Tumgik
#سٹاپ لسٹ
urduchronicle · 8 months
Text
سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم میں ملوث افراد کے نام سٹاپ لسٹ، ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ
سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) میں نادرا کا افسر بھی شامل کر لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدلیہ مخالف مہم چلانے والوں کےنام ای سی ایل اور سٹاپ لسٹ میں ڈالنے  اور شناخت ہو جانے والے اکاونٹس کو پی ٹی اے کے ذریعے بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ عدلیہ مخالف مہم میں ملوث سینکڑوں اکاونٹس کی شناخت کر لی گئی ہے،عدلیہ مخالف مہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
شہزاد اکبر سٹاپ لسٹ سے نام باہر نکلنے کےبعد دبئی چلے گئے
شہزاد اکبر سٹاپ لسٹ سے نام باہر نکلنے کےبعد دبئی چلے گئے
سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سٹاپ لسٹ سے نام باہر نکلنے کےبعد اسلام آباد سے دبئی روانہ ہو گئے ۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے اور دنیا نیوز کے مطابق شہزاد اکبر ایمریٹس ائیر لائن کی پرواز ای کے 615 کے ذریعے دبئی روانہ ہوئے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر شہزاد اکبر و دیگر رہنماؤں کا نام سٹاپ لسٹ سے نکالا گیا تھا۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
برآمد: اپنی کھیپ برآمد کے لیے کیسے تیار کی جائے۔
برآمد: اپنی کھیپ برآمد کے لیے کیسے تیار کی جائے۔
سامان کی تیاری کے لیے مختلف ریگولیٹری پہلوؤں کو جاننا اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ برآمد عمل مختلف دستاویزات جو کہ موجود ہونی چاہئیں ، برآمدی آرڈر اور دیگر متنوع پہلوؤں کے لیے حاصل کی جانے والی کریڈٹ کی ضروریات کو برآمد کرنے والے کے لیے زیادہ ہموار عمل کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
دستاویزات کو صحیح طریقے سے حاصل کرنا۔ کے مطابق خارجہ تجارت کی پالیسی (ایف ٹی پی) 2015-2020 ، سامان برآمد کرنے کے لیے درکار کچھ ضروری دستاویزات میں بل لڈنگ/ایئر وے بل ، لاری رسید یا ریلوے رسید/پوسٹل رسید ، کمرشل انوائس ، پیکنگ لسٹ اور شپنگ بل شامل ہیں۔ شپمنٹ میں کسی تاخیر سے بچنے کے لیے مختلف ممالک میں شامل دستاویزات اور کسٹم کلیئرنس کو سمجھنا ضروری ہے۔ “لوگ بعض اوقات یہ بھول جاتے ہیں کہ قوانین اور ضابطے ہر ملک کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ منزل کے ممالک میں متنوع طریقہ کار کے مطابق رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ، اگر مال میں زیادہ قیمت والی اشیاء ہیں تو ایک ویلیو ایشن سرٹیفکیٹ یا انوائس شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مراعات کا دعوی کرتے ہوئے بعد میں مدد ملے گی ، “مہاویر پرتاپ شرما ، فوری سابقہ ​​چیئرمین کہتے ہیں کارپٹ ایکسپورٹ پروموشن کونسل.
برآمدات کا آرڈر وقت پر پہنچانے کے لیے مناسب اور درست معلومات کے ساتھ کھیپ کو مناسب طریقے سے لیبل لگانا بھی ضروری ہے۔
مالی ضروریات۔ اپنی برآمدی کھیپ کو تیار کرنے کے لیے ایک اہم پہلو مالی ضروریات کا بروقت فیصلہ کرنا ہے۔ پشکر مکیوار ، سی ای او اور شریک بانی ، ڈرپ کیپیٹل۔، برآمد کنندگان کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کا خاکہ پیش کرتا ہے کہ کس قسم کے کریڈٹ کی ضروریات کس قسم کے برآمدی آرڈر کے مطابق ہوں گی۔ “مخصوص ضروریات پر منحصر ہے ، برآمد کنندگان کے لیے مختلف قسم کے فنانسنگ دستیاب ہیں۔ برآمد کی دو ضروری اقسام۔ مالیات ہیں ترسیل کے بعد اور پری شپمنٹ فنانس ، “وہ کہتے ہیں.
پوسٹ شپمنٹ فنانس ، وہ بتاتے ہیں ، ایک خاص کریڈٹ یا قرض ہے جو بینکوں کی طرف سے بیرون ملک خریداروں کو بھیجی جانے والی کھیپ کے خلاف برآمد کنندگان کو دیا جاتا ہے۔ یہ فنانس تین قسم کی برآمدات کے لیے پیش کیا جاتا ہے – فزیکل ایکسپورٹ ، جہاں فنانس اصل برآمد کنندہ کو پیش کیا جاتا ہے جس کا نام تجارتی دستاویزات میں درج ہے۔ ڈیمڈ ایکسپورٹ ، جس میں متعلقہ ایجنسیوں کو سپلائی کرنے والے سامان برآمد کرنے والے کو فنانس منظور کیا جاتا ہے۔ اور کیپٹل گڈز اور پروجیکٹ ایکسپورٹ جہاں بیرون ملک خریدار کے نام پر فنانس بڑھایا جا سکتا ہے ، لیکن پیسہ براہ راست گھریلو ایکسپورٹر کو دیا جاتا ہے۔
پری شپمنٹ فنانس اس وقت فراہم کیا جاتا ہے جب کسی برآمد کنندہ کو شپمنٹ سے پہلے خام مال خریدنے اور ان کو تیار شدہ سامان اور پیکیجنگ سامان میں پروسیس کرنے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔
مکیوار برآمد کنندگان کو خبردار کرتا ہے کہ کاروبار کے لیے درکار فنانس کے تخمینے سے آغاز کریں۔ “انہیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ان کے برآمدی کاروبار کے لیے کس قسم کی ایکسپورٹ فنانسنگ بہترین موزوں ہوگی۔ یہ کاروباری ضروریات کی بنیاد پر قلیل مدتی اور طویل مدتی فنانسنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مزید برآں ، حکومت کی طرف سے سبسڈی ہے جن تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
دوسرے پہلو۔ سامان کی برآمد کے لیے مختلف دستاویزات مرتب کرنے اور کاغذی کارروائی دائر کرنے کے علاوہ ، دیگر متفرق عوامل بھی ہیں جن پر برآمد کنندہ کو سامان برآمد کرنے کے لیے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مکیوار کا کہنا ہے کہ مناسب برآمدی مصنوعات کا انتخاب پہلا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، “برآمد کنندگان کو مختلف عوامل کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ، جیسے بین الاقوامی منڈیوں کی حالت ، ضابطے ، برآمدی رجحانات اور بہت کچھ ، برآمدی مصنوعات کو درست کرتے وقت۔”
اس کے بعد مصنوعات کی طلب ، تجارتی رکاوٹوں ، منافع اور سیاسی ماحول کے استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح برآمدی مارکیٹ کا انتخاب کرنا آتا ہے۔ خریداروں کی تلاش ایک اور اہم قدم ہے۔ مکیوار تجویز کرتا ہے کہ برآمد کنندہ کسی پروڈکٹ کے لیے لیڈز اکٹھا کرنے کے کئی طریقے لاگو کرتا ہے ، بشمول ایک ویب سائٹ بنانا ، خریدار بیچنے والے پلیٹ فارمز پر رجسٹر کرنا ، تجارتی میلوں اور نمائشوں میں حصہ لینا ، نیز سرکاری اداروں جیسے ایکسپورٹ پروموشن کونسلوں کا فائدہ اٹھانا۔
یہ اقدامات کرنے کے بعد ، نیا برآمدی کاروبار اگلے مرحلے پر جانے کے لیے تیار ہے ، جس میں شپنگ پارٹنر اور فریٹ فارورڈر/کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹ کو حتمی شکل دینا ، مارکیٹ کے مواقع تلاش کرنا اور بیرون ملک منڈیوں میں کمپنی کو فروغ دینا شامل ہے۔
بین الاقوامی کاروبار اگر ایک برآمد کنندہ ان اقدامات کے ساتھ مکمل نہیں ہے تو یہ بوجھل ہوسکتا ہے۔ ہر مرحلے میں منٹ کی تفصیلات کا نوٹ لینا غلطیوں کو کم کر سکتا ہے اور برآمد کے عمل کو آسان بنا سکتا ہے۔
(کے لیے ایک سٹاپ منزل۔ MSME، ET RISE چاروں طرف خبریں ، آراء اور تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ جی ایس ٹی، برآمدات ، فنڈنگ ​​، پالیسی اور چھوٹے کاروباری انتظام۔)
ڈاؤن لوڈ کریں اکنامک ٹائمز نیوز ایپ۔ روزانہ مارکیٹ اپ ڈیٹس اور لائیو بزنس نیوز حاصل کرنے کے لیے۔
. Source link
0 notes
pullen-kharan-news · 5 years
Text
Tumblr media
(پھلین خاران نیوز)
Steven Butler, the Asia program director for the Committee to Protect Journalists, was forced to leave Pakistan.
سٹیون بٹلر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے لاہور میں 19 اور 20 اکتوبر کو ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کے لیے 17 اکتوبر کی شب لاہور پہنچے تھے۔
واشنگٹن واپسی پر انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ “میرے ویزے پر ایئرپورٹ عملے کے ایک افسر نے انٹری کی مہر جیسے ہی لگائی تو فوراً ہی اس نے اپنے بڑے افسر کو بلایا جس کے بعد مجھے ایک دفتر لے جایا گیا۔ وہاں موجود اہلکار نے چند فون کالز ملانے کے بعد مجھے کہا کہ میرا نام کسی سٹاپ لسٹ پر ہے اس لیے مجھے پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں۔”
انہوں نے کہا کہ “میں نے پاکستانی اہلکار سے پوچھا کہ میرے پاس ویزا ہے تو آخر مسئلہ کیا ہے۔ مگر وہ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا یہ لسٹ وزارتِ داخلہ بناتی ہے۔ یہ حکم وہاں سے آیا ہے اس لیے اسے س فیصلے کی وجہ معلوم نہیں۔”
کانفرنس میں جانے سے روکنے کی کوشش سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ “میں یہ تو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان میں حکومت کا اندرونی نظام کیسے چلتا ہے، مگر یہ درست ہے کہ پاکستان کے بارے میں گزشتہ برسوں میں مَیں نے تنقید پر مبنی تحریریں لکھی ہیں۔ مگر ہم نے حکومت سے گفتگو کرنے کی بھی کوشش کی۔ ہم متوازن رپورٹ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
نواز شریف فیملی کے کن دو افراد کو حج پر جانے سے روک دیا گیا؟
لاہور(جی سی این رپورٹ) ایف آئی اے امیگریشن نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بھتیجوں یوسف عباس اور عبدالعزیز کو مد ینہ منورہ جانے سے روک دیا۔دونوں بھائی حج کی ادائیگی کے لیے جانا چاہتے تھےان دونوں بھائیوں کے خلاف چودھری شوگر ملز کیس میں نیب کی تحقیقات جاری ہیں دونوں بھائی نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش بھی ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یوسف عباس اور عبدالعزیز جب پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 747 کے ذریعے مدینہ منورہ جانے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچے تو امیگریشن حکام نے انہیں روک لیا اور انہیں بتایا گیا کہ وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے جس کے بعد وہ اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ عبدالعزیز اور یوسف عباس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ایف آئی اے نے عباس شریف کے دونوں بیٹوں یوسف عباس اور عبدالعزیز کا نام سٹاپ لسٹ میں ہونے کے باعث انہیں مد ینہ منورہ جانے سے روکا ہے ۔ Read the full article
0 notes
khouj-blog1 · 6 years
Text
احکامات کھوہ کھاتے‘ مسقط جانیوالا مسافر گرفتار
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/102668/
احکامات کھوہ کھاتے‘ مسقط جانیوالا مسافر گرفتار
احکامات کھوہ کھاتے، ایف آئی اے نے نام بلیک لسٹ میں ہونے پر مسقط جانے والے مسافر کو گرفتار کر لیا۔ حکومت نے ملبہ پیپلز پارٹی ڈال دیا۔ 
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے نے بلیک لسٹ میں نام ہونے پر مسقط جانے والے مردان کے رہائشی ذیشان کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے انسداد انسانی سمگلنگ سیل منتقل کر دیا۔ خیال رہے کہ سینیٹ کمیٹی نے بلیک لسٹ غیر قانونی قرار دیکر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ سینیٹ اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سٹاپ لسٹ اور بلیک لسٹ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی جبکہ پارلیمنٹرینز کے نام ای سی ایل میں ڈالنا ان کی توہین ہے۔ یک وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلیک لسٹ کے علاوہ بھی ایک لسٹ موجود ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بلیک لسٹ آئین کے آرٹیکل 8 اور 15 کی خلاف ہے۔ لسٹ اس وقت کہاں تھی؟ جب آرٹیکل چھ کا ملزم ملک سے باہر جا رہا تھا۔ پی این آئی ایل لسٹ کہاں سے آئی؟ اداروں کے پاس جواب نہیں ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی بلیک لسٹ کو آزادی نقل وحمل کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ یہ اقدامات پاسپورٹ ایکٹ 1974ء کے تحت کیے جا رہے ہیں، ملک میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیر داخلہ کل ایوان میں اس پر جواب دیں گے۔
0 notes
pakistan24 · 6 years
Photo
Tumblr media
اظہر سید تحریک انصاف کے سربراہ نے کراچی جلسہ میں الزام عائد کیا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہے اور انہیں ہرانا چاہتی ہے جبکہ ہمارے پاس بے شمار دلائل ہیں کہ حقیقت میں عمران خان کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور معاونت حاصل ہے جو عمران خان کے حریف میاں نواز شریف کی راہ میں دیدہ اور نا دیدہ رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ۔ پاکستان میں امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے ساتھ ساتھ یہودی اور ہندو لابی کو پاکستان مخالف سمجھا جاتا ہے جبکہ عوامی جمہوریہ چین ،ترکی اور سعودی عرب پاکستان کے دوست سمجھے جاتے ہیں ۔عمران خان کے الزام کو سچ تسلیم کیا جائے تو امریکی ،بھارتی اور ہندو لابی کو عمران خان کے خلاف ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے ۔پاکستان کے جنرل الیکشن میں یہ اسٹیبلشمنٹ صاف اور واضح انداز میں میاں نواز شریف کے خلاف نظر آتی ہے ۔عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اہداف کا تجزیہ کریں تو صاف طور پر پاکستان کی مسلح افواج ،ایٹمی پروگرام ،مسلہ کشمیر اور سی پیک ان پاکستان مخالف قوتوں کا ہدف ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کیوں میاں نواز شریف کے خلاف ہے اس کی وجوہات بھی موجود ہیں اور پاکستان مخالف قوتیں عمران خان کی کیوں حمایت کر رہی ہیں اس کی وجوہات اور دلائل بھی موجود ہیں ۔ پہلے میاں نواز شریف اور ان کے گناہوں کا زکر کرتے ہیں ۔پاکستان کی طرف سے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جواب دینا میاں نواز شریف کا پہلا جرم تھا اور بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی کوشش ان کا دوسرا جرم ۔امریکی ،یہودی اور ہندو لابی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پاکستانی وزیر اعظم کے فیصلے کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں تھی جبکہ کارپوریٹ مفادات کی وجہ سے مسلہ کشمیر پر پیش رفت ملکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول نہیں تھا اور میاں نواز شریف نے ان دونوں گناہوں کی سزا بھگتی۔ میاں نواز شریف کا دوسرا اور پہلے سے بڑا جرم سی پیک منصوبے پر جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز تھا ۔عمران خان کی طرف سے چار سیٹوں پر دھاندلی کے الزامات پر اچانک دھرنوں کا آغاز اصل میں سی پیک پر دستخط کیلئے چینی صدر کی آمد کو روکنا تھا اور عالمی اسٹیبلشمنٹ اس میں کامیاب ہوئی لیکن چینی اب خود ایک سپر پاور بن چکے ہیں اور سی پیک میں ان کے مستقبل کے معاشی خوابوں کی تعبیر ہے ،دھرنوں کے فوری بعد چینی صدر پاکستان آئے سی پیک پر دستخط ہوئے اور جنگی بنیادوں پر کام بھی شروع ہو گیا ۔سی پیک پر بھاری چینی سرمایہ کاری سے پاکستان تین دہائیوں کے بعد پہلی دفعہ بجلی کی طلب اور رسد کے عدم توازن سے نکل آیا بلکہ حصص بازار بھی ایشیا کا بہترین بازار بن گیا ،معیشت کی شرح نمو پانچ فیصد سے بڑ ھ گئی اور عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معاشی اوٹ لک میں اضافہ کر دیا ۔ میاں نواز شریف کی سربراہی میں پاکستان کی معاشی ترقی پاکستان کو ترکی کی طرح مستحکم کر سکتی تھی اور ترکی کی طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ریاستی معاملات پر گرفت کمزور ہونے کا بھی خطرہ تھا میاں نواز شریف مقامی اسٹیبلشمبٹ کا نشانہ بن گئے ۔ عالمی اسٹیبلشمبٹ اور اس کے حواری ممالک کو سی پیک سے خطرات لاحق تھے ۔خلیجی ریاستوں کیلئے گوادر بندرگاہ ایک خوفناک خواب ہے ،پناما کیس میں خلیجی ریاستوں کی طرف سے جس طرح پاکستان میں نواز شریف مخالف قوتوں کو اقامے اور پاکستانی جے آئی ٹی کو شواہد فراہم کئے گئے وہ گوادر بندرگاہ کے متعلق انکی جلن کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور تازہ ترین وطن واپسی پر ایک خلیجی ریاست میں سٹاپ اوور کے دوران میاں نواز شریف کی ائر پورٹ پر عملی نظر بندی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف لندن فلیٹ کی منی ٹرئل سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جیسے درست تسلیم کیا گیا اور عدالت کی طرف سے عمران خان صادق امین قرار پائے یہ منی ٹریل 20 سال قبل بند ہو جانے والے سٹی بینک کے ٹرانزکشن ریکارڈ پر مشتمل تھی جو جمائیا سابقہ اہلیہ کی طرف سے فراہم کیا گیا ۔سٹی بینک یہودیوں کا بینک تھا جس میں لندن کے سرکردہ گولڈ سمتھ خاندان کے 21 فیصد حصص تھے اس طرح یہودی لابی کی مدد سے عمران خان صاف بچ نکلے۔ یورپین یونین اور امریکہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو بلوچستان میں اور دیگر علاقوں میں پاک فوج کو ہدف بنانے کیلئے تیار رہتی ہیں پاکستان میں میاں نواز شریف کے خلاف ریاستی اداروں کی مہم جوئی پر حیرت انگیز طور پر خاموش ہیں ۔مسلم لیگ ن کے اراکین کو توڑ کر عمران خان کی جماعت میں شامل کرانے پر کسی یورپین ابزرور نے تاحال کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا ۔انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے اراکین کو فورتھ شیڈول سے نکالنے اور عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے پر کسی امریکی اور مغربی ملک کی تنظیم کی کوئی رگ نہیں پھڑکی کیوں ؟ مسلم لیگ ن کے ووٹ کٹ رہے ہیں اور عمران خان کو فائدہ پہنچ رہا ہے ،اس کا مطلب ہے عالمی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کی نہیں بلکہ عمران خان کی مدد کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف کو ابھی تک اگر کسی سے مدد ملی ہے تو وہ عوامی جمہوریہ چین اور اور ترکی ہیں ۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے تین روز قبل میاں شہباز شریف کو نیک خواہشات کا پیغام بھیجا ہے اور انتخابات میں کامیابی کی دعا دی ہے ۔چین کے سرکاری اخبار نے اپنے کل کے اداریے میں پاکستان کے حالات اور جاری معاملات پر تشویش ظاہر کی ہے ۔چینی براہ راست بات نہیں کرتے اشارے دیتے ہیں پہلے انہوں نے برکس کانفرنس میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے کر اپنی ناخوشی ظاہر کی پھر عالمی ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں لانے کی اجازت دے دی اور اب سرکاری اخبار کے ادارئے کے زریعے اشارہ دیا ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی تمام تر انتخابی مہم کے دوران ایک مرتبہ بھی سی پیک کی تکمیل کی بات نہیں کی بلکہ کہتے ہیں بڑے منصوبے کرپشن اور بدعنوانی کیلئے شروع کئے جاتے ہیں ۔قبل ازیں دھرنوں کے دوران وہ سی پیک کی سرمایہ کاری کو مہنگے قرضے کہہ چکے ہیں اور ان کے سیاسی حلیف شیخ رشید کھلے عام کہہ چکے ہیں "سی پیک کو دفاعی راہدری نہیں بننے دیں گے ' پاکستان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے محب وطن قوتیں اس کو بے نقاب کریں گی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے مہرے جس طرح پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کیلئے استمال کر رہی ہے یہ مہرے پٹ جائیں گے ۔سی پیک بھی مکمل ہو گا اور پاکستان دوبارہ ترقی کی راہ پر بھی چل پڑے گا ۔پاکستان کے دوست کس کی مدد کر رہے ہیں اور دشمن کس کی یہ راز بھی کھل رہا ہے ۔
0 notes
newestbalance · 7 years
Text
’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی ��سٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر ب��رگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔ ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی تو ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔ فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔ بابا جی کی داستان سناتے سناتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بابا جی کے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ گاؤں ایک ٹیلے پر تھا۔ گاؤں کی تنگ، ٹیڑھی میڑھی ناہموار گلیوں سے ہوتے ہوئے آخرکار ہم ایک بوسیدہ مکان کے پاس جا کر رک گئے۔ کچا مکان کچی مٹی کی دیواریں جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں، کا پرانا اور شکستہ دروازہ کھول کر ہم ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہو گئے۔ صحن میں کیکر کے درخت کے تلے دو چارپائیاں اور چند موڑھے پڑے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی گرم چادر تانے سو رہے تھے اور دو دیہاتی آدمی آرام سے حقّہ پی رہے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا تو دونوں نے روایتی دیہاتی وضع داری کا اظہار کیا اور اٹھ کر گلے ملے اور ہم خالی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میرے دوست کی دونوں دیہاتیوں سے آشنائی نظر آ رہی تھی۔ جس طرح تپاک سے دونوں ملے اور حال احوال پوچھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ پہلے بھی آپس میں مل چکے ہیں۔ دونوں دیہاتیوں میں سے ایک یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ میں چائے لے کر آتا ہوں اور دوسرے دیہاتی نے بابا جی کو اطلاع یا اٹھانے کی کوشش کی ۔ میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔ بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔ بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘ میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘ یہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘ نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔ بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘ نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔ بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان ��ے نکل چکا تھا۔ نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
The post ’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2niImJr via Urdu News
0 notes
aj-thecalraisen · 7 years
Text
’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی لسٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر بزرگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔ ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی تو ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔ فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔ بابا جی کی داستان سناتے سناتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بابا جی کے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ گاؤں ایک ٹیلے پر تھا۔ گاؤں کی تنگ، ٹیڑھی میڑھی ناہموار گلیوں سے ہوتے ہوئے آخرکار ہم ایک بوسیدہ مکان کے پاس جا کر رک گئے۔ کچا مکان کچی مٹی کی دیواریں جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں، کا پرانا اور شکستہ دروازہ کھول کر ہم ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہو گئے۔ صحن میں کیکر کے درخت کے تلے دو چارپائیاں اور چند موڑھے پڑے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی گرم چادر تانے سو رہے تھے اور دو دیہاتی آدمی آرام سے حقّہ پی رہے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا تو دونوں نے روایتی دیہاتی وضع داری کا اظہار کیا اور اٹھ کر گلے ملے اور ہم خالی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میرے دوست کی دونوں دیہاتیوں سے آشنائی نظر آ رہی تھی۔ جس طرح تپاک سے دونوں ملے اور حال احوال پوچھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ پہلے بھی آپس میں مل چکے ہیں۔ دونوں دیہاتیوں میں سے ایک یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ میں چائے لے کر آتا ہوں اور دوسرے دیہاتی نے بابا جی کو اطلاع یا اٹھانے کی کوشش کی ۔ میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔ بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔ بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘ میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘ یہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘ نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔ بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘ نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔ بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
The post ’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2niImJr via Urdu News
0 notes
cleopatrarps · 7 years
Text
’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی لسٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر بزرگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔ ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی تو ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔ فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔ بابا جی کی داستان سناتے سناتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بابا جی کے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ گاؤں ایک ٹیلے پر تھا۔ گاؤں کی تنگ، ٹیڑھی میڑھی ناہموار گلیوں سے ہوتے ہوئے آخرکار ہم ایک بوسیدہ مکان کے پاس جا کر رک گئے۔ کچا مکان کچی مٹی کی دیواریں جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں، کا پرانا اور شکستہ دروازہ کھول کر ہم ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہو گئے۔ صحن میں کیکر کے درخت کے تلے دو چارپائیاں اور چند موڑھے پڑے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی گرم چادر تانے سو رہے تھے اور دو دیہاتی آدمی آرام سے حقّہ پی رہے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا تو دونوں نے روایتی دیہاتی وضع داری کا اظہار کیا اور اٹھ کر گلے ملے اور ہم خالی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میرے دوست کی دونوں دیہاتیوں سے آشنائی نظر آ رہی تھی۔ جس طرح تپاک سے دونوں ملے اور حال احوال پوچھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ پہلے بھی آپس میں مل چکے ہیں۔ دونوں دیہاتیوں میں سے ایک یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ میں چائے لے کر آتا ہوں اور دوسرے دیہاتی نے بابا جی کو اطلاع یا اٹھانے کی کوشش کی ۔ میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔ بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔ بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘ میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘ یہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘ نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔ بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘ نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔ بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
The post ’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2niImJr via Today Urdu News
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
نیب کو مطلوب ملزم کراچی ایئرپورٹ سے بیرون ملک فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار
ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ائیرپورٹ کارروائی کے دوران نیب لاہورکو مطلوب ملزم کی ملک سے فرارہونے کی کوشش ناکام بنادی،اسٹاپ لسٹ میں نام شامل تھا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق جناح ٹرمینل ائیرپورٹ تعینات عملے نے بیرون ملک فرارہونے والے ملزم کی ملک سے فرارہونے کی کوشش ناکام بنادی۔ ملزم نیب لاہورکو مطلوب تھا اورفلائٹ نمبرکیوآر611کے ذریعے سعودی عرب فرارہونے کی کوشش کی۔ ترجمان کے مطابق ملزم خبیب قاسم کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
party-hard-or-die · 7 years
Text
’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی لسٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر بزرگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔ ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی تو ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔ فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔ بابا جی کی داستان سناتے سناتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بابا جی کے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ گاؤں ایک ٹیلے پر تھا۔ گاؤں کی تنگ، ٹیڑھی میڑھی ناہموار گلیوں سے ہوتے ہوئے آخرکار ہم ایک بوسیدہ مکان کے پاس جا کر رک گئے۔ کچا مکان کچی مٹی کی دیواریں جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں، کا پرانا اور شکستہ دروازہ کھول کر ہم ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہو گئے۔ صحن میں کیکر کے درخت کے تلے دو چارپائیاں اور چند موڑھے پڑے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی گرم چادر تانے سو رہے تھے اور دو دیہاتی آدمی آرام سے حقّہ پی رہے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا تو دونوں نے روایتی دیہاتی وضع داری کا اظہار کیا اور اٹھ کر گلے ملے اور ہم خالی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میرے دوست کی دونوں دیہاتیوں سے آشنائی نظر آ رہی تھی۔ جس طرح تپاک سے دونوں ملے اور حال احوال پوچھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ پہلے بھی آپس میں مل چکے ہیں۔ دونوں دیہاتیوں میں سے ایک یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ میں چائے لے کر آتا ہوں اور دوسرے دیہاتی نے بابا جی کو اطلاع یا اٹھانے کی کوشش کی ۔ میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔ بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔ بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘ میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘ یہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘ نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔ بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘ نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔ بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
The post ’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2niImJr via Daily Khabrain
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
ہنڈائی آئی 20 این لائن بکنگ کھلی۔
ہنڈائی آئی 20 این لائن بکنگ کھلی۔
ہنڈائی نے ابھی تک i20 N لائن کی قیمتوں کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اس نے روپے کی ٹوکن رقم کے لیے پہلے سے بکنگ قبول کرنا شروع کر دی ہے۔ 25،000 ، اور یہ صرف ہنڈائی کے دستخطی آؤٹ لیٹس کے ذریعے فروخت کیا جائے گا۔
فوٹو دیکھیں۔
ہنڈائی آئی 20 این لائن تین اقسام میں پیش کی جائے گی – این 6 آئی ایم ٹی ، این 8 آئی ایم ٹی ، اور این 8 ڈی سی ٹی۔
انتہائی متوقع۔ ہنڈائی آئی 20 این لائن کو بالآخر منظر عام پر لایا گیا ہے اور یہ بنیادی طور پر i20 پریمیم ہیچ بیک کا اسپورٹیئر اوتار ہے۔ یہ انٹری پوائنٹ کو نشان زد کرتا ہے۔ ہنڈائیبھارت میں این لائن ڈویژن اور صرف 1.0-لیٹر جی ڈی آئی ٹربو آئی ایم ٹی اور ڈی سی ٹی تکرار کی حد پر پیش کی جا رہی ہے۔ اب ہنڈائی نے ابھی تک i20 N لائن کی قیمتوں کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اس نے ،000 25،000 کی ٹوکن رقم کے لیے پہلے سے بکنگ قبول کرنا شروع کر دی ہے ، اور اسے صرف ہنڈائی کے آؤٹ لیٹس کے ذریعے فروخت کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ہنڈائی آئی 20 این لائن کی بھارت میں رونمائی
ہنڈائی آئی 20 این لائن اندر سے بھی اسپورٹی لگ رہی ہے۔
این لائن پر اپ ڈیٹس کاسمیٹک ترمیم تک محدود ہیں جو اسے ایک عمدہ اور اسپورٹی ڈیمینر دیتی ہیں ، جبکہ اسے بہتر فیڈ بیک اور 30 ​​فیصد سخت معطلی سیٹ اپ کی پیشکش کے لیے دوبارہ سٹیئرنگ جیومیٹری بھی ملتی ہے۔ فرنٹ اینڈ میں ایک نیا کیسکیڈنگ گرل ہے جس میں دھندلا سیاہ عناصر اور این لائن لوگو ہے۔ اس کے بعد جمالیات کو ایک نئے ، زیادہ پٹھوں والے سامنے والے بمپر کے ذریعے واضح کیا گیا ہے جس میں تیز لکیریں اور کنارے اسپورٹی شکل کے ساتھ جا رہے ہیں۔ اور اسپورٹی مصر کے پہیے اور چیکنا سائیڈ سکرٹ ہیں اور ساتھ ہی سامنے والے بمپر پر ڈفیوزر کی تکمیل کرتے ہیں۔ جہت کے لحاظ سے ، i20 N لائن باقاعدہ i20 کی طرح رہے گی۔ مجموعی لمبائی 3،995 ملی میٹر ، چوڑائی 1،775 ملی میٹر اور اونچائی 1،505 ملی میٹر ہے۔ کار کا وہیل بیس 2،580 ملی میٹر پر بغیر کسی تبدیلی کے کھڑا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کومپیکٹ ایس یو وی وار: نیو بی وی ڈبلیو ٹائیگن بمقابلہ مارکیٹ لیڈر ہنڈائی کریٹا۔
ہنڈائی آئی 20 این لائن 6 باڈی کلر آپشنز میں آئے گی جن میں 2 ڈبل ٹون پینٹ سکیمیں شامل ہیں۔
اب اسی طرح ، اندر کی تازہ کاریاں اسپورٹی بیرونی کاروں سے ملتی ہیں۔ آپ کو ایک سیاہ کیبن ملتا ہے جس میں نشستوں پر سیاہ تختی ہوتی ہے اور آپ تمام نرم سطحوں پر سرخ دوہری سلائی بھی دیکھ سکتے ہیں۔ نیا فلیٹ نیچے والا اسٹیئرنگ وہیل بھی چمڑے سے لپٹا ہوا ہے اور اس میں ایک ہی سرخ سلائی ہے اور آخر میں آپ کے پاس نشستوں پر نمایاں N لائن بیجنگ ، N سے متاثر گیئر نوب اور ایلومینیم پیڈل ہیں۔ فیچر لسٹ معیاری i20 ٹربو کی رینج ٹاپنگ آسٹا ٹرم جیسی ہے جس میں مخلوق کی راحت ہے جیسے 10.25 انچ ٹچ اسکرین انفوٹینمنٹ سسٹم جو ایپل کار پلے اور اینڈرائیڈ آٹو کو سپورٹ کرتا ہے دوسروں کے درمیان کنٹرول ، کروز کنٹرول اور ایمبیئنٹ لائٹنگ۔
یہ بھی پڑھیں: 2021 ہونڈا امیز بمقابلہ ماروتی سوزوکی ڈیزر بمقابلہ ہنڈائی آورا بمقابلہ ٹاٹا ٹیگور: قیمت کا موازنہ
0۔ تبصرے
حفاظتی خصوصیات کے لحاظ سے ، نئی i20 N لائن چاروں پہیوں کے لیے ڈسک بریک ، الیکٹرانک استحکام کنٹرول ، ہل اسسٹ کنٹرول اور گاڑیوں کے استحکام کے انتظام کے ساتھ بھی آتی ہے۔ دیگر خصوصیات میں شامل ہیں – 6 ایئر بیگز ، ای بی ڈی کے ساتھ اے بی ایس ، ایمرجنسی سٹاپ لائٹ ، آئی ایس او ایف آئی ایکس ، سینسرز کے ساتھ پیچھے پارکنگ کیمرا اور سیٹ بیلٹ یاد دہانی۔ ہنڈائی آئی 20 این لائن 1.0 لیٹر ، تین سلنڈر جی ڈی آئی ٹربو پٹرول انجن سے چلتی ہے جو 6000 آر پی ایم پر 118 بی ایچ پی اور 1500 سے 4000 آر پی ایم پر 172 این ایم پیدا کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے ، ٹرانسمیشن کے اختیارات میں چھ اسپیڈ انٹیلجنٹ مینوئل ٹرانسمیشن (آئی ایم ٹی) اور سات اسپیڈ ڈوئل کلچ ٹرانسمیشن (ڈی سی ٹی) شامل ہوں گے۔ ڈی سی ٹی ورژن 0-100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار 9.9 سیکنڈ میں کرتا ہے۔
تازہ ترین کے لیے۔ آٹو خبریں اور جائزے، carandbike.com پر فالو کریں۔ ٹویٹر، فیس بک، اور ہمارے سبسکرائب کریں۔ یوٹیوب چینل
. Source link
0 notes
pullen-kharan-news · 5 years
Text
Tumblr media
سی پی جے کے ایشیا کوآرڈینیٹر سٹیون بٹلر کو لاہور آمد پر ائیر پورٹ سے ہی واپس ملک بدر کردیا گیا
( پھلین خاران نیوز )
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے سٹیون بٹلر نے کہا ہے کہ پاکستان کا ویزا ہونے کے باوجود لاہور ایئر پورٹ کے عملے نے انہیں لاہور اترنے کے بیس سے پچیس منٹ کے اندر اسی جہاز سے واپس واشنگٹن روانہ کر دیا۔
سٹیون بٹلر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے لاہور میں 19 اور 20 اکتوبر کو ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کے لیے 17 اکتوبر کی شب لاہور پہنچے تھے۔
واشنگٹن واپسی پر انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ “میرے ویزے پر ایئرپورٹ عملے کے ایک افسر نے انٹری کی مہر جیسے ہی لگائی تو فوراً ہی اس نے اپنے بڑے افسر کو بلایا جس کے بعد مجھے ایک دفتر لے جایا گیا۔ وہاں موجود اہلکار نے چند فون کالز ملانے کے بعد مجھے کہا کہ میرا نام کسی سٹاپ لسٹ پر ہے اس لیے مجھے پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں۔”
انہوں نے کہا کہ “میں نے پاکستانی اہلکار سے پوچھا کہ میرے پاس ویزا ہے تو آخر مسئلہ کیا ہے۔ مگر وہ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا یہ لسٹ وزارتِ داخلہ بناتی ہے۔ یہ حکم وہاں سے آیا ہے اس لیے اسے اس فیصلے کی وجہ معلوم نہیں۔”
سٹیون بٹلر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ایشیا کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ 2007 سے لے کر اب تک متعدد بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
کانفرنس میں جانے سے روکنے کی کوشش سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ “میں یہ تو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان میں حکومت کا اندرونی نظام کیسے چلتا ہے، مگر یہ درست ہے کہ پاکستان کے بارے میں گزشتہ برسوں میں مَیں نے تنقید پر مبنی تحریریں لکھی ہیں۔ مگر ہم نے حکومت سے گفتگو کرنے کی بھی کوشش کی۔ ہم متوازن رپورٹ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ رواں سال کے اوائل میں مَیں نے ایک آرٹیکل لکھا جس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کی بعض سفارشات پرتنقید کی تھی۔ ہم نے میڈیا کورٹس کی تجویز کی بھی مخالفت کی تھی جن کے قیام کے لیے پاکستان میں کام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب چینلز زبردستی بند کیے جاتے ہیں تو ہم اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ جب کسی صحافی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ہم مذمت کرتے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایسے اقدامات کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔
سٹیون بٹلر کا کہنا تھا کہ “یہ درست ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے دور میں صحافیوں پر قدغنیں بڑھی ہیں۔ آزاد صحافت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔”
اس کی مثال دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ “ہم نے دیکھا کہ پچھلی حکومتوں میں فوج اور سول حکومت ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ اور اس بات نے صحافیوں کے لیے ایک ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ وہ سول حکومت پر زیادہ تنقید کر سکتے تھے۔”
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں سول حکومت اور فوج کے مراسم بہت اچھے ہیں۔ لہذٰا اب پاکستان میں تنقیدی صحافت کی گنجائش بہت کم ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوج عوام میں بہت مقبول ہے اور طاقتور بھی لہذٰا وہ چاہتی ہے کہ اس کی مرضی چلے۔
سٹیون بٹلر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت اور اداروں کی مرضی کے خلاف چلنے پر اخبار اور ٹی وی چینلز کو بند کر کے انہیں مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ لہذٰا متعدد میڈیا مالکان وہ لائن عبور نہیں کرتے جو ان حلقوں کی جانب سے کھینچ دی جاتی ہے۔ ان کے بقول اس سینسر شپ کے پیچھے پاکستان کی فوج ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ہمیشہ سے اس بات کی تردید کرتی ہے کہ فوج میڈیا یا صحافیوں پر کسی قسم کی قدغنیں لگا رہی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر جن جن صحافیوں نے فوج کے منفی کردار، دہشت گردوں کے ساتھ پاکستانی فوج کے روابط یا سیاست میں مداخلت کے حوالے سے رپورٹنگ کی ان کو کسی نہ کسی طرح سے انتقام کا نشانہ ضرور بنایا گیا ہے یہاں تک کہ ان کو اٹھا کر غائب یا پھر قتل تک کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ بلوچستان کسی بھی صحافتی سرگرمی کے لئے ایک ریڈ زون کی حیثیت رکھتا ہے جہاں پر کئی صحافیوں کو سچ بولنے کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے تاکہ وہاں سے خبریں باہر دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ یہی مثال مظلوم پشتونوں کی بھی ہی، ان کی سیاسی اور پرامن تحریک پشتون تحفظ موومنٹ پر مکمل میڈیا بلیک آؤٹ ہے یہاں تک کہ ان سے منسلک ممبر قومی اسمبلی محسن داوڈ اور علی وزیر کی پارلیمنٹ میں تقاریر تک کو بھی نشر ہونے سے روکا جاتا ہے۔
0 notes
dragnews · 7 years
Text
’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
میرا ایک بچپن کا دوست ہے جو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کو بزرگوں، قلندروں اور مجذوبوں سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ میں جب بھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا ہوں تو اس نے نئے ملنے والے بزرگوں کی لسٹ بنائی ہوتی ہے اور ہر بزرگ کی کرامات بھی اسے ازبر ہوتی ہیں۔ ایک بار جو میں گاؤں گیا تو وہ ایک مجذوب کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت کمال کے بزرگ ہیں۔ وہ ننگی تلوار ہیں، ان کے منہ سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی بہت ساری باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجذوب بابا کی اتنی باتیں کیں کہ ان سے ملنے کی تڑپ میرے اندر بہت بڑھ گئی اور اگلے ہی دن میں اس کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا اس مجذوب کی طرف جا رہا تھا۔ میرا دوست بابا جی کی باتیں نان سٹاپ کرتا جا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ بابا جی ملتان والی سائیڈ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال کے قریب ہے۔ چالیس سال پہلے گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔ اپنے مرشد کے عشق میں کافی عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ بیس سال پہلے مرشد وفات پا گئے تو یہ گاؤں گاؤں گھومنے والے فقیروں میں شامل ہو گئے۔ گھومتے گھومتے یہ فقیروں کا گروپ چند دن یہاں ٹھہرا تو یہ بابا جی کی ٹانگ میں زخم بہت خراب ہو گیا تھا۔ اس گاؤں میں کمپوڈر ڈاکٹر نے بابا جی کی پٹی کی تو ڈاکٹر کی دکان سارا دن مریضوں سے بھری رہی ت�� ڈاکٹر کو بابا جی سے بہت پیار ہو گیا ۔بابا جی کو ڈاکٹر صاحب نے منت سماجت کر کے علاج کے بہانے یہاں رکھ لیا۔ کیونکہ بابا جی کی ٹانگ کی حالت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے بابا جی کا چلنا بھی مشکل تھا۔ فقیروں نے بابا جی کو یہیں چھوڑا اور وہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دن رات بابا جی کی مرہم پٹی کرتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کا کلینک خوب چلنے لگا۔ گاؤں کے ایک آدمی کی بیوی کو مرگی کی بیماری تھی جو بابا کی وجہ سے مرگی سے شفا پا گئی۔ اس عورت کی شفایابی کے بعد بہت سارے لوگوں نے بابا جی کے پاس آنا شروع کر دیا لیکن بابا جو بہت موڈی تھے، لہر میں آ گئے تو دیکھ لیا ورنہ کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ جس آدمی کی بیوی کو شفا ملی، بابا جی اس کی بیٹھک نما گھر میں قیام فرما تھے۔ اس گاؤں میں ستر فیصد آبادی روحانیت کیخلاف تھی۔ بہت کم بابا جی کی عزت کرتے، اطراف کے اکثر دیہات میں بابا جی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ بزرگوں کو ماننے والوں کو پتہ چلتا تو عقیدت سے ملنے آتے تو گاؤں کا وہ طبقہ جو بزرگوں کیخلاف تھا وہ اکثر اعتراض اور آنیوالوں کو تنگ کرتے۔ بابا جی کی داستان سناتے سناتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم بابا جی کے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ گاؤں ایک ٹیلے پر تھا۔ گاؤں کی تنگ، ٹیڑھی میڑھی ناہموار گلیوں سے ہوتے ہوئے آخرکار ہم ایک بوسیدہ مکان کے پاس جا کر رک گئے۔ کچا مکان کچی مٹی کی دیواریں جو بہت بوسیدہ ہو چکی تھیں، کا پرانا اور شکستہ دروازہ کھول کر ہم ایک چھوٹے سے صحن میں داخل ہو گئے۔ صحن میں کیکر کے درخت کے تلے دو چارپائیاں اور چند موڑھے پڑے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بابا جی گرم چادر تانے سو رہے تھے اور دو دیہاتی آدمی آرام سے حقّہ پی رہے تھے۔ ہم دونوں نے سلام کیا تو دونوں نے روایتی دیہاتی وضع داری کا اظہار کیا اور اٹھ کر گلے ملے اور ہم خالی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میرے دوست کی دونوں دیہاتیوں سے آشنائی نظر آ رہی تھی۔ جس طرح تپاک سے دونوں ملے اور حال احوال پوچھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ پہلے بھی آپس میں مل چکے ہیں۔ دونوں دیہاتیوں میں سے ایک یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ میں چائے لے کر آتا ہوں اور دوسرے دیہاتی نے بابا جی کو اطلاع یا اٹھانے کی کوشش کی ۔ میرے دوست نے بابا جی کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگ اور پاؤں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے دوست کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ بابا جی کا بہت زیادہ عقیدت ہے کیونکہ اس کی آنکھوں، چہرے اور دبانے کے انداز سے بے پناہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر توبابا جی اسی طرح ہی بیٹھتے رہے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف کروٹ لی تو میرے دوست نے انہیں ادب سے اسلام کیا اور میرا تعارف بھی کرایا کہ پروفیسر صاحب آپ سے مری سے ملنے آئے ہیں۔ بابا جی مری کے نام سے تھوڑے سے چوکنے ہو گئے اور بابا لال شاہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر بڑے احترام سے کرنے لگے۔ بابا جی کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ کے قریب لگ رہا تھا۔ جوانی میں یقیناً مضبوط اور پہلوانوں والا جسم ہوتا ہو گا۔ بابا جی کی داڑھی مبارک، سر کے بال اور جسم کے خدوخال سے لگ رہا تھا کہ بابا جی نے سالوں سے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جی کا جسم اور کپڑے واضح طور پر عدم توجہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک عجیب سی بے ترتیبی اور پراسراریت کا احساس ہو رہا تھا۔ بابا جی کے پورے سراپے سے ایک مخصوص تاثر ابھر رہا تھا کہ بابا جی نارمل انسان نہیں لگ رہے تھے۔ ان میں کوئی انوکھی بات یا کشش تھی جو مدمقابل کو اپنے سحر میں لے لیتی تھی۔ وہ نارمل اور ابنارمل کا عجیب امتزاج نظر آ رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں روحانیت اور ہیبت کا پراسرار تاثر ابھر رہا تھا۔ میں ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے جب غور سے میری آنکھوں میں جھانکا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ میرا دوست بابا جی کو دبا رہا تھا اور میں دونوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو دیہاتی لڑکے اندر آئے۔ ان میں سے ایک بہت غصے میں لگ رہا تھا۔ اس نے سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کی چین پہنی ہوئی تھی۔ وہ پان کھا رہا تھا۔ گلے میں سونے کے کئی لاکٹ پہنے ہوئے تھے۔ بوسکی کا سلکی سوٹ ہاتھ میں راڈو کی گھڑی پاؤں میں زری کا سنہرا کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تکبر اور غرور کے واضح تاثرات تھے۔ ایسے لوگ دیہات میں اکثر ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً کسی چودھری یا بڑے زمیندار کی اولاد تھا جو گاؤں کے غریبوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جس موٹر سائیکل پر ہم لوگ آئے تھے، وہ ہم دروازے کے باہر کھڑا کر آئے تھے۔ اس کا غصہ تھا کہ اس موٹر سائیکل نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اصل میں بہانہ بنا کر بابا جی یا ہماری بے عزتی کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران جو دیہاتی چائے لینے گیا تھا وہ بھی چائے پیالے میں لے کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اس لڑکے سے معافی مانگی کہ جناب مہمان آئے ہیں، ان کی موٹر سائیکل ہے، آئندہ ایسی غلطی پھر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ جوان ماننے کے بجائے معاملے کو طول دے رہا تھا۔ اب وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ جناب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ اس پاگل بڈھے کے پاس کیا لینے آئے ہیں۔ جس بڈھے کو اپنی خبر اور ہوش نہیں ہے، وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ بڈھا بہت بڑا ڈرامہ باز ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آپ اپنا وقت یہاں کیوں برباد کرنے آئے ہیں‘‘ میرے دوست نے اس نوجوان سے نرمی سے کہا ’’ جناب یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ ہماری جو مرضی کریں، آپ کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے‘‘ یہ بات اس نوجوان کو بہت ناگوار گزری بلکہ اس کی شان میں شاید کوئی گستاخی ہو گئی ہو، وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اب وہ بابا جی سے مخاطب ہوا اور بولا ’’او پاگل بڈھے تجھے اپنی خبر تو ہے نہیں دوسروں کو کیوں بے وقوف بناتا ہے‘‘ میرا دوست پھر بولا’’ بابا بہت بڑی ہستی ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں‘‘ نوجوان انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بولا ’’بڈھے میرے بارے میں کوئی بات بتا، تاکہ میں بھی تجھے مان جاؤں‘‘۔ بابا جی آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر بابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھا دیا۔ بابا جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جاہل نوجوان باز نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بابا جی بولے اور کہا ’’کیا میں تم کو نہیں جانتا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تو جس سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرے گی اور تو اتنا مجبور ہو گا کہ اس شادی کو روک نہیں پائے گا۔ تیری زندگی میں یہ تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو کچھ بھی نہیں کر پائے گا‘‘ نوجوان تھوڑا سا گھبرا گیا لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے ایک اور وار کیا اور کہا ’’اگر تم یہ بتا دو کہ میری منگیتر کا نام کیا ہے تو میں یہ اپنی راڈو گھڑی تم کو ابھی انعام میں دے دوں گا‘‘۔ بابا جی پورے آن ہو چکے تھے، وہ بولے ’’اس لڑکی کا نام، اس کی ماں، باپ کا اور تمہارے ماں باپ کا یہ نام ہے اور کتے بے غیرت تو اس سے پہلے اس نام کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ بابا جی نان سٹاپ بولے جا رہے تھے۔ اس کے گندے کرتوتوں اور گناہوں کو سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں کرتے جا رہے تھے۔ پورے ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ نوجوان کے چہرے سے تکبر، غرور غائب ہو چکا تھا بلکہ اب وہ شدید پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ بابا جی ایک دم اٹھے اور آسمان کی طرف منہ کر کے گھورنے لگے کچھ ایسی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی تھیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کو گھور رہے تھے۔ بابا جی صحن میں موجود تمام لوگوں سے بے خبر سورج اور اللہ تعالٰی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ بابا جی کا ٹرانسفارمر مکمل طور پر آن ہو چکا تھا۔ ۔ بابا جی کا میزبان اس نوجوان کو پکڑ کر باہر چھوڑ آیا جو بہت شرمندہ اور گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کو باہر نکالنے کے بعد وہ ہمارے قریب آ گیا اور بولا ’’اسوقت بابا فل جلال میں ہیں۔ اب بابا جی دو دھاری ننگی تلوار ہیں۔ اب یہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ پورا ہو گا‘‘۔ بابا جی جس حالت میں تھے، وہ لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی۔ پتہ نہیں وہ رب ذوالجلال کے ساتھ کیا شکوے کر رہے تھے۔ کبھی اشارے کرتے، کبھی بے ربط گفتگو کرتے۔ پتہ نہیں وہ غصے میں تھے کہ جلال میں، بہرحال وہ نارمل نہیں لگ رہے تھے۔ بابا جی ایک گھنٹے سے زائد اسی حالت میں رہے۔ پھر تقریباً بے جان ہو کر گرنے لگے تو دیہاتی نے ان کو پکڑ کر چارپائی پر لٹا دیا اور ان کے اوپر گرم چادر ڈال دی اور ہمیں اشارے سے کہا کہ آپ لوگ باہر آ جاؤ، لہٰذا ہم لوگ بھی جو سکتے کے عالم تھے، بابا جی کو عقیدت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر آ گئے۔ کچھ دیر اس دیہاتی سے باتیں کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نوجوان نے کسی کو قتل کر دیا اور وہ جیل چلا گیا۔ وہ جیل میں ہی تھا تو اس کی منگیتر کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دی گئی۔ اس نوجوان نے بابا جی کے پاس اپنے والدین کو معافی کیلئے بھیجا اور خود بھی بار بار معافی کا پیغام بھیجا۔ جیل میں اس سے ملنے جو بھی جاتا تو وہ رو رو کر ایک ہی بات کرتا کہ مجھے بابا جی سے معافی دلا دیں۔ میں نے ایک درویش سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور نادم تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
The post ’’ تیری زندگی میں تیری منگیتر کسی اور کی ووہٹی بن کر چلی جائے گی اور تو ۔۔۔‘‘ ایک مست حال بزرگ کی آزمائش کرنے والے بددماغ زمیندار نے ایسا کیا کردیا تھا کہ اسکے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2niImJr via Today Pakistan
0 notes
aqeelisd · 7 years
Text
ایس ای او ڈائریکٹری - اہم تعریفیں اور اہم سوالات کے جوابات
https://urdughar.com/?p=7451
ایس ای او ایک اہستہ اور صبر آزما پراسس یا طریقہ ہے ہے اور اس میں‌ حد سے زیادہ تیزی دکھانے کا مقصد گوگل کو پیغام دینا ہے کہ یہ کام ایک انسان نہیں کوئی سوفٹ وئیر کر رہا ہے اصل لئے آپ کو نارمل انداز میں سے کام کرنا ہوگا ورنہ گوگل آپ کی ویب سائیٹ کو تو سپیمنگ کے زمرے میں ڈال دے گا اور آپ کی ویب سائیٹ گوگل کی کسی پینالٹی کا شکار ہوسکتی ہے۔ اور آپٹمائیزیشن کا خطرہ بھی رہتا ہے کہ آپ اگر سب کچھ درست کریں تو گوگل آپ پر اوور آپٹیمائیزیشن کا الزام بھی لگا سکتا ہے اس لئے اس کام میں اعتدال سے کام کرنا بھی بڑا ضروری ہے
ایس ای او میں یہ گارنٹی بھی نہیں‌دی جا سکتی کہ آپ کی ویب سائیٹس پہلے پیج پر آ جائیں‌گی ہاں کوشش ضرور کی جا سکتی ہے اور اگر پہلے پیج پر نہ بھی ائے لیکن رینکنگ پہلے سے بہتر ضرور ہو جاتی ہے اور ویب ٹریفک  میں بھی خاظر خواہ اضافہ ہوتاہے
اگر آپ گوگل میں سرچ کریں " گوگل ویب ماسٹر گائیڈ لائین " توویب ماسٹرز کی راہنمائی کے لئے ایک  گائیڈ لائن آ جائے گی جس کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا اشد ضروری ہے
کوالٹی گائیڈ لاین - چند اہم پواینٹس
اس میں بتایا گیا ہے کہ آٹومیٹک کنٹینٹ جنریٹ نہ کریں لنک سکیمز میں حصہ نہ لیں اپنا کنٹینٹ لکھیں اور اور دوسروں کی ویب سائیٹس سے کاپی پیسٹ کرنے سے پرہیز کریں کلا کنگ نہ کریں ڈور وے پیجز نہ بنائیں سکریپٹڈ کنٹینٹ استعمال نہ کریں افیلییٹ پرگرامز میں حصہ نہ لیں جب تک آپ اسکی سفیشنٹ ویلیوز نہ ایڈ کریں ایسے پیجز نہ بنائیں جو وائرس وغیرہ ایڈ کرتے ہوں یا ایسا کوئی پیج نہ بنائیں جو ہیکنگ وغیرہ کے لئے استعمال ہو جائے
ریچ سنیپر مارک اپ کو ابیوز نہ کریں گوگل کو آٹومیٹڈ کیوریز نہ بھیجیبں
اپنی ویب سائیٹ کے کمنٹس کو موڈریٹ کریں اگر یہ بڑھتے گئے تو گوگل آپ کی سائیٹ کو سپیم کر سکتا ہے
ایس ای او ٹرمز اور کنسپیٹ -- ROI - ری ٹرن آن انوسٹمنٹ
PPC- گوگل ایڈورڈز کی بڈرز کی ٹرم ہے جس کے مطابق  وہ کسی خاص کی ورڈ یا فریز کے ایک کلک کے پیسے دیتے ہیں
ارگینک بمقابلہ پیڈ سرچ انجن رزلٹ
جب ہم گوگل میں‌کچھ سرچ کرتے ہیں تو کچھ اشہارات آپ کو نظر اتے ہیں جوگوگل سرچ کے ٹاپ پر ہوتے ہیں یہ پیڈ سرچ انجن رزلٹ مین آتے ہیں اور اسکے پیسے دیئے گئے ہوتے ہیں جبکہ ان اشہارات کے نیچے آنے والا رزلٹ اورگینک ہوتا ہے ور جو ویب سائیٹس نظر آرہی ہوتیں انکو گوگل کو کچھ پیسے نہیں دینے پڑتے
بلیک ہیٹ ایس ای او بقابلہ وائیٹ ہیٹ ایس ای اؤ
بلیک ہیٹ ٹیکنیکس سے آپ کی سائیٹ بہت جلد اوپر آ جاتی لیکن گوگل جلد ہی آپکی چالاکی یا دھوکے کو پکڑ لیتا اور آپ کو بین کر دیا جاتا
جبکہ وائیٹ ہیٹ ایس ای اؤ ٹیکنکس آہستہ ہوتی ہیں اور سائیٹ کو اوپڑ انے میں وقت لگتا ہے لیکن دیرپا ہوتی ہیں اور آپ کی رینکگ قائم رہتی ہے
سرچ انجنز ویب سائیٹس رینک نہیں کرتیں بلکہ وہ ویب پیجز رینک کرتی ہیں ہر پیج رینک ہوتا ہے نہ کہ پوری ویب سائیٹ ہر سنگل پیج آپ کے لئے ایک الگ اپرچینویٹی ہے
ریسرچ یور کمپیٹیٹرز
اپنی ویب سائیٹ سے اوپر جتنی بھی ویب سائیٹس ہیں وہ اصل میں آپ کے کپمیٹیٹرز ہیں اور آپ کی ان سائیٹس کو ہر طرح سے دیکھنا ہوگا اور ان سے بہتر سائیٹ بنانے ہوگی تب جا کر آپ ان سے اوپر رینک کریں گے
اپنے کی ورڈز کی ایک لسٹ بنائیں کم از کم 20 کی ورڈز فریزز کی ایک لسٹ بنائیں
سرچ انجنز کی طرح سوچیں پی ڈی ایف ڈاکومنٹس بھی اپنی ویب سائیٹ میں اپ لوڈ کریں
اپنے پوسٹس کی لنکنگ کریں سوشل میڈیا کو بھی ایک دوسرے سے لنک کریں تاکہ یوزر ایک سے دوسرے سوشل میڈیا پر آپ کو فالو رکیں گوگل ویب ماسٹر گائیڈ لائن کو فالو کریں
پیچ رینک ایک گوگل کا الگورتھم ہے جو آپ کی ویب سائیٹ کو گوگل سرچ رزلٹ میں رینک کرتا ہے
اچھا اور بہترین کنٹینٹ لکھیں اور اس میں‌سب کچھ ہو جو یوزرز کو انفارمیش دے سکے اور فرش کنٹینٹ یا نیا کنٹنٹ ایڈ کرتے رہیں اورر اسکی کوالٹی اچھی ہونی چایئے
کم از کم ہفتے میں‌دو آرٹیکلز ضرور لکھیں تاکہ گوگل بوٹ کو آپ کی ویب سائیٹ سے کچھ نیا ملتا رہے
ہر نیا پیج مختلف کی ورڈز فریز پر مشتمل ہونا چاہیے
گوگل کا اپنا چینل ہے گوگل ویب ماسٹرز کے وہاں ستے آپ کو اپ دیٹ ملتی رہتی ہے
گوگل کا اپنا بلاگ بھی ہے جو اپ ڈیٹ دیتا رہتا ہے https://webmasters.googleblog.com/
گوگل کمینیٹی جو ویب ماسٹرز کی مدد کے لئے بنائی گئی ہے https://www.google.com/webmasters/connect/
فائر فاکس براؤزر میں ایکسٹنشز اوپن کریں اور اس میں لکھیں " ایس ای او" تو بہت سارے اچھی ایس ای او کی ایکسٹنشنز آ جائیں گی آپ اپنی مرضی کی ایکٹیشن چن سکتے ہیں ہم ایک اچھی ایکٹسٹنشن چنتے ہیں اسکا نام ہے
seoquake Seo Extansion اس کو انسٹال کرکے آپ اپنی یا کسی بھی سائیٹ کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں آپ اپنی سائیٹ آپ اوپن کرکے Diganose پر کلک کرکے اسکو اس ایکسٹینشن سے اینلائیز کر سکتے ہیں
گوگل کی اپنی سرچ انجن گائیڈ پی ڈی ایف https://static.googleusercontent.com/media/www.google.com/en//webmasters/docs/search-engine-optimization-starter-guide.pdf
related:urdughar.com اردو گھر کے ریلیٹلد دیکھنے کے لئے links:urdughar.com اردو گھر کے لنکس دیکھنے کے لئے allinanchor:urdu کوئی خاس لفظ اینکر ٹیکسٹ میں allintext:urdu ٹیکسٹ میں کوئی خاص لفظ دیکھنے کے لئے urdughar intext: urdu کیوری دیکھنے کے لئے allintitle: urdu ٹائیٹل میں کوئی لفظ دیکھنے کے لئے allinurl: urdu ghar یوآر ایل میں دکیھنے کے لئے ~urdu ٹلڈ سمبل ٓ استعمال کرکے ایسوسیایٹڈ ورڈ تلاش کرنے کے لئے سرچ اور ری سرچ ہی ایس ای او کی جان ہے
بار بار ایک ہی لفظ استعمال کرنے سے آپ کو گوگل سپیم کر دے گا اس لئے بہتر ہے اس لفظ کے دوسرے معنی استعال کئے جائیں جیسے سستا، کم قیمت، ارزاں وغیرہ ایک ہی لفظ کے بہت سے معنی ہیں
گوگل ایڈوانس سرچ کا استعمال https://www.google.com/advanced_search اس سے آپ کسی بھی لفظ کو سرچ کر سکتے ہیں
ایچ ٹی ایم ائل سائیٹ میپ یج دو قسم کے سائیٹ میپ ہوتے ہیں ایک جو آپ ایک ایج ٹی ایم ایل پیج بنا کر اس پر اہم لنکس کو ڈال دیتے ہیں اس جو سائیٹ میپ پیج اور سائیٹ انڈیکس بھی کہتے ہیں اچھے تھیم میں یہ بائی ڈیفالٹ آتا ہے اور پوسٹ کرتے وہ لفٹ سائیٹ پر میں ڈیفالٹ ٹیمپلٹ کے نیچے اسکا بھی آپشن ہوتا ہے اور یہ خود ہی اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے اسکا ایک لنک ہوم پیج کے فٹر میں لگانا چاہیے
اور  دوسراایکس ایم ایل     xml site map
ایکس ایم ایل ایک چھوٹی سی فائل ہوتی ہے جس میں سائیٹ کے سب پیجز کی ڈیٹل ہوتی ہے اور سپائیڈر اسی فائل کو تلاش کرتا ہے تاکہ آرام سے آپ کی سائیٹ کو کرال کر سکے اس کے لئے یہ دیکھنا آسان ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے اس سائیٹ پر آیا تھا تو کون کون سے پیجز اس سائیٹ میپ میں موجود تھے اور کیا کیا موڈی فائیڈ ہوا ہے اگر یہ فائل نہ ہو تو سپائیڈر آپ کے ہوم پیج سے تمام سائیٹ کے لنکس آٹھاتا ہے xml site map کا پلگ ان ورڈ پریس کی سرچ مین مل جاتا ہے ایس ای اؤ یوسٹ میں یہ بائ ڈیفالٹ آ جاتا ہے اس کو انسٹال کر لیں گوگل ویب ماسٹر ٹولز سے سائیٹ کو ویری فائی کریں اور وہاں سائیٹ میپزس بھی ڈال دیں
ان دونوں میں فرق اتنا ہے کہ ایک ایم ایل سائیٹ میپ گوگل سرچ کے کے لئے بنایا جاتا ہے اور
ایچ ٹی ایم ایم سائیٹ میپ سے وزٹر بھی فائدہ آٹھا سکتے ہیں اور کسی بھی پیج کو سائیٹ میپ کی لسٹ میں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں
اپنی پوسٹس میں پی ڈی ایف فائئلز کو بھی جگہ دیں یہ آج کل سرچ میں آ رہی ہیں اور ان کو ایس ای اؤ اپٹیمازیڈ بنائیں
اس طرح آپ ایک ہی پوسٹ کے تین ورژن بنا سکتئے ہیں ایک ایچ ٹی ایم ایل ورژن ایک پی دی ایف ورذن اور ایک ورڈ ورژن تمام فائلز کی پراپرٹیز میں جا کر ان کو ایس ای اؤ فرینڈلی بنائیں یعنی فائلز کا میٹا ڈیٹا ڈاکومنٹس کا بہتر کریں گوگل میں سرچ کیسے کریں filetype:xls site:google.com ایکس ڈاکومنٹس کے لئے filetype:doc site:google.com ڈاکومنٹس کے لئے filetype:pdf site:google.com پی ڈی ایف کے لئے
نو فالو اور فالو لنکس دیکھنے میں تو ایک سے نظر آتے ہیں لیکن انکا کوڈ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کونسا لنک فالو ہے اور کونسا نو فالو
میٹا ٹیگز سے ذریعے بلاک سرچ انڈیکسنگ
کچھ پیجز کسی وجہ سے آپ بلاک کرنا چاہیں کہ گوگل انکو انڈیکس نہ کرے تو ہم میٹا ٹیگز کے ذریعے ایسا کر سکتے ہیں یہ ہم ورڈ پریس کی سیٹنگز میں جا کر ریڈنگ میں جانے کے بعد بھی اپشن سے ایسا کر سکتے ہیں ہم کسی لنک کو بھی کوڈ سے نو فالو بنا سکتے ہیں اس کے لئے ایک پلگ ان بھی استعمال ہوتا ہے جیسے الٹیمیٹ نو فالو کہتے ہیں
بروکن لنکس کا بھی ایک پلگ ان ورڈ پریس میں موجود ہے
404 کا ارر کے لئے بھی ورڈ پریس میں موجود ہے 404 to 301
اسسے آپ کے گوگل ویب ماسٹر ٹولز میں 404 ایرر نہیں آئے گی
ٹائیٹل
- - -- یہ اکثر 64 الفاظ کا ہوتا ہے اپنا ٹایٹئل کی ورڈ سے شروع کریں ٹائیٹل کو سپیم نہ کریں اپنے مین کی ورڈ کو دوبار ٹائیٹل میں استعمال نہ کریں
جتنا اچھا اپ کا " سی ٹی آر"‌ہوگا گوگل اتنا اپ کی ویب سائیٹ کو سر چ میں ترجیع دے گا"
اگر آپ کوئی لوگل بزنس کر رہے ہیں تو آسکو ٹائٹئٹل میں مینش کریں جیسے ایس ای اؤ - لاہور
گوگل ویسے تو ٹائیٹل کے 64 الفاظ تک ظاہر کرتا ہے اس کے بعد ، ، ، لکھا آتا ہے لیکن 250 الفاظ تک انڈیکس کرتا ہے اپنی کمپنی کا نام ٹائتیل میں نہ دیں توبہتر ہے کیوں کہ اس طرح اپ کے الفاظ کم ہو جائیں گے اس لئے بہتر ہے اپنی پراڈیکٹ کا نام دیں یا اپنے مین کی ورڈ یا فریز کا نام لکھیں تاکہ یوزر پڑھ سکیں ار کلک کر سکیں
ٹائٹیل میں کی ورڈ پراکسیمیٹی کی اہمیت ہے اس لئے اپنے مین کی ورڈز کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے نزدیک رکھیں اور ان کے درمیان فضول ورڈز لکھنے سے پرہیز کریں
سٹاپ ورڈز کی گوگل کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں جیسے the, or , in, on وغیرہ انکو استعمال کرنے سے پرہیز کریں انکی وجہ سے مین کی ورڈز کے لئے جگہ نہیں بچتی
اپنے ٹائتیل میں کوسچن مارک، انڈر سکور، بریکیٹ کا استعمال نہ کریں اور کامز، پائپ سائن، ہائفن کا استعمال کریں
اور ابریویشن، کا بھی استعمال کر سکتے ہیں جسے کاپی رائیٹ کی جگہ @، and کی جگہ & وغیرہ
آپ یہ بات ھی ذہن میں رکھیں کہ اپ نہ صرف سرچ انجنز کے لئے ٹائٹیل بنا رہے بلکہ انسانوں کے لئے بھی اسکو ریٹ ایبل ہونا چاہیے
اپنے کپیٹیٹرز کے ٹائڑیلز کو بھی دیکھیں کہ ہو کیا کر رہے اور کیسے ٹائٹیلز استنعمال کررہے
نیچرل وے میں کپیٹل الفاظ کو استعمال کریں سب بڑے الفاظ استعمال نہ کریں کہ وہ سپیمی نظرآنے لگیں
ایگزیکٹ میچ سرچ کی ورڈز استمعال کریں تو بہتر ہے ایک ہی ٹاٹئل لائن استعمال کریں
جتنا ٹائٹل اس پر لگے ضرور لگائیں کیوں کہ یہ سب سے اہم ایس ای اؤ الیمنٹ ہے
ڈسکرپشن
- - -- - - - - - - گوگل میں 20-25 الفاظ نظر اتے ہیں ہر پیج کی الگ ڈسکرشن ہونے چاہئے سنیپر سے مراد ٹائیٹل، یو آر آل اور ڈسکرپشن ہے جو گوگل میں نظرآتا ہے
میٹا کی ورڈز
- - - - - - - - - میٹا کی ورڈز کو کاماز سےالگ الگ لکھا جاتا ہے ، لیکن یہ گوگل کے کہنے کہ مطابق استعمال نہیں کیا جاتا ویب رینکنگ کے لئے
کی ورڈز فریز
---- کی ورڈز کی جگہ شارٹ فریز استعمال کرنا زیادہ بہتر رہتا ہے جیسے pak chat کی جگہ pak chat rooms in pakstan زیادہ بہتر رہتا ہے
اس کے علاوہ سرچ کرتے ہوئے گوگل کے پیج کے آخر مین ریلیٹڈڈ سرچز آتی ہیں وہ بھی اہم ہوتی ہے
گوگل سرچ کرتے ہوئے گوگل آٹو سرچ میں انے والے الفاظ بھی اہم ہوتے ہیں کیوں کہ یہ سب کچھ یوزرز سرچ کر رہے ہوتے ہیں turn the cache off when repeated local searches تاکہ آپ کو وہ رزلٹ مل سکے جو اصل میں ہوتا ہے اپنے کپمیٹررز کے کے ورڈز کو بھی اہمیت دیں اور انکو استعمال کریں میٹا ڈیٹاوغیرہ میں
word stemming اس سے مراد کی ورڈز یا فیرز کا الٹرنیٹو ورڈ ہوتا ہے جیسے website web-site web
site
تین الگ الفاظ ہیں انکو ہم
seo
کے ساتھ ملا کر تین بار استعمال کر سکتے ہیں
seo website seo web site seo web-site
اس کے علاوہ مختلف مس سپیل الفاظ بھی ہوتے ہیں اور انگلش کے مخلتف الفاظ کے مختلف سپیلنگز بھی ہوتے ہیں
thesaurus.com se Ap kw related keyword ka idea mil sakta hai our app ms wrod thesaurus se bhi alternative keyword our pharases talsh kar skty
اس طرح آپ کی ورڈ ری سرچ کرتے ہوئے گوگل میں وڈیوز پر کلک کرکے بھی وڈیوز کی سرچ کر سکتے اور کی ورڈز دیکھ سکتے
یعنی سب سے آپ نے کی ورڈز کی لسٹ بنانی ہے پھر آپ نے کی گوگل کی ورڈ ایڈورڈ ٹول میں دیکھنا ہے کس کی ورڈ کی کنتی سرچ ہے اور کتنا استعمال ہو رہا ہے اس کے علاوہ گوگل کا یہ لنک بھی آپ کے لئے مددر گار ثابت ہوگا Basic tips for building a keyword list
https://support.google.com/adwords/answer/2453981?hl=en
کی ورڈ لسٹ بلنڈنگ کے بارے میں گوگل نے بھی وضاحت کی ہے اس کے بارے میں بھی پڑھنا چاہیے وہ اس پیج پر ملے گا
https://support.google.com/adwords/answer/2453981?hl=en
Optimize your keyword list اس بارے میں اہ یہاں پڑھ سکتے ہیں https://support.google.com/adwords/answer/6337820
گوگل کی ورڈ پلینر
- -- - - - اس میں کوئی بھی کی ورڈ سرچ کرکے ہم دیکھ سکتے کہ کونسا کی ورڈ یوزرز سرچ کر رہے اور کونسے فریزز اہم ہیں اور انکا ٹرینڈ کیسا جا رہا ہے یہ گوگل سرچ کا ڈیٹا بتاتا ہے صرف ان کی ورڈز ہی کام نہیں کرنا چاہیے جن پر ٹریفک زیادہ ہے آپ نے کی ورڈز سے ٹریفک لے سکتے ہیں جن کی سرچ کم ہے لیکن آپ اگر ان پر کام کریں تو وہ جلد رینک ہو کر آپکے ٹریفک لا سکتے ہیں اس کی ایڈورٹائیزر بڈ کیا ہے اور اسکا ارگینک کمپیٹیشن کیا ہے
ڈومین نیم اور ایس ای اؤ
- - -- -- - - اگر آپ کی ڈومین آویل ایبل نہیں ہے تو کوئی دوسری ڈومین لیں اورر ڈاٹ کام ڈومین بہتر رہے گی اور اگر آپ لوکل کاروبار کر رہے تو لوکل ٹی ایل ڈی بھی لینا نہ بھولیں اور وہ ڈومینز بھی لے لیں جن اس کی ورڈ کے ریلیٹڈ ہوں اور اپ کا کپیٹیٹر وہ لے سکتا ہو اور فائدہ آٹھا سکتا ہو سنگولر اور پلورل ڈومینز بھی لے لئں
ایکسپائرڈ ڈومین لیتے وقت خیال کریں کہ کہیں وہ گوگل پینالٹی کا شکار تو نہیں یا اس پر ایڈسینس تو بین نہیں ہوا
flippa.com freshdrop.com justdroped.com deleteddomains.com domainboardcasting.com namecaptor.com domainanounce.com
ڈومین نیم لیتے ہوئے ایک ٹریک کا استعمال 4 اور 2 کا استعمال جیسے 4seotools.com go2pakistan یہ ٹریک لانگ ٹیل کی ورڈز کے لئے زیاہ کامیاب ہے یعنی اگزیکٹ میج ڈومین نیم کے لئے کامیاب ہو سکتی لیکن کوشش کرنی چاہیے چھوٹا نام لیا جائے اور ٹریکس استعمال نہ کی جائیں
آپ کی ڈومین نام سے ظاہر ہو کہ آپ آصل میں کیا کام کرتے یعنی اس میں اپ کا مین کی ورڈ شامل ہو تو بہتر ہے ( گوگل ویسے کہتا ہے اب ایگزیکٹ میج ڈومین کی وہ اہمیت نہیں)
ہافن ار انڈر سکور سے پرہیز کریں یعنی ایس ای او فرینڈلی نام لیں
کی ورڈز
- -- اچھا اور یونیک ٹیکسٹ لکھیں پہلا اور آخری پیرا گراف گوگل کی نظر میں‌اہم ہوتا ہے
کی ورڈ ڈینسٹی اچھی ہونی چاہیئے نہ کم اور نہ زیادہ کچھ لوگوں کی نظر میں ایک سے پانچ فیصد کی ورڈ ڈینسٹی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے یہ حد 1 سے 2.5 تک ہے
کی ورد فریکونسی
--- - - - - - - - - کی ورڈ فریکونسی سے مراد مخصوص کی ورڈ یا فریز ایک ویب پیج میں کتنی بار آیا اور اگر مخصوص کی ورڈ یا فریز کو بہت زیادہ بار ایک ویب پیج پر ری پیٹ کیا گیا تو وہ گوگل اس کو پینالائیزڈ بھی کر سکتا ہے کیوں کہ یہ سرچ انجن کو سپیم کرنے کی کوشش ہے
کی ورڈ پراکسیمیٹی
- -- - - - - - - -- اس سے مراد کی ورڈ یا فریز کی ایک ویب پیج پر نزدیکی کو کہتے ہیں یا فاصلہ یا کلوزنیس یہ کی ورڈز جتنے قریب ہوں اتنا بہتر رہتا ہے
کی ورڈ سٹفنگ
- --- - - - - کی ورڈز یا فریزز کا حد سے زیادہ استعمال یا کی ورڈ کی اوورشنگ
ہیٹنگز اور ایس ای او
- - - - - - - - - - ہیڈنگز کا استعمال ضرور کریں آج کل ٹائیٹل بائی ڈیفالٹ ایچ 1 ہوتا ہے ااس لئے اس کے بعد دوسری ہینڈنگز میں اپ ایچ 2 اور ایچ 3 کا ستعمال کریں ہیڈنگز میں کمپنی کا نام نہ لکھیں بلکہ پراڈکٹس کا نام لکھین اور ہیڈنگز میں ایچ 1 میں ویلکم یا ویلکم ٹو مائئ سائیٹ وغیرہ نہ لکھین ایچ 1 ایک پیج پر ایک ہی بات استعمال ہوتا ہے ایچ 2 اور ایج 3 اپ جتنی مرضی استعمال کر سکتے ہیں اپنا کی ورڈ یا فرضی ہیڈنگز میں ستعمال کریں جو اس پیج سے متلعق ہو آپ یہ ٹریک بھی استعمال کرسکتے کہ ٹائتیل میں آپ کا مین کی ورڈ ہے تو ہیڈنگز میں اس کی ورڈز کا الٹرنیٹو معنی کا کی ورڈ ہوگا
فائل نیم اور کی ورڈز
- - - - - - - - -
أپنے فائلز، امیجز اور فولڈرز کے نام مخصوص کی ورڈز پر رکھیں ایسے ہی پی ڈی ایف اور ڈاکومنٹس فائلز کا نام بھی کیورڈز کے نام پر رکھیں
اینکر ٹیکسٹ اور کی ورڈز
- - - - - - - - -- - - - - اینکر ٹیکسٹ میں اپنے کی ورڈز کا استعمال کریں فائل نیم کو انیکر ٹیکسٹ کے ساتھ کمبائن کریں تو بہتر رہے گا ایک جیسا نام ہو جائے گا ایس ای او فرینڈلی
لسٹ فارمیٹنگ اور ایس ای او
- - - - - - - - - - -- - بلٹ یا نمبرڈ لسٹ کو استمال کرتے ہوئے ہم کی ورڈز استعمال کر سکتے
بولڈ تیکسٹ اور ایس ای او - - - -- - بولڈ ٹیکسٹ گوگل کو توجہ دلانے کے لئے ہوتا ہے کہ اس میں کوئی خاص بات کی گئی ہے لیکن اس کا اوور یوز نہ کریں
پکچر الٹ ٹیگز - - - - - - - - - - گوگل تصویر کو نہیں پڑھ سکتا اس لئے الٹ ٹیگز کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ گوگل جان سکے کہ یہ پکچر کس چیز کی ہے اور وہ پکچر گوگل کی امیجز سرچ میں بھی آتی ہے
پکچرز اور میٹا ڈیٹا - - - -- - - کچھ امیج ایڈیتنگ سوفٹ وئیرامیج فائل میں میٹا ڈیٹا بنا سکتے ہیں یا چھپا ہوتا ٹیکٹس ہوتا ہے جو میں پکچر کے بارے میں انفارمیش ہوتی ہے وہاں اپ کی ورڈز اور فیرز استعمال کر سکتے ہین
وئب سائیٹ فولڈر سٹریکچر - - - - - -- - - - فولڈرز کے اس ای او فرینڈلی نام دیں https://support.google.com/webmasters/answer/6001176?hl=en
براؤزر اور ہارڈوئر ایشوز - - - -- گوگل اینالیکٹس میں دیکھیں یوزر کونسے براؤزر استعمال کررہے اس کو تفصیل سے اس لنک میں‌دیکھا جا سکتا https://support.google.com/webmasters/answer/35769?hl=en یا جا کر Help visitors use your pages دیکھ سکتے
کیا آپ کی ویب سائیٹ موبائل فرینڈلی ہے کیا آپ کی سائیٹ مختلف براؤزرز میں‌ ٹھیک نظر آ رہی کیا سکرین ریزولیشن کی ٹھیک ہے
اک براوزر چیک کر سکتے یہاں browsershots.org
ریزولیشن یہاں چیک کر سکتے yournew.com/resolation_test.cfm
ٹیبلٹ میں اپ کی سائیٹ کیسے نظر آتی
آپ موبائل یوزبلتی گوگل ویب ماسٹر ٹولز میں چیک کر سکتے آپ کو سائیٹ رسپونسو ہے یعنی آپ کی سائیٹ کے آئیٹم ری پوزیش اور ری سائیز ہو جاتے ہیں سکرین ریزولیشن کے مطابق جب ہم ویب سائیٹ کو پی سی موبائل فون اور ٹیبلٹس میں دیکھتے ہیں اور یہ کام ورڈ پریس نے آسان کر دیا ہے زیادہ تر ورڈپریس تھیم رسپونسو ہوتے ہیں
ویب سائئیٹ کریڈیبلتی
- -- - - - - - - - - - لوگ آپ کی سائیٹ گوگل میں سنپر دیکھ کر کلک کرکے آتے ہیں اس لئے کوشش ہونی چاہیے کہ ان کا فسٹ امپریشن اچھا پڑے اور وہ آپ کی سائیٹ سے مطمئین ہوں اس لئے اپ کو کنٹیکٹ اس کا بٹن ایسا جگہ لگنا چاہیے کہ یوزر آرام سے اس پر کلک کر سکے اور جان سے اپ کون ہیں اور کیا ہیں اس میں آپ کی پوری تفصیل ہونی چاہیے آپ کا فون نظر ، ایڈریس، آفس وغیرہ کا پتہ سب مکمل ہونا چاہیے
اور یہ بھی اچھا آئیڈیا ہے کہ آپ کے کلائنٹس کی لسٹ بھی ہو اور انکو ٹیسٹومونیلز بھی ہوں کسٹومرز کے ری ویوز بھی ہوں اور آپ لوگوں کو انوائیٹ کریں کہ وہ ری ویوز دیں
اگرہو سکتے تو ایف اے کیو پیج بھی ایڈ کریں
مختلف ممالک کا ٹائم مختلف ہوتا ہے اس کے لئے آپ ٹائم اور ڈیٹ کے لئے اس سائیٹ سے استفادہ کر سکتے https://www.timeanddate.com/calendar/?year=2017&country=64
پرائیوسی پالیسی کلیر اور اپ ڈیٹ ہونی چاہیئے ڈائرکٹریز بھی پرائوسی پالیسی دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اپ کو ڈائرکٹری میں جگہ دی جائے کہ نہیں اس لئے اسکا ہونا ضروری ہے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز اپ دیٹ ہونی چاہیے
ہر ملک کا اپناگوگل ورژن ہے اور اسکی اپنی رینکنگ ہے
https ایک سیکورتی پروٹوکول ہے
رپورٹ سپیمر ٹو گوگل - - - - - - -
آپ ریپورٹ بھی کر سکتے یہں
ویب سائیٹ لوڈنگ سپیڈ - - - -- -- یہاں آپ ہیلپ کے لئے دیکھ سکتے Help visitors use your pages https://support.google.com/webmasters/answer/35769?hl=en
پیج سپیڈ یہاں دیکھ سکتے https://developers.google.com/speed/pagespeed/insights/
یہاں بھی آپ اپنے ویب پیج ٹسٹ کو دیکھ سکتے https://www.webpagetest.org/ اگر سرور ایک ملک کا ہو اور وزٹر دوسرے ملک کے تو سائیٹ سلو ہوسکتی ہے
اپٹیمائزنگ پکچر فار لوڈنگ - - -- - ہرپکچرکا فائل سائز کم کریں امیجز کی تعداد کم کریں
کیشنگ
- - -- - - آپنے ڈیٹا کو کیشنگ کرنے کے لئے ورڈ پریس کا پلگ ان " ڈبیلو پی سپر کیشی" استمال کریں یہ آپ کی ویب سائیٹ کی سپیڈ تیز کردے گا
جی زپ
- - - اس کے لئے ورڈ پریس کا پلگ ان ہے "جی زپ ننجا سپیڈ کپریشن" وہ انسٹال کر لیں اس سے بھی سپیڈ میں فرق پڑے گا
منوٹیٹر بنینڈ ویتھ یوزیج
- - - - -- - - یہ دیکھتے رہیں کہ یوزر زیادہ ہونے کی وجہ سے سائیٹ اوؤر لوڈ تو نہیں‌ہوگئی
پکچر فائل سائز اینڈ لوڈنگ سپیڈ
- - - -- - اپنی پکچر کا فائل سائز چھوٹا رکھیں
برے لنکس کے خطرات
- - - - - - -- - اگرآپ نے کسی بری ویب سائیٹ کے ساتھ لنکنگ کی تو گوگل آپ کو پینلائیز کر سکتا ہے اس سے آپ کو سرچ انجن میں ڈیموٹ بھی کیا جا سکتا اور بین بھی کیا جا سکتا ہے لنکس خریدنے کی کوشش نہ کریں گوگل آپ کو بین کر دے گا
گوگل کی کوالٹی گائیڈ لائن میں لنکس سکیمز کے بارے میں تفصیل سے آپ یہاں پڑھ سکتے Link schemes https://support.google.com/webmasters/answer/66356?hl=en
ایسے لنکس خریدنا اور بیچنا منع ہے جو گوگل ریکنگ میں فرق ڈالیں بہت زیادہ لنک ایکسچیج منع ہے بہت زیادہ ارٹیکل مارکیٹنگ یا گیسٹ پوسٹنگ جس میں بہت زیادہ اینکر ٹیکسٹ میں لنکس دینا منع ہے آٹومیٹڈ پروگرام اور سروسسز جن سے لنکس یا بیک لنکس بنتے ہوں منع ہے ایسی پریس ریلیز جس میں لنکس اور کی ورڈز آپٹیمائیز کئے گئے ہوں فورم کمنٹس کرنا آپٹمائیز لنکس پوسٹ میں یا سگنیچر میں اج کل اکثر لنکس ہی خطرناک ہوتے اس لئے لنکس کے لئے پیسے نہ دیں نہ خریدیں
گوگل کہتا ہے بہت اچھا اور معیاری مواد اپنی سائئٹ میں ڈالیں تاکہ لوگ آپ کی سائیٹ سے لنک ہوں
بری ویب سائیٹ کو کیسے پہنچانیں
- - -- - - کیس بری سائیٹ سے لنک نہ ہوں گوگل میں لکھ کر سرچ کر سکتے آپ کن ویب سائیٹس سے لنک ہیں links:urdughar.com
whois.com میں دیکھ کر ڈیٹا لے سکتے یہ ویب سائیٹ کب سے انٹرنیت کی دنیا میں ہے ویب سائیٹ کا پیج رینک چیک کریں اور اسکا کوئی رینک نہیں ہے تو یہ ویب سائیٹ خطرناک ہو سکتی ہے ہو سکتا ہے یہ سرچ انجنز میں بین ہو
اس طرح دیکھ سکتے کہ اس سائیٹ کے کتنے پیجز انڈیکس ہیں site:urdughar.com اگر کیچھ لنکس نہیں ہیں تو پھر خطرہ ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے یہ بین سائیٹ ہو
وہ ویب سائیٹ جو ٹائپنگ ارر اور غلط گریمر سے بھری ہو وہ ویب سائیٹ جس پر کمنگ سون بہت سے پیجز پر لکھا ہو وہ ویب سائیٹس جو جو لنک بلڈنگ پروگرامز کی فروخت کے لئے بنائی گئی ہو وہ ویب سائیٹ جس میں کنٹیٹ انفارمیشن نہ دی گئی ہو گوگل ویب ماسٹر ٹول میں disavow tool ٹول ہے اس سے کیس بھی لنک کو ڈس آون کیا جا سکتا ہے
گوگل ویب ماسٹر ٹولز
- - - ---- - --- - سرچ اپیرانس میں ایک آپشن ہے " سائیٹ لنکس" ان سے مراد وہ لنکس ہے جو ہم گوگل میں سرچ کرتے ہیں‌تو ہماری سائیٹ کے نیچے چند لنکس آٹو بن جاتے ہیں ان لنکس کو ہم اگر ڈی موٹ کرنا چاہیں تو اس آپشن سے کر سکتے ہیں کہ ان لنکس میں سے اس آپشن کے ذریعے کو لنکس ہٹایا جا سکتا ہے
گوگل ویب ماسٹر ٹولز میں ایک آپشن ہے
لنکس ٹو یور سائیٹ
- - -- اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں ہمیں طرف کتنے لنکس آ رہے ہیں کون ہم سے لنک ہے اور کس نے ہمیں بہت لنک کیا ہے
گوگل مینول ایکشن رپورٹ ( ویب ماسٹر ٹولز کی آپشن ہے) - -- -- - - اگر گوگل آپ کی ویب سائیٹ میں کوئی والیشن دیکھتا ہے تو آپ کو بین بھی کر سکتا ہے اس بارے میں اپ کو گوگل مینویل ایکشن میں بتایا جاتا ہے اس کی مزید تفصیل یہاں دیکھ سکتے ہیں https://support.google.com/webmasters/answer/2604824?hl=en
ایک کنٹینٹ یا آرٹیکل کو تین بار استعمال کرنا ارٹیکل کے طور پر پی ڈی ایف فائل کے طور ہر ڈاک فائل کر طور پر اس طرح آپ کے پاس سرچ انجن میں سرچ ہونے کے تین چانس ہیں
https://www.udemy.com/seo-tutorial-training/learn/v4/t/lecture/5157186?start=0
0 notes