فراہمی و توثیق میں نادرا نے بنیادی کردار نبھایا۔
مگر کسی بھی غیرجانبدار پروفیشنل اہل کار کے لیے یکسوئی سے کام کرنا روز بروز مشکل ہوتا چلا جاتا ہے جب سیاسی فضا مکدر ہوتی چلی جائے اور پروفیشنل لوگوں اور اداروں کو بھی ’’ ہم اور تم ‘‘ کے میزان پر تولا جانے لگے۔ سیاسی وفاداری میرٹ سے افضل سمجھی جانے لگے۔ قطع نظر کون سی پارٹی اقتدار میں ہے اور کون حکمران ہے۔ میں نے شرحِ صدر کے ساتھ تمام حکومتوں کے ساتھ ذاتی وقار و شائستگی ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض نبھانے اور ہر رکنِ پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کے استفسارات بلا امتیاز نمٹانے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن سے تعاون کرتے ہوئے ووٹرز لسٹ کی تیاری کے دوران تین سو سے زائد سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو تحریری دعوت دی کہ وہ اپنے کسی بھی سوال یا تحفظ کے بارے میں براہ راست رابطہ کر کے وضاحت مانگ سکت�� ہیں۔مگر موجودہ منقسم اور کشیدہ سیاسی ماحول میں یہ پیشہ ورانہ توازن برقرار رکھنا میرے لیے مشکل تر ہو رہا ہے۔ لہٰذا میں استعفی پیش کر رہا ہوں۔
بس اتنی درخواست ہے کہ اس جگہ کسی حاضر یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے بجائے ایسے شخص کا تقرر کیا جائے جو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل مینیجمنٹ کے تقاضوں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ نادرا ان گنے چنے اداروں میں شامل ہے جو پاکستان میں بہترین کارکردگی کا مثالیہ کہے جا سکتے ہیں۔ ایسے ادارے مزید سیاسی تجربوں یا دباؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہماری ٹیکنیکل ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک قومی سرمایہ ہیں اور اس سرمائے کا تحفظ قومی زمہ داری ہے۔ ان کے بغیر یہ ادارہ اتنا آگے نہیں جا سکتا تھا۔ میں ان سب کے لیے نیک تمناؤں کا طالب ہوں۔ پاکستان زندہ باد۔ یہ ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس پاکستانی کی کہانی ہے۔ اس نے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بتیس برس پہلے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کیا۔ جرمنی میں شلر یونیورسٹی ہائڈل برگ سے انٹرنیشنل بزنس مینیجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ ہارورڈ کینیڈی اسکول اور پرنسٹن سے جدید ادارہ سازی کا نصاب پڑھا۔ دو برس حکومتِ بحرین کے انفارمیشن سسٹم کا مشیر رہا۔ امریکی ریاست مشی گن کی وئین کاؤنٹی کے ڈیجیٹل پروجیکٹ مینیجمنٹ سسٹم کی تشکیل میں چھ برس مختلف حیثیتوں میں کلیدی کردار نبھایا۔پھر پاکستان لوٹ آیا۔
دو ہزار آٹھ تا بارہ نادرا کے ٹیکنالوجی ڈویژن کا سربراہ رہا۔ اس حیثیت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مینیجمنٹ سسٹم ، آفات سے متاثر افراد کی مالی مدد میں شفافیت لانے کے لیے بائیومیٹرک کیش گرانٹ سسٹم کے علاوہ افغان مہاجرین کی ڈیجیٹل رجسٹریشن سسٹم ، موبائیل فون پیمنٹ سسٹم اور اسمارٹ کارڈ کے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی۔ دو ہزار بارہ تا چودہ بطور چیئرمین نادرا کو ایک خود کفیل منافع بخش وفاقی ادارہ بنایا۔ ریونیو میں تین سو فیصد تک اضافہ کیا۔ شفاف انتخابات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے لیے بائیو می��رک ڈیٹا بیس بنایا۔ دو ہزار چودہ تا سولہ امریکا کی ٹیرا ڈاٹا کارپوریشن میں بطور سینیر انڈسٹری کنسلٹنٹ ریاستی ، مقامی اور وفاقی حکومت کو ڈیٹا مینیجمنٹ اور ای گورنمنٹ کے بارے میں مشاورت فراہم کی۔ ایک سال ورلڈ بینک میں ٹکنیکل کنسلٹینسی کی۔ اگلے چار برس اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی فنڈ ( یو این ڈی پی ) کے چیف ٹکنیکل ایڈوائزر رہے۔ بائیس جون دو ہزار اکیس تا تیرہ جون دو ہزار تئیس دوسری بار نادرا کے سربراہ بنے۔
طارق ملک کا شمار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وابستہ چوٹی کے ایک سو عالمی انلفوئنسرز میں ہوتا ہے۔ امریکا ، یورپ ، روس ، سعودی عرب ، کینیا، نائجیریا، صومالیہ ، سوڈان ، تنزانیہ ، ملاوی ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سرکاریں بھی ان کی مشاورت سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ طارق ملک جیسوں کے لیے دنیا پہلے بھی بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔ اب بھی کھڑی ہے۔ اب وہ بھی ان سات لاکھ سے زائد پروفیشنلز میں شامل ہونے والے ہیں جو پچھلے دو برس میں یہ ملک دل پے پتھر رکھ کے چھوڑ گئے اور چھوڑتے ہی چلے جا رہے ہیں اور پتھر دن بدن وزنی ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص ’’ موسمِ ڈار‘‘ آنے کے بعد تو ڈار کی ڈار پرواز بھرتی جا رہی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
یومِ مئی تین ہزار سال پہلے

یہ قصہ ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے ساڑھے گیارہ سو برس پہلے کا۔ یعنی اب سے لگ بھگ اکتیس صدیاں پہلے۔ مصر کا ریاستی نظامِ شمسی فراعنہ رعمیسس کے گرد گھوم رہا ہے۔ اسے خدا کا درجہ حاصل ہے اور خدا بے بس نہیں ہو سکتا۔ یہ رعمیسس کی ذمے داری ہے کہ وہ سماج میں طبقاتی توازن برقرار رکھے، داخلی و خارجی بحرانوں کو اپنی الوہی فراست سے ٹالے، حکام پر آہنی گرفت رکھے۔ شاہی قوانین کی پاسداری کی راہ میں بدعنوانی، تساہل یا ناانصافی ہرگز حائل نہ ہو تاکہ رعایا کا خدا صفت بادشاہ پر یقین متزلزل نہ ہو۔ سب بظاہر ٹھیک چل رہا ہے کہ ایک دن نوکر شاہی کو حکم ملا کہ تین برس بعد جب رعمیسس سوم کا اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہو تو اس تاریخی موقع کو شایانِ شان منانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اس یادگار سال کی نشانی کے طور پر ایک عظیم الشان معبد کی تیاری کا حکم ملا اور ہزاروں کاریگر اور مزدور اس کی بروقت تکمیل کے کام میں جٹ گئے۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ اخراجات سرکاری آمدنی سے زیادہ ہوتے چلے گئے اور خسارے کا خمیازہ شاہی جشن کی تیاریوں کی ترجیح پر محنت کشوں کو بھگتنا پڑا۔ ماہانہ محنتانہ اور راشن کی تقسیم میں پہلے مہینے چند دنوں کی تاخیر ہوئی، پھر تاخیر ہفتوں میں تبدیل ہوئی اور تیسرے مہینے میں حکام نے مزدوروں کو بتایا کہ گزشتہ مہینے کا محنتانہ اگلے مہینے سے پہلے نہیں مل سکتا۔
