#مصنوعی ذہانت
Explore tagged Tumblr posts
Text
مصنوعی ذہانت کو بھلائی کے لیے استعمال کرنے کے لیے عالمی ضابطے بنائے جائیں، پوپ فرانسس
پوپ فرانسس نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ ایک ڈیپ فیک تصویر کا شکار ہوئے تھے، بدھ کے روز مصنوعی ذہانت کے خطرات کے خلاف خبردار کیا، پوپ فرانسس نے اس کے عالمی ضابطے کو عام بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی اپیل کی تجدید کی۔ پوپ فرانسس نے رومن کیتھولک چرچ کے سماجی رابطوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں مصنوعی ذہانت کے لیے اپنے خوف اور امیدوں کا ذکر کیا، جو 12 مئی کو دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ پوپ…
View On WordPress
0 notes
Text
مصنوعی ذہانت سے تحریر کردہ خبریں قارئین کے لیے زیادہ پیچیدہ ہیںتحقیق
برلن (ڈیلی پاکستان آن لائن)سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں صحافیوں کے تحریر کردہ متن اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ متن کی فہمی کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔اس بات کا تعین ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تحریر کردہ خبروں کو قارئین کے لیے سمجھنا زیادہ مشکل ہے۔ جرمنی کی لڈوگ میکسی میلین یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں صحافیوں کے تحریر کردہ متن اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ…
0 notes
Text
ٹک ٹاک صارفین کیلئے بری خبر مصنوعی ذہانت سیکڑوں ملازمین کی نوکریاں کھاگئی
(ویب ڈیسک)سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک سے وابستہ سینکڑوں ملازمین جلد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، انتظامیہ نے ملازمتوں میں کٹوتیوں کا فیصلہ کرلیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شارٹ ویڈیوز کی معروف ویب سائٹ ٹک ٹاک کے ترجمان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ادارہ سینکڑوں ملازمتوں میں کٹوتی کرے گا اور اس سے ملائیشیا میں بڑی تعداد میں ملازمین متاثر ہوں گے۔ اس اقدام کی وجہ…
0 notes
Text
مصنوعی ذہانت کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ انکشاف کیا ہے۔
ایک حالیہ اعلان میں، گوگل نے اپنے سرچ انجن میں جدید مصنوعی ذہانت (AI) فنکشنز کو شامل کرنے کے منصوبوں کا انکشاف کیا ہے، جس سے صارفین زیادہ باخبر فیصلے کرنے اور متعلقہ معلومات کو تیزی سے تلاش کر سکیں گے۔AI سے چلنے والے نئے فیچرز آنے والے مہینوں میں شروع ہونے کی توقع ہے، اور یہ صارفین کو قدرتی زبان کا استعمال کرتے ہوئے پیچیدہ سو��لات کو تلاش کرنے کے قابل بنائے گی، جیسے کہ “میرے نزدیک بہترین ریستوراں…
View On WordPress
#advance techonology#Ai kese kam krta ha#Ai kya hai in urdu#Ai kya hai meaning#Artificial Intelligence Kya hai#best definition of artificial intelligence#does google use ai in search#example of ai techonology#How Google uses artificial intelligence In Google Search#how to pronounce artificial intelligence#What is artificial intelligence and how is it used?#what is artificial intelligence in simple words#اے آی کیا ہے#روبوٹ کیسے کام کام کرتاہے#مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)ہے#مصنوعی ذہانت کی انسانی زندگی میں حقیقت#مصنوعی ذہانت کیا ہے
0 notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہو�� نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes
·
View notes
Text
ہُک امیر ترین شخص آسہِ سُہ یُس مصنوعی ذہانت سۭتۍ چلن وٲلۍ بارٹر ایک...
0 notes
Text
مستقبل قریب منٛز چِھ مصنوعی ذہانت کہ ذریعہٕ منظم خود مختار کرنسین ہنٛز اکھ تعداد۔ یمن کرنسین درمیان ہموار تبادلہٕ سۭتۍ گژھِ عالمی تجارتس منٛز بہتری۔ ییتھ کیٛن زن ٹیکنالوجی ہنٛد ارتقا چُھ جأری تھوان، مالی منظرنامہٕ ہیکہٕ اتھ مہذب ماڈلس کُن منتقل گژھتھ، یُس عالمی سطحس پیٹھ لین دین کرنس منٛز اکھ بنیأدی تبدیلی چُھ
0 notes
Text
مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنی تحریر بہتر بنانے کے طریقے
آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ آج کل دفتروں میں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی انگریزی بہت بہتر ہو گئی ہے، بےعیب گرامر، علامات اوقاف بالکل درست جگہ پر، مناسب اور عمدہ الفاظ سے لیس جملے۔ لیکن غور کیا جائے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ تحریر مصنوعی ذہانت کی مدد سے لکھی گئی ہے۔ اے آئی کی تحریر پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے جملے روایتی اور بےجان ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی ذاتی اسلوب یا انفرادیت نہیں ہوتی، انگریزی کے گھسے پٹے محاورے اور بےجا لفاظی بھی دور سے پہچانی جاتی ہے۔ پھر ایسی تحریر میں غیر ضروری وضاحت اور تکرار بھی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے عام سی بات کو بلاوجہ لمبا کھینچا جاتا ہے۔ جو بات دو جملوں میں بیان ہو سکتی ہے، اے آئی اسے چھ جملوں میں بیان کرتی ہے۔ ایسی تحریر روبوٹک ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اسے ہونا بھی چاہیے، کیوں کہ اسے ایک روبوٹ ہی نے لکھا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اے آئی آپ کوئی تحریر لکھنے میں مدد نہیں کر سکتی۔ بس اتنا ہے کہ اسے آپ اپنا ذاتی معاون یا اسسٹنٹ بنا سکتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنی تحریر کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور بہت کم وقت میں زیادہ مواد تحریر کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کو سات طریقے بتا رہے ہیں جن کی مدد سے آپ اپنی تحریر کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
1 اے آئی کی تحریر کو ہوبہو شائع نہ کریں آے آئی سے مدد ضرور لیں مگر اس کی تحریر کو شائع کرنے سے پہلے اچھی طرح سے ایڈٹ کر لیں۔ اے آئی کی تحریر میں ان جملوں کو بدل دیں جو غلط محسوس ہوں ۔ اپنے لیے ایک فہرست بنائیں ایسے الفاظ اور جملوں کی جنہیں آپ استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ان میں شامل کریں عام الفاظ اور وہ الفاظ بھی جو چھپ کر آ جاتے ہیں۔ اس ممنوعہ فہرست کو اپنے چیٹ جی پی ٹی کے پرامپٹس میں شامل کریں۔ اسے مسلسل بہتر بناتے رہیں اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تحریر ہر بار زیادہ انسان دوست لگے گی۔
2 اپنا منفرد انداز تخلیق کریں آپ کا لکھنے کا انداز ہی آپ کو دوسروں سے الگ کرتا ہے۔ ہر شخص کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کوئی مختصر جملے استعمال کرتا ہے، تو کوئی طویل۔ شاید آپ جملے کا آغاز ’اور‘ یا ’لیکن‘ سے کرتے ہیں۔ شاید آپ ایک جمل�� کے پیراگراف لکھتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے انتخاب مل کر آپ کی تحریر کو خاص بناتے ہیں۔ اے آئی یا تو اس انداز کو بہتر بنا سکتا ہے یا اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اپنی بہترین تحریروں کا باریکی سے جائزہ لیں۔ ان پیٹرنز کو پہچانیں جو آپ کی لکھائی کو منفرد بناتے ہیں۔ انہیں لکھ کر محفوظ کریں۔ چیٹ جی پی ٹی پر واضح کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ اسے اپنے جملوں کی ساخت، الفاظ کا انتخاب، اور پیراگراف کی لمبائی کے بارے میں بتائیں۔ نتیجہ چیک کریں اور اس وقت تک ایڈجسٹ کرتے رہیں جب تک کہ تحریر آپ کے انداز جیسی نہ لگے۔ ایک بار بہترین پرامپٹس تیار ہو جائیں تو انہیں محفوظ کر لیں تاکہ اگلی بار آپ مزید بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔
3 اپنے مثالی قاری کو اچھی طرح سمجھیں بےترتیب مواد کا نتیجہ بھی بےترتیب ہی نکلتا ہے۔ بہترین مصنفین جانتے ہیں کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے قارئین کو کون سی چیز پریشان کرتی ہے، کیا انہیں خوشی دیتا ہے، یا وہ کس چیز سے رک جاتے ہیں۔ یہ سمجھ بوجھ ان کی ہر تحریر میں جھلکتی ہے، چاہے وہ اے آئی کے ساتھ لکھ رہے ہوں یا بغیر۔ اپنے مثالی قارئین کا نقشہ تیار کریں۔ ان کی امیدیں اور خواب، ان کے خوف اور مایوسیاں، وہ زبان جو وہ استعمال کرتے ہیں، اور وہ مسائل جو وہ حل کرنا چاہتے ہیں، سب لکھ لیں۔ یہ معلومات چیٹ جی پی ٹی کے پرامپٹس میں شامل کریں اور اسے کہیں کہ خاص طور پر انہی لوگوں کے لیے لکھے۔ آپ کی تحریر زیادہ مؤثر ہو گی کیونکہ یہ براہ راست آپ کے قارئین کے دل سے بات کرے گی۔
4 پیشہ ورانہ انداز میں مواد کو دوبارہ ترتیب دیں اگر آپ اپنے مواد کو مختلف انداز میں پیش نہیں کر رہے تو آپ اپنے کام کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ صحیح پرامپٹس کی مدد سے ایک لنکڈ ان پوسٹ کو 10 ٹویٹس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ایک بلاگ پوسٹ پورے ہفتے کے سوشل میڈیا مواد کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ سب ہاتھ سے کرنا نہ صرف مشکل بلکہ وقت طلب ہے۔ سمجھ دار اے آئی صارفین ایسے نظام تخلیق کرتے ہیں جو تیزی سے مواد کو بڑھا دے سکیں۔ ہر پلیٹ فارم کے لیے مخصوص پرامپٹس بنائیں۔ چیٹ جی پی ٹی کو سکھائیں کہ کس طرح ایک مواد کو 20 مختلف انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اہم نکات نکالنے کا طریقہ بتائیں اور ہر پلیٹ فارم کے انداز سے ہم آہنگ کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ ان پرامپٹس کو محفوظ کریں تاکہ بار بار استعمال کیا جا سکے۔ آپ کی مواد کی مشین ہر بار بہتر کام کرے گی۔
5 اپنے بنیادی موضوعات پر قائم رہیں غیر مستقل مواد آپ کے برانڈ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ سمجھ دار تخلیق کار اپنے موضوعات کا تعین کرتے ہیں اور ان پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون س�� موضوعات اہم ہیں، وہ کس کے لیے کھڑے ہیں اور کن باتوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ حدود ان کی تخلیقات کو سمت دیتی ہیں، اور ان کے سامعین کو ہمیشہ ایک تسلسل کی توقع ہوتی ہے۔ اپنے مواد کے لیے تین سے پانچ بنیادی موضوعات کا انتخاب کریں۔ انہیں واضح کریں اور لکھ لیں۔ چیٹ جی پی ٹی کو بتائیں کہ کن موضوعات کو شامل کرنا ہے اور کن کو نظر انداز کرنا ہے۔ ہر تحریر کو شائع کرنے سے پہلے ان اصولوں کے مطابق چیک کریں۔
6 اخلاق کے دائرے میں رہیں کچھ لوگ دوسرے تخلیق کاروں کے کام کو اے آئی میں ڈال کر اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ آرٹیکلز، سوشل پوسٹس، حتیٰ کہ کتابیں بھی۔ یہ عمل سراسر غلط ہے اور فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ جس نے مواد تخلیق کیا، اسے اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ پہلے اپنا مواد خود لکھیں۔ اے آئی کا استعمال اپنے خیالات کے فروغ کے لیے کریں، دوسروں کے کام کو چوری کرنے کے لیے نہیں۔ جب کسی کے کام کا حوالہ دیں تو انہیں مکمل کریڈٹ دیں۔ اپنے علم اور تجربے کو بنیاد بنائیں۔ آپ کے اصل خیالات ہمیشہ نقل شدہ مواد سے بہتر ہوں گے، اور آپ سکون سے سو سکیں گے۔
7 چیٹ جی پی ٹی کو اپنا ذاتی ’گوسٹ رائٹر‘ بنائیں اے آئی کے ساتھ تحریر وقت کے ساتھ بہتر ہوتی جاتی ہے۔ ہر نیا مواد آپ کو کچھ نیا سکھاتا ہے۔ ہر پرامپٹ زیادہ موثر بنتا ہے۔ ممنوعہ الفاظ کی فہرست لمبی ہوتی ہے، اور آپ کا لکھنے کا انداز مضبوط ہوتا ہے۔ آج سے شروع کریں۔ ایک چیز چنیں، چاہے وہ سوشل پوسٹ ہو، ای میل ہو یا بلاگ۔ اسے اپنی نئی رہنما اصولوں کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی میں آزمائیں۔ جو نتیجہ نکلے، اسے ایڈٹ کریں۔ دیکھیں کیا اچھا رہا اور کیا بہتر کرنا ہے۔ کل دوبارہ کریں۔ برے اے آئی مصنف وہی رہتے ہیں جو اپنے عمل کو بہتر نہیں کرتے۔ اچھے مصنف مسلسل تجربہ کرتے ہیں اور اس وقت تک درستگی لاتے ہیں جب تک نتیجہ بالکل ان کے معیار کے مطابق نہ ہو جائے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
ہانیہ نے اپنی ویڈیوز کو جعلی قرار دیدیا
معروف اداکارہ ہانیہ عامر اپنی وائرل ہونے والی ویڈیوز کو جعلی قرار دیدیا۔ ہانیہ عامر نے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال پر بھی سوالات اٹھادیئے کہا کہ کیا قوانین کی موجودگی میں ایسا ہو سکتا ۔ اداکارہ نے کہاکہ یہ ویڈیو میری نہیں بلکہ اے آئی کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ بعض سوشل میڈیا پیجز نے اداکارہ سے اتفاق کیا اور مذکورہ ویڈیوز کو اے آئی سے تیار کردہ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں نظر آنے…
0 notes
Text
سٹرابیری پاستہ اور دلیے کا پیزا: مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائے گئے کھانے کتنے لذیذ ہیں؟
http://dlvr.it/TCh746
0 notes
Text
#urdu news#international#artificial intelligence#ai art#ai generated#ai image#ai girl#chatgpt#ai artwork#technology
0 notes
Text
مصنوعی ذہانت سے 40 فیصد ملازمتیں متاثر ہوں گی، عدم مساوات بڑھے گا، آئی ایم ایف کا انتباہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک نئے تجزیے کے مطابق، مصنوعی ذہانت تمام ملازمتوں کے تقریباً 40 فیصد کو متاثر کرنے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر منظرناموں میں،مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر مجموعی عدم مساوات کو مزید خراب کر دے گا”۔ محترمہ جارجیوا نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو “پریشان کن رجحان” کو حل کرنا چاہیے تاکہ “ٹیکنالوجی کو سماجی…
View On WordPress
0 notes
Text
اے آئی ٹوٹی ہڈیوں کی تشخیص میں بھی معاون ہوسکتی ہے
(ویب ڈیسک)آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی تشخیص میں بھی ڈاکٹروں کی مددگار ہوسکتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (این آئی سی ای) کے مطابق مصنوعی ذہانت میں ڈاکٹروں کے ایکس رے کا تجزیہ کرتے وقت ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی جلد اور مؤثر شناخت کرنے کی صلاحیت ہے۔ ادارے کااس حوالے سے کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی محفوظ ہے اور یہ تشخیص کو تیز کر سکتی ہے،…
0 notes
Text
ایپل اورمیٹانے یورپی یونین کانیامصنوعی ذہانت کا حفاظتی معاہدہ مستردکردیا
(ویب ڈیسک)ٹیکنالوجی کمپنیوں ایپل اورمیٹانے یورپی یونین کی جانب سے پیش کردہ نیامصنوعی ذہانت کاحفاظتی معاہدہ مسترد کردیاجبکہ 100 سے زائدکمپنیوں نے اس پر دستخط کردیئے ہیں۔ یورپی یونین کے مصنوعی ذہانت کے معاہدے پر دستخط کرنےوالی کمپنیوں میں ایمازون، گوگل، مائیکروسافٹ اور چیٹ جی پی ٹی بنانے والی اوپن اے آئی سمیت 100 سے زائد کمپنیاں شامل ہیں جبکہ دستخط نہ کرنے والوں میں معروف اے آئی فرم اینتھروپک اور…
0 notes
Text
ہزاروں فوجیوں کی واپسی: اسرائیل نے اہداف حاصل کرلیے یا پسپائی ہوئی؟
سترہ میں سے صرف 4 بریگیڈ فوج غزہ میں رہ گئی، اگلے چند روز میں مزید فوج نکالے جانے کا امکان مصنوعی ذہانت کے ڈرونز اور روبوٹس کا استممال بڑھائےجانے اورجنوبی غزہ پروسیع پیمانے پرتباہی کے ہتھیاروں سے حملے کاخدشہ کراچی( ڈاکٹرسہیل محمود)اسرائیل نے غزہ سے ہزاروں فوجی نکالنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ شمالی غزہ اور وسطیٰ غزہ مین مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں لہذا اب اتنی فوج رکھنے کی ضرورت…
View On WordPress
0 notes
Text
اے آئی پھیپھڑوں کے کینسر کی نشاندہی میں مددگار ثابت
شکاگو: ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کا اندازہ لگانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شکاگو میں امریکی محققین نے کہا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس “CXR-Lung-Risk” پروگرام سینے کے ایکسرے کی معمول کی تصاویر کا جائزہ لیتا ہے جس میں پھیپھڑوں کے کینسر سے منسلک نمونوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ شکاگو میں ریڈیالوجیکل…
View On WordPress
0 notes