#محمد عظیم الدین
Explore tagged Tumblr posts
bazmeur · 1 year ago
Text
ترجمہ تیسیر القرآن ۔۔۔ مولانا عبد الرحمٰن کیلانی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین
ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل کتاب کا نمونہ پڑھیں…… تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی   جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین ۱۸۔ سورۃ الکہف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۱۔   سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے ۱�� الف بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن کے بورڈ آف کمشنرز کے7ممبران فارغ
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے بورڈ آف کمشنرز کے سات ممبران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ بی او سی کے کمشنرز صوبائی کابینہ کے فیصلے کے مطابق ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا۔نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاگیا۔ محکمہ صحت نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا جسٹس (ریٹائرڈ) ایم بلال خان اور ڈاکٹر طلعت افزا،ڈاکٹر ریاض احمد تسنیم،،سمیع ابراہیم اور ڈاکٹر محمد شفیق پتافی،ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی اور  ہمیش خان کو بھی کمشنر کے عہدے سے ہٹا…
0 notes
minhajbooks · 9 months ago
Text
Tumblr media
🔰 اسرار قرآن (رشد و ہدایت کا الوہی نصاب)
🛒 کتاب آرڈر کرنے کیلئے کلک کریں👇 🚚 ہوم ڈیلیوری https://www.minhaj.biz/item/asrar-e-quran-rushd-o-hidayat-ka-uluhi-nisab-bza-0001
قرآنِ مجید تاجدارِ کائنات حضرت محمد ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ تمام سائنسی و تکنیکی، سیاسی و معاشی، سماجی اور بین الاقوامی علوم اجمالی طور پر قرآن میں موجود ہیں۔ اس کتاب کے اوامر و نواہی پر عمل سے دنیا اور عقبیٰ سنور جاتے ہیں اور اس کی تلاوت قلب و رُوح کو جلا بخشتی ہے۔ ہر دور میں اَہل علم نے اس بحرِ بیکراں میں غواصی کرکے گوہرِ تابدار حاصل کیے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حقائق و معارفِ قرآنی سے آگاہی بھی قرآن کے مطالعہ سے ہی ممکن ہے۔ جو شخص قرآن سے جتنی دوستی کرتا ہے، اس سے جتنی محبت کرتا ہے اور جس قدر مضبوط رشتہ قائم کرتا ہے، قرآن اُسی قدر اُس پر اُلوہی اَسرار منکشف کرتا ہے۔
رُشد و ہدایت کے انہیں اَسرار کو امت تک پہنچانے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے صدر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو نصیب فرمائی ہے۔ آپ نے اس اہم موضوع پر اُمت مسلمہ کو رہنمائی فراہم کرنے کا فریضہ ادا کیا ہے۔
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری 📄 صفحات: 316 🔖 قیمت: 900 روپے 🧾 زبان: اردو 📕 اعلیٰ پیپر اینڈ پرنٹنگ 🚚 ہوم ڈیلیوری
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
0 notes
jidariaat · 11 months ago
Text
بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں - قسط اول
بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں قسط اول محمد حسرت رحمانی مغل سلطنت کے بنیادگزار ظہیر الدین محمد بابر کے عہد میں اودھ کے حاکم میرباقی اصفہانی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر1527 میں بابر کی وفات سے تین سال قبل مکمل ہوئی۔ یہ مسجد مغل فن تعمیر کا عظیم شاہکار تھی۔ بابری مسجد تین گنبد پرمشتمل تھی۔ درمیانی گنبد بڑا اور اطراف کے دونوں گنبد چھوٹے تھے۔ صحن میں پانی کی فراہمی کے لیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
humairqidwai · 3 years ago
Text
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین… قال اﷲ تعالی: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘
: ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین… قال اﷲ تعالی: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘اس آیت کی توضیح و تشریح ایسے طور سے کریں کہ مسئلہ ختم نبوت نکھرکر سامنے آجائے اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے پانچ کتابوں کے نام تحریر کریں؟۔جواب…آیت خاتم النبیین کی تفسیر’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما (احزاب:۴۰)‘‘ترجمہ: ’’محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے۔ لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اﷲ سب چیزوں کو جاننے والا۔‘‘شان نزول اس آیت شریفہ کا شان نزول یہ ہے کہ آفتاب نبوتﷺ کے طلوع ہونے سے پہلے تمام عرب جن رسومات میں مبتلا تھے۔ ان میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بیٹے کو تمام احکام واحوال میں حقیقی اور نسبی بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور مرنے کے بعد شریک وراثت ہونے میں اور رشتے ناتے اور حلت و حرمت کے تمام احکام میں حقیقی بیٹا قرار دیتے تھے۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ اسی طرح وہ لے پالک کی بیوی سے بھی اس کے مرنے اور طلاق دینے کے بعد نکاح کو حرام سمجھتے تھے۔یہ رسم بہت سے مفاسد پر مشتمل تھی۔ اختلاط نسب، غیر وارث شرعی کو اپنی طرف سے وارث بنانا۔ ایک شرعی حلال کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا وغیرہ وغیرہ۔اسلام جو کہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ کفر و ضلالت کی بے ہودہ رسوم سے عالم کو پاک کردے۔ اس کا فرض تھا کہ وہ اس رسم کے استیصال (جڑ سے اکھاڑنے) کی فکر کرتا۔ چنانچہ اس نے اس کے لئے دو طریق اختیار کئے۔ ایک قولی اور دوسرا عملی۔ ایک طرف تو یہ اعلان فرمادیا:’’و ما جعل ادعیاء کم ابناء کم ذلکم قولکم بافواھکم و اﷲ یقول الحق و ھو یھدی السبیل ادعوھم لاباء ھم ھو اقسط عند اﷲ(احزاب:۴،۵)‘‘ترجمہ: ’’اور نہیں کیا تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے۔ یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی اور ��ﷲ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ۔ پکارولے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کرکے۔ یہی پورا انصاف ہے اﷲ کے یہاں۔