#ملز
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 5 days ago
Text
شہباز شریف کا ٹیکس چوری پرشوگر ملز کیخلاف کارروائی کا حکم
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ٹیکس چوری اورکم ٹیکس دینےوالی شوگر ملوں کے خلاف سخت اوربلا امتیاز کارروائی کا حکم دے دیا۔ شہباز شریف کی زیر صدارت محصولات میں بہتری کیلئےاقدامات پر اہم جائزہ اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ وفاقی وزیر اقتصادی اموراحد خان چیمہ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ ، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس…
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
سٹیل ملز میں پونے 2 کروڑ روپے کی چوری کا انکشاف
اسٹیل ملز میں پونے دو کروڑ روپے کی چوری کا انکشاف ہوا ہے، جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اسٹیل مل کے سی ای او کی جلد تعیناتی کا حکم دے دیا۔ خالدہ اطیب کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و تجارت کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان اسٹیل مل، نیشنل فرٹیلائیزر کارپوریشن اور پاکستان انڈسٹریل ٹیکنیکل اسسٹنس سنٹر پر بریفنگ دی گئی۔ سی ایف او اسٹیل ملز نے کمیٹی کو بتایا کہ مل کے ملازمین کی عارضی ریلیف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
طلحہ اور نادر آئی ٹی ایف جے 30 عالمی جونیئر ٹینس چیمپئن شپ کے کوارٹر فائنل میں پہنچ گئے
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کے محمد طلحہ خان اور نادر مرزا نے آئی ٹی ایف پاکستان جے 30 علی ایمبرائیڈری ملز عالمی جونیئر ٹینس چیمپئن شپ 2024 کے کوارٹر فائنل میں جگہ بنالی ہے۔پاکستان ٹینس فیڈریشن ٹینس کمپلیکس، اسلام آباد میں جاری بوائز سنگلز پری کوارٹر فائنل میں، پاکستان کے محمد طلحہ خان نے تھائی لینڈ کے پاتھم لاوساکلپورن کو 6-1، 6-4 سے شکست دی۔ اسی طرح پاکستان کے نادر مرزا نے اپنے ہم…
0 notes
jamhorinews · 2 months ago
Text
Tumblr media
youtube
*حیدرآباد:*
*اہم پریس کانفرنس*
*شرجیل اور فیصل کنڈی*
شرجیل انعام میمن اور فیصل کریم کنڈی کی میڈیا سے اہم گفتگو
بلاول بھٹو تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کرنے آ رہے ہیں ،شرجیل میمن
سب کو گرفتار کریں گے
کراچی ، حیدرآباد بڑا فیصلہ
اسٹیل ملز کو چلایا جائے گا
مریم حکومت سندھ سرکار کے نشانے پر
پیپلز پارٹی دن رات عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ، شرجیل انعام
0 notes
pinoytvlivenews · 2 months ago
Text
آٹا مہنگا ہو گیا
(ویب ڈیسک)پنجاب فلور ملز نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔پنجاب کی فلار ملز نے مبینہ طورپر گندم کی قیمت میں اضافے کو جواز بنا کر آٹے کی قیمت فی کلو ایک روپیہ بڑھا دی،20کلو آٹے کے تھیلے کاسرکاری نرخ 1730 روپے ہے تاہم اوپن مارکیٹ میں20 کلو آٹے کی قیمت میں 40 روپے اضافہ کے بعد 20کلو آٹے کا تھیلا 1770 روپے کا ہوگیا۔ یہ بھی پڑھیں: 16 اکتوبر سے  پٹرول اور ڈیزل فی لٹر کتنا مہنگا ہو گا؟،حیران کن خبر…
0 notes
dpr-lahore-division · 3 months ago
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آؤٹ نمبر: 10327
28 ستمبر:- وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر پٹرول پمپس اور رائس ملز کے لیے برق رفتاری اور شفافیت سے این او سی کا اجراء حکومت پنجاب کا انقلابی اقدام ہے ۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے ان خیالات کا اظہار پٹرول پمپس کمیٹی کے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔ اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل میاں محمد جمیل ، سی او ضلع کونسل ، ریسکیو 1122 ، ماحولیات ، ہائی وے سمیت دیگر کمیٹی ممبران بھی موجود تھے ۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے مجموعی طور پر 7 کیسوں کی سماعت کرتے ہوۓ جانچ پڑتال کے بعد مکمل کیسوں کو این او سی جاری کرنے کی ہدایات جاری کیں ۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت پر ون ونڈو سسٹم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت ہر کیس کو جانچ پڑتال کے بعد حکومتی ایس او پیز کے مطابق نمٹا دیا جاتا ہے ، حکومت پنجاب کے اس انقلابی اقدام سے کاروباری سرگرمیوں کے فروغ اور نجی سیکٹر میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہی ۔ انہوں نے کہا کہ تمام محکمہ جات این ا�� سی اپلائی کرنے والے افراد کو نوٹس جاری کریں اور کاغذات جلد از جلد مکمل کروا کر این او سیز جاری کریں ۔ انہوں نے متعلقہ اداروں کے افسران کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ این او سی کے لیے آنے والی درخواست کے فوری بعد سائٹ وزٹ کو یقینی بنائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