جب بے چینی بڑھنے لگی تو حکام نے بطور پیش بندی کارکنوں میں غلے کی رسد کسی نہ کسی طور تقسیم کر دی، مگر یہ عارضی حل تھا۔ اصل معاملہ یوں تھا کہ تیس سالہ جشن کے لیے مختص بجٹ میں جو رقم کاریگروں اور محنت کشوں کے معاوضے کی مد میں مختص کی گئی تھی۔ اس کا ایک حصہ جشن کے منتظم افسروں نے ملی بھگت سے غتربود کر لیا۔ اب اگر یہ خبر محل تک پہنچ جاتی تو گردنیں اڑ سکتی تھیں، لہٰذا نچلی بیورو کریسی کاریگروں اور مزدوروں کی بے چینی قابو میں رکھنے کے لیے بقول شخصے لولی پاپ دیتی رہی۔ خوراک تو کسی نہ کسی طور بٹتی رہی مگر معاوضہ کب ملے گا اور جو بقایا جات جمع ہوتے جا رہے ہیں ان کا کیا ہو گا۔ اس کا حتمی جواب کسی افسر کے پاس نہیں تھا۔ تنگ آمد بجنگ آمد ایک دن ( چودہ نومبر گیارہ سو انسٹھ قبلِ مسیح ) دیر المدینہ کے علاقے میں معبد تعمیر کرنے والے کاریگروں اور کارکنوں نے اوزار زمین پر رکھ دیے اور احتجاجی جلوس دارالحکومت تھیبس کی جانب ’’ ہم بھوکے ہیں ہم برباد ہیں ‘‘ کے نعرے لگاتا چل پڑا اور آنجہانی فراعنہ ٹیوٹمس سوم کے مقبرے کے باہر دھرنا دے دیا۔

حکام کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا کہ بادشاہ کے کسی منصوبے سے رعیت کا کوئی طبقہ اس طرح حکم عدولی کرے۔ پہلی بار کسی طبقے نے طے شدہ سماجی دائرہ اس دیدہ دلیری سے توڑا۔ حکام کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ اس ناگہانی سے کیسے نمٹا جائے۔ بدحواسی میں حکام نے فوری طور پر مٹھائیاں منگوا کے بانٹنا شروع کر دیں تاکہ بھوکے مزدوروں کی کچھ نہ کچھ تشفی ہو سکے اور پھر وہ بات سننے پر آمادہ ہو سکیں۔ اگلے دن کاریگروں اور مزدوروں کا یہ جتھہ شاہی گودام کے دروازے پر جمع ہو گیا۔ کچھ لوگ دیوار پھاند کے اندر داخل ہو گئے اور ’’ تنخواہ ابھی اور اسی وقت ‘‘ کا مطالبہ کرتے رہے۔ حکام نے گھبرا کے کوتوال مونٹیمس کو مدد کے لیے طلب کیا۔ مونٹیمس کمک لے کے پہنچا اور مزدوروں کو واپس کام پر جانے کا حکم دیا۔ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مونٹیمس نے معبد کے پروہت اور متعلقہ افسروں سے کہا کہ ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی ریاستی ضابطہ، مثال یا قانون نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ہی نپٹیں۔ مزدور رہنماؤں اور مندر کی انتظامیہ کے درمیان تفصیلی مذاکرات کے نتیجے میں رواں مہینے کی تنخواہ معہ واجبات ایک ہفتے کے اندر ادائیگی کا سمجھوتہ ہو گیا اور محنت کش کام پر لوٹ گئے۔
اگلے ماہ پھر بحران سر پر آگیا۔ اس بار مزدوروں نے وادیِ شاہان ’’ویلی آف کنگز ‘‘ جانے والے راستوں پر دھرنا دے دیا۔ تاکہ شاہی مقبروں تک پروہت یا مرنے والوں کے ورثا اظہارِ عقیدت کے لیے نہ پہنچ پائیں اور انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔ جب حکام نے طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی تو چند مزدوروں نے جوابی دھمکی دی کہ وہ مقبروں کی توڑ پھوڑ سے بھی دریخ نہیں کریں گے۔چنانچہ سرکاری عمال کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنا پڑا۔ یوں یہ آنکھ مچولی اگلے تین برس تک چلتی رہی۔ حکام کو جلدی تھی کہ جشن تیس سالہ کے منصوبوں میں کوئی ایسا رخنہ نہ پڑے جس کی سن گن بادشاہ کو ہو جائے۔ کارکنوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ ہڑتال کی اجتماعی طاقت سے وہ اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں اور مطالبات پورا کرنے میں ناکامی سے رعایا میں یہ پیغام جائے گا کہ خدائی طاقت رکھنے والا بادشاہ ہر شے پر قادر ��ہیں۔ اس سے تو اپنی نوکرشاہی نہیں سنبھل رہی۔ نوکر شاہی کو یہ خوف تھا کہ اگر بادشاہ کی طاقت و ناطاقتی پر رعایا کی طرف سے کوئی سوال اٹھتا ہے تو پھر بادشاہ سب سے پہلے ہماری ہی کھال کھنچوائے گا۔
