#لیکن میرے سکون کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا، یہ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو میرے دل کے بہت قریب ہیں
Explore tagged Tumblr posts
Text
.
#پتہ نہیں لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ دوسروں کے سکون کو ترجیح دیتا ہوں ک کوئی میری وجہ سے کسی بے چینی سے دو چار نہ ہو#لیکن میرے سکون کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا، یہ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو میرے دل کے بہت قریب ہیں#یہی ایک وجہ مجھے مجبور کرتی ہے کہ کسی کو بھی اپنے اور اپنے دل کے قریب نہ آنے دوں#لوگ بدل جاتے ہیں، بھول جاتے ہیں، پر میرے لیے اداس رہنے کی ایک اور وجہ بن جاتی ہے#نا جانے کون سا دکھ، کون سا رنج، کون سا غم میرے دل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
11 notes
·
View notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Urdu News
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Today Pakistan
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر ط��ی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Daily Khabrain
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Today Urdu News
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Urdu News
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Urdu News
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via India Pakistan News
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟جانئے حیران کن معلومات
امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔
روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے
اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ
مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو
میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟
پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن
میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KAE1jS via Daily Khabrain
0 notes
Text
مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے
برقعے میں ملبوس خاتون نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا جی فرمائیے !میں نے نہایت شائستگی سے کہا میرے پاس وقت بہت کم ہے وہ لوگ مجھے مار دینا چاہتے ہیں ،کون لوگ آپ کو مار دینا چاہتے ہیں ؟ میں نے نہایت نرمی سے پوچھا.اب اس کا وقت گزر چکا وہ بہت جلد مجھ تک پہنچ جائیں گے میں آپ کو کچھ اہم باتیں بتانا چاہتی ہو ںبراہ مہربانی ان باتوں کو غور سے سنیں اور
اسے امانت سمجھ کر آگے بڑھا دیجیے گا . جی !فرمائیے میں نے اُن سے کہایہ میری زندگی کی داستان ہے میں نے صوم و صلوۃ کے ایک پاکیزہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی میری تربیت مکمل ایک مشرقی ماحول میں ہوئی وقت گزرتا یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی
،عام مسلم گھرانوں وقت گزرتا یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی ،عام مسلم گھرانوں کی طرح ہی ہمارا خاندان تھا نہ زیادہ مذہبی ا ورنہ زیادہ ماڈرن میٹرک کے امتحان کے بعد کالج جانے لگی تو گھر میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود تھی جلد ہی فیس بک پر دانش نامی ایک لڑکے سے محبت ہوگئی . کالج کے بہانے ریسٹورینٹس میں ملاقاتیں طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئیں دانش بلاشبہ ان وجیہ لڑکوں میں شمار ہوتا تھا جن پر کوئی بھی لڑکی مر مٹے .آہستہ آہستہ دانش مجھے اپنے دوستوں جن میں مردو خواتین دونوں شامل تھا ملوانے لگا گاڑی بنگلہ اور اونچے خواب جو میں نے دیکھے تھے
دانش کے پاس میرے ہر خواب کی تعبیر تھی اونچے اسٹیٹس کا بخار مجھے بھی چڑھ چکا تھا اپنے گھر کا ماحول مجھے دقیانوسی سالگنے لگا تھانقاب سے مجھے الجھن ہوتی تھی.جب میں پہلی دفعہ عبایا میں دانش کے دوستوں سے ملی تو مجھے اپنا آپ بہت میلا سا دکھائی دیا اس کے بعد میں گھر سے تو عبایا پہن کر جاتی لیکن نقاب لینا چھوڑ دیا تھا اور امی نے پوچھا تو میں نے کہا مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور امی میرے اس بہانے سے مطمئن ہو گئیں .دانش کے دوستوں سے جب میں ملنے جاتی تو عبایا دانش ہی کی گاڑی میں اتار پھینکتی تھی وقت کی گاڑی گزرتی رہی ،میں دانش سے شادی کے لیے کہنا چاہتی تھی مگر اس کا طرزِ عمل بہت عجیب تھا وہ مجھے ایک دوست کی حیثیت سے ٹریٹ کررہا تھا .میرا حلقہ احباب دانش کے توسط سے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور پھر اسی سول سوسائیٹی میں میری ملاقات نوید سے ہوئی اور آہستہ آہستہ میں دانش سے دور اور نوید سے قریب ہوتی چلی گئی اور پھر یہ ماڈرن صحبت رنگ لائی اور میں نے نے حدود و قیود کو توڑ ڈالا
میں نے اپنے اللہ کا ناراض کر دیا .لیکن اس وقت مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی میں خدا کا انکار کر چکی تھیاس دنیا میں کوئی خدا نہیں یہ کیسا خدا ہے جو لوگوں کو امیر غریب میں تقسیم کرتا ہے (معاذاللہ )اور ملحدین کے تمام افکار میرے دل و دماغ میں بس چکے تھے لبرل ازم کا نشہ سر پر سوار تھا . اس مصنوعی آزادی کی فضا میں سانس لینا بہت اچھا لگ رہا تھا نوید کے بعد پھر کوئی گنتی نہیں رہی میں مکمل ملحدہ ہو چکی تھی گھر بار کو خیر باد کہہ کر ایک اور دوست کے ساتھ اس کا کمرہ شئیر کر لیا تھا ان کی ایک آرگنائزیشن تھی .جس کا کام الحاد کی نشرو اشاعت تھی انہوں نے مجھے اس آرگنائزیشن میں ایک اچھا عہدہ دیا اچھی تنخواہ دی اور میں نے اس آرگنائزیشن میں رہتے ہوئے تقریبا تمام ہی دنیا کی سیر کی کبھی ہالینڈ ، کبھی انگلیڈ ، سنگا پور ، ترکی وہ کون سا ملک ہوگا جو میں نے نہیں دیکھا ہو اس آرگنائزیشن کے تحت ہی میں نے متعد دحقوقِ نسواں کانفرنسز کرائیں اور خود بھی شرکت کی . ان خواتین کو ہم اس بات پر بر انگیختہ کرتے تھے کہ
مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے .کسی کے گھر میں اگر کوئی معمولی خانگی مسئلہ ہوتاتو ایسی عورت تو ہمارا اولین شکار ہوتی بجائےاس کو سمجھانے کے ہم اس کو خوب ورغلاتے اور پھر طلاق کے بعد وہ ہماری اس بے حیا سوسائٹی کی ایک روشن خیال ممبر بن جاتی تھی ناجائز پیسہ اور عیاشی کی راہ میں ہمارا سب سے بڑا مخالف مذہب اور وہ بھی بالخصوص اسلام ہے ہم نے اپنے اس راستے کے کانٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیا نہ ہم خدا کو مانتے اور نہ ہی کسی اخلاقی شرم کو محسوس کرتے ہیں.مولویوں ،ڈاڑھی ، برقع اور اسلام پر تنقید میرا پسندیدہ موضوع تھا.اخلاقیات کو مجھ سے رخصت ہوئے زمانہ ہو چکا تھا اب تو میں یہ سوچتی تھی کہ ایک وہ لڑکی ہوتی تھی جو صبح فجر کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتی تھی رمضان کے روزے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی .میں آزاد تھی اب ،اور چاہتی تھی دنیا کی ہرلڑکی اس آزاد فضا میں سانس لے میں کسی لڑکی کو جینز اور شرٹ میں دیکھتی تو
بہت خوش ہوتیاور اس کو اپنی فتح قرار دیتی اور بر ملا کہتی تھی آج کی لڑکی بیدار ہو رہی ہے یہ اس دنیا کی خوبصورتی ہے اس چمن کی رونق اسی سے ہے میں دن بدن ان الحادیوں میں رہتے رہتے اخلاقیات کا ہر سبق بھول چکی تھی خواہشاتِ نفس میری زندگی کا اولین مقصد تھا سائنس میرا خدا اور آٓزادی میرا ایمان تھا گروپ ڈسکشن میں بے حیائی کی تمام حدود کو میں نے توڑا تھا .مجھے یاد ہے پہلی دفعہ جب گروپ میں ایک بے حیائی کے عنوان پر بات ہورہی تھی میں نے چاہاکہ اس عنوان پر ان باکس میں بات ہو تو میرے سینیئر نے مجھ سے کہامہمل ! تم مکمل ہو تمہیں شرمانا نہیں چاہیے اگر تم ایساکرو گی تو اور عام لوگ کیا کہیں گے اور پھر اس دن رہی سہی جھجھک بھی ختم ہو گئی میں اس آرگنائزیشن کی سب سے زیادہ فعال ممبر تھی میں نے کئی لڑکیوں کو اس آرگنائزیشن کا ممبر بنایا تھا گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں کے لیے ہماری آرگنائزیشن خصوصی سہولت فراہم کرتی تھی جب بھی کسی ایسی لڑکی کا ذکر ہوتا
آرگنائزیشن کے صدر خصوصی دلچسپی لے کر اس معاملے کو ہینڈل کرتےتھے اور یہ مجھے ہی معلوم تھا کہ وہ ایساکیوں کرتے ہیں. وقت تیز رفتار طائر کی طرح اڑتا رہا اور پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب میری جانب توجہ کم ہو گئی ہے آرگنائزیشن میں کئی عہدے اور نکل گئے جہاں کئی اور خوبصورت لڑکیاں آچکی تھی میری جوانی کی رعنائیاں ختم ہو رہی تھی لیکن میں اس آرگنائزیشن کے تمام رازوں سے واقف تھی.پھر اب تو ویسے بھی حقوقِ نسواں کی بڑی بڑی کانفرنسز میں میری شرکت لازم و ملزوم کی تھی میرا ایک نام تھا روشن خیال ، لبرل سوسائیٹیز میں لوگ میری مثالیں دیا کرتے تھے .پھر میری ملاقات ایک دن ائیر پورٹ کے لاؤنج میں ایسی لڑکی سے ہوئی جو نقاب میں موجود تھمیں اسے اپنا اگلا شکار قرار دے کر اس سے بہت محبت سے ملی اس نے مجھےایک نظر دیکھا اور کہا مہمل ! زندگی کی ہر چیز تمہاری تھی تمہارے لیے ہی بنی تھی یہ خوشیاں جن کی تلاش میں تم یہاں تک پہنچی ہو تمہارا نصیب تھیں .بہت جلدی کی تم نے ،دنیا تو تباہ کی ہی اور آخرت بھی برباد کر لی واٹ نان سینس ؟میں نے غصے میں کہا تم ہو کون ؟
اگلے ہی لمحے میرے دماغ نے اس کی آواز کو پہچان لیا تم ربیعہ تو نہیں ہو؟ہاں، مہمل !میں ربیعہ ہی ہوں تم نے درست پہچانا .میرے سامنے میری بچپن کی سہیلی ربیعہ تھی میری پڑوسن ہمارا بچپن ساتھ ساتھ گزرا تھا میں اسے اس طرح اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئی یہاں کیسے آنا ہوا ؟میں نے ربیعہ سے پوچھا تو معلوم ہو ا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس پاکستان جا رہی تھی .امی کیسی ہیں ربیعہ ! سب لوگ کیسے ہیں میں نے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے لے کر پوچھا میری آنکھوں نے چھلکنا شروع کر دیا تھا .تمہارے والد تمہارے غم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے بہنوں کی شادی ہوگئی وہ تمہیں ایسے بھول گئے جیسے کہ تم کبھی تھی ہی نہیں اور خدارا ! اب ان کی پر سکون زندگی کو جاکر دوبارہ کسی طوفان سے آشنا نہ کر دینا اُن کے لیے تم مر چکی ہو . بس ایک تمہاری ماں ہے جو ایک اُمید سی رکھتی ہے تم سے کہ
تم ضرور پلٹو گی وہ کہتی ہیں میں نے نعتوں کی لوری دے کر اسے پالا ہے اسے میں جب دودھ پلاتی تھی تو درود شریف کا ورد میری زبان پر ہوتا تھا میری بیٹی ملحدہ کیسے ہو سکتی ہے بس ان کی بوڑھی آنکھوں میں آج بھی اُمید کی کرن ہے .مہمل ! یہ جو تمہارے ساتھ ہیں یہ سب درندے ہیں یہ عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنا چاہتے ہیں یہ عزت اور غیرت کو الحاد کی شراب پلا کر مدہوش کردیتے ہیں .وش مہمل ! ایک عام عورت تک پہنچنا کسی بھی لبرل درندے کے لیے مشکل کام ہے لیکن تم تک یہ باآسانی پہنچ سکتے ہیں آزادی کے نام پر .میں جانتی ہو ں ربیعہ! مجھ سے بہتر انہیں کون جانتا ہوگا یہ یہودیوں کے لیے کام کرتے ہیں ان کا کام بس اسلام کے خلاف بکواس کرنا ہوتا ہے ان کے فیس بک پیج پر مذہب کی مخالفت سب سے زیادہ اسلام کی ہوتی ہے یہودیت کی تو صرف دکھاوے کے طور پر مخالفت ہوتی ہے اصل ہدف ان کا اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ ہیں .یہاں آنے والی لڑکیوں کو دوسرے ممالک میں وزٹ ایسے ہی نہیں کرائے جاتے
ان سے بزنس کرایا جاتا ہے اور الحاد کی شراب انہیں مدہوش رکھتی ہے پیسہ ،سیرو تفریح ان کی بنیادی ضروریات سے لے کر عیش و عشرت کے تمام سامان انہیں مہیا کیے جاتے ہیں.اور پھر انہی لڑ کیوں کو مسلم لڑکوں کے لیے کانٹے کا چارہ بنا یا جاتا ہے . ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ربیعہ کے شوہر علم الدین بھی آگئے آج تک مجھے ڈاڑھی سے سخت نفرت تھی ہمیشہ ہی ڈاڑھی پر شدید تنقید کی آج اس باوقار انسان کو دیکھ کراپنی رائے تبدیل کر لی علم الدین نے مجھے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا میں مردوں کی فطرت سے بخوبی آگاہ تھی علم الدین کو عورت کی عزت کرنا آتی تھی اور عورتوں کی عزت کرنا اسلام نے ہی تو سکھایا تھاورنہ ان روشن خیالوں نےتو عورت کو مال تجارت بنا دیا ہےمہمل! دیر نہیں ہوئی واپس پلٹ جاؤ! سچی توبہ کر لو وہ بہت پیارا ہے وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے تمہارے لیے راہیں کھول دے گا تم واپس آجاؤکہیں بہت دیر نہ ہو جائے اور میں اس دن اس کے کندھے سے لگ کر بہت روئی .میرے اندر آنے والی تبدیلی کو جلد ہی میری آرگنائزیشن نے نوٹ کر لیا اور ایک دن میں نے جذبات میں آکر ان کو خوب سُنائی میں نے ان سے کہا
تم ہی وہ ظالم ہو جنہوں نے میرے بچپن کو پامال کیا تم ساری زندگی میری قیمت وصول کرتے رہے ،تم وحشی ہو درندے ہو انسانیت کے دشمن تم ہو اسلام نہیں ،میں بہت برے طریقے سے چیخ رہی تھی .مہمل ! تمہیں کیا ہو گیا ہے تم پاگل تو نہیں ہو گئیں پھر مجھے بے ہوشی کاانجیکشن لگاکر ایک کمرے میں قید کر دیا گیا آج وہاں سے جان بچا کر نکلی ہوں.خدارا ! آپ یہ میسیج ہر لڑکی تک پہنچا دیجیے گا ہر گھر تک پہنچا دیجیے گاتمہاری عزت کا سائبان تمہارا اسلام ہے تم جس آزادی کو دیکھتی ہو وہ آزادی نہیں ایک قید ہے دنیا کی بھی قید اور آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی قید وہ باپ جو تمہارے لیے کماتا ہے وہ بھائی جو تمہاری عزت کا رکھوالا ہے وہ شوہر جس کی مملکت کی تم ملکہ ہو تمہاری جنت تمہارے بچے ہیں تم آزاد ہو خدارا ! اس قید کا شکار نہ ہونا یہ باہر سے بہت خوب صورت ہے لیکن اندر سے بہت گندی ،گھناؤنی ہے .یہ پیغام آپ کے پاس ایک امانت ہے اس کو دوسروں تک پہنچا دیجیے گا اور مہمل چلی گئی
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2TU9VMy via Urdu News
0 notes
Text
مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے
برقعے میں ملبوس خاتون نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا جی فرمائیے !میں نے نہایت شائستگی سے کہا میرے پاس وقت بہت کم ہے وہ لوگ مجھے مار دینا چاہتے ہیں ،کون لوگ آپ کو مار دینا چاہتے ہیں ؟ میں نے نہایت نرمی سے پوچھا.اب اس کا وقت گزر چکا وہ بہت جلد مجھ تک پہنچ جائیں گے میں آپ کو کچھ اہم باتیں بتانا چاہتی ہو ںبراہ مہربانی ان باتوں کو غور سے سنیں اور
اسے امانت سمجھ کر آگے بڑھا دیجیے گا . جی !فرمائیے میں نے اُن سے کہایہ میری زندگی کی داستان ہے میں نے صوم و صلوۃ کے ایک پاکیزہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی میری تربیت مکمل ایک مشرقی ماحول میں ہوئی وقت گزرتا یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی
،عام مسلم گھرانوں وقت گزرتا یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی ،عام مسلم گھرانوں کی طرح ہی ہمارا خاندان تھا نہ زیادہ مذہبی ا ورنہ زیادہ ماڈرن میٹرک کے امتحان کے بعد کالج جانے لگی تو گھر میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود تھی جلد ہی فیس بک پر دانش نامی ایک لڑکے سے محبت ہوگئی . کالج کے بہانے ریسٹورینٹس میں ملاقاتیں طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئیں دانش بلاشبہ ان وجیہ لڑکوں میں شمار ہوتا تھا جن پر کوئی بھی لڑکی مر مٹے .آہستہ آہستہ دانش مجھے اپنے دوستوں جن میں مردو خواتین دونوں شامل تھا ملوانے لگا گاڑی بنگلہ اور اونچے خواب جو میں نے دیکھے تھے
دانش کے پاس میرے ہر خواب کی تعبیر تھی اونچے اسٹیٹس کا بخار مجھے بھی چڑھ چکا تھا اپنے گھر کا ماحول مجھے دقیانوسی سالگنے لگا تھانقاب سے مجھے الجھن ہوتی تھی.جب میں پہلی دفعہ عبایا میں دانش کے دوستوں سے ملی تو مجھے اپنا آپ بہت میلا سا دکھائی دیا اس کے بعد میں گھر سے تو عبایا پہن کر جاتی لیکن نقاب لینا چھوڑ دیا تھا اور امی نے پوچھا تو میں نے کہا مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور امی میرے اس بہانے سے مطمئن ہو گئیں .دانش کے دوستوں سے جب میں ملنے جاتی تو عبایا دانش ہی کی گاڑی میں اتار پھینکتی تھی وقت کی گاڑی گزرتی رہی ،میں دانش سے شادی کے لیے کہنا چاہتی تھی مگر اس کا طرزِ عمل بہت عجیب تھا وہ مجھے ایک دوست کی حیثیت سے ٹریٹ کررہا تھا .میرا حلقہ احباب دانش کے توسط سے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور پھر اسی سول سوسائیٹی میں میری ملاقات نوید سے ہوئی اور آہستہ آہستہ میں دانش سے دور اور نوید سے قریب ہوتی چلی گئی اور پھر یہ ماڈرن صحبت رنگ لائی اور میں نے نے حدود و قیود کو توڑ ڈالا
میں نے اپنے اللہ کا ناراض کر دیا .لیکن اس وقت مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی میں خدا کا انکار کر چکی تھیاس دنیا میں کوئی خدا نہیں یہ کیسا خدا ہے جو لوگوں کو امیر غریب میں تقسیم کرتا ہے (معاذاللہ )اور ملحدین کے تمام افکار میرے دل و دماغ میں بس چکے تھے لبرل ازم کا نشہ سر پر سوار تھا . اس مصنوعی آزادی کی فضا میں سانس لینا بہت اچھا لگ رہا تھا نوید کے بعد پھر کوئی گنتی نہیں رہی میں مکمل ملحدہ ہو چکی تھی گھر بار کو خیر باد کہہ کر ایک اور دوست کے ساتھ اس کا کمرہ شئیر کر لیا تھا ان کی ایک آرگنائزیشن تھی .جس کا کام الحاد کی نشرو اشاعت تھی انہوں نے مجھے اس آرگنائزیشن میں ایک اچھا عہدہ دیا اچھی تنخواہ دی اور میں نے اس آرگنائزیشن میں رہتے ہوئے تقریبا تمام ہی دنیا کی سیر کی کبھی ہالینڈ ، کبھی انگلیڈ ، سنگا پور ، ترکی وہ کون سا ملک ہوگا جو میں نے نہیں دیکھا ہو اس آرگنائزیشن کے تحت ہی میں نے متعد دحقوقِ نسواں کانفرنسز کرائیں اور خود بھی شرکت کی . ان خواتین کو ہم اس بات پر بر انگیختہ کرتے تھے کہ
مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے .کسی کے گھر میں اگر کوئی معمولی خانگی مسئلہ ہوتاتو ایسی عورت تو ہمارا اولین شکار ہوتی بجائےاس کو سمجھانے کے ہم اس کو خوب ورغلاتے اور پھر طلاق کے بعد وہ ہماری اس بے حیا سوسائٹی کی ایک روشن خیال ممبر بن جاتی تھی ناجائز پیسہ اور عیاشی کی راہ میں ہمارا سب سے بڑا مخالف مذہب اور وہ بھی بالخصوص اسلام ہے ہم نے اپنے اس راستے کے کانٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیا نہ ہم خدا کو مانتے اور نہ ہی کسی اخلاقی شرم کو محسوس کرتے ہیں.مولویوں ،ڈاڑھی ، برقع اور اسلام پر تنقید میرا پسندیدہ موضوع تھا.اخلاقیات کو مجھ سے رخصت ہوئے زمانہ ہو چکا تھا اب تو میں یہ سوچتی تھی کہ ایک وہ لڑکی ہوتی تھی جو صبح فجر کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتی تھی رمضان کے روزے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی .میں آزاد تھی اب ،اور چاہتی تھی دنیا کی ہرلڑکی اس آزاد فضا میں سانس لے میں کسی لڑکی کو جینز اور شرٹ میں دیکھتی تو
بہت خوش ہوتیاور اس کو اپنی فتح قرار دیتی اور بر ملا کہتی تھی آج کی لڑکی بیدار ہو رہی ہے یہ اس دنیا کی خوبصورتی ہے اس چمن کی رونق اسی سے ہے میں دن بدن ان الحادیوں میں رہتے رہتے اخلاقیات کا ہر سبق بھول چکی تھی خواہشاتِ نفس میری زندگی کا اولین مقصد تھا سائنس میرا خدا اور آٓزادی میرا ایمان تھا گروپ ڈسکشن میں بے حیائی کی تمام حدود کو میں نے توڑا تھا .مجھے یاد ہے پہلی دفعہ جب گروپ میں ایک بے حیائی کے عنوان پر بات ہورہی تھی میں نے چاہاکہ اس عنوان پر ان باکس میں بات ہو تو میرے سینیئر نے مجھ سے کہامہمل ! تم مکمل ہو تمہیں شرمانا نہیں چاہیے اگر تم ایساکرو گی تو اور عام لوگ کیا کہیں گے اور پھر اس دن رہی سہی جھجھک بھی ختم ہو گئی میں اس آرگنائزیشن کی سب سے زیادہ فعال ممبر تھی میں نے کئی لڑکیوں کو اس آرگنائزیشن کا ممبر بنایا تھا گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں کے لیے ہماری آرگنائزیشن خصوصی سہولت فراہم کرتی تھی جب بھی کسی ایسی لڑکی کا ذکر ہوتا
آرگنائزیشن کے صدر خصوصی دلچسپی لے کر اس معاملے کو ہینڈل کرتےتھے اور یہ مجھے ہی معلوم تھا کہ وہ ایساکیوں کرتے ہیں. وقت تیز رفتار طائر کی طرح اڑتا رہا اور پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب میری جانب توجہ کم ہو گئی ہے آرگنائزیشن میں کئی عہدے اور نکل گئے جہاں کئی اور خوبصورت لڑکیاں آچکی تھی میری جوانی کی رعنائیاں ختم ہو رہی تھی لیکن میں اس آرگنائزیشن کے تمام رازوں سے واقف تھی.پھر اب تو ویسے بھی حقوقِ نسواں کی بڑی بڑی کانفرنسز میں میری شرکت لازم و ملزوم کی تھی میرا ایک نام تھا روشن خیال ، لبرل سوسائیٹیز میں لوگ میری مثالیں دیا کرتے تھے .پھر میری ملاقات ایک دن ائیر پورٹ کے لاؤنج میں ایسی لڑکی سے ہوئی جو نقاب میں موجود تھمیں اسے اپنا اگلا شکار قرار دے کر اس سے بہت محبت سے ملی اس نے مجھےایک نظر دیکھا اور کہا مہمل ! زندگی کی ہر چیز تمہاری تھی تمہارے لیے ہی بنی تھی یہ خوشیاں جن کی تلاش میں تم یہاں تک پہنچی ہو تمہارا نصیب تھیں .بہت جلدی کی تم نے ،دنیا تو تباہ کی ہی اور آخرت بھی برباد کر لی واٹ نان سینس ؟میں نے غصے میں کہا تم ہو کون ؟
اگلے ہی لمحے میرے دماغ نے اس کی آواز کو پہچان لیا تم ربیعہ تو نہیں ہو؟ہاں، مہمل !میں ربیعہ ہی ہوں تم نے درست پہچانا .میرے سامنے میری بچپن کی سہیلی ربیعہ تھی میری پڑوسن ہمارا بچپن ساتھ ساتھ گزرا تھا میں اسے اس طرح اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئی یہاں کیسے آنا ہوا ؟میں نے ربیعہ سے پوچھا تو معلوم ہو ا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس پاکستان جا رہی تھی .امی کیسی ہیں ربیعہ ! سب لوگ کیسے ہیں میں نے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے لے کر پوچھا میری آنکھوں نے چھلکنا شروع کر دیا تھا .تمہارے والد تمہارے غم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے بہنوں کی شادی ہوگئی وہ تمہیں ایسے بھول گئے جیسے کہ تم کبھی تھی ہی نہیں اور خدارا ! اب ان کی پر سکون زندگی کو جاکر دوبارہ کسی طوفان سے آشنا نہ کر دینا اُن کے لیے تم مر چکی ہو . بس ایک تمہاری ماں ہے جو ایک اُمید سی رکھتی ہے تم سے کہ
تم ضرور پلٹو گی وہ کہتی ہیں میں نے نعتوں کی لوری دے کر اسے پالا ہے اسے میں جب دودھ پلاتی تھی تو درود شریف کا ورد میری زبان پر ہوتا تھا میری بیٹی ملحدہ کیسے ہو سکتی ہے بس ان کی بوڑھی آنکھوں میں آج بھی اُمید کی کرن ہے .مہمل ! یہ جو تمہارے ساتھ ہیں یہ سب درندے ہیں یہ عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنا چاہتے ہیں یہ عزت اور غیرت کو الحاد کی شراب پلا کر مدہوش کردیتے ہیں .وش مہمل ! ایک عام عورت تک پہنچنا کسی بھی لبرل درندے کے لیے مشکل کام ہے لیکن تم تک یہ باآسانی پہنچ سکتے ہیں آزادی کے نام پر .میں جانتی ہو ں ربیعہ! مجھ سے بہتر انہیں کون جانتا ہوگا یہ یہودیوں کے لیے کام کرتے ہیں ان کا کام بس اسلام کے خلاف بکواس کرنا ہوتا ہے ان کے فیس بک پیج پر مذہب کی مخالفت سب سے زیادہ اسلام کی ہوتی ہے یہودیت کی تو صرف دکھاوے کے طور پر مخالفت ہوتی ہے اصل ہدف ان کا اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ ہیں .یہاں آنے والی لڑکیوں کو دوسرے ممالک میں وزٹ ایسے ہی نہیں کرائے جاتے
ان سے بزنس کرایا جاتا ہے اور الحاد کی شراب انہیں مدہوش رکھتی ہے پیسہ ،سیرو تفریح ان کی بنیادی ضروریات سے لے کر عیش و عشرت کے تمام سامان انہیں مہیا کیے جاتے ہیں.اور پھر انہی لڑ کیوں کو مسلم لڑکوں کے لیے کانٹے کا چارہ بنا یا جاتا ہے . ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ربیعہ کے شوہر علم الدین بھی آگئے آج تک مجھے ڈاڑھی سے سخت نفرت تھی ہمیشہ ہی ڈاڑھی پر شدید تنقید کی آج اس باوقار انسان کو دیکھ کراپنی رائے تبدیل کر لی علم الدین نے مجھے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا میں مردوں کی فطرت سے بخوبی آگاہ تھی علم الدین کو عورت کی عزت کرنا آتی تھی اور عورتوں کی عزت کرنا اسلام نے ہی تو سکھایا تھاورنہ ان روشن خیالوں نےتو عورت کو مال تجارت بنا دیا ہےمہمل! دیر نہیں ہوئی واپس پلٹ جاؤ! سچی توبہ کر لو وہ بہت پیارا ہے وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے تمہارے لیے راہیں کھول دے گا تم واپس آجاؤکہیں بہت دیر نہ ہو جائے اور میں اس دن اس کے کندھے سے لگ کر بہت روئی .میرے اندر آنے والی تبدیلی کو جلد ہی میری آرگنائزیشن نے نوٹ کر لیا اور ایک دن میں نے جذبات میں آکر ان کو خوب سُنائی میں نے ان سے کہا
تم ہی وہ ظالم ہو جنہوں نے میرے بچپن کو پامال کیا تم ساری زندگی میری قیمت وصول کرتے رہے ،تم وحشی ہو درندے ہو انسانیت کے دشمن تم ہو اسلام نہیں ،میں بہت برے طریقے سے چیخ رہی تھی .مہمل ! تمہیں کیا ہو گیا ہے تم پاگل تو نہیں ہو گئیں پھر مجھے بے ہوشی کاانجیکشن لگاکر ایک کمرے میں قید کر دیا گیا آج وہاں سے جان بچا کر نکلی ہوں.خدارا ! آپ یہ میسیج ہر لڑکی تک پہنچا دیجیے گا ہر گھر تک پہنچا دیجیے گاتمہاری عزت کا سائبان تمہارا اسلام ہے تم جس آزادی کو دیکھتی ہو وہ آزادی نہیں ایک قید ہے دنیا کی بھی قید اور آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی قید وہ باپ جو تمہارے لیے کماتا ہے وہ بھائی جو تمہاری عزت کا رکھوالا ہے وہ شوہر جس کی مملکت کی تم ملکہ ہو تمہاری جنت تمہارے بچے ہیں تم آزاد ہو خدارا ! اس قید کا شکار نہ ہونا یہ باہر سے بہت خوب صورت ہے لیکن اندر سے بہت گندی ،گھناؤنی ہے .یہ پیغام آپ کے پاس ایک امانت ہے اس کو دوسروں تک پہنچا دیجیے گا اور مہمل چلی گئی
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post مرد کی غلامی سے نکلو تم زندگی بھر بچے ہی پالو گی ، اپنے ٹیلنٹ کو آزماؤدنیا بہت وسیع ہے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2TU9VMy via Daily Khabrain
0 notes