#زہرہ نگاہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
6 notes
·
View notes
Text
آرٹس کونسل کراچی میں اردو فکشن کی پہلی باغی عصمت چغتائی پر لیکچر کا اہتمام
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے مصنفہ عصمت چغتائی پر لیکچر “اردو فکشن کی پہلی باغی عصمت چغتائی ” کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا۔پروگرام میں صدارت کے فرائض معروف شاعرہ زہرہ نگاہ اور نظامت کے فرائض عنبریں حسیب عنبر نے انجام دئیے۔ تقریب میں معروف ادیب ناصر عباس نیر نے عصمت چغتائی پر لیکچر دیا،پروگرام میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ،نورالہدیٰ شاہ، تنویر انجم، فاطمہ حسن، انور سن رائے،…
View On WordPress
0 notes
Text
نقش کی طرح اُبھرنا بھی تُمہی سے سیکھا
رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تُمہی سے سیکھا
تم سے حاصل ھوا اک گہرے سمندر کا سکوت
اور ھر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا
اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ھی سکھلائی مجھے
اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا
تم نے سمجھائے مری سوچ کو آدابِ ادب
لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا
رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا
جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا
چھوٹی سی بات پہ خوش ھونا مجھے آتا تھا
پر بڑی بات پہ چپ رھنا تمہی سے سیکھا
زہرہ نگاہ
2 notes
·
View notes
Text
🖤 🖤یوم_انہدام جنت البقیع🖤🖤
کیسے نہ ہو حقیر دنیا علی کی نگاہ میں
تھےعدو حاوی اور بتول نڈھال غم میں
منبر کے لئے کیا تنہا علی و بتول کو
بعد_ رسول کسقدر ستایا آل_ رسول کو
لعین بھی بہت ہیں، ظالم بھی بہت ہیں
اس دنیا میں شر اور شریر بھی بہت ہیں
پر دشمن_ اہل _بیت سا شقی کوئ نہیں
دختر_نبی کاحق چھیننےسےچوکتےنہیں
کبھی وصئ رسول کو کرتے ہیں تنہا تو
کبھی قبر پامال کرنے سے ڈرتے نہیں
��وں کس طرح نہ آذردہ زینب و شبیر
کرتے ہیں جو قبور پامال دشمن_ دلگیر
پروردگار عجب جائے حزن وملال ہے دنیا
دشمن_ دین دیتے ہیں ایذا بزور_ شمشیر
آل_ رسول بھی کرے گی اپنا مقدمہ پیش
رکھیں گی زہرہ پیش_ رب جب کرتہءشبیر
رسول کی قبر پہ تو ہوتے تھے حاضر سب
پر ظالم بھلا دیتے تھےجگر_ رسول کو
فانوسوں تلے پڑھتے تھے وہاں نماز سب
رکھتے تھے بس تاریک قبر_ بتول کو
سیدانیاں تڑپتی تھیں زیارت کو جدہ کی
کنیزیں بھی غمزدہ تھامے دیوار_بقیع کو
آجائیے امام ، بس اب اور انتظار نہیں
حسین کے محب کہتے ہیں بس اور نہیں
بس لیجیئے آ کے انتقام خون_ حسین کا
کیجے بقیعہ میں چراغاں اور کچھ نہیں
ظلم و جفا کی دنیا کو کر دیجیئے منور
مطلوب ہے دور آپ کا اور کچھ نہیں
خضرا اسد،
12/6/19
5 notes
·
View notes
Text
FAIZ AHMAD FAIZ
زہرہ نگاہ کے ہاں دعوت ختم ہوئی تو زہرہ نگاہ نے ساقی فاروقی سے درخواست کی کہ احمد فراز صاحب کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچادیں۔ ساقی نے جواب دیا،
’’میں انہیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا۔ کیونکہ جوں ہی کوئی خراب شاعر میری گاڑی میں بیٹھتا ہے، گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے۔‘‘
اس پر فیض احمد فیض نے فقرہ کسا،
’’ساقی تمہارے بیٹھنے سے تو تمہاری گاڑی کے دونوں پہیئے مستقل ہلتے رہتے ہوں گے۔‘‘
...
0 notes
Text
مسیحی خاتون نے ترجمہ قرآن مجید سے متاثر ہو کر مذہب عسائیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا
سرگودھا میں مسیحی خاتون نے ترجمہ قرآن مجید سے متاثر ہو کر مذہب عسائیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پڑھ لیا۔ زرائع کے مطابق سرگودھا میں قران پاک کی تعلیم ترجمہ قرآن مجید کے ساتھ دی جا رہی تھی جس سے متاثر ہو کر سرگودھا شہر کے علاقہ 49 ٹیل مریم ٹاون پھول نگر کی مسیحی خاتون نایاب صدف نے دعوت دین اسلام کو پسند کر لیا اور شہر کے ماڈل مدرسہ مدینہ غوثیہ کے عالم دین مولانا نگاہ مصطفی کے ہاتھوں اسلام قبول کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پڑھ لیا جس پر گواہان ذیشان پرویز اور محمد سیف اللہ کی موجودگی میں اس کا اسلامی نام نایاب زہرہ رکھ دیا گیا اس موقع پر اسلام قبول کرنے پر خاتون کو خوش آمدید کہتے ہوئے برقعہ زیب تن کروا کر اسلام کے مطابق پردہ داری تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی جس پر خاتون نے پانچگانہ نماز کی پابندی اور قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ Read the full article
0 notes
Text
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیںکرتا
سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاںاس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوےکے انڈوں کو پروںسے تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے
کوئی پُل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!!
(زہرہ نگاہ)
16 notes
·
View notes
Text
مرتی ہوئی مڈل کلاس تہذیب
لگ بھگ نو دن پہلے ایک چھ سالہ بچی زہرہ شاہ کی بحریہ ٹاؤن پنڈی کے ایک رہائشی اور اہلیہ کے ہاتھوں تشدد آمیز موت کے سبب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں تھوڑی بہت تشویش انگیز پھڑ پھڑاہٹ ہوئی اور پھر خبری ندی کا پانی اسی بہاؤ پر بہنے لگا جس رخ بہنا اس کی عادت ہے۔ آپ میں سے شائد بہت سوں کو یاد ہو کہ گھریلو مشقت میں ملوث بچوں پر بہیمانہ تشدد کی موجودہ سیریز کا سب سے معروف واقعہ لگ بھگ ساڑھے تین برس پہلے اسلام آباد میں سامنے آیا جب ایک دس سالہ بچی طیبہ کو اس کے متمول مالک اور مالکہ نے مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا۔ مالک راجہ خرم علی ایڈیشنل سیشن جج تھے۔ انھوں نے ابتدا میں دباؤ اور اثر استعمال کرتے ہوئے بچی کے والد سے جبری معافی نامہ بھی حاصل کر لیا مگر پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت پر اس کیس کی ٹرائل کورٹ نے ازسرِنو سماعت کی اور ملزم جوڑے کو ایک برس قید کی سزا ہو گئی۔ طیبہ کو ایک رفاعی اصلاحی ادارے میں قیام و تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا۔
طیبہ تشدد کیس سے لے کر اب سے نو دن پہلے تک کے زہرہ شاہ قتل کیس تک ایسی وارداتیں کم تو خیر کیا ہوتیں، بس اتنا ہوا کہ ان واقعات کی الیکٹرونک میڈیا میں نسبتاً زیادہ تشہیر ہونے لگی۔ اب تو یہ ایک ایس او پی بن گیا ہے کہ ایک آدھ دن تک ٹویٹر، فیس بک وغیرہ پر ایسے واقعات کی مذمت ہوتی ہے اور پھر اگلے کسی واقعے تک خاموشی چھا جاتی۔ ماشاﷲ ایسی عادت ہو گئی ہے کہ جب بھی کسی دور یا قریب والے کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو ’’ ریسٹ ان پیس ’’لکھ کر اس کی تدفین میں خود کو شریک کر لیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی، بالخصوص اقلیتی فرد، عورت یا بچے پر ظلم کا کوئی واقعہ یا ویڈیو نگاہ سے گذرے تو بس نہائت افسوسناک ( ویری سیڈ ) لکھ کر اپنی آواز بلند کرنے کا فرض نبھاتے ہوئے ماؤس کلک کر دیتے ہیں۔ سنا ہے سوشل میڈیا سے قبل ایک ضمیر ہوتا تھا جو اکثر سو جاتا تھا اور اسے جگانا پڑتا تھا۔ اب دل کی طرح ضمیر کا بھی بائی پاس عام ہو چلا ہے۔
طیبہ کیس کے بعد امید یہ تھی ( مجھے یہ جملہ لکھتے ہوئے ہنسی روکنا پڑ رہی ہے مگر لکھنا بھی ضروری ہے ) کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ہر چھ تا سولہ برس کے پاکستانی بچے کے لیے لازمی و مفت تعلیم کے حق پر عمل درآمد کی خاطر اپنے عملی ڈھانچے کو اوپر سے نیچے تک ازسرِ نو استوار کریں گی۔ نیز کم عمری کی مشقت کے خلاف نافذ قوانین کو مزید بہتر کریں گی اور اگر کم عمر گھریلو ملازموں کو سپلائی اور ڈیمانڈ کے مطابق ہلکے پھلکے کام اور بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ سے روکنا انتظامی طور پر مشکل ہے تو بطور متبادل سرکاریں مرکز سے تحصیل لیول تک کوئی ریگولیٹری ادارہ بنائیں گی۔ صرف اسی ادارے میں رجسٹرڈ بچوں کو ہی گھروں میں ایک تحریری معاہدے کے تحت طے شدہ کام دیا جا سکے گا۔
اس معاہدے میں کام کاج کے لیے رکھے جانے والے بچے کے معاوضے، رہن سہن کے بنیادی معیار اور کام کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حق کے تحفظ کے لیے بھی قانونی تحفظات شامل کیے جائیں گے۔ ادارے کی معائنہ ٹیمیں کسی بھی وقت کسی بھی گھر میں ایسے کسی بھی بچے سے ملاقات کر سکیں گی اور ادارے کے پاس اپنے قواعد و ضوابط پر عمل کرانے کے لیے ضروری اختیارات اور قوتِ نافذہ بھی ہو گی۔ مگر اس ساڑھے تین برس کے عرصے میں ہوا کیا؟ وفاقی سطح پر مشقتی قوانین میں معمولی رد و بدل ہوا۔ جب کہ پنجاب نے جنوری دو ہزار انیس میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کیا جس کے تحت پندرہ برس سے کم عمر کے بچوں سے گھریلو مشقت لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر ہر نئی واردات ثبوت ہے کہ بچوں کی سلامتی سے متعلق قوانین بھی کم سن بچوں کی طرح لاچار ہیں۔
اب تک کم سن گھریلو ملازموں پر تشدد اور موت کے جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، ان میں ایک افسوسناک رجحان مسلسل دیکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر واقعات متوسط اور اعلی متوسط گھرانوں میں پیش آ رہے ہیں۔ زیادہ تر واقعات ڈاکٹروں، وکلا، مینیجریل کلاس، کارپوریٹ سیکٹر یا معاشرے کی نام نہاد پڑھی لکھی کریم کے ہاں یا اردگرد ہو رہے ہیں۔ آپ کو طیبہ کیس میں ملوث ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی بظاہر باشعور اہلیہ سے لے کر زہرہ شاہ کیس میں ملوث احسن صدیقی اور ان کی مڈل کلاس اقدار میں گندھی اہلیہ تک اور لاہور میں ہائیکورٹ کے ایک سرکردہ وکیل کے خاندان کے ہاتھوں ایک کم سن ملازمہ کو استری سے جلانے کے واقعے سے لے کر کراچی کے اعلی متوسط علاقے بہادر آباد میں ایک نو عمر ملازم کو معمولی چوری کے شک میں ایک کھمبے سے باندھ کر پڑھے لکھی پروفیشنل کلاس کی لنچنگ تک ایک تشویش ناک پیٹرن دکھائی دے گا۔
یہی مڈل کلاس بظاہر نا انصافیوں پر سب سے زیادہ شور مچاتی ہے اور عملاً یہی مڈل کلاس ان ناانصافیوں کے ڈھانچے میں ریڑھ کی پوشیدہ ہڈی بھی ثابت ہو رہی ہے۔ جو لوگ ہوا میں سب سے زیادہ مکے چلا رہے ہیں، ان میں سے ہر دوسرے یا تیسرے کے گھر میں کوئی نہ کوئی کم سن بچہ یا بچی کام کاج میں جٹے ہوئے ہیں۔ وہ رات کو کس حالت میں سوتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کیا سہتے ہیں۔ یا تو ان بچوں کو یہاں رکھوانے والا دلال یا ضرورت مند باپ جانتا ہے یا پھر خود یہ بچہ۔ پوچھنا یہ ہے کہ چلیے سرکاری پیلے اسکولوں کا حال تو ہر اعتبار سے برا ہے۔مگر مہنگے اعلی تعلیمی اداروں میں بچوں کو کس طرح کی بنیادی تہذیبی اقدار پڑھائی جاتی ہیں اور ان بچوں کے سرپرست گھروں میں انھیں دوسروں سے حسنِ سلوک کے بارے میں کیا سکھا ، دکھا ، پڑھا رہے ہیں؟
جب کسی گھر میں ایک چھ سالہ بچی پر والدین کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد دیکھنا کسی بھی چار پانچ سال کے برخوردار سے لے کر اٹھارہ سال تک کی لڑکی کے لیے معمول کا منظر بن جائے تو پھر وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں اپنے سے کمزور لوگوں سے کیا سلوک کرے گا یا کرے گی ؟ زہریلی تربیت کا یہ ببول ایک سے اگلی کتنی نسلوں تک بطور ٹرافی منتقل ہوتا چلا جائے گا۔ کیا یہ بھی کبھی مجھے ایسے کسی مڈل کلاسئے نے سوچا جو صرف کھوکھلے خوابوں کے سہارے جہاں بدلنے کا پختہ ارادہ باندھتے باندھتے مر جاتا ہے۔ اپنی مرتی ہوئی اقدارکے متعفن کفن میں جھانکیے۔ آپ کو طیبہ سے زہرہ تک ہر بچے کو پڑنے والے ہر ہر چانٹے اور ڈنڈے کی ضرب کا جواب مل جائے گا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز ی��د کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via India Pakistan News
0 notes
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Today Urdu News
0 notes
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Urdu News
0 notes
Text
ہر آن سِتم ڈھائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
دل غم سے بھی گھبرائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
کیا غیر کو ڈھونڈیں، کہ تِرے کوُچے میں ہرایک
اپنا سا نظر آئے ہے، کیا جانیے کیا ہو
آنکھوں کو نہیں راس کِسی یاد کا آنسو
تھم تھم کے ڈھلک جائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
اِس بحر میں ہم جیسوں پہ ہرموجۂ پُر خوُں!
آ آ کے گُزر جائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
دُنیا سے نِرالے ہیں تِری بزم کے دستور
جو آئے سو پچھتائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
زہرہ نگاہ
6 notes
·
View notes
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پ��اری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
جھکی جھکی آنکھیں - ممتاز مفتی
عذرا ان عورتوں میں سے ہے جن سے وصال میں بھی تکمیل حصول کی آرزو میں بے ساختہ آہ نکل جاتی ہے۔ جو دلخراش حقائق سے دور کسی رنگین دنیا میں رہتی ہیں ۔ یوں تو ہر عورت کی دنیا حقائق سے بے نیاز ہے مگر عذرا میں یہ خصوصیات نمایاں ہے۔ عذرا کو بار بار دیکھ کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس لحاظ سے ��سین ہے۔ کتابی چہرہ، حساس ناک، مسکین سے ہونٹ، حیران موٹی موٹی آنکھیں اور گداز جسم۔ اس کی حیران خوابیدہ آنکھیں جو اس کی قوت تکلم کا بیشتر حصہ سلب کر چکی ہیں ، نہ جانے کون سی دنیا میں رہتی ہیں ۔ بہرصورت وہ اس مختصر مکان میں جہاں وہ اس کا خاوند اور ساس رہتے ہیں ، رہتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی کمر کا وہ ہلکا خم جس کی وجہ سے اس کی گردن ذرا بائیں طرف مڑی رہتی ہے، بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ کسی وقت مجھے شبہ ہوتا ہے کہ یہی خم اس کی جاذبیت کا راز ہے۔ جب کبھی عذرا کچھ بن رہی ہو یا پڑھ رہی ہو اور جھکی جھکی آنکھوں سے باتیں کرے تو تمہارے دل میں ایک لطیف احساس پیدا ہو گا کہ بے شک زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اور مل بیٹھنے میں ضرور راحت ہے۔ لیکن اگر وہ آنکھیں اٹھ کر تمہاری طرف نظر بھر کر دیکھ لے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کیا محسوس کرو گے۔ اس وقت تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عذرا مجھ سے کوسوں دور ہے۔ یقین نہیں پڑتا کہ وہ زندگی کی حقیقت ہے یا محض خواب۔ اس وقت چراغ مدھم پڑ جاتے ہیں اور دنیا گھوم جاتی ہے۔ کوئی دس بارہ مہینے ہوئے ہوں گے۔ جب وہ یہیں سکول میں دسویں جماعت میں پڑھا کرتی تھی۔ مگر ان دنوں اس کے انداز میں یہ بات نہ تھی۔ حیرانیاں تو اس کی نگاہ میں جھپٹنے ہی سے تھیں ۔ شاید اس لئے کہ بچپن سے ہی وہ سوتیلی ماں کے پاس رہتی تھی مگر شادی کے بعد اس کی نگاہیں اور بھی حیران ہو گئیں اور اب وہ ترنم سے بھیگ چکی ہیں ۔ اس کی گردن کا جھکاؤ کچھ اور جھک گیا ہے اور اس کی پلکیں کسی خوابوں کی بستی کو ڈھانپے رکھتی ہیں ۔ ان دنوں جب سکول سے لوٹا کرتی تو اس کے انداز میں ’’بیگانہ روئی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش عیاں ہوتی مگر کبھی کبھار کوئی دبی ہوئی مسرت چھلک پڑتی، چلتے چلتے ٹھمک جاتی یا آنکھ میں ہلکا سا تبسم لہرا جاتا، جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ اسے زندگی سے دلچسپیاں محسوس ہو رہی ہیں ۔ وہ اپنے انداز میں ایسی بیگانہ روئی پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھی جو والدین کے نقطہ نظر سے ہر شریف بچی میں ہونی چاہئے۔ خدا جانے والدین اپنے بچوں میں بیداری دیکھنے کے متحمل کیوں نہیں ہو سکتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے تبھی کلیوں کی طرح سوئے سوئے ہی رہیں اور یونہی سوئے سوئے ہی مرجھا جائیں ۔ اس لئے وہ ان میں بیداری پیدا نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیتے ہیں اور جو پیدا ہو جاتی ہے اسے نہ دیکھنے کا۔ عذرا کے والد موخرالذکر قسم کے آدمی تھے۔ گھر میں کھانے پینے کے لئے کافی تھا اور جمع کرنا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ بیویوں کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو بہت بدنصیب سمجھتے تھے۔ انہیں گلہ تھا کہ ان کی بیویوں کی شادی کے فوراً بعد ہی عام ہو جانے کی قبیح عادت ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسی بیوی ملے جو گوناگوں ہو اور ان کا ایمان تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی اسے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس لئے وہ اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ان کے خیال میں بیوی کا یوں عام ہو جانا اسکی بد مذاقی کی دلیل ہے اور وہ اپنے خیال کو اکثر ظاہر کیا کرتے تھے۔ انجینئر صاحب کی بیوی کو دیکھئے۔ ۔ اس کی آنکھوں میں بیسویں نگاہیں ہیں ۔ ایک سے ایک نئی۔ کبھی وہ اداسی میں تو کبھی سرخی میں ڈوبی رہتی ہیں ۔ کبھی ہم تمہیں جانتے ہی نہیں اور کبھی اب کہئے مزاج کیسے ہیں ۔ کی سی نگاہیں اور پھر ان کا تو رنگ بھی ادلتا بدلتا ہے۔ کبھی گلابی گلابی، گہری گہری، گدری گدری، میلی میلی یہ جو پڑوس میں مسز ملک ہے نہ دیکھنے کے انداز سے دیکھنے میں اسے کس قدر ملکہ ہے، اس کے بھرے ہوئے جسم میں کس قدر خم و پیچ مضطرب رہتے ہیں ۔ ایک وہ عذرا کی ماں تھی کہ بیٹھ جاتی تو گھنٹوں اٹھنا محال ہو جاتا۔ بس دن بھر آلو ہی چھیلتی رہتی تھی اور پھر وہ زمرد تھی کہ ایک مرتبہ ساڑھی کے لئے بگڑ بیٹھی تو ہفتوں سوج کر بیٹھ رہی اور کچھ کہہ دیا تو ایک عرصہ تک چہرے کی زردی کے سوا گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ عذرا کی ماں کے بعد انہوں نے زہرہ سے شادی کی تھی مگر وہ بھی چند سالوں کے بعد لقمہ اجل ہو گئی۔ خیر اس بات سے ان کی زندگی میں کوئی خاص فرق پیدا نہ ہوا۔ چونکہ شادی کے چند ماہ بعد ہی انہیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ زہرہ میں وہ بات نہیں ۔ اب گھر میں ان کی بوڑھی ملازمہ حشمت اور عذرا کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ خود تو وہ عام طور پر باہر بیٹھک میں بیٹھے رہتے یا کبھی اندر آتے تو عذرا کو کوئی نصیحت کرنے کے لئے کہتے۔ ’’عذرا دوپٹہ سنبھال لو۔ بیٹیوں کو یوں ننگے سر بیٹھنا زیب نہیں دیتا۔ ‘‘ ’’حشمت وہ کھڑکی کیوں کھلی ہے؟ بند کرو اسے۔ دیکھو تو عذرا بیٹھی ہے اور گلی میں لوگ آتے جاتے ہیں ۔ ‘‘ ’’عذرا تم یہ مسز ملک ولک کے ہاں نہ جایا کرو، لڑکیاں اپنے گھر بیٹھی اچھی لگتی ہیں ۔ ‘‘ ان نصیحتوں کے باوجود انہوں نے کبھی آنکھ بھر کر اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔ بیٹی جوان ہو جائے تو جانے کیوں اسے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہیں کبھی عذرا کی شادی کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ نہ ہی انہوں نے اسے کبھی بیٹی کہہ کر بلایا تھا۔ کیونکہ گو وہ چالیس برس کے تھے لیکن ابھی جوان ہی معلوم ہوتے تھے۔ ان کے دوست اور احباب انہیں زینت محفل سمجھتے تھے۔ باہر دیوان خانے میں جمگھٹا رہتا تھا اور قہقہوں سے در و دیوار گونجتے۔ ایک روز صبح سویرے جب عذرا سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی اور اپنا محبوب نیلا سوٹ پہنے بال بنا رہی تھی تو معمول کے خلاف اس کے والد اندر آ کر خشمگیں انداز میں کہنے لگے۔ ’’عذرا آج سے تم سکول نہ جایا کرو۔ بس زیادہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ ’’مگر ابا جان۔ ‘‘ عذرا نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر پوچھا۔ اس کا چہرہ حیرانی اور خوف سے بدنما ہو رہا تھا۔ ’’مگر وگر کچھ نہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’امتحان دینے کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ ایک ساعت کے لئے عذرا کی آنکھیں اٹھیں ۔ شعلے کی طرح چمکیں مگر والد جا چکے تھے۔ حشمت نے ان آنکھوں کو دیکھا اور ایسے محسوس کیا جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ تھر تھر کانپ رہا تھا، پھر وہ جھک گئیں ۔ دو موٹ�� موٹے آنسو رخساروں سے ڈھلک کر لباس میں جذب ہو گئے۔ پھر وہ نگاہیں حیران ہوتی گئیں ۔ اپنے ماحول سے سمٹ کر اپنے آپ میں جذب ہوتی گئیں ۔ اس دن سے عذرا کو ٹھمکتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا اور اسے بیگانہ روئی پیدا کرنے کی شاید ضرورت ہی نہ رہی۔ شام کو وہ کوٹھے پر چلی جاتی اور گھنٹوں کھیتوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے کھوئی ہوئی سی رہتی۔ حتیٰ کہ پندرہ دنوں کے اندر اندر اس کے والد نے نذر سے نکاح پڑھوا کر اسے رخصت کر دیا۔ غالباً اس لئے کہ عذرا کی بیداری کا زمانہ اس قدر مختصر تھا کہ آیا وہ چلا گیا۔ وہ اس قدر گہرا اثر چھوڑ گیا، جس طرح کسی ویران وادی میں کسی آوارہ طائر کی لرزتی ہوئی تان۔ چند ایک ساعت کے لئے ان خاموش مہیب چٹانوں میں ابھر ابھر کر خاموشیوں کے مسکن کو اور بھی خاموش اور بھیانک تر چھوڑ جاتی ہے۔ اس جھٹ پٹ پر خلق خدا کے ماتھے پر شکن پیدا ہونے ہی تھے۔ چہ میگوئیاں ہوئیں ، دبی دبی آوازیں اٹھیں ، مگر آواز کسنے کی نوبت نہ پہنچی۔ ایک تو محلے والیوں کو عذرا سے کوئی گلہ نہ تھا اور عذرا کوئی اس قدر حسین یا شوخ یا طرح دار نہیں سمجھی جاتی تھی کہ محلہ والیاں اس سے کینہ دوزی کرتیں ۔ دوسرے انہیں عذرا کے والد سے بھی کوئی رنجش نہ تھی کہ انہیں نشتر کرتیں ، بلکہ وہ تو ان کی نکتہ رس نگاہوں سے واقف ہونے کے علاوہ ان کی نگاہوں کی قدردان تھیں ۔ چند ایک مثلاً انجینئر کی بیوی اور مسز ملک جنہیں آواز کسنے میں ملکہ تھا۔ ان کا تو یہ گلہ تھا کہ ڈھول نہ چھم چھم۔ نہ تاک نہ جھانک، نہ تو تو، میں میں ۔ یہ بھی کیا شادی ہوئی۔ کئی ایک کو تو مدت سے عذرا کی شادی کی تقریب سعید کا انتظار تھا کہ شادی ہو اور مہمان بن کر جائیں ۔ حنا مالیدہ ہاتھ ہوں ۔ جھلملاتی ہوئی ساڑھیاں ہوں ۔ کاجل، جھمکے، بندیاں چمکیں ۔ پلیٹوں سے چوڑیاں بجیں ، پان بنائے جائیں اور اس افراتفری میں اچانک کوئی آ نکلے تو گھونگھٹ نکالنا تو کیا دوپٹہ سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے۔ کوئی گستاخ لٹ جھٹک کر منہ پر آگرے اور ناک میں دم کر دے یا پتلی پتلی گوری گوری انگلیاں دوپٹے کو سنبھالنے کی ناکام جستجو میں عریاں رہ جائیں ۔ باریک تہوں سے نظریں چھن چھن کر پڑیں ۔ سفید سفید باہیں گھونگھٹ سے نکل کر کچھ دیں ، کچھ لیں ۔ یعنی ایسی شادی ہو کہ نام رہ جائے بلکہ چرچا ہو۔ آخر خلق خدا خلق خدا ہی ہے اور بات بات ہے جو نکل ہی جاتی ہے۔ کسی نے کہا کسی سے آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ کوئی کہنے لگی۔ ’’لو اب ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی تھی۔ ‘‘ کوئی کہنے لگی۔ ’’سنا ہے اس کے ابا نے خط پکڑ لیا۔ ‘‘ کوئی بولی۔ ’’ایلو بی بی وہ تو اس کے ابا نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ دفتر سے آ رہے تھے۔ باغ میں وہ اسے پہلو میں لئے بیٹھا تھا۔ توبہ کیسا زمانہ آیا ہے۔ ‘‘ غرضیکہ کئی باتیں نکلیں بلکہ کون سی باتیں تھیں جو رہ گئیں ۔ مگر دبی دبی ہوئی اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ اس بے چاری کا یہی قصور تھا کہ سکول جاتے ہوئے تانگے میں یوں آنکھیں جھکائے ہوئے بیٹھی رہتی کہ مرمریں بت کا شبہ ہوتا اگر کسی شوخ چشم کے دل میں اس بت کو دیکھ کر ایک م��ور پیدا ہو جائے اور اسے اس بات میں محو کر دے تو عذرا کا اس میں کیا قصور، ہاں سکول کی ویران سڑک پر ہوا کھانے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔ پوری تفصیلات سے مجھے واقفیت نہیں ، ہاں سلیم کا اونچا لمبا قد اور فراخ شانے اور اس کا انداز بے نیازی.... اس امر کا شاہد ہے کہ اسے تانک جھانک سے کوئی دلچسپی نہیں ، نہ وہ خود ساختہ مصیبت مول لینے کا عادی ہے غرضیکہ وہ ان نوجوانوں میں سے نہیں جو کسی کے تصور میں اوندھے پڑے رہنے، آہیں بھرنے اور شعر پڑھنے کی دلچسپ کیفیت میں مبتلا رہنے کے مشتاق ہیں ۔ چند دن تو صبح چھ بجے وہ روز اس سڑک پر اپنے سائیکل پر سوار گھومتا رہا، پھر ایک روز جب چھٹی کے وقت عذرا سکول کے پھاٹک کے قریب کھڑی اپنے تانگے کی راہ دیکھ رہی تھی تو سلیم نے آ کر اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا اور اسے شانوں سے پکڑ کر پوچھنے لگا۔ ’’تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تم بولتی کیوں نہیں ....؟ اچھا۔ ‘‘ اس نے ذرا سے جھنجھوڑ کر کہا۔ ’’تم چاہے کوئی بھی ہو تم میری ہو اور تمہیں اب مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ ‘‘ اور پیشتر اس کے کہ عذرا سمجھتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا اسے کیا کرنا چاہئے۔ سلیم جا چکا تھا۔ پھر اسے یاد نہیں کہ اس روز تانگے والے نے دیر سے آنے کے لئے کیا عذر پیش کیا تھا یا کس راستے سے وہ آئے تھے یا راستے میں پھاٹک پر کتنی دیر انتظار کرنا پڑا تھا یا رکنا پڑا بھی تھا یا نہیں اس روز اس کی آنکھیں تبسم سے آشنا ہوئی تھیں اور اس کی چال نے ٹھمکنا سیکھا تھا۔ اسے اس واقعے کی حقیقت پر اعتبار نہ آیا تھا۔ مگر اس کے بلوریں شانوں پر دو تین نیلے نیلے داغ دلچسپ گرفت کے شاہد تھے اور اس کے شانوں پر لذیذ سا درد ہو رہا تھا۔ اس روز اپنے طوطے سولی سے کہہ رہی تھی۔ ’’سولی چاہے تم کوئی بھی ہو، تم میرے ہو۔ تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا کوئی بھی نہیں ۔ ‘‘ وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ پھر اس مصنوعی سنجیدگی نے شاید اسے گدگدایا۔ وہ ہنس پڑی۔ ’’کیوں سولی ہے نا۔ ‘‘ اس کے بعد ان کی دو چار سرسری ملاقاتیں ہوئی ہوں گی اور دو چار خطوط آئے گئے ہوں گے اور بس۔ سلیم ہمیشہ کے لئے اس کے لئے چند ایک دھندلے دھندلے نقوش، چند ایک دل کی پر کیف دھڑکنیں اور ہاتھوں اور شانوں اور کمر پر چند ایک لطیف دباؤ اور سینے کی چند مبہم تھرتھراہٹوں کے سوا اور کچھ نہ رہا تھا۔ جس قدر یہ نقوش مدھم تھے، اس کے دل میں ان کے متعلق حسیات اسی قدر گہری تھیں ۔ گاڑی میں عذرا اپنی ساس کے ہمراہ درمیانے درجے کے ڈبے میں بیٹھی تھی۔ وہ جا رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ نذر کے ساتھ جا رہی ہے اس کا دل کہہ رہا تھا۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ خواب دیکھ رہی تھی جیسے قدرت اسے چھیڑنے کے لئے مذاق کر رہی ہو کہ وہ ابھی جاگ پڑے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ خواب نہیں تو اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ ایسی بات کیسے ممکن ہو سکتی تھی۔ باہر کھیتوں میں گرمی سے جھلسا ہوا پھیکا سبزہ لہرا رہا تھا اور سبز ہونے کے باوجود آنکھوں میں چبھتا تھا۔ ان کھیتوں کے وسیع پھیلاؤ میں یہاں وہاں بجلی کے بہت دیو نما کھمبے گرد سے اٹے ہوئے کسانوں میں یوں معلوم ہوتے تھے جیسے ٹھگنوں میں کوئی گلیور کھڑا ہو، سورج چمک چمک کر تھک چکا تھا اور اس کی کرنیں زرد پڑ گئی تھیں ۔ دور کہیں کہیں افق پر کوئی میلا سا ٹیلا ان جھلسے ہوئے میدانوں کے تسلسل میں دھندلے خواب کی طرح آتا اور گزر جاتا۔ عذرا اپنی خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے ایسے معلوم ہوتا جیسے اس ٹیلے پر سلیم اسے بلا رہا تھا جیسے دور سڑک پر جو لاری جا رہی تھی، اس میں سلیم بیٹھا ہے۔ پھر اس کے شانے پر کوئی نامعلوم گرفت محسوس کرتی اور وہ سنتی تم میری ہو۔ اب تمہیں مجھ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا اور وہ ٹھٹھک کر بیدار ہو جاتی اور دیکھتی کہ نذر کی ماں اور سولی اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں مگر دونوں کی نگاہوں میں ایک دنیائے اختلاف تھی۔ ماں کی آنکھوں میں تجسس اور تشویش کو اس کی مسکراہٹیں چھپا نہ سکتی تھیں ۔ اس کے برعکس سولی کی آنکھیں پرنم معلوم ہوتی تھیں ۔ غالباً وہ دونوں عذرا کے دل کی کیفیت سے واقف تھے مگر دونوں کی نگاہوں میں کوئی بھی مناسبت نہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، سولی بے زبان ہو کر بھی سمجھتا ہے۔ اس وقت غالباً پہلی مرتبہ اس کے دل میں سولی کو آزاد کرنے کی خواہش ہوئی۔ نہ جانے کتنی بہاریں اس نے اس پنجرے میں گزاری ہیں ۔ کیا اس کے دل م��ں بھی اڑنے کی آرزو باقی ہے؟ کیا اس کے دل میں بھی کسی زمانے کی یاد اٹھتی ہے؟ پھر اس نے سنا کہ ماں کچھ کہہ رہی تھی۔ گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی ماں پوچھ رہی تھی۔ ’’عذرا بیٹی! نذر پوچھتا ہے کچھ پیو گی؟ عذرا نے کنکھیوں سے دیکھا۔ کھڑکی میں کوئی کھڑا تھا اسے کنکھیوں سے بھی ادھر دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ پھر اس نے ایسے محسوس کیا جیسے کسی نے اس کے شانوں سے پکڑ کر اس کا منہ دوسری طرف پھیر دیا ہو۔ اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا ہو۔ ’’نہیں اماں تم کہو تو، دیکھو کس قدر گرمی ہے۔ ‘‘ اس بھدی آواز میں کس قدر اداسی تھی۔ ہاں اگر سلیم اس سے پوچھتا اگر وہ سلیم کے گھر جا رہی ہوتی۔ مگر سلیم، سلیم جانے کہاں ہو گا، اسے حالات کا پتہ بھی تھا یا نہیں ۔ شاید اپنی بے چاری عذرا کو بھول ہی چکا ہو، شاید ان رنگین باتوں سے صرف مذاق مقصود ہو یا وقت کٹی۔ مگر اس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی کہہ رہا تھا۔ نہیں ۔ نہیں ۔ یہ الزام ہے۔ سلیم ایسا نہیں ۔ پھر دو اداسی بھری متبسم آنکھیں اس کے سامنے معلق ہو جاتیں ۔ نہیں ۔ وہ آنکھیں مذاق نہیں کر سکتیں ۔ حقیقت سے لبریز ہیں ۔ اس کے دل میں یقین سا ہو جاتا، وہ آئے گا۔ وہ ضرور آئے گا۔ وہ دنیا کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ شاید وہ اسی گاڑی میں موجود ہو۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو۔ وہ ایک جھرجھری سی محسوس کرتی۔ نہیں ۔ وہ بیمار نہیں ۔ بس نہیں عذرا اپنا سر کھڑکی کی چوکھٹ پر ٹیک دیتی اور اسے ایسے محسوس ہوتا کہ وہ چوکھٹ نہیں ، سلیم کے شانے ہیں ۔ وہ سمٹ کر ان شانوں پر جھک جاتی۔ چاہے کچھ بھی ہو، اب مجھ کو تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا.... کوئی بھی نہیں ۔ ساس نے اسے کمرے میں ایک فراخ پلنگ پر بٹھا دیا۔ کمرے میں دھندلی روشنی تھی۔ تمام مکان سنسان محسوس ہوتا تھا۔ دو چار عورتیں عذرا کو دیکھنے آئیں مگر چند منٹ ٹھہریں اور چلی گئیں ۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی ویران کھنڈر میں بھوت چل پھر رہے ہوں ۔ اس رات لیمپ روشن نہیں معلوم ہوتے تھے اور اندھ��را ہی اندھیرا تھا، اس کی جھکی جھکی آنکھوں کے سامنے سلیم کھڑا تھا، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے سلیم کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ دور ہوا درختوں میں ٹہنیوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی سامنے کھڑکی کے شیشے سے ایک اداس کالا درخت نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی کے باہر اندھیرا جھوم جھوم کر منڈلا رہا تھا لیمپ کے شعلے میں سلیم کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کی جھریاں تھیں ۔ عذرا کی آنکھ کھل گئی اس نے اضطراب سے چاروں طرف دیکھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ سلیم کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیسا بیدار حسین خواب تھا۔ اس نے کروٹ بدل لی اور آنکھیں بند کر لیں وہ اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتی تھی۔ مگر بند ہونے کے علاوہ اس کی آنکھ میں نیند کا نشان بھی نہ تھا۔ یکلخت باہر سڑک پر کسی تانگے والے کی ’’پہاڑی‘‘ کی تان اس کے کان میں پڑی۔ تانگے کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ عذرا کے لئے پہاڑی کی تان سے کہیں زیادہ دلکش تھی۔ اس کے سامنے سکول والی سڑک لہرا گئی۔ جب وہ آزاد تھی۔ جب وہ تانگے پر آیا جایا کرتی تھی۔ جب پہلی مرتبہ اس نے سلیم کی حیران اور مخمور آنکھ دیکھی تھی۔ سلیم کی پہلی ٹکٹکی۔ اس کے بند بند میں درد ہو رہا تھا۔ سولی کی چیخ سن کر وہ اٹھ بیٹھی۔ بے چارہ سولی بھی اس چار دیواری میں قید محسوس کر رہا تھا۔ کمرے کی دوسری طرف کپڑے کی کرسی میں نذر سویا ہوا تھا۔ جیسے وہ عذرا کی طرف دیکھتا ہوا سو گیا ہو۔ چہرے پر ایک تبسم سا تھا۔ جیسے کوئی خواب میں اسے گدگدا رہا ہو۔ باہر فضا میں دھیمی رو پہلی روشنی پھیل رہی تھی۔ ساتھ والے کمرے سے کھڑکھڑاہٹ سی سنائی دی۔ عذرا سمٹ کر چارپائی کے کونے پر بیٹھی۔ ’’عذرا.... نذر۔ ‘‘ نذر کی ماں بلا رہی تھی۔ نذر لپک کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے پر اضطراب چھا گیا۔ اس نے آنکھیں ملیں اور چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں عذرا پر آ رکیں ۔ پھر اس کے منہ پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جیسے کوئی کسی لطیف خواب کو حقیقت کے لباس میں دیکھ کر کھل جائے۔ ’’آیا اماں !‘‘ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اگلے روز دن بھر عورتیں آتی جاتی رہیں ۔ ہر کسی کو عذرا کو دیکھنے کا شوق تھا۔ ادھیڑ عمر کی عورتیں جن کے لئے جوانی کے چند دن دھندلے نقوش اور بیگانہ سے احساس تھے۔ عذرا کو اس انداز سے دیکھتیں جیسے کوئی اپنی گزری ہوئی دلچسپیوں کو خواب میں دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ مگر کوئی دبی دبی ہوئی آہ اس مسکراہٹ کو اداس بنا دیتی۔ وہ شوق سے آتیں مگر کھوئے ہوئے انداز سے لوٹتیں ۔ جس طرح کوئی اپنی گذشتہ زندگی کے کسی رنگین واقعے کو یاد کر کے اپنی کھوئی ہوئی جوانیوں پر کسک سی محسوس کرتا ہے اور اپنے گرد ایک اداسی اور مٹی ہوئی دنیا پاتا ہے۔ دو ایک جوانی سے سرشار لڑکیاں بھی آئیں ۔ لچکتی ہوئی، ٹھمکتی ہوئی، مسکراتی ہوئی۔ ’’ہم جانتے ہیں ۔ ‘‘ کی سی مسکراہٹیں ۔ ’’بس یہ ظاہر داری رہنے دو۔ ‘‘ ابھی تو اس نگری کی دہلیز پر بیٹھی ہو۔ ‘‘ کی سی نگاہیں اچھالتی ہوئی۔ بنتی سنورتی، ٹہلتی ہوئی مگر عذرا اپنی نگری میں گم صم تھی۔ لیکن جب کوئی نووارد اس کا منہ دیکھنے کے لئے اس کا گھونگھٹ اٹھاتی تو وہ چونک پڑتی۔ پھر اسے یاد آتا کہ وہ کہاں ہے اور کون ہے اور اس کا چہرہ شرم سے تمتما اٹھتا۔ وہاں صرف سولی ہی ایسا متنفس تھا جو اس کے دل کی کیفیت سے واقف تھا۔ سولی اپنے پنجرے میں یوں مضطرب تھا جیسے اسے از سر نو قید کیا گیا ہو۔ وہ چاروں طرف دیکھ دیکھ کر پر پھڑپھڑاتا اور ان دیواروں کی ��جنبیت محسوس کر کے بار بار چیختا۔ شام کے وقت نذر نے سولی کا پنجرہ عذرا کے پلنگ کے قریب رکھ دیا۔ سولی نے عذرا کو دیکھ کر چیخنا بند کر دیا اپنی گردن موڑ کر اپنے بازوؤں پر رکھ دی اور عذرا کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ گیا۔ عذرا نے سولی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھ میں چمک آ گئی۔ صرف سولی ہی اس کا راز دار تھا، جس سے وہ سلیم کی باتیں کر سکتی تھی۔ نذر عذرا کے پاس آ بیٹھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی جھلک تھی۔ ’’تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا، عذرا کچھ تو کھاؤ، اماں نے تمہاری اتنی منتیں کی ہیں ۔ ‘‘ اس نے دھیمی منت بھری آواز میں کہا۔ ’’یہ تمہارا اپنا گھر ہے عذرا تم اس کا مالکہ ہو۔ ‘‘ اس کا حلق جذبات کی بھیڑ سے رک رہا تھا۔ اس نے اپنے بھدے سے ہاتھوں میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’عذرا تم چپ کیوں ہو؟‘‘ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی زبان کہنے والی زبان نہ تھی مگر اس کا ہاتھ خاموش اور مدھم زبان سے اپنا مفہوم ادا کر رہا تھا۔ اس وقت وہ بھدا گرم ہاتھ قوت گویائی سے زیادہ متکلم تھا۔ عذرا نے وہ پیغام کانوں سے نہیں بلکہ جسم کے بند بند میں سنا اور اس کی تمام قوت شل ہو گئی۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی مگر وہ اپنے جسم پر قادر نہ تھی۔ کوئی نامعلوم طاقت اس کی مرضی کے خلاف اس کے جسم کو تھپک تھپک کر سلا رہی تھی۔ صرف دماغ کا کوئی نحیف حصہ جسم کی اس غداری اور اپنی بے بسی پر پیچ و خم کھا رہا تھا۔ جس طرح ڈراؤنا خواب دیکھ کر کوئی چیخ چلا کر بھاگ اٹھنا چاہتا ہے، مگر جاگ نہیں سکتا۔ اسی طرح عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ اس میں اپنا ہاتھ چھڑانے کی قدرت نہ تھی۔ اس نے ایک مخموع دھندلکے میں نذر کا ہاتھ دیکھا۔ سلیم کا ہاتھ بھی اسی طرح بڑا اور گرم تھا۔ ہاں سلیم کا ہاتھ متحرک تھا۔ بلا کا شوخ.... اس کے دل میں خواہ مخواہ آرزو پیدا ہو گئی کہ وہ بھدا ہاتھ متحرک ہو جائے۔ اس کی اپنی تمام قوت شوخی زندگی اس گھڑی کے لئے اس بڑے بھدے ہاتھ اور ان مضبوط بانہوں میں منتقل ہو جائے۔ اس کا جسم اس بھدے ہاتھ کے لئے منتظر تھا۔ بے تاب تھا اور وہ اپنی اس خواہش پر شرم محسوس کر رہی تھی اور پریشان تھی۔ مگر وہ احساس شرم اور پریشانی کسی نقار خانے میں طوطی تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔ سلیم کا ہاتھ اس کے جسم سے مس ہو رہا تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے سامنے سلیم آ کھڑا ہوا۔ تم ہو سلیم....! مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ اس کے شانے جھک گئے۔ سر جھک گیا اور سلیم کے شانوں پر ٹک گیا۔ سلیم کی دو مضبوط بانہیں اس کے گرد آ پڑیں ۔ وہ سلیم کے پاس تھی۔ نذر کسی دفتر میں کلرک تھا۔ اس کے والد نذر کے لئے ایک معمولی سا مکان اور چند واجب الادا رقمیں چھوڑ کر مرے تھے۔ وہ عذرا کے والد کے بہت گہرے دوست تھے۔ نذر نے کچھ عرصہ پہلے کہیں اتفاقاً عذرا کو دیکھ لیا تھا اور عذرا کی نیچی نگاہوں اور اس کی لٹکی ہوئی لٹ نے اسے کئی دن پریشان رکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ عذرا کو اپنے خوابوں میں جگہ دینا اپنا شیرازہ ہستی پریشان کرنا ہے۔ مرحوم دوست کے قلاش بیٹے کو کون خاطر میں لاتا ہے۔ جب اس نے اپنی ماں سے سنا کہ عذرا کے والد رضا مند ہیں بلکہ جلد نکاح کرنے پر رضامند ہیں تو اسے یقین نہ آتا تھا۔ اب بھی وہ کبھی کبھی سمجھتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اور وہ ابھی جاگ اٹھے گا اور اسے احساس ہو گا کہ ایک غریب کلرک کو ایسی مدہوش کن خوابیں ان لامتناہی فائلوں کے سامنے کس قدر مہنگی پڑتی ہیں ۔ مگر شاید یہ بھی فطرت کی ستم ظریفی تھی کہ عذرا اب صریحاً اس کی تھی۔ نذر کے لئے عذرا کی آمد مسرت کی ایسی لہر تھی جو ہر غیر متوقع خوشی میں ہم رکاب ہوتی ہے۔ اس کی خواہشات میں جو صرف ضروریات زندگی تک محدود تھیں ، ساڑھیاں جھلملانے لگیں ۔ پھول مہک اٹھے اور طلائی چوڑیوں کی جھنکار نغمہ زن ہو گئیں ۔ عذرا کے لئے حسین نازک چیک ہو، عذرا کے لئے قد آدم آئینہ ہو، عذرا کے لئے شربتی ریشم ہو۔ عذرا کے لئے.... عذرا اس کی خواہشات میں بھنور بن کر آئی تھی۔ اس نے ایک چھوٹا سا پرانا ٹائپ رائٹر خرید لیا تاکہ فرصت کے وقت ٹائپ کر کے اپنی آمدنی بڑھائے۔ یہ سب کچھ اس کے دل کی گہرائیوں میں ہوا اور کسی کو معلوم نہ ہوا کہ ان گہرائیوں میں کیا ہو رہا ہے اور اس کی خاموشی حسرت بھری تشویش ہے۔ عذرا کو پہلی مرتبہ ساڑھی میں دیکھ کر نذر کی آنکھ میں ایک مخمور چمک آ گئی۔ بوڑھی ماں نے جھکی ہوئی آنکھوں سے بیٹے کے تبسم کو محسوس کیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے غسل خانے میں یا کسی اور جگہ کوئی ضروری کام بلا رہا ہو۔ اس کی آنکھوں نے چاروں طرف دیکھا۔ پھر وہ نذر کی جرابوں میں آن ٹھہریں ۔ ’’بیٹا یہ جرابیں مجھے دے دو۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’دیکھو کیسی میلی ہو رہی ہیں ۔ لاؤ نہیں دھو دوں ۔ ‘‘ نذر نے چونک کر اپنی نگاہوں کو عذرا کی نیلی ساڑھی سے چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں اماں یہ تو اچھی بھلی ہیں ۔ پرسوں ہی تو پہنی تھیں ۔ ‘‘، ’’نہیں بیٹا۔ نہیں !‘‘ ماں نے اصرار سے کہا۔ ’’کیا حرج ہے؟‘‘ جرابیں لے کر ماں چلی گئی۔ کچھ دور تک نذر اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر عذرا کی طرف مڑ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’عذرا یہ نیلی ساڑھی تمہیں بہت زیب دیتی ہے میری طرف دیکھو عذرا!‘‘ نذر نے اپنے ہاتھ سے عذرا کا منہ اپنی طرف پھیر دیا، عذرا نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ہاں اس کے دل کا کوئی حصہ کہہ رہا تھا ان کو بھی نیلی پوشاک بہت پسند تھی۔ اس روز پارک میں کس شوق سے دیکھتے رہے تھے کس قدر پیار بھری نگاہیں تھیں ۔ کس قدر پیاری آواز تھی عذرا تمہیں نیلا لباس کس قدر زیب دیتا ہے اور کس پیار اور منت سے انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا۔ عذرا وعدہ کرو کہ تم ہمیشہ نیلا لباس پہنا کرو گی میرے لئے۔ میری خوشی کے لئے اور وعدہ لے کر کس قدر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کس دیوانگی سے جھومے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ پر دباؤ محسوس کیا۔ سولی کی چیخ نے ��سے بیدار کر دیا۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑا لیا اور اٹھ کر سولی کے پنجرے کے قریب جا بیٹھی۔ وہ سولی سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ پوچھنا چاہتی تھی۔ ’’تم میرے ہو نا سولی؟‘‘ وہ محسوس کر رہی تھی کہ صرف سولی ہی ایسی ہستی ہے جس سے بات کرنے کے لئے بولنے کی ضرورت نہیں ۔ انہیں نیلا رنگ پسند تھا نا سولی؟وہ مجھے نیلی کہا کرتے تھے، تم جانتے ہو نا! اس میں ان کے ہاتھوں کی بو ہے۔ ان کے پیار کی سلوٹیں ہیں ۔ ان پھولوں کا رس ہے جو وہ میرے لئے توڑ کر لایا کرتے تھے۔ کیوں سولی تم جانتے ہو نا....؟ مگر تم نہیں جانتے۔ تم نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ تم صرف سمجھتے ہو اور سولی ان کے نچلے ہاتھ، بڑے بڑے پیارے پیارے بے تکلف ہاتھ اور چھیڑ دینے والی شوخ بانہیں .... اس کے کندھوں کے گذشتہ دباؤ تازہ ہو رہے تھے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اندر جا کر چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس کی نیم وا آنکھوں نے اس مختصر کمرے کو اپنے دامن سے جھٹک دیا۔ یوں ہی دن گزر گئے۔ راتیں گزر گئیں ۔ مہینے گزر گئے۔ یوں تو رہنے کو عذرا اس مکان میں رہتی تھی مگر اس کی نیم وا آنکھوں کو دو چار دیواری قید نہ کر سکی۔ یا شاید اس چاردیواری کی وجہ سے ہی وہ آنکھیں دو بین ہو گئیں ۔ وہ اپنے دل کی دنیا ان نیچی نگاہوں کی جھکی ہوئی مژگاں پر اٹھائے پھرتی اور شاید جھکی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہی ان نگاہوں نے نذر کی دنیا بدل ڈالی۔ گو نذر ان کھوئی کھوئی نگاہوں کو دیکھ کر جیتا تھا۔ کبھی کبھی ان نگاہوں کی وسعتوں کو محسوس کر کے اسے ڈر محسوس ہوتا تھا مگر شاید وہ ہلکا ڈر ان نگاہوں کو نذر کے لئے اور بھی جاذب بنا رہا تھا۔ عذرا جب کبھی اپنی دل کی دنیا سے چونک پڑتی اور دیکھتی کہ نذر اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے تو وہ آنکھوں کو جھکا لیتی۔ وہ ایک تبسم نذر کے لئے پیام حیات بن جاتا۔ وہ اس حیا سے لبریز تبسم کے لئے اپنی زندگی، اپنا آپ.... سبھی کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ پھر اس کی نظر نیلی ساڑھی پر پڑ جاتی اور وہ محسوس کرتا کہ وہ دن بدن پہننے کے ناقابل ہو رہی ہے۔ اس میں وہ چمک نہ رہی تھی۔ وہ سوچتا، دیکھو کتنی جگہوں سے پھٹ رہی ہے۔ بوسیدہ ہو چکی ہے۔ چمک نہیں ، پھر بھی عذرا اسے میرے لئے پہنے پھرتی ہے۔ اس لئے کہ میں اسے نیلی ساڑھی میں دیکھ کر خوش ہوتا ہوں ۔ صرف میری خوشی کے لئے۔ حالانکہ اس کے پاس سرخ ساڑھی بھی تو ہے۔ بلکہ سرخ ساڑھی تو اور بھی قیمتی ہے۔ کتنی پیاری ہے وہ عورت جس کو خاوند کی خوشی زیبائش سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے.... ہندوستانی عورتیں .... دیویاں ہوتی ہیں ۔ مگر یہ ساڑھی تو بس اب پہننے کے قابل نہیں ۔ گوندا رام کہہ رہا تھا۔ ایسی ساڑھی چالیس روپے کی ملے گی۔ چالیس روپے۔ ساڑھی بھی کس قدر مہنگی پڑتی ہیں ۔ اس کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل جاتی اور پھر وہ کمر جھکا کر اپنے ٹائپ رائٹر کے سامنے جا بیٹھتا۔ اس کے صبح و شام چالیس روپے کی آرزو میں بسر ہو رہے تھے۔ وہ سوچتا تھا، جب چالیس روپے لے کر وہ ساڑھی لائے گا۔ عذرا دیکھے گی۔ خوشی بھری، تعجب بھری، محبت بھری نگاہ۔ اس لمحہ کی نگاہ حاصل کرنے کے لئے وہ عمر بھر محنت کرنے کے لئے تیار تھا۔ عذرا اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ مگر اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نذر کو نہ دیکھا تھا بلکہ وہ نذر کے وجود یا موجودگی کے احساس سے قطعی بے گانہ تھی۔ وہ اس کے چہرے کی بناوٹ سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھی۔ صرف اس کی پیشانی اور دانت دیکھتی۔ باقی خدوخال کو اپنی نگاہوں میں اٹکنے نہ دیتی۔ شاید اس لئے کہ نذر کی پیشانی اور دانتوں میں کچھ سلیم کی سی جھلک تھی۔ وہ دونوں اکثر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہتے مگر پاس بیٹھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ دن بھر وہ سولی سے باتیں کرتی رہتی اور پھر سلیم کے پاس پہنچنے کے لئے اسے صرف آنکھیں جھکانے کی ضرورت تھی۔ ایک روز دوپہر کے وقت عذرا اماں کے پاس بیٹھی کچھ بن رہی تھی۔ کوئی اجنبی عورت آ کر ان سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ پھر ماں جب نماز پڑھنے کے لئے گئی تو اس عورت نے عذرا کا ہاتھ پکڑ کر اس میں لپٹا ہوا کاغذ کا گولا رکھ دیا اور اس کی مٹھی بند کر دی۔ اس نے دبی ہوئی آواز سے کہا۔ ’’یہ انہوں نے دیا ہے۔ وہ یہاں آئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ پہلے تو عذرا حیرانی سے اس کے منہ کی طرف دیکھتی رہی، پھر اس نے اپنی مٹھی کھول کر دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا لفافہ تھا۔ اس نے لفافے کو غور سے دیکھا۔ اس ک�� سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کون آئے ہوئے تھے اور وہ بڑھیا کون تھی۔ اس کی طبیعت میں تشویش اور ڈر پیدا ہو گیا مگر وہ عورت جاچ��ی تھی۔ غالباً وہ اپنے خیالی سلیم سے اس قدر مانوس ہو چکی تھی اور اپنی دنیائے تصور میں اس قدر کھو چکی تھی کہ اسے کسی جیتے جاگتے سلیم کا انتظار نہ رہا تھا۔ خیال تک بھی نہ رہا تھا۔ شاید اگر سلیم بذات خود اس وقت اس کے سامنے آ موجود ہوتا تو اسے بیگانہ محسوس ہوتا۔ بہرصورت اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لفافہ کس کا تھا۔ اس کے دل میں لفافے کو کھولنے کی ہمت نہ پڑی تھی اور وہ سخت پریشانی محسوس کر رہی تھی۔ اس نے اس کاغذ کے گولے کو پھر سے اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ اٹھ بیٹھی۔ اندر چلی گئی۔ پھر باورچی خانے میں گئی۔ صحن میں آئی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے یا کس لئے یہاں وہاں گھوم رہی ہے۔ جس طرح طوفان آنے سے پہلے کسی ویران ساحل پر کسی نامعلوم آنے والے کو ڈر محسوس کرتے ہوئے پرندے کالی اداس چٹانوں پر دیوانہ وار منڈلاتے ہیں ۔ وہ چاہتی تھی کہ مٹھی میں اس کاغذ کے گولے کو بھینچ بھینچ کر ناپید کر دے اور اپنی دنیا کو محفوظ کر لے۔ کمرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اپنے ٹرنک کے اوپر بیٹھے ہوئے پایا۔ ٹرنک کھلا تھا۔ وہ لپٹا ہوا لفافہ اس کی گود میں تھا۔ اس نے کھوئے انداز میں اسے پھاڑ کر کھولا۔ اس کی آنکھوں تلے الفاظ ناچ رہے تھے۔ دل دھڑک رہا تھا۔ نگاہیں تیزی سے لفظوں پر سے پھسل رہی تھیں جیسے وہ مضمون کے سحر سے بچنا چاہتی ہو۔ اس نے صرف یہی سمجھا کہ وہ آئے ہوئے ہیں اور اس کو ساتھ لے جانے پر مصر ہیں ۔ اس کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہی ہو۔ بس مجھے اسی کا ڈر تھا اور یہی ہو کر رہا۔ وہ بھاگی پھر رہی تھی مگر خط کا مضمون اس کا پیچھا کر رہا تھا اور بوند بوند اس کے دل کی گہرائیوں میں ٹپک رہا تھا۔ اس پر غلبہ پا رہا تھا۔ آخر وہ پلنگ پر لیٹ گئی اور ایک ایک سطر اس کے سامنے ناچ گئی۔ جانا.... چلے جانا.... اس کا دل کانپ اٹھا.... دماغ میں خلاء سا پھیل گیا۔ ماحول میں کوئی مفہوم نہ رہا.... اس وقت کائنات اس کے لئے ایک بے معنی پھیلاؤ تھی۔ رات کو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ اس رات سلیم کی بجائے کئی اور خوفناک شکلیں اس کے خوابوں میں گھس آئی تھیں ۔ بھدے بھدے ہاتھوں اور سفید سفید دانتوں والی ڈراؤنی شکلیں ۔ نذر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے عذرا کو تھام لیا۔ ’’کیا ہے عذرا؟‘‘ اس کا چہرہ فکر اور خوف سے بھیانک ہو رہا تھا۔ ’’آج تمہیں کیا ہے؟ تم بیمار تو نہیں ؟‘‘ عذرا کو محسوس ہو رہا تھا جیسے میلوں دور کوئی کچھ کہہ رہا ہو۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی یادداشت صاف ہو رہی تھی۔ ’’ہاں وہ عورت.... دوپہر.... وہ خط.... ان کا خط.... سلیم کا.... وہ یہاں آئے ہوئے ہیں ۔ وہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے جھرجھری سی لی۔ نذر کسی سے خدا جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ عذرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اس کا سر کسی کے شانوں پر جا ٹکا۔ آج پہلے دن عذرا کا سر سلیم کے شانوں پر نہ تھا۔ جانے تکئے پر تھا یا پتھر پر.... مگر نذر کے شانوں پر عذرا کا سر تھا اور عذرا کے بالوں کے دھیمی دھیمی خوشبو نذر کو فکرمند اور پریشان کر رہی تھی۔ عذرا کا دل کئی ایک خواہشات میں جھول رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات ایک دوسرے سے جھگڑ رہی تھیں ۔ ایک حصہ سولی کی شکل میں کہہ رہا تھا۔ تم ان کی ہو عذرا.... اور اب ان سے تم کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ فراخ پیشانی اور سفید سفید دانت کہہ رہے تھے۔ عذرا تم بیمار تو نہیں .... تمہیں کیا ہے عذرا.... دو بھدے ہاتھ کہہ رہے تھے۔ تم آنکھیں جھکا لو۔ عذرا تمہاری دنیا تو پاس ہے۔ سامنے سلیم کھڑا تھا۔ وہ قہقہہ مارکر ہ��س رہا تھا۔ ڈراؤنی ہنسی، پیاری ہنسی.... شام کو وہ سولی سے کہہ رہی تھی۔ ’’سولی تم اکیلے رہ سکو گے؟ اگر میں چلی جاؤں تو مجھے یاد کرو گے؟ مجھے برا تو نہیں کہو گے سولی؟ کیا میں ان کے ساتھ چلی جاؤں ۔ وہ آج رات کو دو بجے شیشم کے درخت کے نیچے آئیں گے۔ وہ درخت جو میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر دکھائی دیتا ہے۔ کیوں سولی میں ان کے ساتھ چلی جاؤں ؟ دنیا کیا کہے گی؟ ابا جان کیا کہیں گے؟ سولی.... تم تو جانتے ہو.... تم تو سمجھتے ہو نا؟‘‘ شام کو اس نے نیلی ساڑھی لپیٹ کر ایک پارسل بنا لیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔ اس کا دل ہلکا درد محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ جلد ہی اپنے کمرے میں جا لیٹی۔ اس روز وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ سوچنے سے ڈر رہی تھی۔ اس نے ایک پرانا رسالہ اٹھا لیا۔ پڑھنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کی آنکھوں تلے ناچ رہے تھے۔ صفحات کبھی سفید ہو جاتے اور کبھی الفاظ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گھوم جاتے۔ اس نے باہر پاؤں کی چاپ سنی۔ اس روز اس کی قوت سامعہ بہت تیز ہو رہی تھی۔ اس نے نذر کی ماں کے کمرے میں جاتے ہوئے سنا۔ اس کے پاؤں کی آہٹ بتا رہی تھی کہ نذر کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ عذرا کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی۔ کھڑکی باہر سڑک پر کھلتی تھی۔ اس کی نظر بار بار کھڑکی سے باہر درخت پر جا جمتی۔ اس وقت کھڑکی بند تھی مگر شیشے میں سے صاف نظر آ رہا تھا۔ باہر سڑک پر کبھی کبھی کوئی راہ گیر گزرتا تو اس کے پاؤں کی چاپ صاف سنائی دیتی۔ شیشم کا درخت متانت سے کھڑا تھا۔ عذرا یوں محسوس کر رہی تھی جیسے وہ درخت اس کے راز سے واقف ہو۔ صحن والی کھڑکی میں سولی کا پنجرہ تھا۔ سولی دو روز سے خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے باتیں کرنی چھوڑ دی تھیں ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سولی دنیا سے بے زار رہ چکا ہو۔ پھر عذرا کی نگاہ میز پر پڑی۔ نیلی ساڑھی والے پارسل کو دیکھ کر عذرا لپک اٹھی۔ اس نے پارسل اٹھایا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ دروازے کے قریب جا کر اس نے سنا، ماں بیٹا باتیں کر رہے تھے۔ ’’تم نے تو اپنا آپ تباہ کر لیا۔ صبح شام کام، دن رات کام، ہر وقت کی ٹک ٹک.... ایک ساڑھی کے لئے اپنا آپ حلال کر رکھا ہے۔ ‘‘ ’’نہیں اماں ! یہ نہ کہو۔ ‘‘ نذر بار بار کھانس رہا تھا۔ ’’جب سے وہ آئی ہے۔ ہم نے اس کو دیا ہی کیا ہے۔ مگر اماں وہ ایسی اچھی ہے کہ کبھی گلہ تک نہیں کیا۔ میں اسے دے ہی کیا سکتا ہوں ۔ تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ ‘‘ مگر بیٹا اس کے پاس اور بھی تو ساڑھیاں ہیں ۔ وہ کیوں نہیں پہن لیتی۔ پھر وہ نیلی ساڑھی کے لئے اس قدر بے تاب ہے۔ میں تو نہیں سمجھتی.... ہمارے زمانے میں ....‘‘ ’’اماں تم بھولتی ہو۔ اس نے تو مجھے نہیں کہا.... مگر یہ تو معمولی بخار ہے۔ تم فکر نہ کرو۔ ‘‘ نذر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا۔ اسے تیز بخار تھا۔ عذرا کھڑکی کے سامنے چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی خاموشی کسی گہری دلی کشمکش کی چغلی کھا رہی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ کسی چھپے ہوئے ہنگامے کا حال کہہ رہے تھے۔ ’‘’تم سو جاؤ عذرا!‘‘ نذر نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’تم کیوں میرے لئے بے آرام ہو۔ میری فکر نہ کرو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ‘‘ وہ بخار کی شدت میں کچھ کہہ رہا تھا جو اس نے کبھی نہ کہہ سکا تھا۔ اس لئے ہاتھ میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’تم نہ ہوتیں عذرا تو میری زندگی میں یہ بات نہ ہوتی۔ تم میری زندگی ہو.... میں کتنا خوش نصیب ہوں ۔ تمہیں دیکھ کر مجھے کوئی دکھ نہیں رہتا۔ ‘‘ اس نے اضطراب سے دو ایک کروٹیں بدلیں ۔ پھر وہ عذرا کے پاؤں کے قریب ہو گیا۔ اس قرب پر وہ خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی بچہ بڑے پیار سے کھلونے سے کھیلتا ہے۔ عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ شاید وہ اس کی باتیں نہیں سن رہی تھی۔ یا نہ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر یکلخت اس نے اپنے پاؤں پر دو گرم ہونٹوں کو مس کرتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ چونک اٹھی، کانپ اٹھی۔ اس کی نگاہیں جھک کر نذر پر جم گئیں ۔ آج پہلی مرتبہ اس نے نذر کو نگاہ بھر کر دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ نذر کے پاس ہے۔ رات بخار سے بے چین وہ بار بار بڑبڑا اٹھتا۔ ’’چالیس روپے۔ نیلی چالیس روپے۔ ‘‘ وہ اکثر عذرا عذرا چیخ کر اٹھ بیٹھتا۔ تم میرے پاس ہو نا عذرا....؟ ہاں .... تم میرے پاس ہو۔ ‘‘پھر وہ آرام سے لیٹ جاتا۔ ’’تم آرام کرو عذرا۔ تم اب سو جاؤ.... تم بیمار ہو جاؤ گی۔ میری فکر نہ کرو۔ میں اب اچھا ہوں ۔ ‘‘ اس وقت عذرا کی آنکھیں کھڑکی سے ہٹ جاتیں اور وہ کسی الجھاؤ میں پڑ جاتی۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اس کا حلق خشک تھا۔ وہ سوچ بچار کے ناقابل تھا۔ باہر چاند کی چاندنی میں شیشم کا درخت اپنی شاخیں پھیلائے کھڑا تھا اور کوئی دھندلی سی شکل اس کے نیچے کھڑی نظر آ رہی تھی۔ عذرا بڑبڑا رہی تھی، وہ آئے ہیں ۔ ہاں ....! عذرا کا جی چاہتا تھا کہ سلیم سے جا ملے۔ کوئی اس کا دامن پکڑ لیتا عذرا اٹھ بیٹھی، اسے پتہ نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ یا کیا کرنا چاہتی ہے۔ باہر ہوا زور سے چل رہی تھی اور درختوں کی ٹہنیاں لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں ۔ عذرا نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی نیلی ساڑھی اٹھا لی۔ نذر بڑبڑا رہا تھا۔ ’’نیلی چالیس روپے۔ ‘‘ عذرا ڈر گئی۔ اس کا سر انگارے کی طرح گرم محسوس ہو رہا تھا۔ سولی نے چیخ ماری.... دردناک چیخ۔ عذرا نے اسے دیکھا۔ غریب اپنے پنجرے میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے وہ عذرا سے کچھ کہنے کے لئے مضطرب ہو۔ میز پر پنسل پڑی تھی۔ دفعتاً عذرا نے وہ پنسل پکڑ لی۔ وہ پارسل لکھ رہی تھی۔ ’’میں نہیں آسکتی۔ ‘‘ اس نے پنسل اپنے آپ سے چھین کر پھینک دی۔ اس ڈر کے مارے کہ وہ لکھا ہوا کاٹ نہ دے۔ اس نے کھڑکی کھولی اور باہر دیکھے بغیر وہ پارسل سڑک پر پھینک کر جھٹ دروازہ بند کر لیا جیسے وہ کھڑکی کے کھلے رہنے سے ڈر رہی ہو۔ وہ دھندلی سی شکل آگے بڑھی۔ عذرا پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں ۔ اس کے کانوں میں ایک شور محشر سنائی دے رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دیکھا، کوئی پارسل ہاتھ میں پکڑے جا رہا تھا۔ وہ چیخ کر اسے بلا لینا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے دل میں شکست کی آواز سنی اور دھم سے کرسی پر گر گئی۔ ’’یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔ ‘‘ اس کے دل سے دیوانہ وار آوازیں آ رہی تھیں ۔ اس کی آنکھ سے آنسو گر رہے تھے۔ بے اختیار اس کے منہ سے چیخ ہچکی کی شکل میں نکل گئی۔ نذر اٹھ بیٹھا.... ’’کیوں عذرا.... کیوں .... میں .... تم روتی ہو؟ کیوں رو رہی ہو؟ عذرا میں یہاں ہوں ۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ میں تمہارا ہوں ۔ عذرا تم فکر نہ کرو۔ سو جاؤ۔ ‘‘ نذر نے عذرا کا سر اپنے شانوں پر رکھ لیا۔ عذرا کی ہچکیاں رکتی نہ تھیں ۔ ’’میں نے کیا کر دیا۔ میں نے کیا کر دیا۔ ‘‘ ’’سلیم تم نہ جاؤ۔ سلیم.... سلیم۔ ‘‘ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ آنکھیں بند کر لیں ۔ سلیم سامنے کھڑا تھا۔ پھر اس کا سر سلیم کے شانوں پر جھک گیا۔ ’’سلیم مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا....‘‘ پھر اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا تھا۔ ’’عذرا میری وفا کی دیوی۔ ‘‘ ٭٭٭ Read the full article
0 notes
Text
"متاع الفاظ"
یہ جو تم ! مجھ سے گریزاں ہو ! میری بات سنو ! ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے ، کسی رستے پر اتفاقا" ، کبھی بھولے سے ، کہیں مل جائیں ! کیا ہی اچھا ہو ! کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح کچھ تکلف سے سہی ! ٹہر کہ کچھ بات کریں ! اور اس عرصہء اخلاق و مروت میں ، کبھی ایک پل کے لئیے ، وہ ساعت نازک ، آ جاۓ ! ناخن لفظ ، کسی یاد کے زخموں کو چھوۓ ! ایک جھجھکتا ہوا جملہ ، کوئی دکھ دے جاۓ ! کون جانے گا ؟ کہ ہم دونوں پہ ، کیا بیتی ہے ؟ اس خامشی کے اندھیروں سے ، نکل آئیں ، چلو ! کسی سلگتے ہوۓ لہجے سے ، چراغاں کر لیں ! چن لیں ! پھولوں کی طرح ، ہم بھی ! متاع الفاظ اپنے اجڑے ہوۓ دامن کو ، گلستاں کر لیں ! دولت درد ، بڑی چیز ہے ! اقرار کرو ! نعمت غم ، بڑی نعمت ہے ، یہ اظہار کرو ! لفظ ، پیماں بھی ! اقرار بھی ! اظہار بھی ہیں ! طاقت صبر ، اگر ہو ! تو یہ ، غم خوار بھی ہیں ! ہاتھ خالی ہوں ! تو یہ جنس گراں بار ، بھی ہیں ! پاس کوئی بھی نہ ہو ، پھر تو یہ ، دلدار بھی ہیں یہ جو تم ! مجھ سے گریزاں ہو ! میری بات سنو ! یہ جو تم ! مجھ سے گریزاں ہو ! میری بات سنو ۔۔۔!!!
زہرہ نگاہ
9 notes
·
View notes