خدا خدا کر کے شاہی جوبلی کے انتظامات کسی نہ کسی طور مکمل ہوئے اور گیارہ سو چھپن قبلِ مسیح میں کئی ماہ پر پھیلی تقریبات شاندار انداز میں منائی گئیں۔ لوگ وقتی طور پر روزمرہ کے مسائل بھول بھال کے ناچ گانے اور ناؤ نوش میں لگ گئے۔ اگرچہ جشن کے بعد کے مہینوں میں تنخواہوں کا بحران کسی نہ کسی طور حل کر لیا گیا مگر سرکار اور مزدوروں کے تعلقات میں پہلے والی بے ساختہ گرم جوشی جاتی رہی اور بھروسے کی کمی نے نفسیات میں گھر کر لیا۔ اب تک یہ تصور تھا کہ رعایا کی دیکھ بھال اور تکالیف رفع کرنے کی ذمے داری کلی طور پر بادشاہ کی ہے۔ مگر اس تجربے نے یہ آشکار کیا کہ رعایا کو یہ شاہی اختیار خود بھی مجبوراً استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔ جن کاریگروں اور مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا انھیں اس دور میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والا طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر ریاست ان مراعات یافتہ محنت کشوں کی دیکھ بھال نہیں کر پائی تو پھر دیگر مزدور طبقات کا خیال کیسے رکھ پائے گی۔ چنانچہ وہ تحریک جو تنخواہوں کے بحران سے شروع ہوئی رفتہ رفتہ اس نے حکمرانی کے گرتے ہوئے معیار اور کرپشن کے بارے میں سوالات اٹھانے شروع کر دیے۔ رعمیسس سوم کی حکومت کے سرکاری ریکارڈ میں ان ہڑتالوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اس کا سراغ دیر المدینہ میں دریافت ہونے والے پاپائرس پر لکھی ایک تحریر سے ملا۔ امکان ہے کہ یہ تحریر امیناخت نامی کاریگر کی ہے جو خود بھی مزدور تحریک میں آگے آگے تھا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
جرمنی میں عمرشریف کی میت ورثا کے حوالے، ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری
جرمنی میں عمرشریف کی میت ورثا کے حوالے، ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری
برلن: جرمنی میں عمرشریف کی میت ورثا کے حوالے کردی گئی ہے جب کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ امید نیوزکے مطابق معروف لیجنڈ اداکاراوراسٹیج کے بے تاج بادشاہ عمرشریف کی میت ورثا کے حوالے کردی گئی ہے۔ میت کو نمازجنازہ کے لیے مقامی مسجد منتقل کردیا گیا ہے۔ مقامی اسپتال نے عمرشریف کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا ہے۔ عمرشریف کے بیٹے کے مطابق ان کے والد کی میت منگل یا بدھ کوکراچی لائی جائے گی تاہم…

View On WordPress
0 notes
Text
گھریلو جھگڑوں پر چار افراد نے زہریلی گولیاں کھالیں دو جاں بحق
(24 نیوز)مریدکےمیں گھریلو جھگڑوں پر 24 گھنٹوں کے دوران خاتون سمیت چار افراد نے زہریلی گولیاں کھا لیں جس سے دونو جوان جاں بحق ہوگئے ۔ خاتون سمیت دو افراد تشویشناک حالت میں لاہور میں زیر علاج ہیں، مرنے والے نوجوان دلاور اور شیخ سجاد کی لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔ دونوں جوانوں کو ایک روز قبل تشویشناک حالت میں لاہور ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ Source link
0 notes
Text
قابض پنجابی دہشتگرد ریاست نے شہید بالاچ کے ورثا کو خریدنے کے لیے چار کروڑ کی پیشکش کی تھی مگر انھوں نے یہ کہی کر انکار کر دیا کہ اگر یہ بالاچ کی لاش کی قیمت ہے تو وہ اب ہمارا نہیں قوم کا ہے قوم نے بالاچ کو اور بالاچ نے قوم کو اپنا لیا ہے
#BalochFightForHumanRights
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
يا ورثا رفقا بالوارث ويا مبصرا حبا للأعمى
محدش هيمشي لك طريقك ولا هيشيل عنك فكل آتيه يوم القيامة فرادا.. فقط ممكن يسيب لك شموع وعلامات اختيارية ومن خلال الأسئلة والإشارة.. والإشارة لن يلتقطها إلا من كانت محطة الاستقبال عنده على نفس التردد.. 👋كفاية كسل معرفي.. إنت أكرم من أن تنقاد لغيرك وتبقى مجرد متلقي لما يكبه غيرك في رأسك. 💚يا ورثا رفقا بالوارث ويا مبصرا حبا للأعمى 💚 المصدر: يا ورثا رفقا بالوارث ويا مبصرا حبا للأعمى
View On WordPress
0 notes
Text
قوت بخش ادویات پولیس افسر شارق جمال کی موت کی وجہ بنیں،متوفی کے دوستوں کا بیان
ڈی آئی جی لاہور پولیس شارق جمال کی پراسرار اور اچانک موت کی وجوہات کو محکمہ اور ان کا خاندان چھپانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا ثبوت متوفی کا پوسٹمارٹم روکنا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ ورثا نے پوسٹمارٹم سے روکا۔ ڈی آئی جی شارق جمال کی موت کی ابتدائی خبر بھی پراسرار تھی، پہلے ہ گیا کہ متوقف ڈی آئی جی کسی فلیٹ پر مردہ پائے گئے، فلیٹ کے مالک میاں بیوی کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاش پوسٹمارٹم کے لیے جناح…

View On WordPress
0 notes
Text
آج میں کس کی حمایت کروں؟

یا توان لوگوں کو ادراک نہیں کہ ہم کھائی میں گر چکے ہیں اور اپنا وزن اٹھانے کے لیے کرین اور اس کے کرائے کا انتظام بھی ہمیں خود ہی کرنا ہے۔ پھر گمان ہوتا ہے کہ جو ریاست اپنے ہی چڑیا گھر میں ایک ہاتھی (نور جہاں) کو ہی خشک تالاب سے اٹھا کے کھڑا نہ کر پائی وہ اپنے ہی وزن کو کیسے کھائی سے نکال پائے گی؟ یا پھر ان لوگوں کو پورا ادراک ہے کہ انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں اس ملک کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا ہے اور اب یہ خود سامان باندھ کے کسی بھی ناگہانی کے سر پے ٹوٹنے سے پہلے پہلے پتلی گلی سے نکلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور زندگی بھر اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرنے اور اپنی ہی ناک سے آگے کچھ بھی دیکھنے کے ناقابل یہ لوگ باقیوں کو اللہ پر بھروسے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یا ان لوگوں کو اب بھی انتظار ہے کہ کوئی مسیحا اچانک فلمی انداز میں سپر مین کی طرح آسمان سے اترے گا اور موجودہ لوٹ افزا نظام سمیت انھیں ٹوٹے ہوئے گھر کی چھت سے اٹھا کے دریا پار اتار دے گا۔ یا یہ لوگ اب بھی اس ناممکن خواہش کو تعبیر کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں کہ یہ سب مل بانٹ کے کیک بھی کھاتے رہیں مگر کیک ثابت کا ثابت رہے۔ یا یہ لوگ ہنوز دلی دور است کے داستانی مسخرے ہیں۔
یا پھر یہ سب کے سب اس نااہل پیڑھی کی طرح ہیں جسے یہ ریاست ورثے میں ملی باپ دادا کی موروثی جائیداد لگتی ہو اور اسے آخری سانس تلک مجرئی شب و روز برقرار رکھنے کے لیے آخری بیگھے تک بیچا جا سکتا ہو۔ اس پر رسائی و اختیار کا نشہ بھی اس قدر چڑھا ہوا کہ اپنی ہی گول پوسٹ میں گول پر گول کر کے ایک دوسرے کو بدھائی دے رہے ہوں اور وفاداروں سے اندھی داد وصول کر رہے ہوں۔ یا پھر یہ ٹولہ وہ جواری ہے جو آخری فیصلہ کن ہاتھ کی امید پر ہر شے گروی رکھ چکا ہے مگر پتے رکھنے پر ہرگز تیار نہیں۔ چین ہمارا یار تو ہے مگر اسی چین میں ہزاروں برس پہلے سن زو نام کا جو ماہرِ عسکریات گزرا اس کے بقول ’جب دشمن فاش غلطی پر غلطی کر رہا ہو تو ہرگز، ہرگز نہ ٹوکا جائے‘ اور بہترین لڑائی وہ ہے جو شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لی جائے ۔ کہیں باہر سے نہیں گھر سے اٹھا ہے فتنہ شہر میں اپنے ہی لشکر سے اٹھا ہے فتنہ حاکمِ شہر کے دفتر سے اٹھا ہے فتنہ آج کسی دشمن کو اس ’ مل بانٹ‘ گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے ایک گولی ضائع کرنے یا ایک پیسہ خرچ کرنے یا کوئی چھوٹی موٹی سازش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ بس گیلری میں بیٹھ کے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے تھیٹر سے لطف اندوز ہونے کی گھڑی ہے۔

دشمن تو دشمن دوست بھی دانتوں تلے انگلیاں دابے یہ فی البدیہہ بلیک کامیڈی دیکھ رہے ہیں۔ سکرپٹ سیدھا کرنے میں مدد کرے بھی تو کون کرے جب اسے یقین ہی نہ ہو کہ یہ نوٹنکی فن کار بزعم خود یوری پیڈیس اور شیکسپئر کے منبر سے ایک قدمچہ بھی نیچے اترنے کو تیار نہیں۔ اس ریاست کے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم جو دوست بچ گئے ہیں انھیں پہلی بار پتہ چل رہا ہو گا کہ گنوار کی اکڑ کا اصل مطلب کیا ہے۔ اب سے پہلے تک ہم اپنی پسند کے ولن کے سینگوں سے اپنی ناکامیوں کی دھجیاں باندھ کے خود کو تسلی دے لیتے تھے۔ مگر آج تو 75 برس میں یکے بعد دیگرے آنے والے ولنز کی ارواح بھی موجودہ اشرافیوں کو گرو مان کے سجدہ ریز ہیں۔ ان لال بھجکڑوں کے ہوتے دولے شاہ کے چوہے بھی آئن سٹائن سے اوپر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے تو وہ افسانوی بندر بھی کود پھاند بھول گیا ہے جس کے ہاتھ میں استرا تھا۔ وہ تین جاپانی بندر تو عرصہ ہوا دیوار کود کے فرار ہو چکے جو ’نہ برا کہو ، نہ برا سنو ، نہ برا دیکھو‘ کے مبلغ تھے۔
چند برس پہلے احمد پور شرقیہ میں دورِ نوابی کے سب سے لاڈلے محل صادق گڑھ پیلس کو اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس محل پر جب جوبن تھا تو دنیا کا کون سا بڑا آدمی یہاں قدم رنجہ نہیں ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ ورثا ہی اس کی آخری چوکھٹ اکھاڑ لے گئے۔ بکنگھم پیلس میں نصب میگا سائز آئینوں سے بھی بڑے صادق گڑھ پیلس کے مرکزی ہال میں نصب وکٹوریہ دور کے آئینے اپنے پیچھے صرف نشان چھوڑ گئے۔ اب اس عظیم الشان کھنڈر کی حفاظت چند جدی پشتی چوکیدار کرتے ہیں اور ورثا آج بھی اس سانحے پر پشیمان ہونے کے بجائے الزام در الزام کی رکابی میں بھر بھر کے دلیلیں کھاتے اور جواز پیتے ہیں۔ تین دیگر لاڈلے محل فوج کی تحویل میں چلے گئے اور ان میں کوئی عام آدمی بلا اجازت پر نہیں مار سکتا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Photo

وین حادثہ پیش آنے کی پیچھے وجہ کیا بنی ؟جھلسنے والے 11افراد کی شناخت مکمللاشیں ورثا کے حوالے ، ڈرائیورگرفتار کر لیا گیا حیدرآباد ٹائون ( آن لائن )فیصل آباد سے اسلام آباد جاتے ہوئے موٹروے بھیرہ کے مقام پر پیش آنے والے مسافروں سے بھری وین کو پیش آنے والے ٹریفک حادثہ میں جھلس کر مرنے والے 11 افراد کی شناخت مکمل کرکے لاشیں ورثا کے حوالے کردی گئیں ۔ جبکہ بد قسمت ویگن کے ڈرائیور کیخلاف مقد��ہ درج کرکے زخمی ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا ۔ ڈرائیور پر غفلت اور لاپرواہی سے ویگن چلانے ک
#11افراد#انے#بنی#پیچھے#پیش#جھلسنے#حادثہ#حوالے#ڈرائیورگرفتار#شناخت#کر#کی#کیا#کے#گیا#لیا#مکمللاشیں#والے#وجہ#ورثا#وین
0 notes
Text
عمر شریف کی جرمنی میں نماز جنازہ ادا ، میت ورثا کے حوالے
عمر شریف کی جرمنی میں نماز جنازہ ادا ، میت ورثا کے حوالے
کامیڈی کے بے تاج بادشاہ عمر شریف کی جرمنی کے شہر نیونبرگ میں نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے جس کے بعد میت کو وہاں پاکستانی سفارتی عملے اور ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عمر شریف کا جسد خاکی دو دن تک جرمنی کے شہر نیونبرگ کے ہسپتال میں تھا اور آج وہاں کی مقامی انتظامیہ نے ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا، جس کے بعد ان کی میت کو پاکستانی سفارت خانے کے عملے اور ورثا کے حوالے کیا گیا تھا۔ جرمنی میں پاکستانی…

View On WordPress
0 notes
Text
سانحہ بابڑہ: ’جہاں گولیوں کے پیسے بھی مقتولین کے ورثا سے لیے گئے‘
سانحہ بابڑہ کو 72 سال ہو چکے ہیں اور آج بھی اس کی یاد میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن چارسدہ میں تقریب منعقد کرتے ہیں اور یادگار پر پھول چڑھاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے شہر سے پیوست علاقہ بابڑہ جہاں عبدالغفارخان عرف باچا خان کے پیروکاروں کی احتجاجی ریلی پر 12 اگست، 1948 کو فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ریلی میں شریک 600 کے قریب ’خدائی خدمت گار‘ ہلاک جبکہ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ عبدالغفار خان عرف باچا خان کی رہائی کے لیے نکالی گئی اس ریلی کی شرکا، جس کی قیادت سالار امین جان کر رہے تھے، جیسے ہی بابڑہ کے مقام پر پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے ’حکم‘ کے مطابق ان پر شیلنگ کی۔ اس سال بھی غازی گل بابا مسجد میں سخت سکیورٹی میں سانحہ بابڑہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی، جس میں ’خدائی خدمت گار‘، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین اور صوبائی صدر ایمل ولی خان نے شرکت کی اور بعد ازاں بابڑہ کے مقام پر بنی یادگار پر پھول چڑھائے۔ افتخارحسین نے جی سی این اردو کو بتایا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے ایک سال پورا ہونے میں دو دن باقی تھے کہ سانحہ بابڑہ کا واقعہ پیش آیا اور یہ واقعہ اس وجہ سے پیش آیا کہ صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) میں عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹرخان صیب کی آئینی حکومت کو غیرآئینی طریقے سے ختم کرتے ہوئے ہمارے مشران باچا خان،عبدالولی خان اور دوسرے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی زمینیں ضبط کر لی گئیں تو خدائی خدمت گاروں نے ایک پرامن احتجاجی ریلی کا فیصلہ کیا۔ ���پرامن جلوس پر وزیراعلیٰ سرحد عبدالقیوم خان کشمیری کے خصوصی حکم پر گولیاں برسائی گئیں جبکہ ریلی کے شرکا پرامن اور خالی ہاتھ تھے اور پہلا شہید سپین ملنگ جس کے ہاتھ Read the full article
#72Years#ANP#BachaKhan#Bhabra#GCNNewsUrdu#GlobalCurrentNews#بابڑہ#بھی#پیسے#جہاں#سانحہ#سے#کے#گئے#گولیوں#لیے#مقتولین#ورثا
0 notes