#ممالک
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارت میں سونا خلیجی ممالک سے کتنا سستا ہے؟ حیران کن انکشاف
نئی دہلی (ویب ڈیسک) بھارت میں سونے کی قیمت حیرت انگیز طور پر خلیجی ریاستوں اور سنگاپور کے مقابلے میں کم ہے۔ نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق سونا خریدنے کے لیے یو اے ای، قطر، عمان اور سنگاپور آئیڈیل مارکیٹس رہی ہیں۔ 16 نومبر کو بھارت میں 10 گرام (24 قیراط) سونے کی قیمت 75650 روپے تھی۔22 قیراط سونے کی قیمت 69350 روپے فی 10 گرام جبکہ 18 قیراط سونے کی قیمت 56740 روپے فی 10 گرام تھی۔ عمان میں 24 قیراط…
0 notes
Text
اسلامی ممالک اپنی طاقت اسرائیل کیخلاف آج نہیں توکب استعمال کرینگے؟نوازشریف
مسلم لیگ (ن)کےصدرنوازشریف نےکہا ہےکہ اسرائیل کےخلاف یواین اوبے بس ہوچکی اوردنیا خاموش بیٹھی ہے۔اسلامی ممالک کےپاس ایک قوت موجود ہے اسرائیل کےخلاف اس کااستعمال آج نہیں توکب کریں گے؟ صدر ن لیگ نوازشریف کافلسطین پرمنعقدہ آل پارٹیزکانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ نہتے فلسطینی باشندوں پرجوظلم ہورہاہےوہ تاریخ کی بدترین مثال ہے،پورےپورےشہرکھنڈارت میں تبدیل کردیےگئےماؤں سےبچےچھین کروالدین کے…
0 notes
Text
غزہ کے متاثرین کیلئے خلیجی ممالک کا بڑا اعلان
غزہ کے متاثرین کیلئے خلیجی ممالک کا بڑا اعلان An uncaught Exception was encountered Type: RedisExceptionMessage: MISCONF Redis is configured to save RDB snapshots, but is currently not able to persist on disk. Commands that may modify the data set are disabled. Please check Redis logs for details about the error.Filename:…

View On WordPress
#24 News#Arab#Countries#Dollars#Forces#Gulf#hospital#Israel#غزہ،خلیجی ،ممالک،عرب،اسرائیل،ڈالرز،ہسپتال،فورسز،24 نیوز Gaza
0 notes
Text
دنیا میں فحاشی کے لحاظ سے سرفہرست دس ممالک کی غالب مذہب
1. تھائی لینڈ – (بدھ مت)
2. ڈنمارک – (عیسائیت)
3. اٹلی – (عیسائیت)
4. جرمنی – (عیسائیت)
5. فرانس – (عیسائیت)
6. ناروے – (عیسائیت)
7. بیلجیم – (عیسائیت)
8. اسپین – (عیسائیت)
9. برطانیہ – (عیسائیت)
10. فن لینڈ – (عیسائیت)
دنیا میں چوری کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست دس ممالک اور ان کی غالب مذہب:
1. ڈنمارک اور فن لینڈ – (عیسائیت)
2. زمبابوے – (عیسائیت)
3. آسٹریلیا – (عیسائیت)
4. کینیڈا – (عیسائیت)
5. نیوزی لینڈ – (عیسائیت)
6. بھارت – (ہندومت)
7. انگلینڈ اور ویلز – (عیسائیت)
8. امریکا – (عیسائیت)
9. سویڈن – (عیسائیت)
10. جنوبی افریقہ – (عیسائیت)
دنیا میں شراب نوشی کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست ممالک اور ان کی غالب مذہب:
1. مالڈووا – (عیسائیت)
2. بیلاروس – (عیسائیت)
3. لیتھوینیا – (عیسائیت)
4. روس – (عیسائیت)
5. چیک ریپبلک – (عیسائیت)
6. یوکرین – (عیسائیت)
7. انڈورا – (عیسائیت)
8. رومانیہ – (عیسائیت)
9. سربیا – (عیسائیت)
10. آسٹریلیا – (عیسائیت)
دنیا میں قتل کی بلند شرح والے ممالک اور ان کی غالب مذہب:
1. ہونڈوراس – (عیسائیت)
2. وینزویلا – (عیسائیت)
3. بیلیز – (عیسائیت)
4. ایل سلواڈور – (عیسائیت)
5. گوئٹے مالا – (عیسائیت)
6. جنوبی افریقہ – (عیسائیت)
7. سینٹ کٹس – (عیسائیت)
8. بہاماس – (عیسائیت)
9. لیسوتھو – (عیسائیت)
10. جمیکا – (عیسائیت)
دنیا کی چھ خطرناک ترین گینگوں کی مذہبی شناخت:
1. یاکوزا – جاپان (لا مذہبی)
2. اگبیرس – نائجیریا (عیسائیت)
3. واہ سینگ وُو – ہانگ کانگ / چین (بدھ مت)
4. جمیکا بوس – جمیکا (عیسائیت)
5. پی سی سی – برازیل (عیسائیت)
6. آرین برادرہڈ – امریکا (انتہا پسند سفید فام عیسائیت)
دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں کی قومیت اور مذہب:
1. پابلو ایسکوبار – کولمبیا (عیسائی)
2. آمادو کاریو – میکسیکو (عیسائی)
3. کارلوس لیدر – کولمبیا (عیسائی)
4. گریسیلڈا بلانکو – کولمبیا (عیسائی)
5. خواکین گوزمان (ال چاپو) – میکسیکو (عیسائی)
6. رافائیل کارو – میکسیکو (عیسائی)
پھر بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلام دنیا میں دہشت گردی اور تشدد کا سبب ہے، اور ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم اس پر یقین کریں؟
مسلمانوں نے پہلی عالمی جنگ شروع نہیں کی، بلکہ یہ مغربی سیکولر عیسائیوں کی پیدا کردہ تھی
مسلمانوں نے دوسری عالمی جنگ بھی شروع نہیں کی، وہ بھی مغرب ہی نے بھڑکائی
آسٹریلیا کے بیس ملین مقامی باشندوں کا قتل مسلمانوں نے نہیں کیا، بلکہ وہ لوگ تھے جو "محبت کے دین" کے پیروکار تھے۔
جاپان کے دو شہروں (ہیروشیما اور ناگاساکی) پر ایٹمی بم گرانے والے بھی مسلمان نہیں تھے
جنوبی امریکا میں ایک کروڑ سے زائد ریڈ انڈینز کے قاتل بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ "امن کا پیغام" لے کر آئے ہوئے عیسائی مبلغ تھے۔
شمالی امریکا میں پانچ کروڑ ریڈ انڈینز کا قتل بھی مسلمانوں نے نہیں کیا
افریقہ سے 18 کروڑ افراد کو غلام بنا کر لے جانے والے بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ وہی تھے جو آزادی اور لبرل ازم کے نعرے لگاتے ہیں
مسلمان دہشت گرد نہیں
بلکہ دہشت گردی کی تعریف ہی مغرب کی طرف سے امتیازی اور جانبدار ہے۔
اگر کوئی غیر مسلم حملہ کرے تو وہ ایک "انفرادی جرم" کہلاتا ہے
لیکن اگر کوئی مسلمان کسی حملے میں ملوث ہو، تو اُسے فوراً دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے
چاہے وہ اپنے دین اور امت کے دفاع میں ہی کیوں نہ ہو
ایف بی آئی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق
1980 سے 2005 کے درمیان امریکا میں ہونے والے حملوں میں
صرف 6 فیصد حملے مسلمانوں سے منسوب تھے
جبکہ یہودیوں سے 7 فیصد
لیکن ان پر میڈیا نے کبھی توجہ نہیں دی
لہٰذا ہمیں دوہرے معیارات چھوڑنے ہوں گے
تبھی ہم اسلام کی اخلاقی بلندی اور عدل کو دنیا کے سامنے درست انداز میں پیش کر سکیں گے
اس پیغام کو خود تک محدود نہ رکھیں
اس سچائی کو دوسروں تک بھی پہنچائیں،
کیونکہ میڈیا کی طاقت دولت اور مفاد پرستی نے
اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ
ہماری ہی قوم کے کچھ منافق اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں
یہ دراصل اسلام کے خلاف ایک جنگ ہے
اور ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کریں
جتنے ممکن ہوں اور جتنے وسائل ہمارے پاس ہوں
اور آخر میں فخر سے کہیں
میں مسلمان ہوں اپنے دین پر فخر ہے اور اپنی امت اور اس کی جدوجہد پر مجھے ناز ہے
اور اللہ کے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا نہ بھولیں۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu ghazal#urdu literature#urdu lines#urdu stuff#urdreamgirlangel#urdushayri#urdushairi#urdushayari#urdusaying#urdustory#urdu sher#اردو شاعری#اردو#اردو پوسٹ#اردوادب#اردوشاعری
4 notes
·
View notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔

اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی ��وام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں ��وجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
سلام
جیسا کہ آج کل حجاب سیکس کہ ڈماڈ زیادہ تر ہے کجہ لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ غیر مسلم لڑکیاں ہوتے ہیں لیکں ایسا نہیں ہے پروں انڈسٹری میں سب سے زیادہ مسلم خواتین جوش خروش سے شمولیت اختیار کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک کے خواتین زیادہ تر پرون انڈسٹری میں شامل ہو رہی ہیں ۔ رہے بات حجاب کے خاص طور پر پاکستان انڈیا بنگلادیش میں خواتین سر نقاب سے ڈھانپ کر سکس کرواتے ہیں کیو کہ اقصر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شپ کر سیکس ویڈیو بنا لیتے ہیں اس لے نقاب کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں تاہم اگر ویڈیو لیک بھی ہو جائے ان کا چہرہ چھپا ہوتا ہے

6 notes
·
View notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟

��س کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔

2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں ��تایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ ا��ی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
4 notes
·
View notes
Text
آرون گروپس: ایک جدید کاروباری انقلاب
آرون گروپس ایک ایسا نام ہے جو آج کل دنیا بھر میں کاروباری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ کمپنی نہ صرف ایک طاقتور اور مستحکم کاروباری ماڈل پیش کرتی ہے بلکہ اپنے صارفین کو جدید ترین تکنیکی سہولیات اور بہترین کسٹمر سروس بھی فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون میں، ہم آرون گروپس کی تاریخ، اس کے کاروباری ماڈل، اور اس کی کامیابی کے رازوں پر تفصیلی نظر ڈالیں گے۔
آرون گروپس کا تعارف
آرون گروپس ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی مختلف مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ آرون گروپس کی کامیابی کا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی، جدید ترین تکنیکی سہولیات، اور ماہرین کی ٹیم میں مضمر ہے۔
تاریخ اور پس منظر
آرون گروپس کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی۔ ابتدائی دنوں میں، کمپنی نے چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کیا۔ لیکن اپنے معیاری خدمات اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت، آرون گروپس نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں۔ آج، آرون گروپس دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اور ہزاروں صارفین کو اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔
کاروباری ماڈل
آرون گروپس کا کاروباری ماڈل متعدد شعبوں میں تقسیم ہے۔ اس کی بنیادی خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، اور تکنیکی خدمات شامل ہیں۔ کمپنی کا مقصد اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات فراہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے راز
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے کئی اہم عوامل کارفرما ہیں۔ ان عوامل میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔
بہترین کاروباری حکمت عملی: آرون گروپس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی ہے۔ کمپنی نے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے مختلف حکمت عملی اپنائی ہیں۔
ماہرین کی ٹیم: آرون گروپس کی ٹیم میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں۔ یہ ماہرین اپنے تجربے اور مہارت کی بدولت کمپنی کو کامیابی کی راہ پر گامزن رکھتے ہیں۔
جدید ترین ٹیکنالوجی: آرون گروپس جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سیکشنز میں جدید ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آرون گروپس کی خدمات
آرون گروپس مختلف شعبوں میں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، تکنیکی خدمات، اور دیگر شعبے شامل ہیں۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں مختلف خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات ��راہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
تربیت اور ترقی: آرون گروپس اپنے ملازمین کی تربیت اور ترقی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف تربیتی پروگرامز کے ذریعے اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے اور ان کو نئے چیلنجز کے لئے تیار کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کمپنی کا مشن بہترین خدمات فراہم کرنا اور صارفین کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ کمپنی کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔
مشن: آرون گروپس کا مشن اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
وژن: آرون گروپس کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا ہے۔
آرون گروپس کی سوشل رسپانس بلٹی
آرون گروپس اپنی سوشل رسپانس بلٹی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف سماجی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے اور مختلف کمیونٹیز کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سوشل رسپانس بلٹی منصوبے درج ذیل ہیں:
تعلیم: آرون گروپس مختلف تعلیمی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف سکولوں اور کالجز کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور تعلیم کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
صحت: آرون گروپس مختلف صحت کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ہسپتالوں اور کلینکس کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور صحت کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
ماحولیات: آرون گروپس مختلف ماحولیات کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ماحولیاتی منصوبوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور ماحول کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل
آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، آرون گروپس مستقبل میں بھی کامیابی کی راہ پر گامزن رہے گی۔ کمپنی کا مقصد مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا اور عالمی سطح پر ایک ممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔
آرون گروپس نے اپنی بہترین خدمات اور کاروباری حکمت عملی کی بدولت آج کل دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ کمپنی کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں، جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل کی راہیں مزید کامیابی کی جانب گامزن ہیں۔ کمپنی کے کاروباری منصوبے اور اس کی سوشل رسپانس بلٹی اسے ایک ممتاز مقام پر فائز کرتے ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
کاروباری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی
آرون گروپس کی کاروباری حکمت عملی جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین تکنیکی حل فراہم کرنا اور اپنے صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کرنا ہے۔ آرون گروپس کی ماہر ٹیم مستقل طور پر جدید ٹیکنالوجی کا جائزہ لیتی ہے اور ان کو اپنے کاروباری منصوبوں میں شامل کرتی ہے۔
جدید سافٹ ویئر: آرون گروپس جدید سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین خدمات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سافٹ ویئر مختلف کاروباری عملوں کو خودکار بناتے ہیں اور کارکردگی میں بہتری لاتے ہیں۔
کلاؤڈ کمپیوٹنگ: آرون گروپس کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا استعمال کرتی ہے تاکہ ڈیٹا کو محفوظ اور موثر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔ یہ تکنیک کمپنی کو مختلف جگہوں پر اپنے ڈیٹا کو فوری رسائی فراہم کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت: آرون گروپس مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے تاکہ کاروباری عملوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ تکنیک مختلف کاروباری مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے اور کارکردگی میں بہتری لاتی ہے۔
آرون گروپس کے کاروباری پارٹنرز
آرون گروپس نے مختلف شعبوں میں بہترین کاروباری پارٹنرز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ یہ پارٹنرشپ کمپنی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور بہترین خدمات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مالیاتی ادارے: آرون گروپس نے مختلف مالیاتی اداروں کے ساتھ ��ارٹنرشپ کی ہے تاکہ صارفین کو بہترین مالی مشاورت فراہم کی جا سکے۔
تکنیکی کمپنیز: آرون گروپس نے مختلف تکنیکی کمپنیز کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ جدید ترین تکنیکی حل فراہم کیے جا سکیں۔
تعلیمی ادارے: آرون گروپس نے مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ تعلیم کی بہتری کے لئے کام کیا جا سکے۔
صارفین کی توقعات اور آرون گروپس
آرون گروپس اپنے صارفین کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ کمپنی کا مقصد صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔ آرون گروپس نے اپنی خدمات میں مختلف اصلاحات کی ہیں تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
بہترین کسٹمر سروس: آرون گروپس بہترین کسٹمر سروس فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو کسی بھی مسئلے کا فوری حل فراہم کیا جا سکے۔
معیاری خدمات: آرون گروپس معیاری خدمات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
جدید تکنیکی سہولیات: آرون گروپس جدید تکنیکی سہولیات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کیا جا سکے۔
نتیجہ
آرون گروپس ایک ممتاز اور کامیاب کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اس کی کامیابی کے پیچھے بنیادی عوامل ہیں۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کو ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کمپنی کی سوشل رسپانس بلٹی اور مختلف سماجی منصوبے اس کی بہترین خدمات کا مظہر ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
Website: https://www.gostaresh.news/
2 notes
·
View notes
Text
Muhammad Al-Deif (Abu Khaled), Chief Commander of #Al_Qassam Brigade:
O brothers of Jordan and Lebanon, Egypt and Algeria, Morocco, Pakistan and Malaysia and Indonesia and all Arab and Muslim countries:
Start marching for Palestine now instead of tomorrow and don't let restrictions, borders or regulations deprive you of the privilege of joining the freedom of Masjid #Al_Aqsa
Source: Al-Qassam Brigade
[محمد الدیف (ابو خالد)، القسام بریگیڈ کے چیف کمانڈر:
اے اردن اور لبنان، مصر اور الجزائر، مراکش، پاکستان اور ملائیشیا اور انڈونیشیا اور تمام عرب اور مسلم ممالک کے بھائیو:
فلسطین کے لیے کل کی بجائے ابھی مارچ شروع کریں اور پابندیاں، سرحدیں یا ضابطے آپ کو مسجد اقصیٰ کی آزادی میں شامل ہونے کے اعزاز سے محروم نہ ہونے دیں۔
ماخذ: القسام بریگیڈ]
3 notes
·
View notes
Text

