#Fatima Surayya Bajia
Explore tagged Tumblr posts
Text
فاطمہ ثریا بجیا : ان کے یادگار ڈرامے مدتوں بعد بھی لوگ بھلا نہیں پائے
پاکستان کی معروف ڈرامہ نگار اور ادیبہ فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930 کو بھارتی شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں اور قیام پاکستان کے فوری بعد اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں سکونت اختیار کی، وہ ملک کی معروف ادبی شخصیت انور مقصود کی بہن تھیں۔ فاطمہ ثریا بجیا نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے جب کہ ان کے معروف ڈراموں میں ’’شمع‘‘ ، ’’افشاں‘‘، ’’عروسہ‘‘، ’’انا‘‘، ’’تصویر‘‘ سمیت متعدد ڈرامے شامل ہیں، جن میں بجیا نے بڑے خاندانوں میں خونی رشتوں کے درمیان تعلق اوررویوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا۔
انہوں نے اپنے قلم سے سماجی موضوعات پر ایسے یادگار ڈرامے تحریر کیے جن کو مدتوں بعد بھی لوگ بھلا نہیں پائے جو آج بھی ذہنوں پر نقش ہیں۔ ثریا بجیا کے خاندان کے بیشتر افراد تحریر و ادب سے منسلک رہے اور نمایاں مقام حاصل کیا، انہوں نے 1960 میں ٹیلی وژن انڈسٹری کاحصہ بنیں۔ علم و ادب کےحوالے سے غیرمعمولی خدمات پرفاطمہ ثریا بجیا کو حکومت نے تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیا ز سے نوازا جب کہ جاپان نے بھی اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزازعطا کیا، فاطمہ ثریا بجیاعلالت کے بعد 10 فروری 2016 کو انتقال کر گئی تھیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر
انہوں نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا جبکہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں، ان کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
یکم ستمبر 1930 کو ضلع کرناٹک میں پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر تھیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقا ہوئی تھی جب1966 میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان سے اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔
ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔
1997 میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلی سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔
میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
انہوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں جبکہ ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق۔
0 notes
Text
فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر
انہوں نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا جبکہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں، ان کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
یکم ستمبر 1930 کو ضلع کرناٹک میں پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر تھیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقا ہوئی تھی جب1966 میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان سے اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔
ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔
1997 میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلی سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔
میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
انہوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں جبکہ ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق۔
0 notes
Text
فاطمہ ثریا بجیا، ادبی دنیا کا ایک اور چراغ بجھ گیا
اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر لینے والی خاتون مصنفہ اور بے مثل ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا بدھ کے روز کراچی میں رحلت کر گئیں۔ ان کی شخصیت بیان کرنے میں ایک میٹھے لہجے والی گرم جوش اور ان تھک محنت کرنے والی خاتون کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جن کے دل میں بچوں کو سوتے وقت سنائی جانیوالی کہانیوں کے سرچشمے مدھر سروں میں بہتے رہتے تھے۔
مرحومہ نے بڑی بہن ہونے کے ناطے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی ماں بن کر پرورش کی جن میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ان سے چھوٹی زہرہ نگاہ جنہوں نے اوائل عمر میں ہی اپنی شاعری کا لوہا منوا لیا تھا۔ تاہم شادی کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئیں۔
ایک چھوٹی بہن آپا زبیدہ جو چھوٹی اسکرین پر خواتین کو گھریلو ٹوٹکے بتاتی ہیں اور چھوٹے بھائی انور مقصود جنہوں نے معین اختر مرحوم کے ساتھ جوڑی بنا کر ناقابل فراموش کردار نگاریاں کیں۔ انور مقصود ایک اعلیٰ درجہ کے مصور ہی نہیں بلکہ پاکستان میں سب سے پہلا میوزک بینڈ بھی انھیں نے قائم کیا تھا۔ ان سب چھوٹے بھائی بہنوں میں فاطمہ بجیا کی ہی تربیت اور تعلیم رنگ دکھا رہی ہے۔
فاطمہ بجیا کا گھرانا علم و فضل میں بہت ممتاز تھا اور ان کے دادا کو ان کی قابلیت دیکھ کر نظام حیدر آباد میر عثمان علی نے بدایوں سے حیدر آباد آنے کی دعوت دی تھی جہاں ان کو اعلیٰ حکومتی عہدہ پیش کیا گیا لیکن جب بھارتی حکومت نے نظام کا تختہ الٹ دیا تو ان کی فیملی کے پاس پاکستان ہجرت کر جانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا۔
ثریا بجیا کی فیملی نے پاکستان آ کر کراچی میں پڑاؤ ڈالا۔ اپنے خاندان کی ہجرت کی داستان بیان کرتے وہ یاد کرتی ہیں کہ ایک بھارتی فوجی افسر نے انھیں بمبئی جانے والی ٹرین میں سوار کرایا جہاں سے وہ سمندری سفر کے ذریعے کراچی پہنچے۔ ان کا خاندان کافی بڑا تھا جس میں ان کی دادی کے علاوہ پردادی بھی شامل تھیں اور ان کے والدین کے علاوہ 9 چھوٹے بھائی بہن۔ ان کے گھریلو سامان میں 80,000 سے زائد کتب بھی شامل تھیں جس کا ذکر کرنا مرحومہ کبھی نہ بھولتی تھیں۔
حیدر آباد میں پر آسائش زندگی بسر کرنیوالی اس فیملی کو کراچی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن پوری فیملی نے تمام مصائب و مشکلات کا نہایت مردانہ وار مقابلہ کیا اور ان پر قابو پا لیا‘ بجیا کی شادی ٹوٹ گئی اور انھیں نومولود بچوں کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ان کی والدہ ہجرت کے پہلے عشرے میں ہی چل بسیں جس کے بعد سارے گھرانے کی ذمے داری بجیا کے کندھوں پر آ گئی۔ انھوں نے ابتداء میں گڑیاں بنانا شروع کر دیں پھر کپڑوں کی ڈیزائننگ اور کشیدہ کاری شروع کی تا کہ باورچی خانہ کا خرچ چلتا رہے۔
چند سال قبل ایک انٹرویو میں بجیا نے بتایا کہ وہ پاکستان میں کپڑوں کی ڈیزائننگ کرنے والی پہلی شخصیت تھیں۔ آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (اپوا ) نے گل رعنا کلب کراچی میں ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔ احمد مقصود ہمدانی ان کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔ بجیا کی کمزوریوں میں ان کی تمباکو والا پان کھانے کی عادت تھی جو وہ برس ہا برس تک کھاتی رہیں جس سے بالاخر انھیں تکلیف بھی ہوئی جسے ڈاکٹروں نے منہ کے سرطان سے موسوم کیا۔
تاہم خوش قسمتی سے وہ ایک لمبے اور تکلیف دہ آپریشن کے بعد اس جان لیوا مرض کے چنگل سے نکل آئیں اور صحت یاب ہوتے ہی دوبارہ ڈرامہ نگاری شروع کر دی۔ بجیا نے بچوں اور خواتین اور عام ناظرین کے لیے 300 سے زیادہ ڈرامے لکھے۔ شروع میں انھوں نے ریڈیو کے لیے لکھنا شروع کیا لیکن جب ٹی وی آ گیا تو وہ سمعی کے ساتھ بصری آرٹ کی جانب متوجہ ہو گئیں۔ انھوں نے آڈیو ویژول اسٹوڈیو کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ان کی حد سے زیادہ مقبول ٹی وی سیریز میں شمع‘ افشاں‘ انا اور آگاہی شامل ہیں۔ انھیں جاپانی لٹریچر بھی بہت پسند تھا اور انھوں نے جاپان کی ہائکو کی طرز پر شاعری بھی کی ۔
