#اورنگزیب عالمگیر
Explore tagged Tumblr posts
Text
اورنگزیب عالمگیر وفات 3 مارچ
اورنگزیب عالمگیر وفات 3 مارچ
محی الدین محمد (معروف بہ اورنگزیب عالمگیر) (پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ 1707ء) مغلیہ سلطنت کا چھٹا شہنشاہ تھا جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ اُس کی وفات سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ…
View On WordPress
0 notes
Text
جو ہم نے دیکھا - 3
جو ہم نے دیکھا – 3
تحریر : سیدزادہ سخاوت بخاری تاریخ کا یہ جبر ہے کہ ، وہ جو ہے سو ہے ، آپ یا میں اسے بدل نہیں سکتے البتہ اسے بیان کرتے ہوئے ، اس کی تصویر کشی کے دوران اس کے بعض حصوں کو اپنی پسند کے رنگوں میں رنگ سکتے ہیں ۔ مورخ یا قلمکار جس قدر چاہے ڈنڈی مار لے لیکن بنیادی حقائق کو بدلنا ممکن نہیں ہوتا ۔ مثلا ایوب خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے مارشل لاء لگاکر جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارا اور آمریت کی بنیاد…
View On WordPress
0 notes
Text
شہزادی زیب النساء
کیا آپ کو معلوم ہےکہ فارسی ادب میں ایک شعر ایسا بھی موجود ہے جسکا پہلا مصرعہ ایرانی شہزادےکا اور دوسرا مصرعہ ہندوستانی شہزادی کا ہے.
کہاجاتا ہیکہ جس زمانے میں ایران اور ہندوستان میں علم ادب اپنے عروج پے تھا ایسے وقت میں ایرانی شہزادے نے ایک مصرعہ تخلیق کیا.
"دُرِّ ابلَقْ کسے کم دیدہ موجود"
ابلقی موتی( ایسی سیاہ موتی جس پر سفید دھبے ہوں) کسے نے کم ہی دیکھی ہوگی . مطلب بوجہ نایاب ہونے کے نہیں پائی جاتی.
اور منادی کرادی کہ جو شاعر اس پر موزوں گرہ لگائے گا تو انعام کا حق دار ہوگا
ایران سے لے کر ہندوستان تک تمام شعراء نے اس پر طبع آزمائی کی لیکن کوئی مناسب گرہ نہیں لگا سکا.
یہ خبر اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء کو ایسے وقت میں پہنچی جب وہ آئینے کے سامنے بیٹھی سرمہ لگارہی تھی سرمے کی جلن کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑا وہ کاجل زدہ آنسوں ابلقی موتی کا منظر پیش کر رہا تھا زیب النساء نے فوراً گرہ لگائی.
"مگر اشک بتان سرمہ آلود"
مگر محبوبہ کے سرمگیں آنکھوں سے ٹپکا آنسو( ابلقی موتی ہی ہوتی ہے)
ایرانی شہزادے کو جب اس کی خبر ہوئی رو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا
(مشرقی تہذیب کو ذرا ملاحظہ کرے محل میں پلنے والی شہزادی زیب النساء کس طرح اپنی پردہ نشینی کا اظہار کر رہی ہے )
جواباً ایک شعر ارسال کیا
"در سخن مخفی منم چو بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا"
یعنی میں اپنے کلام میں ایسے پوشیدہ ہوں جس طرح پھول کی خوشبو اس کے پتوں میں پوشیدہ ہوتی ہے.
جو شخص مجھ سے ملاقات کا متمنی ہے اسے چاہیے کہ میرا کلام پڑھیں.
زیب النساء مخفی،، عالمہ اور حافظہ ہونے کے ساتھ عربی اور فارسی ادب پر عبور رکھتی تھی.
65 سال کی عمر میں انتقال ہوا شادی نہیں کی تھی.
"ماخوذ ادبیات فارسی"
11 notes
·
View notes
Text
اورنگزیب عالمگیر سے نفرت کی وجہ؟
اورنگزیب عالمگیر سے نفرت کی وجہ؟
اورنگزیب عالمگیر سے نفرت کی وجہ؟ ازقلم:شہاب مرزا 9595024421 ہندوستان کی تاریخ نویسی میں کئی طرح کی غلطیاں کی گئی جسکی وجہ سے بادشاہوں کی شخصیت میں بہت اختلاف ملتے ہیں مثال کے طور پر اگر موریہ سمراٹ اشوک کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے جنگ کلنگ میں ایک لاکھ لوگوں کا قتل کیا، گدی حاصل کرنے کے لیے اپنے سو بھائیوں کا قتل کیا، وہ ایک کٹر مذہبی حکمران تھا، اسکی مذہبی پالیسی نے برہمنوں کو کافی دکھ…
View On WordPress
0 notes
Text
*=(تاریخِ حکمرانِ ھندوستان)=*
*غوری سلطنت سے نریندر مودی تک*
👈 *غوری سلطنت*
1 = 1193 محمد غوری
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210 آرام شاہ
4 = 1211 التتمش
5 = 1236 ركن الدين فیروز شاہ
6 = 1236 رضیہ سلطان
7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ
9 = 1246 ناصرالدين محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286 رنگ كھشرو
12 = 1287 مذدن كےكباد
13 = 1290 شمس الدین كےمرس
*غوری سلطنت اختتام*
(دور حکومت -97 سال تقریبا)
👈 *خلجي سلطنت*
1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 الہ دین خلجی
4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
*خلجی سلطنت اختتام*
(دور حکومت -30 سال تقریبا)
👈 *تغلق سلطنت*
1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)
2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)
11 = 1413 دولت شاه
*تغلق سلطنت اختتام*
(دور حکومت -94 سال تقریبا)
👈 *سعید سلطنت*
1 = 1414 كھجر خان
2 = 1421 معیزالدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)
4 = 1445 الہ دين عالم شاہ
*سعید سلطنت اختتام*
(دور حکومت -37 سال تقریبا)
👈 *لودھی سلطنت*
1 = 1451 بهلول لودھی
2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
*لودھی سلطنت اختتام*
(دور حکومت -75 سال تقریبا)
👈 *مغلیہ سلطنت*
1 = 1526 ظہیرالدين بابر
2 = 1530 ہمایوں
*مغلیہ سلطنت اختتام*
👈 *سوري سلطنت*
1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
7 = 1555 الیگزینڈر سوری
*سوری سلطنت اختتام*
(دور حکومت -16 سال تقریبا)
👈 *مغلیہ سلطنت دوبارہ*
1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)
2 = 1556 جلال الدين اکبر
3 = 1605 جہانگیر سلیم
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگزیب
6 = 1707 شاہ عالم (اول)
7 = 1712 بهادر شاہ
8 = 1713 پھاروكھشير
9 = 1719 ريپھد راجت
10 = 1719 ريپھد دولا
11 = 1719 نےكشييار
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754 عالمگیر
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 بہادر شاہ ظفر
*مغلیہ سلطنت اختتام*
(دور حکومت -315 سال تقریبا)
👈 *برطانوی راج*
1 = 1858 لارڈ كینگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن
3 = 1864 لارڈ جهن لورےنش
4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو
5 = 1872 لارڈ نورتھبك
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹےن
7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرین
9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن
11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج
14 = 1916 لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ
15 = 1921 لارڈ ركس ايجےك رڈيگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931 لارڈ پھرمےن وےلگدن
18 = 1936 لارڈ اےلےكجد لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ اركبالڈ وےوےل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن
*برطانوی سامراج اختتام*
*🇮🇳بھارت، وزرائے اعظم🇮🇳*
1 = 1947 جواہر لال نہرو
2 = 1964 گلزاری لال نندا
3 = 1964 لال بهادر شاستری
4 = 1966 گلزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسه
11 = 1990 چندرشیکھر
12 = 1991 پيوينرسه راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 ےچڈيدےوگوڑا
15 = 1997 ايل كےگجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموھن سنگھ
18 = 2014 نریندر مودی
(جاری ھے)
*764 سالوں تک مسلم بادشاھت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ھندوستان میں باقی ہیں. مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا*
اور ،،،،،،،،،
*ھندوں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں*
ضروری گزارش!! اساتذہ اس معلومات کو طلباءاوراساتذہ میں عام کریں۔
جزاک اللّہ خیراً کثیرا۔
دعاگو۔
0 notes
Text
کنٹونمٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کو پہلا دھچکا
کنٹونمٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کو پہلا دھچکا
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پانچ ماہ بعد پیپلزپارٹی پنجاب کے نئے عہدیداروں کا علان کر دیا ، جس کے مطابق سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر، حسن مرتضی جنرل سیکریٹری اور شہزاد سعید چیمہ کو سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری سپرد کی گئی ،یہ تینوں عہدے قمر زمان کائرہ، چودھری منظور احمد اور حسن مرتضی کے استعفوں کی وجہ سے خالی تھے ، جس کے بعد راجہ پرویز اشرف کو عبوری مدت کے لئے چیف آرگنائزر پنجاب بناد یا گیا تاکہ وہ نئی تنظم سازی کریں لیکن بعدازاں انہی کو صوبائی صدر چن لیا گیا۔
راجہ پرویز اشرف کی سات ستمبر کو لاہور آمد پر بڑے استقبال کے دعوے کئے گئے ، پیپلز پارٹی پنجاب کے سنیئر نائب صدر اسلم گل نے پنجاب ایگزیکٹو کے اجلاس میں اعلان کیا کہ راجہ پرویز اشرف کا راوی ٹول پلازے پر شیخوپورہ تنظیم ، ٹھوکر نیاز بیگ پر پیپلزپارٹی پنجاب اور قذافی سٹیڈیم میں پیپلزپارٹی لاہور بڑا سٹیج لگا کر استقبال کرے گی۔
راجہ پرویز اشرف کا استقبال پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور کے اختلافات کی نذر ہو گیا، پیپلز پارٹی پنجاب کی جانب سے استقبالیہ روٹ کا اعلان کرنے کے اگلے ہی دن لاہو رکے صدر حاجی عزیز الرحمان چن نے اپنے گھر گلبرگ میں اجلاس طلب کیا جس میں ان کے قریبی ساتھی اورنگزیب برکی کی شدید مخالفت کے باعث مجوزہ روٹ تبدیل کر دیا گیا اور اعلان کیا کہ راجہ پرویز اشرف پہلے مینار پاکستان پہنچیں گے۔
داتا دربار حاضری دیں گے جس کے بعد فیروز پور روڈ کے راستے ماڈل ٹائون پہنچیں گے، اجلاس میں حافظ غلام محی الدین، رانا فقیر حسین، سہیل ملک، فیصل میر، عابد صدیقی، زاہد ذوالفقار، نرگس خان، شاہدہ جبین، عارف خان، شکیل میر چنی، وحید عالمگیر، شہناز کنول سمیت دیگر کارکنان شریک تھے۔ راجہ پرویز اشرف کا استقبالی روٹ تبدیل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب اور لاہور کے رہنمائوں میں کشمکش شروع ہو گئی ، اور معاملہ اس حد تک سنگین ہو گیا کہ بلاول بھٹو نے سخت نوٹس لے لیا اور لاہور کے صدر حاجی عزیز الرحمان چن کی جانب سے پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف کااستقبالیہ روٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا جس کے بعد پنجاب ایگزیکٹو کے فیصلہ کے مطابق راجہ پرویز اشرف کا استقبالیہ روٹ ٹھوکر نیاز بیگ، قذافی سٹیدیم اور ماڈل ٹاؤن طے ہو گیا۔
راجہ پرویز اشرف کے ٹھوکر نیاز بیگ پہنچنے پر گل پاشی ہوئی، قذافی سٹیڈیم میں ڈھول ، گھوڑے اور بینڈ باجے والے جمع کر کے استقبال کیا گیا ،نئی صوبائی قیادت کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب پیپلزپارٹی کنٹونمنٹ الیکشن میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوگئی ، لاہور کنٹونمنٹ اور والٹن کنٹونمنٹ میں پارٹی کو امیدوار بھی نہ مل سکے، 20حلقو ں میں صرف 10حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے ، الیکشن نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی لاہور میں ن لیگ، تحریک انصاف، آزاد امیدواروں ، تحریک لبیک کے بعد پانچویں نمبر پر رہی اور صرف چار ہزار ووٹ لے سکی، کنٹونمنٹ بورڈ کے مایوس کن نتائج کے بعد راجہ پرویز اشرف، حسن مرتضی اور شہزاد چیمہ نے پارٹی تنظیموں کو تبدیل کرنے کے لئے سر جوڑ لئے ہیں، اور سنیئر رہنمائوں کے گھروں میں جاکر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
جس کا لاہور سے آغاز کر دیا گیا ،راجہ پرویز اشرف علی بدر، جاوید اختر، قاسم ضیا سمیت دیگر رہنمائوں کے گھروں میں گئے اور انھیں پارٹی میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ کر چکے ہیں، پیپلزپارٹی اسلم گل گروپ اور حاجی عزیزالرحمان ��روپ میں تقسیم ہے جس کے لئے دونوں رہنماؤں کو ان کے عہدوں سے فارغ کیا جا رہا ہے ، لاہور تنظیم بھی تبدیل ہو رہی ہے لاہور صدر کے لئے اسرار الحق بٹ،اسلم گل، نوید چودھری، جنرل سیکرٹری کے لئے علی بدر، فیصل میر، جمیل منج ، بیرسٹر عامرمضبوط امیدواروں میں شامل ہیں، صوبائی تنظیم میں بھی قمر زمان کائرہ اور چودھری منظور کے حامی رہنمائوں کی تبدیلی ہو رہی ہے ، نائب صدور، فنانس سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری سمیت دیگر عہدیدار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں خالی عہدو ں پر بھی نامزدگیا ں ہو رہی ہیں، رواں ماہ صوبائی عہدیداران تمام اضلاع کا دورہ کریں گے،ضلعی تنظیموں کی کارکردگی کا جائز لیں گے لاہور کی تنظیم کا بھی جائز لیں گے ، ضلعی تنظیموں کے حوالے سے رپورٹ چیئرمین بلاول بھٹو کو دی جائے گی جو آئندہ ماہ اکتوبر میں لاہور پہنچ رہے ہیں جو تنظیمی اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ اہم سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کر یں گے جو پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر یں گی،ناراض اور غیر فعال پارٹی رہنمائوں سے ان کے گھروں میں ملاقاتیں کی جائیں گی، الیکٹ ایبلز سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی، اس سلسلہ میں سیاسی رہنمائوں کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں۔
بلاول بھٹو اضلاع کے دورے بھی کریں گے جہاں ورکرز کنونشن سے خطاب او ر سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کر کے انھیں پارٹی میں شامل کریں گے، بلاول بھٹو کی ہدایت پر پیپلزپارٹی آئندہ عوامی سیاست کرے گی اور سیاسی سرگرمیاں گھروں اور بند کمروں سے نکال کر سڑکوں، چوراہوں پر منعقد کی جائیں گی، پیپلزپارٹی کی عوامی سیاست کا رنگ بلاول بھٹو کے دورہ جنوبی پنجاب میں دیکھا گیا جب ان کےجگہ جگہ استقبال ،جلسے اور جلوس ہوئے۔
پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف کا استقبال بھی اسی سلسلہ کی اہم کڑی تھی، بلاول بھٹو کی رواں ہفتے سالگرہ تقریبات بھی گھروں اور ڈرائنگ رومز سے نکل کرکارکنوں کے درمیان منائی گئیں، پیپلزپارٹی مہنگائی کے خلاف جلسے ، جلوس، مظاہرے کرے گی، بلاول بھٹو کے اگلے ماہ دورہ کے لئے عوامی استقبال ،جلسے اور جلوسوں کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے، پیپلزپارٹی پنجاب کے سیاسی مستقبل کے لئے آصف زرداری فیکٹر بہت اہم ہو گا۔
setTimeout(function() !function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '836181349842357'); fbq('track', 'PageView'); , 6000); /*setTimeout(function() (function (d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); , 4000);*/ Source link
0 notes
Text
بادشاہ اور بہروپیہ
اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی۔ اورنگ زیب میں بے شمار خوبیاں تھیں لیکن دو خوبیاں زیادہ نمایاں تھیں۔ اس کی پہلی خوبی ایمانداری تھی‘ وہ اپنے ذاتی اخراجات قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر پورے کرتا تھا اور اس کی دوسری خوبی اس کی یادداشت تھی۔ وہ ہزاروں لوگوں کوان کی شکل اور آواز سے پہچان جاتا تھا۔ ایک بار ایک بہروپیے نے اورنگزیب…
View On WordPress
0 notes
Text
بازار بھریں یا اسپتال ؟
’’یہ تو بالکل احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔ سماجی فاصلہ نہیں رکھ رہے ہیں۔ اچھے خاصے سمجھدار پڑھے لکھے۔ شعر و ادب کے مربّی۔ اجل سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ موت سے گلے مل رہے ہیں۔ ذرا بھی نہیں سوچ رہے ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کا کیا ہو گا۔ ان کے گھر والوں پر کیا گزرے گی‘‘۔ مئی کا مہینہ تو قیامتیں برپا کر گیا۔ اب جون بھی یہی کر رہا ہے۔ کیسے کیسے گنج ہائے گراں مایہ ہم میں سے اُٹھ رہے ہیں۔ بہت دل نشیں کہانیاں لکھنے والے۔ اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ تعلیم کیلئے وقف کرنیوالے پروفیسر انوار احمد زئی اپنی مسکراہٹ کے ساتھ دنیا چھوڑ گئے۔ ان سے کچھ دیر بعد ڈاکٹر آصف اسلم فرخی۔ علم۔ ادب۔ دانش۔ تنقید۔ ادبی میلے کی پہچان۔ انگریزی اُردو میں بھرپور اظہار کی قدرت رکھنے والے۔ وہ بھی جلدی میں تھے۔ کبھی امریکہ سے خبر آ جاتی ہے۔ کبھی ہندوستان سے مجتبیٰ حسین کی رحلت اداس کر جاتی ہے۔ یہ 2020ء تو ظلم کی انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ باغ و بہار محبوب غوری، طلعت حسین کے داماد زاہد حسین۔ فیصل آباد کے چوہدری عبدالرشید۔ پشتو اُردو کے شاعر بلوچستان اکیڈمی کے سابق چیئرمین سید عابد شاہ عابد اور نجانے کتنے روشنی بانٹنے والے لاک ڈائون کے اُداس دنوں کو اور زیادہ غمگین کرتے جا رہے ہیں۔ کورونا کے خلاف پہلی صف میں لڑنے والے ڈاکٹر نرسیں۔ میڈیکل اسٹاف انسانیت کا دفاع کرتے کرتے جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ موت دندنا رہی ہے۔ جب ہمارے قائدین وفاق اور صوبوں کی لڑائی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد۔ پنجاب۔ جنوبی پنجاب۔ سندھ۔ خیبر پختونخوا۔ بلوچستان۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں کشمیر کے اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو بلا امتیاز مذہب۔ رنگ۔ نسل۔ صوبہ۔ غریب امیر اپنی مسیحائی سے نواز رہے ہیں۔
ان میں ہر ایک بخوبی آگاہ ہے کہ خطرہ کتنی شدت کا ہے۔ مسیحائوں کا خود بیمار ہونا۔ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہونا۔ پھر موت کو گلے لگا لینا کیا ہم پر واضح نہیں کرتا کہ کورونا ایک حقیقت ہے اور بہت ہی سفّاک حقیقت۔ کیا یہ مرنے والے ڈاکٹر بھی زبردستی کورونا کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔ قیادت کے دعویداروں کو گلدستے لے کر ان ڈاکٹروں کے پاس جانا چاہئے۔ اسلام آباد والے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن سے سبق نہیں سیکھتے۔ ایک خاتون کی پیروی کیوں کریں۔ چاہے اس نے کورونا کا وجود ہی مٹا دیا ہو۔ یہ تو ٹرمپ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ جس نے مسلسل تذبذب سے کام لیا۔ وہاں ایک لاکھ سے زیادہ جانیں چلی گئیں اور اب وہاں نسلی فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ تاریخ نے ہمیشہ ہمیں جھنجھوڑا ہے۔ کچوکے لگائے کہ یہ حکمران فوجی ہوں یا سیاسی۔ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنے لگتے ہیں۔ ہر ��َور نے ان کے تکبر کو للکارا۔ یہ متعلقہ ماہرین سے مشورہ کیوں نہیں کرتے۔ اب جب اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ مریض بھی۔ لاک ڈائون مزید سخت کرنے کے بجائے پانچ دن کورونا کی خرمستیوں کیلئے کھول دیے گئے ہیں۔ عوام کی ضرورت کی اشیا کی دکانیں تو پہلے سے ہی کھل رہی تھیں۔ اشیائے ضروریہ فراوانی سے مل رہی تھیں۔ آن لائن بھی دستیاب تھیں۔ اب جو شاپنگ مال۔ مارکیٹیں۔ گلی محلوں کی دکانیں صبح 9 سے شام 7 بجے تک کھلیں گی۔ ان پر غیر ضروری اشیا ہی دستیاب ہوں گی۔ لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سنی جا رہی ہے نہ حفیظ شیخ کی۔ نہ ہی ظفر مرزا کی۔ ایک وبائی مرض کی یلغار ہے تو ڈاکٹروں کے قول کو سبقت حاصل ہونی چاہئے۔
کابینہ بھی صحت کے ماہرین سے رہنمائی لے۔ ارکانِ پارلیمنٹ بھی ان سے کچھ سیکھیں۔ دنیا بھر میں اس وقت صحت عامہ پہلی ترجیح ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اب صحت عامہ ہی قومی سلامتی ہے۔ امریکہ، روس، چین، برطانیہ کہیں بھی اس عالمی دشمن کے مقابلے میں ٹینک۔ میزائل۔ بمبار طیارے کام نہیں آ رہے۔ جدید ترین ہتھیار۔ حربی منصوبے بے کار ہو گئے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ یہ عالمگیر وبا ہے۔ اس کا مقابلہ سب بڑی چھوٹی قومیں مل کر کریں۔ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بلکہ خود لیڈران کرام ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ میڈیا بھی جنگی رپورٹنگ کے موڈ میں رہتا ہے۔ جہاں اصل جنگ لڑی جا رہی ہے وہاں رپورٹر جاتا ہے نہ کیمرہ مین۔ پرانی فوٹیج دکھاتے رہتے ہیں۔
کورونا کو ہرا کر گھر جانے والوں سے کوئی بات نہیں کرتا۔ اس وقت رہنمائی یا ڈاکٹروں سے مل سکتی ہے یا صحت یاب ہونے والوں سے۔ شہباز گل (وفاق)۔ فیاض الحسن چوہان (پنجاب)۔ مرتضیٰ وہاب (سندھ)۔ اجمل خان وزیر (کے پی)۔ لیاقت شہوانی (بلوچستان)۔ مصطفیٰ بشیر(آزاد جموں و کشمیر)۔ فیض اللہ فراق (گلگت بلتستان)۔ مریم اورنگزیب (مسلم لیگ ن) نہ دوا دے سکتے ہیں۔ نہ انجکشن لگا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر ملک گیر تنظیم رکھتیں تو آج ان کے کارکن شہر شہر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے۔ راشن بانٹ رہے ہوتے۔ ہم وطنوں کے دل جیت رہے ہوتے۔ اب بھی اس تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ موجودہ پاکستان ایک عظیم مملکت ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین لکھتے ہیں کہ یہ ایک مثالی اقتصادی وحدت ہے۔ خود کفیل ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ معدنی۔ قدرتی۔ زرعی وسائل فراواں ہیں۔
تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ سیاستدان کبھی سنجیدہ اور متحد نہیں ہوتے۔ اس لیے اس پیغمبری وقت میں پنجاب۔ سندھ۔ کے پی۔ بلوچستان۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں کشمیر کے وائس چانسلرز۔ پرنسپلز۔ ہیڈ ماسٹروں۔ اساتذہ۔ دانشوروں۔ اقتصادی ماہرین۔ زرعی ماہرین کو آگے آنا ہو گا۔ مسئلے کا حل لاک ڈائون ہے۔ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد ہے۔ نظم و ضبط ہے۔ 22 کروڑ کو صحیح رہنمائی ملے گی تو وہ بھی نیوزی لینڈ کے عوام کی طرح منظّم ہو کر کورونا کو شکست دیں گے۔ یہ ماہرین ایسے لاک ڈائون کی منصوبہ بندی کریں جس میں ہماری معیشت بھی چلتی رہے۔ اور کورونا کی یلغار بھی محدود ہوتی رہے۔ موت یوں ہمارے گلی کوچوں میں دندناتی نہ پھرے۔ طے کر لیں کہ ہم نے بازار بھرنے ہیں یا اسپتال۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
گجرات کے نامور بزنس مین ، سابق چیئرمین پاکستان الیکٹرک فین مینو فیکچرز ایسوسی ایشن عدنان نسیم سیٹھی کی صاحبزادی ، رضوان نسیم سیٹھی، ریحان نسیم سیٹھی کی بھتیجی ڈاکٹر ماہم عدنان کی شادی حسن آفتاب سے انجام پا گئی۔ گجرات کے نامور بزنس مین ، سابق چیئرمین پاکستان الیکٹرک فین مینو فیکچرز ایسوسی ایشن عدنان نسیم سیٹھی کی صاحبزادی ، رضوان نسیم سیٹھی، ریحان نسیم سیٹھی کی بھتیجی ڈاکٹر ماہم عدنان کی شادی حسن آفتاب سے انجام پا گئی۔ تقریب کا اہتمام سیٹھی ہاو ¿س جی ٹی روڈ میں کیا گیا۔بارات کا استقبال، عدنان نسیم سیٹھی، ریحان نسیم سیٹھی، رضوان نسیم سیٹھی، عمیر سیٹھی اور دیگر فیملی ممبران نے کیا۔ تقریب میں قائم مقام گورنر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری وجاہت حسین، چوہدری سلیم سرور جوڑا، سعادت نواز اجنالہ، چوہدری مبشر حسین، چوہدری شافع حسین،چوہدری نیئر حسین،چوہدری اظہر حسین،چوہدری بلال نیئر، آر پی او گوجرانوالہ طارق عباس قریشی، ڈی پی او گجرات سید توصیف حیدر، چوہدری ندیم اختر ملہی، خالد اصغر گھرال، میاں عمران مسعود، شیخ خاور رفیق، چوہدری اظہر حسین، کالم نگار توفیق بٹ، میاں محمد اعجاز، ڈی ایس پی سٹی رضا اعوان، چوہدری صفدر ممتاز سندھو، اورنگزیب بٹ، جاوید بٹ، چوہدری کلیم اللہ وڑائچ، صاحبزادہ سید سعید احمد شاہ گجراتی، چوہدری نجیب اشرف چیمہ، ڈی ایس پی حافظ امتیاز، چوہدری اعظم، چوہدری بلال نیئر، چوہدری علیم اللہ وڑائچ گورالی،چوہدری غلام عباس ملہی، ملک اظہار احمد اعوان، یاسر احسان پاک فین، ملک اعجاز احمد، میاں امان اللہ پاک فین، ناصر چیمہ، الحاج امجد فاروق، صفدر ممتاز سندھو،چوہدری افتخار احمد مٹو، میاں پرویز اخترپگانوالہ، چوہدری عثمان منظور دھدرا، مظفر حسین ڈار، میاں سلیم اللہ پاک فین،چوہدری علی عثمان پرواز فین، رزاق ڈار فیصل فین، چوہدری فاروق افگن کلاچور، چوہدری طاہر ترکھا، غیاث الدین پال، فرقان ایوب یونس فین، باو ¿ منیر پشاوری امین فین، افضل سماں، میر عبدالغفار سپین، ساجد شاہ، چوہدری اعجاز احمد، قاضی خالد سیف اللہ، علی بشارت راٹھور، قمر زمان گل، چوہدری محمد اصغر تیل والا، سید عاطف عظمت، سلیم بٹ، حاجی محمد شفیق رفیقی چائینہ فین، چوہدری شجاع زیب جوڑا، وحید زمان ڈوگہ، چوہدری رخسار میلو، شیرافگن، ارشد وحید بٹ، سلیم ارشد شیخ ناروے، چوہدری الیاس وڑائچ، حمزہ طارق، میجر نسیم اکبر فاروقی، انصر محمود گھمن، مرزا جمشید اقبال، علی انصر گھمن، شجاع زیب میر، الطاف حسین جعفری، جواد حسین جعفری، عاصم مشتاق بٹ، سینئر صحافی طفیل میر، وسیم اشرف بٹ، سید وقار گیلانی، سلیم بٹ، ارشد وحید بٹ، عمیر گھمن، چوہدری یوسف ساروچک، جاوید یعقو ب ڈار، ارشد محمود بٹ، میاں غلام محی الدین، شیخ جاوید، شیخ مسعود اختر الشیخ فین، شیخ خرم مسعود، رضوان سلیم بٹ، ذیشان زیب، عمیر افضل گوندل، نعمان جاوید، فیضان جاوید، چوہدری شمشاد اللہ ملہی، ندیم شہزاد کوکب، حاجی الیاس الرحمان ، چوہدری شہزاد گل، چوہدری شیراز گل، چوہدری محمد انور (ر) انسپکٹر، چوہدری جاوید سراج، حاجی کالے خان، ملک اسحاق اعوان، عدنان احسان واحد فین، چوہدری شیر امجد، وقاص سیٹھی، شیخ افضال احمد، مظہر وڑائچ نت، کبیر احمد میر، یاسر میر، امتیاز کوثر، سجاد لانیکا، چوہدری ندیم طفیل، جاوید اقبال ماجرہ، ملک صفدر حسین، ملک اسحاق اعوان، چوہدری علی عثمان پرواز فین، ندیم بٹ، اسلم زیب بٹ، توحید شاہ، خرم الطاف بھٹی نائب صدر گجرات چیمبر، چوہدری خرم، توحید شاہ، نوابزادہ سنی، شیخ محمد اقبال، ڈاکٹر ذکی بٹ، چوہدری اختر چھوکر کلاں، روحیل عظمت بٹ، مزین حمید بٹ، صابر علی چیمہ ایڈووکیٹ، سید عدیل عباس شاہ، شیخ محمد اسحاق، شیخ جاوید، نومان ظہیر بٹ، حاجی محمد ریاض، حاجی صغیر احمد، چوہدری عبداللہ اعجاز، سول جج صوفی نوید، رانا صلاح الدین، امان اللہ، منظو ر حسین ڈا، امان اللہ بٹ، ثناءاللہ بٹ، ارتضیٰ شاہ، چوہدری مظہر وڑائچ، چوہدری اظہر وڑائچ، سیٹھ علی اصغر، عالمگیر بوبی، ننھا پہلوان، الیاس ڈار، ساجد راٹھور، شیخ زوہیب اختر، سرجن ڈاکٹر اکرام، آفتاب احمد کینیڈا، رانا صلاح الدین، وقاص سیٹھی، قاضی ذوالفقار، مرزا سلیم صدیق، بلال جوڑا، سید توحید شاہ،شیخ وقار وحید، حاجی صغیر احمد و دیگر شریک تھے۔
0 notes
Text
اشوک اعظم دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ اشوک کی سلطنت کابل‘ قندھار اور ہرات سے لے کر کشمیر اور نیپال‘ بنگال اور جنوب میں دریائے پینار تک پھیلی ہوئی تھی‘ سری نگر شہر اس نے آباد کیا تھا‘ یہ پورے ہندوستان میں امن قائم کرنے والا آخری فرمانروا بھی تھا‘ اشوک نے ہندوستان میں قتل‘ فسادات‘ چوریاں اور ڈاکے ختم کرا دیے۔
ہندوستان کو اضلاع میں تقسیم کیا‘ ہر ضلع میں ناظم تعینات کیے اور یہ ناظم ضلع میں امن و امان اور عدل و انصاف کے ذمے دار ہوتے تھے‘ اشوک نے قوانین تیار کرائے‘ یہ قوانین پتھروں اور لوہے کی پلیٹوں پر کھدوائے اور یہ ملک بھر میں لگوا دیے‘ یہ فرمودات ہندوستان کی پہلی تعزیرات تھے‘ اشوکا عہد کے یہ پتھر آج بھی سوات ویلی اور گلگت کے پہاڑوں میں نصب ہیں‘ سوال یہ ہے اشوک نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے‘ اشوک پٹنہ کا رہنے والا تھا‘ والد بندوسار چندر گپت موریہ سلطنت کا بادشاہ تھا‘ اشوک کے 64 بھائی تھے‘ یہ تمام بھائی سازشی‘ لالچی اور حاسد تھے‘ اشوک باصلاحیت تھا‘ یہ دنیا فتح کرنا چاہتا تھا‘ اس میں صلاحیت بھی تھی لیکن بھائی اس ارادے میں رکاوٹ تھے۔
یہ جنگ کے لیے محاذ پر جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی تخت پر قبضہ کر لیتا تھا‘ یہ تالاب میں نہانے کے لیے اترتا تھا تو بھائی تیر برسانا شروع کر دیتے تھے‘ یہ کھانا شروع کرتا تھا تو سالن سے زہر نکل آتا تھا‘ یہ سونے جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی کمرے میں سانپ چھوڑ دیتا تھا اور یہ سیر کے لیے نکلتا تھا تو نقاب پوش حملہ کر دیتے تھے‘ اشوک تنگ آ گیا اور اس نے ایک دن سوچا میرے پاس صرف دو راستے ہیں‘ میں اپنے والد کی طرح گم نام زندگی گزار دوں یا پھر دنیا فتح کروں‘ اس نے دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اشوک نے اپنے 64 بھائی قتل کرا دیے‘ وہ اکیلا رہ گیا‘ اس نے اہل لوگوں کی ٹیم بنائی اور ہندوستان کی اپنی منظم حکومت کا بانی بن گیا۔
ہندوستان کا دوسرا بڑا حکمران جلال الدین اکبر تھا‘ اس نے ہندوستان پر 49 سال آٹھ ماہ حکومت کی‘ اس کی سلطنت کشمیر‘ سندھ‘ قندھار اور سینٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ اتنی بڑی سلطنت کی وجہ سے اکبر اعظم کہلاتا تھا‘ اس کی کامیابی کی وجہ اس کا اکلوتا ہونا تھا‘ یہ ہمایوں کا واحد بیٹا تھا‘ کسی نے اس کے تخت پر حق جتانے کی کوشش نہیں کی‘ اکبر نے نو اہل ترین لوگوں کی ٹیم بنائی اور عظیم مغل سلطنت کی بنیاد رکھ دی‘ تیسرا بڑا حکمران اورنگ زیب عالمگیر تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان پر قابض ہوا۔
یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ مدت کے لیے بادشاہ رہا‘ اس نے پچاس سال تین ماہ حکومت کی‘ یہ شاہ جہاں کا باصلاحیت ترین شہزادہ تھا‘ یہ بھی خواب پالتا تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان کا بادشاہ بننا چاہتا تھا لیکن اس کے بھائی اور والد اس کے راستے کی رکاوٹ تھے‘ والد داراشکوہ کو تخت دینا چاہتا تھا‘ وہ اہل نہیں تھا‘ داراشکوہ اور والد شاہ جہاں نے اورنگزیب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘ اورنگزیب نے بھی ایک دن سوچا میرے پاس دو آپشن ہیں‘ میں بے نام مغل شہزادے کی حیثیت سے انتقال کر جاؤں یا پھر میں شہزادہ محی الدین سے اورنگزیب عالمگیر بن جاؤں‘ اورنگزیب نے بھی اشوک کی طرح دوسرا آپشن چن لیا‘ اورنگزیب نے والد کو آگرہ کے قلعے میں بند کر دیا‘ اپنے بھائی داراشکوہ اور شجاع دونوں سے جنگ کی اور دونوں کو مروا دیا‘ بھائیوں کے بعد بھتیجوں اور بھانجوں کی باری آئی‘ اس نے انھیں قلعے میں بند کر دیا‘ یہ وہاں بھنگ پی پی کر مر گئے۔
اورنگزیب نے اس کے بعد ہندوستان فتح کرنا شروع کیا‘ یہاں تک کہ تاریخ اسے عالمگیر کا نام دینے پر مجبور ہو گئی‘ انگریز چوتھی طاقت تھی جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ انگریزوں کی کامیابی کی پانچ بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کے ’’خاندانی اصول‘‘ تھے‘ ملکہ نے قانون بنایا تھا ہندوستان آنے والا کوئی برطانوی سرکاری ملازم اپنے خاندان کے کسی فرد کو یہاں ’’سیٹل‘‘ نہیں کروا سکتا تھا‘ انگریز ڈی سی مقامی لوگوں کو سو مربع زمین الاٹ کر سکتا تھا مگر یہ اپنے اور اپنے خاندان کو ایک مرلہ زمین نہیں دے سکتا تھا‘ برطانیہ کے ہر سرکاری ملازم پر لازم تھا وہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد برطانیہ واپس جائے گا‘ وہ ہندوستان میں رہائش پذیر نہیں ہو سکے گا‘ انگریز اہلکار دوران ملازمت اپنے والد‘ بھائیوں‘ بہنوں اور بھتیجوں‘ بھانجوں کو چھ ماہ سے زیادہ یہاں نہیں رکھ سکتے تھے چنانچہ یہ انگریز عزت کے ساتھ پورے ہندوستان پر حکومت کر کے 1947ء میں واپس چلے گئے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے‘ یہ ہماری ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ آپ لیڈر شپ سے لے کر بزنس مین‘ صنعت کار‘ سرکاری ملازموں‘ کھلاڑیوں اور خوشحال لوگوں تک ملک کے مختلف کامیاب لوگوں کے پروفائل نکال لیجیے‘ آپ کو ننانوے فیصد لوگ اپنے خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے نظر آئیں گے‘ لیڈروں کی لیڈر شپ کو ان کے بھائی کھا جاتے ہیں‘ بہنوئی تباہ کر دیتے ہیں‘ سالے اڑا دیتے ہیں یا پھر بھانجے‘ بھتیجے اور کزن برباد کر دیتے ہیں‘ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں 22 بڑے صنعتی اور کاروباری گروپ تھے۔
آج 40 سال بعد ان میں سے کوئی گروپ باقی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تمام صنعتی گروپ بھائیوں‘ بہنوئیوں‘ سالوں‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی جنگ میں تباہ ہو گئے‘ آپ اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں‘ آپ نے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو ترقی کرتے دیکھا ہو گا‘ آپ نے پھر ان لوگوں کو تباہ ہوتے بھی دیکھا ہو گا‘ آپ نے ان کی دکانیں‘ گودام‘ کارخانے اور فارم ہاؤس بکتے بھی دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ یقینا خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوئے ہوں گے‘ انھوں نے نکمے رشتے داروں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کرسی پر بٹھا دیا ہو گا یا کروڑوں کا کاروبار اپنے نکھٹو‘ سست اور بے وقوف بچوں کے حوالے کر دیا ہو گا اور یوں وہ ڈیوڑھی جس میں ہاتھی جھومتے تھے وہاں خاک اڑنے لگی‘ آپ بیوروکریٹس کو بھی دیکھ لیجیے‘ یہ بے چارے دیہاتی علاقوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ سی ایس ایس کرتے ہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے ہیں اور پھر باقی زندگی بھائی‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی ضمانتیں کرواتے رہتے ہیں۔
یہ خاندان کو ’’سیٹل‘‘ کرواتے کرواتے خود جیل پہنچ جاتے ہیں یا پھر کرپشن کی دلدل میں دفن ہو جاتے ہیں اور ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ بے چارے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر ’’پچ‘‘ پر پہنچتے ہیں مگر پیچھے سے بھائی صاحب ’’بکی‘‘ سے آؤٹ ہونے کے کروڑ روپے پکڑ لیتے ہیں‘ ہمارا دوسرا المیہ سماجی بوجھ ہے‘ ہم میں سے کوئی ایک شخص ایڑھیاں رگڑ کر خوش حالی کے دروازہ تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد پورا خاندان اپنی خواہشوں کی گٹھڑیاں اس کے سر پر رکھ دیتا ہے‘ نانی بیمار ہو یا پھوپھی کا دیور۔ علاج بہر حال بھائی صاحب ہی کروائیں گے‘ حالانکہ بچہ پاس ہو جائے تو ذمے داری یہ اٹھائے گا‘ فیل ہو جائے تو بھی ذمے دار یہ ہو گا‘ کوئی باہر جا رہا ہے تو سیٹ بک کروانے کی ذمے داری یہ اٹھائے گا۔
کوئی آ رہا ہے تو اسے ائیر پورٹ سے پک یہ کرے گا‘ یہ بے چارہ یہ ذمے داریاں نبھا بھی لیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ ترقی کرنے والے ہر شخص کو بڑا دل اور بڑا حوصلہ دیتا ہے لیکن یہ بیچارہ طعنوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا‘ دنیا میں پیچھے رہ جانے والے لوگ ’’شکایتی مراکز‘‘ ہوتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر سیکڑوں ہزاروں شکایتیں چپکی ہوتی ہیں‘ یہ شکایتی مرکز جب اس شخص کو شکایات کے تیروں سے چھلنی کرتے ہیں تو اس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے اور یہ وہ وجہ ہے جس کی بدولت ہمارے ملک میں کامیاب لوگوں کی اوسطاً عمر 55 سال ہوتی ہے‘ یہ دنیا سے اس وقت رخصت ہو جاتے ہیں جب دنیا کے کامیاب لوگ خود کو جوان سمجھنا شروع کرتے ہیں۔
آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کی فہرست بنائیں‘ آپ بل گیٹس کو دیکھئے‘ وارن بفٹ اور کارلوس سلم کی مثال لیجیے‘ آپ صدر باراک حسین اوباما کو دیکھئے‘ آپ کبھی ان لوگوں کے خاندان کو ان کے قریب نہیں دیکھیں گے‘ آپ کو کبھی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ابا جی‘ بھائی‘ بہن‘ بہنوئی اور سالے کی زیارت نہیں ہو گی‘ آپ ان کے بھانجوں اور بھتیجوں کے نام سے واقف نہیں ہوں گے‘ آپ کبھی اوبامہ کو اپنے بھتیجوں‘ بھانجوں سے ملاقات کرتے نہیں دیکھیں گے‘ خاندان سے یہ دوری ان کی کامیابی کی بڑی وجہ ہوتی ہے‘ کامیاب لوگوں کی کامیابی کی چھ بڑی وجوہات ہوتی ہیں اور ان وجوہات میں سے ایک وجہ اچھی اور اہل ٹیم ہوتی ہے‘ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسے ہوئے لوگ ٹیم کی بجائے خاندان کو کھپانے میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ سیل ڈیپارٹمنٹ بڑے بھائی دیکھیں گے‘ پرچیزنگ چھوٹے بھائی کا کام ہو گا‘ اکاؤنٹس بہنوئی کے پاس ہونگے۔
مارکیٹنگ سالہ صاحب کریں گے اور کمپنی کا وکیل خالہ کا بیٹا ہو گا اور رہ گئے کارخانے کے ورکر تو یہ بھی برادری‘ قبیلے اور گاؤں سے لیے جائیں گے اور جائیداد! جی ہاں یہ اباجی یا امی جی تقسیم کریں گی اور یوں خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو ’’سیٹل‘‘ کرنے کی کوشش میں کاروبار کا بیڑہ غرق ہو جائے گا جب کہ ہمارے مقابلے میں بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ کارلوس سلم‘ صدر اوبامہ اور اینجلا مرکل ملک سے اہل ترین لوگ جمع کریں گے‘ یہ لوگ کام کریں گے تو یہ ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے‘ یہ کام نہیں کریں گے تو یہ انھیں سلام کر کے فارغ کر دیں گے اور ان کی جگہ نئے لوگ آ جائیں گے یوں کمپنی اور پارٹی کامیاب ہو جائے گی۔
ہماری سیاست کا بھی یہی المیہ ہے ذوالفقار علی بھٹو اپنی صاحبزادی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے‘ بھٹو صاحب کی اس خواہش نے پورا خاندان تباہ کر دیا‘ آصف علی زرداری نے 19 سال کے بچے کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا‘ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی اور اب میاں نواز شریف بھی ملک کے ہیوی مینڈیٹ کو خاندان تک رکھنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو دس ہزار سال کی تاریخ میں اس خطے کے کامیاب لوگوں کا ہو رہا ہے‘ یہ بھی خاندان کو بناتے بناتے خود بکھر جائیں گے‘ یہ کمبل کا بندوبست کرتے رہ جائیں گے اور خاندان دری کھینچ لے گا اور ہیوی مینڈیٹ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔
4 notes
·
View notes
Text
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ؒ فرقہ پرستوں کو کیوں کھٹکتے ہیں ؟
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ؒ فرقہ پرستوں کو کیوں کھٹکتے ہیں ؟
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ؒ فرقہ پرستوں کو کیوں کھٹکتے ہیں ؟ ازقلم:شہاب مرزا 9595024421 اورنگزیب عالمگیر رح ایک نام جو بھارتی سیاست اور تعصب پسندوں کو چبھتا ہے اورنگزیب عالمگیر کو متعصب اور تنگ نظر کہنے والے فاضل مورخین اور یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات بھول جاتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں مندروں اور گردواروں کو جتنی جاگیر دی گئی شاید ہی کسی اور راجا مہاراجہ کہ دور حکومت میں دی گئی ہو انگریز…
View On WordPress
0 notes
Text
سچے دل سے
سچے دل سے
اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی۔ اورنگ زیب میں بے شمار خوبیاں تھیں لیکن دو خوبیاں زیادہ نمایاں تھیں۔ اس کی پہلی خوبی ایمانداری تھی‘ وہ اپنے ذاتی اخراجات قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر پورے کرتا تھا اور اس کی دوسری خوبی اس کی یادداشت تھی۔ وہ ہزاروں لوگوں کوان کی شکل اور آواز سے پہچان جاتا تھا۔ ایک بار ایک بہروپیے نے اورنگزیب عالمگیر سے شرط لگائی کہ جناب اگر میں آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاﺅں تو آپ
مجھے کیا دیں گے۔ بادشاہ نے کہا ”جو تم چاہو‘ تمہیں مل جائے گا“ وہ بہروپیا چلا گیا چند ماہ بعد وہ تاجر بن کر دربار
میں داخل ہوا‘ بادشاہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ دو تین سال بعد وہ سفیر بن کر دربار میں آیا‘ بادشاہ نے اسے اس بار بھی پہچان لیا۔ وہ دربار سے نکلا‘ حیدرآباد‘ دکن گیا اور وہاں ایک پہاڑ پر دریش بن کر بیٹھ گیا۔ وہ سارا سارا دن‘ ساری ساری رات عبادت کرتا رہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ پورے علاقے میں درویش مشہور ہو گیا۔ شروع میں علاقے کے لوگ اس کے پاس آنے لگے‘ پھر حیدر آباد کے امراءاس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر دلی کے دربار کے وزراءوہاں آنے لگے اور ایک دن اورنگ زیب عالمگیر بھی اس کی کٹیا میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ اس کی شخصیت سے اتنا مرعوب ہو گیا کہ وہ اس کے پاﺅں میں بیٹھ گیا۔ بہروپیے نے بادشاہ کو پاﺅں میں بیٹھا دیکھا تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب آپ نے مجھے پہچانا‘ اورنگ زیب بولا ”نہیں“ بہروپیا بولا ”جناب میں وہی بہروپیا ہوں اور آپ شرط ہار چکے ہیں“
بادشاہ نے اپنی ناکامی تسلیم کی اور اس سے کہا ”ہاں اب تم مانگو کیا مانگتے ہو“ بہروپیے نے عرض کیا ”جناب میں جھوٹے منہ سے اللہ کا نام لیتا تھا‘ اللہ نے میرے فریب کو بھی اتنی اہمیت دی کہ آج آپ میرے قدموں میں بیٹھے ہیں‘ میں اگر سچے دل سے اپنے اللہ کو یاد کروں تو آپ تصور کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے کیا کیا نہیں دے گا“۔ بہروپیے نے یہ کہا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور جنگل میں نکل گیا۔ ہمارے حکمران‘ ہمارے سیاستدان جھوٹے منہ سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور عوام دونوں ان جھوٹے وعدوں کے باوجود انہیں اقتدار کے تخت پر بیٹھا دیتے ہیں۔ کاش یہ لوگ ایک بار یہ سوچ لیں کہ ہم لوگ اگر سچے دل سے عوام سے وعدے کریں اور ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کس قدر نواز دے گا۔ کاش یہ لوگ ایک لمحے کیلئے یہ جان لیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والا سر انسان کو ہر بت اور ہربت کی دہلیز سے آزاد کردیتا ہے۔ کاش یہ لوگ ایک بار صرف ایک بار سچے دل سے عوام کی خدمت کریں مجھے یقین ہے اس ملک میں کوئی طاقت ان کے اقتدار سے ٹکرانے کی جرات نہیں کرے گی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2DARRN0 via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
سچے دل سے
سچے دل سے
اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی۔ اورنگ زیب میں بے شمار خوبیاں تھیں لیکن دو خوبیاں زیادہ نمایاں تھیں۔ اس کی پہلی خوبی ایمانداری تھی‘ وہ اپنے ذاتی اخراجات قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر پورے کرتا تھا اور اس کی دوسری خوبی اس کی یادداشت تھی۔ وہ ہزاروں لوگوں کوان کی شکل اور آواز سے پہچان جاتا تھا۔ ایک بار ایک بہروپیے نے اورنگزیب عالمگیر سے شرط لگائی کہ جناب اگر میں آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاﺅں تو آپ
مجھے کیا دیں گے۔ بادشاہ نے کہا ”جو تم چاہو‘ تمہیں مل جائے گا“ وہ بہروپیا چلا گیا چند ماہ بعد وہ تاجر بن کر دربار
میں داخل ہوا‘ بادشاہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ دو تین سال بعد وہ سفیر بن کر دربار میں آیا‘ بادشاہ نے اسے اس بار بھی پہچان لیا۔ وہ دربار سے نکلا‘ حیدرآباد‘ دکن گیا اور وہاں ایک پہاڑ پر دریش بن کر بیٹھ گیا۔ وہ سارا سارا دن‘ ساری ساری رات عبادت کرتا رہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ پورے علاقے میں درویش مشہور ہو گیا۔ شروع میں علاقے کے لوگ اس کے پاس آنے لگے‘ پھر حیدر آباد کے امراءاس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر دلی کے دربار کے وزراءوہاں آنے لگے اور ایک دن اورنگ زیب عالمگیر بھی اس کی کٹیا میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ اس کی شخصیت سے اتنا مرعوب ہو گیا کہ وہ اس کے پاﺅں میں بیٹھ گیا۔ بہروپیے نے بادشاہ کو پاﺅں میں بیٹھا دیکھا تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب آپ نے مجھے پہچانا‘ اورنگ زیب بولا ”نہیں“ بہروپیا بولا ”جناب میں وہی بہروپیا ہوں اور آپ شرط ہار چکے ہیں“
بادشاہ نے اپنی ناکامی تسلیم کی اور اس سے کہا ”ہاں اب تم مانگو کیا مانگتے ہو“ بہروپیے نے عرض کیا ”جناب میں جھوٹے منہ سے اللہ کا نام لیتا تھا‘ اللہ نے میرے فریب کو بھی اتنی اہمیت دی کہ آج آپ میرے قدموں میں بیٹھے ہیں‘ میں اگر سچے دل سے اپنے اللہ کو یاد کروں تو آپ تصور کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے کیا کیا نہیں دے گا“۔ بہروپیے نے یہ کہا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور جنگل میں نکل گیا۔ ہمارے حکمران‘ ہمارے سیاستدان جھوٹے منہ سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور عوام دونوں ان جھوٹے وعدوں کے باوجود انہیں اقتدار کے تخت پر بیٹھا دیتے ہیں۔ کاش یہ لوگ ایک بار یہ سوچ لیں کہ ہم لوگ اگر سچے دل سے عوام سے وعدے کریں اور ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کس قدر نواز دے گا۔ کاش یہ لوگ ایک لمحے کیلئے یہ جان لیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والا سر انسان کو ہر بت اور ہربت کی دہلیز سے آزاد کردیتا ہے۔ کاش یہ لوگ ایک بار صرف ایک بار سچے دل سے عوام کی خدمت کریں مجھے یقین ہے اس ملک میں کوئی طاقت ان کے اقتدار سے ٹکرانے کی جرات نہیں کرے گی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2DARRN0 via India Pakistan News
0 notes
Text
تیزی کیساتھ صحت یابی کی جانب گامزن ہوں: مریم نواز شریف
تیزی کیساتھ صحت یابی کی جانب گامزن ہوں: مریم نواز شریف
لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ عالمگیر موذی وباءکورونا وائرس کو شکست دیتے ہوئے تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مریم نواز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارف کی جانب سے اپنی صحت سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’الحمد اللہ، صحت یابی کی جانب گامزن ہوں۔‘
On the mend, Alhamdolillah ???????? https://t.co/TqOtTdV3kW
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) August 2, 2021
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر مریم نواز کے کورونا میں مبتلا ہونے کے حوالے سے بتایا تھا۔ مریم اورنگزیب نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ مریم نواز شریف کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے جس کے بعد انہوں نے خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔
Source link
0 notes
Text
سچے دل سے
سچے دل سے
اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی۔ اورنگ زیب میں بے شمار خوبیاں تھیں لیکن دو خوبیاں زیادہ نمایاں تھیں۔ اس کی پہلی خوبی ایمانداری تھی‘ وہ اپنے ذاتی اخراجات قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر پورے کرتا تھا اور اس کی دوسری خوبی اس کی یادداشت تھی۔ وہ ہزاروں لوگوں کوان کی شکل اور آواز سے پہچان جاتا تھا۔ ایک بار ایک بہروپیے نے اورنگزیب عالمگیر سے شرط لگائی کہ جناب اگر میں آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاﺅں تو آپ
مجھے کیا دیں گے۔ بادشاہ نے کہا ”جو تم چاہو‘ تمہیں مل جائے گا“ وہ بہروپیا چلا گیا چند ماہ بعد وہ تاجر بن کر دربار
میں داخل ہوا‘ بادشاہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ دو تین سال بعد وہ سفیر بن کر دربار میں آیا‘ بادشاہ نے اسے اس بار بھی پہچان لیا۔ وہ دربار سے نکلا‘ حیدرآباد‘ دکن گیا اور وہاں ایک پہاڑ پر دریش بن کر بیٹھ گیا۔ وہ سارا سارا دن‘ ساری ساری رات عبادت کرتا رہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ پورے علاقے میں درویش مشہور ہو گیا۔ شروع میں علاقے کے لوگ اس کے پاس آنے لگے‘ پھر حیدر آباد کے امراءاس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر دلی کے دربار کے وزراءوہاں آنے لگے اور ایک دن اورنگ زیب عالمگیر بھی اس کی کٹیا میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ اس کی شخصیت سے اتنا مرعوب ہو گیا کہ وہ اس کے پاﺅں میں بیٹھ گیا۔ بہروپیے نے بادشاہ کو پاﺅں میں بیٹھا دیکھا تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب آپ نے مجھے پہچانا‘ اورنگ زیب بولا ”نہیں“ بہروپیا بولا ”جناب میں وہی بہروپیا ہوں اور آپ شرط ہار چکے ہیں“
بادشاہ نے اپنی ناکامی تسلیم کی اور اس سے کہا ”ہاں اب تم مانگو کیا مانگتے ہو“ بہروپیے نے عرض کیا ”جناب میں جھوٹے منہ سے اللہ کا نام لیتا تھا‘ اللہ نے میرے فریب کو بھی اتنی اہمیت دی کہ آج آپ میرے قدموں میں بیٹھے ہیں‘ میں اگر سچے دل سے اپنے اللہ کو ��اد کروں تو آپ تصور کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے کیا کیا نہیں دے گا“۔ بہروپیے نے یہ کہا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور جنگل میں نکل گیا۔ ہمارے حکمران‘ ہمارے سیاستدان جھوٹے منہ سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور عوام دونوں ان جھوٹے وعدوں کے باوجود انہیں اقتدار کے تخت پر بیٹھا دیتے ہیں۔ کاش یہ لوگ ایک بار یہ سوچ لیں کہ ہم لوگ اگر سچے دل سے عوام سے وعدے کریں اور ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کس قدر نواز دے گا۔ کاش یہ لوگ ایک لمحے کیلئے یہ جان لیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والا سر انسان کو ہر بت اور ہربت کی دہلیز سے آزاد کردیتا ہے۔ کاش یہ لوگ ایک بار صرف ایک بار سچے دل سے عوام کی خدمت کریں مجھے یقین ہے اس ملک میں کوئی طاقت ان کے اقتدار سے ٹکرانے کی جرات نہیں کرے گی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2DARRN0 via Today Urdu News
0 notes
Text
ایک بہروپیے نے اورنگزیب عالمگیر سے شرط لگائی
ایک بہروپیے نے اورنگزیب عالمگیر سے شرط لگائی
اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی۔ اورنگ زیب میں بے شمار خوبیاں تھیں لیکن دو خوبیاں زیادہ نمایاں تھیں۔ اس کی پہلی خوبی ایمانداری تھی‘ وہ اپنے ذاتی اخراجات قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر پورے کرتا تھا اور اس کی دوسری خوبی اس کی یادداشت تھی۔ وہ ہزاروں لوگوں کوان کی شکل اور آواز سے پہچان جاتا تھا۔ ایک بار ایک بہروپیے نے اورنگزیب…
View On WordPress
0 notes