emergingpakistan · 9 months ago
Text
شہباز شریف کی کمزور مخلوط حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
Tumblr media
نو منتخ�� وزیراعظم نے اقلیتی حکومت جوکہ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ہے، کے لیے جرات مندانہ اہداف طے کر لیے ہیں۔ انہوں نے خطرات کے پیش نظر ملکی حالات کو بہتر کرنے کا عزم کیا ہے۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا عہد ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسری بار برسرِاقتدار آئے ہیں۔ تاہم اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویشناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 8 فروری کے عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات، نئی حکومت کے لیے اچھا آغاز نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی، وہ ملک میں بگڑتے ہوئی سیاسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی استحکام حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے جو اس وقت ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ ماحول میں شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت کی کال کا کسی نے مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ خواتین سمیت سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں قید ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ 
الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے جس نے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے ابھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کی تشکیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزارتوں پر اتحادیوں کے ساتھ اب بھی کچھ مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے تمام چھ  اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اس مشکل وقت میں پرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی سے زیادہ امید نہیں کہ حکومت ڈیلیور کر پائے گی۔ بلاشبہ اصل فیصلہ بڑے بھائی نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا؟ اگرچہ ’معاشی گرو‘ کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی کے امکانات کم ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر اس دوڑ سے باہر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بطور وزیرِخزانہ ان کی واپسی ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بری خبر ہو گی۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی کرسی کے لیے ان کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
Tumblr media
البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جا سکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔
 قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہو گی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔ شہباز حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہو گا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ��تم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کر دی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے سخت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ مذاکرات میں ان کی براہِ راست شرکت کی۔ ایسے میں اسحٰق ڈار کی واپسی کا کوئی بھی امکان تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔ 
ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو ��ہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں، ایسے میں بہت کم امید ہے کہ ان کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ایسی حکومت جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات ہوں، ملک میں وہ استحکام نہیں لا سکتی جس سے حالات میں بہتری آسکے۔
زاہد حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
پاکستان اسٹیل کا مستقبل؟
Tumblr media
