#لڑکپن
Explore tagged Tumblr posts
Text
بچپن میں ذہنی مسائل کا لڑکپن میں موٹاپے سے تعلق کا انکشاف
(ویب ڈیسک) ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ زندگی کے ابتدائی برسوں میں ذہنی صحت لڑکپن میں موٹاپے سے تعلق رکھتی ہے۔ یونیورسٹی آف لیورپول اور مے نُوتھ یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ 11 برس کی عمر میں بہتر ذہنی صحت اور نفسیاتی و سماجی فلاح 17 برس کی عمر تک مٹاپے یا زیادہ وزن ہونے کے امکانات کو ریورس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ محققین نے بتایا کہ 11 برس کی عمر ممکنہ طور پر…
0 notes
Text
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آجائے
میں سناؤں جو کبھی دل سےفسانا دل کا
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الہٰی کہ یہ جانا دل کا
حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم
اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا
چھوڑ کر اس کو تیری بزم سے کیوںکر جاؤں
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا
بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا
بعد مدت کے یہ اے “داغ“ سمجھ میںآیا
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا
داغ دہلوی
7 notes
·
View notes
Text
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذر واماندگی اے حسرت دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأت فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
وصل میں ہجر کا ڈر یاد آیا
عین جنت میں سقر یاد آیا
1 note
·
View note
Text
ارے بھئی یہ اپنے ضیا صاحب
یہ معلومات اب غیر متعلقہ سی لگتی ہیں کہ ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین چونکہ خود ایک ماہرِ ریاضیات، موسیقی کے پا رکھی، گیت کار و ڈرامہ نگار تھے لہذا صاحبزادے پر اس ماحول و صحبت کا اثر ہونا لازمی تھا یا جب انگریزوں نے پنجاب کو ہندوستان کا اناج گھر بنانے کے لیے یہاں نہری نظام کا جال بچھایا اور ساندل بار اور نیلی بار کے دوآبے میں زمینیں آباد کرنے کی ترغیبات دیں تو رہتک و حصار کے لوگ بھی یہاں آن بسے اور اس نئی نئی زرخیزی کے مرکز لائل پور میں ضیا محی الدین کا بھی جنم ہوا۔ یہ جنم انیس سو انتیس میں ہوا کہ تیس، اکتیس، بتیس، تینتییس میں۔ یہ بھی غیر متعلقہ ہے۔ اہم یہ ہے کہ ان کا جنم ہوا۔ وہ زمانہ برصغیر میں آئیڈیل ازم، امنگ اور اٹھان کا دور تھا۔ اس ماحول میں اقبال اور جوش تو بن چکے تھے۔ راشد، فیض، علی سردار، کیفی، میرا جی، منٹو، کرشن چندر، بیدی، بلراج ساہنی ، نور جہاں، بیگم اختر وغیرہ وغیرہ زیرِ تعمیر تھے۔ ترقی پسند تحریک اور انقلابیت جوان تھی۔ تھیٹر کے ہیرو بادشاہ اور شہزادے کے منصب سے اتر کے عام آدمی کے عام سے خوابوں کے ڈھابے پر بیٹھنے لگے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی نوٹنکئیت بھی روپ بدل رہی تھی۔
آغا حشر اور رفیع پیر بھی وقت کے ساتھ ساتھ ڈھل رہے تھے۔ زیڈ اے بخاری جیسے لوگ پڑھنت کے لیے تازہ لہجہ بن رہے تھے۔ بمبئی اور لاہور کا پارسی تھیٹر سیلولائیڈ میں مدغم ہو رہا تھا اور قدیم ہندوستانی ڈراما جدیدیت کی کوکھ سے دوسرا جنم لینے کے لیے مچل رہا تھا۔ زیادہ موثر تخلیقی و فنی اظہار کے لیے ریڈیو کی شکل میں ایک نیا اور کہیں موثر میڈیم پیدا ہوتے ہی دوڑنے لگا تھا۔ اس ایک ڈبے نے آرٹ کے اظہار کو ایک نیا اور وسیع میدان عطا کر دیا اور پھر یہ میدان چند ہی برس میں بھانت بھانت کی تازہ آوازوں اور لہجوں سے بھر گیا۔ غرض کسی بھی نو عمر لڑکے یا لڑکی کے لیے فائن آرٹ اور پرفارمنگ آرٹ کا حصہ بننے کی فضا پہلے سے کہیں سازگار تھی۔ ضیا محی الدین بھی اسی تخلیقی خوشے کا ایک دانہ تھا جسے اپنا آپ ابھی منوانا تھا۔ ان کے ساتھ کے کچھ لوگ تخلیقی جنم لیتے ہی مر گئے۔ کچھ نے فائن و پرفارمنگ آرٹ کی انگلی پکڑتے پکڑتے فنی لڑکپن تو گزار لیا اور پھر دیدہ و نادیدہ مجبوریوں کے جھکڑ میں کہیں گم ہو گئے۔ جو سخت جان نکلے انھوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے خود کو منوا لیا۔ ان میں ضیا محی الدین بھی تھے۔
وہ شاید لڑکپن میں ہی تاڑ گئے تھے کہ انھوں نے آرٹ کی جس طرز سے خود کو بیاہنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی پرداخت و آب داری کے لیے مغرب کا رخ کرنا ہی پڑے گا۔ لہذا انھوں نے مزید سوچنے میں وقت گنوانے کے بجائے ایک نادیدہ دنیا میں زقند بھر لی۔ فیصلہ پر خطر تھا۔ گمنام اور نام چین ہونے کا امکان آدھوں آدھ تھا۔ گویا ایک متوسطی لڑکے کے لیے ہر طرح سے جوا تھا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ چیلنج قبول نہ کرو تو کامیابی چھوڑ ناکامی تک ہاتھ نہیں آتی۔ ضیا دونوں طرح کے انجام کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھے۔ اور پھر انھیں وہی کچھ مل گیا جو چاہتے تھے۔ اچھا اسٹیج ، اچھے استاد ، اچھے ساتھی ، اچھی روشنی ، اچھے سامع و ناظر اور سب سے بڑھ کے برموقع مواقع۔ اور اس سب نے ہمیں وہ ضیا محی الدین گوندھ کے دیا جو آج تک تھا اور کل تک ہے۔ اور اس ہونے کے پیچھے انگلستان میں سینتالیس برس کے قیام کے دوران شیکسپیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے، نسل پرست انگلش تھیٹر کی دنیا میں اپنی جگہ بنا کے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے گوروں سے خود کو منوانے اور اس منواہٹ کے بل بوتے پر برٹش ٹی وی اور امریکن فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے اور پھر اس تجربے کو ثوابِ جاریہ میں بدلنے کے لیے پاکستان واپسی اور اب سے پچپن برس پہلے رئیلٹی شوز کے ماڈل سے مقامی ٹی وی کو متعارف کروانے اور روایتی اسٹیج کو جدید سوچ اور تکنیک کا انجکشن لگانے اور پھر اس پورے تام جھام کو آگے بڑھانے کے لیے نئے آرٹسٹوں کی دریافت، اس خام مال کی تربیت اور انھیں شوبز کے کل کا جزو بنانے سمیت اور کیا کیا ہے جو ضیا محی الدین کے دائرہِ عمل سے باہر رہ گیا ہو۔
زندگی کی آخری تہائی کو ضیا صاحب نے صنعتِ پڑھنت، فنِ داستان گوئی کی آبیاری اور نئے ٹیلنٹ کی کاشت کاری میں گذار دیا۔ میری بالمشافہ یادیں ستمبر دو ہزار بارہ سے دسمبر دو ہزار پندرہ تک کی ہیں۔ جب علی الصبح نو بج کے پندرہ منٹ پر ایک کار نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے دروازے سے اندر داخل ہوتی تھی اور پورچ میں جا لگتی تھی۔ ایک خوش لباس جوان بوڑھا اس میں سے نمودار ہوتا اور ٹک ٹک کرتا تیر کی طرح کمرے کے دروازے کے پیچھے غائب ہو جاتا۔ اوروں کا دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔ اس خوش لباس کا دن اڑتالیس گھنٹے کا تھا۔ ضیا صاحب کی کلاس دوپہر دو تا تین بجے ہوا کرتی تھی۔ شاگردوں کو حکم تھا کہ ایک بج کے پچپن منٹ تک اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ ٹھیک دو بجے ایک ہرکارہ گنتی کے لیے آتا۔ پانچ منٹ بعد ضیا صاحب کمرے میں داخل ہوتے اور پھر اس کمرے کی کائنات ان کے اشارے پر ہوتی۔ تین برس اس کلاس میں بیٹھنے کا فائدہ بس اتنا ہوا کہ جس زبان ، تلفظ اور ادائی پر میں گزشتہ چار عشروں سے بزعمِ خود اتراتا تھا۔سارے کس بل نکل گئے۔
معلوم یہ ہوا کہ میری کم ازکم پچاس فیصد اردو اور بولنے کا انداز غلط ہے۔ ضیا صاحب نہ ہوتے تو باقی زندگی بھی اعتمادِ جہل کے سہارے خوشی خوشی گذار لیتا۔ مگر ضیا صاحب نے مجھ سے یہ فخرِ جہل چھین کے تار تار کر دیا۔ ( تھینک یو ضیا صاحب )۔ یہ بھی رواج تھا کہ فائنل ایئر کی آخری پرفارمنس کے ہدائیت کار ضیا محی الدین ہی ہوں گے۔ اس پلِ صراط سے گذر کے مجھے اندازہ ہوا کہ ڈائریکٹر اچھا ہو تو پتھر سے بھی اداکاری نکلوا سکتا ہے ( سامنے کی مثال ہے میری ) جب فائنل پرفارمنس ہو گئی تو ضیا صاحب نے پہلی اور آخری بار کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ’’ تم تو لکھتے بھی ہو۔ اپنے اس تجربے کے بارے میں بھی کچھ لکھو ‘‘۔ ان کے حکم پر میں نے ایک الوداعی مضمون لکھا۔ میں نے کیا لکھا قلم نے آبِ دل میں ڈبو کے خود ہی لکھ کے تھما دیا۔ اس کی پہلی سطر یہ تھی۔ ’’ جب ناپا کے تین سالہ تھیٹر ڈپلوما کورس میں داخلہ لیا تو میری عمر پچاس برس تھی۔ آج میں سینتالیس برس کی عمر میں ناپا چھوڑ رہا ہوں ‘‘۔ ضیا صاحب نے کمرے میں بلایا۔ دراز سے اپنی کتاب ’’ تھیٹرکس ‘‘ ( تھیٹریات ) نکالی اور دستخط کر کے مجھے دے دی۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
نو عمر لڑکیاں ورزش کرنے سے توجہ کو بہتر بنا سکتی ہیں
نوعمرلڑکے اور لڑکیوں کی جسمانی مشقت انہیں توجہ برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے اور اس سے ان کی تعلیمی صلاحیت بھی بہترہوتی ہے۔ فوٹو: فائل الینوائے: نو عمری میں لڑکپن سے جوانی تک کا س��ر بہت نازک ہوتا ہے اور اس میں لڑکے لڑکیاں اپنی توجہ اور ارتکاز پر قابو نہیں رکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس عمر میں ورزش کرکے وہ فکری طور پر مضبوط ہوکر اپنی توجہ کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں 15 تا 18 برس کے لڑکے لڑکیوں پر تحقیق…
View On WordPress
0 notes
Text
پہاڑی پر جلتی آگ -
لوگوں کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں ادیس ابابا کے شہر میں ارہا نامی ایک نوجوان رہا کرتا تھا۔ وہ لڑکپن میں گاؤں سے شہر چلا آیا تھا۔ اور ایک مال دار تاجر ہسپٹم ہسیائی کے ہاں ملازم ہو گیا تھا۔ ہسپٹم ہسیائی اتنا مال دار تھا کہ اس نے وہ تمام چیزیں خرید لی تھیں جو دولت خرید سکتی تھی۔ اس کا دل زندگی کی عیاشیوں سے بھر چکا تھا اسی لیے کبھی کبھار وہ اپنی زندگی میں بوریت محسوس کرنے لگتا۔ ایک سرد رات جب…
View On WordPress
0 notes
Text
وصل ہو جائے یہیں حشر ، حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
- امیر مینائی
38 notes
·
View notes
Text
شاعر مزدور، احسان دانش
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے۔ دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ ویسے بھی دانش صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہ تھا، جس کا ہمیں عرصہ دراز سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا، وہ ان بڑے لوگوں میں سے تھے جو منہ میں سونے کا چمچہ لیے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ جنھوں نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا۔ حسب وعدہ صبح وقت مقررہ پر ٹھیک دس بجے احسان دانش نے ہمارے کمرے میں قدم رکھا تو ہمارے احساسات اور جذبات بیان سے باہر تھے۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے رکھ لے کیوں کہ ایسے مواقعے زندگی میں بار بار میسر نہیں آتے۔
وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔ ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان کے بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے، جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور انک مین کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔ وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور مددگاربھی خدمات انجام دیں اور زندگی کے آخری حصے میں کتب فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کج کلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم آخر گریز کیا۔
ان کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا، مگر علمی دنیا میں ان کی شہرت احسان دانش کے نام سے ہوئی۔ وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو خاندان کی گزر بسر کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا آبائی وطن باغت، ضلع میرٹھ تھا لیکن جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھی۔ گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا تو احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ حسن اتفاق سے ہماری جائے پیدائش بھی ضلع مظفر نگر کا ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام بگھرہ ہے۔ کاندھلہ اور تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسے علمائے کرام کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ احسان دانش کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں ان کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن نانا کی وفات کے بعد ان کے والد انھیں اپنے ساتھ لے کر کاندھلہ میں آکر مقیم ہو گئے۔ احسان دانش کو پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا لیکن خاندانی غربت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔
اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں بھی انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مطالعے کا شوق اور شاعری کا چسکا انھیں بچپن ہی سے تھا جس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، اس زمانے میں بعض شاعر اپنا کلام پمفلٹ کی صورت میں خود ہی چھپوا کر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر پڑھتے ہوئے فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت بوم میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام کرنے والے ایک راج مستری کے مددگار کی جاب مل گئی تو انھوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا اسے وہ لائبریری میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
آخرکار وہ دن بھی آیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے پیپرز کے ممتحن بنے اور جب وہ چیف ایگزامنر کی حیثیت سے اپنے معاوضے کا چیک لینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو ان کے پرانے ساتھی مزدور انھیں پہچان گئے اور ان کی اس عظیم الشان کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ احسان دانش نے ثابت کر دیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ’’خوش نصیبی انسان کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک ضرور دیتی ہے۔‘‘ احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔ اس ملازمت نے انھیں آرام سے پڑھنے لکھنے کی فراغت مہیا کر دی جس کے نتیجے میں ان کی شاعری ادبی وسائل و جرائد میں شایع ہو کر عوام و خواص میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور پھر وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے جس نے ان کی شہرت میں روز بہ روز اضافہ کر دیا۔
ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ملاقات گورنر ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہو گئی جس نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انھیں گورنر ہاؤس میں مالی کی ملازمت دلوائی جہاں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد احسان دانش نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور محکمہ ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا اور ایک بک اسٹال پر کام کرنے لگے۔ روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کر دیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک موڑ تھا جس کے نتیجے میں وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر ہو کر مارکسزم کا رخ بھی اختیار کر سکتے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر لگی ہوئی مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم وہ مزدور اور اس کی عظمت کے ترانے لکھتے رہے، گاتے رہے اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نام نہاد شاعر مزدور نہیں بلکہ حقیقی شاعر مزدور کہلانے کے مستحق ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مزدوری پر ہی محیط ہے۔
