#عبداللہ سرحدی
Explore tagged Tumblr posts
kokchapress · 7 days ago
Text
ایران خواستار همکاری رژیم طالبان برای افتتاح شفاخانه ۱۲۰ بستر «خمینی» در بامیان شد
بربنیاد خبرنامه‌ دفتر والی بامیان، علی رضا بیکدلی تاکید کرده که ساخت این شفاخانه تکمیل شده، اما موان��ی در مسیر افتتاح آن وجود دارد. عبدالله سرحدی، والی بامیان اطمینان داده است که این موضوع را با رهبری رژیم طالبان در میان خواهد گذاشت. همزمان با این، سرپرست سفارت افغانستان در تهران و سرقونسل افغانستان در شهر مشهد با مقام های وزارت خارجه ایران در مورد گسترش روابط دو کشور و همچنان موضوعات قونسلی…
0 notes
onlyurdunovels · 4 years ago
Text
تلخیاں
آذربائیجان آرمینیا جنگ: پاکستان اہم کیوں؟
Wednesday Daily Express
علی احمد ڈھلوں
جس طرح پاکستان اور بھارت کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے حریف ہیں جنہیں ”روایتی حریف“ بھی کہا جاتا ہے، اسی طرح مسلمان ملک آذربائیجان اورعیسائی ملک آرمینیا دونوں ہی سخت روایتی حریف ممالک ہیں۔ یہ دونوں ممالک سویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد وجود میں آئے۔ ان دونوں ممالک کی سرحدیں پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران سے جڑی ہیں۔ یا یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کے جنوب مغرب میں ڈھائی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر دونوں ممالک واقع ہیں۔ ان کے درمیان جھڑپوں کی تاریخ نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے، لیکن اب کی بار عین اُس وقت جب دنیا کورونا وباءسے اُلجھ رہی ہے ، تب یہ ممالک اپنی اپنی فوجیں ایک دوسرے کے مدمقابل لے آئے ہیں، اور27ستمبر سے شروع ہوانے والی اس لڑائی میں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق 1000ہزار سے زائد ہلاکتیں دونوں اطراف ہو چکی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان ممالک کے درمیان پہلے بھی کئی بار لڑائی ہوچکی ہے لیکن اب کی بار عالمی سطح پر پاکستان کا نام بار بار کیوں لیا جارہا ہے، آپ برٹش و امریکن میڈیا کو دیکھ لیں وہ بلیٹن میں پاکستان کو آذربائیجان اور ترکی کے ساتھ جوڑ کر لازمی بیان کر رہے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی گیم ہے۔ کیوں کہ دھواں وہیں سے اُٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے۔ اِدھر متنازع علاقے ” ناگور ناکارا باخ“ میں جنگ کے شعلے بھڑکے نہیں کہ اُدھر اُس کی تپش پاکستان میں بھی صاف طور پر محسوس کی جانے لگی حتیٰ کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں بھی آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ پر ہونے والوں تبصروں میں پاکستان کا ذکر خیر بھی بڑھ چڑھ کر پیش کیا جانے لگا۔ جبکہ نہ تو پاکستان آذربائیجان کے پڑوس میں واقع ہے اور نہ ہی آرمینیا پاکستان کی بغل میںقیام پذیر ہے۔مگر اُس کے باوجود بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پورے شد و مد کے ساتھ دعوے کیئے جارہے ہیں کہ پاکستان نے ترکی کو خوش کرنے کے لیئے یا طیب اردوان کے اصرار پر آذربائیجان کی یک طرفہ حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں برطانوی خبر رساں ایجنسی نے اپنے ایک تجزیہ میں یہ تک بھی لکھنے سے گریز نہیں کیا ہے کہ طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی جو حمایت کی ہے اُس کا احسان چکانے کے لیے پاکستان نے آذر بائیجان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ خیر کچھ بھی کہیے بقول شاعر خواجہ حیدر علی آتش
اگر بخشے زہے رحمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
لیکن یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بقول پاکستانی وزارت خارجہ کے ، کہ پاکستان کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، حالانکہ میں بذات خود بھی شش و پنج میں مبتلا ہوں کہ اگر پاکستان کا تعلق نہیں تو کیا آذر بائیجان خود پاکستان کا ساتھ مانگ رہا ہے؟ کیوں کہ آذر بائیجان میں جگہ جگہ پاکستان ، ترکی اور آذربائیجان کے جھنڈے آویزاں ہیںجو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ آذربائیجان کے ایک کروڑ آبادی والے ملک میں جہاں کی فوج صرف ایک لاکھ ہے وہ ان دونوں ممالک کو جو اسلامی ممالک کی سب سے بڑی افواج رکھتی ہیں کو دعوت دے رہی ہیں کہ وہ اس جنگ میں شریک ہوں۔ اس سلسلے میں ترکی جو آرمینیا کا ہمسایہ ملک ہے نے آذربائیجان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ پاکستان نے دونوں ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینے کی ”درخواست“ کی ہے۔ ویسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نے بیک وقت دنیا کے تمام ممالک سے بنا کر رکھنی ہے اس لیے آرمینیا کے خلاف لڑائی کا اعلان کر کے وہ یورپی ممالک جو آرمینیا کے ساتھ کھڑے ہیں کی ناراضگی نہیں مول لے سکتا ۔ وجہ جو بھی ہو، چند دن میں اس لڑائی میں ہر ملک کھل کر سامنے آجائے گا۔ لیکن فی الحال دونوں ممالک کی بات کی جائے تو آذر بائیجان اور آرمینیا دو پڑوسی ممالک ہیں اور ان دونوں ممالک کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں۔ آذر بائیجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جبکہ آرمینیا میں مسیحی مذہب کے ماننے والے اکثریت میں رہتے ہیں۔چونکہ ترکی کے خلافت عثمانیہ کے وقت سے آرمینیا کے ساتھ سنگین نوعیت کے سیاسی ، سفارتی اور مذہبی اختلافات رہے ہیں۔ لہٰذا ترکی آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا۔لیکن اس کے برعکس جب آذر بائیجان نے اپنی آزاد مملکت کا اعلان کیا تو ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے اُسے تسلیم کیا تھا۔ ویسے بھی آذر بائیجان میں رہنے والی آذری قوم ترک قبیلے اوغوز کی ہی ایک شاخ ہے اور یہاں بولی جانے والی آذری زبان کو ترکوں کی قدیم ترین35 زبانوں میں سے ایک شمار کیا جاتاہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ترکی اور آذر بائیجان تاریخی لحاظ سے ”ایک قوم دو ملک “ کے اُصول پر صحی�� معنوں میں پورا اترتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیل کا حصول وہ دوسری اہم ترین وجہ ہے ،جس کے باعث ترکی آذر بائیجان پر مکمل طور انحصار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
حالیہ وقتوںمیں ترکی نے سب سے زیادہ جس ملک میں سرمایہ کاری کی ہے ،وہ آذربائیجان ہی ہے۔ ترکی نے یہ سرمایہ کاری تیل کی پائپ لائن پر کی ہوئی ہے، جو ترکی اور آذربائیجان سے گزرتی ہوئی بحرہ کیپسین تک جاتی ہے۔اس پائپ لائن سے تیل کا حصول شرو ع ہونے کے بعد ترکی کا انحصار روس،ایران اور دیگر مغربی اور عرب ممالک سے مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہفتے بعد اس پائپ لائن سے ترکی کو تیل کی فراہمی شروع ہونے والی تھی کہ اچانک آذربائیجان کے خلاف آرمینیا کی افواج نے جنگی محاذ کھول دیا۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین شروع ہونی والی اس جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ فی الحال یہ معرکہ صرف ایک محدود سرحدی علاقہ ” ناگور ناکارا باخ“میں جاری ہے۔یہ علاقہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آذربائی جان کا حصہ تسلیم کیا جاتاہے ،جسے آرمینیا ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے۔ مقامی زبان میں” ناگورنا“ کا مطلب کالاپہاڑ اور”کاراباخ“ کا معنی باغوں کی زمین کے ہیں۔یعنی ” ناگور ناکارا باخ“کا مطلب ہوا کالے پہاڑوں کے بیچ باغوں کی سرزمین۔بظاہر ” ناگور ناکارا باخ“کا علاقہ چونکہ آذربائیجان کے وسط میں ہے ،مگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1993میں اس علاقہ پر آرمینیا نے جنگ کر کے قبضہ کرلیا تھا۔
آرمینیا نے نہ صرف اس جنگ میں ” ناگور نا کارا باخ“ کا سارا علاقہ بلکہ ملحقہ رقبے بھی چھین لیے اور یوں آذری باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی آرمینیا کی ”غلام“ بن گئی۔ ” ناگور ناکارا باخ“ کا علاقہ عالمی اداروں کے مطابق آذر بائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے لیکن اس پر آرمینیا کے قبضے کو بھی خاموشی سے تسلیم کرلیا گیا۔ صورتحال پچھلے برس سے بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوئی، جب ترکی نے آذر بائیجان سے دفاعی معاہدے کئے اور اسے فوجی امداد دینا شروع کی نیز آذربائیجان کی فوج کو اس قابل بنایا کہ وہ میدان جنگ میں ڈٹ کر لڑ سکے۔لہٰذا اس بار جنگ میں آذربائیجان کو آرمینیا کے خلاف واضح برتری حاصل ہے اور اگر آرمینیا کو روس،ایران یا پھر ترکی مخالف عرب ممالک کی امداد حاصل نہ ہوتو آذربائیجان باآسانی اس علاقہ میں آرمینیا کی افواج کو شکست سے دوچار کرسکتاہے۔ لیکن جن عجیب و غریب حالات میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اچانک سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کو شروع کروانے والی عالمی طاقتوں کے دماغ میں کوئی بہت بڑا منصوبہ ہے ، جس کی مد دسے وہ یقینا اُبھرتے ہوئے ترکی کو کمزور کرنا چاہتے ہوں گے۔ چونکہ پاکستان اور ترکی کے بڑے گہرے سفارتی مراسم ہیں ،ا س لیے وہ پاکستان سے اس جنگ میں آذربائیجان کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کروا کر ترکی اور پاکستان کے آپسی تعلقات کو بھی خراب کروانا چاہ رہے ہیں۔
لیکن میرے خیال میں شاید پاکستان آذر بائیجان کی درخواست پر اُس کا ساتھ دے کیوں کہ ماضی میں پاکستان اور آذربائیجان کے آپسی تعلقات بھی ہمیشہ خوش آئند رہے ہیں، جیسے 1991 میں جب آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو ترکی کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کااعلان کیا تھا۔��س کے علاوہ جو ممالک سب سے زیادہ پاکستان میں تیار کئے گئے اسلحہ کی خریداری کرتے ہیں ،اُن میں ��ذر بائیجان سرفہرست ہے۔ جبکہ پاکستان بھی اپنی تیل اور توانائی کی دیگر ضروریات کے لیے اکثر و بیشتر آذربائیجان سے رجوع کرتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے نجی تجارتی ادارے جتنا زیادہ آذربائیجان کے شہر ”باکو“ کے پرفضا مقام پر کاروباری بیٹھکیں کرتے ہیں ،شاید ہی کہیں اور کرتے ہوں۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کے مضر اثرات کس حد دنیا،یا ہمارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں تو اس کے لیے آنے والا ایک ہفتہ انتہائی اہم ہوگا۔ اگر آذربائیجان چند روز میں ہی آرمینیا کو ” ناگور ناکارا باخ“سے نکل جانے پر مجبور کردیتاہے تو یہ ترکی اور ہمارے خطے کے استحکام کے لیے انتہائی نیک شگون ہوگا۔ جیسا کہ اس وقت نظر بھی آرہا ہے کہ آذربائیجان کی افواج کو اپنے حریف آرمینیا کی افواج پر واضح برتری حاصل ہے اور آرمینیا کی فوج کو میدانِ جنگ میں شدید ترین جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑرہاہے۔ لیکن اگر میدان ِجنگ کی یہ کیفیت برقرار نہیں رہ پاتی اور آرمینیا کو براستہ روس عسکری امداد میسر آجاتی ہے۔پھر غالب امکان یہ ہے کہ اس جنگ کا دائرہ ” ناگور ناکارا باخ“ کی حدود کو پھلانگ کر دونوں ممالک کی مکمل سرحد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گااور اس طرح یہ جنگ غیر معمولی حد تک طول بھی کھینچ سکتی ہے۔اس لیے پاکستان کا یہاں سے امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ ترکی، آذربائیجان، روس اور اس مسئلہ سے جڑے تمام ممالک کے ساتھ کہاں تک اور کس حد تک ساتھ دیتا ہے۔ اور پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اُس نے کس ممالک کے ساتھ مستقبل میں کس حد تک چلنا ہے اور کس حد تک رکے رہنا ہے۔ ورنہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ، یعنی نہ لینا نہ دینا تو خواہ مخواہ میں چمچہ گیری دکھانا کبھی کبھار مہنگا بھی پڑ سکتا ہے!
2 notes · View notes
kupwaratimes-fan · 3 years ago
Text
کشمیر کی موجودہ حالت کو دیکھ کر ہم سب پریشان ہیں: عمر عبداللہ
کشمیر کی موجودہ حالت کو دیکھ کر ہم سب پریشان ہیں:
کشمیر کی موجودہ حالت کو دیکھ کر ہم سب پریشان ہیں: عمر عبداللہ شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں نیشنل کانفرنس کی جانب سے ایک روزہ پارٹی کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ کنونشن میں پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے شرکت کی۔ شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں نیشنل کانفرنس کی جانب سے پارٹی کارکنوں کے ساتھ یک روزہ ایک اہم اجلاس منعقد  کیا گیا۔ پارٹی کنونشن میں سرحدی ضلع کپواڑہ کے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے بڑھ چڑھ کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 3 years ago
Text
سقوط کابل
دنیا نے حیرانی سے سقوط کابل کو دیکھا اور اشرف غنی کی ازبکستان فرار کی بزدلی کو بھی دیکھا۔ ’بیس سال بعد جنگ ختم ہو گئی ہے۔‘ یہ وہ پیغام تھا جو گزشتہ اتوار کو طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے میڈیا کو دیا۔ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امریکی عملے کے انخلا نے، اگرچہ یہ زیادہ منظم تھا، کئی عشرے قبل سائیگون سے جلد بازی اور منظم امریکی رخصتی کی یاد دلا دی۔ کابل کے صدارتی محل میں آرام سے بیٹھ کر تصاویر بنوانے والے طالبان نے وہی پیغام دیا جو ویت کانگ نے دیا تھا۔ طالبان نے ایک ماہ سے کم عرصے میں یکے بعد دیگرے شہر قبضہ کیے اور وہ بھی کسی معمولی مزاحمت کے بغیر۔ اس کے لیے تیاریاں دیہی علاقوں میں کئی برسوں سے جاری تھیں، جہاں غنی حکومت کی طاقت اور اس کے لیے ہمدردی بالکل موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ مزار شریف اور ہرات میں، جہاں سے توقع کی جا سکتی تھی، مقامی جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت بہت کم اور بہت تاخیر سے ہوئی۔ 
غنی مزار شریف بھاگا، تو ترکی سے حال ہی میں مقامی جنگجوؤں کو قائل کرنے کے لیے آنے والے ازبک جنگجو دوستم ان کے ساتھ ہو لیا، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک انتہائی سنجیدہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے طالبان کی تعریف ہونی چاہیے۔ وہ اہم سرحدی پوائنٹس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں، انھوں نے ہر ایک کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی حال میں سرحدیں پار کر کے غیر ملکی علاقے میں داخل نہیں ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ طالبان وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ وسطی ایشیائی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہی یقین ایران، پاکستان اور چین کو بھی دلایا جا چکا ہے۔ چناںچہ طالبان کے خلاف افغان جنگجوؤں کوپروان چڑھانے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے، جنھوں نے جنگجوؤں کو غیر مؤثر بنا کر افغانستان کو ایک اور ممکنہ خانہ جنگی سے فی الوقت بچا لیا ہے۔ مغرب کے لیے یہ ایک اسرار ہے کہ جس افغان آرمی کو انھوں نے پیسا دیا اور کئی برس تک اس کی تربیت کی، کیسے اور کیوں جنگ کے لیے اتنی ناکارہ نکلی۔ 
غنی کی حکومت نے جس کرپشن کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ دفاعی بجٹ میں خردبرد کی صورت میں نکلا، دبئی میں رئیل اسٹیٹ بھی خریدی گئی۔ پام آئی لینڈ کے بڑے حصے کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ فوجیوں کو شاذ و نادر ہی پوری تنخواہ مل پاتی ہے، کیوں کہ افسران سارا پیسا ہتھیا لیتے ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں فوج چھوڑنے کی شرح اتنی زیادہ ہے (سالانہ 35 ہزار فوجی)۔ یہ اکثر امریکا کے دیے ہوئے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں ��یچ دیتے ہیں تاکہ گزارا کر سکیں۔ ان کے پاس مغرب کی حمایت یافتہ کرپٹ حکومت کے لیے اور طالبان کے خلاف لڑنے کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ دوحہ امن منصوبے کی ناکامی، جس پر امریکا اور طالبان میں اتفاق ہو گیا تھا، پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ امریکا جو اپنے نقصانات کم کرانا چاہتا تھا، اور اسے ایک ہاری ہوئی جنگ سے محفوظ پسپائی درکار تھی، طالبان نے اس میں اپنے اس ہدف تک رسائی کو دیکھا، جس کے لیے وہ برسوں سے لڑتے آرہے تھے، یعنی غیر ملکی قبضے کا خاتمہ۔ 
شروع ہی سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ طالبان مستقبل میں کسی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے۔ طالبان کی اقدار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہدوں کی پاس داری ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی طاقتیں طالبان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کر سکتی ہیں کہ بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جائے گا۔ آج کے طالبان کا رویہ 2001 سے قبل کے طالبان جیسا نہیں ہے۔ یہ ان کے الفاظ اور کابل میں ان کے عمل سے واضح ہو چکا ہے، بلکہ اس سے قبل دیگر تمام شہروں اور قصبات کی فتح میں بھی یہ سامنے آ چکا ہے۔ افغان فوج کو پیغام بہت واضح تھا، کہ اپنے ہتھیار ڈال دو اور بغیر کوئی سزا پائے چلے جاؤ، اس طرح انھوں نے کابل تک آسانی سے راستہ بنا لیا۔ اس رویے کی وجہ سے فوج کے پگھلنے میں تیزی آئی۔ وہ اچھے خاصے تبدیل ہو چکے ہیں، اور ایک مرکزی قوت کے بغیر مقامی کمانڈرز کی متعدد آرمیز پر مشتمل ایک اڑیل تحریک کے بجائے آج طالبان کہیں زیادہ متحد اور منظم ہیں، ورنہ وسیع پیمانے پر قتل عام اور لوٹ مار سے بچنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ وہ غیر منظم طاقت اب نہیں رہی، طالبان کی زمینی قوت کی قیادت اور اقدار کے ساتھ وابستگی کے مضبوط عزم سے ان کا نظم و ضبط مضبوط ہوا ہے۔
دوسری بات، طالبان کو ایک پشتون قوت کے طور پر بنایا گیا تھا، اس لیے اس نے پشتونوں کو افغانستان میں موجود دوسری نسلوں کے خلاف کھڑا کیا، آج طالبان میں تاجکوں اور ازبکوں کا ایک مضبوط طبقہ شامل ہے، جس کی وجہ سے ان کی نسلی تقسیم اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئی ہو تو کم ضرور ہو گئی ہے۔ نسلی امتیاز سے بچنے سے یقینی طور پر طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جامع حکومت پر ان کے اصرار کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ عبداللہ عبداللہ براہ راست یا بالواسطہ نئے سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے (افغانستان پر میرے 29 ستمبر 2020 اور 2 اپریل 2021 کے مضامین پڑھیں)۔ طالبان رہنما کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے خواتین کے کردار کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اگر یہ سچ ہے اور خواتین کو اسکول جانے، نوکری کرنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہو گی، تو اس سے یقینی طور پر ان کی قبولیت کو استحکام ملے گا، بالخصوص شہروں میں۔ 
اور آخری بات یہ کہ طالبان کا شیعہ مخالف پہلو بظاہر لگتا ہے کہ نرم پڑ گیا ہے۔ اگر ایسا برقرار رہا تو اس سے ایک متحد افغانستان میں امن کو فروغ ملے گا۔ طالبان کا یہ اعلان کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، مستقبل قریب کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ افغانستان بھر کو اپنے قبضے میں کرنے کے دوران طالبان نے شہریوں کو یقین دلایا کہ کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا اور نہ لوٹ مار کی جائے گی۔ اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ افغانوں نے طالبان کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت دی اور فوج نے ہتھیار ڈالے یا انھوں نے راستہ دیا۔ افغانستان کے ارد گرد کی علاقائی طاقتیں جو جاری جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، اب امن قائم رکھنے اور افغان ملک اور معیشت کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے تعاون کریں۔
اکرام سہگل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
swstarone · 5 years ago
Photo
Tumblr media
محمد بن سلمان پر کینیڈا میں جلاوطنی اختیار کرنے والے سابق سعودی اہلکار کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام 3 گھنٹے قبل،امریکہ کی ایک عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے سعودی خفیہ ایجنسی کے سابق عہدیدار کو قتل کرنے کے لیے لوگ بھجوائے تھے۔ دستاویزات کے مطابق سعد الجبری کو قتل کرنے کا ناکام منصوبہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تھوڑے ہی عرصے بعد کا ہے۔ جبری سعودی حکومت کے سابق عہدیدار تھے اور وہ تین سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ دستاویزات کے مطابق یہ مبینہ منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کینیڈین سرحد پر موجود ایجنٹس کا شبہ بنی کیونکہ سعد جبری کے قتل کا منصوبہ بنانے والے سکواڈ نے ٹورنٹو پیرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آنے کی کوشش کی تھی۔ الجبری جن کی عمر 61 برس ہے کئی سالوں تک سعودی عرب میں برطانیہ کی ایم آئی سکس اوردیگر مغربی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے میں رہنے والی اہم شخصیت رہے ہیں۔ اس درخواست میں کیا کہا گیا ہے؟یہ درخواست 106 صفحات پر مشتمل ہے جسے واشنگٹن ڈی سی کی عدالت میں جمع کروایا گیا ہے۔ اس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سعد جبری کو خاموش کروانے کے لیے یہ حکم دیا گیا تھا۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں جو ٹائیگر سکواڈ ملوث تھا اسی کے کچھ ارکان سعد الجبری کے قتل کے لیے بھیجے گئے تھے۔ خیال رہے کہ جمال خاشقجی کو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں مار دیا گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق کچھ جگہوں پر ڈاکٹر سعد الجبری کے ذہن اور حافظہ سے کہیں زیادہ مدعا علیہ، محمد بن سلمان کے بارے میں حساس، ذلت انگیز اور تنقیدی معلومات ہیں۔ ماسوائے شاید اس ریکارڈنگ کے جو ڈاکٹر سعد نے اپنے قتل کی پیش گوئی کے حوالے سے کی۔ یہ وجہ ہے کہ محمد بن سلمان ان کی موت چاہتے تھے اور وہ گذشتہ تین برسوں سے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ سنہ 2017 میں سعد الجبری براستہ ترکی کینیڈا فرار ہو گئے۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے بہت کوششیں کیں کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے سعد الجبری کو نجی طور پر پیغامات بھی بھجوائے جب میں ایک یہ تھا ’ہم یقیناً تم تک پہنچ جائیں گے۔‘الجبری کہتے ہیں کہ پھر خاشقجی کے قتل کے دو ہفتوں سے بھی کم کا وقت بیتا تھا کہ ٹائیگر سکواڈ انھیں قتل کرنے کے ارادے سے کینیڈا روانہ ہوا۔ عدالت میں دائر دستاویز کے مطابق کہ اس گروہ میں و شخص بھی شامل تھا جس پر الزام ہے کہ اس نے خاشقجی کی جلد اتاری تھی۔ اس نے فرانزک کے لیے استعمال ہونے والے آلات کے دو تھیلے اٹھا رکھے تھے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ کینیڈا کے سرحدی ایجنٹس کو بہت جلد ہی اس گروہ کے بارے میں شبہ ہوا اور ان افراد سے گفتگو کرنے کے بعد ان افراد کو کینیڈا میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے سکواڈ کو شمالی امریکہ بھجوایا تھا تاکہ ڈاکٹر سعد الجبری کو مارا جائے۔ الجبری محمد بن سلمان پر الزام عائد کرتے ہیں انھوں نے ماورائے عدالت قتل کرنے کی کوشش کی اور وہ بین الاقوامی قانون اور امریکہ میں تشدد کا شکار ہونے والوں کی حفاظت سے متعلق ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ردعمل جاننے کے لیے جب سعودی عرب کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔ کینیڈا کے وفاقی وزیر برائے عوامی تحفظ بل بلئیر کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر اس کیس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے تاہم انھوں نے یہ بتایا کہ حکومت ان واقعات کے بارے میں آگاہ ہے جن میں غیر ملکی افراد نے کینیڈین افراد اور وہاں رہنے والے دیگر لوگوں کو دھمکی دینے، خوفزدہ کرنے یا ان کی نگرانی کی کوشش کی۔ ،Bandar al-Galoud،تصویر کا کیپشناس تصویر میں سعد الجوبیری کی تصویر کے گرد زرد دائرہ لگایا گیا ہےان کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور ہم کبھی بھی غیر ملکی عناصر کو کینیڈا کی قومی سلامی اور ہمارے شہریوں اور یہاں بسنے والوں کو دھمکانے کے اقدامات کو برداشت نہیں کریں گے۔ کینیڈین وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملک کے مکینوں کو اعتماد ہونا چاہیے کہ ان کی سکیورٹی ایجنسیاں اتنی صلاحیت رکھتی ہیں کہ اس قسم کے خطرات کا پتہ لگا سکیں اور ان کی تحقیقات کر سکیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم کینیڈین شہری اور باہر سے آکر اس سرزمین پر بسنے والوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے اور ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کسی اس قسم کے خطرات کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے حکام اداروں کو آگاہ کریں۔ مئی میں بی بی سی نے خبر دی کہ الجبری کے بڑے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے بہن بھائیوں کو یرغمال بنا دیا گیا تھا۔ سعد الجبری کون ہیں؟سعد الجبری کئی برس تک محمد بن نائف کے دست راست رہے۔ انھیں سنہ 2000 کے عرصے میں القاعدہ کی جانب سے کی جانے وال�� دہشت گردی کی کارروائیوں کو شکست دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ انھیں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ سعودی تعلقات کے حوالے سے کلیدی کردار کی حیثیت حاصل تھی۔ خاموش طبیعت کے حامل جبری نے یونیٹورسٹی آف ایڈنبرا سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ کابینہ کے وزیر تھے اور میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ لیکن سنہ 2015 میں اس وقت سب کچھ بدل گیا جب شاہ عبداللہ کی وفات ہوئی اور ان کے سوتیلے بھائی کے پاس بادشاہت آ گئی۔ انھوں نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان جو کہ ایم بی ایس کے نام سے جانے جاتے ہیں کو وزیر دفاع کا عہدہ سونپا۔ سنہ 2017 میں محمد بن سلمان نے اپنے والد کی مدد سے محمد بن نائف کی جگہ ولی عہد بن گئے۔ سعد جبری اس کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس وقت محمد بن نائف زیر حراست ہیں ان کے اثاثے منجمد ہیں اور جو لوگ بھی ان کے لیے کام کرتے تھے وہ اپنے عہدوں سے ہٹائے جا چکے ہیں۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Photo
Tumblr media
افغانستان میں صدارتی الیکشن، سخت سیکیورٹی میں پولنگ جاری افغانستان میں صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار سمیت اٹھارہ امیدوار مدمقابل ہیں۔ سات بجے سے شروع ہونے والی پولنگ سہ پہر تین بجے تک جاری رہے گی۔ایک لاکھ سے زائد اہلکار سیکیورٹی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ طالبان نے حملوں کی وارننگ دی ہے۔ صدارتی انتخاب کے موقع پر طور خم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں کو دو دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
سشما سوراج کی او آئی سی میں پاکستان کا نام لیے بغیر تنقید ابو ظہبی: بھارت نے او آئی سی میں بلانے پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا جبکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا نام لیے بغیر اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کا خون بہانے اور ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرنے والے بھارت نے او آئی سی میں دہشت گردی کا واویلا مچادیا۔ پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارت نے اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں شرکت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نام لیے بغیر پاکستان مخالف پراپگینڈے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ پاکستان میں دراندازی اور سرحدی خلاف ورزی کے باوجود بھارت کو مدعو کیے جانے پر پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس کے میزبان متحدہ عرب امارات سے بھارت کو دعوت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جسے متحدہ عرب امارات نے مسترد کردیا۔ یہ بھی پڑھیں: بھارت کو مدعو کرنے پر پاکستان کا او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے او آئی سی اجلاس میں شرکت کی اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی میں مدعو کرنے اور بھارت کی آواز سننے پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید، سعودی عرب، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سشما سوراج نے پڑوسی ممالک کی تعریف کی تاہم پاکستان کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اپنے پڑوسی ممالک ایران، افغانستان، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کے باعث نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا عدم استحکام کے خطرے سے دوچار ہے، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت کو دہشتگردی کے خوفناک چہرے کا سامنا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انسانیت کو بچانے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کار اور مددگار ممالک پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں موجود دہشتگردوں کے کیمپوں کو ختم کریں اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کی حمایت بند کریں۔ سشما سوراج نے مزید کہا کہ مذہب کی غلط تشریح کا سہارا لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جاتی ہے، دہشت گردی سے صرف طاقت سے نہیں نمٹا جاسکتا بلکہ مذہب کے حقیقی پیغام کو عام کرکے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے جس کے لیے بھارت او آئی سی کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ The post سشما سوراج کی او آئی سی میں پاکستان کا نام لیے بغیر تنقید appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
pakistantime · 7 years ago
Text
ایردوان کی ثابت قدمی
یہ 16 ستمبر 1998 کی بات ہے ترک بری فوج کے سربراہ جنرل اتیلا آتش نے ترکی اور شام سے ملحقہ سرحدی علاقے حطائے کا دورہ کرتے ہوئے اس وقت شام میں مقیم دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے سرغنہ عبداللہ اوجالان، جو ترکی کے اندر دہشت گرد کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا، کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور شام کے اندر اس دہشت گرد کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں بچا ہے۔ ترک بری فوج کے کمانڈر انچیف کی دھمکی نے فوراً اپنا اثر دکھایا اور شام نے چند روز کے اندر اندر اوجالان کو مجبوری کے تحت ملک سے نکال باہر کیا اور ترکی نے شام پر چڑھائی کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کو ملتوی کر دیا، تاہم شام پر اس کی دھاک بیٹھ گئی۔
اس دوران امریکہ نے ترکی کے راستے اپنے فوجی دستے عراق بھجوانے اور ترکی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس دہشت گرد کو کینیا سے گرفتار کرواتے ہوئے ترکی کے حوالے کر دیا۔ اس وقت کی ایجوت حکومت نے دہشت گردوں کے سرغنہ کی گرفتاری کو کیش کرواتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کروایا اور اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں غیر متوقع طور پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کا اقتدار ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کی وفات کے بعد بشار الاسد نے عنانِ اقتدار حاصل کیا اور پہلی بار ترکی اور شام کے تعلقات میں بڑی گرمجوشی دیکھی گئی جس کا سلسلہ تین چار سال تک جاری رہا لیکن سن 2011ء میں مشرقِ وسطیٰ میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک نے شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 
اگرچہ اس وقت کے ترکی کے وزیراعظم اور موجودہ صدر ایردوان نے بشار الاسد سے اپنی دوستی اور برادرانہ تعلقات ہونے کی وجہ سے شام میں بھی جمہوری اصلاحات متعارف کروانے اور عوام میں اپنی مقبولیت کے ذریعے اقتدار جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن شام کے اس ڈکٹیٹر، جس کی جڑیں ڈکٹیٹر شپ ہی سے سینچی گئی تھیں، کسی بھی صورت ملک میں ڈیمو کریسی اور جمہوری اقدار کو متعارف کروانے پر راضی نہ ہوئے جس پر ملک کے اندر ان کے خلاف نفرت پھیلتی چلی گئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور اس وقت سے اب تک اس ملک میں امن قائم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ 
اس کی وجہ ایران اور روس کا اس ملک میں قدم جمانا ہے۔ ایران اس طریقے سے سعودی عرب پر اپنا دبائو رکھتے ہوئے مستقل بنیادوں پر اس ملک میں رہنا چاہتا ہے جبکہ روس جس کا مشرقِ وسطیٰ میں کبھی اثرو رسوخ نہیں رہا، اب پہلی بار شام کے ذریعے نہ صرف اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کو بچاتے ہوئے اور انہیں نئی زندگی بخشتے ہوئے اس ملک پر اپنی گرفت قائم کر چکا ہے۔ ترکی اور امریکہ جو ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں اور اب بھی اگرچہ اتحادی ہیں لیکن 15 جولائی 2016ء کی دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کی ناکام بغاوت کے بعد اس اتحاد ��یں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات نہ صرف سرد مہری کا شکار ہیں بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اب شک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ترکی جو کہ کچھ عرصہ قبل تک امریکہ کے تیار کردہ ’’عظیم تر مشرقِ وسطیٰ‘‘ پلان کی مکمل حمایت کرتا چلا آیا ہے اب اس پلان سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔
امریکہ کو جب ترکی سے مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی باتیں منوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ اور اس کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور شام میں ان کی ٹریننگ کا بندوبست کرتے ہوئے تیس ہزار کرد فوجیوں پر مشتمل ’’ایس ڈی ایف‘‘ فورس تشکیل دینے کا بیڑا اٹھایا جس پر ترکی نے کئی بار امریکہ کو اس قسم کی فورس تشکیل دینے سے باز رہنے سے متعلق متنبہ بھی کیا لیکن امریکہ نے ترکی کی ایک نہ سنی اور اپنے پلان پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھا۔ 
ترک صدر ایردوان نے امریکہ کی اس ہٹ دھرمی کی پروا کیے بغیر شام کے علاقے عفرین میں موجود دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ’’شاخِ زیتون‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا جس کے چند ہی روز بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ترک صدر کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوجی آپریشن جلدازجلد ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ترک صدر ایردوان جو ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے پارٹی کے مرکزی دفتر میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے اہداف حاصل کیے بغیر اور علاقے میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیے بغیر فوجی آپریشن ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
ابھی فوجی کارروائی شروع ہوئے صرف چند دن ہوئے ہیں۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ میں صدر ٹرمپ سے پوچھتا ہوں، انہوں نے کتنی جلد افغانستان میں فوجی آپریشن مکمل کیا؟ وہ افغانستان میں بیس سال سے اور عراق میں اٹھارہ سال سے فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب ترکی اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے فوجی کارروائی کر رہا ہے تو اس کو جلد از جلد ختم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔‘‘ ترکی اپنے اس موقف پر سختی سے کاربند ہے اور اس نے عفرین کے قریب اسٹرٹیجک لحاظ سے بڑی اہمیت کے علاقے ’’جبلِ برصایا‘‘ پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی پیش قدمی تیز تر کر دی ہے۔
امریکہ نے ترکی کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ترک حکام کو شام میں موجود دہشت گرد تنظیم ’’وائی پی جی اور پی وائی ڈی‘‘ کو مزید اسلحہ فراہم نہ کر نے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ علاقے میں برسر پیکار کرد دہشت گرد تنظیموں کو مزید اسلحہ فراہم نہیں کیا جائے گا لیکن ترکی نے ایک بار پھر امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک فوجی کارروائی جاری رکھے گا جب تک علاقے میں ایک بھی دہشت گرد موجود ہے۔
ترک فوجی دستوں نے 557 دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے۔ ترکی نے ’’شاخِ زیتون‘‘ فوجی آپریشن کے ذریعے اب تک کئی ایک مقاصد حاصل کیے ہیں۔ ترکی نے شام اور عراق سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو مستقبل کے لیے بھی محفوظ بنا لیا ہے۔ دوسرا مقصد بین الاقوامی طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حاصل حقوق اور سلامتی کونسل کی 2005ء کی قرارداد نمبر 1624 اور 2014ء کی قرارداد نمبر 2170 اور2178 کے تحت، جس میں تمام ممالک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر ممکنہ اقدامات کرنے کے حقوق عطا کیے گئے ہیں، کے تحت فوجی آپریشن کرتے ہوئے بین الاقوامی رائے عامہ کی بھی ہمدردیاں حاصل کر لی ہیں اور بین الاقوامی قوانین ہی کے تحت اس فوجی آپریشن کو جاری رکھا ہوا ہے اور اسے اب تک علاقے میں پیش قدمی کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید  
0 notes
emergingpakistan · 8 years ago
Text
امریکا اور روس کا شام پر کیا موقف ہے ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے درمیان ملاقات کے تناظر میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ’’ امریکا اور روس کے درمیان مذاکرات سے کسی نتیجے پر پہنچنا قبل ازوقت ہو گا‘‘۔ ٹرمپ اور روس کے درمیان شام کے حوالے سے تعلق داری کوئی غیر مستحکم نہیں ہے۔اگرچہ کہ واشنگٹن ڈی سی میں صدر ٹرمپ کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومے کو چلتا کرنے کے بعد سے ایک سیاسی طوفان برپا ہے۔ ٹرمپ اور وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن شام کے سوال پر امریکا کی خارجہ پالیسی کو بالکل درست سمت میں چلا رہے ہیں۔ ٹیلرسن جب گذشتہ ماہ ماسکو گئے اور صدر پوتین سے بند کمرے کی ملاقات کے بعد باہر نکلے تھے تو انھوں نے دو بڑی طاقتوں کے درمیان ’’کم ترین سطح کے اعتماد‘‘ پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا:’’ دنیا کی سب سے اہم دو جوہری طاقتیں اس طرح کے تعلقات نہیں رکھ سکتی ہیں‘‘۔ روسی پریس نے تو ٹرمپ، لاروف کی ہنستے مسکراتے تصاویر شائع کی ہیں لیکن اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماسکو سے یہ بھی اپیل کی تھی کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کے رجیم اور اپنے قریبی اتحادی ایران کو بھی قابو کرے۔ صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں سرگئی لاروف کے ساتھ اپنی ملاقات کو ’’ بہت بہت اچھی‘‘ قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی انھوں نے شام میں خوف ناک ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے پر بھی زور دیا تھا۔
انھوں نے شام میں جاری بحران کے خاتمے میں پیش رفت کا بھی دعویٰ کیا تھا۔انھوں نے ملاقات کے فوری بعد کہا تھا:’’ ہم نے بہت بہت اچھی ملاقات کی ہے اور ہم شام میں ہلاکتوں اور اموات کو روکنے جا رہے ہیں‘‘۔ غوغا آرائی کا یہ تمام کھیل شام میں جاری خانہ جنگی کے فوجی اور سیاسی حل کی تلاش کی غرض سے پس پردہ چلنے والے عمل کا حصہ ہے مگر اس کا مقصد اس تمام عمل کی ایک طرح سے پردہ پوشی کرنا بھی ہے۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھی عین اس وقت صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی ،جب لاروف نے یہ ملاقات کی تھی۔
امریکا اور روس شام کو واضح طور پر اپنے اپنے اثرورسوخ کے مطابق محفوظ پناہ گاہوں کی کارروائیوں کے لیے تقسیم کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس شام کے مشرق میں ان محفوظ پناہ گاہوں کے قیام کے لیے پینٹاگان کے ایک منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔اس مقصد کے لیے مقامی فورسز کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک اضافی مقصد شام اور عراق کے درمیان سرحدی سکیورٹی کا بندوبست بھی ہو گا۔ روس ، ایران اور ترکی شام کے اسرائیل اور لبنان کے ساتھ واقع سرحدی علاقوں میں چار محفوظ زونز قائم کر رہے ہیں۔ امریکی اور روسی حکام اسرائیل کو یہ ضمانت دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روسی فوجی اسرائیل کے مقبوضہ گولان کی چوٹیوں کے نزدیک تعینات ہوں گے ، حزب اللہ کے جنگجو نہیں۔
امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ روسی چیف آف اسٹاف جنرل ولیری گیراسیموف اور اسرائیلی چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل گیڈی آئزنکاٹ سے اس سلسلے میں بات چیت کر رہے ہیں اور ان کے درمیان کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ وہ نہ صرف سیف زونز پر گفتگو کر رہے ہیں بلکہ وہ ہر وقت مواصلاتی روابط استوار رکھنے کے لیے بھی بات چیت کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکی اور روسی فورسز کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں غیر ارادی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان سیاست اور سیاسی طوفان کے باوجود رابطہ ناگزیر ہو گا۔
امریکا اور روس کے اس منصوبے میں اردن کا ایک اہم کردار ہے۔ صدر ٹرمپ اور ولادی میر پوتین کے شاہ عبداللہ کے ساتھ شاندار تعلقات استوار ہیں۔ یہ تینوں لیڈر اور ان کے نائبین ِاوّل اردن کی شام کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں کیونکہ اس سرحد کو مختلف جنگجو گروپوں کی جانب سے خطرہ لاحق ہے ۔ اردن کے ایک اعلیٰ عہدہ دار کے بہ قول عمان کے سینیر سفارت کار واشنگٹن اور ماسکو کے سفارت کاروں کے ساتھ اردن کی سرحد سے شمال کی جا نب ایک محفوظ زون کے قیام کے لیے بات چیت کر رہے ہیں ۔ اس کا مقصد ہاشمی بادشاہت کو شام کے وسطی شمالی علاقے کی جانب سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کو روکنا ہے کیونکہ وہاں الرقہ اور دیر الزور کی جانب پیش قدمی کے لیے مختلف گروپوں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور اردن مزید شامی مہاجرین کے بوجھ کو نہیں سہار سکتا۔اس تمام عمل یا کہانی کے کئی ایک کردار ہیں۔
ان میں سب سے پہلے کرد ملیشیا وائی پی جی کی قیادت میں شامی جمہوری فورسز ہیں۔ یہ عرب اور کرد فورسز ترکی کی مخالف ہیں اور ترکی وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ دمشق بھی وائی پی جی کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ اس کرد ملیشیا کو اسلحے کی شکل میں مزید امداد مہیا کررہی ہے۔ دمشق اور وائی پی جی کے تعلقات بھی پیچیدگی کا شکار ہیں اور ان کے مفادات بھی باہم متصادم ہیں۔ البتہ سلفی جہادیوں کے خلاف لڑائی میں دونوں کا نصب العین مشترکہ ہے۔ روس بھی وائی پی جی کی حمایت کرتا ہے لیکن اس کے مقاصد اور مفادات امریکا سے مختلف ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اس تحریک کا ایک مقصد ترکی اور روس کے درمیان ایران فائل کے معاملے پر میدان جنگ میں رعایتیں حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ انقرہ ، ماسکو اور تہران نے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام میں محفوظ زونز کے قیام اور بحران کے سیاسی حل کے لیے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں مگر سیف زونز کے قیام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ ، روس اور بعض متعلقہ عرب ممالک اردن اور خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان کام کی وجہ سے ترکی متاثر نظر آتا ہے۔
حتمی حل؟ شام میں جاری بحران کے حتمی حل کا ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ ٹرمپ اور روس شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق فطری طور پر ایران ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف ایک سخت طرز عمل اختیار کیا ہے اور وائٹ ہاؤس یہ بھی چاہتا ہے کہ پوتین ایران کو دباؤ میں لانے کی کوشش کریں۔ ان تمام امور کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات نے مزید دلچسپ بنا دیا ہے اور وہاں اصولیوں اور پاسداران انقلاب ایران کے درمیان ممکنہ دنگل سے شام کے بارے میں ٹرمپ ، پوتین کا حل مزید پیچیدگی کا شکار ہو جائے گا۔
ہمیں ٹرمپ اور پوتین کے درمیان جولائی میں جرمنی میں متوقع ملاقات کا انتظار کرنا ہو گا لیکن بین الاقوامی واقعات جس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں، اس کے پیش نظر تو ان دونوں لیڈروں کے درمیان اس سے پہلے بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ آیندہ ہفتے سعودی عرب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور تین تاریخی سربراہ ملاقاتوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ ان تینوں میں شامی تنازعے کے حل پر بات ہو گی۔ ایران کے خلاف تنقید کی سطح بہت بلند ہو گی اور سعودی مملکت اور اس کے اتحادی امریکا کو ایران کو شام سے نکال باہر کرنے کے لیے ہر ممکن امداد مہیا کرنے کی پیش کش کریں گے۔
امریکا اور سعودی عرب کے درمیان نئے گرم جوش تعلقات کے بعد تو الریاض بھی شام کے تنازعے میں ایک اضافی کردار بن گیا ہے اور وہ ٹرمپ کے ذریعے صدر پوتین کو شام کے معاملے میں چیلنج کرنے جا رہا ہے۔ امریکی صدر ممکنہ طور پر پوتین کا ہاتھ اپنے سعودی شراکت داروں سے ملوا سکتے ہیں اور آیندہ ہفتوں کے دوران میں ٹرمپ ، الریاض اور ماسکو کی تکون منظرعام پر آ سکتی ہے۔
ڈاکٹر تھیوڈور کراسیک
0 notes
kokchapress · 7 days ago
Text
ایران خواستار همکاری رژیم طالبان برای افتتاح شفاخانه ۱۲۰ بستر «خمینی» در بامیان شد
بربنیاد خبرنامه‌ دفتر والی بامیان، علی رضا بیکدلی تاکید کرده که ساخت این شفاخانه تکمیل شده، اما موانعی در مسیر افتتاح آن وجود دارد. عبدالله سرحدی، والی بامیان اطمینان داده است که این موضوع را با رهبری رژیم طالبان در میان خواهد گذاشت. همزمان با این، سرپرست سفارت افغانستان در تهران و سرقونسل افغانستان در شهر مشهد با مقام های وزارت خارجه ایران در مورد گسترش روابط دو کشور و همچنان موضوعات قونسلی…
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
افغان امن۔ کیا ممکن ہے؟
بوقتِ تحریر قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدے پہ دستخط ہو گئے ہیں۔ اس معاہدے کی رُو سے امریکہ نے 18برس کی طویل جنگ کے بعد افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کے شیڈول کا اعلان کیا ہے اور طالبان نے افغان سرزمین سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہر طرح کی دہشت گردی کے سدِباب کی یقین دہانی کرائی ہے۔ قطر میں معاہدے کی اس تقریب میں امریکی سیکرٹری خارجہ پومپیو موجود تھے تو امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر افغان حکومت کے ساتھ ایک مشترک بیان جاری کرنے کے لیے کابل میں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے افغانستان میں جنگ بندی رہی اور معاہدے کے بعد یہ کتنی قائم رہ سکے گی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اسی طرح امن عمل کے نتیجہ میں اُمید کی جا رہی ہے کہ افغان گروپوں کے مابین صلح اور ��یاسی و آئینی سمجھوتے کے لیے ان کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہوگا جس کے لیے 10 مارچ کی تاریخ تجویز کی گئی ہے۔ اگلے پانچ ماہ میں امریکہ اپنے 13ہزار فوجیوں کو کم کرکے 8600کرتے ہوئے فوجی انخلا کو کن شرائط کے تحت مکمل کرے گا ابھی واضح نہیں ہے۔ گو کہ یہ معاہدہ دو فریقوں کے مابین ہے اور اس سے افغان حکومت کو باہر رکھا گیا ہے۔ لیکن یہ امر یقینی ہے کہ اس سے افغانوں کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا افغان خانہ جنگی میں ملوث افغان گروہ افغانستان میں کسی وسیع البنیاد عبوری حکومت اور افغانستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں کسی سمجھوتے پہ متفق ہو سکیں گے اور جو آئینی حقوق خواتین اور شہریوں کو دیے گئے ہیں انہیں برقرار رکھا جا سکے گا، یا پھر جیسے افغانستان روس اور افغان مجاہدین کے مابین جنیوا معاہدے کے باوجود خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ 750ارب ڈالرز خرچ کرنے، 23سو امریکی فوجی مروانے اور افغانستان میں 18سال لڑنے کے باوجود امریکہ فوجی فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا اور جن طالبان کونائن الیون کے بعد امریکہ نے حملہ کر کے کابل سے بے دخل کیا تھا وہ 2014میں بیرونی فوجوں کی جانب سے براہِ راست کارروائیوں کے خاتمے کے بعد افغانستان کے بڑے حصوں پہ قابض ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں افغان فوج کے 43ہزار سے زائد فوجی جاں بحق ہوئے۔ باوجودیکہ داعش نے طالبان کے کچھ گروپوں کو ساتھ ملا لیا ہے اور بہت سے کمانڈر مختلف جنگی سرداروں کے ساتھ مل گئے ہیں، افغان طالبان نے اپنا اتحاد برقرار رکھا ہے۔ قطر معاہدے کے بعد افغان طالبان ایک کامیاب حربی تحریک کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں جن کے سامنے امریکہ جیسی سپرپاور ٹھہر نہ سکی۔ دوسری جانب 18برس کی کوششوں کے باوجود ایک ریاستی ڈھانچہ تو بنا لیکن داخلی خلفشار کا شکار رہا۔ گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باعث دو بڑے فریقوں یعنی صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللّٰہ میں تصادم بڑھ گیا ہے۔ عبداللّٰہ عبداللّٰہ کی متوازی حکومت بنانے کی دھمکی کے نتیجے میں اشرف غنی کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب ملتوی کر دی گئی ہے۔ امریکی ایلچی خلیل زاد بمشکل ان دو صدارتی اُمیدواروں کے مابین ممکنہ تصادم کو ملتوی کرا پائے ہیں۔ افغانوں کے مابین ہونے والے مجوزہ مذاکرات کے لیے فاتح افغان طالبان تو یکسوئی سے شریک ہوں گے، لیکن افغان حکومت اور اس کی اپوزیشن کے مابین ایک متفقہ وفد پہ اتفاقِ رائے بہت مشکل ہے۔ اس صورت میں افغان طالبان اپنے مخالفین کے اندرونی اختلافات سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں گے۔ صدر اشرف غنی کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی ہے اور اُن کے سابقہ اتحادی بشمول سابق صدر حامد کرزئی اُس کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں۔ دوستم جیسے بہت سے علاقائی جنگی سردار بھی اپنی اپنی دھڑے بندی میں مصروف ہیں۔ جب جنیوا معاہدہ ہوا تھا تو پاکستان نے افغان مجاہدین کو اکٹھا کرکے مذاکرات کی میز پر بھیجا تھا، اب امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے افغان اتحادیوں یعنی حکومت اور اس کی اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جو وفد بھی بنایا گیا اُس میں کوئی باہمی اتفاق نہیں ہو سکے گا اور وہ طالبان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ لین دین کی جانب راغب ہوں گے۔ گزشتہ ہفتے کی فائربندی پر افغان عوام نے پہلی بار سکون کا سانس لیا ہے۔ وہ چار عشروں کے خون خرابے سے تنگ آ چکے ہیں اور امن کے لیے بیتاب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان خانہ جنگی میں ملوث سبھی عناصر جنگ بندی پہ راضی ہوں اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں قومی اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ افغان اگر جنگجو ہیں تو اُن میں باہمی اختلافات کو دُور کرنے کی بھی بڑی صلاحیت ہے۔ سافما کے افغانستان چیپٹر کی دعوت پر جب میں کابل میں تھا تو سافما افغانستان چیپٹر کے سابق صدر جو اب ایک صوبے کے گورنر بن چکے تھے، مجھے کابل میں ایک شادی میں لے گئے۔ وہاں ایک بڑے ہال میں علاقے کے سبھی بزرگ جمع تھے۔ میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میرے افغان دوست نے مہمانوں سے میرا تعارف کرایا۔ مہمانوں میں افغان طالبان سمیت ہر گروپ کے لوگ موجود تھے اور ایسے باہم شیر و شکر تھے کہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ خانہ جنگی میں کس خوفناکی سے مصروف ہیں۔ ماضی میں قومی اولسی جرگے ہوتے تھے جو اب بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کے مندوبین کون ہوں۔ لیکن اس سے قبل افغانوں کے مابین قومی اتفاقِ رائے کا نازک مرحلہ ہوگا۔ اگر یہ کامیابی سے آگے نہ بڑھا تو افغانستان پھر سے ایک نئی خانہ جنگی کی جانب بڑھے گا جس سے افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی جانب رواں ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ اور پھر ایک اور عذاب نازل ہوگا۔ افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں اور وہ اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ افغانوں کا افغانوں کے ہاتھ جتنا خون بہایا گیا ہے، اُتنا شاید بموں سے نہیں ہوا۔ افغانستان کی صورتحال بگڑی تو پھر علاقائی قوتیں بھی اپنے اپنے مفادات کے لیے اس میں کود پڑیں گی جو بڑی غلطی ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ تمام علاقائی اور عالمی قوتیں مل کر افغانوں کو ایک میز پر بٹھائیں اور افغانستان کے لیے ایک متفقہ آئین پہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیرِ نو کے لیے ایک گرینڈ پلان پیش کریں۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو عبوری دور کے لیے افغانستان میں مامور کیا جانا چاہیے جو جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ افغان باہمی مصالحت اور قومی اتفاقِ رائے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی میزبانی کے لیے بہت سے ممالک دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات اقوامِ متحدہ کے ذریعے ہوں تو افغان قومی مصالحت کو یقینی بنانے اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ایک عالمی پلان ترتیب دیا جا سکے گا۔ پاکستان کو اس بارے میں بہت ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا جیسا کہ اس نے طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کے لیے راضی کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ خطے کا امن ناقابلِ تقسیم ہے اور خاص طور پر ڈیورنڈ لائن کے آر پار امن پاکستان اور افغانستان کے لیے ضروری ہی نہیں ناقابلِ تقسیم بھی ہے۔ شاید یہ مناسب وقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات سمیت تمام اختلافی مسائل کا حل بھی تلاش کیا جائے۔ Read the full article
0 notes
khouj-blog1 · 6 years ago
Text
شکارپوردھماکے میں مطلوب دہشت گرد گرفتار
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/120128/
شکارپوردھماکے میں مطلوب دہشت گرد گرفتار
سندھ پولیس نے شکارپور دھماکے میں مطلوب 2 دہشت گرد بلوچستان سے گرفتار کر لیے، آئی جی سندھ کلیم امام کا کہنا ہے کہ گرفتار دہشت گرد شکار پور دھماکے میں مطلوب تھے۔ سندھ پولیس نے بلوچستان سے 2 دہشت گرد گرفتار کر لیے، آئی جی سندھ نے بتایا کہ سندھ اور بلوچستان سرحدی پٹی پر سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے کہا کہ گرفتار دہشت گرد شکار پور دھماکے میں پولیس کو مطلوب تھے، ماضی میں بھی بلوچستان کے راستے دہشت گردوں نے کارروائیاں کیں۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا ہے کہ دہشت گردوں نے جیکب آباد، شکارپور اور کشمور میں دھماکے کیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال اب پہلے سے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ 20 مارچ کو بھی شکار پور میں پولیس نے دہشت گردی کا بڑا منصوبہ نا کام بناتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو گرفتار کر کے بارودی مواد بر آمد کیا تھا، گرفتار دہشت گرد سندھ، بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی کے قریبی ساتھی بتائے گئے۔ دہشت گردوں میں عبد الحکیم بنگلانی، عبد الشکور، اسحاق جعفری اور فاروق سومرو شامل تھے، دہشت گردوں سے 2 پریشر ککر بم، 35 ہینڈ گرنیڈ، 20 کلو بارودی مواد برآمد ہوا۔
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
افغان فورسز نے بگرام ایئر بیس کو طالبان کے حوالے کردیا
افغان فورسز نے بگرام ایئر بیس کو طالبان کے حوالے کردیا
ایک افغان عہدیدار کا کہنا ہے کہ بگرام ایئر بیس پر موجود فورسز ، جس میں ایک جیل میں 5000 قیدی ہیں ، نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ طالبان.
بگرام کے ضلعی سربراہ درویش رؤفی نے اتوار کو کہا کہ ہتھیار ڈالنے سے ایک وقت کا امریکی اڈہ باغیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
اس جیل میں طالبان اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے جنگجو تھے۔
یہ اس وقت آیا جب طالبان بیرونی علاقوں میں داخل ہوئے۔ کابل۔.
طالبان جنگجو اتوار کو افغان دارالحکومت کے مضافات میں داخل ہوئے اور کہا کہ وہ اس شہر کے “پرامن منتقلی” کا انتظار کر رہے ہیں جب کہ اسے طاقت کے ذریعے نہ لینے کا وعدہ کیا گیا تھا ، لیکن خوفزدہ رہائشی چھٹیوں کی طرف بھاگ گئے ، کارکن سرکاری دفاتر اور ہیلی کاپٹروں سے فرار ہو گئے۔ امریکی سفارت خانے میں اترنا۔
ملک بھر میں ہونے والی کارروائی میں جو صرف ایک ہفتے میں ہوئی ہے ، طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز کو ملک کے وسیع حصوں سے بھاگتے ہوئے ، شکست دی ، یا بھیج دیا ، حالانکہ انہیں امریکی فوج کی کچھ فضائی مدد حاصل تھی۔
اتوار کو وہ کابل پہنچے۔ تین افغان حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ طالبان دارالحکومت کے کالکان ، قرا باغ اور پغمان اضلاع میں ہیں۔
دھکے کی بجلی کی رفتار نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا اور سوالات اٹھائے کہ افغان افواج برسوں کی امریکی تربیت اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود کیوں ٹوٹ گئیں۔ کچھ دن پہلے ، ایک امریکی فوجی اندازے کے مطابق یہ دارالحکومت باغیوں کے دباؤ میں آنے سے ایک ماہ قبل ہوگا۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے قطر کے الجزیرہ انگلش سیٹلائٹ نیوز چینل کو بتایا کہ باغی “کابل شہر کی پرامن منتقلی کے منتظر ہیں۔” انہوں نے اپنی افواج اور حکومت کے درمیان کسی بھی ممکنہ مذاکرات کی تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
لیکن جب دباؤ ڈالا گیا کہ طالبان کس قسم کا معاہدہ چاہتے ہیں تو شاہین نے تسلیم کیا کہ وہ مرکزی حکومت سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے خواہاں ہیں۔
طالبان کے مذاکرات کار اتوار کو صدارتی محل کی جانب منتقلی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ واضح نہیں تھا کہ یہ منتقلی کب ہوگی۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومتی جانب سے مذاکرات کرنے والوں میں سابق صدر حامد کرزئی اور افغان قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ شامل تھے۔ عبداللہ طویل عرصے سے صدر کے سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اشرف غنی، جنہوں نے طویل عرصے سے طالبان سے معاہدہ کرنے کے لیے اقتدار چھوڑنے سے انکار کیا۔
عہدیدار ، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند دروازوں کے مذاکرات کی تفصیلات پر بات کی ، نے انھیں “کشیدہ” قرار دیا۔
قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ خان نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا ، “میں آپ کو کابل کی حفاظت کے بارے میں یقین دلاتا ہوں۔”
اس سے قبل باغیوں نے دارالحکومت کے رہائشیوں کو بھی پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
باغیوں نے ایک بیان میں کہا ، “کسی کی جان ، املاک اور عزت کو نقصان نہیں پہنچے گا اور کابل کے شہریوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوگا۔”
تاہم ، طالبان کے ایک کمانڈر کی جانب سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک صوتی پیغام نے خبردار کیا کہ “کسی کو بھی صوبہ کابل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔”
وعدوں کے باوجود ، بہت سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا کہ وہ کابل ایئر پورٹ کے ذریعے ملک چھوڑنے کے لیے پہنچ گئے ، ملک سے باہر جانے کا آخری راستہ کیونکہ اب طالبان ہر بارڈر کراسنگ پر قابض ہیں۔ سفارتخانے کے قریب بوئنگ CH-47 چنوک ہیلی کاپٹروں کی تیز رفتار شٹل پروازیں چند گھنٹوں بعد شروع ہوئیں جب شدت پسندوں نے قریبی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا۔ سفارتی بکتر بند ایس یو وی کو پوسٹ کے آس پاس کا علاقہ چھوڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کی امریکی محکمہ خارجہ تحریکوں کے بارے میں سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔ تاہم ، سفارتخانے کی چھت کے قریب دھواں کے دھواں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ سفارت کاروں نے حساس دستاویزات کو فوری طور پر تباہ کر دیا اس علاقے میں وقت کے ساتھ ساتھ دھواں بہت زیادہ بڑھ گیا ، دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں کا گھر بھی۔
سیکورسکی UH-60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر ، جو عام طور پر مسلح دستے لے کر جاتے ہیں ، بعد میں سفارت خانے کے قریب بھی اترے۔ کم از کم ایک حملہ آور ہیلی کاپٹر کو اوور ہیڈ دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹروں نے ممکنہ میزائل آگ سے توجہ ہٹانے کے لیے بھڑک اٹھائی۔ امریکہ نے چند روز قبل اپنے سفارتخانے سے کچھ اہلکاروں کو نکالنے میں مدد کے لیے ہزاروں فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہزاروں شہری اب کابل میں ہی پارکوں اور کھلی جگہوں پر رہتے ہیں ، ایک طالبان حکومت سے خوفزدہ ہے جو ایک وحشیانہ حکمرانی کو دوبارہ نافذ کر سکتی ہے جس نے عورتوں کے حقوق کو ختم کر دیا۔ کچھ اے ٹی ایم نے نقد تقسیم کرنا بند کر دیا کیونکہ سیکڑوں نجی بینکوں کے سامنے جمع ہو گئے اور اپنی زندگی کی بچت نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ، افغان فورسز نے میدان کو مغربی عسکریت پسندوں کے لیے چھوڑ دیا ، ایک پائلٹ نے بتایا کہ اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کی۔ پائلٹ نے بتایا کہ اس سے قبل ایک افغان پرواز قندھار سے ہوائی اڈے پر اتری تھی جو فوجیوں سے لدی ہوئی تھی جنہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے ، یہاں تک کہ مارٹر حملے سے نقصان پہنچا۔
غنی ، جنہوں نے جارحیت شروع ہونے کے بعد ہفتہ کو پہلی بار قوم سے بات کی ، تیزی سے الگ تھلگ دکھائی دیتے ہیں۔ جنگجو سرداروں کے ساتھ جنہوں نے کچھ دن پہلے بات چیت کی تھی وہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں یا غنی کو فوجی آپشن کے بغیر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ طالبان کے دفتر کی جگہ قطر میں جاری مذاکرات بھی باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
جلال آباد ، افغانستان کے آخری بڑے شہر کے علاوہ دارالحکومت جو کہ عسکریت پسندوں کے قبضے میں نہیں ہے ، اتوار کے اوائل میں طالبان کے قبضے میں آگیا۔ عسکریت پسندوں نے تصاویر آن لائن پوسٹ کیں جو انہیں صوبہ ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں گورنر کے دفتر میں دکھائی دے رہی ہیں۔
صوبے کے ایک قانون دان ابرار اللہ مراد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ باغیوں نے جلال آباد پر قبضہ کر لیا جب بزرگوں نے وہاں حکومت کے خاتمے پر بات چیت کی۔ مراد نے کہا کہ لڑائی نہیں ہوئی کیونکہ شہر نے ہتھیار ڈال دیئے۔
افغان قانون ساز حمیدہ اکبری اور طالبان نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے اتوار کو میدان وردک کا دارالحکومت بھی کابل سے 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پر لیا۔ صوبائی کونسل کے ایک رکن نے کہا کہ خوست میں ایک اور صوبائی دارالحکومت بھی طالبان کے قبضے میں آگیا۔
ملک کے چوتھے بڑے شہر مزار شریف کے ہفتہ کے موسم خزاں ، جس کا افغان فورسز اور دو طاقتور سابق جنگجوؤں نے دفاع کا وعدہ کیا تھا ، نے باغیوں کو پورے شمالی افغانستان پر کنٹرول دے دیا۔
دوستم کے قریبی عہدیداروں نے بتایا کہ عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم ، جن میں سے دو جنگجو سردار غنی نے کچھ دن پہلے ان کی طرف ریلی کی کوشش کی تھی ، ہفتہ کے روز سرحد سے ازبکستان بھاگ گئے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ وہ عوامی طور پر اس کی نقل و حرکت کے بارے میں بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
ٹوئٹر پر لکھتے ہوئے ، نور نے الزام لگایا کہ “سازش” نے شمال کے زوال کی مدد کی ، بغیر کسی تفصیل کے۔
نور نے لکھا ، “ہماری سخت مزاحمت کے باوجود ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بڑی منظم اور بزدلانہ سازش کے نتیجے میں حکومت اور افغان سکیورٹی فورسز کا تمام سامان طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔” انہوں نے مارشل دوستم اور مجھے بھی پھنسانے کی سازش کی ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
طالبان نے یہ بھی اصرار کیا کہ ان کے جنگجو لوگوں کے گھروں میں داخل نہیں ہوں گے اور نہ ہی کاروبار میں مداخلت کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان لوگوں کو “عام معافی” کی پیشکش کریں گے جو افغان حکومت یا غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرتے تھے۔
عسکریت پسندوں نے کہا ، “امارت اسلامیہ ایک بار پھر اپنے تمام شہریوں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح ان کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کرے ��ی اور اپنی پیاری قوم کے لیے پرامن اور محفوظ ماحول بنائے گی۔” “اس سلسلے میں ، کسی کو اپنی زندگی کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔”
اس عہد کے باوجود ، جو لوگ ٹکٹ خرید سکتے ہیں وہ کابل بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آرہے ہیں ، ملک سے باہر جانے کا واحد راستہ طالبان کی جانب سے حکومت کی جانب سے اتوار کو طورخم پر رکھی گئی آخری سرحدی گزرگاہ کے بعد ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مقامی نشریاتی ادارے جیو ٹی وی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے قبضے کے بعد پاکستان نے وہاں سرحد پار آمدورفت روک دی۔
. Source link
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
حضرت خالد بن ولیدؓ
مُٹھی بھر مجاہدین اُحد پہاڑ کے سایے میں لڑی جانے والی جنگ جیت چُکے ہیں اور کفّارِ مکّہ راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ شیطان اپنا سَر پیٹ رہا ہے۔ جبلِ رماۃ پر پہرے پر مامور جنگ جُو اپنے کمانڈر کے منع کرنے کے باوجود، مورچہ چھوڑ کر میدانِ جنگ کی طرف چلے گئے ہیں کہ اچانک، پسپا ہو کر بھاگنے والے قریش کے کمانڈر، خالد بن ولید کی نظر جبلِ رماۃ کے خالی مورچے پر پڑی اور پھر وہ برق رفتاری سے پلٹا۔ رماۃ پر موجود چند مجاہدین کو شہید کرتا ہوا میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ اُس کا حملہ اتنا اچانک، حیران کُن اور شدید تھا کہ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور یوں ذرا سی غفلت سے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر
حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہیں کہ جن کے محیّرالعقول اور ولولہ انگیز جنگی کارنامے دیکھ کر ماہرینِ حرب و ضرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ جن کے برق رفتار طوفانی حملوں اور لگاتار فتوحات نے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ، ملّتِ اسلامیہ کا وہ عظیم جرنیل کہ جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو پامال کر ڈالا۔ روم، ایران کے شاہی محلّات اپنے گھوڑوں کی ٹاپ سے روند ڈالے۔ جن کی تلوار کی زَد سے بڑے بڑے نام وَر سورما گھبرائیں اور کوئی مقابلے پر نہ آئے۔ جن کا نام کفّار کے دِلوں کو دہشت زَدہ کر دے۔ خالد بن ولیدؓ، اللہ کی وہ تلوار کہ جو کفّار، مشرکین، مرتدین، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوئی۔ جن کے نام سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہو جائے، جو سبز آندھی بن کر چھائے اور جنگ کے میدانوں میں لاشوں کے ڈھیر اور سَروں کے مچان بنا دے۔ جن کے ہاتھوں کی طاقت سے برہنہ شمشیریں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں۔ جنھوں نے ملّتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پھیلا دیا۔ خالد بن ولیدؓ،عزم و ہمّت، عمل و بے داری، شجاعت و بہادری، طاقت و جواں مَردی کا عظیم پیکر، جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان۔ مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان، اللہ کے نبی ؐ کا پیارا، صدیقِ اکبرؓ کی آنکھوں کا تارا، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت۔ فتح و نصرت، جس کی قدم بوسی کے لیے دیدہ و دِل فرش راہ کر دے، کام یابیاں جس کی منتظر ہوں، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماں برداری کا یہ عالم کہ امیرالمومنین، فاروقِ اعظمؓ جب معزول کر دیں، تو لمحہ بھر میں سپہ سالار سے سپاہی بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے۔ خالد بن ولیدؓ، مسلمانوں کے وہ ہیرو کہ آج بھی جن کا نام، لہو کو گرم اور دِلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔
تعارف
مضبوط، چاق چوبند جسم، دراز قد، سُرخ و سفید روشن چہرہ، چوڑا اور کشادہ سینہ، چمکتی عقابی آنکھیں۔ شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی کا جادوگر، جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی چالوں کا ماہر۔ بے خوف، نڈر، بہادر، جَری، پاک دامن، شریف النّفس، عبادت گزار، قسمت کا دھنی، برق رفتار، آتش جواں، شعلہ بیاں، جرنیل، حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار اور قریش کے بااثر رئیس، ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد، ولید بن مغیرہ اور طائف کے ،عروہ بن مسعود ثقفی کا شمار ایسے معزّزین میں ہوتا تھا کہ جن کے بارے میں قریش کہا کرتے تھے’’ اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا، تو اِن پر کیوں نہ کیا۔‘‘ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورہ’’ الزخرف‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔
سلسلہ نسب
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ خالد بن ولیدؓ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم القریش المخزومی۔ آپؓ کی والدہ کا نام، لبابہ صغریٰ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، اُمّ المومنین، حضرت میمونہؓ کی ہم شیرہ تھیں۔ بارگاہِ رسالتؐ سے آپؓ کو’’ سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔
قبولِ اسلام
حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سُنا کہ’’ اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرتؐ کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا، لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپؐ کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے‘‘ (طبقات ابنِ سعد)۔ حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ غزوۂ خندق کے بعد ایک دن مجھے اپنے بھائی کا خط ملا، جس میں اُنہوں نے لکھا کہ’’ اے میرے پیارے بھائی جان! رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ خالد کہاں ہے؟ مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ، انشاء اللہ وہ بہت جلد آپؐ کے قدموں میں ہوگا۔‘‘ اس خط کے بعد، ایک دن مَیں نے خواب دیکھا کہ مَیں تنگ و تاریک، بھیانک جگہ سے ایک سرسبز و شاداب اور کُھلے میدان کی طرف ��ا رہا ہوں۔ میری آنکھ کُھلی، تو میری دنیا بدل چُکی تھی۔ مَیں نے عثمان بن طلحہؓ سے مدینہ جانے کا کہا، تو وہ خوشی خوشی میرے ساتھ جانے پر رضا مند ہوگئے اور ہم اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور گئے تھے کہ ہمیں عمرو بن عاصؓ بھی مل گئے، وہ بھی اسی مقصد کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ چناں چہ ہم نے اپنے آپ کو بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیا۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرطِ محبّت سے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔‘‘ میرے اسلام قبول کرنے پر آنحضرتؐ نے فرمایا’’خالدؓ! تمہاری عقل و دانش اور فہم و فراست کی بناء پر مجھے قوی اُمید تھی کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مسلمان ہو جائو گے۔‘‘
کاتبِ وحی
دُنیا حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک نام وَر جرنیل و فاتح کے طور پر جانتی ہے اور کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ آنحضرتؐ نے اُنھیں کاتبِ وحی کے منصب پر بھی فائز فرمایا تھا۔ مختلف کُتب میں آپؓ کے کاتبِ وحی ہونے کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔
معرکۂ موتہ
رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سب سے خون ریز معرکہ، 8؍ہجری میں شام کے سرحدی علاقے، (موجودہ اُردن) بلقاء کے قریب’’موتہ‘‘ نامی بستی میں پیش آیا، جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ نبی کریمؐ نے ایک صحابی، حارث بن عمیرؓ کو ایک خط دے کر حاکمِ بصریٰ کے پاس روانہ کیا، لیکن اُنہیں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو غسانی نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اسلام کے سفیر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں 3ہزار جنگ جوؤں کا لشکر روانہ کیا اور تاکید فرمائی کہ’’ زیدؓ شہید ہو جائیں، تو جعفر بن ابی طالبؓ کو سپہ سالار بنالیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنالیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا، تو شاہِ روم، ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صُورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی، خالد بن ولیدؓ کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چناں چہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ’’ جنگِ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگِ موتہ ہی کے روز رسول اللہﷺ نے وحی کی بناء پر فرمایا کہ’’ جھنڈا زید ؓنے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابنِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے( اس دَوران آپؐ کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا(اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘(صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)۔
فتحِ مکّہ اور غزوۂ حنین
20رمضان المبارک 8ہجری کو فتحِ مکّہ کے موقعے پر رسول اللہﷺ نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا۔ اس میں اسلم، سلیم، غفّار، مزینہ، جہینہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل تھے۔ آپؐ نے خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ’’ وہ مکّے میں زیریں حصّے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے، تو اُسے کاٹ کر رکھ دیں اور کوہِ صفا پر ہم سے ملیں۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک آیا، اُسے جہنّم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے، جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے، وہ بھی راستا بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے‘‘ (الرحیق المختوم)۔ فتحِ مکّہ کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت خالدؓ کو 30مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت گرانے کے لیے روانہ کیا۔ 8ہجری کے ماہِ شوال میں نبی کریمؐ نے قبیلہ ہواذن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح ِمکّہ کے وقت آپؐ کے ہم راہ تھے اور دو ہزار مکّے کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپؐ نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔
غزوۂ تبوک
غزوۂ تبوک کے موقعے پر کوئی بھی رومی قبیلہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب نے آنحضرتؐ کے پاس آکر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس موقعے پر آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چار سو بیس سواروں کا لشکر دے کر دومتہ الجندل کے حاکم، اکیدر کو گرفتار کرنے بھیجا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ تم اُسے نیل گائے کا شکار کرتے پائو گے۔‘‘ حضرت خالدؓ جب اُس کے قلعے کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعے کے دروازے پر موجود ہے اور چاندنی رات میں اکیدر اُسے شکار کرنے کے لیے قلعے سے باہر آیا ہے۔ حضرت خالدؓ نے اُسی وقت اُسے گرفتار کر کے حضورﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ آنحضرتؐ نے جزیہ دینے کے اقرار پر اُسے چھوڑ دیا۔
جنگِ یمامہ
ذی الحجہ 11ہجری کو خلیفۂ اوّل، سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے، ربیعہ کے چالیس ہزار جنگ جوئوں کے لشکر کے ساتھ’’ یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل، وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنّم رسید کر دیا۔
حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں
ابھی خالد بن ولیدؓ جنگِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چناں چہ محرّم 11ہجری میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبے کا حاکم، ہرمز نہایت دلیر جنگ جُو سردار تھا، جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی، کیوں کہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوئے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دیے، جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمتِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دو بدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود، ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمینِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔
جنگِ یرموک
حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل،ہامان 2لاکھ، 40ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا، جب کہ مجاہدین کی تعداد 40ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ، تیس ہزار رومی مارے گئے۔
وفات
وہ 21ہجری کی ایک غم ناک رات تھی، جب حمص شہر میں بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح، حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھائو نہ ہوں، مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتقال ہوا، تو اُن کے وَرثے میں ایک گھوڑے اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔
The post حضرت خالد بن ولیدؓ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2QIrnxy via Today Urdu News
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
حضرت خالد بن ولیدؓ
مُٹھی بھر مجاہدین اُحد پہاڑ کے سایے میں لڑی جانے والی جنگ جیت چُکے ہیں اور کفّارِ مکّہ راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ شیطان اپنا سَر پیٹ رہا ہے۔ جبلِ رماۃ پر پہرے پر مامور جنگ جُو اپنے کمانڈر کے منع کرنے کے باوجود، مورچہ چھوڑ کر میدانِ جنگ کی طرف چلے گئے ہیں کہ اچانک، پسپا ہو کر بھاگنے والے قریش کے کمانڈر، خالد بن ولید کی نظر جبلِ رماۃ کے خالی مورچے پر پڑی اور پھر وہ برق رفتاری سے پلٹا۔ رماۃ پر موجود چند مجاہدین کو شہید کرتا ہوا میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ اُس کا حملہ اتنا اچانک، حیران کُن اور شدید تھا کہ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور یوں ذرا سی غفلت سے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر
حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہیں کہ جن کے محیّرالعقول اور ولولہ انگیز جنگی کارنامے دیکھ کر ماہرینِ حرب و ضرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ جن کے برق رفتار طوفانی حملوں اور لگاتار فتوحات نے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ، ملّتِ اسلامیہ کا وہ عظیم جرنیل کہ جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو پامال کر ڈالا۔ روم، ایران کے شاہی محلّات اپنے گھوڑوں کی ٹاپ سے روند ڈالے۔ جن کی تلوار کی زَد سے بڑے بڑے نام وَر سورما گھبرائیں اور کوئی مقابلے پر نہ آئے۔ جن کا نام کفّار کے دِلوں کو دہشت زَدہ کر دے۔ خالد بن ولیدؓ، اللہ کی وہ تلوار کہ جو کفّار، مشرکین، مرتدین، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوئی۔ جن کے نام سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہو جائے، جو سبز آندھی بن کر چھائے اور جنگ کے میدانوں میں لاشوں کے ڈھیر اور سَروں کے مچان بنا دے۔ جن کے ہاتھوں کی طاقت سے برہنہ شمشیریں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں۔ جنھوں نے ملّتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پھیلا دیا۔ خالد بن ولیدؓ،عزم و ہمّت، عمل و بے داری، شجاعت و بہادری، طاقت و جواں مَردی کا عظیم پیکر، جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان۔ مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان، اللہ کے نبی ؐ کا پیارا، صدیقِ اکبرؓ کی آنکھوں کا تارا، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت۔ فتح و نصرت، جس کی قدم بوسی کے لیے دیدہ و دِل فرش راہ کر دے، کام یابیاں جس کی منتظر ہوں، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماں برداری کا یہ عالم کہ امیرالمومنین، فاروقِ اعظمؓ جب معزول کر دیں، تو لمحہ بھر میں سپہ سالار سے سپاہی بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے۔ خالد بن ولیدؓ، مسلمانوں کے وہ ہیرو کہ آج بھی جن کا نام، لہو کو گرم اور دِلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔
تعارف
مضبوط، چاق چوبند جسم، دراز قد، سُرخ و سفید روشن چہرہ، چوڑا اور کشادہ سینہ، چمکتی عقابی آنکھیں۔ شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی کا جادوگر، جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی چالوں کا ماہر۔ بے خوف، نڈر، بہادر، جَری، پاک دامن، شریف النّفس، عبادت گزار، قسمت کا دھنی، برق رفتار، آتش جواں، شعلہ بیاں، جرنیل، حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار اور قریش کے بااثر رئیس، ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد، ولید بن مغیرہ اور طائف کے ،عروہ بن مسعود ثقفی کا شمار ایسے معزّزین میں ہوتا تھا کہ جن کے بارے میں قریش کہا کرتے تھے’’ اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا، تو اِن پر کیوں نہ کیا۔‘‘ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورہ’’ الزخرف‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔
سلسلہ نسب
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ خالد بن ولیدؓ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم القریش المخزومی۔ آپؓ کی والدہ کا نام، لبابہ صغریٰ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، اُمّ المومنین، حضرت میمونہؓ کی ہم شیرہ تھیں۔ بارگاہِ رسالتؐ سے آپؓ کو’’ سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔
قبولِ اسلام
حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سُنا کہ’’ اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرتؐ کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا، لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپؐ کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے‘‘ (طبقات ابنِ سعد)۔ حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ غزوۂ خندق کے بعد ایک دن مجھے اپنے بھائی کا خط ملا، جس میں اُنہوں نے لکھا کہ’’ اے میرے پیارے بھائی جان! رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ خالد کہاں ہے؟ مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ، انشاء اللہ وہ بہت جلد آپؐ کے قدموں میں ہوگا۔‘‘ اس خط کے بعد، ایک دن مَیں نے خواب دیکھا کہ مَیں تنگ و تاریک، بھیانک جگہ سے ایک سرسبز و شاداب اور کُھلے میدان کی طرف جا رہا ہوں۔ میری آنکھ کُھلی، تو میری دنیا بدل چُکی تھی۔ مَیں نے عثمان بن طلحہؓ سے مدینہ جانے کا کہا، تو وہ خوشی خوشی میرے ساتھ جانے پر رضا مند ہوگئے اور ہم اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور گئے تھے کہ ہمیں عمرو بن عاصؓ بھی مل گئے، وہ بھی اسی مقصد کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ چناں چہ ہم نے اپنے آپ کو بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیا۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرطِ محبّت سے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔‘‘ میرے اسلام قبول کرنے پر آنحضرتؐ نے فرمایا’’خالدؓ! تمہاری عقل و دانش اور فہم و فراست کی بناء پر مجھے قوی اُمید تھی کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مسلمان ہو جائو گے۔‘‘
کاتبِ وحی
دُنیا حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک نام وَر جرنیل و فاتح کے طور پر جانتی ہے اور کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ آنحضرتؐ نے اُنھیں کاتبِ وحی کے منصب پر بھی فائز فرمایا تھا۔ مختلف کُتب میں آپؓ کے کاتبِ وحی ہونے کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔
معرکۂ موتہ
رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سب سے خون ریز معرکہ، 8؍ہجری میں شام کے سرحدی علاقے، (موجودہ اُردن) بلقاء کے قریب’’موتہ‘‘ نامی بستی میں پیش آیا، جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ نبی کریمؐ نے ایک صحابی، حارث بن عمیرؓ کو ایک خط دے کر حاکمِ بصریٰ کے پاس روانہ کیا، لیکن اُنہیں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو غسانی نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اسلام کے سفیر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں 3ہزار جنگ جوؤں کا لشکر روانہ کیا اور تاکید فرمائی کہ’’ زیدؓ شہید ہو جائیں، تو جعفر بن ابی طالبؓ کو سپہ سالار بنالیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنالیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا، تو شاہِ روم، ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صُورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی، خالد بن ولیدؓ کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چناں چہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ’’ جنگِ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگِ موتہ ہی کے روز رسول اللہﷺ نے وحی کی بناء پر فرمایا کہ’’ جھنڈا زید ؓنے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابنِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے( اس دَوران آپؐ کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا(اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘(صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)۔
فتحِ مکّہ اور غزوۂ حنین
20رمضان المبارک 8ہجری کو فتحِ مکّہ کے موقعے پر رسول اللہﷺ نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا۔ اس میں اسلم، سلیم، غفّار، مزینہ، جہینہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل تھے۔ آپؐ نے خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ’’ وہ مکّے میں زیریں حصّے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے، تو اُسے کاٹ کر رکھ دیں اور کوہِ صفا پر ہم سے ملیں۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک آیا، اُسے جہنّم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے، جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے، وہ بھی راستا بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے‘‘ (الرحیق المختوم)۔ فتحِ مکّہ کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت خالدؓ کو 30مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت گرانے کے لیے روانہ کیا۔ 8ہجری کے ماہِ شوال میں نبی کریمؐ نے قبیلہ ہواذن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح ِمکّہ کے وقت آپؐ کے ہم راہ تھے اور دو ہزار مکّے کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپؐ نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔
غزوۂ تبوک
غزوۂ تبوک کے موقعے پر کوئی بھی رومی قبیلہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب نے آنحضرتؐ کے پاس آکر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس موقعے پر آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چار سو بیس سواروں کا لشکر دے کر دومتہ الجندل کے حاکم، اکیدر کو گرفتار کرنے بھیجا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ تم اُسے نیل گائے کا شکار کرتے پائو گے۔‘‘ حضرت خالدؓ جب اُس کے قلعے کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعے کے دروازے پر موجود ہے اور چاندنی رات میں اکیدر اُسے شکار کرنے کے لیے قلعے سے باہر آیا ہے۔ حضرت خالدؓ نے اُسی وقت اُسے گرفتار کر کے حضورﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ آنحضرتؐ نے جزیہ دینے کے اقرار پر اُسے چھوڑ دیا۔
جنگِ یمامہ
ذی الحجہ 11ہجری کو خلیفۂ اوّل، سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے، ربیعہ کے چالیس ہزار جنگ جوئوں کے لشکر کے ساتھ’’ یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل، وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنّم رسید کر دیا۔
حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں
ابھی خالد بن ولیدؓ جنگِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چناں چہ محرّم 11ہجری میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبے کا حاکم، ہرمز نہایت دلیر جنگ جُو سردار تھا، جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی، کیوں کہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوئے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دیے، جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمتِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دو بدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود، ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمینِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔
جنگِ یرموک
حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل،ہامان 2لاکھ، 40ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا، جب کہ مجاہدین کی تعداد 40ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ، تیس ہزار رومی مارے گئے۔
وفات
وہ 21ہجری کی ایک غم ناک رات تھی، جب حمص شہر میں بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح، حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھائو نہ ہوں، مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتقال ہوا، تو اُن کے وَرثے میں ایک گھوڑے اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔
The post حضرت خالد بن ولیدؓ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2QIrnxy via India Pakistan News
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years ago
Text
حضرت خالد بن ولیدؓ
مُٹھی بھر مجاہدین اُحد پہاڑ کے سایے میں لڑی جانے والی جنگ جیت چُکے ہیں اور کفّارِ مکّہ راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ شیطان اپنا سَر پیٹ رہا ہے۔ جبلِ رماۃ پر پہرے پر مامور جنگ جُو اپنے کمانڈر کے منع کرنے کے باوجود، مورچہ چھوڑ کر میدانِ جنگ کی طرف چلے گئے ہیں کہ اچانک، پسپا ہو کر بھاگنے والے قریش کے کمانڈر، خالد بن ولید کی نظر جبلِ رماۃ کے خالی مورچے پر پڑی اور پھر وہ برق رفتاری سے پلٹا۔ رماۃ پر موجود چند مجاہدین کو شہید کرتا ہوا میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ اُس کا حملہ اتنا اچانک، حیران کُن اور شدید تھا کہ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور یوں ذرا سی غفلت سے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر
حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہیں کہ جن کے محیّرالعقول اور ولولہ انگیز جنگی کارنامے دیکھ کر ماہرینِ حرب و ضرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ جن کے برق رفتار طوفانی حملوں اور لگاتار فتوحات نے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ، ملّتِ اسلامیہ کا وہ عظیم جرنیل کہ جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو پامال کر ڈالا۔ روم، ایران کے شاہی محلّات اپنے گھوڑوں کی ٹاپ سے روند ڈالے۔ جن کی تلوار کی زَد سے بڑے بڑے نام وَر سورما گھبرائیں اور کوئی مقابلے پر نہ آئے۔ جن کا نام کفّار کے دِلوں کو دہشت زَدہ کر دے۔ خالد بن ولیدؓ، اللہ کی وہ تلوار کہ جو کفّار، مشرکین، مرتدین، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوئی۔ جن کے نام سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہو جائے، جو سبز آندھی بن کر چھائے اور جنگ کے میدانوں میں لاشوں کے ڈھیر اور سَروں کے مچان بنا دے۔ جن کے ہاتھوں کی طاقت سے برہنہ شمشیریں بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں۔ جنھوں نے ملّتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو آدھی دنیا تک پھیلا دیا۔ خالد بن ولیدؓ،عزم و ہمّت، عمل و بے داری، شجاعت و بہادری، طاقت و جواں مَردی کا عظیم پیکر، جن کا وجود فتح کی علامت، نصرت کا نشان۔ مسلمانوں کی آن، مجاہدین کی شان، اللہ کے نبی ؐ کا پیارا، صدیقِ اکبرؓ کی آنکھوں کا تارا، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم، رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت۔ فتح و نصرت، جس کی قدم بوسی کے لیے دیدہ و دِل فرش راہ کر دے، کام یابیاں جس کی منتظر ہوں، عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماں برداری کا یہ عالم کہ امیرالمومنین، فاروقِ اعظمؓ جب معزول کر دیں، تو لمحہ بھر میں سپہ سالار سے سپاہی بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے۔ خالد بن ولیدؓ، مسلمانوں کے وہ ہیرو کہ آج بھی جن کا نام، لہو کو گرم اور دِلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔
تعارف
مضبوط، چاق چوبند جسم، دراز قد، سُرخ و سفید روشن چہرہ، چوڑا اور کشادہ سینہ، چمکتی عقابی آنکھیں۔ شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی کا جادوگر، جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی چالوں کا ماہر۔ بے خوف، نڈر، بہادر، جَری، پاک دامن، شریف النّفس، عبادت گزار، قسمت کا دھنی، برق رفتار، آتش جواں، شعلہ بیاں، جرنیل، حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار اور قریش کے بااثر رئیس، ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد، ولید بن مغیرہ اور طائف کے ،عروہ بن مسعود ثقفی کا شمار ایسے معزّزین میں ہوتا تھا کہ جن کے بارے میں قریش کہا کرتے تھے’’ اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا، تو اِن پر کیوں نہ کیا۔‘‘ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورہ’’ الزخرف‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔
سلسلہ نسب
آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ خالد بن ولیدؓ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم القریش المخزومی۔ آپؓ کی والدہ کا نام، لبابہ صغریٰ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، اُمّ المومنین، حضرت میمونہؓ کی ہم شیرہ تھیں۔ بارگاہِ رسالتؐ سے آپؓ کو’’ سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔
قبولِ اسلام
حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سُنا کہ’’ اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرتؐ کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا، لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپؐ کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے‘‘ (طبقات ابنِ سعد)۔ حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ غزوۂ خندق کے بعد ایک دن مجھے اپنے بھائی کا خط ملا، جس میں اُنہوں نے لکھا کہ’’ اے میرے پیارے بھائی جان! رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ خالد کہاں ہے؟ مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ، انشاء اللہ وہ بہت جلد آپؐ کے قدموں میں ہوگا۔‘‘ اس خط کے بعد، ایک دن مَیں نے خواب دیکھا کہ مَیں تنگ و تاریک، بھیانک جگہ سے ایک سرسبز و شاداب اور کُھلے میدان کی طرف جا رہا ہوں۔ میری آنکھ کُھلی، تو میری دنیا بدل چُکی تھی۔ مَیں نے عثمان بن طلحہؓ سے مدینہ جانے کا کہا، تو وہ خوشی خوشی میرے ساتھ جانے پر رضا مند ہوگئے اور ہم اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور گئے تھے کہ ہمیں عمرو بن عاصؓ بھی مل گئے، وہ بھی اسی مقصد کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ چناں چہ ہم نے اپنے آپ کو بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیا۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرطِ محبّت سے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مکّہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔‘‘ میرے اسلام قبول کرنے پر آنحضرتؐ نے فرمایا’’خالدؓ! تمہاری عقل و دانش اور فہم و فراست کی بناء پر مجھے قوی اُمید تھی کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مسلمان ہو جائو گے۔‘‘
کاتبِ وحی
دُنیا حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک نام وَر جرنیل و فاتح کے طور پر جانتی ہے اور کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ آنحضرتؐ نے اُنھیں کاتبِ وحی کے منصب پر بھی فائز فرمایا تھا۔ مختلف کُتب میں آپؓ کے کاتبِ وحی ہونے کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔
معرکۂ موتہ
رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سب سے خون ریز معرکہ، 8؍ہجری میں شام کے سرحدی علاقے، (موجودہ اُردن) بلقاء کے قریب’’موتہ‘‘ نامی بستی میں پیش آیا، جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ نبی کریمؐ نے ایک صحابی، حارث بن عمیرؓ کو ایک خط دے کر حاکمِ بصریٰ کے پاس روانہ کیا، لیکن اُنہیں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو غسانی نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اسلام کے سفیر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں 3ہزار جنگ جوؤں کا لشکر روانہ کیا اور تاکید فرمائی کہ’’ زیدؓ شہید ہو جائیں، تو جعفر بن ابی طالبؓ کو سپہ سالار بنالیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنالیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا، تو شاہِ روم، ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صُورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی، خالد بن ولیدؓ کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چناں چہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ’’ جنگِ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگِ موتہ ہی کے روز رسول اللہﷺ نے وحی کی بناء پر فرمایا کہ’’ جھنڈا زید ؓنے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابنِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے( اس دَوران آپؐ کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا(اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘(صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)۔
فتحِ مکّہ اور غزوۂ حنین
20رمضان المبارک 8ہجری کو فتحِ مکّہ کے موقعے پر رسول اللہﷺ نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا۔ اس میں اسلم، سلیم، غفّار، مزینہ، جہینہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل تھے۔ آپؐ نے خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ’’ وہ مکّے میں زیریں حصّے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے، تو اُسے کاٹ کر رکھ دیں اور کوہِ صفا پر ہم سے ملیں۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک آیا، اُسے جہنّم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے، جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے، وہ بھی راستا بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے‘‘ (الرحیق المختوم)۔ فتحِ مکّہ کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت خالدؓ کو 30مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت گرانے کے لیے روانہ کیا۔ 8ہجری کے ماہِ شوال میں نبی کریمؐ نے قبیلہ ہواذن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح ِمکّہ کے وقت آپؐ کے ہم راہ تھے اور دو ہزار مکّے کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپؐ نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔
غزوۂ تبوک
غزوۂ تبوک کے موقعے پر کوئی بھی رومی قبیلہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب نے آنحضرتؐ کے پاس آکر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس موقعے پر آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چار سو بیس سواروں کا لشکر دے کر دومتہ الجندل کے حاکم، اکیدر کو گرفتار کرنے بھیجا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ تم اُسے نیل گائے کا شکار کرتے پائو گے۔‘‘ حضرت خالدؓ جب اُس کے قلعے کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعے کے دروازے پر موجود ہے اور چاندنی رات میں اکیدر اُسے شکار کرنے کے لیے قلعے سے باہر آیا ہے۔ حضرت خالدؓ نے اُسی وقت اُسے گرفتار کر کے حضورﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ آنحضرتؐ نے جزیہ دینے کے اقرار پر اُسے چھوڑ دیا۔
جنگِ یمامہ
ذی الحجہ 11ہجری کو خلیفۂ اوّل، سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے، ربیعہ کے چالیس ہزار جنگ جوئوں کے لشکر کے ساتھ’’ یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل، وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنّم رسید کر دیا۔
حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں
ابھی خالد بن ولیدؓ جنگِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چناں چہ محرّم 11ہجری میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبے کا حاکم، ہرمز نہایت دلیر جنگ جُو سردار تھا، جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی، کیوں کہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوئے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دیے، جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمتِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دو بدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود، ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمینِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔
جنگِ یرموک
حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل،ہامان 2لاکھ، 40ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا، جب کہ مجاہدین کی تعداد 40ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ، تیس ہزار رومی مارے گئے۔
وفات
وہ 21ہجری کی ایک غم ناک رات تھی، جب حمص شہر میں بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح، حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھائو نہ ہوں، مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتقال ہوا، تو اُن کے وَرثے میں ایک گھوڑے اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔
The post حضرت خالد بن ولیدؓ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2QIrnxy via Urdu News
0 notes