نگراں حکومت کی جاری کردہ نجکاری پروگرام کی تازہ فہرست میں پاکستان اسٹیل ملز شامل نہیں حالانکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری طویل عرصے سے سب سے زیادہ ضروری قرار دی جا تی رہی ہے۔ تاہم نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری کے مطابق اسٹیل ملز کی اب نہ بحالی ممکن ہے نہ نجکاری جبکہ سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے پچھلے دنوں بتایا تھا کہ گزشتہ مالی سال اسٹیل مل کے مالی نقصانات 206 ارب تھے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس کا کوئی خریدار نہیں مل رہا۔ بہرکیف پی آئی اے سمیت فہرست میں شامل باقی 26 اداروں کی نجکاری کیلئے پیش رفت جاری ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو ایک مدت سے ناگزیر سمجھے جانے کے باوجود سیاسی مخالفت اور بعض عدالتی فیصلے اس میں رکاوٹ بنے رہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں اب اداروں کو سرکاری تحویل میں چلانے کے بجائے اس حوالے سے نجی شعبے کی بھرپور شرکت ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ 
Tumblr media
پاکستان میں بھی 1970ء کی دہائی میں کیا جانے والا بینکوں اور تجارتی و تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کا تجربہ بری طرح ناکام رہا اور بالآخر معاشی بحالی کیلئے ڈی نیشنلائزیشن کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ لہٰذا نجکاری کے عمل کو اب قومی اتفاق رائے کے ساتھ جاری اور پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ یہ ادارے نجی شعبے میں جاکر بہتر کارکردگی دکھائیں اور قومی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔ اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے کے مستقبل کے بارے میں بھی وسیع تر مشاورت سے مناسب فیصلہ ضروری ہے خصوصاً اسے ایکسپورٹ پروموشن زون بنانے کی جو تجویز وفاقی وزیر برائے نجکاری کے مطابق زیر غور ہے، مناسب سمجھے جانے کی صورت میں اس پر حتی الامکان جلد ازجلد عمل درآمد ہونا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
نقصان دہ فیصلوں کے ذمے دار محفوظ کیوں؟
Tumblr media
نگران وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کا عمل جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت اور ادارے کو مزید فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں پی آئی اے کو درپیش مالی بحران پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ قومی ایئر لائن کے آپریشن کو بحال رکھنے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل پی آئی اے سالوں سے مسلسل خسارے کے باعث تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے اور بند ہونے کے قریب ہے۔ پی آئی اے اور دیگر قومی ادارے سالوں سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سالوں سے بند رہ کر تباہ ہو چکی ہے جس کی قیمتی مشینری و دیگر سامان مسلسل چوری ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت بند اسٹیل ملز کے ملازمین کو قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کر رہی ہے اور پی آئی اے، ریلوے و دیگر خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فنڈز بھی فراہم کر رہی ہے اور خسارے میں جانے یا بند سرکاری ادارے سفید ہاتھی بنے ہوئے حکومت اور قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں اور عالمی مالی اداروں سے مسلسل قرضے لے کر ان اداروں کے ملازمین کو پالنے والے ملک پاکستان کو اب اس کے ہمدرد دوست ملک بھی قرضے دے کر تنگ آ چکے ہیں اور سوٹ پہن کر بادشاہوں کی طرح قرضے مانگنے کے عادی ہمارے حکمرانوں کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ قرضے لینا بند کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھانے والے ہمارے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور اب تو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے حکمرانوں کو ان کے پیروں میں پڑنا پڑا۔ رسوائی کے بعد جو قرض ملا وہ سخت شرائط پر ملا اور حکمرانوں نے اپنے ہی عوام کو سولی پر چڑھا دیا اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر مہنگائی اور بے روزگاری کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ سیاسی حکمرانوں نے تو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک کے سفید ہاتھیوں کو پالنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا مگر اب پہلی بار نگران حکومت نے پی آئی اے کو مزید پالنے سے انکار کر دیا ہے اور خسارے میں جانے والی قومی ایئرلائن کی نجکاری جلد مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ قومی ادارے اسٹیل ملز کی نجکاری سالوں قبل نہیں ہونے دی گئی جس کے باعث ملز بند ہوئی مگر اس کے ملازمین برقرار ہیں اور ماضی کی ہر حکومت نے پی آئی اے کی طرح اسٹیل مل میں بھی ضرورت سے زیادہ اپنے حامیوں کو بھرتی کیا تھا جن کی تنخواہوں کا بوجھ ان دونوں قومی اداروں پر بڑھا اور کرپشن نے باقی کسر پوری کردی تھی۔
Tumblr media