tehreer se iqtibaas
بات کرتے بلکل یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہماری پروریش دو الگ ممالک میں ہوئی۔ اکثر محمد رفیع کی غزلوں اور لتا کی سروں سے واقفیت انہیں کی بدولت ہوتی۔ ان کے خطوط کے ذریعےمیں نے کئی ممالک کی سیر کی۔ میری کی�� شاعروں سے ملاقات ہوئی۔
baat karte yeh bilkul mehsoos nahi hota tha k humari parwarish dou alag mumalik main huwi. aqsar muhammad rafi ki ghazloon aur lata k suroon se wakfiyat unhi ki badolat hoti. unke khatoot k zariye maine kayi mulkoon ki sayr ki. meri kayi shayaroon se mulaqaat huwi.
6 notes
·
View notes
Text
ایران نے اسرائیل پر حملے سے متعلق خطے کے ممالک کو آگاہ کردیاامریکی اخبار کا دعویٰ
نیویارک(ڈیل پاکستان آن لائن)ایران اسرائیل کشیدگی پر امریک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملے سے متعلق خطے کے ممالک کو آگاہ کردیا۔ امریکی اخبار کے مطابق اسرائیل پر حملہ طاقتور ہتھیاروں سے کیا جائے گا، حملے میں انقلابی گارڈز کے علاوہ ایرانی آرمی بھی حصہ لے گی۔ Source link
0 notes
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں

اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر ت��ظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Boycott Israel#Boycott Israel Products#Gaza#Gaza war#Israel#Middle East#Palestine#Palestine Conflict#Wars#World
2 notes
·
View notes
Text
انڈین طیارے گرنے کے اعتراف کے بعد رافیل کی مارکیٹ بحران کا شکار
بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جنگ میں رافیل طیارے گرنے کی تصدیق کے بعد فرانسیسی جہازوں کی مارکیٹ بحران کا شکار ہوتے ہوئے مزید گر گئی ہے اور کئی ممالک نے جہازوں کی خریداری کے معاہدے منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان سے جنگ میں انڈیا کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے اور اس کے لڑاکا طیارے مار گرائے گئے…
0 notes
Text
حکومت عوام دوست بجٹ پیش کرنے کیلیے اقدامات کرے، صدر مملکت کی وزیراعظم سے گفتگو
لاہور:صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی گورنر ہاؤس لاہور میں ملاقات ہوئی ہے۔ امید نیوز کے مطابق ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر داخلہ محسن نقوی، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا موجود تھے۔ ملاقات میں ملک کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا جبکہ وزیراعظم نے اپنے حالیہ چار دوست ممالک کے دوروں کے ھوالے سے…
0 notes
Text

پاکستان کا اصل مسئلہ بھارت سے نہیں، اُن قوموں سے ہے جو اُس کے استعماری تسلط کو چیلنج کرتی ہیں.
بلوچ قومی رہنما حیربیارمری
بلوچ قوم دوست رہنما حیربیارمری نے سماجی رابطہ ویب سائٹ 'X' پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ بیان میں افغان قیادت پر بھارت سے مالی معاونت لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے افغان عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے "ہاتھوں میں نہ کھیلیں"۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے: کیا پاکستان افغانستان کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کرتا ہے یا پھر اسے اب بھی اپنی کالونی سمجھتا ہے؟
افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھارت سمیت کسی بھی ملک سے اپنے سفارتی، معاشی یا عسکری روابط قائم کرے، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات رکھتا ہے۔ پاکستان کا یہ مطالبہ کہ افغانستان بھارت سے دور رہے، نہ صرف سفارتی آداب کے منافی ہے بلکہ اس کے نوآبادیاتی ذہن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
صورتحال کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان افغان قیادت کو بھارت سے تعلقات پر لیکچر دیتا ہے، تو دوسری طرف انہی افغان عوام کو خیبرپختونخوا سے، جو تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے، زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے پاکستان نے برطانوی سازش کے ذریعے اُس وقت ضم کیا جب برطانیہ برصغیر سے رخصت ہو رہا تھا۔
مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہی پنجابی اسٹیبلشمنٹ جو افغانستان پر رعب جمانا چاہتی ہے، وہ خلیجی ریاستوں اور دیگر ممالک سے امداد کی درخواستیں بھیجتی ہے ان ممالک سے جو بھارت کے ساتھ گہرے تجارتی اور تزویراتی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان کی طرف کوئی جرأت مندانہ تنقید نہیں کی جاتی، کیونکہ مفاد اور مجبوری آڑے آتی ہے۔
پاکستانی ریاست کا یہ دوہرا معیار نیا نہیں۔ بلوچوں، پشتونوں اور دیگر محکوم قوموں کو دہائیوں سے "غیر ملکی ایجنٹ" قرار دیا جاتا رہا ہے، اور اب یہی الزام افغان حکومت پر بھی لگایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہر وہ قوم جو اپنے حقوق، خودمختاری یا آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرے، پاکستان کی نظر میں بھارتی ایجنٹ بن جاتی ہے؟
یہ طرزِ فکر اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بھارت سے نہیں، بلکہ اُن اقوام سے ہے جو اس کے استعماری تسلط کو چیلنج کرتی ہیں۔
0 notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 م��رچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔

اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes