#سیاسی فیصلے
Explore tagged Tumblr posts
Text
کیا ججوں کے سیاسی فیصلے سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے والے ہیں؟
کیا ججوں کے سیاسی فیصلے سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے والے ہیں؟ملک میں جہاں ایک طرف مختلف مقدمات میں عمران خان کی بریت، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کی فراہمی کا حکم، حکومت کی جانب سے عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ قائم کرنے اور تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے اعلان نے سیاسی ہلچل مچا رکھی ہے اور لیگی قیادت نے عمرانڈو ججز کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے وہیں دوسری جانب وزیر دفاع…
0 notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی ��وانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
جیل میں قیدیوں کی ملاقات میں سیاسی گفتگو پر پابندی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج
(24نیوز)جیل میں قیدیوں کی ملاقات میں سیاسی گفتگو پر پابندی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی گئی،چیف کمشنر اسلام آباد نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی،چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کل انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کریں گے۔ چیف کمشنر اسلام آباد کی اپیل میں سنگل بنچ کا…
0 notes
Text
پریس ریلیز
اکتوبر 21
*ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں: عظمیٰ بخاری*
*26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش جبکہ آمریت پسند سیخ پاہیں: عظمیٰ بخاری*
*تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے،کبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش ہیں جبکہ آمریت پسند سیخ پا ہو رہے ہیں۔ تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے توکبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیرسٹر سیف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جیت ہے۔ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ سیاسی یتیموں کا گروہ بن چکی ہے۔ پاکستان کے عوام اڈیالہ جیل کے قیدی اور اسکے چمچے کڑچھوں کا بھیانک روپ دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان کے عوام باشعور ہیں اب اڈیالہ جیل کے مستقل رہائشی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ چیف جسٹس فائز عیسی کا نام عدلیہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کئے۔ انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور انکی ٹیم بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں جس نے بھی رول ادا کیا وہ قابل ستائش ہیں۔پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہی جمہوریت کی مضبوطی ہے۔جن کی قسمت میں رونا دھونا لکھا ہے وہ آئینی ترامیم اور قانون سازی میں رخنے ہی ڈال سکتے ہیں۔ گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے قیدی کے لئے بھی بہت بڑا "سرپرائز ڈے" تھا۔
0 notes
Text
youtube
کراچی: بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کی ہنگامی پریس کانفرنس
آ ئینی ترمیم ، معاملات طے ہو گئے
سیاسی بڑی ہلچل
مولانا ، بلاول ملاقات
اہم ملاقات بڑے فیصلے متوقع
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 11 ؍ اکتوبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 11 October 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ : ۱۱ ؍ اکتوبر ۲۰۲۴ ء
وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ سڈ کو کارپوریشن کے پلاٹوں کوتصرف کے حقوق دینے کا ریاستی کا بینہ کا فیصلہ
٭ جالنہ- ناندیڑ ایکسپریس وے اور لاتور شعبہ آبی وسائل کے مختلف منصوبوں کے کاموں کی منظوری
٭ چھتر پتی سنبھا جی نگر کی جے ایس ڈبلیو کمپنی کو آٹو مبیل صنعت کی پلاٹ ڈیڈ جاری
٭ سر کاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی بزرگ صنعت کار رتن ٹا ٹا کی آخری رسومات
اور
٭ 68؍ ویں دھم چکر پر ورتن دن کےپیش نظرناگپور کی دِکشا بھومی پر خصوصی تقریبات کا جاری
اب خبریں تفصیل سے...
ریاستی کا بینہ نے سڈ کو کار پوریشن کے پلاٹوں کو تصرف کے حقوق دینے کی منظوری دی ہے ۔ اِس فیصلے کے بعد کئی ہائوسنگ سوسائٹیز متعلقہ پلاٹوں کے مالک بن جائیں گی ۔ جس کے بعد اُنھیں ’’ کوئی اعتراض نہیں ‘‘ کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ ساکنان کی آسانی کے لیے حکو مت نے پلاٹوںکی یکمشت فیس وصول کرکے لیز کے بجائے تصرف کےحقوق دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
چھتر پتی سنبھا جی نگر ‘ بیڑ ‘ جالنہ ‘ پر بھنی ‘ دھاراشیو‘ لاتور ‘ ناندیڑ اور ہنگولی سمیت کُل 21؍ اضلاع میں نانا جی دیشمکھ کر شی سنجیو نی منصوبے کا دوسرا مرحلہ متعارف کرنے کا فیصلہ بھی ریاستی کا بینہ نے کیا ہے ۔ اِس کے لیے تقریباً 6؍ ہزارکروڑ روپئے کے اخرجات کا امکان ہے ۔
ہنگولی ضلعے کے بسمت میں باڑا صاحیب ٹھاکرے ہلدی تحقیقی و تربیتی مرکز کے لیے 709؍ کروڑ 27؍ لاکھ روپئے کے اضافی فنڈ کو بھی منظوری دی گئی ہے ۔ اِس مرکز کے لیے منظور کیا گیا اضافی فنڈ بتدریج مہیا کیا جائے گا ۔
ناگپور ممبئی سمرُدھی مہا مارگ کو جوڑے والے جالنہ ناندیڑ ایکسپریس وے کو بھی کل ہوئے ریاستی کا بینی اجلاس میں منظوری دی گئی ۔
اِسی طرح لاتور ضلع سمیت ساونیر ‘ کنکل ولی ‘ راجا پور ’ امبر ناتھ اور جیھ کٹھا پور میں واقع آبی وسائل کے مختلف کاموں کو بھی ریاستی کا بینہ نے منظوری دی ہے ۔
دھا را شیو ضلعے کے تلجا پور اور ایوت محل ضلعے میں وانی کے مقام پر سینئر لیول دیوانی عدالت قائم کرنے اور اُس کے لیے عہدوں کی منظوری دینے کا فیصلہ بھی کل ہوئے ریاستی کا بینی اجلاس میں کیاگیا ۔
اِسی طرح نِمن تیر نا آبپاشی منصوبے کی مُرمت کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ اِس کے لیے 113؍ کروڑ روپئے کے اخراجات پیش آئیں گے ۔ اِس فیصلے سے دھاراشیو ‘ تلجا پور ‘ لو ہا را اور اَوسا تعلقے کے کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر کی آرک سٹی میں 636؍ایکر زمین کی پلاٹ ڈیڈ جے ایس ڈبلیو گرین موبیلیٹی کمپنی کو جاری کی گئی ہے ۔ اِس میں سے تقریباً ساڑھے پانچ سو ایکر رقبے پر الیکٹرک کار تیار کرنے اور تقریباً 90؍ ایکر اراضی پر کمر شیل وہیکل تیار کرنے کا منصوبہ ہے ۔اِس کے لیے مجمو عی طور پر 27؍ ہزار 200؍ کروڑ روپئے کی سر مایہ کاری کی جائے گی ۔ اِس منصوبے کے سبب براہ راست تقریباً 5؍ ہزار اور بالواسطہ 15؍ ہزار روز گار کے مواقع میسر آئیں گے ۔
***** ***** *****
بزرگ صنعت کار رتن ٹا ٹا کی آخری رسومات کل تمام سر کاری اعزاز کے ساتھ ادا کر دی گئیں ۔ انھوں نے ملک کے سماجی ‘ تعلیمی اور معاشی سر گر میوں میں گرانقدر تعاون کیا تھا ۔مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ نے حکو مت کی جانب سے رتن ٹا ٹا کے جسد خاکی پر پھولوں کا ہار پیش کرکے خراج تحسین پیش کیا ۔ رتن ٹاٹا کی آخری رسو مات ور لی میں واقع الیکٹرک شمشان بھو می میں ادا کی گئی ۔ اِس موقعے پر وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ‘ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس اور ٹا ٹا موٹرس کے چیر مین نٹ راجن چندرشیکھرن سمیت صنعت و حرفت ‘ فلمی دنیا اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ جات کے نامور افراد موجود تھے ۔
ممبئی پولس کی جانب سے اِس موقعے پر غمگین دھن بجا کر اور ہوائی فائرنگ کرکے رتن ٹا ٹا و سلامی پیش کی گئی ۔ خیال رہے کہ رتن ٹا ٹا پر سوں رات ممبئی کے بریچ کینڈی ہسپتال میں چل بسے تھے وہ 86؍ برس کے تھے ۔
***** ***** *****
رتن ٹا ٹا کے انتقال پر ریاست میں کل ایک دن کا سوگ منا یا گیا ۔ لہذا ریاستی حکو مت کی جانب سے ناندیڑ میں منعقدہ خواتین کا جلسہ ملتوی کر دیا گیا ۔ ناندیڑ ضلع کلکٹر بھیجیت رائوت نے بتا یا کہ اِس پروگرام کی نئی تاریخ ‘ وقت اور مقام کا جلد اعلان کیا جائے گا ۔
***** ***** *****
جالنہ سے ہمارے نمائندے نے خبر دی ہے کہ گھن سائونگی تعلقے کے کمبھاری پِمپڑ گائوں میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں فوڈ پروسیسنگ یونٹ کے دوسرے مرحلے کا سنگِ بنیاد رکھا جانے والا تھا اور کاشتکاروں کے ایک جلسے کا بھی نظم کیا گیا تھا یہ دونوں کام بھی ایک روزہ سوگ کی وجہ سےملتوی کر دیے گئے ۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے کے کیج تعلقے میں کھر ڈا چو ساڑا لوکھنڈی ساور گائوں راستے کے تعمیر ی کام کا آغاز آج وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں ویڈیو کانفرنسگ کے توسط سے کیاجائے گا ۔
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
گور نر سی پی رادھا کرشنن آج ناندیڑ کے دورے پر آرہے ہیں ۔ وہ آج سہ پہر ساڑھے چار بجے سرکاری آرام گاہ میں مختلف شعبہ جات کی سر کر دہ شخصیات سے ملاقات کریں گے اور شام میں ممبئی کے لیے روانہ ہو جائیں گے ۔
***** ***** *****
68؍ ویں دھم چکر پر ورتن دن کی منا سبت سے ناگپور کی دِکشابھو می پر کل سے خصوصی تقاریب کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ جشن کل تک منا یا جائے گا ۔ گزشتہ روز ڈاکٹر بابا صاحیب امبیڈکر یادگار کمیٹی کے سر براہ آریہ بھدنت سو رئی سسائی کی موجود گی میں کئی اُپاسک اور شامن نیر کو دھم دِکشا دی گئی ۔ دِکشا حاصل کرنے کے لیے ملک بھر سے کئی پروکار دکشا بھومی پہنچ چکے ہیں ۔
دھم چکر پر ورتن دن کی منا سبت سے جنوب وسطی ریلوے نے ناگپور کے راستے ناندیڑ املا ناندیڑ خصوصی ٹرین کا ایک دورہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ خصوصی ٹرین آج رات 11؍ بجے ناندیڑ سے روانہ ہو گی ۔
***** ***** *****
اہلیہ نگر کی ضلع و سیشن جج انجو شینڈے نے کہا ہے کہ جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے اساتذہ ‘ سر پرستوں اور طلباء کو مل کر اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔ احمد نگر ایجو کیشن سوسائٹی کی جانب سے اسکولی طلباء کے تحفظ سے متعلق کل ایک ورک شاپ کا اہتمام کیاگیا تھا ۔ اِس موقعے پر محتر مہ انجو شینڈے اظہار خیال کر رہی تھیں ۔ انھوں نے کہا کہ صرف بات چیت ہی تبادلہ خیال کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ تاثرات اور برتائوں سے بھی اِرادے کا پتہ چلتا ہے ۔
***** ***** *****
بیڑ حلقہ انتخاب میں رہنے والے شہریان کے مختلف دیرینہ مطالبات پورے کرنے کے لیے رکن اسمبلی سندیپ شر ساگر نے کل بیڑ تحصیل دفتر میں ایک خصوصی میٹنگ کا اہتمام کیا تھا ۔ اِس موقعے پر التواء میں پڑے کاموں کا جائزہ لیا گیا ۔ ساتھ ہی جناب سندیپ شر ساگر نے انتظامیہ کو شہر یان کے مختلف مسائل حل کرنے کی ہدایات دیں ۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے میں ـضلع صنعت مرکز اور مہاراشٹر صنعت و حرفت تر قی��ت مرکز کی جانب سے تعلیم یافتہ بے روز گار نو جوانوں کو مُفت تربیت دینے کا پروگرام شروع کیاگیا ہے ۔ خواہشمند نوجوانوں سے ضلع صنعت مرکز سے رابطہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر کے مشہور و معروف تارا پان سینٹر کے مالک حاجی شرف الدین صدیقی عرف شر فو بھائی کل انتقال کر گئے ۔ وہ 77؍ برس کے تھے ۔
وہ گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے ۔ اُن کی نماز جنازہ کل رات 10؍ بجے جامع مسجد عثمان پورہ میں ادا کی گئی اور تد فین درگاہ حضرت شاہ نور حموی ؒ سے متصل قبرستان میں انجام پائی ۔ اُن کی نماز جنازہ اور تدفین میں مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے کار کنا ‘ سماجی خدمت گار اور تاجر کثیر تعداد میں شریک تھے ۔ وہ سماج کے سبھی طبقات میں بے حد مقبول تھے ۔ وہ مرکزی مجلس شوریٰ اور پولس کمشنر یٹ کی امن کمیٹی کے رکن بھی تھے ۔
***** ***** *****
آئندہ اسمبلی چُنائو کے پیش نظرکل پر بھنی کے سویپ روم میں میٹنگ کا اہتمام کیاگیا تھا ۔ اِس موقعے پر رائے دہندگان میں رائے دہی سے متعلق معلومات میں اضا فہ کرنے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کی مختلف تدابیر پر غور و خوص کیاگیا ۔
***** ***** *****
اسپین کے مایہ ناز ٹینس کھلاڑی رافیل ندال نے کمرشیل ٹینس سے سبک دوشی کا اعلان کر دیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے انھوں نے یہ اعلان کیا ۔ اپنے پیغام میں انھوں نے کھیل شائقین سے ملی محبت کا شکریہ ادا کیا ۔
اپنے تاریخ ساز ٹینِس کریئرکے دوران رافیل ندال 22؍ گرانڈ سلیم جیت چکے ہیں ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ سڈ کو کارپوریشن کے پلاٹوں کوتصرف کے حقوق دینے کا ریاستی کا بینہ کا فیصلہ
٭ جالنہ- ناندیڑ ایکسپریس وے اور لاتور شعبہ آبی وسائل کے مختلف منصوبوں کے کاموں کی منظوری
٭ چھتر پتی سنبھا جی نگر کی جے ایس ڈبلیو کمپنی کو آٹو مبیل صنعت کی پلاٹ ڈیڈ جاری
٭ سر کاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی بزرگ صنعت کار رتن ٹا ٹا کی آخری رسومات
اور
٭ 68؍ ویں دھم چکر پر ورتن دن کےپیش نظرناگپور کی دِکشا بھومی پر خصوصی تقریبات کا جاری
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
سپریم کورٹ نے غلطی کی اصلاح کر کے اچھا کیا
آخرکار سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ کر دیا اور اس کیس کے متعلقہ اپنے سابقہ دو فیصلوں کے تمام متنازع پیراگراف حدف کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ اُن سے غلطی ہوئی، اُنہوں نے کہا کہ غلطی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، غلطی ہو تو اصلاح بھی ہونی چاہئے۔ اور یوں اپنے پہلے دو سابقہ فیصلوں کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اس فیصلے نے پاکستان کو ایک ایسے شر اور فتنے سے بچا لیا ہے جس سے مبارک ثانی کیس کے پچھ��ے فیصلوں سے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر وہاں موجود مذہبی رہنمائوں اور علماء کرام کی طرف سے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین واپس چلے گئے اور فیصلے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص چھوٹے سے طبقے کی طرف سے چیف جسٹس کو کوسا جانے لگا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ مذہبی حلقوں کے دبائو پر دیا۔
مبارک ثانی کیس کے اس فیصلہ سے نالاں طبقے کا مسئلہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو قادیانیت کے حوالے سے طے شدہ معاملات کو دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا اور تاثر دینا کہ جیسے مبارک ثانی کیس کے سابقہ دو فیصلوں سے صرف مذہبی حلقوں کو اعتراض تھا قطعی درست نہیں۔ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے پہلے دو متنازع فیصلوں کو نہ صرف تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے متفقہ طور پر رد کیا گیا بلکہ قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں چاہے اُنکا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان فیصلوں کو نہیں مانتے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے اُنہیں ختم کروایا جائے۔ چاہے پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم یا کوئی اور سب اس معاملہ میں قومی اسمبلی میں ایک تھے۔ اگر کسی کو کوئی شک ہو تو قومی اسمبلی میں اس معاملہ پر کی گئی تقریروں کو سن لے، جو فیصلہ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اتفاق رائے سے کیا وہ پڑھ لے۔
پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی تقریر کو ہی سن لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پیپلز پارٹی جیسی سیکولر سیاسی جماعت اور ٹی ایل پی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں۔ جو اس معاملہ کو صرف مذہبی حلقوں سے جوڑتے ہیں وہ وکلاء کی مختلف تنظیموں اور بار کونسلز کے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ دو فیصلوں کے حوالے سے جاری بیانات بھی پڑھ لیں۔ قادیانیت کے حوالے سے اگر ایک طرف علماء کرام کا اتفاق رائے ہمیشہ رہا تو آئین پاکستان میں بھی سیاستدانوں کی طرف سے پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوے اسی اتفاق رائے کا اظہار ماضی میں بھی ہوا اور اب بھی ہوا۔ گویا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے جو پہلے دو فیصلے کیے وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کیلئے تکلیف کا بھی باعث تھے اور ناقابل قبول بھی تھے۔ اگر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور جو غلط فیصلہ ہوا اُسے درست کیا تو اس پر اعتراض نہیں بلکہ اس عمل کی تحسین ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے 6 فروری 2024 اور 24 جولائی 2024 کے سابق فیصلوں میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگراف حذف کر دیے ہیں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان حذف شدہ پیراگرافوں کو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر کسی بھی عدالت میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا، جبکہ ٹرائل کورٹ ان پیراگراف سے متاثر ہوئے بغیر ملزم مبارک ثانی کیخلاف توہین مذہب کے مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
یحییٰ سنوار، حماس سربراہ کون ہیں؟
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار ایک سخت اور پُرعزم جنگجو شخصیت کے مالک ہیں جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
پس منظر اور ابتدائی زندگی یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں پیدا ہوئے۔ انکا تعلق ایک غریب فلسطینی خاندان سے ہے اور بچپن ہی سے انہوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں حصہ لیا۔ حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
حماس میں شمولیت اور قیادت کا سفر یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔ ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔
قید اور رہائی یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔ انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
حماس کی قیادت میں کردار رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا ہے، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔
حماس کے موجودہ حالات اور سنوار کی قیادت اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے اور ان کی تلاش اسرائیل کے لیے ایک اولین ترجیح بن گئی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا ہے۔
شخصیت اور اثرات
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سنوار کی زندگی اور ان کے کارنامے فلسطینی تحریک کی مزاحمت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ایک مضبوط علامت بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت نے حماس کی صفوں میں اتحاد اور مزاحمت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی فلسطینی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وس��ت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
#Chief Justice of Pakistan.#Judges#Lawyers#Pakistan#Pakistan judiciary#Pakistan Politics#Supreme court of Pakistan#World
0 notes
Text
سائفر فیصلہ ۔۔"جیل سے کوئی باہر نہیں آئے گا"۔فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا نے بڑا انکشاف کردیا,سائفر کیس میں عمران خان کی رہائی کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا یہ سب منصوبے کے تحت ہورہا ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں جیل سے کوئی باہر آجائے گا تو نہیں آئے گا باہر، آپ پکڑتے جائیں گے وہ چھوڑتے جائیں گے۔ایک وقت آئے گا سب اپنے کرتوتوں پر ایک ساتھ پکڑے جائیں گے۔ انھوں نے کہا2700 ارب کے مقدمے ہیں لیکن سیاسی (مقدمے )ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک۔ جب تک عدل کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشہور جاپانی اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی تھیم پارک بنائے گا، جس پر اس سیریز کے مداحوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے. اس تھیم پارک کو بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس پارک کے وسط میں 70 میٹر طویل ڈریگن بنایا جائے گا اور اس میں کم از کم 30 جھولے ہوں گے۔ یہ دنیا میں اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک ہو گا. تاہم اس اعلان کو چند حلقوں کی جانب سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے.سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
سعودی عرب اور ڈریگن بال تھیم پارک منصوبے پر تنقید
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی ہے. تھیم پارک کی تعمیم سے تعلق رکھنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی (کیو آئی سی) کے مطابق یہ پارک پانچ لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی اور ڈریگن بال کو بنانے والی جاپانی کمپنی توئی اینیمیشن کی ’طویل مدتی سٹریٹیجک شراکت داری‘ کا حصہ ہیں. اس تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات پیدا ہوئے ہیں جو کہ عوام کی ذہنوں میں خلاف ورزی کا سبب بنسکتے ہیں.
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات کا مرکزی حصہ انسانی حقوق کی صورتحال اور ہم جنس پرستی کے حقوق کو لے کر ہوئے ہیں. سوشل میڈیا پر اس منصوبے کی تنقید اس حقیقت کی وجہ سے بڑھی ہے کہ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی سزا بخش نہیں مانی جاتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی رپورٹس بھی آتی رہتی ہیں. منصوبے تکنیکی جانب سے تو منظم ہو رہا ہے لیکن سیاسی اور اجتماعی جوانمریاں اس کی تعمیر سے منسوب سوالات کا باعث بن رہی ہیں.
انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی تسلیم نہ کرنے والی کارروائیوں کے بعد سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ قائم کرنے پر سوالات اٹھے ہیں. اسپاتالیٹی اور ��قوقی رواسازی کا سیاسی مقصد اس پرکشش پارک کے تعمیر کا حصہ ہونے سے روک رہا ہے. سوشل میڈیا پر موجود غیر مسلم تقاضوں کا متناقص ہونا بھی اسپتالیٹی اور محلوں کی معماری پر سوالات کھڑے کر کے خارج ہو رہا ہے.
یہ تھیم پارک سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ ہے جو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے. یہ تفریحی منصوبہ سعودی عرب کی معیشت کو تیل کے علاوہ دیگر ذرائع پر انحصار کرنے کے منصوبوں کا حصہ بن سکتا ہے. اس کے قلم و کاغذ پر تشریعی، اقتصادی اور تجاری ٹیکنالوجی پر پابندیاں پائی جائیں گی جس سے عوام کی تشریعی اور معیاری صلاحیتوں کو بچایا جائے گا. سعودی عرب میں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی القدیہ انویسٹمنٹ کمپنی کے مطابق یہ تھیم پارک پانچ لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. مستقبل میں یہ پارک سعودی عرب کے دیگر شہروں میں بھی فراہم کیا جاسکتا ہے. سعودی عربی حکومت کیلئے اس پارک کو تشیعقلاسی عوام کی آمدنی کا ایک میدان بنانے کا مقصد بنایا گیا ہے. اس پارک کا استعمال سعودی عرب کی ریاست میں موجود اراضی کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے رکھا جا رہا ہے.
سعودی عربی حکومت میں طویل الامدادی منصوبہ بنانے کی اسلامی عوام کی خواہش اور تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے. سعودی عرب میں سونم مرمت کے حصوں کی معیشت کے دیگر زریعوں پر نشوو کاری کی جاتی ہے. سعودی عرب کا یہ رکھ رھا استعمال پوری دنیا پر عکس انداز ہوو رھا ہے چونکہ تھیم پارک جہاں پریوو ਹو سکتا ہیو بلاکائٹ عوام کو مورروسم کے زیر اورکرنے کے راستے پروتکشش کرتا ہے چونکہ یہ منصوبوہ برآمد کرنے سے پہلے سعودی عرب اور جاپانی سیاحوں کی زیاده آمدنی دھندن کا سامنا کر رہی ہوتی تھی۔ سعودی عرب کے وزیر الاقتصاد کا یہ کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سعودی آرب کی پیسٹیکسوئوز معیشتی پانی کی آمدنی میں ثانوی تجدید کھادیا گئی ہیں.
جہاں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہوا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر دیگر افراد نے سعودی عرب میں اس پرکشش پارک کی تعمیر کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے. ان لوگوں نے اس پروجیکٹ کی بابت وزارت کی جانب سے واضع کردہ معیشتی، راجنیتی اورمسافرتی چیزوں کی پابندیوں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں. سعودی عرب کے میر منصور بن سلمان کے کہنے پر تھیم پارک تعمیر سے کیمیونٹی کا استعمال مسافرتی چیزوں کو تیل سے متروک کرتا ہے. ڈریگن بال کے چند مداحوں نے بڑے خوشی سے سعودی عرب میں منصوبے کو خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی حکومت کو ایسے خیالات کا خیال کرنا پڑتا ہے کہ ڈریگن بال میٹڈ سیریز کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سعودی عرب میں اس منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال کے ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا. یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں. یہ اب تک کی سب سے زیادہ بااثر اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی جاپانی کامکس میں سے ایک ہے.
اس تھیم پارک کی تعمیم سے متعلق یہ اعلان ��ریگن بال کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سامنے آیا ہے. توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا۔ یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں.
#international#urdu news#dragon ball#technology#saudi arabia 2024 saturday#saudi arabia tourist visa
0 notes
Text
قیدیوں سےسیاسی گفتگو پرپابندی کی حکومتی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائیکورٹ نےقیدیوں کی ملاقاتوں میں سیاسی گفتگو پرفوری پابندی لگانے کی حکومتی درخواست مسترد کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل پرنوٹس جاری کردیا۔ ہائیکورٹ نےجیل میں قیدیوں کی ملاقاتوں میں سیاسی گفتگو پرپابندی کالعدم قراردینےکے فیصلے کےخلاف چیف کمشنراسلام آباد کی اپیل پر سماعت کی۔ عدالت نےایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کافیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتےہوئےشیر افضل…
0 notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو ��ار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا اختیار آئین سے متصادم نہیں، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ نے سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے اختیار کو درست قرار دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کے اختیار کے خلاف درخواست کو خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس شاہد بلال حسن نے 18 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 215 آئین سے متصادم نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل 17,9,14…
View On WordPress
0 notes
Text
یہ کیسا الیکشن، کیسی جمہوریت ہے؟
ایسے الیکشن کے مذاق کی کیا ضرورت ہے!! اس تماشے سے جمہوریت کا کیا تعلق!! مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ آئین اور جمہوریت کے نام پر قوم کے کوئی پچاس ارب روپے انتخابات کے نام پرضائع کیے جا رہے ہیں جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ جس طرح ہو رہا ہے اس کا تعلق نہ جمہوریت سے ہے نہ ہی آئین و قانون سے۔ میں 9 مئی کے حملوں کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو جو لوگ ان حملوں میں شریک تھے اُن کو ماسٹر مائنڈ سمیت سزا دی جائے، اُنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہ دی جائے لیکن پوری کی پوری سیاسی جماعت کو ہی الیکشن سے مائنس کرنے کیلئے جو جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہ درست ہے اور نہ ہی اُس کا کوئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز۔ آزاد حیثیت میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اگر انکے ساتھ یہی کرنا تھا تو پھر الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہ دیتے۔ ٹی وی چینلز نواز شریف، مریم نواز، بلاول وغیرہ کی تمام تقریریں لائیو دکھا رہے ہیں لیکن تحریک انصاف والوں کیلئے کارنر میٹنگ بھی ممکن نہیں۔ اگر پوری جماعت کو ہی ریاست مخالف سمجھا جا رہا ہے تو پھر ایسی جماعت پر پابندی کا قانونی راستہ نکالنا چاہیے تھا۔
آئین و قانون کی نظر میں تحریک انصاف ایک قانونی جماعت ہے جسے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی وجہ سے انتخابات میں بحیثیت سیاسی جماعت حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن اُن کے متعلق اب کہا جا رہا ہے کہ اُن میں سے جو الیکشن جیت بھی لیں گے اُن کی اکثریت کو ن لیگ، پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی میں دباؤ یا لالچ کے ذریعے شامل کروایا جائے گا۔ بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب تو اس کام میں ماسٹر ہیں، جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ماضی میں بھی یہ کام کیا اب بھی کریں گے، جبکہ ن لیگ بھی یہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ ایسے آزاد اراکین اسمبلی اُنکےساتھ ہی ملیں گے۔ یعنی الیکشن جعلی، پھر جعلی الیکشن کے نتیجے میں آزاد اراکین کی خریدفروخت اور پھر اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت، یہ ہے ہماری جمہوریت۔
یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب دھاندلی ہے لیکن اسکے باوجود سب الیکشن کا یہ ڈرامہ سجانے پر مصر ہیں۔ ایسی جمہوریت سے پاکستان کو کیا ملے گا، ��یسے الیکشن نے اس ملک کو کیسا سیاسی استحکام دینا ہے۔ جو لوگ چور دروازے سے اور آزاد اراکین کی خرید و فروخت کی آس لگا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اُن سے بہتری کی کیا امید لگائی جا سکتی ہے۔ سیاسی انجینئرنگ اگر کل غلط تھی تو آج کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں جب سب کچھ ہی گڑبڑ ہے انتخابات کی شفافیت اور آزادانہ ہونے کی بات ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ آئین بروقت انتخابات پر زور دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صاف اور شفاف انتخابات کی بھی بات کرتا ہے۔ اگر انتخابات وقت پر نہ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ آئین شکنی ہو گئی، لیکن اگر الیکشن کے نام پر ڈرامہ ہو تو اسے آئین شکنی کیوں نہیں کہا جاتا۔ خانہ پُری یا رسم ادا کرنے کی بات ہے تو پھر ایسے الیکشن ضرور کروا لیں ورنہ حقیقت میں جو ہو رہا ہے وہ آئین اور جموریت کے نام پر دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
سیاسی جماعتوں کی فہرست جاری؛ پارٹی سربراہان کی فہرست سے بانی پی ٹی آئی کا نام خارج
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تازہ ترین لسٹ جاری کردی جس میں پارٹی سربراہان کی فہرست سے بانی پی ٹی آئی کا نام خارج کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے فہرست میں تحریک انصاف کو بغیر قیادت کے ظاہر کیا ہے، جاری لسٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سامنے پارٹی سربراہ کا خانہ خالی ہے اس سے قبل اس خانے میں عمران خان کا نام تھا۔ انٹرا پارٹ انتخابات پر فیصلے کے بعد کمیشن کی جانب سے نئی لسٹ جاری کی گئی۔ پرویز…
View On WordPress
0 notes