قومی اداروں میں اپنے حامیوں کو بھر کر نوازنے کے عمل میں ہر حکومت شریک رہی ہے اور ان کے خسارے پورے کرنے کے لیے فنڈز دیتی رہی مگر کبھی خسارے ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان قومی اداروں میں کرپشن ہی عروج پر نہیں بلکہ وہاں کے ملازمین کی لیبر انجمنیں بھی پاور فل رہیں جن کے عہدیدار مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ان عہدیداروں نے بھی ملک اور اداروں کے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں اسٹیل مل سالوں سے بند اور اب پی آئی اے کے بارے میں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اپنے غیر ذمے دارانہ بیانات اور فیصلوں سے قومی ایئرلائن کو دنیا میں بدنام کرایا جس سے کئی ملکوں میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہوئیں اور خود ملک کے لوگوں نے اپنی قومی ایئرلائن کو غیر محفوظ سمجھ کر سفر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ دیگر ایئرلائنز کے جہازوں میں سفر کرتے تھے۔ ملک میں نجی ایئرلائنز نے فروغ پایا اور قومی ایئر اس مقام پر پہنچ گئی کہ جسے اب نگران حکومت بھی مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے اور اس کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
2008 سے 2013 تک پی پی حکومت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے پاکستان ریلوے کو اپنے فیصلوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا جس کو بعد میں (ن) لیگی حکومت نے مشکل سے سنبھالا تھا اور ریلوے کرایوں میں مسلسل اضافوں کے باوجود پاکستان ریلوے اب بھی خسارے میں چل رہی ہے اور سفید ہاتھی بنی ہوئی ہے۔ (ق) لیگ ��ے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے بتایا تھا کہ ان سے پہلے کے وزیر ریلوے نے اپنے علاقے کے 8 ہزار سے زائد لوگ ریلوے میں بھرتی کیے تھے اور میں اب کسی کو مزید بھرتی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور ہوں یا وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور دیگر وزرا اپنے اپنے دور میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے ہر کسی نے قومی اداروں کو تباہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا مگر کبھی ان کی سرزنش تک نہیں ہوئی۔ عدالتی اور وزارتی فیصلوں نے ہر سرکاری ادارے کو سفید ہاتھی بنایا اور کرپشن روکنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایم کیو ایم کے وزیر شپنگ ہوں یا پی ٹی آئی، (ن) لیگ، پیپلز پارٹی ہر کسی نے محکمہ جہاز رانی میں اپنے لوگ بھرتی کیے۔
عدالت عظمیٰ واحد ادارہ ہے جہاں ماضی میں میرٹ پر ججوں کا تقرر ہوا مگر بعد میں سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ اٹھارہویں ترمیم میں فیصلہ ہوا تھا کہ آیندہ ہر حکومت 11 فیصد کے حساب سے کابینہ بنائے گی مگر عمل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت میں باہر سے دوستوں کو بلا کر حکومت میں شامل کیا گیا تھا تو اگست میں جانے والی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی کابینہ کا ریکارڈ قائم ہوا۔ ہر پارٹی نے اپنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرایا۔ ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق آئی ایم ایف سے جو پہلی قسط ملی اس میں ہر سابق رکن قومی اسمبلی کو الیکشن کے لیے ایک ایک ارب روپے کا فنڈ دیا گیا۔ سندھ میں 15 سال حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہر محکمے میں جیالے بھرتی کیے۔ ترقیاتی کاموں کی بندربانٹ کی، پنجاب کی حکومت نگران ہونے کے باوجود ججوں کو بلاسود قرضے دے رہی ہے اور اسسٹنٹ کمشنروں کو مہنگی گاڑیاں دے رہی ہے کسی کو ملک کے غریبوں کا احساس نہیں ہوا۔ ملک میں اپنے غلط فیصلوں سے نقصان پہنچانے والوں کو اگر سزا ملتی یا نقصان ان سے وصول کیا جاتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
googlynewstv · 6 months ago
Text
فلور ملز کا ود ہولڈنگ ٹیکس کیخلاف احتجاج کااعلان
پیٹرولیم ڈیلرز کے بعد فلور ملز نے بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کیخلاف احتجاج کااعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے فلور ملز مالکان کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔اجلاس میں فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے نئے ٹیکس کے نفاذ کو ظالمانہ قرار دیا۔ملک بھر کی فلارملز نے ود ہولڈنگ ٹیکس مسترد کردیا۔ شرکاء نئے ٹیکس کو بلاجواز قرار دیا۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے جنرل باڈی اجلاس میں مقررین نے  حکومت کے ٹیکس نفاز کے…
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
پاکستان سٹیل کی نجکاری کا موجودہ عمل منسوخ کر دیا گیا
سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کی ایپکس کمیٹی نے نجکاری کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن کی نجکاری کے لیے بولی کے موجودہ عمل کو منسوخ کر دیا جائے کیونکہ اس کے پاس صرف ایک بولی دہندہ ہے اور معاملہ وفاقی کابینہ کو منتقل کیا جائے۔ سیکرٹری صنعت و پیداوار اور سیکرٹری نجکاری کو ہدایت کی گئی ہے کہ پی ایس ایم سی کی اراضی کو مزید بیچنے کا عمل فوری طور پر روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزارت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
21 نومبرتک کرشنگ شروع نہ کرنےوالی شوگرملوں کےخلاف کارروائی کا فیصلہ
 (ویب ڈیسک)حکومت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مزید چینی برآمد کرنےکے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے 21 نومبرتک گنے کی کرشنگ شروع نہ کرنے والی شوگرملوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔ اس حوالے سے حکومت کاکہناہے کہ شوگرملز کاشت کاروں کی تمام ادائیگیاں کرشنگ سیزن شروع ہونے سے پہلے مکمل کریں گی اور جو ملز کاشتکاروں کے واجبات ادا نہیں کریں گی ان سے برآمد کی پہلے دی گئی اجازت واپس لے لی جائے گی۔ ذرائع کے…
0 notes
cryptoking009 · 2 years ago
Text
لاہور، ایف بی آر ٹیم کا شوگرمل پر چھاپہ، ملازمین گرفتار
فیڈرل بور آف ریونیو کی ٹیم نے غیرقانونی طور پر چینی تیار کرنے والی نجی شوگر مل پر چھاپہ مارکر ملازمین کو گرفتار کرلیا۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق چھاپہ چیف کمشنر ایل ٹی او لاہور کی نگرانی میں مارا گیا، جس کے دوران ٹیکس اسٹیمپ کے بغیر تیار ہونے والی چینی قبضے میں لے لی اور چینی کی تیاری میں ملوث شوگر ملز ملازمین کو حراست میں لے لیا گیا۔ واضح رہے کہ ایف بی آر نے پنجاب اور سندھ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pinoytvlivenews · 2 months ago
Text
خریداری نہ ہونے کے باعث گندم کی قیمتیں مزید گر گئیں
لاہور (ویب ڈیسک) خریداری نہ ہونے کے باعث گندم کی قیمتوں میں مزید کمی ہوگئی، پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں کسان فی من گندم 2800  روپے تک بیچنے پر مجبور ہوگئے۔ادھرپنجاب حکومت اور کسانوں کے درمیان گندم کی خریداری پر معاملات طے نہ پا سکے۔ ذرائع محکمہ خوراک کے مطابق چھوٹے کسانوں کو چند دن بعد کسان کارڈز کے ذریعے امداد دینے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا تاہم فلور ملز، سیڈ ملز اور آڑھتیوں نےگندم کی…
0 notes
dpr-lahore-division · 3 months ago
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آؤٹ نمبر: 10318
27 ستمبر :- وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر آفس کے کمیٹی روم میں ڈسٹرکٹ سموگ کنٹرول کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ شاہد عمران مارتھ نے کی ۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس میاں نذیر احمد ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل میاں محمد جمیل ، اسسٹنٹ کمشنر بلاول علی ، ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات چوہدری عبد القیوم ، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت توسیع محمد شفیق ، آر ٹی سیکرٹری سمیت دیگر متعلقہ ضلعی افسران نے اجلاس میں شرکت کی ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات چوہدری عبدالقیوم نے محکمانہ کارکردگی ، سموگ کا باعث بننے والوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف کاروائیوں بارے ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ کو تفصیلی بریفنگ دی ۔ ڈی ڈی ماحولیات چوہدری عبد القیوم نے بریفنگ دیتے ہوۓ بتایا کہ یکم ستمبر سے ابتک87 انڈسٹریل زون اینٹوں کے بٹھوں کی انسپیکشن کی گئی۔ سموگ کے پیش نظر حکومتی ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنیوالے انڈسٹریل زون کو 8 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا گیا ، 3 کے خلاف مقدمات درج ، 6 کو سیل جبکہ 25 کو نوٹس جاری کیے گئے۔ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ شاہد عمران مارتھ نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف اور لاہور ہائی کورٹ کی خصوصی ہدایت پر ضلع بھر میں زگ زیگ ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کرنے اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والوں کے خلاف کریک ڈاون کو مزید تیز کیا جاۓ ۔ خلاف ورزی کرنے والے انڈسٹریل زون، اینٹوں کے بھٹوں ،دھواں پھیلانے والی گاڑیوں کو فوری سیل کیا جائے اور قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے محکمہ ماحولیات کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ رائس ملز ، بھٹہ مالکان اور کاشتکاروں کو سموگ کے خاتمے کے لیے آگاہی مہم جاری رکھیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والوں کے خلاف بھر پور کاروائیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ شہریوں کو آلودگی سے پاک صاف ستھرا ماحول مہیا کیا جاسکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
نئی حکومت کو کون سی نئی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے؟
Tumblr media
نئی حکومت ایک ایسے وقت میں چارج سنبھالے گی کہ جب ہمارا ملک مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی اعتبار سے بات کریں تو ہمارے ملک میں افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے، بجٹ خسارہ قومی آمدنی کا 7 فیصد ہے، توانائی کی قیمتیں اور اس کی عدم دستیابی صنعتوں اور صارفین کے لیے اہم مسئلہ ہے، مقامی اور غیرملکی قرضوں کی واپسی کی مہلت بھی ہمارے سر پر تلوار کی مانند لٹک رہی ہے جبکہ ملکی برآمدات کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ عوامی ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح اور خواتین کا فرٹیلیٹی ریٹ انتہائی بلند ہے، 5 سال سے کم عمر 58 فیصد بچے نشونما کی کمی کا شکار ہیں، 26 لاکھ (40 فیصد) بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، ہر سال 80 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے ہمارے پاس نہ اسکول ہیں اور نہ ہی اساتذہ جبکہ سب سے بدتر تو یہ ہے کہ 39 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے اعتبار سے بات کریں تو ہمارا بلدیاتی نظام، جو عوام کی بڑی تعداد کو حکومتی معاملات سے منسلک کرتا ہے اور انہیں سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن غیرمؤثر بلدیاتی نظام ہونے کی وجہ سے ہمارے شہری صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
درحقیقت گورننس کے تمام شعبہ جات میں ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال ہمارے سرکاری اداروں کو 700 ارب روپے کا خسارہ ہوا، ہمارے پاس ایک ایسی بیوروکریسی ہے جہاں میرٹ موجود نہیں، عدالتوں میں موجود مقدمات دہائیوں سے حل طلب ہیں اور ہماری پولیس خدمات فراہم نہیں کرتی بلکہ انہیں شہریوں پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل وہ اصلاحات ہیں جو نئی حکومت کو کرنی چاہئیں۔ اگر آبادی کا 40 فیصد لوگ غریب اور ناخواندہ ہوں تو ایسے ملک کی معیشت کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی جبکہ ناخواندہ افراد تعلیم اور ہنر سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں حکومت کی مالی اعانت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تمام وفاقی ٹیکسس کا تقریباً 63 فیصد صوبوں (آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا بھی شامل ہیں) کو ملتا، اس سے صوبوں کو بہت سی رقم ملی لیکن وفاق کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ سود کی ادائیگیاں کر سکتا۔
Tumblr media
اگلے این ایف سی ایوارڈ یعنی پانچ برس میں وفاق کا حصہ 55 فیصد تک بڑھانا چاہیے اور صوبوں، اضلاع اور ڈویژن سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنی ٹیکس وصولی خود کریں۔ یہ خیال کہ ایک حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے اور دوسری حکومت اسے خرچ کرتی ہے، اس سے مالی بے ضابطگی ہوتی ہے۔ ذمہ دار وفاق کو صرف خرچ کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ ٹیکس کی ذمہ داری بھی صوبوں تک منتقل کرنی چاہیے۔ مزید اصلاحات میں آئینی اعتبار سے مقامی حکومت کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے اور اس حد تک بااختیار کہ صوبائی انتظامیہ اسے کمزور نہ کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کو ضلع یا شہر کی سطح پر جبکہ پولیس اور انفرااسٹرکچر کو ڈویژن اور شہری سطح پر منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ منتخب کردہ تحصیل، ضلع، شہر اور ڈویژن کے ناظم کو اس وقت تک اپنے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہیے جب تک ان کی جگہ کوئی اور منتخب نہ ہوجائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کو پہلے سے طے شدہ فارمولے پر براہِ راست وفاقی تقسیم شدہ پول سے فنڈز دیے جائیں تاکہ انہیں صرف صوبائی انتظامیہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔
حکومت کا نجی شعبے کو اختیارات کی منتقلی بھی ایجنڈا میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور مضبوط ضابطے بنانا ہے۔ یہ عمل سب سے پہلے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سے شروع کرنا ہو گا جوکہ پہلے ہی ایجنڈے میں شامل ہیں لیکن اس فہرست میں تمام توانائی، گیس کے پیداواری و تقسیم کار اور تیل کی پیداواری اور تقسیم کے اداروں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ فوری نجکاری کی اجازت دینے کے لیے قانون میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں (فی الحال اسے مکمل کرنے کے لیے کم از کم 460 دن درکار ہیں)۔ ہماری بجلی اور گیس کے تقسیم کار کمپنیز کو اپنے کُل اثاثوں پر منافع کی اجازت ہے جبکہ نجکاری کے بعد اس فارمولے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے بعد ان کمپنیز کی قیمتوں کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ انہیں کتنا منافع لینے کی اجازت ہے۔ حکومت کو احتیاط سے نیا فارمولا سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ اضافی منافع کو تقسیم کیا جا سکے، بلوں کی وصولی میں بہتری کے بعد اور ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ بھی نجکاری کے بعد، صارفین اور کمپنیز کے درمیان طے ہونا چاہیے۔ اس نجکاری کا حتمی مقصد بجلی اور گیس کے لیے ہول سیل مارکیٹ کا قیام اور صارفین کے لیے قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور خدمات میں بہتری ہونا چاہیے۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے علاوہ بھی دیگر راستوں سے ہمیں حکومتی دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر وزارتوں اور ڈویژن میں کمی بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد جن علاقوں میں اقتدار منتقل ہوا وہاں کچھ اختیارات نجی شعبے کے سپرد کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کا دفتر کامرس کی وزارت کی عمارت میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے اسکولز چلانے والی وزارتِ تعلیم کو مقامی اختیارات میں دے کر پورے ملک میں قومی نصاب کے معیارات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ختم کردینا چاہیے اور نجی سیکٹر کو اجناس کی برآمدات کرنے کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے لوگوں کی فوڈ سیکیورٹی کا کام ذمہ دارانہ طریقے سے کرتے ہیں لیکن اس کام میں کوئی بھی سرکاری کمپنی براہ راست تجارت اور درآمدات میں ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ حکومت کی جانب سے گندم اور کھاد کا اسٹریٹجک ذخیرہ بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت نجی شعبے پر انحصار کرتی ہے تو اقتصادی طور پر وہ گندم اور کھاد کی زیادہ خریداری اور ذخیرہ کر سکے گی۔
پاکستان کی سخت معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی پروگرامز ختم کرنا ہوں گے۔ بچنے والی رقم شاید بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا صوبے کے ماتحت چلنے والے پروگرامز کے ذریعے تقسیم کر دینی چاہیے اور ان پروگرامز کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک بڑھانا چاہیے۔ میری پسندیدہ اصلاح غریب بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلوانے کے لیے واؤچر فراہم کرنا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے اس حوالے سے کامیاب پائلٹ پروگرامز بھی شروع کیے ہیں اور اب ان پروگرامز کو ملک بھر کے غریب بچوں تک رسائی دینی چاہیے ۔ طویل المدتی اقتصادی ترقی کے لیے شاید قانونی اصلاحات سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے کیونکہ ان کے نتیجے میں عدالتوں کی طرف سے بروقت اور متوقع فیصلے ہوں گے۔ اس سے حکومت کی زیادتیوں کو روکا جائے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں سہولت ملے گی اور اشرافیہ کے مفادات کو عدالتی مقدمات کو اپنے فائدے ��ے لیے طول دینے سے منع کیا جائے گا۔ اختتام میں گورننس کا نظام بہتر بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ بیوروکریٹس کی اہلیت کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے عوامی خدمت کے شعبے میں اصلاحات لانی چاہئیں جن میں اسپیشلائزیشن، میرٹ پر ترقی اور ایسے عہدیداران کی ریٹائرمنٹ شامل ہونی چاہیے جو معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں۔ اگر پاکستان کو دیگر ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا ہو گا، اس لیے یہ تمام اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ بصورتِ دیگر ہم بحیثیت قوم یونہی بھٹکتے رہیں گے۔
مفتاح اسمٰعیل  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes