#ممالک
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارت میں سونا خلیجی ممالک سے کتنا سستا ہے؟ حیران کن انکشاف
نئی دہلی (ویب ڈیسک) بھارت میں سونے کی قیمت حیرت انگیز طور پر خلیجی ریاستوں اور سنگاپور کے مقابلے میں کم ہے۔ نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق سونا خریدنے کے لیے یو اے ای، قطر، عمان اور سنگاپور آئیڈیل مارکیٹس رہی ہیں۔ 16 نومبر کو بھارت میں 10 گرام (24 قیراط) سونے کی قیمت 75650 روپے تھی۔22 قیراط سونے کی قیمت 69350 روپے فی 10 گرام جبکہ 18 قیراط سونے کی قیمت 56740 روپے فی 10 گرام تھی۔ عمان میں 24 قیراط…
0 notes
Text
اسلامی ممالک اپنی طاقت اسرائیل کیخلاف آج نہیں توکب استعمال کرینگے؟نوازشریف
مسلم لیگ (ن)کےصدرنوازشریف نےکہا ہےکہ اسرائیل کےخلاف یواین اوبے بس ہوچکی اوردنیا خاموش بیٹھی ہے۔اسلامی ممالک کےپاس ایک قوت موجود ہے اسرائیل کےخلاف اس کااستعمال آج نہیں توکب کریں گے؟ صدر ن لیگ نوازشریف کافلسطین پرمنعقدہ آل پارٹیزکانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ نہتے فلسطینی باشندوں پرجوظلم ہورہاہےوہ تاریخ کی بدترین مثال ہے،پورےپورےشہرکھنڈارت میں تبدیل کردیےگئےماؤں سےبچےچھین کروالدین کے…
0 notes
Text
غزہ کے متاثرین کیلئے خلیجی ممالک کا بڑا اعلان
غزہ کے متاثرین کیلئے خلیجی ممالک کا بڑا اعلان An uncaught Exception was encountered Type: RedisExceptionMessage: MISCONF Redis is configured to save RDB snapshots, but is currently not able to persist on disk. Commands that may modify the data set are disabled. Please check Redis logs for details about the error.Filename:…
View On WordPress
#24 News#Arab#Countries#Dollars#Forces#Gulf#hospital#Israel#غزہ،خلیجی ،ممالک،عرب،اسرائیل،ڈالرز،ہسپتال،فورسز،24 نیوز Gaza
0 notes
Text
سلام
جیسا کہ آج کل حجاب سیکس کہ ڈماڈ زیادہ تر ہے کجہ لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ غیر مسلم لڑکیاں ہوتے ہیں لیکں ایسا نہیں ہے پروں انڈسٹری میں سب سے زیادہ مسلم خواتین جوش خروش سے شمولیت اختیار کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک کے خواتین زیادہ تر پرون انڈسٹری میں شامل ہو رہی ہیں ۔ رہے بات حجاب کے خاص طور پر پاکستان انڈیا بنگلادیش میں خواتین سر نقاب سے ڈھانپ کر سکس کرواتے ہیں کیو کہ اقصر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شپ کر سیکس ویڈیو بنا لیتے ہیں اس لے نقاب کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں تاہم اگر ویڈیو لیک بھی ہو جائے ان کا چہرہ چھپا ہوتا ہے
2 notes
·
View notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
آرون گروپس: ایک جدید کاروباری انقلاب
آرون گروپس ایک ایسا نام ہے جو آج کل دنیا بھر میں کاروباری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ کمپنی نہ صرف ایک طاقتور اور مستحکم کاروباری ماڈل پیش کرتی ہے بلکہ اپنے صارفین کو جدید ترین تکنیکی سہولیات اور بہترین کسٹمر سروس بھی فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون میں، ہم آرون گروپس کی تاریخ، اس کے کاروباری ماڈل، اور اس کی کامیابی کے رازوں پر تفصیلی نظر ڈالیں گے۔
آرون گروپس کا تعارف
آرون گروپس ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی مختلف مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ آرون گروپس کی کامیابی کا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی، جدید ترین تکنیکی سہولیات، اور ماہرین کی ٹیم میں مضمر ہے۔
تاریخ اور پس منظر
آرون گروپس کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی۔ ابتدائی دنوں میں، کمپنی نے چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کیا۔ لیکن اپنے معیاری خدمات اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت، آرون گروپس نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں۔ آج، آرون گروپس دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اور ہزاروں صارفین کو اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔
کاروباری ماڈل
آرون گروپس کا کاروباری ماڈل متعدد شعبوں میں تقسیم ہے۔ اس کی بنیادی خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، اور تکنیکی خدمات شامل ہیں۔ کمپنی کا مقصد اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات فراہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے راز
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے کئی اہم عوامل کارفرما ہیں۔ ان عوامل میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔
بہترین کاروباری حکمت عملی: آرون گروپس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی ہے۔ کمپنی نے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے مختلف حکمت عملی اپنائی ہیں۔