‘‘اصل مدعا تو یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت و حرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس خیال کو بالکل باطل کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بنانے کی رسم ہی توڑ دی جائے۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد ہوگیا کہ لے پالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔ نزول وحی سے پہلے آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو (جو کہ آپﷺ کے غلام تھے) آزاد فرماکر متبنیٰ (لے پالک بیٹا) بنالیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ بھی عرب کی قدیم رسم کے مطابق ان کو ’’زید بن محمدؐ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس وقت سے ہم نے اس طریق کو چھوڑ کر ان کو ’’زید بن حارثہ ؓ‘‘ کہنا شروع کیا۔ صحابہ کرامؓ اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قدیم کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ لیکن چونکہ کسی رائج شدہ رسم کے خلاف کرنے میں اعزہ و اقارب اور اپنی قوم و قبیلہ کے ہزاروں طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے۔ اس لئے خداوند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے ہاتھوں عملاً توڑا جائے۔ چنانچہ جب حضرت زیدؓ نے اپنی بی بی زینبؓ کو باہمی ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے دی تو خداوند عالم نے اپنے رسولﷺ کا نکاح ان سے کردیا۔ زوجنکھا۔تاکہ اس رسم و عقیدہ کا کلیتاً استیصال ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:’’فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجنکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم … (احزاب :۳۷)‘‘ترجمہ: ’’پس جبکہ زیدؓ زینبؓ سے طلاق دے کر فارغ ہوگئے تو ہم نے ان کا نکاح آپﷺ سے کردیا۔ تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بیبیوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو۔‘‘ادھر آپﷺ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا۔ ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا۔ تمام کفار عرب میں شور مچاکہ لو۔ اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کربیٹھے۔ ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی:’’ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب: ۴۰)‘‘ترجمہ: ’’محمد ؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔‘‘اس آیت میں یہ بتلادیا گیا کہ آنحضرتﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں تو حضرت زیدؓ کے نسبی باپ بھی نہ ہوئے۔ لہٰذا آپﷺ کا ان کی سابقہ بی بی سے نکاح کرلینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے، اور اس بارے میں آپﷺ کو مطعون کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔ ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ آپﷺ حضرت زیدؓ کے باپ نہیں۔ لیکن خداوند عالم نے ان کے مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ رد کرنے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا۔ یہی نہیں کہ آپﷺ زیدؓ کے باپ نہیں بلکہ آپﷺ تو کسی مرد کے بھی باپ نہیں۔ پس ایک ایسی ذات پر جس کا کوئی بیٹا ہی موجود نہیں۔ یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کرلیا کس قدر ظلم اور کجروی ہے۔ آپﷺ کے تمام فرزند بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کو مرد کہے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ آیت میں ’’رجالکم‘‘ کی قید اسی لئے بڑھائی گئی ہے۔ بالجملہ اس آیت کے نزول کی غرض آنحضرتﷺ سے کفار و منافقین کے اعتراضات کا جواب دینا اور آپﷺ کی برأت اور عظمت شان بیان فرمانا ہے اور یہی آیت کا شان نزول ہے۔اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ (لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر)خاتم النبیین کی قرآنی تفسیراب سب سے پہلے قرآن مجید کی رو سے اس کا ترجمہ و تفسیر کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے:’’ختم اﷲ علی قلوبھم‘‘(بقرہ:۷) (مہر کردی اﷲ نے ان کے دلوں پر)’’ختم علی قلوبکم ‘‘ (انعام:۴۶) (مہر کردی تمہارے دلوں پر)’’ختم علی سمعہ وقلبہ ‘‘ (جاثیہ:۲۳) (مہر کردی ان کے کان پر اور دل پر)’’الیوم نختم علی افواہہم‘‘ (یٰسین:۶۵) (آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر)’’فان یشاء اﷲ یختم علی قلبک‘‘ (شوریٰ:۲۴) (سو اگر اﷲ چاہے مہر کردے تیرے دل پر)’’رحیق مختوم ‘‘ ( مطففین:۲۵) (مہر لگی ہوئی خالص شراب)’’ختامہ مسک‘‘ ( مطففین:۲۶) (جس کی مہر جمتی ہے مشک پر)ان ساتوں مقامات کے اول و آخر، سیاق و سباق کو دیکھ لیں ’’ختم‘‘ کے مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا۔ اس کی ایسی بندش کرنا کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے، اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے۔ وہاں پر ’’ختم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً پہلی آیت کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی۔ کیا معنی؟ کہ کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اور باہر سے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا: ’’ختم اﷲ علی قلوبھم‘‘ اب زیر بحث آیت خاتم النبیین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دوعالمa کی آمد پر حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کردی۔ بند کردیا۔ مہر لگادی۔ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ فھو المقصود۔ لیکن قادیانی اس ترجمہ کو نہیں مانتے۔خاتم النبیین کی نبوی تفسیر’’عن ثوبانؓ قال : قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘(ابو دائود ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص ۴۵ ج ۲)ترجمہ: ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔‘‘اس حدیث شریف میں آنحضرتﷺ نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی تفسیر ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے:’’و قد اخبر اﷲ تبارک و تعالیٰ فی کتابہ و رسولہﷺ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لا نبی بعدہ‘ لیعلموا ان کل من ادعیٰ ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک دجال ضال مضل‘ و لو تخرق و شعبذ واتٰی بانواع السحر و الطلا سم ‘‘(تفسیر ابن کثیرؒ ج ۳ ص ۴۹۴)ترجمہ: ’’ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرمﷺ نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپﷺ کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا۔ وہ بہت جھوٹا۔ بہت بڑا افترا پرداز۔ بڑا ہی مکار اور فریبی۔ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا۔ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔‘‘خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرامؓ سےحضرات صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا مؤقف تھا۔ خاتم النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟۔ اس کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی کتاب ’’ختم نبوت کامل ‘‘کے تیسرے حصہ کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں پر صرف دو تابعین کرامؒ کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ امام ابو جعفر ابن جریر طبریؒ اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہؒ سے خاتم النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:’’عن قتادۃ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم‘‘(ابن جریر ص ۱۶ ج ۲۲)ترجمہ: ’’حضرت قتادہؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا۔ اور لیکن آپﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔‘‘حضرت قتادہؒ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنثور میں عبدالرزاق اور عبدبن حمید اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے۔(در منثور ص ۲۰۴ ج ۵)اس قول نے بھی صاف وہی بتلادیا جو ہم اوپر قرآن عزیز اور احادیث سے نقل کرچکے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہیں۔ کیا اس میں کہیں تشریعی غیر تشریعی اور بروزی و ظلی وغیرہ کی کوئی تفصیل ہے؟ نیز حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت ہی آیت مذکور میں : ’’ولکن نبینا خاتم النبیین‘‘ ہے۔ جو خود اسی معنی کی طرف ہدایت کرتی ہے جو بیان کئے گئے، اور سیوطیؒ نے درمنثور میں بحوالہ عبدبن حمید حضرت حسنؒ سے نقل کیا ہے:’’عن الحسن فی قولہ و خاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمدﷺ و کان آخر من بعث‘‘(درمنثور ص ۲۰۴ ج ۵)ترجمہ: ’’حضرت حسنؒ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمدﷺ پر ختم کردیا اور آپﷺ ان رسولوں میں سے جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔‘‘کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟۔خاتم النبیین اور اصحاب لغتخاتم النبیین ’’ت‘‘ کی زبریازیر سے ہو۔ قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہؓ وتابعینؒ کی تفاسیر اور ائمہ سلفؒ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے۔ تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرأت پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے۔ اور دوسری قرأت پر ایک معنی ہوسکتے ہیں۔ یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قرأتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپﷺ کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں تبصریح موجود ہے:’’و الخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبیّون بہ و مآ لہ آخرالنبیین‘‘(روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲)ترجمہ: ’’اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے: ’’وہ شخص جس پر انبیاء ختم کئے گئے‘‘ اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔‘‘اور علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحبؒ نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:’’و المآل علیٰ کل توجیہ ھو المعنی الآخر و لذلک فسر صاحب المدارک قرأۃ عاصم بالآخر و صاحب البیضاوی کل القرأتین بالآخر‘‘ترجمہ: ’’اور نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرأت عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔‘‘روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں�� اور ان دونوں کا خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔ یعنی آخرالنبیین اور اسی بناء پر بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخرالنبیین تفسیر کی ہے۔ خداوند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحاً اس آیت شریفہ کے متعلق جس سے اس وقت ہماری بحث ہے۔ صاف طور پر بتلادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغتاً محتمل ہیں۔ اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔خدائے علیم و خبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیر معتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہدیہ ناظرین کرکے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحریر کئے ہیں۔۱…مفردات القرآنیہ کتاب امام راغب اصفہانیؒ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:’’وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ‘‘(مفردات راغب ص ۱۴۲)ترجمہ: ’’آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔‘‘۲… المحکم لابن السیدہلغت عرب کی وہ معتمد علیہ کتاب ہے۔ جس کو علامہ سیوطیؒ نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جاسکے۔ اس میں لکھا ہے:’’وخاتم کل شئی وخاتمتہ عاقبتہ وآخرہ از لسان العرب‘‘ترجمہ: ’’اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔‘‘۳… لسان العربلغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب و عجم میں مستند مانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:’’خاتمھم و خاتمھم : آخرھم عن اللحیانی و محمدﷺ خاتم الانبیاء علیہ و علیھم الصلوٰۃ و السلام‘‘(لسان العرب ص ۲۵ ج ۴ طبع بیروت)ترجمہ: ’’خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخرالقوم ہیں اورانہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء (یعنی آخر الانبیائ)ہیں۔‘‘اس میں بھی بوضاحت بتلایا گیا کہ بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے۔ لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔لغت عرب کے تتبع (تلاش کرنے) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ’’نبیین‘‘کی طرف ہے۔ اس لئے اس کے معنی آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وہوہذا:۴…تاج العروسشرح قاموس للعلامۃ الزبیدی میں لحیانی سے نقل کیا ہے:’’ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھوالذی ختم النبوۃ بمجیئہ‘‘ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے خاتم بالکسراور خاتم بالفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کردیا۔ ‘‘۵…قاموس’’والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای آخرھم‘‘ترجمہ: ’’اور خاتم بالکسر اور بالفتح، قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد خاتم النبیین۔ یعنی آخر النبیین۔‘‘اس میں بھی لفظ ’’قوم‘‘ بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا بھی نہایت وضاحت کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال ائمہ لغت بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اﷲ تعالیٰ ناظرین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ازروئے لغت عرب۔ آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخرالنبیین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخر اور ختم کرنے والے کے علاوہ ہرگز مراد نہیں بن سکتے۔خلاصہاس آیت مبارکہ میں آپﷺ کے لئے خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن وسنت، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ کی تفسیرات کی رو سے اس کا معنی آخری نبی کا ہے۔ اور اصحاب لغت کی تصنیفات نے ثابت کردیا ہے کہ خاتم کا لفظ جب جمع کی طرف مضاف ہے تو اس کا معنی سوائے آخری کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی خاتم کو جمع کی طرف مضاف کیا ہے۔ وہاں بھی اس کے معنی آخری کے ہی ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:’’میرے بعد میرے والدین کے گھرمیں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا، اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔ ‘‘(تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج۱۵)ختم نبوت کے موضوع پر کتابوں کے ناماس مقدس موضوع پر اکابرین امت نے بیسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے دس کتابوں کے نام یہ ہیں:’’ختم نبوت کامل‘‘ …(مؤلفہ :مفتی محمد شفیع صاحبؒ)’’مسک الختام فی ختم نبوت سید الانامﷺ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد دوم…(مؤلفہ: مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ)’’عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم نبوۃ‘‘ …(مؤلفہ: علامہ خالد محمود)’’ختم نبوت قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا سرفراز خان صفدر)’’فلسفہ ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ)’’مسئلہ ختم نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد اسحق سندیلوی)’’ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ)’’خاتم النبیین‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ ترجمہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)’’عالمگیر نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا شمس الحق افغانی ؒ)’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ، مندرجہ تحفہ قادیانیت جلد اول)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 notes · View notes
urduclassic · 4 years ago
Text
جلال الدین رومی, دنیا کا سب سے بڑا شاعر
جلال الدین رومی دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ان کی مثنوی معنوی تصوف کے موضوع پر سب سے اہم مثنوی ہے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال، جلال الدین رومی کو مرشد مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:
رازِ معنی مرشد رومی کشود فکر من بر آستانش در سجود
ترجمہ:۱۔ اصل راز/معنی میرے مرشد رومی نے آشکار کئے ہیں، میری فکر ان کے آستانے پر سجدے کرتی ہے۔ رومی بلخ میں ۶۰۴ ھجری میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ بہاء الدین اس وقت کے بڑے روحانی علماء میں شمار ہوتے تھے اور ھزاروں عقیدت مند درس میں شامل ہوتے تھے۔ یہ خوارزم شاھی دور تھا اور علاؤ الدین خوارزم شاہ اس خطہ کے حکمران تھے۔ اس زمانے میں شیخ بہاء الدین نے بلخ سے رخت سفر باندھا اور سمرقند، بخارا، ایران، شام، عراق اور حجاز مقدس میں فریضہ حج کے بعد بالآخر قونیہ (ترکی) میں آباد ہوئے اور ایک عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ 
شیخ بہاء الدین دوران مسافرت نیشاپور میں معروف صوفی شاعر شیخ فرید الدین عطار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عطار نے اس بارہ سالہ بچے (رومی) کو دیکھ کر کہا کہ اس بچے کی پیشانی پر بزرگی کے آثار رقم ہیں اور یہ دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ نیز شیخ فرید الدین عطار نے اپنی مثنوی ''اسرار نامہ‘‘ رومی کو ھدیہ کی۔شیخ بہاء الدین کی وفات کے بعد مدرسہ/درس گاہ کا نظام مولانا جلال الدین رومی نے سنبھالا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، جہاں پر ایک روز مدرسہ کے تالاب کے کنارے علم کے موتی بکھیر رہے تھے کہ ایک مرد قلندر شمس تبریزی اچانک نمودار ہوا اور پاس جا کر پوچھنے لگا کہ : این چیست؟ (یہ کیا ہے؟) علوم ظاھری کے طالبان نے جواب دیا، جا بابا جا: این علمی است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ھے جو تم نہیں جانتے) اور پھر اس مخدوب نے عجیب کام کیا اور کتابیں اُٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ظاھر بین غُصّے کے عالم میں مست الست قلندر کو سخت سُست کہنے لگے اور کہا کہ یہ کیا کیا اور پھر شمس نے جب ت��لاب سے دھول اُڑائی اور خشک کتابیں ن��ال کر پیش کر دیں تو ایک عالم تحیر رومی اور ان کے طالبعلموں پر طاری ہو گیا اور گویا ھوئے:
این چیست؟ (یہ کیا ہے) اور پھر مخدوب گویا ھوا کہ: این علمی است کہ شمانمی دانید (یہ وہ علم ہے جو آپ نہیں جانتے) اور یہی جملۂ رومی کے احوال و شخصیت کو بدل گیا۔ رومی اپنے تمام علم و ہنر کے ساتھ شمس کے دست بستہ مرید اور عاشق ہو گئے اور پکار اُٹھے، ترجمہ: ۱۔ میں تیری خواہش میں رات دن بے قرار ہوں اور تیرے قدموں سے سر نہیں اٹھائوں گا۔ ۲۔ میں نے تو رات دن کو اپنی طرح مجنون کر دیا ہے اور میں نے رات دن کو رات دن کہاں رہنے دیا ہے۔ ۳۔ عاشقوں سے جان و دل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور میں رات دن جان و دل کو نثار کرتا ہوں۔ ۴۔ جب سے تیرے عشق کے نغمے الاپنے شروع کیے ہیں میں کبھی چنگ ہوں اور کبھی تار۔ شمس تبریزیؒ کے فیض نے جلال الدین رومی کو وہ رفعت عطا کی کہ اس کی مثنوی معنوی اور دیوان شمس آسمان ادب پر روشن سورج کی طرح ہمیشہ کے لیے چمک اٹھے اور پیغام اس طرح پھیلا کہ رومی عشق و محبت اور انسانیت اور حریت کا استعارہ بن گیا۔