انھوں نے جاپانی افسانوں کے تراجم بھی کیے اور اردو میں ان کے ڈراموں کو اسٹیج کیا۔فاطمہ ثریا بجیا کو میوزیکل ڈرامے لکھنا بہت پسند تھے اور ان کے ایک ڈرامے ’’پھول بنی سرسوں‘‘ بہت پسند کیا گیا اس میں انھوں نے اردو کے کلاسیکل شاعر امیر خسرو کی شاعری استعمال کی جو کہ سات سو برس قدیم ہے مگر آج بھی تازہ بہ تازہ نو بہ نو ہے۔
مرحومہ کا بیگم آمنہ مجید ملک کے قائم کردہ طالبات کے اسکول سے بھی ایک خاص تعلق تھا جس کے لیے وہ بچوں کے ڈرامے ترتیب دیتی تھیں۔بجیا نے اپنے لیے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی سلطنت چنی اور اس پر جم کے حکومت بھی کی۔ ذرا سوچئے پچھلے آٹھ ماہ کے دوران کیسے کیسے نادر لوگ مرگ انبوہ میں گم ہو گئے۔ عبداللہ حسین، جمیل الدین عالی، کمال احمد رضوی، اسلم اظہر، نسرین انجم بھٹی، ندا فاضلی، انتظار حسین اور پرسوں (دس فروری 2016) فاطمہ ثریا بجیا بھی چلی گئیں۔
بجیا نے اپنی آٹھ سے زیادہ عشروں پر محیط زندگی میں کیا کیا نہیں دیکھا۔ حیدر آباد دکن کا تہذیبی و سیاسی زوال، ایک محفوظ حویلی کی بانہوں سے نکل کر کراچی کی ہجرتی بے سروسامانی، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال، ہجرت کے سانپ اور سیڑھی والے کھیل سے ہار نہ ماننے والی بجیا نے سفید پوشی سے اپنے اور اپنے بہنوں بھائیوں کے لیے رفتہ رفتہ آسودگی کا نور کاڑھ ہی لیا۔
کوئی بیورو کریٹ بنا (احمد مقصود حمیدی)، کوئی فیشن ڈیزائنر (مسز کاظمی)، کوئی صداکار و اداکار و صحافی و ڈرامہ نگار (انور مقصود)�� تو کوئی بی بی سی اردو کا ہو رہا (سارہ نقوی)، تو کسی نے شاعری میں جھنڈے گاڑ دیے (زہرہ نگاہ)، تو کسی نے کوکنگ کے کلاسیکی فن کو جدید تہذیبی تڑکا لگا کے اسے چھوٹی اسکرین کے ذریعے گھر گھر عام کر دیا (زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپا)۔ بجیا نے خود اپنے لیے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی سلطنت چنی اور اس پر جم کے حکومت بھی کی۔ آٹھ سے دس ناول لکھے جن کے مسودے آج بھی شایع ہونے کے لیے بے کل ہیں۔ بس ایک ناول چھپ سکا جو چودہ برس کی لکھارن کے والد نے حیدر آباد دکن میں شایع کروایا۔بجیا کا تعلق قدامت پسند کلاسیکل تہذیب سے تھا۔ مگر وہ کٹھ ملانی نہیں تھیں۔
جنرل ضیا کے دور میں جب ٹی وی ڈراموں پر دوپٹہ پالیسی لاگو ہوئی اور موسیقی کے اندر سے بھی موسیقی نکال لی گئی تو بجیا نے روٹھ کر گھر بیٹھ جانے یا پھر ان پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حصہ بننے کے بجائے اس جبر کو بھی اپنے حق میں نہایت ذہانت سے استعمال کر لیا۔ یعنی قرطبہ اور بغداد کے تہذیبی و درباری ماحول کے پردے میں وہ سب کچھ دکھا دیا جو انھیں ضیائی ماحول میں دکھانے سے روکا جا رہا تھا۔
سب نے اوپر تلے واہ واہ بھی کی۔ کیونکہ قرطبہ اور بغداد میں جو تہذیبی چمک دمک اور پرفارمنگ آرٹ و فنون لطیفہ کی پذیرائی تھی وہ بھی بہرحال برصغیری دانش میں گم گشتہ مسلمان تہذیب کا ہی حصہ تھی۔ لہٰذا کون خلیفہ کے روبرو زرق برق کنیزوں کے لباسوں اور غنائیت کی تھرکن پر انگلی اٹھا سکتا تھا۔
بجیا کو کسی لڑکے اور لڑکی کے بغرض ملازمت سفارش سے کبھی عار نہیں رہا۔ اکثر وہ اس کام میں بھاگ دوڑ کے دوران ہلکان بھی ہو جاتی تھیں۔ آخری عمر میں سرطانی بیماری بھی انھیں ایسے فی سبیل اللہ کاموں سے نہ روک پائی۔ بقول انور مقصود بجیا کی فطرت میں ’’نہیں‘‘ تو تھا ہی نہیں۔ حکومت پاکستان نے بجیا کو پرائڈ آف پرفارمنس اور پھر ہلال امتیاز سے نواز کر اور حکومت جاپان نے اعلیٰ سول ایوارڈ عطا کر کے اور حکومت سندھ نے کچھ عرصے کے لیے مشیر تعلیم و ثقافت مقرر کر کے اپنی توقیر میں اضافہ کیا۔
راستو کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
ابنِ آدم
0 notes
Photo
2960 - Fatima Surayya Bajia https://www.instagram.com/p/CDBwpr6HdhI/?igshid=46s5sr3xq6me
0 notes
Text
Fatima Surayya Bajia
Fatima Surayya Bajia, فاطمہ ثریا بجیا, 1 September 1930 – 10 February 2016 was an Urdu novelist, playwright and drama writer of Pakistan. She
Read More At: Huff Point
0 notes
Link
0 notes
Photo
Fatima Surayya Bajia’s 88th Birthday http://bit.ly/2MHraNs
0 notes
Photo
Google just released a new Doodle. It's about "Fatima Surayya Bajia’s 88th Birthday" :)
#google #doodle #design
Find out more: http://en.doodle123.info/fatima-surayya-bajias-88th-birthday/
0 notes
Photo
Heute hat Google einen Doodle mit dem Thema "88. Geburtstag von Fatima Surayya Bajia" veröffentlicht :)
#google #doodle #design
Mehr dazu hier: http://doodle123.info/88-geburtstag-von-fatima-surayya-bajia/
0 notes
Text
Fatima Surayya Bajia
Fatima Surayya Bajia (Urdu: فاطمہ ثُڑیا باجیا), (Born on 1 September 1930) is a renowned Urdu novelist, playwright and drama writer of Pakistan. She has been awarded various awards at home and abroad including Japan's highest civil award in recognition of her works. She also remained Advisor to the Chief Minister of Sindh province in Pakistan.[1]
She is a well-known personality in social welfare, literary Radio, TV and Stage. She has been writing for PTV Centres Islamabad and Lahore since beginning of the channel. She wrote her first long play Mehman. She contributed for the literary programmes like Auraaq, and beauty care programmes under the title Aaraish-e-Khaam-e-Kakal and she also produced some children progra
Early life and family
Native of Hyderabad, India, she was born near "Panj Bibi Mountain", in Karnatak. She migrated to Pakistan soon after independence, along with her family. She never attended a formal school, all her education took place at home, but instead she is ranked an eminent intellectual, reader and writer.[3]
Talking about her childhood, she said that
"I never attended a formal school. The elders of the family decided that all my education should take place at home. The teacher lived in our home where we were taught discipline along with our education. My family was settled in Hyderabad Deccan, which was then a paramount cultural center in undivided India. Although there were a few prominent schools e.g. Saint Josephs School, although my grandfather could afford the fee (which was Rs. 20), he still preferred to educate us at home. These schools were primarily attended by pampered girls from the elite families of nawabs and jagirdars. From the beginning we were taught self-sufficiency, although we employed 60 to 70 servants, we were not allowed to ask anyone of them for water. There was a huge difference between girls of the elite families and us. My grandfather felt that if we attended such schools, we would suffer from an inferiority complex, but since proper upbringing is not possible without coaching, he decided to carry out our education at home. Nevertheless, we were taught all the subjects that were taught in the formal Hyderabad schools with separate teachers for every subject e.g. calligraphy and maths." [4]
One of ten children, her other siblings include: Anwar Maqsood, Zehra Nigah, Zubaida Tariq (cooking expert) and Mrs Kazmi, a famous dress designer.
Career
Bajia first got involved with PTV in 1960's when her flight to Karachi had been delayed and she came to PTV Islamabad station for a visit. Director Agha Nasir hired her and Bajia made her debut in 1966 by acting in one of his plays. She began writing afterwards. Nasir said about her that
“During Ziaul Haq’s time when the ‘dupatta policy’ was implemented and women were forced to behave a certain way, Bajia wrote about characters from Baghdad and Granada. This was brilliant because these places were supposedly Islamic societies and no one could say anything about them.”
He further added that when writing a play, Bajia would literally move with her belongings to the TV station and then become an authority by default.
“Anyone who had a problem would go to Bajia, not to the chief of the organisation.” [5]
Most of her dramas like Shama, Afshan, Aroosa, Ana had large ensemble casts and her dramas portrayed huge families and their problems.
She produced great number of Women programmes, especially she is founder of Khwateen key Meilaad. Nowadays, she is retired from writing.
Awards, honours and recognitions
Bajia has won numerous awards, including the Pride of Performance Award for her services to the performing arts in Pakistan it is one of the highest civil awards conferred by the Pakistan Government and abroad including Japan's highest civil award in recognition of her works. She also remained Advisor to the Chief Minister of Sindh province in Pakistan. Most recently she appeared in The Big Show on CNBC alongside another legendary writer Haseena Moin. In 2012, she was awarded Hilal-i-Imtiaz by President of Pakistan.[6]
On 22 May 2012, the biography of Bajia titled Apki Bajia (Your's Bajia) written by Syeda Iffat Hasan Rizvi after six years of research was released.[7]
Plays
Some of her popular drama serials:
Shama 1974 (adopted from A.R. Khatoon's novel)
Afshaan (adopted from A.R. Khatoon's novel)
Aroosa(adopted from Zubaida Khatoon's novel)
Zeenat (adopted from Mirza Quleech Baig's Sindhi novel)
Ana
Aagahi
Aabgeenay
Babar [8]
Tareekh-o-Tamseel
Ghar aik Nagar
Faraz Aik Karz
Phool Rahi Sarsoon
Tasveer-e-Kainaat
Asaavari
Tasweer
Sassi Punno
Aabgeenay
Anarkali
Auraqmmes.[2]
0 notes
Text
Fatima Surayya Bajia Passed away
Fatima Surayya Bajia Passed away
Famous Urdu writer and playwright Fatima Fatima Surayya Bajia passed away on Wednesday in Karachi after prolonged illness.
Fatima Surayya Bajia has written many popular dramas for television for the state run Pakistan Television (PTV) from late 1960’s to 1990’s. Her last famous drama was Uroosa aired in 1992 from the PTV Karachi center. (more…)
View On WordPress
0 notes
Text
Fatima Surayya Bajia hospitalised atAga Khan University Hospital
PostFatima Surayya Bajia hospitalised atAga Khan University Hospital
Karachi Renowned playwright Fatima Surayya Bajia was admitted to the Aga Khan University Hospital after suffering a paralysis attack. The 83-year-old Urdu novelist, who is also a member of the governing body of the Arts Council, has been under treatment for the past four days.
http://pakedu.net/news-updates/fatima-surayya-bajia-hospitalised-ataga-khan-university-hospital/
0 notes