ماہرین کی ٹیم: آرون گروپس کی ٹیم میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں۔ یہ ماہرین اپنے تجربے اور مہارت کی بدولت کمپنی کو کامیابی کی راہ پر گامزن رکھتے ہیں۔
جدید ترین ٹیکنالوجی: آرون گروپس جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سیکشنز میں جدید ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آرون گروپس کی خدمات
آرون گروپس مختلف شعبوں میں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، تکنیکی خدمات، اور دیگر شعبے شامل ہیں۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں مختلف خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات فراہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
تربیت اور ��رقی: آرون گروپس اپنے ملازمین کی تربیت اور ترقی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف تربیتی پروگرامز کے ذریعے اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے اور ان کو نئے چیلنجز کے لئے تیار کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کمپنی کا مشن بہترین خدمات فراہم کرنا اور صارفین کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ کمپنی کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔
مشن: آرون گروپس کا مشن اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
وژن: آرون گروپس کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا ہے۔
آرون گروپس کی سوشل رسپانس بلٹی
آرون گروپس اپنی سوشل رسپانس بلٹی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف سماجی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے اور مختلف کمیونٹیز کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سوشل رسپانس بلٹی منصوبے درج ذیل ہیں:
تعلیم: آرون گروپس مختلف تعلیمی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف سکولوں اور کالجز کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور تعلیم کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
صحت: آرون گروپس مختلف صحت کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ہسپتالوں اور کلینکس کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور صحت کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
ماحولیات: آرون گروپس مختلف ماحولیات کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ماحولیاتی منصوبوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور ماحول کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل
آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، آرون گروپس مستقبل میں بھی کامیابی کی راہ پر گامزن رہے گی۔ کمپنی کا مقصد مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا اور عالمی سطح پر ایک ممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔
آرون گروپس نے اپنی بہترین خدمات اور کاروباری حکمت عملی کی بدولت آج کل دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ کمپنی کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں، جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل کی راہیں مزید کامیابی کی جانب گامزن ہیں۔ کمپنی کے کاروباری منصوبے اور اس کی سوشل رسپانس بلٹی اسے ایک ممتاز مقام پر فائز کرتے ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
کاروباری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی
آرون گروپس کی کاروباری حکمت عملی جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین تکنیکی حل فراہم کرنا اور اپنے صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کرنا ہے۔ آرون گروپس کی ماہر ٹیم مستقل طور پر جدید ٹیکنالوجی کا جائزہ لیتی ہے اور ان کو اپنے کاروباری منصوبوں میں شامل کرتی ہے۔
جدید سافٹ ویئر: آرون گروپس جدید سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین خدمات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سافٹ ویئر مختلف کاروباری عملوں کو خودکار بناتے ہیں اور کارکردگی میں بہتری لاتے ہیں۔
کلاؤڈ کمپیوٹنگ: آرون گروپس کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا استعمال کرتی ہے تاکہ ڈیٹا کو محفوظ اور موثر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔ یہ تکنیک کمپنی کو مختلف جگہوں پر اپنے ڈیٹا کو فوری رسائی فراہم کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت: آرون گروپس مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے تاکہ کاروباری عملوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ تکنیک مختلف کاروباری مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے اور کارکردگی میں بہتری لاتی ہے۔
آرون گروپس کے کاروباری پارٹنرز
آرون گروپس نے مختلف شعبوں میں بہترین کاروباری پارٹنرز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ یہ پارٹنرشپ کمپنی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور بہترین خدمات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مالیاتی ادارے: آرون گروپس نے مختلف مالیاتی اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ صارفین کو بہترین مالی مشاورت فراہم کی جا سکے۔
تکنیکی کمپنیز: آرون گروپس نے مختلف تکنیکی کمپنیز کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ جدید ترین تکنیکی حل فراہم کیے جا سکیں۔
تعلیمی ادارے: آرون گروپس نے مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ تعلیم کی بہتری کے لئے کام کیا جا سکے۔
صارفین کی توقعات اور آرون گروپس
آرون گروپس اپنے صارفین کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ کمپنی کا مقصد صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔ آرون گروپس نے اپنی خدمات میں مختلف اصلاحات کی ہیں تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
بہترین کسٹمر سروس: آرون گروپس بہترین کسٹمر سروس فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو کسی بھی مسئلے کا فوری حل فراہم کیا جا سکے۔
معیاری خدمات: آرون گروپس معیاری خدمات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
جدید تکنیکی سہولیات: آرون گروپس جدید تکنیکی سہولیات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کیا جا سکے۔
نتیجہ
آرون گروپس ایک ممتاز اور کامیاب کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اس کی کامیابی کے پیچھے بنیادی عوامل ہیں۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کو ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کمپنی کی سوشل رسپانس بلٹی اور مختلف سماجی منصوبے اس کی بہترین خدمات کا مظہر ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
Website: https://www.gostaresh.news/
2 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار ��ہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
Muhammad Al-Deif (Abu Khaled), Chief Commander of #Al_Qassam Brigade:
O brothers of Jordan and Lebanon, Egypt and Algeria, Morocco, Pakistan and Malaysia and Indonesia and all Arab and Muslim countries:
Start marching for Palestine now instead of tomorrow and don't let restrictions, borders or regulations deprive you of the privilege of joining the freedom of Masjid #Al_Aqsa
Source: Al-Qassam Brigade
[محمد الدیف (ابو خالد)، القسام بریگیڈ کے چیف کمانڈر:
اے اردن اور لبنان، مصر اور الجزائر، مراکش، پاکستان اور ملائیشیا اور انڈونیشیا اور تمام عرب اور مسلم ممالک کے بھائیو:
فلسطین کے لیے کل کی بجائے ابھی مارچ شروع کریں اور پابندیاں، سرحدیں یا ضابطے آپ کو مسجد اقصیٰ کی آزادی میں شامل ہونے کے اعزاز سے محروم نہ ہونے دیں۔
ماخذ: القسام بریگیڈ]
2 notes
·
View notes
Text
tehreer se iqtibaas
بات کرتے بلکل یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہماری پروریش دو الگ ممالک میں ہوئی۔ اکثر محمد رفیع کی غزلوں اور لتا کی سروں سے واقفیت انہیں کی بدولت ہوتی۔ ان کے خطوط کے ذریعےمیں نے کئی ممالک کی سیر کی۔ میری کیئ شاعروں سے ملاقات ہوئی۔
baat karte yeh bilkul mehsoos nahi hota tha k humari parwarish dou alag mumalik main huwi. aqsar muhammad rafi ki ghazloon aur lata k suroon se wakfiyat unhi ki badolat hoti. unke khatoot k zariye maine kayi mulkoon ki sayr ki. meri kayi shayaroon se mulaqaat huwi.
6 notes
·
View notes
Text
ایران نے اسرائیل پر حملے سے متعلق خطے کے ممالک کو آگاہ کردیاامریکی اخبار کا دعویٰ
نیویارک(ڈیل پاکستان آن لائن)ایران اسرائیل کشیدگی پر امریک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملے سے متعلق خطے کے ممالک کو آگاہ کردیا۔ امریکی اخبار کے مطابق اسرائیل پر حملہ طاقتور ہتھیاروں سے کیا جائے گا، حملے میں انقلابی گارڈز کے علاوہ ایرانی آرمی بھی حصہ لے گی۔ Source link
0 notes
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں ��س بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Boycott Israel#Boycott Israel Products#Gaza#Gaza war#Israel#Middle East#Palestine#Palestine Conflict#Wars#World
2 notes
·
View notes
Text
اقوام متحدہ میں کشمیریوں کےحق خودارادیت کی قراردادمنظور
اقوام متحدہ میں کشمیریوں کےحق خودارادیت سےمتعلق پاکستان کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیرملکی اورغیرقانونی تسلط کا شکار کشمیری عوام کےلیےایک قرارداد منظورکی گئی ہےجس میں ان کے حق خودارادیت کےلیےعالمی عزم کی تجدید کی گئی ہے۔ کشمیری عوام کےحق خودارادیت کی قرارداداقوام متحدہ میں پاکستان کےمستقل مندوب ایمبیسیڈر منیراکرم کی جانب سےپیش کی گئی تھی،��س کی65 ممالک نے مشترکہ…
0 notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر حکومت پنجاب ننکانہ صاحب فون نمبر056-9201028
ہینڈ آوٹ نمبر513
پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتیں یہاں پر مکمل محفوظ اور آزاد ہیں ، بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے آنے والے مہمان یاتری ہماری پرخلوص میزبانی کی خوشگوار یادیں لے کر جائیں اور بار بار یاترا کے لیے پاکستان آئیں گے ، پاکستان تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے اور یہاں رہنے والی تمام غیر مسلم اقلیتیں اور ان کی عبادت گاہیں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو
ننکانہ صاحب: ( )07 نومبر 2024۔۔۔۔۔۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو کی زیرصدارت بابا گورونانک دیو جی کے 555 ویں جنم دن کی تقریبات کے انتظامات کا جائزہ اجلاس کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔ضلعی افسران نے بابا گورونانک کے جنم دن کے انتظامات بارے ڈپٹی کمشنر کو تفصیلی بریفنگ دی۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو شہرینہ غلام مرتضی جونیجو ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل رائے ذوالفقار علی ، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122 اکرم پنوار ، ڈی ایس پی ٹریفک ، سول ڈیفنس ، میونسپل کمیٹیز سمیت تمام ضلعی افسران اجلاس میں شریک تھے۔ضلعی افسران نے ڈپٹی کمشنر کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ننکانہ صاحب کے ساتوں گردواروں میں دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔شہر کی تزئین و آرائش اور پیچ ورک کا کام آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے جبکہ سکھ یاتریوں کے لیے رہائش اور لنگر کے انتظامات کو مکمل کر لیا گیا ہے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بابا گورونانک کے 555 ویں جنم دن کی تقریبات میں اندرون و بیرون ممالک سے 60 ہزار سکھ یاتری ننکانہ صاحب تشریف لائیں گے۔جن کی فول پروف سیکورٹی کے لیے 3188 پولیس کے افسران و جوان حفاظت پر مامور ہونگے اور ضلعی انتظامیہ اور اوقاف کے 1800 سے زائد افسران و ملازمین گوردوارہ جات میں انتظامات کی دیکھ بھال کے لیے تعینات ہونگے۔ جبکہ 200 سے زائد سکھ کمیونٹی کے رضاکاران بھی تعینات کیے جائیں گے۔ڈپٹی کمشنر نے صفائی ستھرائی ، فول پروف سیکیورٹی ، طبی سہولیات ، قیام و طعام سمیت دیگر بہترین انتظامات کرنے پر متعلقہ اداروں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے تقریبات کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی محکمہ جات اور پولیس کے جوانوں کی بدولت دنیا بھر سے آنے والے یاتری اپنی مذہبی رسومات بغیر کسی رکاوٹ کے ادا کر سکتے ہیں ، اندورن وبیرون ممالک سے آنیوالے یاتریوں کی حفاظت اور بہترین انتظامات ہم سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتیں یہاں پر مکمل محفوظ اور آزاد ہیں،بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے آنے والے دنیا بھر سے مہمان یاتری ہماری پر خلوص میزبانی کی خوشگوار یادیں لے کر جائیں اور بار بار یاترا کے لیے پاکستان آئیں۔انہوں نے کہا کہ باباگورونانک کا پیغام امن و محبت،صلح و آشتی اور نیکی کا پیغام ہے جسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، پاکستان سکھوں سمیت دنیا بھر کے مذاہب اور عقائد کے پیروکاروں کے لیے محبت اور احترام کے جذبات رکھتا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ پنجاب حکومت سکھ یاتریوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کر رہی ہے ، بابا جی کے جنم دن کی تقریبات میں شمولیت کرنے والے یاتری ہماری مہمان نوازی اور محبتوں کو کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔
0 notes
Text
پاکستان میں عام صحت کے مسائل
پاکستان میں عام صحت کے مسائل پاکستان میں مختلف قسم کے صحت کے مسائل پائے جاتے ہیں، جن میں زیادہ تر مسائل معاشی، طبی سہولتوں تک محدود رسائی اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے ہیں۔ ذیل میں پاکستان میں اہم صحت کے مسائل کی تفصیلات ہیں: 1. متعدی بیماریاں ٹی بی (Tuberculosis): پاکستان ٹی بی کے زیادہ بوجھ والے ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر سال ہزاروں نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس: ہیپاٹائٹس بی اور سی بہت…
0 notes
Text
E-Codes اور مسلمانوں کے لئے ان کا اثر
ڈاکٹر ایم امجد خان یورپ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک میں، گوشت کے لیے بنیادی انتخاب ہے PIG ان ممالک میں اس جانور کی افزائش کے لیے بہت سارے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں، پگ فارمز کی تعداد 42,000 سے زیادہ ہے خنزیر کے جسم میں کسی بھی دوسرے جانور کے مقابلے میں چربی کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یورپی اور امریکی چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح، ان خنزیروں کی چربی کہاں جاتی ہے؟ ای کوڈز اور…
0 notes