#فارسی خوانی
Explore tagged Tumblr posts
Text
فارسی نویسی
فارسی نویسی فارسی خوانی
..
در یک ویدیو کلیپ در فیسبوک داشت پند های مولانا را بیان می کرد
و حدود آخرهای ویدیو چند شعر از مولانا خواند:
دنیا همه هیچ و اهل دنیا همه هیچ …
دانی که پس از مرگ چه باقی ماند
دانی را خیلی کوتاه خواند که معنی شعر را بیان نمی کرد
دااانی فقط در «ااا» را کشیده و گفت و بقیه را کوتاه.
در صورتی که «داانی ی ی» می بایستی گفته می شد که معنی
«آیا میدانی» را به ذهن می رساند.
باز آ باز آ هر آنچه هستی باز آ
گر کافر و «گـُبرُ» و بت پرستی باز آ.
یعنی «گــَبر» را «گــُبر» خواندن، اشتباهی است که
آنکه برای نخستین بار می خواند، در نوشتار فارسی پیش می آید چون
از قبل شناسائی با«گــَبر» و کلمه «گــَبر» ندارد آن را
درست نمی خواند.
از مرگ چه اندیشی، چون جان بقا داری
باید جان ِ بقا بگوید ولی بعد از جان، مکث می کند.
در گور کجا » گــَـنجی ، چون نور خدا داری.
گوینده گـَـنجی می گوید که درست اش «گــُـنجی» هست
که یعنی در گور جا نمی گیری، در گور نمی گـُنجی،
چون نور خدا داری – درگور نمی گــُنجی ، جانمی شوی
که غلط خواند که یعنی در گور گــَنجی نیست. . گوینده با نیت خوب و به خاطر اطلاع رسانی ، سفرهائی از مولوی می خواند
گوینده فارسی زبان است ولی از فلسفه و معلومات عمومی زیاد بهره ندارد و
این مشکل فارسی خواندن، بایستی رفع و رجوع شود که آنکه نوشته ای را
می نویسد به تواند درست به نویسد و آن که می خواند، بتواند به منظوری
که نویسنده دارد، درست بخواند.
شاید بایستی دو سه حرف که صداها را مشخص می کند از همین حروف الفبا
برای صداهای « اَ » و « اِ » و « ا ُ» تعیین کنیم که بتوان منظور را درست
بیان کرد و خواننده بتواند درست بخواند.
بعضی ها در نوشته ها علامت «ء» را برای « اِ » یا «عه» استفاده میکنند
و باید حتمن تکلیف صداها را در حروف فارسی مشخص کرد. در کلمه « اتاق » حرف الف را « اُ »
در کلمه « اداره » حرف الف را « اِ »
در کلمه « اسب » و « ادب » حرف الف را « اَ » می خوانیم.
و این خواندن از روی حروف الفبا گرفته نمی شود و حروف الفباء
آن را نشان نمی دهد و فقط با تصویر خوانی امکان دارد که این کلمه ها
را درست بخوانیم، یعنی قبلن درست آن را چند بار شنیده ایم و یاد گرفته ایم
که آن حرف را در این شکل نوشته یا در این کلمه، « اَ » یا « اُ »
و یا « اِ » بخوانیم، و این نقص و کمبود برای
خط و نوشته های فارسی هست که باید برطرف شود.
تا چه زمانی می خواهیم شانه ها را بالا بیاندازیم؟
..
سوز
۱۴ خرداد ۲۵۸۲ شاهی – ۱۴۰۲ هجری
04.06.2023
1 note
·
View note
Text
درچهل وهفتمین روزچهل وپنج سالگی ام، وقت برگشتن از محل کارم، از دبستانم رد شدم. البته به این کوچکی نبود. بسیاربزرگ بود. دوطبقه کلاس داشت وحیاطش باغی بسیار بزرگی بودکه میزبان مسابقات والیبال و دومیدانی مدارس می شدو کلاسهای اول هم درآن قرارداشت. پنج سال ابتدایی، عاشقانه ترین یادگیری را با بهترین معلمانم داشتم. خانمهای دوستی، پروانه، داجخوش، کهزادی وشیشه گر عاشقانی بودند که دانش را بامهربانی وعشق به من آموزش دادندو محبت بی دریغشان باعث شدکه من احساس نکنم باوجودکم شنوایی، بادیگر همکلاسهایم تفاوت دارم. امتحان دیکته تنهاامتحانی بود که باسفارشهای این عاشقان که حتما ممتحن برای خواندن متن فارسی باید بالای سرم باشدتا با لب خوانی بنویسم، راهرگز فراموش نمی کنم. اگرزنده اندبه خوشی عمربگذرانندو اگردرقیدحیات نیستند، بهترین آمرزش نصیبشان باد.
#زهرا
#حس_خوب_حال_خوب
#بیست_و_سه_شهریور_هزار_و_چهار_صد
#لحظه_را_دریابیم
#خوب_زندگی_کنیم
#چهل_و_پنج_سال_و_چهل_و_هفت_روز
#شهر_تهران_عشق_من
#یک_عکس_چند_نگاه
#از_مجموعه_عکسهای_زهرا
#دبستان_تقوی
#کلاس_اول_خانم_دوستی
#کلاس_دوم_خانم_پروانه
#کلاس_سوم_خانم_داجخوش
#کلاس_چهارم_خانم_کهزادی
#کلاس_پنجم_خانم_شیشه_گر
8 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر صفدر محمود : قائدِ اعظم کا ایک سپاہی رخصت ہو گیا
فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات ہے۔ قائد اعظم کا یہ سپاہی، یہ نظریاتی باڈی گارڈ، تحریک پاکستان کا یہ مجاہد تیرہ ستمبر کو اپنی آبائی بستی ڈنگہ ضلع گجرات میں سپرد خاک ہو گیا۔ تحریک پاکستان کے مجاہد وہ اس طرح تھے کہ اس تحریک پر آج تک برابر حملے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے! عرب شاعر نے کہا تھا: أضاعُونی وأیَّ فَتیً أضاعوا لیومِ کریہۃٍ وسدادِ ثَغــرِ مجھے کھو دیا! اور جنگ کے دن کے لیے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے کیسا زبردست جوان کھو دیا! ڈاکٹر صاحب کی وفات پر زیادہ زور اس ذکر پر دیا جا رہا ہے کہ وہ وفاقی سیکرٹری رہے اور کالم نگار! اقبال نے دربار رسالت میں فریاد کی تھی کہ انصاف فرمائیے! مجھے لوگ غزل گو سمجھ بیٹھے ہیں! من ای میرِ امم داد از تو خواہم مرا یاران غزل خوانی شمردند وفاقی سیکرٹری ایک اینٹ اکھاڑیے تو نیچے سے تین نکلتے ہیں۔ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔ کالم نگار بھی بہت ہیں! مگر صفدر محمود مؤرخ تھے! چوٹی کے محقق! بیسیوں کتابوں کے مصنف اور کتابیں بھی ایسی کہ عرق ریزی اور مشقت کا حاصل! کئی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے۔
کئی بار انہوں نے لندن جا کر انڈیا آفس کو کھنگالا۔ واشنگٹن جا کر آرکائیوز کا مطالعہ کیا۔ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ پاکستان، تاریخ و سیاست۔ مسلم لیگ کا دورِ حکومت۔ آئینِ پاکستان۔ یہ تو چند کتابوں کے عنوانات ہیں۔ ان کی تصانیف اور بھی ہیں۔ اردو میں بھی، انگریزی میں بھی۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں جو بے اصل، غلط اور جھوٹی باتیں پھیلائی گئیں یا پھیل گئیں، ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت کر کے ان کی اصلیت کو واضح کیا۔ اس کے لیے وہ ہر اس شخصیت سے ملے جس کا قائد اعظم سے تعلق رہا یا جو واقفِ حال تھا۔ ایک ایک سورس، ایک ایک ذریعہ تلاش کیا۔ کڑی مشقت کے بعد سچ دنیا کے سامنے لائے۔ پاکستان کے کئی بدخواہ ان کی تحقیق اور ان کے لائے ہوئے سچ کا جواب نہ دے سکے۔ کچھ نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ یہ اور بات کہ جہاں جہاں نیت کا فتور تھا، وہاں ہٹ دھرمی قائم رہی! کچھ مغالطے جو عام ہیں یا عام کیے گئے اور جن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کر کے حقیقت واضح کی، مندرجہ ذیل ہیں:
٭ قراردادِ پاکستان وائسرائے نے قائد اعظم کو دی اور انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس سے منظور کروالی۔ ٭ حلف برداری کے لیے قائد اعظم آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئے جس پر چیف جسٹس میاں عبدالرشید نے اعتراض کیا۔ ٭ پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی گئی۔ ٭ ریڈ کلف ایوارڈ اور خاص طور پر پنجاب کی تقسیم مسلم لیگ کے مطالبات کے عین مطابق تھی۔ ٭1935 ء میں قائد اعظم کی ہندوستان واپسی ایک خواب کا نتیجہ تھی۔ ٭ علامہ اقبال نے خطوط لکھ کر قائد اعظم کو لندن سے واپسی پر آمادہ کیا۔ ٭ قائد اعظم سے منسوب یہ بیان کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ ٭ قائد اعظم سے منسوب یہ فقرہ کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیے گئے ہیں۔ ٭ کراچی میں ایمبولنس کی خرابی سازش تھی۔ ٭ زیارت سے لے کر کراچی آمد تک لیاقت علی خان کے حوالے سے تراشے گئے بدگمانیوں کے افسانے۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے یہ سب مفروضے اور جھوٹ غلط ثابت کیے۔ انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیے۔ گواہیاں پیش کیں۔ حوالے دیے۔ ریفرنسز دکھائے۔ عینی شاہدوں سے ملے۔ حلف برداری کی تقریب کی وڈیو ڈھونڈی اور دیکھی۔ یہ جو آج پوری دنیا میں تحریک پاکستان کی تاریخ کے طالب علم اور قائد اعظم کے شیدائی ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات پر غم زدہ ہیں تو اس کا سبب مرحوم کی یہ محنت اور مشقت ہی تو ہے۔ انہوں نے تن تنہا اتنا کام کیا جتنا بڑے بڑے ادارے کرتے ہیں۔ کوئی مالی امداد ان کی پشت پر نہ تھی۔ کسی ادارے کا تعاون حاصل نہ تھا۔ ہم جیسے طالبان علم کے لیے ان کے دروازے ہمہ وقت کھلے تھے۔ جب بھی ان موضوعات پر کوئی مشکل پیش آتی، رہنمائی فرماتے۔ کتاب پاس ہوتی تو ارسال فرما دیتے‘ ورنہ بتاتے کہ کون سا حوالہ ہے اور کہاں ملے گا۔ اس کالم نگار پر ہمیشہ شفقت فرماتے اور اس قابل سمجھتے کہ کسی مسئلے پر تشویش ہو تو شیئر کریں۔
ڈاکٹر صاحب کس طرح مسئلے کی تہہ تک پہنچتے تھے، اس کی صرف ایک مثال قارئین کی خ��مت میں پیش کی جاتی ہے: یہ جھوٹ کچھ حلقوں نے تواتر کے ساتھ پھیلایا کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل جگن ناتھ آزاد کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے ترانہ لکھا جو قائد نے منظور کیا اور پھر یہ ترانہ اٹھارہ ماہ تک گایا جاتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس جھوٹ کے رد میں عقلی اور نقلی بارہ دلائل دیے۔ ایک: قائد کی قانونی اور آئینی شخصیت کے لیے ناممکن تھا کہ کابینہ، حکومت اور ماہرین کی رائے کے بغیر ترانہ خود ہی منظور کر لیتے جبکہ انہیں اردو اور فارسی سے واجبی سا تعلق تھا۔ دو: قائد اس وقت 71 سال کے تھے۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 برس کا ایک غیر معروف نوجوان تھا۔ لاہور میں اس کا قیام تھا اور اینٹی پاکستان اخبار 'جئے ہند‘ میں ملازم تھا۔ دوستی تو کجا، قائد سے اس کا تعارف بھی ناممکن تھا۔ تین: پروفیسر سعید کی کتاب میں 25 اپریل 1948 تک کے قائد کے ملاقاتیوں کی مکمل لسٹ ہے۔
اس میں جگن ناتھ نام کا کوئی ملاقاتی نہیں۔ چار: انصار ناصری نے قائد کے کراچی آنے کے بعد کی مصروفیات پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے‘ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا کوئی ذکر نہیں۔ پانچ: ڈاکٹر صفدر محمود، عطا ربانی سے‘ جو قائد کے اے ڈی سی تھے، ملے۔ یہ ملاقات کافی جدوجہد کے بعد مجید نظامی کی مدد سے ممکن ہوئی۔ عطا ربانی کا صاف سیدھا جواب تھا کہ اس نام کا کوئی شخص قائد سے ملا نہ قائد سے انہوں نے یہ نام کبھی سنا۔ چھ: جگن ناتھ آزاد نے اپنی وفات تک خود یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ سات: ڈاکٹر صفدر محمود نے ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز چھان مارے۔ ان میں بھی ایسا کوئی ذکر نہیں۔ آٹھ: ڈاکٹر صاحب نے اگست 1947 کے اخبارات چھان مارے۔ جگن ناتھ کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ نو: ڈاکٹر صاحب نے خالد شیرازی سے ملاقات کی جنہوں نے اگست 1947 کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے بھی اس دعوے کی نفی کی۔
دس: ریڈیو پاکستان کے رسالہ 'آہنگ‘ میں ایک ایک پروگرام کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس میں بھی جگن ناتھ کے ترانے کا کوئی ذکر نہیں۔ گیارہ: جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ''آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ میں صرف یہ لکھا کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ اس نے قائدِ اعظم کا ذکر کیا نہ ترانے کا۔ بارہ: ایک بھارتی سکالر منظور عالم نے جگن ناتھ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا‘ جس میں جگن ناتھ کا انٹرویو ہے جس میں انہوں نے ان مشاہیر کا ذکر کیا‘ جن سے وہ ملے۔ ان میں قائد اعظم کا ذکر نہیں، اگر ملے ہوتے تو یقیناً ذکر کرتے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر ایشو پر اسی طرح مکمل تحقیق کی اور کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا۔ ان کی دو کتابیں ''سچ تو یہ ہے‘‘ اور ''اقبال، جناح اور پاکستان‘‘ تاریخِ پاکستان کے ہر شائق کو ضرور پڑھنی چاہئیں۔ ان کی بعض آرا سے اختلاف بھی ہے‘ مگر اس کا یہ موقع نہیں۔ خداوند قدوس ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کی نیکیوں اور قومی خدمات کو قبول کرے!
محمد اظہارالحق
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes
·
View notes
Text
آموزش تعمیرات موبایل در کرج
آموزش تعمیرات موبایل از دوره های ویژه در بازار کار البرز شامل آموزش تعمیرات سخت افزاری موبایل و آموزش تعمیرات نرم افزاری موبایل می باشد.
در دوره آموزش تعمیرات موبایل در کرج کارآموزان اصول پایه تا پیشرفته را به طور کامل آموزش می بینند و با انجام فعالیت های عملی کافی در کارگاه تعمیرات موبایل در کرج می توانند بعد از آموزش در بالاترین مهارت وارد بازار تعمیرات موبایل شوند و شغل خود را ایجاد کنند.
افرادی که در استان البرز هستند به راحتی میتوانند در دوره های تخصصی آموزش تعمیرات موبایل در کرج شرکت کنند و با گذراندن دوره آموزش تعمیرات موبایل میتوانند برای خود کسب و کاری مستقلی راه اندازی کنند.
دوره آموزش تعمیرات موبایل در کرج
این روزها بازار تعمیر وسایل الکترونیکی و قطعات یدکی آنها بیش از هر موقع دیگری داغ شده است.
اگر گذرتان به پاساژهای لوکس موبایل فروشی افتاده باشد با نگاهی گذرا به فروشگاههای شیک و بزرگ متوجه خواهید شد که بازار خرید و فروش موبایل کساد شده .
افزایش قیمت زیاده تجهیزات الکترونیکی در کنار کاهش قدرت خرید شهروندان علت اصلی این موضوع است که منجر به افزایش تقاضا برای تعمیرات موبایل شده است.
سرفصل های دوره مقدماتی در آموزش تعمیرات موبایل در کرج
- آشنایی و تشریح کامل برد ( آشنایی با قطعات SMD و آیسی های BGA ) - آشنایی کامل با قطعات SMD و علائم خرابی آنها و طریقه تست - آشنایی کامل با آیسی های BGA و علائم خرابی آنها - آشنایی کامل با تمام بخش های گوشی و علائم خرابی هربخش و طریقه تست قطعه معیوب - عیب یابی کامل با منبع تغذیه - نقشه خوانی و طریقه تست قطعه معیوب تا آیسی مربوطه - آشنایی با پایه های تشکیل دهنده آیسی ها و طریقه ترمیم پایه های کنده شده از روی برد - طریقه تعویض آیسی های BGA - طریقه تعویض قطعات SMD + قطعات و کانکتورهای پلاستیکی - آشنایی کامل با مباحث نرم افزاری فلش، فارسی سازی، روت، آنلاک و حذف FRP ( باکس های آموزشی بر مبنای باکس خود کارآموز )
سرفصل های دوره تخصصی در آموزش تعمیرات موبایل
- آشنایی و تشریح کامل برد ( آشنایی با قطعات SMD و آیسی های BGA ) - آشنایی کامل با قطعات SMD و علائم خرابی آنها و طریقه تست - آشنایی کامل با ساختار هارد از نظر سخت افزاری - آشنایی کامل با ساختار هارد از نظر نرم افزاری - آشنایی کامل با انواع emmc از نظر BGA - آشنایی کامل با پایه های اصلی پروگرام در emmc - آشنایی کامل با انواع emmc از نظر کمپانی - آشنایی کامل با تمامی CPU ها و علائم خرابی هارد در آنها - آموزش کامل پروگرام کردن و ترمیم هارد با باکس های UFI – Medusa Pro – Easy Jtag - آموزش تعویض اصولی Baseband, CPU, Emmc و تمام قطعات چسبی - آموزش شناسایی و ترمیم پایه های اصلی کنده شده از روی برد - آموزش شناسایی ارورهای بعد از تعویض هارد و رفع کردن آنها - آموزش تخصصی مباحث نرم افزاری فلش، فارسی سازی، روت، آنلاک، حذف FRP ، ترمیم سریال، ترمیم شبکه ( باکس های آموزشی بر مبنای باکس خود کارآموز )
http://www.parsertebatco.com/training
3 notes
·
View notes
Text
کانال رشید علي الکاظمي
کانال رشید علی الکاظمی #زبان #عربی #فارسی #تلگرام #کانال #گروه
قصائد في رثاء أهل البيت عليهم السلام باللغتين العربية والفارسية للرادود رشيد علي الكاظمي نوحه خوانی به دو زبان فارسی و عربی مداح رشید علی الکاظمی يمكنكم الإشتراك في القناة عن طريق الرابط التالي⏬ https://t.me/joinchat/AAAAAD9HWlX6e9vZqa-TSg
View On WordPress
0 notes
Video
youtube
سند خوانی 6 - حسینی اشکوری
. نامه های (فدایت شوم!) یا (اِخوانیّات) در میان اسناد باقیمانده به زبان فارسی، بیشترین شمار اسناد را به خود اختصاص داده اند. در عین حال که از منظری گذرا و بازاری، کم اهمیت هستند، ولی نگاهی جدی به آنها، لایه های ناگفته تاریخ را دگرگون میکند. افزون بر اهمیت تاریخی، در این ویدئو، به خواندنِ یک نمونه پرداخته ایم تا شاید ترغیبی ایجاد کنیم برای آن دسته از پژوهندگان که اسناد را به جهتِ سختیِ خوانش، در دائرۀ تحقیقات خود جدی نمیگیرند. بر خلاف متنِ بظاهر شلوغ، خواندن این گونه اسناد، آنقدرها هم مشکل نیست. (انس با خطوط قدیمی) بهترین راهکار برای خوب خوانی و استفادۀ بهینه از این اسناد مهم است. در این قسمت، بخشی از خواندنِ متن، بر عهدۀ سندخوان گذاشته میشود تا بار دیگر خود را محک بزند. #اشکوری #سندخوانی
0 notes
Text
تعزیه محرم 1396 روستای برغمد
تعزیه محرم 1396 روستای برغمد هم طبق روال هرساله در این روستا برگزار شد. مجتمع فرهنگی مذهبی بنی هاشم برغمد .هرساله در دهه نخست محرم مراسم تعزیه خوانی یا شبیه خوانی را در میدان بزرگ تعزیه روستای برغمد برگزار می کند،
تعزیه
تعزیه به معنای متعارف، نمایشی است که در آن واقعه کربلا به دست افرادی که هر یک نقشی از شخصیتهای اصلی را بر دو�� دارند، نشان داده میشود این نمایش نوعی نمایش مذهبی و سنتی ایرانی- شیعی و بیشتر درباره کشته شدن حسین بن علی و مصائب اهل بیت است. هنر تعزیه از یک سو به بالندگی تئاتر در ایران کمک کرده و از سوی دیگر، نشانی هنری از مذهب شیعه است.
تعزیه نامه
تعزیه نامه، عبارت است از متنی که تعزیه گردان برای اجرای تعزیه ای گرد آورده یا می نگارد و پیش از آغاز تعزیه میان شبیه خوانها پخش می کند. گاهی به تعزیه نامه نسخه نیز می گویند. تعزیه نامه ها، پیشینه سرایش و نگارش تعزیه را که معمولا به صورت اشعار عامیانه توسط شاعرانی گمنام و تعزیه گردانان سروده می شد، به سالهای میانی سده دوازدهم هجری می رسد . زمینه پیدایی و تکامل تعزیه ها را نیز باید در مرثیه ها جست و جو نمود. سرایش مرثیه ها با زمینه رویداد کربلا از گذشته های تقریبا دور آغاز گشته بود، چنانکه شاید بتوان به اشعاری چند از حدیقة الحقیقة سنایی غزنوی را در دیباچه تاریخی مرثیه به شمار کرد. اما آغاز مرثیه سرایی با این مفهوم مشخص و به گونه گسترده مربوط است به سده نهم. مرثیه سرایان نامداری چون رفیعای قزوینی (صاحب حمله حیدری)، کمال غیاث شیرازی، ابن حسام قهستانی (صاحب خاوران نامه)، باباسودایی ابیوردی، تاج الدین حسن تونی سبزواری، لطف الله نیشابوری، و کاتبی ترشیزی نیز اشعاری در رثای شهیدان کربلا سرودند. محتشم کاشانی محتشم کاشانی که ترکیب بند مشهور اوجانی تازه در مرثیه سرایی ایران دمید، به گونه ای که از آن پس سرودن مرثیه بسیار رایج گشت و در عهد قاجاریه به اوج خود رسید (ترکیب بند محتشم) . منابع داستانی تعزیه ها غالبا کتابهای مقاتل (مقتل نامه ها) و حماسه های دینی و احادیث و اخبار بوده اند. از جمله شاعرانی که در این زمینه تلاشی ارزشمند کرده اند یکی میرزا نصرالله اصفهانی (شهاب) است که در دوره ناصرالدین شاه و به تشویق امیرکبیر به گردآوری و تکمیل اشعار تعزیه پیش از خود پرداخت و خود نیز تعزیه هایی به نگارش آورد که تعزیه مسلم، از جمله آنهاست، و دیگر باید از محمد تقی نوری و نیز سید مصطفی کاشانی (میر عزا) نام برد. کاشانی خود تعزیه گردانی بنام بود و «تعزیه حر» بدو منسوب است. ماندگاری برخی از تعزیه ها تا اندازه زیادی مرهون نمایش دوستی و ذوق ادبی برخی از کارگزاران خارجی در ایران است.
میدان بزرگ تعزیه بنی هاشم برغمد
تعزیه بنی هاشم برغمد همه ساله در ایام محرم از اول محرم تا روز عاشورا در برغمد پایین روستا روبه روی مسجد بازسازی شده صاحب الزمان برگزار می شود. میدانی که در سال 96 ساخته شده برای برگزاری مراسمات عزاداری تاسیس شده و نام این میدان حسینیه ی حضرت سیدالشهداء برغمد مع��فی شده است. این میدان گنجایش هزاران نفر را دارا می باشد. هر ساله که به محرم نزدیک می شویم روستای برغمد از ابتدا روستا تا محل برگزاری تعزیه سیاه پوش می شود. این میدان در منطقه پیراکوه شهرستان جوین جزء بزرگترین میدان تعزیه شناخته شده است. مسئول برگزاری تعزیه بنی هاشم برغمد و این مراسمات جناب آقای حاج علی برغمدی که با تلاش ها و زحماتی که برای روستای برغمد کشیده اند روستای برغمد را در منطقه پیراکوه شهرستان جوین جزء فعال ترین روستا معرفی کرده است، نه تنها آقای حاج علی برغمدی بلکه اطرافیان ایشان خانم زهرا برغمدی مدیر عامل موسسه خیریه و ایتام بنی هاشم رضوی و جناب آقای حسین برغمدی مدیر برنامه ریزی موسسات بنی هاشم رضوی و جناب آقای امیررضا برغمدی مدیر گروه it و مجموعه موسسات بنی هاشم رضوی زحمات زیادی در این مراسمات داشته اند و ارزوی سلامتی برایشان خواهانیم. در حاشیه این میدان یک ایستگاه صلواتی قرار داده شده است. که این ایستگاه را آقای بهروز برغمدی همه ساله برعهده دارد و همه ساله از اول محرم تا روز عاشورا این ایستگاه پابرجاست. دور میدان تعزیه را پرچم سیاهی پوشانده است و یک طرف میدان هرساله اسامی که فوت شده اند و از بین ما رفته اند و یا خادمینی که در سال های دور خادم مسجد برغمد بودند را به صورت تصویر در دور میدان به نمایش قرار می دهند.
تعزیه محرم 1396 روستای برغمد
تعزیه محرم 1396 روستای برغمد بهتر از سال های قبل برگزار شد و تعزیه خوان یا شبیه خوان های مطرح کشور در این میدان بزرگ حضور داشتند.
تعزیه خوانان میدان بزرگ تعزیه بنی هاشم برغمد:
موافق خوانان: جناب آقای حاج محسن گیوه کش جناب آقای عادل میراسماعیلی جناب آقای مجید خسروانی جناب آقای قاسم مسکنی جناب آقای ابراهیم امیری مقدم جناب آقای حاج محمدرضا وکیلی جناب آقای حاج علی اکبر بیروتی جناب آقای حسن وکیلی سرکار خانم هانیه شمس آبادی پسرهای جناب آقای محمد جلینی مخالف خوانان: جناب آقای حاج مرتضی صفاریان جناب آقای مهدی شمس آبادی جناب آقای جواد تسبیحی جناب آقای اکبر زارع جامه دار: جناب آقای حاج غلام تکاپو جناب آقای میثم تکاپو نوازنده آلات موسیقی: جناب آقای حسن روحی(شیپور و نی ) جناب آقای امیر سلیمانی مقدم (طبل) مسئول اسب و شتر: جناب آقای پاکیزه فیلمبردار: جناب آقای وثوقی گروه صوت: جناب آقای سهیلی در میدان بزرگ تعزیه بنی هاشم برغمد حضور داشتند. برنامه های تعزیه و جدول برگزاری تعزیه ها در پایین صفحه قرار داده شده است.
شب اول محرم تعزیه عمر بن عبدَوَد :
در شب اول محرم تعزیه عمر بن عبدَوَد گفته خواهد شد چه کسانی در این تعزیه هستند و عمر بن عبدود چه کسی بود و چه کاری کرد: تعزیه خوانان شب اول: حاج محسن گیوه کش حاج مرتضی صفاریان آقای قاسم مسکنی آقای مهدی شمس آبادی آقای محمدرضا وکیلی آقای عادل میر اسماعیلی آقای علی اکبر زارع
تعزیه عمر بن عبدود:
در ابتدا حاج محسن گیوه کش در مورد این تعزیه محرم 96 روستای برغمد خواهد گفت که: تعزیه شب اول محرم جنگ خندق یا جنگ احذاب ، جنگ احذاب به معنی حذب ها یعنی حذب های مختلفی از یهود جمع شدند برای نابودی اسلام می فرمایند در جنگ خندق امیر المومنین به یک روایت 13 ساله بودند و به یک روایت 18 ساله یعنی نوجوانی بیشتر نبودند. دین اسلام را هم تازه حضرت رسول الله برایشان تبلیغ می کردند. یهود های مدینه جمع می شدند که محمد را نابود کنند. از این رو نامه ای را می نویسند به عمر بن عبدود که می گویند در زمان رسول الله چهل شتر در کلاه خودش آب می خوردند. یعنی اینقدر قوی و شجاع بوده است و صداقتش را به ستون کفر می زدند یعنی اگر عمر بن عبدود رسول الله و امیرالمومنین را قالب می کرد الان انسان های شیعه بت پرست بودند. در یک روایت است که می گویند: ضربتی که امیرالمومنین علی (ع) در جنگ خندق یا جنگ احذاب به عمر بن عبدود وارد کرد برابر است با عبادت کل بشر که اینقدر خداوند به امیرالمومنین مقام و منزلت داده است. حالا چرا می گویند جنگ خندق سلمان فارسی یکی از احذاب و حذب ها بود که به رسول خدا پیوست ایرانی بود و افتخار ما ایرانی ها سلمان فارسی است، وقتی عمر بن عبدود می خواست به مدینه برسد جبرئیل به رسول خدا پیام داد که امر داره میاد سلمان فارسی خدمت رسول الله رسید عرضه داشت یا رسول الله در ایران و در شهرهای ایران رسم است برای اینکه دشمن به شهر نفوذ نکند خندق به دور شهر می کندند و درون آن خندق آب و آتش یا... می ریزند که عبور برای دشمن سخت باشد که نتواند حرکتی داشته باشد.
جنگ خندق
جنگ خندق از این رو پیغمبر خدا گفتند که دور شهر مدینه را خندق کندند. از این رو جنگ احذاب را جنگ خندق می نامند و موقعی که امیرالمومنین با عمر بن عبدود مقابل شدند میفرمایند شعله ذوالفقار امیرالمومنین رام عمربن عبدود را قطع کرد و عمر بن را بر زمین نقش بست و در آن جا یک روایتی هم است که می گویند عمر بن عبدود به امیرالمومنین توهین می کند و آب دهنش را به صورت حضرت علی پرتاب میکند میگویند در آن حالت حضرت علی سر عمر بن عبدود را از بدن جدا نکرد مقداری قدم زد وقتی اسب ها اعصبشان به جای خودش برگشت بدنش در آرامش کامل بود سر عمر را از بدنش جدا کرد و می فرمایند که لباس عمر بن عبدود را نگذاشت کسی دست بزند یعنی هرچه زینت آلات یا یاقوت و نقره در لباس خود داشت امیرالمومنین نگذاشت کسی دست بزند. یک روایت است که می گویند که خواهر عمر بن عبدود هم خیلی قوی بوده است که خبر مرگ برادرش را می شنود می آید بدن برادرش را می بیند کسی که این شخص را کشته خیلی مرد بوده می گویند از آنجا که برمیگرده و به یکی از قنیمتهای برادرش دست نزده و ............... ادامه تعزیه را در فیلم هایی که در هفته های آینده گذاشته می شود ببینید. تعزیه محرم 1396 روستای برغمد شب دوم حضرت علی هفته اینده در سایت گذاشته می شود.
شب دوم (تعزیه دوم) محرم تعزیه حضرت علی (ع):
در شب دوم محرم تعزیه حضرت علی (ع) در تعزیه محرم 96 روستای برغمد گفته خواهد شد چه کسانی در این تعزیه هستند موضوع اصلی ایناین تعزیه و حضرت علی چه کاری کرد :
تعزیه خوانان شب دوم:
حاج محسن گیوه کش حاج مرتضی صفاریان قاسم مسکنی مهدی شمس آبادی جواد تسبیحی عادل میراسماعیلی ابراهیم امیری مقدم مجید خسروانی محمدرضا وکیلی مسعود مسکنی رضا گود آسیابی علی اکبر زارعی شب دوم در تعزیه ی شهادت حضرت علی (ع) تعزیه خوان جناب آقای حاج محسن گیوه کش توضیحاتی در مورد این تعزیه می دهد در تعزیه محرم 96 روستای برغمد ایشان می فرمایند که : علی ای همای رحمت ، تو چه آیتی خدارا ، که به ما صدا فکندی ، همه سایه ی همارا ، که به جزء علی بگوید ، که به پسر قاتل من ، که اسیر توست اکنون ، به اسیر کن مدارا ایشان در مورد شهادت حضرت علی (ع) سخنانی می گوید :
شهادت حضرت علی (ع)
شهادت حضرت علی (ع) در تعزیه محرم 1396 برغمد بود زمانی که "فزت و رب الکعبه" را بر زبان جاری کرد گویی عالمی را در غم فرو برد به مناسبت این حادثه بسیار ناگوار و مصیبت جانکاه و برای آشنایی با ارزش تعالیم نجات بخش اسلام و مفاهیم تشیّع به بخشی از زندگی نامه بی نظیر حضرت علی علیه السّلام اشاره میکنیم. پدر ایشان حضرت ابوطالب فرزند عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف و مادرش هم فاطمه دختر اسد بن هاشم بود بنابراین علی علیه السلام از هر دو طرف هاشمی نسب است. امام علی (ع) در روز جمعه ۱۳ رجب سال سی ام عام الفیل و در خانهی خدا متولد شدند. هنگام شهادت سن شریف حضرت علی علیه السلام ۶۳ سال و مدت امامتش نزدیک ۳۰ سال و دوران خلافت ظاهریش نیز در حدود پنج سال بود. علی (ع) امام معصوم و انسان کاملی است که تمام رفتار و سخنان و تأییدات او برای ما حجّت و اعتبار دارد او قرآن ناطق و امام مبینی است که هیچ کس قدرش را ندانست تا زمانی که در مسجد و محراب به خون غلتید، او به هنگام خشم بر دشمنان خدا قاطع، ولی در مقابل کودک یتیم آن قدر متواضع و مهربان بود که در برابر طفل یتیم روی خاک مینشست، دست مرحمت بر سر او گذاشته و آه می کشید و می فرمود:بر هیچ چیزی مثل کودکان یتیم آه نکشیده ام. تعزیه محرم 1396 روستای برغمد ابوالحسن، ابوالحسین، ابوتراب، ابو السبطین و الریحانتین از کنیههای امام علی (ع) است. امیرالمؤمنین، سیّد الوصیین، سیّد المسلمین، سیّد الأوصیاء، سیّد العرب، خلیفة رسول الله، امام المتّقین، یعسوب المؤمنین، صهر رسول الله، حیدر، مرتضی و وصی از جمله القاب آن حضرت است.
شهادت حضرت علی (ع)
بعد از جنگ نهروان و سرکوب خوارج برخی از خوارج از جمله عبدالرحمان بن ملجم مرادی، و برک بن عبدالله تمیمی و عمروبن بکر تمیمی در یکی از شبها گرد هم آمدند و اوضاع آن روز و خونریزیها و جنگ های داخلی را بررسی کردند و از نهروان و کشتگان خود یاد کردند و سرانجام به این نتیجه رسیدند که باعث این خونریزی و برادرکشی حضرت علی (ع) و معاویه و عمروعاص است و اگر این سه نفر از میان برداشته شوند، مسلمانان تکلیف خود را خواهند دانست. سپس با هم پیمان بستند که هر یک از آنان متعهد کشتن یکی از سه نفر گردد. ابن ملجم متعهد قتل امام علی (ع) شد و در شب نوزدهم ماه رمضان همراه چند نفر در مسجد کوفه نشستند. آن شب حضرت علی (ع) در خانه دخترش مهمان بودند و از واقعه صبح با خبر بودند، وقتی موضوع را با دخترش در میان نهاد، ام کلثوم گفت:فردا جعده را به مسجد بفرستید. حضرت علی (ع) فرمود::از قضای الهی نمیتوان گریخت. آنگاه کمربند خود را محکم بست و در حالی که این دو بیت را زمزمه میکرد عازم مسجد شد. تعزیه محرم 1396 برغمد کمر خود را برای مرگ محکم ببند، زیرا مرگ تو را ملاقات خواهد کرد و از مرگ، آنگاه که به سرای تو درآید، جزع و فریاد مکن. ابن ملجم، در حالی که حضرت علی (ع.) در سجده بودند، ضربتی بر فرق مبارک آن حضرت وارد ساخت. خون از سر حضرتش در محراب جاری شد و محاسن شریفش را رنگین کرد. در این حال آن حضرت فرمود:" فزت و رب الکعبه " به خدای کعبه سوگند که رستگار شدم سپس آیه ۵۵ سوره طه را تلاوت فرمود::"شما را از خاک آفریدیم و در آن بازتان میگردانیم و بار دیگر از آن بیرونتان میآوریم. "
آخرین وصایای حضرت علی (ع) به فرزندانش
حضرت علی (ع) در واپسین لحظات زندگی نیز به فکر صلاح و سعادت مردم بود و به فرزندان و بستگان و تمام مسلمانان چنین وصیت فرمود: شما را به پرهیزکاری سفارش میکنم و به اینکه کارهای خود را ��نظم کنید و اینکه همواره در فکر اصلاح بین مسلمانان باشید. نماز را بسیار گرامی بدارید که ستون دین شماست. ی تیمان را فراموش نکنید، حقوق همسایگان را مراعات کنید. قرآن را برنامه عملی خود قرار دهید. تعزیه محرم 1396 برغمد
شب سوم ( تعزیه سوم ) تعزیه حضرت شاه چراغ و همراهانش:
تعزیه خوانان شب سوم
حاج محسن گیوه کش قاسم مسکنی ابراهیم امیری مقدم حاج مرتضی صفاریان مهدی شمس آبادی جواد تسبیحی عادل میراسماعیلی مجید خسروانی محمدرضا وکیلی علی اکبر زارعی 17 رجب سالروز بزرگداشت شهادت حضرت احمد بن موسی الکاظم (ع) معروف به حضرت شاهچراغ (ع) برادر بزرگتر حضرت امام رضا (ع) است که پس از شهادت امام موسی کاظم (ع) به توصیه پدر و اجداد پاکش عمل نموده و در حالیکه مردم به سمت ایشان رفتند تا با آن بزرگوار به عنوان امام بیعت کنند، آن حضرت ولی و جانشین امام هفتم (ع) را برادر خود یعنی علی بن موسی الرضا (ع) معرفی کرد و خود را در بیعت ایشان خواند و از مردم هم خواست تا با ثامن الحجج (ع) بیعت کنند و از ایشان تبعیت کنند به همین سبب این شخصیت والامقام را "امین ولایت" نامیده اند.
شهادت حضرت شاه چراغ
وقتی خبر شهادت حضرت موسی کاظم علیه السلام در مدینه ��ایع شد، مردم به در خانه ام احمد، مادر حضرت شاه چراغ «احمد بن موسی» گرد آمده و حضرت سید میر احمد را با خود به مسجد بردند، زیرا از جلالت قدر و شخصیت بارز و اطلاع بر عبادات و طاعات و نشر شرایع و احکام و ظهور کرامات و بروز خوارق عادات که در آن جناب سراغ داشتند، گمان کردند که پس از وفات پدرش امام موسی بن جعفر علیه السلام امام بحق و خلیفه آن حضرت فرزندش «احمد» است. >>ادامه مطالب هفته های اینده ... Read the full article
#اخبارجوین#اخبارسبزوار#برغمد#برنامههایتعزیهحسینیهحضرتسیدالشهداءبرغمد-محرم1396#برنامههایمجموعهفرهنگیمذهبیبنیهاشم–برغمدمحرم۹۴#تعزیهروستایبرغمد#دربارهبرغمد#دربارهروستا#دربارهروستایبرغمد#روستایبرغمد#روستایبرغمددرجوین#فعالیتهایروستایبرغمد
2 notes
·
View notes
Text
قلعہ روہتاس، جنگی طرز تعمیر کا شاہکار
شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس جرنیلی سڑک پر جہلم میں واقع ہے۔ دریائے جہلم بھی یہاں ہی ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ''خواص خانی‘‘ دروازے سے قلعے میں داخل ہوا جاتا ہے۔ قلعہ میں سب سے حیران کن چیز باؤلی یعنی ''سیڑھیوں والے کنویں‘‘ ہے۔ قریبی فصیل پر بھی چڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ آپ کو 6 صدیاں پیچھے تاریخ میں لے جاتا ہے۔ آج یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔
جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہو گیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا تھا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہیں، اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں سے گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
اخراجات: ایک روایت کے مطابق ''ٹوڈرمل‘‘ نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدوروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کے کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔ یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت عملی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔
ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھا جبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے'' دور شیر شاہی‘‘ میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔
گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔ قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔
قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلمہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے موجودہ حالت: قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔
قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں ک��تے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
فرخ ، رانا عثمان
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Photo
#سید_جواد_ذبیحی_درکه_ای ( تولد ۱۳۰۹ #شمیران – درگذشته ۲۴ تیر ۱۳۵۹ #تهران) #مؤذن و خواننده دعاهای مذهبی و آوازهای اصیل ایرانی بود. پدرش #سید_اسدالله_ذبیحی_درکه_ای، مداحی از ساکنان #روستای_درکه واقع در شمال تهران بود. #سیدجواد_ذبیحی نیز به رسم خواننده های مذهبی از جوانی کلاه فینه به سر میگذاشت و در مجالس مذهبی تهران و شهرستانها شرکت میکرد. با وجود آنکه تحصیلات رسمی نداشت تمام ردیفهای آوازی را به خوبی میشناخت. او از سال ۱۳۳۶ با همکاری #داوود_پیرنیا و هنرمندانی چون #حسن_کسایی، #رضا_ورزنده، #جلیل_شهناز، #احمد_عبادی، #مرتضی_محجوبی، #علی_تجویدی، #پرویز_یاحقی، #حسین_تهرانی، #مهدی_خالدی و #فرهنگ_شریف، وارد عرصه موسیقی غیر مذهبی شد و آوازهای زیبایی را به همراه ساز ایشان به یادگار گذاشت. او به همراه ساز آواز نمیخواند. بلکه در ابتدا ایشان دقایقی بداههنوازی میکردند و سپس #ذبیحی یک آواز کامل را بدون ساز میخواند و در انتها بار دیگر هنرمندان به اجرای موسیقی سازی میپرداختند. در سال ۱۳۴۷ مجموعهای از اشعار منتخب توسط وی که در مناجاتهای خود در #رادیو_ایران میخواند در ۱۶۵ صفحه با مقدمه #محیط_طباطبائی و توسط #انتشارات_عطایی به چاپ رسید. عنوان آن #نغمه_های_آسمانی است. ذبیحی همچون #خواجه_عبدالله_انصاری بر خواندن مناجاتهای فارسی که برای عموم قابل فهم و اثر گذار است تاکید داشت. موسیقی اصیل ایران: نام بردن از #سید_جواد_ذبیحی برای شنوندگان جدید رادیو که هیچ وقت با صدای او پای سفره ی #سحر ننشسته اند، بیهوده به نظر می رسد، اما دوستداران هنر آواز و شیفتگان مناجات های او در شب های #ماه_رمضان محال است که صوت دلپذیر ذبیحی و شورخوانی نیمه شب او را از یاد ببرند. آن ها مرد بی رقیب حدود دو دهه مناجات خوانی رادیو ایران را که با مرگش صدایش نیز به خاموشی گرایید فراموش نمی کنند و صدای او را در گنجینه ی ذهن خود نگه داری خواهند کرد. قبل از اینکه #شجریان بعد از انقلاب #ربنا بخوابد #ربنای_ذبیحی در ماه رمضان طنین افکن بود .شاید اگر ربنای محمدرضا شجریان از سال های دور تا امروز برای نسل های گوناگون پخش نمی شد، اینک این قطعه ی قرآنی حس نوستالژیک رمضان را در تک تک شنوندگان صدای او برنمی انگیخت و اگر پخش قطعات آوازی ذبیح هم چنان تا امروز از رادیو یا تلویزیون تداوم داشت، صدای او بود که مهمانی خدات را در مخاطبان تداعی می کرد. https://www.instagram.com/p/CRZtfszBINo/?utm_medium=tumblr
#سید_جواد_ذبیحی_درکه#شمیران#تهران#مؤذن#سید_اسدالله_ذبیحی_درکه#روستای_درکه#سیدجواد_ذبیحی#داوود_پیرنیا#حسن_کسایی#رضا_ورزنده#جلیل_شهناز#احمد_عبادی#مرتضی_محجوبی#علی_تجویدی#پرویز_یاحقی#حسین_تهرانی#مهدی_خالدی#فرهنگ_شریف#ذبیحی#رادیو_ایران#محیط_طباطبائی#انتشارات_عطایی#نغمه#خواجه_عبدالله_انصاری#سید_جواد_ذبیحی#سحر#ماه_رمضان#شجریان#ربنا#ربنای_ذبیحی
0 notes
Text
رومان و مزاحمت کا ہم طراز احمد فراز
پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ پشاور کے ایک ادبی گھرانے میں ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا جن کے والد سید محمد شاہ برق علاقہ کے ایک بڑے فارسی شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے، انہوں نے اپنے بیٹے کا نام سید احمد شاہ علی رکھا۔ سادات گھرانے کا یہ چشم و چراغ اپنی گھٹی میں پشتو زبان کی چاشنی اورفارسی کی رعنائیاں لے کر پلا بڑھا لیکن نجانے کب اسے لکھنؤ اور دہلی کی پروردہ اردو زبان سے پیار ہو گیا۔ سید احمد شاہ علی نے بیک وقت پشتو، فارسی، اردو، انگریزی زبان و ادب کی آغوش میں پرورش پائی۔ ان زبانوں سے ان کا بیک وقت لگائو ان کو علمی و ادبی طور پر نکھارتا گیا اور یوں انہوں نے ایم اے اردو اور ایم اے فارسی کی تعلیم مکمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دونوں زبانیں ان کا ازلی عشق تھیں ، وہ ان زبانوں کے قادر الکلام شاعر تھے۔ شاعری میں انہوں نے اپنا تخلص فرازؔ اختیار کیا جو ان کی عالمگیر شہرت کا سبب بنا۔ احمد فراز کے ہاں تشبیہات ، استعارات و تلمیحات کا جو خوبصورت انداز پایا جاتا ہے وہ ان کی فارسی شاعری سے لگائو ہی کا نتیجہ ہے مثلاً
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکین اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
شعر میں ’’شبستان‘‘ کی ترکیب کا استعمال احمد فراز ہی کا علمی کارنامہ ہے جو ان کی شاعری پر فارسی زبان و ادب کے اثرات کی واضح دلیل ہے۔ ان کی طبیعت کا رومان ان کی شاعری کے سانچے میں ڈھلا تو پڑھنے اور سننے والوں نے اپنے دل ہاتھوں پر رکھ لئے۔
احمریں جسم آنچ دیتا ہے جس طرح پیرھن سلگتا ہے
اس شعر میں ’’احمریں‘‘ اور ’’پیرہن‘‘ جیسے الفاظ کا خوبصورت اور برمحل انتہائی استعمال ہے۔ غم ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جسے میر تقی میر سے لے کر آج تک کے شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ احمد فراز بھی اپنے عہد میں انسانی غموں کو آنے والے زمانوں تک محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنے چاروں طرف بکھرے حالات و واقعات سے واقف رہے انہیں زندگی کی آہ و فریاد کا احساس و ادراک بھی تھا ،اُن کے کلام کی دل گرفتگی اور خیال خیزی کچھ اس طرح نمایاں ہوتی ہے۔ ؎
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اُداس لوگوں کی
احمد فراز کے کمال فن کی معراج پر ہونے کی وجہ اوزان و بحور پر دسترس اور شعر کی باریکیوں سے بخوبی واقفیت تھی لیکن اُن کا کہنا تھا کہ شاعر اور ادیب لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اُس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اس لئے ان کی شاعری حرارت سے خالی نہیں بلکہ وہ ان کی زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔؎
کوئی اگر طلب کرے تجھ سے علاج تیرگی صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
فراز کی خوش بختی کے کیا کہنے کہ کتاب خوانی سے نا آشنا قلوب تک بھی اُن کی شاعری اپنے وقت کے نامور گلوکاروں کی مترنم آوازسے مسلسل گھر گھر پہنچی۔ مہدی حسن، غلام علی، رونا لیلی، فریدہ خانم، جگجیت سنگھ اور ملکہ ترنم نور جہاں جیسے عظیم گلوکاروں نے عوام تک احمد فراز کا کلام پہنچایا۔ ؎
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
احمد فراز اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں مقبول ہو گئے تھے ، ابھی بی اے کر رہے تھے کی اُن کی شاعری کی پہلی کتاب ’’تنہا تنہا‘‘ چھپی ،ساتھ ہی وہ ریڈیو سے منسلک ہو گئے اور فیچر لکھتے رہے۔ تعلیم مکمل ہوئی تو وہ ریڈیو کو چھوڑ کر لیکچرار ہو گئے۔ اِس کے ساتھ ہی وہ ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سنٹر پشاور بھی لگ گئے۔ بعد میں وہ چیئرمین نیشنل بک فائونڈیشن بھی رہے۔ احمد فراز کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی کئے گئے ، جس میں انگلش، فرنچ، ہندی، روسی، جرمنی اور پنجابی شامل ہے۔ وہ چیئرمین اکیڈمی آف لیٹرز بھی رہے۔ احمد فراز صرف ایک رومانوی و مزاحمتی شاعر ہی نہ تھے بلکہ ایک نظریاتی و مزاحمتی انسان بھی تھے جن کے سینے میں ملک و ملت کا درد نوحہ بن کر ٹھاٹھیں مارتا تھا یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کی آمریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی سرزمین کو احتجاجاً الوداع کہہ کر لندن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کئے رکھی۔ احمد فراز نے آمرانہ قوتوں کے خلاف اپنا چلن آخر عمر تک نہ چھوڑا اور جب جنرل پرویز مشرف نے انہیں ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ہلالِ امتیاز‘‘ دینا چاہا تو احمد فراز نے انکار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی شاعری ان کے کردار کا پرتو ہے۔ بقول احمد فراز؎
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بہر کیف ان کی ادبی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز اور بعد میں ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران آپ کی حیات ہی میں 14 سے زائد شعری مجموعے چھپ کر سامنے آ گئے تھے اور آپ کی شاعری کلیات کی شکل میں یکجا ہو کر آ گئی تھی جس کا عنوان ’’شہر سخن آراستہ ہے‘‘ الغرض موت سے کس کو رستگاری ہے؟ عہد حاضر کے سب سے بڑے اردو شاعر احمد فراز 25 اگست 2008ء کو دارِ فانی کو چھوڑ کر اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Photo
دوره زنده (آنلاین) و ضبط شده شاهنامهخوانی و شاهنامهشناسی با رویکرد اسطوره و نقالی ویژه کودکان و نوجوانان #مهدیه_حقیقی پژوهشگر و کارشناس ارشد زبان و ادبیات فارسی از دانشگاه علامه طباطبائی دوشنبهها از ۱۸ تا ۱۹:۳۰ آغاز دوره از ۲۱ تیر به مدت ۱۳ جلسه با ارائه گواهی مشترک از دانشگاه کابل و آکادمی بینالمللی علم با قابلیت استعلام و ترجمه رسمی 💢نامنویسی با تخفیف ویژه / مشاهده طرح درس و اطلاعات بیشتر با مراجعه به سایت | صفحه دورهها و یا دریافت لینک مستقیم از پیامرسان مستقیم: @elm_academy https://www.instagram.com/p/CQof1vkBqwC/?utm_medium=tumblr
0 notes
Video
tumblr
بچه های عزیز، پدر و مادرهای دوست داشتنی اگر دوست دارید که به پویش دوستی بچه های ایرانی سراسر دنیا یا #دوست_ایرانی_من بپیوندید، فقط کافیه این ترانه رو چند بار گوش بدید که حفظ بشید. بعد در حالی که دارید با این ویدیو هم خوانی می کنید، از خودتون فیلم بگیرید و برای ما ��فرستید، یا توی اینستاگرام با #دوست_ایرانی_من منتشر کنید. ویدیوها رو از طریق واتساپ یا اینستاگرام به آدرس های زیر ارسال کنید: اینستاگرام: https://www.instagram.com/didio_parents واتساپ: https://wa.me/+989139518492 --- توی این ویدیو کامران شعر کودکانه فارسی ما بچه های ایرانیم رو می خونه و بچه ها رو به فارسی حرف زدن و عشق ورزیدن به کشور قشنگمون ایران تشویق می کنه. #زبان_فارسی #شعر_کودکانه #بچه_های_ایران #کودکان_ایرانی #آموزش_زبان_فارسی
0 notes
Video
youtube
سند خوانی 4 - حسینی اشکوری بازخوانی نامه ای تاریخی از وین اتریش
#وین #اتریش #سند #فارسی
0 notes
Photo
. 🔷 شاملو، به لحاظ دگرگون کردن رتوریک شعر فارسی، به تقلید از ترجمه خام شعر فرنگی، کار عظیمی انجام داده است: اولاً جمالشناسیِ شعرِ امثالِ نادرپور و توللی را - که گنجایش آن در همان چند سال اول تمام شده بود - از صحنه بیرون راند، و دیگر اینکه با ارائه نمونههای درخشانی از شعر یا تکههایی از شعر خود، نگاه تازهای را وارد شعر معاصر کرد. . . 🔶 ممکن است بگویی صبغه ایرانی را هم به کلی از شعر فارسی گرفت و تا آنجا پیش رفت که شعرهای خودش با ترجمههایی که از شعر آراگون و الوار و لورکا کرده است تفاوت چندانی ندارد. به همین دلیل هم در خارج از ایران، شاملو نیمی از حرمت و قبول فروغ و سپهری را ندارد. چون شعر آنها خیلی شبیه شعر فرنگی نیست، اما شعر شاملو وقتی ترجمه میشود مثل این است که ترجمه یکی از شعرهای آراگون یا لورکا یا الوار را به زبان انگلیسی میخوانی. . . 🔷 در قرائت ترجمه یک شعر، آنچه «کمندِ» خواننده است یا فكر است(مثل افکار خیام) یا ایماژ است(مثل ایماژهای نظامی و منوچهری) یا رتوریک است(مثل رتوریک فردوسی، ناصرخسرو و سعدی). شاملو به لحاظ فکری چیزی که برای غربیان تازگی داشته باشد، حتی یک سطر هم ندارد. تکرار میکنم: حتی یک سطر. . . 🔶 میماند ایماژ و رتوریک. این ایماژها هم غالباً در فرنگی مشابهات خود را دارند و اگر هم نداشته باشند چندان نیستند که مثل شعر منوچهری و نظامی در یک قطعه ۵۰ تا ایماژ تازه عرضه شود. پس آنچه میماند رتوریک شاملو است که آن هم برای فرنگی، رتوریکیاست دستمالی شده و مأنوس. اگر کسی بتواند رتوریک شعر کلاسیک فارسی را عیناً به فرنگی منتقل کند، برای خواننده فرنگی بسیار جالب خواهد بود. مثلاً رتوریک سعدی یا رتوریک حافظ را، چون بلاغتی بیسابقه برای آنهاست. البته این کار بسیار دشوار است و مقدمات بسیاری را لازم دارد. . . 🔷 شاملو با گرفتن صبغه ایرانی و شرقی از شعر فارسی آن را تبدیل به یک نمونه کامل شعر فرنگی کرده است. این در زبان فارسی و در نظر ماها که هر لحظه «عقرب زلف» ما را میگزد و آزرده از «تیر مژگان» و «کمان ابرو»ییم، حُسن است و در نظر خوانندگان خارجی و فرنگان، چنین نیست. . . . #با_چراغ_و_آینه #محمدرضا_شفیعی_کدکنی #نشر_سخن . ۲۳ / #آذر / ۹۸ #شاملو_شاعر_بی_همتای (۴) #شاملو #احمد_شاملو #فرنگی #نادرپور #نادر_نادرپور #فریدون_توللی #توللی #شعر_معاصر #آراگون #الوار #لورکا #فروغ #سپهری #سهراب_سپهری #فروغ_فرخزاد #خیام #نظامی #منوچهری #فردوسی #ناصر_خسرو #ایماژ #رتوریک #سعدی #حافظ https://www.instagram.com/p/B6D3Q84DTXf/?igshid=1rar53j0wgnnw
#با_چراغ_و_آینه#محمدرضا_شفیعی_کدکنی#نشر_سخن#آذر#شاملو_شاعر_بی_همتای#شاملو#احمد_شاملو#فرنگی#نادرپور#نادر_نادرپور#فریدون_توللی#توللی#شعر_معاصر#آراگون#الوار#لورکا#فروغ#سپهری#سهراب_سپهری#فروغ_فرخزاد#خیام#نظامی#منوچهری#فردوسی#ناصر_خسرو#ایماژ#رتوریک#سعدی#حافظ
0 notes
Photo
بیست و پنج اردیبهشت #روز_بزرگداشت #حکیم #ابوالقاسم #فردوسی ابوالقاسم فردوسی توسی (۳۲۹ هجری شمسی – ۳۹۷ هجری شمسی، در توس خراسان)، شاعر حماسهسرای ایرانی و سرایندهٔ شاهنامه، حماسهٔ ملی ایران، است. برخی فردوسی را بزرگترین سرایندهٔ پارسیگو دانستهاند. که از شهرت جهانی برخوردار است. فردوسی را حکیم سخن و حکیم توس گویند. پژوهشگران سرودن شاهنامه را برپایهٔ شاهنامهٔ ابومنصوری از زمان سی سالگی فردوسی میدانند. تنها سرودهای که روشن شده از اوست، خود شاهنامه است. شاهنامه پرآوازهترین سرودهٔ فردوسی و یکی از بزرگترین نوشتههای ادبیات کهن پارسی است. فردوسی شاهنامه را در ۳۸۴ ه.ق، سه سال پیش از برتختنشستن محمود، بهپایان برد و در ۲۵ اسفند ۳۸۹ هجری شمسی برابر با ۸ مارس ۱۰۱۰ م، در هفتاد و یک سالگی، تحریر دوم را به انجام رساند. سرودههای دیگری نیز به فردوسی منتسب شدهاند، که بیشترشان بیپایه هستند. نامورترین آنها مثنویای به نام یوسف و زلیخا است. سرودهٔ دیگری که از فردوسی دانسته شده، هجونامهای در نکوهش سلطان محمود غزنوی است. برابر کتابشناسی فردوسی و شاهنامه، گردآوری ایرج افشار، با بهشمارآوردن سرودههای منسوب به فردوسی مانند یوسف و زلیخا تا سال ۱۳۸۵، تعداد ۵۹۴۲ اثر گوناگون در این سالها نوشته شدهاست. فردوسی دهقان و دهقانزاده بود. او آغاز زندگی را در روزگار سامانیان و همزمان با جنبش استقلالخواهی و هویتطلبی در میان ایرانیان سپری کرد. شاهان سامانی با پشتیبانی از زبان فارسی، عصری درخشان را برای پرورش زبان و اندیشهٔ ایرانی آماده ساختند و فردوسی در هنر سخنوری آشکارا وامدار گذشتگان خویش و همهٔ آنانی است که در سدههای سوم و چه��رم هجری، زبان فارسی را به اوج رساندند و او با بهرهگیری از آن سرمایه، توانست مطالب خود را چنین درخشان بپردازد. در نگاهی کلی دربارهٔ دانش و آموختههای فردوسی میتوان گفت او زبان عربی میدانست، اما در نثر و نظم عرب چیرگی نداشت. او پهلویخوانی را بهطور روان و پیشرفته نمیدانست، اما بهگونهٔ مقدماتی مفهوم آن را دریافت میکرد. بههرروی، در شاهنامه هیچ نشانهای دربارهٔ پهلویدانی او نیست. در «پیشگفتار بایسنقری» نام فردوسی با «حکیم» همراه است، که از دید برخی اشاره به حکمت خسروانی دارد. https://www.instagram.com/p/CO3f7olH9Cs/?igshid=x6n0xmp7fc7y
0 notes
Text
مهارت خواندن در زبان آلمانی
اهمیت مهارت خواندن (Lesen) در زبان آلمانی به اندازه ی مهارت های دیگر از جمله Sprechen, Hören و Schreiben میباشد که تقویت آن تاثیر مستقیمی بر دیگر مهارت ها دارد. اصولاً هر شخصی روشی خاص خود برای خواندن مطالب مختلف را دارد ولی روشهایی هم هست که میتوانند مهارت خواندن شما را تقویت کنند.
برای اینکه مهارت خواندن زبان آلمانی یاد بگیریم و بتوانیم راحت صحبت کنیم راهکارهایی وجود دارد که با رعایت کردن آن ها و استفاده از کتاب ها، نرم افزارها و شبکه های اجتماعی، می توانیم یادگیری این زبان را آسان تر کنیم و از فرآیندی که می تواند خیلی سخت و خسته کننده باشد، به یک تجربه شیرین و لذت بخش تبدیل شود.
مهمترین نکته در خواندن، تمرکز بر روی هدف متن یا همان عنوان متن است. هر متنی یک عنوان دارد که نویسنده در قالب پاراگراف ها سعی در انتقال یک مفهوم به خواننده دارد. هر پاراگراف یک یا چند جمله اصلی دارد و بقیه جملات معمولا برای پشتیبانی یا توضیح بهتر جمله نوشته میشوند. این روش وقتی که شما برای نوشتن تمرین میکنید هم یکسان است و همین الگو را برای نوشتن شما به کار خواهید برد.
شما قاعدتا با روش درک مطلب آشنا هستید. در این روش بیشتر تمرکز برای دریافت مفاهیم است و کمتر به خود لغت اشاره می شود. این روشی بسیار موثر و مفید در خواندن و آموزش زبان انگلیسی به حساب می آید. روش درک مطلب شبیه روش Scan and Skim(Überfliegen) یا بطور ساده، تند خوانی متن است. در این روش با بررسی سریع متن، سعی در پیدا کردن مفاهیم اصلی بدون توجه به جزئیات متن میکنیم. اما نکات مهم برای ارتقاء سطح مهارت خواندن به شرح زیر میباشد .
۱) عدم توجه به لغت هایی که معنای آنها را نمیدانید.۲) تمرکز بر روی ساختار جملات :
هر لغت در جمله معنای واقعی دارد و دانستن معنای لغت به تنهایی کمکی به ما نمیکند، پس بهتر است که به جای تمرکز بر روی لغت بیشتر به معنای جمله فکر کنید.
۳) آلمانی فکر کنید :
یعنی سعی کنید معنای لغات را آلمانی یاد بگیرید و از دیکشنری آلمانی به آلمانی استفاده کنید و وابستگی خود را به دیکشنری فارسی کمتر کنید.
۴) همواره هدفمند بخوانید :
یعنی سعی کنید به جای آنکه متنی را تا انتها فقط روزنامه وار بخوانید سعی در پیدا کردن هدف نویسنده و همچنین پیدا کردن لغات کلیدی بگذارید، زیرا اینکار به شما کمک میکند تا مفهوم متون مختلف را سریعتر فرا بگیرید و زودتر به هدف خود برسید.
۵) به املای دقیق کلمه دقت نمیشود :
ثابت شده است که مغز کل کلمه را از روی شکل آن تشخیص میدهد وآن را بصورت حرف به حرف تجزیه و تحلیل نمیکند.
آزمون پرو اولین و تنها برگزار کننده آزمون های آزمایشی گوته به صورت آنلاین
0 notes