علامہ اقبال، رومی کی اسی آفاقیت اور شاعرانہ عظمت اور پیغام کے دلدادہ ہیں اور برملا کہتے ہیں:
چو رومی در حرم دادم ازان من ازو آموختم اسرار جان من
بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر روان من
ترجمہ:۱۔ میں نے رومی کی طرح حرم میں اذان دی ہے اور اس سے اسرار جان (دل و روح) کے بھید سیکھے ہیں۔ ۲۔ پرانے زمانے کے فتنوں میں وہ (رومی) اور دور حاضر کے فتنوں میں میں (اقبال) صدائے حق بیان کرتا ہوں۔ رومی کی مثنوی کے چھبیس ہزار اشعار ہیں اور دیوان شمس تقریباً چھیالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی معنوی دراصل تصوف کے اسرار اور انسانی معاشرت پر محیط ایک مقدس صحیفے کی حیثیت رکھتی ہے اور جلال الدین رومی نے بانسری کا استعارہ روح انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جو اپنی اصل سے جدا ہو گئی اور دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، ترجمہ: ۱۔ بانسری کی آواز سنو یہ کیسی کہانی/ حکایت بیان کر رہی ہے۔ یہ تو جدائیوں کی شکایت کر رہی ہے۔ ۲۔ جب سے مجھے جنگل سے کاٹا گیا ہے میری آواز سے (میرے نالوں سے) مرد و زن رو رہے ہیں۔ ۳۔ میں جدائی سے/ فراق سے چھلنی سینہ چاہتی ہوں جس کے سامنے میں عشق کے درد کو بیان کر سکوں۔ اِسی طرح دیوان شمس میں شمس سے دوری اور فراق کا وہ بیان ہے کہ اس ضمن میں کی گئی شاعری میں اس کا مقام بہت ہی بلند اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے۔ 
دراصل رومی کا زمانہ تاتاری فتنے کے بعد کا زمانہ ہے جس میں انسانی معاشرہ بے عملی کا شکار ہو گیا تھا اور علماء و شعراء نے بھی خانقاہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ اس پر آشوب دور میں رومی نے انسانوں کو عمل کی طرف راغب کیا۔ انسان کو انسانوں کی اشرف اخلاقی اور روحانی اقدار کی طرف بلایا اور وہ بے اعتباری دور کرنے کی کوشش کی جو انسانوں میں ایک دوسرے سے پیدا ہو چکی تھی۔ خود لب کھولے اوردوسروں کو لب کھولنے کی جرا��ت اور تشویق عطا کی، ترجمہ: ۱۔ لب کھولو کہ بہت ساری شیرینی/مٹھاس کی آرزو ہے اور چہرہ دکھاؤ کہ باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔ ۲۔ میں ان سُست عناصر ساتھیوں سے تنگ آگیا ہوں۔ میں تو شیر خدا (علی ؑ) اور دستان کے رستم کی آرزو کر رھا ہوں۔ ۳۔ کہا گیا کہ جسے ہم تلاش کرتے ہیں وہ ملتا ھی نہیں، میں نے کہا کہ وہ جو تلاش نہیں کیا جا سکتا/جو نہیں ملتا میں تو اسی کا متلاشی ہوں۔ رومی کا یہی پیغام علامہ محمد اقبال تک آیا تو اقبال بھی متحیر ہو گئے اور رومی کو مرشد معنوی مان کر اس طرح گویا ہوئے:
شب دل من مایل فریاد بود خامشی از یاربم آباد بود
آن قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست و آخر خواب شد
روی خود بنمود پیر حق سرشت کو بہ حرف پہلوی قرآن نوشت
گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ای گیر از شراب ناب عشق
تا بہ کی چون غنچہ می باشی خاموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش
من کہ مستی ھا ز صہبایش کنم زندگانی از نفس ھایش کنم
ترجمہ:۱۔ رات میرا دل فریاد پہ مایل تھا اور خاموشی میں میرے یارب یا رب کہنے کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ۲۔ میں اس قدر بیتاب ہوا کہ آخر کار تھک کر سو گیا۔ ۳۔ پیر حق سرشت (رومی) نے خواب میں اپنا چہرہ دکھایا ، جنہوں نے پہلوی زبان میں قرآن لکھا ہے۔ ۴۔ کہا کہ اے اربابِ عشق کے دیوانے، میری خالص شراب کا ایک گھونٹ پی لے۔ ۵۔ کب تک غنچے کی طرح خاموش رہو گے، اپنی خوشبو کو پھول کی طرح بکھیر دو۔ ۶۔ میں جو اُس کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، بلکہ میں تو سانس بھی اُس کی سانسوں سے لیتا ہوں۔ انیسویں اور بیسویں صدی اعلیٰ ادبیات کے انعکاس کی صدیاں کہلاتی ہیں۔ ان میں عالمی شخصیات کی ملاقاتیں ہوئیں، سفرنامہ لکھے گئے اور ادبی شاھکاروں کے تراجم ہوئے ، عالمی ادیب ایک دوسرے کے شہ پاروں سے متعارف ہوئے۔ اگرچہ فارسی دان طبقہ تو رومی کی عظمت سے روشناس تھا ہی، تراجم کے ذریعے شناسائی کے نئے درباز ہوئے اور مشرق و مغرب رومی کی فکری جدت کی طرف مایل ہوا اور مثنوی معنوی کی افاقیت پوری دنیا میں گستردہ ہو گئی نیز دنیا کے ادبأ و شعرا نے رومی پہ خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرنا شروع کئے۔
رومی کی مثنوی کی حکایات اور ان کے آخر میں سبق آموز جملے /اشعار ضرب الامثال کی صورت اختیار کر گئے، ترجمہ: ۱۔ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے جیسا مت خیال کرو کیونکہ شیر (جنگل کا) اور شیر (دودھ) لکھے ایک طرح ہی جاتے ہیں۔
کاسۂ چشم حریصان پُر نشد تا صدف قانع نشد پر در نشد
ترجمہ:۱۔ حریص کی آنکھ کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا، جب تک سیپی قناعت نہیں کرتی اُس میں موتی نہیں بنتا۔ رومی کی عظمت کے اعتراف میں لکھے جانے والی چند ذیل کتابوں اور ادیبوں کا ذکر ضروری ہے ۔ ۱۹۹۹ء میں دیپک چوپڑا کی کتاب'' محبت بھرا تحفہ، رومی کی شاعری کے زیر اثر موسیقی‘‘۔ میڈونا، مارٹن شین، ڈیمی مور اور گولڈن ہیون، نے رومی سے شناسائی کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ انیسویں صدی کو رومی کی صدی قرار دے کر اس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ آخر میں ہم مشہور دانشور مائیکل کونستا توفسکی اکتوبر کی تحریر کو رومی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں'' دنیا آج جس بات پر آج زور دے رہی ہے وہی پیغام رومی ۸۰۰ برس قبل دے چکے ہیں‘‘۔ مائیکل کے انگریزی مضمون کی سرخی کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ''رومی دنیا کا مقبول ترین شاعر‘‘ ۔ در حقیقت رومی اسی عنوان کے سزاوار ہیں۔
پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر
(مولانا روم روشن ضمیر مرشد ہیں اوروہ کاروانِ عشق و مستی کے امیر ہیں)۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال
بشکریہ دنیا نیوز  
8 notes · View notes
noorialqadiri · 5 years ago
Photo
Tumblr media