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور اسکالر بھی تھے، جنھوں نے اردو لسانیات اور لغات کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو ’’حضرِ عروض‘‘، تذکیر و تانیث، لغت الاصلاح، اردو مترادفات اور دستور اردو جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔ انھوں نے ��ے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کی خودنوشت ’’جہان دانش‘‘ بھی ان کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہیں جن کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے، ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں نشان امتیازاور ستارہ امتیاز کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔
شکیل فاروقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
ذکرِ خوباں
(عورت کی خِلقت از رُوئے تمثیل)
ہندی شاعروں نے عورت کی خِلقت کا قصہ اِس طرح لکھا ہے کہ، ”آغازِ آفرینش میں خلّاقِ دو عالم نے جب عورت کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا سارا مسالہ مرد کے پیدا کرنے میں کام آ گیا۔ عورت کے بنانے کے لئے عالمِ ایجاد میں کوئی چیز اعتبار کے لائق نہ رہی“۔
بڑے غور و تامُل کے بعد یہ تدبیر کارپردازانِ ازل کے ذہن میں آئی کہ چہرے کی شکل تو چاند سے لی جائے اور خَمِ ابرو ہلال سے، غُنچہِ ناشگفتہ سے دہن اور برگِ گُل سے ہونٹ، نرگسِ شہلا سے آنکھ، سرو سے قد، نسرین سے بدن اور کَبک سے رفتار لے لی جائے۔
شبِ تار سے بالوں کی سیاہی اور درازیِ شبِ ہجراں سے بالوں کی درازی لے لی جائے۔ یاقُوت سے ہونٹوں کی سُرخی ، پتھر سے سنگ دلی اور طوطے کی آنکھ سے بے مروتی مانگ لیں، ماتھے کی چمک کندن سے اور دانتوں کی دمک موتیوں سے لے لیں۔
قُلقُلِ مینا سے آواز کی کھنک اور شمعِ سوزاں سے آنسوؤں کی لڑی ضرورت کے وقت عاریتاً لے لو۔ گردشِ روزگار سے مزاج کا تلوُّن لے لیا جائے ، گلے میں بانہیں ڈال دینے کی ادا سرِ دست عشقِ پیچاں سے لے لو اور دیکھتے رہو کہ برگِ گُل پر جب قطرہِ شبنم نسیمِ سَحر سے جُنبِش میں آئے اُس وقت اس کے دل کے دھڑکنے کی تصویر کھینچ ل��نا۔
خُوئے جفا چرخِ ستم گار سے اور کبھی بھُولے بھٹکے کی رسمِ وفا چکوے چکوی سے مانگ لو۔ کمر کی ضرورت نہیں کہ دہنِ یار کی طرح نظر نہیں آتی۔ زلف کو پریشاں اور آئینہِ رخسار کو درخشاں بنا دینا ، زبان کے لئے سوسَن کی قلم قینچی سے کاٹ کر لگا دینا، لڑکپن کی اٹکھیلیاں بلی کے اُن بچوں سے جو پنجوں میں ناخُن چھپانا نکالنا سیکھ گئے ہوں لے لینا اور خود اپنے بچوں کی حفاظت میں جان پر کھیلنے کے تیور شیرنی سے لے لو۔
اداؤں میں بلانے سے بھاگنا اور نہ ملیے تو خود ملنے کے بہانے ڈھونڈنا، نگاہ سے بلانا اور زَبان سے کوسنا، منہ نہ لگانے پر گلے کا ہار بن جانا اور ناز برداری کی جائے تو لاپروائی کی شکایتیں کرنا اور ایسی ہزار ناز و انداز کی باتیں کُوٹ کُوٹ کر بھر دینا۔ غرَض ایسے ھی اجتماعِ ضدَّین سے عالمِ ایجاد کے نسخہ نوسیوں نے یہ معجونِ مرکب یعنی عورت کو بنا کر مرد کے حوالے کر دیا۔
کہتے ھیں کہ اِس واقعے کے چند روز بعد انسان نے خدا سے شکایت کی کہ، ”یہ تحفہ جو مجھے عطا ہوا ھے میرے لیے بلائے جان ھے۔ اِس کو واپس لے لیا جائے۔ اِس نے میری زندگی اجیرن کر دی ، اس کی زبان خدنگِ نظر سے زیادہ تیز ہے ، یہ بلا کی طرح پیچھے پڑی رہتی ہے، مجھے کسی طرف نگاہ اٹھ اکر دیکھنے نہیں دیتی، اِس کے مارے مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا، بے سبب خفا رہتی ھے، اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ھے، میری اس کی نہیں بنتی“۔
حکم ھُوا کہ، ”تمہاری اِس کی نہیں بنتی تو تم اِسے یہاں چھوڑ جاؤ“۔
دو چار دن ھی گزرے ہوں گے کہ حضرتِ انسان پھر خالِق کے پاس حاضر ہو گئے اور عرض کی کہ پروردگار! جب سے عورت چُھٹی مجھے بڑی تکلیف ھے، رات دن اُسی کا خیال رہتا ہے، گھر اُجڑ گیا، زندگی کا لطف جاتا رہا، شبِ تار میں وہ چاند سا چہرہ رہ رہ کر یاد آتا ھے، زلفِ پریشان کا خیال جو بندھ جاتا ہے تو پہروں نیند اُچٹ جاتی ھے۔
ارشاد ہوا کہ، ”عورت کو تم خود ہی چھوڑگئے تھے نا؟ تمہارا جی چاہے پھر لے جاؤ“۔
کیا دیکھتے ہیں کہ دوسرے تیسرے دن حضرتِ انسان پھر خدا کے پاس یہ عرض لے کر پہنچے کہ، ”بندہِ درگاہ کچھ عرض نہیں کرسکتا، بور کے لڈو کا سا حال ہے کہ کھائے تو پچھتائے نہ کھائے تو پچھتائے۔ لیکن میں نے بڑے غور سے دیکھا کہ عورت سے اس قدر آرام نہیں جس قدر کہ تکلیف ہے، حضور! اسے رکھ لیں“۔
فرشتوں کو حکم ہوا کہ، ”اس احمق کو نکال دو۔ اس سے کہہ دو کہ جس طرح مناسب جانے کرے“۔
اس پر انسان نے کہا، ”حضور، اس کے ساتھ تمام عمر کاٹنی مشکل ھے“۔
جواب ملا کہ، ”اس کے بغیر بھی تمہیں جینا مشکل ہوگیا تھا“۔
اُس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ، ”اِسے بکنے دو۔ کارخانۂ عالَم میں اور بہت ضروری کام ہیں۔ یہاں ایسی فرصت نہیں کہ کوئی بے کار کے جھگڑوں میں پڑے“۔
#ذکر خوباں#urdu shairi#urdulovers#poetry#urdu shayari#urdu adab#urdu poetry#اردو شاعری#اردو#اردو ادب#about females
27 notes
·
View notes
Text
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذر واماندگی اے حسرت دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأت فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
وصل میں ہجر کا ڈر یاد آیا
عین جنت میں سقر یاد آیا
غالب
4 notes
·
View notes
Text
فحش فلموں کی امریکی اداکارہ لینا روڈز کی پرورش کس طرح ہوئی اداکارہ کا ایسا انکشاف کہ سننے والے دم بخود رہ گئے
فحش فلموں کی امریکی اداکارہ لینا روڈز کی پرورش کس طرح ہوئی اداکارہ کا ایسا انکشاف کہ سننے والے دم بخود رہ گئے
فحش فلموں کی امریکی اداکارہ لینا روڈز کی پرورش کس طرح ہوئی، اداکارہ کا ایسا … سورس: Instagram/lanarhoades نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)بچپن اور لڑکپن کی پرورش انسان کی شخصیت پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتی ہے لیکن فحش فلموں کی امریکی اداکارہ لینا روڈز نے اپنی پرورش کے بارے میں ایسا انکشاف کیا ہے کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق لینا روڈز نے پوڈکاسٹ ’تھری گرلز ون کچن‘ میں گفتگو کرتے ہوئے…
View On WordPress
4 notes
·
View notes
Text
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
مرزا اسد اللہ خان غالب
2 notes
·
View notes
Text
میری محبوبہ-- سہیل وڑائچ
ادھیڑ عمر شخص اگر بھرے مجمع میں اپنی داستانِ محبت سنا دے تو تضادستان میں اس کو مسکراہٹ اور دلچسپی سے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ تضادستان کی اسی وسیع القلبی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی محبوبہ کے حوالے سے سرعام انکشاف کر رہا ہوں۔ میری محبوبہ کوئی عام شکل و صورت والی نہیں، حسینۂ عالم تھی۔ باہر کم کم نکلتی تھی مگر جب نکلتی تھی تو اس کی آب و تاب سے زمانہ مسحور ہو جاتا تھا۔ ہر دفعہ مختلف میک اپ کرتی اور یوں ہر بار ایک نئی ہی شان ہوتی تھی۔ لباس کے انتخاب میں تو پورے ملک میں کوئی بھی اس جیسا نہیں تھا، کبھی وہ کاسنی رنگ پہنتی تو اس کے ساتھ کانچ کی سرخ تین چوڑیاں پہنتی۔ یوں لگتا جیسے کوئی کلی پتوں کے اندر سے مسکرا کر دیکھ رہی ہو۔ سر پر دوپٹہ اوڑھ کر آتی تو سیدھی جنت سے آئی ہوئی حور لگتی۔ ایک بار اس نے ناک میں سرخ کوکا پہنا تو یوں لگا کہ جیسے اس کے ستواں ناک میں گلاب جڑ دیا گیا ہو۔ میر زندہ ہوتے تو اس کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی قرار دیتے، اس کی آنکھوں کو نیم باز قرار دیتے ہوئے اُن سے شراب کی مستی کا مزہ لیتے۔ آنکھوں کی ابرو کمان جیسی تھی اور آنکھیں اتنی گہری کہ جامِ جم کی طرح سارا جہاں اُن میں تیرتا نظر آتا تھا۔ اُن سبز آنکھوں میں جھانکو تو تہہ در تہہ کہانیاں اور داستانیں لکھی ہوئی لگتی تھیں۔ میں لڑکپن میں اُس کے عشق میں مبتلا ہوا، جوں جوں میری عمر بڑھتی رہی میرا عشق اور بھی مضبوط ہوتا گیا۔ پہلے پہلے میں اس کے حسن و رعنائی سے متاثر تھا پھر اس کی شخصیت کی گہرائی مجھ پر اثر کرنے لگی۔ اس کی ذات کا جو بھی صفحہ الٹتا ایک نیا جہانِ معنی آباد نظر آتا۔ حسن جب اتنا خاص ہو تو پھر اس کا مشہور ہونا بھی لازم ہوتا ہے، اسی لئے صرف میں ہی نہیں اس کے عاشق اور بھی بہت ہیں۔ اس کی Read the full article
1 note
·
View note
Text
ناصر زیدی : حق گوئی ہی ہے جرم اگر، تو یہ بھی بھاری مجرم ہیں
یُوں تو ہم عصری کا اطلاق ہمارے اردگرد کے بے شمار لوگوں پر ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا لڑکپن اور فنی کیرئیر کم و بیش ساتھ ساتھ گزرتا ہے اور یوں آپ انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ساتھ ساتھ بڑھتا اور سنورتا دیکھتے ہیں۔ ناصر زیدی کا شمار بھی ایسے ہی دوستوں اور ہم عصروں میں ہوتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں وہ عطاء ا لحق قاسمی کا ہم جماعت تھا اور دونوں کے دوستانہ تعلقات میں اس زمانہ کا لڑکپن بڑھاپے تک قائم رہا، عطا اُسے پُھسپھسا اور وہ ا ُسے مولوی زادہ کہہ کر بلاتا تھا ۔ دونوں ہی بندہ ضایع ہو جائے پر جملہ ضایع نہ ہو کے قائل تھے سو اُن کی موجودگی میں کسی محفل کا سنجیدہ یا بے رنگ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اسّی کی دہائی میں ایم اے او کا��ج کے شعبہ اُردو میں ناصر اپنے مخصوص بیگ اور دراز زلفوں کے ساتھ مسکراتا ہوا میرے اور عطا کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوا اور ایک کتاب میز پر رکھتے ہوئے بولا، ’’اوئے مولوی زادے دیکھ میری کتاب کا دوسرا ایڈیشن آگیا ہے ‘‘
عطا نے پلکیں جھپکائے بغیر کہا۔’’پہلا کدھر گیا ہے؟‘‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس جملے کا سب سے زیادہ مزا خود ناصر زیدی نے لیا اور اسی حوالے سے بھارتی مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا وہ مشہور جملہ بھی دہرایا کہ ’’جو صاحب اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی خریدیں گے انھیں پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت پیش کی جائیں گی‘‘۔ اندرون ملک مشاعروں اور ادبی تقریبات کے حوالے سے ہم نے بے شمار سفر ایک ساتھ کیے ہیں ۔ اس کی نہ صرف آواز اچھی ��ھی بلکہ ریڈیو کی ٹریننگ نے اُسے اور نکھار دیا تھا اس پر اُس کی یادداشت اور ذوقِ مطالعہ نے مل کر اُسے ریڈیو، ٹی وی اور دیگر مشاعروں کا مستقل میزبان بنا دیا تھا ۔ جزوی نوعیت کی ملازمتوں سے قطع نظر وہ سار ی عمر تقریباً فری لانسر رہا اور غالباً سب سے زیادہ عرصہ اُس نے ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت میں گزارا ۔ اتفاق سے وفات کے وقت بھی ایک بار پھر وہ اُسی رسالے سے منسلک تھا۔
صدیقہ جاوید کی وفات کے باعث رسالے کے مالی معاملات اُس کی ذاتی صحت اور گھریلو مسائل کی دیرینہ پیچیدگیوں نے اُس کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا تھا جس کا اثر اس کی نقل و حرکت اور طبیعت کی شگفتگی پر بھی پڑا تھا کہ گزشتہ چند ملاقاتوں میں وہ پہلے جیسا ناصر زیدی نہیں رہا تھا ۔ جہاں تک کلاسیکی شاعری اور اشعار کی اصل شکل اور صحت کا تعلق ہے اُس کا مطالعہ بہت اچھا تھا اور اس سلسلے میں وہ اکثر اپنے ’’مستند‘‘ ہونے کا اظہار بھی کرتا تھا اور یہ اُسے سجتا بھی تھا کہ فی زمانہ ’’تحقیق‘‘ کی طرف لوگوں کا رجحان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔ ضیاء الحق کے زمانے میں وہ کچھ عرصہ سرکاری تقریریں لکھنے کے شعبے سے بھی منسلک رہا جس پر بعد میں اُسے تنقید کا بھی سامنا رہا خصوصاً اسلام آباد ہوٹل میں روزانہ شام کو احمد فراز کی محفل میں اس حوالے سے ایسی جملہ بازی ہوتی تھی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جہاں تک اُس کا شاعری کا تعلق ہے وہ اپنی اٹھان کے زمانے کے ہم عصروں سرمد سہبائی ، عدیم ہاشمی، اقبال ساجد، ثروت حسین، جمال احسانی ، غلام محمد ناصر، خالد احمد، نجیب احمد، عبید اللہ علیم، نصیر ترابی اور دیگر کئی نئی غزل کے علمبرداروں کے مقابلے میں اُسی روائت سے جڑا رہا جو کلاسیکی اساتذہ اور اُن کے رنگ میں رنگی ہوئی نسل کے شعرا میں زیادہ مقبول تھی اس کی ایک غزل اور ایک سلام کے چند اشعار دیکھئے۔
جذبات سرد ہو گئے طوفان تھم گئے اے دورِ ہجر اب کے ترے ساتھ ہم گئے
کچھ اس ادا سے اُس نے بُلایا تھا بزم میں جانا نہ چاہتے تھے مگر پھر بھی ہم گئے
مہلت نہ دی اجل نے فراعینِ دِقت کو قسطوں میں جی رہے تھے مگر ایک دم گئے
وہ ساتھ تھا تو سارا زمانہ تھا زیرِ پا وہ کیا گیا کہ اپنے بھی جاہ و حشم گئے
ہر چند ایک ہُو کا سمندر تھا درمیاں مقتل میں پھر بھی جانِ جہاں صرف ہم گئے
ناصرؔ نہیں ہے مجھ کو شکستِ انا کا غم خوش ہُوں کسی کی آنکھ کے آنسو تو تھم گئے
مرثیے اور سلام پر اُس نے کام بھی بہت کیا ہے اور لکھا بھی بہت ہے ایک سلام کے چند شعر دیکھئے
ذکر جو روز و شب حسینؔ کا ہے معجزہ یہ عجب حسینؔؓ کا ہے
دل میں جو بُغض پنج تن رکھّے وہ کہے بھی تو کب حسینؓ کا ہے
سرِ نیزہ بلند ہے جو س�� با ادب ، باادب حسینؓ کا ہے
قلب و جاں پر فقط نہیں موقوف میرا جو کچھ ہے سب حسینؓ کا ہے
اسی دوران میں نقاد اور افسانہ نگار رشید مصباح اور شاعر افراسیاب کامل بھی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں پر اپنا کرم فرمائے۔
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایسکپریس نیوز
4 notes
·
View notes
Text
علم : اندھیروں سے روشنی کا سفر
علم کی ہر دور میں اہمیت اور ضرورت رہی، جن لوگوں نے کامیاب زندگی گزاری، ان کو علم سے روشنی اور راہِ عمل ملی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ علم حاصل کرنے والے کی زندگی ناکام اور نامراد ہو۔ صدیوں سے علم کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے، کتابوں کا دور شروع ہونے سے قبل علم کا س��سلہ زبانی اور سینہ بہ سینہ تھا۔ انسان کا حافظہ بہت تیز تھا اور ایک دوسرے سے زبانی طور پر علم حاصل کرتے تھے۔ کاغذ کا دور شروع ہونے سے بھی صدیوں قبل کتابیں لکھی جانے لگی تھیں، چمڑے پر، درختوں، پتھروں اور دیگر اشیاء پر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا علم حاصل کیا جائے؟ کیوںکہ علم تو سمندر ہے اور کوئی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا۔ بنیادی طور پر ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا؟ کیوں پیدا کیا؟ کس لیے پیدا کیا؟
ہماری دنیا میں آمد کا مقصد کیا ہے، دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کیا ہے، ہمارے شہر، ہمارے ملک، امت مسلمہ اور دنیا کی تاریخ کیا ہے، ایسا کیا کریں کہ ہماری زندگی کامیاب گزرے، علم اور ادب، شعر وسخن، وغیرہ وغیرہ کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کتابوں ہی سے مل سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا صرف معلومات دے سکتی ہے، علم نہیں۔ ہوش سنبھالنے یعنی لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔ انسان کے مقصد ِ حیات اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں کے درست اور جامع جواب ہمیں کوئی انسان دے ہی نہیں سکتا، ان کے جوابات تو ہمارا خالق اور ہمارا ربّ ہی دے سکتا ہے اور اس نے ابتدائے آفرینش سے اس کا اہتمام کیا۔ یعنی آسمانی کتابیں اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ۔ تمام آسمانی کتابوں میں تحریف ہوتی رہی اور سرکش اور مفسد لوگ اور شیطان کے پیروکار انبیاء کو جھٹلاتے رہے۔
صرف آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن کریم میں نہ تو کوئی تحریف ہو سکی اور نہ ہی ممکن ہے، کیوںکہ ہمارے ربّ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور عملی قرآن یعنی سرکار دو عالم سیدنا محمد مصطفیٰ ؐ کی ذات بابرکات۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں انسان خاص طور پر مسلمانوں کو ان تمام سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں، جن کی تلاش میں اگر زمین اور آسمان ایک کر دیے جائیں تو نہ مل سکیں۔ یہ دونوں انسان کی عملی ہدایت کے لازوال سرچشمے ہیں۔ ہر انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ کامیاب زندگی گزارے، اس کے پاس دولت ہو، گاڑی ہو، خوبصورت شریک حیات اور بچے ہوں اور کوئی غم اس کے قریب نہ آئے۔ مگر محض آرزو کرنے اور دوسروں کی نقالی کرنے سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔
قرآن وسنت وہ راستہ دکھاتے ہیں، جن سے دنیا کی زندگی بھی چین اور سکون سے گزرتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی مقدر بن جاتی ہے۔ جس وقت بھی یہ احساس ہو جائے کہ علم حاصل کرنا ہے اور اندھیروں سے روشنی میں آنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے چوبیس گھنٹوں کا شیڈول تیار کرنا اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ پہلے دس دن تو اس امر کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ہمارے دن اور رات کن کاموں میں صرف ہوتے ہیں۔ اس مشق سے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا وقت کن کاموں میں گزرتا ہے۔ طالب علم اپنی تدریسی سرگرمیوں، جوان اپنے حصول روزگار، خواتین اپنے گھریلو کاموں اور بوڑھے دیگر کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن دس دن اپنی مصروفیات کو تحریری صورت دینے سے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا وقت کن کن کاموں میں صرف ہو رہا ہے۔ ��ور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم روزانہ اوسطاً پانچ چھ گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔
ضرورت سے زیادہ سونے، کھانے پینے، نہانے دھونے، سفر کرنے اور دیگر کام سست رفتاری سے کرنے میں۔ خاص طور پر موجودہ دور میں موبائل فون وقت ضائع کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے اور دوسرا نمبر ٹیلی ویژن اور دوستوں کا ہے۔ اگر کامیاب زندگی گزارنی ہے تو چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل بنا کر فالتو کاموں سے جان چھڑانا ہو گی۔ دیگر اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ ہر فرد آسانی کے ساتھ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ میں تو ہر ایک کو یہی مشورہ دوں گا کہ صبح سویرے بیدار ہو کر فرائض و واجبات سے فارغ ہو کر قرآن کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر، احادیث اور سیرت النبیؐ اور حیات صحابہ کرام ؓ اور اولیائے کرام ؒ کا تھوڑا تھوڑا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، جن میں آپ کو دلچسپی ہو اور دل لگے اور ان کے مطالعہ کے دوران آپ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جائیں، جو آپ کے دل ودماغ کو تازگی بخشیں اور انہیں روشن کر دیں۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو مطالعہ سے پہلے اپنے بڑوں اور اساتذہ سے مشورہ کر لیں۔
تعلیمی اداروں میں زیادہ تر وہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جو اچھے روزگار کی ضمانت دے سکے، لیکن یہاں اس علم پر زور دیا جارہا ہے، جو آدمی کو انسان بنا سکے اور انسانیت سکھا سکے۔ اس حوالے سے مندرجہ بالا موضوعات کے علاوہ ادب، شاعری، سیاحت، جغرافیہ اور کہانیوں کے علاوہ تاریخ کا مطالعہ بھی بہت کارآمد ہے۔ خاص طور پر اپنے وطن پاکستان کی تاریخ، اسلام کی تاریخ، اور تاریخ عالم۔ جس کی بدولت ہمیں گزری ہوئی اقوام اور عہد حاضر کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ علم سمندر ہے، ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ ہم اس سمندر سے کتنا استفادہ کریں، جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کر دے۔
مطالعہ کے لیے اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے اوقات مقرر کرنے چاہئیں۔ جیسے صبح کا وقت اور رات کو سونے سے پیش تر۔ اس کے علاوہ کم از کم ایک کتاب ساتھ رہنا چاہیے، جسے سفر میں اور مختلف مقامات پر انتظار کے دوران پڑھا جا سکے۔ مطالعہ کے ساتھ اسے جذب کرنا بھی ضروری ہے، یعنی وہ آپ کے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا ہو، اس کے نوٹس لیے جائیں اور اس کے بارے میں اپنے اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے گفتگو کی جائے تاکہ نہ صرف یہ کہ دوسرے اس سے مستفید ہوں، بلکہ وہ آپ کے اندر جذب ہو جائے۔ کوشش کریں کہ فضول کتابوں کے مطالعہ میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ ایسا علم حاصل کریں جو نافع ہو، نافع سے مراد یہ نہیں کہ اس کی بدولت آپ کو بہت سے پیسے مل جائیں بلکہ اس کی بدولت آپ اچھے انسان بن جائیں، اپنے ربّ کے بندے، دوسروں سے محبت کرنے والے اور دوسروں کے کام آنے والے۔ اسی کو علم نافع کہا گیا ہے۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ سے علم نافع کا سوال کرو اور غیر نافع علم سے پناہ مانگو!۔
شبیر ابن عادل
بشکریہ روزنامہ جسارت
1 note
·
View note
Text
بچوں کو قریب کیجئے
عربی کے چند کلمات ایک جگہ پڑھے تو ان کی جامعیت نے حیران کر دیا۔4 کلمات پر مشتمل یہ نہایت قیمتی نصیحتیں گویا والدین کے بچوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی کلید ہیں،ذرا ملاحظہ فرمائیں:ا
قتربوا من ابناکم وشاوروھم وحاوروھم واکسبوھم قبل ان تخسروھم
تم اپنے بچوں کے قریب رہا کرو ،ان سے مشورے کیا کرو، تبادلہ خیال کیا کرو، ان کے دل جیت لو، قبل اس کے کہ تم انہیں ہمیشہ کے لئے کھو دو
والدین کی سب سے اول اور بڑی ذمہ داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا دور ہوتا ہے۔ اس وقت بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں۔ بچے انہی کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انہیں اپنے قریب رکھتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں۔ بہترین تربیت جو قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مار دھاڑ سے ہرگز ویسی ممکن ہی نہیں
سیرت نبیﷺ میں بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپﷺ بہترین مربی اور بچوں پر رحم کرنے والے نظر آئیں گے۔ آپﷺ نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت اور ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات کے ذریعہ دیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا
آپﷺ نے بچوں کے بچپنے کا ہر لحاظ سے خیال رکھا۔
اپنی تمام تر رفعت شان کے باوجود ان کے ساتھ کھیلے بھی اور کبھی ان پر سختی نہیں فرمائی۔
اپنے پیارے نواسوں سے آپﷺ کی محبت و شفقت کے کئی واقعات ہم سنتے پڑھتے رہتے ہیں کہ کیسے وہ عین نماز کی حالت میں بھی لاڈ سے آپﷺ پر سوار ہوجاتے تھے اور آپﷺ ناراض تو کیا ہوتے، ان کے لئے سجدے کو طویل فرما لیتے۔
ایک بار آپ ﷺحضرت حسن کو چوم رہے تھے۔ ایک دیہاتی نے اعتراض کرتے ہوئے گویا حیرت کا اظہار کیا توآپﷺ نے فرمایا:اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
ایک اور موقع پر جب ایک صحابی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا
مسلمان تو مسلمان ،حضور ﷺنے تو کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔ ایک یہودی کا لڑکا آپﷺ کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا۔ آپﷺ نے از خود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی۔ اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو
اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی۔ والد نے بھی کہا:ابوالقاسم (ﷺ)کی اطاعت کرو، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپﷺ یہ کہتے ہوئے نکلے:تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا
آج اس اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہم اپنے سلوک کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کفار اور غیر کے بچے تو الگ، ہم اپنے بچوں، اپنے خون کے ساتھ کیسا بیگانے کا سا سلوک کرتے ہیں؟
باپ کی درشت مزاجی کی وجہ سے بچہ پڑوسی کے زیادہ قریب اورباپ سے دور ہوتا ہے۔بات بات پہ مارنا، چلانا، برا بھلا کہنا بچوں کو نہ صرف ڈھیٹ بنا دیتا ہے بلکہ ان کو ماں باپ سے دور بھی کر دیتا ہے۔پھرہوتا یہ ہے کہ بچے اس جذباتی خلا کو باہر والوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔باہر پھرتے سفاک درندے ایسے ہی معصوموں کا شکار کرنے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، سو وہ انہیں جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر ان کا استحصال تک کر بیٹھتے ہیں
گھر میں بچے سے متعلق امور میں بھی اس سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا، نہ اس سے رائے لی جاتی ہے اور نہ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر وقت، ہر بات میں بس اپنی مرضی چلائی بلکہ باقاعدہ ٹھونسی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسی اجنبیت کی دیوار کھڑی ہونے لگتی ہے کہ پھر بچہ کسی جذباتی کشمکش کا شکار ہو جائے، اس کے ��اتھ کچھ غلط ہونے لگے تو وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بات والدین سے شیئر نہیں کر پاتا۔ اور یوں یہ صورت حال کبھی خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے
یاد رکھیے،انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑواتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے۔ اپنے احساسات کو جھنجھوڑیئے، اپنی غفلت کو دور کیجیے۔ مستقبل کے ان ہونہار نونہالوں کو اپنے سے قریب کیجیے، ان سے مشورے کیجیے، انہیں اہمیت کا احساس دلائیے، گاہے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا کیجیے اور ان کے دل جیت لیجیے، قبل اس کے کہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا جائے
http://www.urdunews.com/node/128196/میگزین/دھنک/بچوں-کو-قریب-کیجئے
18 notes
·
View notes