#سینگ والا انسان
Explore tagged Tumblr posts
Text
سینگ والا انسان
بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے 74 سالہ شیام یادو کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل ان کا سر کسی چیز سے ٹکرایا تھا جس کے بعد ان کے سر پر سینگ نُما چیز نکلنے لگی۔ شیام یادو نے بتایا کہ سر پر نکلنے والی اس سینگ نما چیز کو پہلے نظر انداز کیا کیونکہ اس میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ نائی سے بال کٹوانے کے دوران شیام یادو نےاس سینگ نما چیز کو نائی سے ہی نکلوا دیا تھا…
View On WordPress
0 notes
Text
انسان بمقابلہ کامن سینس
بھلے چودھویں صدی عیسوی کے پسماندہ یورپ میں پھیلنے والا طاعون ہو جو یورپ کی ایک تہائی آبادی چٹ کر گیا یا پھر بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پھیلنے والا اسپینش فلو جو پہلی عالمی جنگ کے اختتامی مراحل میں شروع تو یورپ کے محاذ پر ہوا لیکن جب جنگ سے لوٹنے والے برطانوی ہند کے دیسی سپاہی اسے اپنے ساتھ وطن لائے تو اگلے دو برس میں یہ فلو دو کروڑ ہندوستانیوں کو چٹ کر گیا۔ اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں اسپینش انفلوئنزا سب سے بڑی وبا تھی۔ اندازہ ہے کہ پوری دنیا میں جنوری انیس سو اٹھارہ سے دسمبر انیس سو بیس کے درمیان پانچ کروڑ لوگ لقمہِ اجل بنے۔ اور اگر ان میں سے دو کروڑ ہندوستانی ہوں اور اس وقت ہندوستان کی آبادی تیس کروڑ ہو اور اس ہندوستان میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس زمانے کا ہر پندرواں ہندوستانی اس وبا کا شکار ہو گیا۔
آج کے کورونا وائرس کے برعکس اسپینش فلو میں سب سے زیادہ اموات جوان نسل میں ہوئیں جب کہ ادھیڑ عمر آبادی پر کم اثر ہوا۔ چنانچہ یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ معیشت اور سماجی ڈھانچے کا کیا حال ہوا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبا کے خاتمے کے ستائیس برس بعد ہندوستان کو برطانیہ سے جو آزادی ملی اس میں اسپینشن فلو کا بھی دخل ہے جس نے برٹش انڈین ایمپائر کی چولیں ہلا دیں۔ پہلی بار ہندوستانی رعایا کو احساس ہوا کہ انگریز ہر مرض کی دوا نہیں۔ دکھ بانٹنے کے بجائے برٹش انڈیا کی سرکار نے الٹا اس وبا کے عروج کے زمانے میں خود مختاری مانگنے والی دیسی سیاسی آوازیں دبانے کے لیے رولٹ ایکٹ نافذ کیا۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا اور ستیہ گرہ اور تحریکِ خلافت کے اتحاد نے انگریز سرکار کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا۔ محکوموں کے دل سے حاکم کی سطوت کا خوف نکل گیا۔ ایک جیتا جاگتا ثبوت بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی مسلح تحریک بھی تھی۔
اونٹ کی کمر پر آخری تنکا انیس سو بیالیس تینتالیس کا قحطِ بنگال ثابت ہوا۔اسپینش فلو تو چلئے قدرتی آفت تھی اور یہ مانا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اس کا توڑ تلاش کیا جا سکے۔ اینٹی بائیوٹک ویکیسین بہت بعد کی پیش رفت ہے۔ البتہ بنگال کا قحط تو خالصتاً نوآبادیاتی سفاکی کا نتیجہ تھا جب چرچل حکومت نے ترجیحی بنیاد پر غلہ برطانوی نوآبادیاتی سپاہ کے لیے جمع کرنے کے احکامات دیے اور مقامی لوگوں کو بھوک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد نوآبادیاتی اقتدار کا لپٹنا یقینی تھا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے تباہ کن اخراجات نے انگریز اقتدار پر حتمی اناللہ پڑھ لیا۔ پھر بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے شروع میں دنیا سوائن فلو ، سار، ایبولا اور ڈینگی سے متعارف ہوئی مگر ان وباؤں سے اولاً تو دنیا کے غریب خطے متاثر ہوئے دوم یہ وائرس خطرناک ہونے کے باوجود عالمی پہنچ نہیں رکھتے تھے۔ لاکھوں لوگ متاثر تو ہوئے مگر الگ الگ خطوں میں الگ الگ اوقات میں۔
البتہ اب جو کورونا نازل ہوا ہے وہ سب کا باپ ہے۔ یہ پہلا وائرس ہے جس نے شرق و غرب شمال جنوب ، غریب امیر ، گورے کالے ، ہندو مسلمان مسیحی ملحد ، دائیں اور بائیں کی تمیز مٹا کر بندے اور بندہ نواز کا فرق مٹا دیا اور یہ سب ایسے وقت ہوا جب طبی سائنس، ڈجیٹلائزیشن، گلوبلائزیشن اور مواصلاتی ترقی و رسائی مثالی عروج پر ہیں۔ کورونا ایک ایسے دور میں انسان کو نہتا کر رہا ہے جس کے بارے میں سینہ ٹھونک کے کہا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس برس میں کرہِ ارض پر جتنی ترقی اور ایجادات و ٹیکنالوجی کا فروغ ہوا وہ گذشتہ سات ہزار برس کے تمام تہذیبی ادوار کی مجموعی ترقی سے بھی زیادہ ہے۔ جس طرح اور وبائیں دم توڑ گئیں کورونا بھی ایک دن ختم ہو جائے گا اور اس کی ویکسین بھی عام ہو جائے گی۔ مگر انسان ، حکومت اور ریاست نے اس کرہِ ارض کو دیکھنے کا نظریہ نہ بدلا تو اگلی وبا اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور قیامت خیز ہو گی۔
ممکن ہے اگلی وبا اس زمین پر انسان کی حکومت ہی ختم کر دے اور چرند پرند و حشرات و درخت آدم جاتی کا ایسا حشر دیکھ کر اپنے کانوں کو پنجے اور پتے لگائیں۔ پر وہ جو کہتے ہیں کہ بے شک انسان بہت ڈھیٹ اور کور چشم ہے۔ یورپ کا بلیک پلیگ اور بیسویں صدی کا اسپینش فلو بھی اسے فطرت اور دیگر ہمسایہ جانداروں سے دوستی اور زمینی وسائل کی قدر نہ سکھا پایا اور دفاع و جارحیت کا نظریہ بدلنے پر ٹس سے مس نہ کر پایا۔ الٹا اسپینش فلو کے خاتمے کے صرف انیس برس بعد انسانوں نے پھر ایک دوسرے سے سینگ پھنسا لیے اوردوسری عالمی جنگ میں تین کروڑ اشرف المخلوق ہلاک ہو گئے۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے ��گلے پچھتر برس کی چھوٹی اور بڑی لڑائیوں میں کم ازکم پانچ کروڑ مزید انسان ہلاک ہو گئے۔
چنانچہ ثابت تو یہی ہو رہا ہے کہ انسان اسپینش فلو اور کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دھرتی ، اس کے اندر اور باہر کی ایک ایک شے ، درخت ، جانور اور موسم سب انسانی خطرناکی کے چشم دید اور ڈسے ہوئے ہیں۔ اگر واقعی کوئی آفاقی عدالت ہے تو انسان پر سنگین ترین فردِ جرم عائد کرنے میں اسے اب کوئی ہچکچ��ہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ذرا کھڑکی سے باہر تو جھانکئے۔ دھرتی کو کتنے برس بعد آرام ملا ہے ، درخت بے خوف لہلہا رہے ہیں ، ہوا کا سانس پہلی بار کاربن ڈائی اکسائیڈ اور دھوئیں سے نہیں گھٹ رہا۔ پرندے جانتے ہیں کہ جتنا اڑ سکتے ہو یا چہچہا سکتے ہو سب کر لو کیونکہ شکاری اس وقت لاک ڈاؤن میں ہے۔ چرندوں اور درندوں کو کئی نسلوں بعد احساس ہو رہا ہے کہ یہاں کے اصل مالک تو دراصل ہم ہیں۔ سڑکیں بھاری ٹریفک سے نجات ملنے کی مسرت میں پاؤں پسارے لیٹی ہیں۔ جنگلوں کو ایک مدت بعد خود سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔
مگر کب تک ؟ ذرا یہ وائرس تھم جائے انسان پھر سے بھول بھال کر اپنی اور زمین کی ایسی تیسی میں لگ جائے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کورونا یہ سبق دے رہا ہے کہ سب سے بڑی دفاعی صنعت طب اور خیر بانٹنے والی سائنسی تعلیم اور سب سے موثر بندوق ویکسین کی سرنج ہے اور سب سے بڑی نعمت انفرادی خول نہیں بلکہ اجتماعیت و بین الاقوامیت ہے تو ایسے شخص کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔ انسانی دماغ ابھی ارتقا کے اس مرحلے تک نہیں پہنچ سکا کہ کامن سنس سے کام لینا سیکھ سکے۔ اس سکھلائی کے لیے کئی نسلیں اور چاہئیں۔ مگر اس کا کیا کریں کہ ،
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی ( احمد نوید )
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
ہاتھ میرے ساتھی کا جائزہ - Rediff.com فلمیں۔
ہاتھ میرے ساتھی کا جائزہ - Rediff.com فلمیں۔
بری تحریر ، ہسٹریکل ایکٹنگ اور سی جی آئی کا ناقص امتزاج اور حقیقی ڈیل کے درمیان ، ہاتھ میرے ساتھ۔ سکانیا ورما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاتھیوں کو بچانے کے پیغام کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
جنگلات کے تحفظ کے مقصد کے لیے ایک خاتون کے طور پر کام کرنے پر جنگل کے افسر کے چیلنجز کی وضاحت کی گئی۔ شیرنی کا۔ حیرت انگیز طور پر مراقبہ کرنے والا لہجہ.
ہاتھ میرے ساتھ۔ اسی طرح کے خدشات کا اشتراک کرتا ہے لیکن اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے خوفناک آواز کو اپناتا ہے۔
پربھو سلیمان کی ہدایت کاری میں ، یہ کثیر زبان کا پروجیکٹ-پہلے تامل اور تیلگو میں بطور ریلیز ہوا۔ کادان۔ اور ارنیا۔ -رانا دگوباٹی ایک سولو صلیبی اور ہاتھیوں کے دوست کے طور پر کام کرتے ہیں ، جو کاروباری ذہن رکھنے والے سیاستدانوں کی طرف سے اپنے قدرتی ماحولیاتی نظام میں تجاوزات کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
بندیو کے طور پر خطاب کیا گیا اور قوم کے صدر کی طرف سے فاریسٹ مین آف انڈیا ایوارڈ سے نوازا گیا ، ڈگگوبتی نے سمترنندن کا کردار ادا کیا گویا کسی عجیب ، وحشی قوت نے مارا۔
اگر گھٹیا کھاکیوں ، بالوں اور داڑھیوں اور گندے چہرے کو کھیلنا اپنے قدامت پسندانہ موقف پر زور دینے کے لیے کافی نہیں ہے تو ، رانا مستقل طور پر اپنے سر کو چیخ رہا ہے اور کسی کو نہیں سن رہا ہے ، جو اس فلم میں تقریبا ہر ایک شخص ہے۔
کسی موقع پر ، ہاتھی بھی انسان کی طرف دشمنی کرتے ہیں۔
کیرالہ کے سرسبز جنگلات میں بنیادی طور پر گولی مار دی گئی ، چھتیس گڑھ کے طور پر گزر گیا ، ہاتھ میرے ساتھ۔ سی جی آئی کے ڈیزائن کردہ مخلوق کے طویل کھینچے گئے شاٹس کے ساتھ کھلتا ہے اور جادوگر عملہ بندیو سے لیس ہوتا ہے جو جنگل میں موجود جانوروں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔
کیا کسی کو فطرت کے ساتھ ظاہر ہونے کے لئے تمام کوکی لینا پڑتی ہے؟
مزید یہ کہ ، ایک بھرپور ، جذباتی پس منظر کی موسیقی مسلسل بڑھتی رہتی ہے تاکہ کہانی سنانے کی شدید کمی ہو۔
ویسے بھی ، یہ معاہدہ ہے کہ بندیو کے دادا نے وہ تمام ایکڑ سال پہلے حکومت کو عطیہ کیے تھے ، امید ہے کہ وہ اسے محفوظ رکھیں گے۔
ایک برے ماحول کے وزیر (اننت مہادیوان) نے خلا میں پوش ٹاؤن شپ بنانے کی اسکیمیں بندیو کو قانونی کارروائی کرنے پر اکسایا۔
موت کی طرح کیا گیا۔ مسالہ فلم ، دستاویزات تباہ بندیو کو ذہنی طور پر غیر مستحکم کیس کے طور پر غلط طور پر فریم کیا گیا ہے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے جبکہ ولن کا دن دھوپ میں ہے۔
ایک لنگڑا کفارہ کے ساتھ ایک سینگ مہوت (پلکٹ سمراٹ) ، ایک کمیونسٹ باغی (زویا حسین) کی طرف اس کی متوجہ کشش ، ایک ہمدرد جرنلو (شریا پیلگاونکر) ، پیشے کے تمام کلچوں کو ریل پر اتارتے ہوئے ، اس ناجائز مرکب میں پھینک دیا گیا گانے اور پھیلاؤ کے مقصد کے لیے۔ ہاتھ میری ساتھی کی۔ تکلیف دہ 161 منٹ
بری تحریر کے درمیان (ایک کردار جذباتی طور پر اعتراف کرتا ہے ‘کچرا مُجھے بہوت پسند ہے (مجھے کچرا بہت پسند ہے)) ، ہسٹریکل ایکٹنگ اور سی جی آئی اور حقیقی ڈیل کا ناقص امتزاج ، ہاتھ میرے ساتھ۔ ہمارے ہاتھیوں کو بچانے کے پیغام کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔
رانا ڈگگوبتی ایک مضبوط شخصیت کے حامل ہیں لیکن فطرت پسند سے محبت کرنے والے کی طرح مڈل ارتھ وزرڈ کا کردار ادا کرنا اس فلم کے لیے کوئی متاثر کن نہیں ہے۔ اس کے تمام دعووں کے لیے۔ میں اپنا جان دیکر بھی تم لوگون کو بچاؤگا (میں آپ سب کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کروں گا)‘، نہ وہ اور نہ ہی۔ ہاتھ میرے ساتھ�� ہاتھی کیا چاہتے ہیں اس کے بارے میں کوئی اشارہ ہے؟
ہاتھی میرے ساتھی ایروز ناؤ پر جاری ہے۔
ریڈف درجہ بندی:
. Source link
0 notes
Photo
ہمیں تربیت کی ضرورت ہے – روخان یوسف زئی کہتے ہیں انسان دو طرح سے سیکھتا ہے دوسروں کے تجربے سے یا پھر خود ٹھوکر کھا کر‘ ہم ماشاء اللہ سے ان ہر دو طریقوں میں سے کسی ایک سے بھی استفادہ حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے وجہ کچھ بھی ہو ہمیں شاید سیکھنا پسند ہی نہیں اور ظاہر ہے عمل کا تقاضہ بھی اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کسی کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس نے کچھ سیکھنا ہے یا سیکھنے کا متمنی ہے۔ کسی سے کچھ سیکھیں گے تو عمل بھی کریںگے ورنہ نصیحت دوہی لوگوں کے لیے بے کار ہوتی ہے اس بے وقوف کے لیے جو اس پر عمل نہیں کرتا اور اس عقل مند کے لیے جسے اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ ہم لوگوں میں سیکھنے کے شوق اور صبر دونوں کی شدید کمی واقع ہوئی ہے، دومختلف مناظر ہیں، کردار ایک ہی ہے، جدل خان… ان دو مناظر کو دیکھیے اور ممکن ہو تو سر دھنیے کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ پہلا منظر (جدل خان رکشے میں بیٹھا ہے) رکشہ ڈرائیور حسب عادت و حسب معمول سڑک کو اپنی وراثتی جائیداد سمجھتے ہوئے بے تکے انداز میں جہاں سینگ سمائے گھس جائو کی مثال بنا رکشے کو اُڑا رہا ہے، اچانک ایک پیدل چلنے والا اس بے لگام رکشے کی زد میں آتا ہے، راہ گیر کے مُنہ سے زوردار گالی نکلتی ہے، رکشے کے بریک چرچراتے ہیں، پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی اسی انداز سے اور اس کے پیچھے ایک تسلسل کے ساتھ گاڑیاں رکتی ہیں، رکشے والا نیچے اترتا ہے، راہ گیر کو گریبان سے پکڑتا ہے جوابی گالی کے بعد تلخ کلامی اور تکرار ہوتی ہے، رکشہ ڈرائیور کی دیکھا دیکھی جدل خان بھی نیچے اترآتا ہے اور فی سبیل اللہ راہ گیر کو دوچار کھری کھری سنا دیتا ہے، ’’دکھائی نہیں دیتا، اندھے ہو، سڑک تمہارے باپ کی ہے، پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ بنے ہیں، سڑک رکشہ اور گاڑیوں کے لیے ہے، جاہل کہیں کے…‘‘ راہ گیر اپنے مقابلے میں دو لوگوں کو دیکھ کر دبک جاتا ہے، چند اور لوگ جمع ہوتے ہیں بیچ بچائو کراتے ہیں اور معاملہ نمٹ جاتا ہے۔ جدل خان رکشہ ڈرائیور کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے رکشے میں بیٹھ جاتا ہے راہ گیر بے چارہ پیدل چلنے والوں کے لیے بنے فٹ پاتھ کی تلاش میںنظر دوڑاتا اپنی راہ لیتاہے لیکن چھابڑیوں، ہتھ ریڑھیوں اور اپنی قانونی حدود سے بے تحاشہ باہر نکلی ہوئی دکانوں کے ہجوم میں غرق فٹ پاتھ نام کی کوئی شے اسے دکھائی نہیں دیتی۔ اس پورے منظر کے دوران سڑک پر ٹریفک رکا رہتاہے، بے صبرے لوگوں کے ہاتھوں ہارن کا گلہ مسلسل دبایا جا ��ا ہے ایک شوروغل برپا رہتا ہے،جدل خان رکشے میں بیٹھ کر بھی رکشہ ڈرائیور سے محو گفتگو ہے، ’’ لوگوں کو چلنا بھی نہیں آتا، سڑک کے بیچوں بیچ ایسے چلتے ہیں جیسے یہ سڑک ان کے لیے ہی بنائی گئی ہے، بھائی فٹ پاتھ پر چلو، سڑک کو رکشہ اور گاڑیوں کے لیے رہنے دو، حد ہوتی ہے اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں ہے۔‘‘ اس منظر کا یہیں پردہ گرتا ہے۔ دوسرا منظر دیکھیے۔ جدل خان رکشوں، گاڑیوں، سوزوکیوں، تانگوں، ہتھ ریڑھیوں اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ہجوم میں پیدل جا رہا ہے، ایک رکشے والا اپنی دُھن میں سوار آفت ناگہانی کی طرح آ کر اسے ٹکر ماردیتا ہے جدل خان لال پیلا ہو کر اسے گالی دیتا ہے، رکشہ رکنے پر رکشہ ڈرائیور کو نیچے اتارتا ہے، گریبان سے پکڑ کر بے نقط سناتا ہے، رکشہ میں بیٹھی سواری بھی نیچے اترتی ہے، عزت احترام سے جدل خان کو مخاطب کرتی ہے۔’’بھائی آپ سڑک کے بیچوں بیچ چل رہے تھے، پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ہوتا ہے‘‘ یہ سن کرجدل خان کا پارہ مزید چڑھ جاتا ہے۔’’فٹ پاتھ… کہاں ہے فٹ پاتھ؟ دکھائی دیتا ہے کہیں، ان چھابڑی، ریڑھی اور تجاوزات کی بھرمار میں کہیں فٹ پاتھ نظر آتا ہے تمہیں… بتائو، نام نہاد فٹ پاتھ پر ان عناصر کا قبضہ ہے، سڑک پر تم جیسے ڈرائیوروں کا قبضہ ہے، پیدل چلنے والا کیا ہوا میں سفر کرے گا؟ کوئی نظام ہی نہیں ہے اس ملک میں حد ہوتی ہے بھائی…‘‘ دوسرا منظر یہاں ختم ہوتا ہے، یہ صرف تخلیقی مناظر یا تخیلاتی سوچ کی کارگزاری نہیں ہے نہ ہی یہ کردار کسی دوسری دنیا کا ہے، یہ جدل خان میں ہوں، یہ جدل خان آپ بھی ہیں یہ جدل خان ہم سب ہیں۔ دیکھنا چاہیں تو جدل خان نام کے اس آئینے میں ہم سب کو اپنی شکلیں دکھائی دیں گی۔ ہمیں سیکھنے کا شوق ہو تو ان دو مناظر میں ہی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایڈم برائون کہتا ہے کہ’’ لوگوں کو وہاں سے دیکھو جہاں وہ کھڑے ہیں وہاں سے نہیں جہاں تم کھڑے ہو‘‘ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمیں تکلیف کا احساس صرف اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں ہم خود مبتلا ہوتے ہیں، اسی تکلیف میں کوئی دوسرا مبتلا ہو تو اس کا احساس کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا اور یہی ہمارے آس پاس ہونے والے چھوٹے موٹے تلخ واقعات کا بڑا سبب ہے۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ میں ہلہ گلہ کرتے ہوئے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کے گھر کوئی مریض، کوئی بیمار، کوئی ضعیف ، کوئی امتحان کی تیاری کرنے یا صبح سکول کالج، دفتر کو جانے والا آرام اور سکون کی نیند کو ترس رہا ہوگا لیکن اپنے گھر کے بستر پر لیٹ کر جب ایسا ہی شور شرابہ سنتے ہیں تو لوگوں کو دل ہی دل میں دس ہزار لعن طعن کرتے ہیں۔ ہمارے مسئلے اسی دن حل ہونا شروع ہو سکتے ہیں جس دن ہم دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا شروع کردیں، بہت ہی آسان سا ایک فارمولا ہے، صرف عمل کرنے کی دیر ہے اگر آپ کواپنی زندگی میں تبدیلی محسوس نہ ہو تو سمجھ لیجیے گا کہ کاغذ پر گھسیٹے گئے ان الفاظ میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ فارمولا یہ ہے کہ جب کبھی کسی مسئلہ میں گرفتار ہوں، پیدل چلتے ہوئے کوئی گاڑی ٹکر ماردے،گاڑی چلاتے ہوئے کوئی سامنے آ جائے یا کوئی بھی ایسا مرحلہ آ��ے جب رگوں میں دوڑتا خون کھولنے لگے تو ایک لمحے … صرف ایک لمحہ کے لیے سامنے والے کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیے آپ کے خون کا کھولائو کم ہو جائے گا یا ایسی ہی کسی صورت حال میں غلطی آپ سے ہوئی ہو تو فورًا سامنے والے کو ’’معاف کرنا دوست‘‘ جیسا جملہ جسے ہم روزمرہ زندگی میں فراموش کرتے جا رہے ہیں، دوہرادیں،آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے گی، ہم نے ’’معاف کرنا، معذرت چاہتے ہیں‘‘ جیسے سشتہ اور خوب صورت الفاظ نہ جانے کیوں بھلا دیے ہیں؟ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اگر ہم سڑک پر پیدل چلنے والوں کو بھی انسان سمجھتے ہوئے ان کا احترام کریں یا پیدل چلتے ہوئے گاڑی چلانے والوں کی مشکلات کا بھی خیال کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ لڑائی جھگڑے یا جدل خان والی قسم کے مناظر دکھائی دینا بند نہ ہوجائیں۔ صبر وتحمل کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں، درگزر سے کام لیں، غلطی کرنے کے بعد معذرت کرنے کا رویہ اپنائیں، اپنے علاوہ دوسروں کی بھی پریشانی اور تکلیف کا خیال کریں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا جھگڑنا ترک کریں، نصیحتیں صرف دوسروں کو کرنے اور خود میاں فصیحت بننے کی بجائے خود بھی ان پر عمل کریں، قواعد و ضوابط چاہے قانون کے ہوں، آئین کے ہوں یا اسلام کے، کسی خاص طبقے کے لیے نہیں تمام انسانوں کے لیے ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہم سب کی اولین اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہم اگر اپنے حقوق کا نعرہ لگانے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی سوچیں تو حالات سُدھر سکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ آپ کی ذات آپ کی ناک تک محدود ہے اس کے بعد دوسروں کی حد اور ذات شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنی ناک کا تو خیال رہتا ہے دوسروں کی ذات اور حد بھول جاتے ہیں اور دراندازی چاہے سرحدوں پر ہو یا ذات پر اس کا نتیجہ تلخی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ تعلیم اور تربیت میں فرق صرف اتنا ہے کہ تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کیا بولنا ہے اور تربیت یہ سکھاتی ہے کہ کب کہاں کیسے اور کتنا بولنا ہے؟، لہٰذا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی اہتمام ناگزیر ہے۔
0 notes
Photo
عمل ِ دوام ۔۔۔ لیو ٹالسٹائی Count Lyov Nikolayevich Tolstoy, usually referred to in English as Leo Tolstoy, was a Russian writer who is regarded as one of the greatest authors of all time. He is best known for the novels War and Peace and Anna Karenina, often cited as pinnacles of realist fiction. عملِ دوام لیو ٹالسٹائی اردو ترجمہ: نادیہ افتخار حسین پرانے وقتوں میں ایک مہربان اور اچھا انسان رہتا تھا۔ اُسے خدا نے دنیا کی ساری نعمتوں سے مالا مال کردیا تھا۔ اس کے بہت سارے غلام تھے جو دل سے اس کی خدمت کیا کرتے تھے۔ غلاموں کو اپنے مالک پر فخر تھا اور اکثر آپس میں بیٹھ کر اپنے مالک کے گھن گایا کرتے تھے۔ "اس سورج کے نیچے ہمارے جیسا مالک کسی اور غلام کو نصیب نہیں ہوا۔ وہ ہمیں کھانے اور پینے کے لئے عمدہ غذا دیتا ہے اور ہم سے ہماری سکت کے مطابق کام لیتا ہے۔ کبھی ہم سے سخت زبان میں بات نہیں کرتا، دوسرے مالکوں کے برعکس جو اپنے غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں، ان کو سخت سزائیں دیتے ہیں جن کے وہ مستحق بھی نہیں ہوتے، ہمارا مالک ہم سے دوستانہ اور نرم سلوک کرتا ہے"۔ غلاموں اور ان کے مالک کے بیچ اس محبت اور بھائی چارے کو دیکھ کر شیطان غصے سے سیخ پا ہو گیا۔ اُس نے ایلب نامی غلام کو اپنی جال میں پھنسا کر اس کو حکم دیا کہ تم دوسرے غلاموں کو مالک کے خلاف بھڑکاؤ۔ ایک دن جب سارے غلام بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے مالک کی اچھائیوں کے گُن گا رہے تھے تو ایلب نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا " یہ سراسر حماقت ہے کہ ہم اپنے مالک کی اچھائیوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ خود شیطان بھی ہم پر مہربان ہوجائے اگر ہم اس کی اتنی خدمت کریں۔ ہم اپنے مالک کی بہت خدمت کرتے ہیں ، اپنے کام سے ان کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کا حکم دینے سے پہلے ہم پورا کر لیتے ہیں۔ ایسے میں وہ ہم پر مہربان ہونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ان کی اچھائی کا تو تب پتہ چلے اگر ہم اس کو خوش کرنے کے بجائے نقصان پہنچائیں۔ پھر ہم دیکھں گے کہ وہ کیسا سلوک کرتا ہے ہمارے ساتھ۔ یقیناً ہمارا مالک بھی دوسرے بد ترین مالکوں کی طرح ہماری غلطی کا جواب سزا سے دے گا۔ " دوسرے غلاموں نے ایلب کی بات سن کر اس کی تردید کر دی۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ ان کا مالک ان کے ساتھ کوئی ظالمانہ سلوک بھی کرسکتا ہے۔ آخر کار اُنہوں نے ایلب کے ساتھ یہ شرط لگائی کہ وہ مالک کو غصہ دلائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو گیا تو اپنی چھٹی والے دن کے لباس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو باقی سارے غلام اس کو اپنی چھٹی والے دن کا لباس دے دیں گے اس کے ساتھ ساتھ وہ مالک کے سامنے ایلب کا دفاع بھی کریں گے اگر سزا کے طور پر اس کو قید کیا گیا یا پھر زنجیروں کے ساتھ باندھا گیا۔ شرط کے مطابق ایلب اگلی صبح مالک کو غصہ دلانے پر راضی ہو گیا۔ ایلب ایک گڈریا تھا اپنے مالک کی قیمتی اور نایاب نسل بھیڑوں کی دیکھ بھال کرنا اس کے ذمہ داری تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا مالک ان بھیڑوں کو کتنا عزیز رکھتا ہے۔ اگلی صبح مالک اپنے چند مہمانوں کو ایلب کی جگہ پر لے آیا تاکہ ان مہمانوں کو اپنی بھیڑوں کا نظارہ کروا سکے۔ ایلب نے اپنے ساتھی غلاموں کو آنکھ مارتے ہوئے اشارے سے بتایا کہ دیکھو اب کیسے میں مالک کو غصہ دلاتا ہوں۔ دوسرے غلام یہ صورت حال دیکھتے ہوئے دروازے اور جنگلے کے اردگرد جمع ہو گئے۔ شیطان بھی قریبی درخت پر چڑھ کر اپنے چیلے کی کارکردگی کا جائزہ لینے لگا۔ مالک اپنے مہمانوں کے ہمراہ بھیڑوں کے دلان کے قریب پہنچ کر انہیں نر اور مادہ مختلف نسل کے بھیڑ دیکھاتے ہوئے کہنے لگا۔ "یہ سب بھیڑ قیمتی اور نایاب ہیں لیکن میرے پاس ایک ایسا بھیڑ بھی ہے جس کی دونوں سنگیں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوبصورتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جس کی کوئی بھی قیمت نہیں لگائی جاسکتی سوائے اس قیمت کے کہ وہ میری آنکھوں کا تارا ہے۔" اجنبی لوگوں کو دیکھ کر بھیڑ دلان کے اندر بھاگ گئے۔مہمان اس خاص بھیڑ کو نہیں دیکھ سکے۔ جیسے ہی بھیڑیں آرام سے کھڑی ہوگئی ایلب نے پھر قصداً انہوں ایسے طریقے سے بھگایا جیسے سب کچھ ��لطی سے ہو گیا ہو۔ سارے بھیڑ ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہو گئے۔ مالک اس سارے جھمیلے سے تھک سا گیا اور ایلب کو آواز دیتے ہوئے کہا: "ایلب میرے اچھے دوست ! تم میرے لئے میرا بہترین بھیڑ پکڑ کر یہاں لے آؤ ، جس کے سینگ مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اُسے آرام سے پکڑنا اور چند لمحوں کے لئے پکڑے رہنا تاکہ مہمان اچھی طرح اسے دیکھ سکے۔" ابھی مالک نے یہ کہا ہی تھا کہ ایلب بھیڑوں کے بیچ شیر کی طرح کود پڑا۔ اُس نے اپنے مالک کے پسندیدہ ریشمی بھیڑ کو نہایت سختی کے ساتھ دبوچ لیا۔ اپنے مالک کی آنکھوں کے سامنے اس نے اپنے ایک ہاتھ سے بھیڑ کے بالوں کو سختی کے ساتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے پچھلے حصے کی دائیں ٹانگ کو پکڑ کر طاقت کے ساتھ اس کو توڑ دیا۔ بھیڑ گھٹنوں کے بل، تکلیف کی وجہ سے ممیانے لگا۔ اس کے بعد ایلب نے بھیڑ کو اگلے حصے کی دائیں ٹانگ سے پکڑ کر ہوا میں معلق کیا۔ مہمان مایوسی ، دکھ اور حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ادھر درخت کی ٹہنی پر بیٹھا شیطان ایلب کو چالاکی کے ساتھ اپنا کام نبھاتے ہوئے دیکھ کر مسرور ہو رہا تھا۔ مالک کے چہرے پر بادلوں جیسی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اُس نے غصے کی شدت سے سر جھکا لیا اور ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ مہمان اور سارے غلام دم بخود کھڑے تھے کہ اب آگے کیا ہوگا۔ چند گھڑی کی خاموشی کے بعد مالک نے اپنے جسم کو یوں حرکت دی جیسے کہ کسی وزنی شے سے خود کو آزاد کر رہا ہو۔ پھر اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا آنکھیں آسمان کی طرف کرتے ہوئے چند لمحے ساکت کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر چند لکیریں نمودار ہوئیں، سر کو جھکا کر نیچے ایلب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : "اے ایلب تمہارے آقا نے تمہیں حکم دیا کہ تم مجھے غصہ دلاؤ لیکن میرا "آقا" تمہارے آقا سے ذیادہ طاقتور ہے۔ میں نے تم پر غصہ نہیں کیا لیکن میں تمہارے آقا کو غصہ ضرور دلاؤ گا۔" تم خوفزدہ ہو کے میں تمہیں سزا دوں گا اور تمہاری خواہش ہے کہ میں تمہیں آزاد کروں، تو جان لو ایلب میں تمہیں سزا نہیں دوں گا۔ یہاں ، اسی وقت ، اپنے مہمانوں کے سامنے ، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔ جاؤ جہاں تم جانا چاہتے ہو اور اپنی چھٹی کے دن والا لباس بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ یہ کہتے ہوئے ایلب کا مہربان مالک اپنے مہمانوں سمیت اپنے گھر واپس چلا گیا لیکن دور درخت کی ٹہنی پر بیٹھا شیطان غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے نیچےگر کر زمین میں دفن ہو گیا۔
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ��ن کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Urdu News
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید ��ے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Urdu News
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلا�� میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via India Pakistan News
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Daily Khabrain
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Today Pakistan
0 notes
Text
کیمپس کے بیابان میں - ہندو۔
کیمپس کے بیابان میں - ہندو۔
پیلے کانوں والی ، آنکھوں والی آنکھوں والی مینا میرے پونے فلیٹ کی کھڑکی سے اتری اور گلمہروں اور بارش کے درختوں میں چڑھ گئی ، بارش کے درختوں کی چھت کی دلکش یادوں کو جنم دیا جس نے میرے گھر سے سڑک کو سایہ دار بنایا جہاں میں کام کرتا تھا۔ 25 سال ممبئی میں فطرت کی دلفریب خوبصورتی آئی آئی ٹی کے تمام کیمپس میں پوائی ہے ، جو جنوبی ممبئی کے دین سے 44 کلومیٹر دور 120 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے زمین کی تزئین کے بعد ہی فطرت نے اپنا مکمل اظہار کیا۔ ایک بزرگ ساتھی کہتا تھا ، “اس کا موازنہ باہر کے بانجھ پن سے کریں۔”
پرندے ، رینگنے والے جانور ، انسان اور دیگر مخلوقات قدیم خوبصورتی کے بیچ میں موجود تھے۔ جھیل کنارے سردیوں میں ہجرت کرنے والے پرندوں کا گھر تھا۔ بچے مگرمچرچھوں نے گرمیوں میں خشک جھیل پر خود کو دھوپ دیا۔ ایک کھوئے ہوئے چیتے کے بچے کو ہوسٹل والوں نے دیکھا جو اندر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سانپ ٹریفک کے بغیر پرسکون سڑکوں پر پھسل گئے۔
محافظ تحفظ کے علاقے میں صدیوں پرانے درختوں کا گھنا جنگل کھڑا تھا۔
اس طرح کے قدرتی ماحول میں ، کوئی ایسی روح نہیں تھی جو چلتی ، دوڑتی یا دوڑتی نہ ہو۔ جس دن سے میں وہاں رہنے کے لیے آخری دن آیا ، مجھے اپنے 45 منٹ چلنے پڑے۔
ایک دن ، جب میں صبح 5.30 بجے گھر سے نکلا ، ایک سینگ والا کالا بیل ، سڑک کے کنارے کھیت میں چر رہا تھا ، مجھے دیکھا اور تیزی سے میری طرف دوڑنے لگا۔ واپسی ناممکن تھی۔ میں ساکت کھڑا تھا ، اسے نہیں دیکھ رہا تھا ، لیکن بدترین کی توقع کر رہا تھا۔ جیسے ہی اچانک یہ شروع ہوا تھا ، یہ رک گیا – مجھ سے چند فٹ۔ ایک منٹ بعد ، یہ دوسری طرف گھومنے لگا۔ گائوں جمع کرنے والی ایک دیہاتی عورت قریب آئی اور مراٹھی میں جوش سے کہا ، “اس نے تمہیں مار ڈالا ہوتا!”
پندرہ سال بعد ، میرا ایک اور خوفناک مقابلہ ہوا۔ یہ مون سون اور بارش تھی۔ یہ گہرا ہو گیا تھا ، لیکن میں بے چین تھا۔ درمیان میں ، یہ بہنا شروع ہوا ، اور میں بھیگ گیا۔ میرے کپڑے مجھ سے چپک گئے لیکن میں سڑک پر اکیلا تھا۔ تو میں نے جاری رکھا۔
شمسی بلبوں نے سڑک کو مدھم کر دیا جب ہوا کے جھونکے درختوں سے باہر نکلتے اور پتے اٹھاتے تھے۔ جیسے ہی میں اسپیڈ بریکر پر قدم رکھنے والا تھا ، ایک لمبا سلیٹ رنگ کا ، وسیع تلوار نما سانپ میرے سامنے ہوا میں چھلانگ لگا کر گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔ “افف!” میں نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ “محفوظ!” میں نے اپنی سیر مکمل کی۔
Source link
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Daily Khabrain
0 notes
Text
سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی
’’ سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجودہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیںتو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔ آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی،بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کرقرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔ وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا ، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑآج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔
آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ” ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں،ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں” کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماںبردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔ یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے” جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے،میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں،اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے” جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”۔اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی،قرآن کریم میں فرمایا گیا:آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ(قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔(طبرانی)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا،اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔(طبرانی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو ۔بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیاگیا ہے۔
The post سنتِ ابراہیمی کی پیروی اور اسلام کا فلسفہ قُربانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OMXECi via Today Urdu News
0 notes