فقیہِ اعظم ہند، شارحِ بخاری، مفتی محمد شریف الحق امجدی (علیہ الرحمہ) • حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبد الصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیر الدین اعظمی (علیہم الرحمہ) کی ولادت ۱۱ شعبان المعظم ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۰ اپریل ۱۹۲۱ء کو ضلع اعظم گڑھ (حال ضلع مئو) کے نہایت مشہور و معروف اور مردم خیز خطہ قصبہ گھوسی کے محلہ کریم پور میں ہوئی۔ • آپ کے اساتذہ کرام میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی، مفتی اعظم علامہ محمد مصطفی رضا خان، حافظ ملت علامہ عبد العزیز ��حدث مرادآبادی اور محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری علیہم الرحمہ جیسی عظیم ہستیاں سرِ فہرست ہیں اور آپ کے تلامذہ و خلفاء میں خواجہ مظفر حسین رضوی، قاضی عبد الرحیم بستوی، مفتی مجیب اشرف اور علامہ عبد الحکیم اختر شاہ جہان پوری نمایاں ہیں۔ • حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے تقریباً ۳۵ سال مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ کی فقہی بصیرت کا زمانہ معترف تھا۔ فقہی جزئیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں دارالافتاء کا قیام بھی آپ ہی نے کیا۔ اپنی زندگی میں تقریباً ستر ہزار فتاوی تحریر کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی کتابیں اور مقالات بھی تصنیف فرمائے اور بالخصوص، ۵ جلدوں پر مشتمل نزھۃ القاری شرح صحيح البخاری کی وجہ سے شارح بخاری کے لقب سے مشہور ہوئے۔ • ٦ صفر المظفر ۱٤۲۱ھ مطابق ۱۱ مئی ۲۰۰۰ء بروز جمعرات جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں نماز فجر اور وظائف و معمولات کی ادائیگی کے بعد دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ۵ بجکر ٤۰ منٹ پر وصال فرمایا۔ مزار ��بارک گھوسی شریف میں ہے۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے وسیلے سے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے! https://www.instagram.com/p/B3NOiXRhEed/?igshid=197oat7eorygf
3 notes · View notes
bazmeurdu · 6 years ago
Text
مظفر وارثی , ایک کثیر الجہات شخصیت
مظفر وارثی، ایک کثیر الجہات شخص تھے ان کی شخصیت اور فن کا مطالعہ کیا جائے تو انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اتنا لکھا کہ بس۔۔۔ اتنا تنوع تھا ان کی تحریروں میں واہ واہ۔ 23 دسمبر 1933ء کو میرٹھ اتر پردیش (بھارت) میں پیدا ہونے والے مظفر وارثی کا اصل نام مظفر الدین صدیقی تھا۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں، حمدو نعت کے میدان میں بھی جھنڈے گا ڑے، مضامین بھی تحریر کئے، اور ملی گیت نگاری میں بھی منفرد مقام حاصل کیا۔ انہوں نے کئی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ اپنی خود نوشت ’’ گئے دنوں کا سراغ‘‘ کے عنوان سے بھی تحریر کی۔ مظفر وارثی الحاج محمد شریف الدین احمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد کو صوفی وارثی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ میرٹھ کے زمیندار تھے۔ صوفی وارثی دینی عالم بھی تھے، ڈاکٹر بھی اور شاعر بھی ۔
انہیں دو خطاب ملے ’’ فصیح النہد‘‘ اور ’’ شرف الشعرا‘‘ ۔ صوفی وارثی حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کے دوست تھے۔ اس کے علاوہ اکبر وارثی ، عظیم وارثی، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، ابو الکلام آزاد اور مہندر سنگھ بیدی بھی ان کے احباب میں شامل تھے۔ مظفر وارثی کے بھتیجے عثمان وارثی گلوکار، موسیقار اور شاعر ہیں۔ ان کے پوتے امثل وارثی بھی گلوکار، نغمہ نگار اور شاعر ہیں۔ مظفر وارثی ایک بینک میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتے تھے ۔ انہوں نے جب شاعری شروع کی تو ملی گیت نگاری کی طرف توجہ دی۔ لیکن جلد ہی انہوں نے گیت نگاری چھوڑ کرحمدیں اور نعتیں لکھنا شروع کر دیں ۔ ان کی مشہور نعت ’’ میرا پیمبرؐ عظیم تر ہے‘‘ آج بھی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ مظفر وارثی نے اپنے آپ کو ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی منوایا۔ ان کی غزلوں میں خیال اور جدید طرز احساس کا حسین امتزاج ایک عجیب سماں باندھ دیتا ہے ۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ۔ 
پتھر مجھے شرمندہ گفتار نہ کر دے
 اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے
 دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
 جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
 جغرافیے نے کاٹ دیئے راستے مرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
تو چلے ساتھ مرے تو آہٹ بھی نہ آئے 
اپنی درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں
 کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
 زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
تو خود ہی اپنے آپ پہ پتھر اٹھائے گا
 کچھ دیر آئینے میں ذرا اور دیکھ لے
کیا ہماری حیثیت ہے سامنے آجائے گی
 دکھ کو دکھ سے ضرب دو خوشیوں کو خوشیوں سے
شعلہ ہوں بھڑکنے کی گزارش نہیں کرتا 
سچ منہ سے نکل جاتا ہے کوشش نہیں کرتا
انساں ہوں دھڑکتے ہوئے دل پہ ہاتھ رکھ 
یوں ڈوب کر نہ دیکھ سمندر نہیں ہوں میں 
مظفر وارثی اخلاقی اقدار اور کردار کی پختگی کے بہت قائل تھے اور ان کا اظہار وہ اپنی شاعری میں بھی اکثر اوقات کرتے تھے۔ وہ سچ کو سچ کہنے کے خوگر رہے اور کسی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ ان کے اشعار پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس شاعر کو صداقت کے بے محابا اظہار سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ذیل میں ان کا کچھ حمدیہ اور نعتیہ کلام پیش کیا جارہا ہے ۔ 
تلاش اس کو نہ کر بتوں میں 
وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں 
جو دن کو رات اور رات کو دن 
بنا رہا ہے وہی خدا ہے
میرا پیمبرؐ عظیم تر ہے،
 کمال خلاّق ذات اس کی 
جمال ہستی حیات اس کی ،
 بشر نہیں عظمت ِبشر ہے
 میرا پیمبرؐ عظیم تر ہے 
مظفر وارثی بہت مترنم تھے۔ قدرت نے انہیں بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ وہ ہمیشہ ترنم سے اپنا کلام پڑھتے تھے۔  مظفروارثی کی تصانیف میں ’’الحمد ‘‘، باب حرم (تین حصے) برف کی نائو، حصار، کھلے دریچے بند ہوا، لہجہ، لہو کی ہریالی، نور ازل، ستاروں کی آب جو، اور دوسری کئی کتابیں شامل ہیں ۔ 28 جنوری 2011 کو یہ باکمال شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا۔  
6 notes · View notes
faizaneruhaniyat · 2 years ago
Text
Sanad No.1218
👉🏿 Dua-e-Hizbul Bahr Shareef | دعا حزب البحر شریف | दुआ़-ए-हिज़्बुल बहर शरीफ़
👈🏿 عالمی شہرت یافتہ روحانی تحریک، المعروف "فیضانِ روحانیت (رجسٹرڈ)" کی جانب سے...
👈🏿 عالی جناب ! محمد چاند رضا قادری شاذلی بن محمد کلیم الدین (ساکن: سلیم پور، پوسٹ بینی پٹی، ضلع مدھوبنی، بہار، انڈیا)
...کو آج بتاریخ 08 صفر المظفر 1444ھ بمطابق 06 ستمبر 2022ء کو روحانی دنیا کی عظیم الشان دعا المعروف بہ "دعائے حزب البحر شریف" کے پڑھنے کی اور پڑھوانے کی "اجازت" دی جاتی ہے اور "سند" دی جاتی ہے تاکہ ضروت کے وقت کام آئے۔
#faizaneruhaniyat #ruhaniyat #jamiaruhaniya #ruhaniuniversity #silsilaenooriya #dua #hizbulbahar #sanad #ijazatnama #ijazat #khilafatnama #chandraza #bihar #chandrazaqadri
Tumblr media
0 notes
bazmeur · 2 years ago
Text
فہم القرآن ۔۔۔ میاں محمد جمیل، جمع و ترتیب :اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
فہم القرآن میاں محمد جمیل حصہ اول، فاتحہ تا آل عمران جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل ٹیکسٹ فائل حصہ دوم النساء تا اعراف پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل  ای پب فائل کنڈل فائل  ٹیکسٹ فائل حصہ سوم سورۃ الأنفال تا سورۃ ابراہیم پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل ای پب فائل کنڈل فائل حصہ چہارم: سورۂ الحجر تا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 2 years ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی علمی و تحقیقی خدمات 📚
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک سیاسی مفکر، معیشت دان، ماہر تعلیم، عظیم دینی اسکالر اور فلسفی ہیں۔ آپ ایک عظیم علمی و دینی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں، جنہوں نے علمی و ادبی اور روحانی صلاحیت اپنے جدِ امجد فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے ورثہ سے اور اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شبانہ روز تربیت و توجہ سے حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے متعدد موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ 50 سے زائد کتب اور 100 سے زائد تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی صدر اور ملک پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے ’منہاج یونی ورسٹی لاہور‘ (چارٹرڈ) کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔’منہاج ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے بھی چیئرمین ہیں جس کے تحت ملک بھر میں 610 سے زائد اسکولز اور کالجز نسلِ نو کی تربیت اور علم کا نور عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ آپ یتیم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے عظیم مراکز ’آغوش‘ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنی انسان دوستی کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حسین ’المواخات اسلامک مائکرو فنانس‘ اور ’منہاج حلال سرٹیفیکیشن بیورو‘ کے بھی خالق ہیں۔ آپ منہاج یونی ورسٹی کے School of Economics and Finance میں پروفیسر آف اِکنامکس کے طور پر بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ کئی سالوں سے آسٹریلیا کی University of Melbourne میں بطور سینئر فیلو (Senior Fellow) فائز ہیں۔ آپ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین قادری اکتوبر 1982ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد کینیڈا چلے گئے جہاں اُنہوں نے اکنامکس اور پولیٹکل سائنس کے موضوع پر YORK یونی ورسٹی ٹورانٹو سے گریجوایشن کی۔ اس یونی ورسٹی میں اپنے ق��ام کے دوران شان دار تعلیمی کام یابیوں کے ساتھ ساتھ آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے اور یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے شاندار فتح حاصل کرکے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 2006ء میں آپ فرانس چلے گئے اور پیرس کی معروف یونی ورسٹی Sciences-Po سے عالمی معیشت میں MBA کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں تدریسی و تحقیقی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر حسین قادری نے 2012ء میں آسٹریلیا کی معروف یونی ورسٹی Victoria University, Melbourne سے درج ذیل موضوع پر اپنی PhD مکمل کی ہے: An Analysis of Trade Flows Among ECO Member Countries and Potential for a Free Trade Area
اپنے مقالہ میں آپ نے پاکستان، ایران، ترکی اور نَو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں کے معاشی اِتحاد اور اُن کا تقابل کرتے ہوئے ایک رول ماڈل تشکیل دیا ہے کہ کس طرح یورپی یونین کی طرز پر یہ خطہ ایک مؤثر معاشی طاقت کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔
پروفیسر حسین ایک منجھے ہوئے ماہرِ معاشیات ہیں جو اِس میدان میں جدّتِ فکر اور بلند پرواز رکھتے ہیں۔ اپنی عمیق نظری، تخلیقی تخیل اور فکرِ رسا کی بدولت ڈاکٹر حسین معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی میں ہمہ جہتی نقطہ نظر رکھنے والے اہلِ دانش میں سے ہیں جو بڑی خوبی سے دقیق مسائل کا عملی حل پیش کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اِقتصادی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے اور مسلم ممالک کے مشترکہ سماجی، سیاسی و اقتصادی بلاک کے طور پر کام کرنے والی دولتِ مشترکہ کا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ ان ممالک کو اَقوامِ عالم میں خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
اِسلامی معاشیات اور فنانس کے میدان میں ڈاکٹر حسین کی گراں قدر خدمات کے اِعتراف میں 2019ء میں اُنہیں GIFA اسپیشل ایوارڈ دیا گیا۔ 2021ء میں اُنہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونی ورسٹی سے کارپوریٹ پائیداری اور جدّت (corporate sustainability and innovation) میں سرٹیفیکیشن حاصل کی۔ وہ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی ذیلی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین محی الدین قادری نے سیکولر سائنسز کے حصول کے ساتھ ساتھ شریعہ اور قدیم اسلامی علوم بھی معروف عالمی اسلامک اسکالرز سے حاصل کیے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں سب سے اہم آپ کے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ اسلامی علوم میں آپ کے پسندیدہ موضوعات میں الٰہیات، علوم الحدیث، تفسیر، تصوف، فقہ اور اجتہاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پسندیدہ عصری موضوعات میں معاشی افکار کی تاریخ، سیاسی معیشت، عالمی تجارت، قدرتی وسائل کی معاشیات، اسلامی معاشیات، اسلامی بینکاری، بین المذاہب رواداری، انتہا پسندی کا خاتمہ، مینجمنٹ اور فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔
🌐 ویب سائٹ https://www.minhajbooks.com/english/author/Dr-Hussain-Mohi-ud-Din-Qadri
📲 موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں https://get.minhajbooks.com
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
azharniaz · 3 years ago
Text
اورنگزیب عالمگیر وفات 3 مارچ
اورنگزیب عالمگیر وفات 3 مارچ
محی الدین محمد (معروف بہ اورنگزیب عالمگیر) (پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ 1707ء) مغلیہ سلطنت کا چھٹا شہنشاہ تھا جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ اُس کی وفات سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 3 years ago
Text
قائداعظم کی یوم پیدائش برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک خوشی کا دن تھا؛اکرام الدین
قائداعظم کی یوم پیدائش برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک خوشی کا دن تھا؛اکرام الدین
قائداعظم محمد علی جناح ایک عظیم سیاستدان کے ساتھ ساتھ اعلی خوبیوں کے مالک تھے۔میڈیا کوآرڈینیٹر تحریک جوانان پاکستان یورپ جرمن(انٹرنیشنل ڈسک)غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے چیف ایگزیکٹو و تحریک جوانان پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر برائے یورپ اکرام الدین نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 6 years ago
Text
شہنشاہ جہانگیر کی علم دوستی
شاہان مغلیہ میں شہنشاہ جہانگیراپنی خوش مزاجی اور علمی ذوق کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے سات روز بعد سلیم تخت نشین ہوا۔ تاج پوشی آگرہ میں ہوئی۔ اس نے اپنا لقب نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ غازی اختیار کیا۔ جہانگیر کو ذوق نفیس اس کی فطرت میں اور اعلیٰ صفات اپنے باپ اکبر اور دادا ہمایوں سے ورثہ میں ملی تھیں۔ اس کی خود نوشت ’’تزک جہانگیری‘‘ کے مطالعہ سے اس کے علمی و ادبی ذوق اور کتابوں سے والہانہ لگاؤ کا پتا چلتا ہے کہ جہانگیر اہل علم و ہنر کا سرپرست تھا۔ اس نے ��علیم کو فروغ دینے کے لیے مدر سے قائم کیے اور موجود علمی مراکز کی مالی اعانت کی۔ اس کی علمی دلچسپی کی وجہ سے آگرہ شہر مرکز علوم اور علما فضلا کا مسکن بن گیا۔ 
جہانگیر نے نہ صرف اس عظیم شاہی کتب خانہ کو، جو ورثہ میں ملا تھا، قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور تصویر خانہ بھی بنوایا۔ اس کے عہد میں مکتوب خان کتب خانہ اور تصویر خانہ دونوں کا نگران تھا۔ شاہی کتب خانہ کے علاوہ جہانگیر کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ اس کو کتابوں سے الفت تھی اور اس نے خود جا کر علما کو کتابیں بطور تحفہ دیں۔ شاہی لائبریری کی دیکھ بھال کے لیے ’’ نقل نویس ‘‘سمیت بڑا عملہ موجود رہتا تھا۔ جہانگیر نے تزک کی بہت سی نقول تیار کیں اور عمائدین میں تقسیم کر دیں۔ 
شاہجہاں کو پہلی نقل پیش کی گئی۔ جہانگیر نے فن خطاطی اور کتابوں کو سونے چاندی کے کاموں سے خوبصورت بنانے میں خاصی دلچسپی لی۔ چنانچہ کتابوں کی جلد سازی اور سجاوٹ کیلئے بہت سے ماہر خطاط ،نقل نویس اور جلد کار دور دور سے بلوائے جاتے تھے۔ شہنشاہ نے عظیم خوش نویس شیخ فرید بخاری کو خلعت، جواہرات والی تلوار، قلم اور قلم دان سے نوازا ، میر بخشی کا خطاب عطا کیا۔ انھوں نے کہا، میں تمہیں صاحب سیف و قلم سمجھتا ہوں۔ بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں انتہائی مہذب اور کتابوں کی دلدادہ تھیں۔ ان کی ذاتی لائبریری تھی۔ انہوں نے تین سنہری مہریں دے کر دیوان کامران خریدا تھا۔ یہ نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہے۔  
عبدالرشید
7 notes · View notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
آداب زندگی اور آسان فقہ کے مولف و مصنف مولانا محمد یوسف اصلاحی کا سانحہ ئ ارتحال. حافظ محمد رشاد الدین کا اظہار تعزیت
آداب زندگی اور آسان فقہ کے مولف و مصنف مولانا محمد یوسف اصلاحی کا سانحہ ئ ارتحال. حافظ محمد رشاد الدین کا اظہار تعزیت
آداب زندگی اور آسان فقہ کے مولف و مصنف مولانا محمد یوسف اصلاحی کا سانحہ ئ ارتحال. حافظ محمد رشاد الدین کا اظہار تعزیت حیدرآباد،21دسمبر( پریس نوٹ) بین الاقوامی سطح پر مقبول و معروف جید عالم دین‘ درجنوں کتابوں کے مصنف مولانا محمد یوسف اصلاحی کے سانحہ ئ ارتحال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے ناظم شہر جماعت اسلامی ہند عظیم تر حیدرآباد حافظ محمد رشاد الدین نے اِسے بڑے نقصان سے تعبیر کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ - اردو نیوز پیڈیا
شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین برصغیر کے خطۂ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کی کرنیں سب سے پہلے اسی عظیم سرزمین پر پڑیں اسی سرزمین پر کتنی عظیم شخصیات نے پیدا ہو کر یا قیام فرما کر قیامت تک اس کا نام سربلند کردیا ان شخصیات میں حضرت سخی لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، مخدوم محمدمعین الدین ٹھٹھوی، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، عبداللہ شاہ غازی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes