Tumgik
#جی ڈی اے
googlynewstv · 3 months
Text
فواد چودھری کا جی ڈی اے،جماعت اسلامی،پی ٹی آئی کو اتحادکامشورہ
سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے جی ڈی اے ،جماعت اسلامی،تحریک انصاف کو حکومت کیخلاف تحریک کیلئے اتحاد کا مشورہ دیدیا۔ سابق وزیر فواد چوہدری  کاصحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہنا تھا کہ جیل سے ہی  اسد قیصر کو مولانا فضل الرحمان سے بات چیت کرنے کا کہا گیا۔9فروری کو کور کمیٹی نے احتجاج کرنے کا کہا۔شبلی فراز اور حامد خان نے کہا ہم پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرینگے۔اب جب احتجاج کی کال دی جاتی ہے تو 25…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
اینٹی سٹیٹ الیکشن تھا، نتائج مسترد کرتے ہیں، پیر پگارا، 16 فروری کو حیدرآباد بائی پاس پر دھرنے کا اعلان
مسلم لیگ فنکشل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی المعروف پیر پگارا نے کہا ہے کہ انتخابی نتائج قبول نہیں کرتے،71 میں بھی یہی ہوا تھا،اقلیت کی حکومت بنائی گئی،جی ڈی اے ختم نہیں ہورہی ہے،سب کچھ تین ماہ پہلے طے  ہوچکا تھا،فیصلہ سازوں کو معلوم ہی نہیں نوجوان انتخابات میں عمران خان کے لئے نکلے،فوج کو ناراض کرکے چل نہیں سکتے ہیں،قانون کے راستے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق رکھتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dpr-lahore-division · 16 hours
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1032
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ اور ترقی کیلئے 26رکنی سٹیئرنگ کمیٹی قائم، سینیٹر پرویز رشید کی خصوصی نامزد گی
سینئر منسٹر مریم اورنگزیب چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی آن پنجاب ٹورازم پروموشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی کنویئنر ہونگی
وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ زاہد بخاری، وزیر تعمیر و مواصلات صہیب احمد ملک، وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبراور ایم این اے افضل کھوکھرکمیٹی کے ممبر ہونگے
سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کیلئے موزوں تاریخی،مذہبی،ثقافتی اور تجارتی مقامات کی اپ گریڈیشن سے متعلق سفارشات پیش کرے گی
کمیٹی سیاحت کے فروغ کیلئے کمیونیکیشن سٹریٹجی تشکیل دیگی، ون سٹاپ سلوشن کے تحت ڈیجیٹل، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کیا جائیگا
چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو ختم اورسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے 15دن میں سفارشات پیش کریگی
لاہور28 ستمبر:……پنجاب میں سیاحت کے فروغ کیلئے اہم اعلان۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ اور ترقی کے لئے 26رکنی سٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی گئی۔ سینیٹر پرویز رشید کوچیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی برائے پنجاب ٹورازم پروموشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے لئے خصوصی نامزد کیا گیا۔ سینئر منسٹر مریم اورنگزیب چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی آن پنجاب ٹورازم پروموشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی کنویئنر ہونگی۔وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ زاہد بخاری، وزیر تعمیر و مواصلات صہیب احمد ملک، وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبراور ایم این اے افضل کھوکھرکمیٹی کو ممبرز مقرر کیا گیا۔ چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ٹورازم، سیکرٹری تعمیرات،سیکرٹری انفارمشین، سیکرٹری پی اینڈ ڈی،سیکرٹری فارسٹ، سیکرٹری انوائرمنٹ پروٹیکشن اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ کمیٹی کے ممبران میں شامل ہونگے۔ ڈی جی والڈ سٹی لاہور، چیئرمین پی آئی ٹی بی، سی ای او آئی ڈیپ، سی اوای اربن یونٹ، ڈی جی پی ایچ اے، ڈی جی وائلڈ لائف اینڈ پارکس، ڈی جی ایل ڈی اے اور پرنسپل این سی اے کمیٹی کے ممبر ہونگے۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی آن پنجاب ٹورازم پروموشن اینڈ ڈویلپمنٹ کاب باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ کے لئے اہم سیاحتی مقامات کی تعمیر وبحالی اور مرمت کی پلاننگ کرے گی۔ سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے لئے موزوں تاریخی،مذہبی،ثقافتی اور تجارتی مقامات کی اپ گریڈیشن سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ کے لئے کمیونیکیشن سٹریٹجی تشکیل دے گی۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ کے لئے ون سٹاپ سلوشن کے تحت ڈیجیٹل، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے گا۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ کے لئے پلانز کی نشاندہی، منظوری اور عملدآمد کے لئے اشتراک کارک��ے گی۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی سیاحت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرے گی۔ سیکرٹری ٹورازم چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی کی انتظامی معاونت کریں گے۔ چیف منسٹر سٹیئرنگ کمیٹی برائے سیاحت سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے 15دن میں سفارشات پیش کرے گی۔
٭٭٭٭
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
بھارتی الیکشن اور مسلمانوں کی شامت
Tumblr media
 بھارت میں اگلے دو ماہ میں عام انتخابات متوقع ہیں۔ اب تک کے آنکڑوں کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کی جیت بظاہر یقینی ہے۔ یوں دو ہزار چودہ کے بعد سے نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ حزبِ اختلاف کی دو درجن جماعتوں نے چند ماہ قبل ’’ انڈیا��‘ نامی اتحاد قائم کیا تھا، وہ باہمی نفاق کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ اس اتحاد میں جتنی جماعتیں ہیں، ان سب کے رہنما اگلا وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت جنتا دل کے سربراہ اور ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے دوبارہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے جب کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینر جی اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے درمیان کچھاؤ کھل کے سامنے آ رہا ہے۔ راہول کانگریس کی حالیہ ریاستی انتخابات میں خراب کارکردگی کے باوجود خود کو بادشاہ گر اور بی جے پی کے بعد سب سے بڑی ملک گیر جماعت کا قائد سمجھ رہے ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت سے آنکھیں چار نہیں کر پا رہے کہ کانگریس کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی، اب نہیں ہے۔ ’’ انڈیا ’’ اتحاد میں لوک سبھا کے ٹکٹوں کی تقسیم کی بابت بھی اختلافات ہیں۔ میڈیا ننانوے فیصد بی جے پی نواز ہے اور اپوزیشن اتحاد کو مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔
بی جے پی نے ’’ انڈیا ’’ اتحاد کے اردگرد دائرہ مزید تنگ کرنے کے لیے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے پیچھے لگا کر بدعنوانی اور کرپشن کے پرانے اور نئے مقدمات کھول دیے ہیں۔ جب کہ بی جے پی کی سوشل میڈیا طاقت بھی بھرپور طریقے سے حرکت میں ہے۔ بظاہر بی جے پی کو اس بار ’’ مسلم کارڈ ’’ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی یہ محاذ مسلسل گرم ہے۔ اکیس جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی نے جس انداز سے اپنی انتخابی مہم کا صور پھونکا ہے۔ اس کا اثر ان تمام ریاستوں میں محسوس ہونے لگا ہے جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ مثلاً بنارس کی قدیم گیان وپی مسجد کو ایک مقامی عدالت نے پرانا مندر قرار دے کر اسے سربمہر کرنے کے بعد احاطے میں پوجاپاٹ کی اجازت دے دی۔ دارل��کومت دلی میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے دو مساجد گرا دی ہیں۔ ان میں سے ایک چھ سو سال پرانی مسجد جو مہرولی کے علاقے میں واقع تھی، اسے سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر قرار دے کے منہدم کیا گیا۔
Tumblr media
اس دوران واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب ( آئی ایچ ایل ) نے گذشتہ ہفتے جو سالانہ تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق دو ہزار تئیس میں روزانہ ملک میں اوسطاً دو مسلم دشمن واقعات رونما ہوئے۔ چھ سو اڑسٹھ نفرت انگیز واقعات میں سے پچھتر فیصد ( چار سو تریپن ) ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ان میں سے بھی تین ریاستوں (مہاراشٹر ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش) میں مجموعی طور پر تینتالیس فیصد نفرت انگیز تقاریر ہوئیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کا مواد پھیلایا گیا۔ ہریانہ اور اترا کھنڈ کا شمار اگرچہ بی جے پی کی زیرِ اقتدار چھوٹی ریاستوں میں ہوتا ہے مگر وہاں مسلمان برادریوں کے خلاف اگست سے اب تک سب سے زیادہ پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرتی تقاریر اور مواد کا پھیلاؤ آر ایس ایس سے جڑی دو ذیلی تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعے ہوا۔ دونوں تنظیموں کو دو ہزار اٹھارہ میں امریکی سی آئی اے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔ 
مسلمانوں کے خلاف میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارموں سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ اب بھارت میں ایک معمول کی بات کے طور پر نچلی سطح تک قبول کیا جا چکا ہے۔ اگلے دو ماہ کے دوران انتخابی مہم میں اس نفرت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نفرت انگیز پروپیگنڈے کا محور وہی پرانے موضوعات ہیں۔ لو جہاد یعنی ہندو لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر مسلمان مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ لینڈ جہاد یعنی مسلمان سرکاری زمین ہتھیا کر اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں۔ حلال جہاد یعنی مسلمان تاجر حلال کو بہانہ بنا کے ہندو کاروباریوں سے سامان نہیں لیتے تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہو جائیں۔ پاپولیشن جہاد یعنی مسلمان اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں تاکہ ہندوؤں پر غلبہ حاصل ہو سکے۔ حالانکہ یہ تمام پروپیگنڈہ نکات یکے بعد دیگرے منطق کی کسوٹی پر ڈھے چکے ہیں۔ مثلاً سرکار کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں مسلمانوں میں پیدائش کی شرح دیگر طبقات کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔
جب سے اسرائیل اور حماس کا جھگڑا شروع ہوا ہے، آر ایس ایس کے بھگتوں کو مسلمان مخالف ایمونیشن کی ایک نئی کھیپ ہاتھ لگ گئی ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہر پانچویں تقریر فلسطینیوں سے نمٹنے کی اسرائیلی حکمتِ عملی کی سراہنا سے بھری ہوئی ہے۔ مثلاً وشو ہندو پریشد کے سربراہ پراوین تگڑیا نے ریاست ہریانہ میں سنگھی بھگتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس وقت اسرائیل کی باری ہے۔ ہمیں بھی اپنے گلی محلوں میں ایسے ہی فلسطینیوں (مسلمان) کا سامنا ہے اور ان سے اپنی خوشحالی اور عورتوں کو بچانا ہمارے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ بی جے پی کے ایک رہنما کپل مشرا کے بقول اسرائیل کو آج جس صورتِ حال کا سامنا ہے، ہمیں تو یہ چودہ سو سال سے درپیش ہے۔ بی جے پی حکومت نے آئی ایچ ایل اور ہندوتوا واچ نامی تھنک ٹینک کی ویب سائٹس بھارت کی حدود میں بلاک کر دی ہیں۔ کیونکہ دونوں ویب سائٹس مسلم مخالف سرکاری و سیاسی پروپیگنڈے میں پیش کردہ خود ساختہ حقائق کو مسلسل چیلنج کر کے متوازی بیانیے کو تقویت دے رہی ہیں۔ 
( ٹیپ کا بند یہ ہے کہ دو روز قبل دلی کے علاقے کھجوری خاص میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے وکیل حسن کا گھر تجاوز قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا۔ یہ وہی وکیل حسن ہیں۔ جنہوں نے نومبر میں اپنے ساتھیوں کی ریسکیو ٹیم کی مدد سے اتراکھنڈ میں کوئلے کی ایک کان کی دیواریں منہدم ہونے کے سبب دو ہفتے سے کان میں پھنسے اکتالیس مزدوروں کو بحفاظت زندہ نکال لیا تھا اور اس کارنامے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے لے کے نیشنل میڈیا تک سب نے ہی وکیل حسن کو ایک قومی ہیرو قرار دیا تھا اور انھیں اور ان کی ٹیم کو چوطرف سے انعامات اور مبارک باد کے پیغامات سے لاد دیا تھا)۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
globalknock · 9 months
Text
ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی کروڑوں کی مصنوعات ضبط - ایکسپریس اردو
ایف بی آر نے ٹریڈ مارک ضبط کرکے نیلامی شروع کر دی، یوٹیلٹی اسٹورز کو بھی مراسلہ (فوٹو: فائل) اسلام آباد: پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے)نے ایف بی آر کی طرف سے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی مصنوعات کی مارکیٹ میں فروخت ممنوعہ قرار دے دی ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی ڈی جی عصمت گل خٹک کی ہدایت پر خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کمپنیوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
جب شیر بلی کی تنخواہ پر کام کرنے لگے
Tumblr media
ویسے پچھتر برس میں ایسا کون سا وزیرِ اعظم یا وزیر گزرا ہے جو لاڈلا ہونے کی سند لیے بغیر اپنے عہدے پر آیا بھی ہو اور ٹک بھی پایا ہو۔ پچپن برس پہلے اپنے بچپن میں رحمے نائی کی دکان سے سردار موچی کے کھوکھے اور تانگہ سٹینڈ کے جیرو کوچوان تک ہر ماجھے ساجھے کن کٹے کو پورے تیقن سے یہی کہتے سنا کہ اگر کوئی امریکہ کا لاڈلا نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر پتا تک نہیں ہلا سکتا۔ پھر اس آقا جاتی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا۔ مگر آج کی جنریشن سمجھتی ہے کہ اب نہ وہ امریکہ رہا نہ اس کے ویسے وفادار۔ سعودی عرب بھی اب پہچانا نہیں جاتا۔ ان دونوں سمیت کسی کو بھی پاکستان کی شکل میں ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ کی فی الحال ضرورت نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو جرنیل جسے چاہیں وہی ہیرو۔ نہ چاہیں تو وہی ہیرو زیرو۔ جو خود کو لاڈلا نہیں سمجھتے انھیں بھی سردار اپنا کام نکلوانے کے لیے اٹھا کے لے جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نکاح نامے اور طلاق نامے پر ایک ساتھ دستخط کروا لیتا ہے۔
سندھ کے ایک اسٹیبلشمنٹی چہیتے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ جس پر مہربان ہوتے تو سرکاری دکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق کوئی بھی پلاٹ یا قطعہِ اراضی بخش دیتے اور جب متعلقہ سیکریٹری ممنمناتا کہ حضور نے جو پلاٹ اپنے جس لاڈلے کو کوڑیوں کے مول بخشا ہے قانون میں اس کی گنجائش نہیں بنتی۔ اس اعتراضِ بے جا پر جام صاحب گرجتے کہ بابا میں نے تیرے کو سیکرٹری مفت کا مشورہ دینے کے لیے نہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ میں نے آرڈر نکال دیا ہے اب اس کے لیے قانون ڈھونڈنا تیرا کام ہے۔ ورنہ قانون مجھے تیرے تبادلے یا ڈیموٹ کرنے یا او ایس ڈی بنا کے کراچی سے نکال کے کشمور میں پھینکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ یہ ’جام صادق ڈاکٹرائن‘ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا چکی ہے۔ مہربان ہو تو کھل جا سم سم، ہر مقدمہ خارج، ہر موڑ پر سرخ قالین، دانے دنکے کے اسیر ہر کبوتر کو لاڈلے کے کندھے پر بیٹھنے کا اشارہ، ہر قانون و ضابطہ موم کی ناک۔
Tumblr media
سنگ دل ہو جائے تو قدموں تلے سے وہی سرخ قالین کھینچ کر، کبوتروں کو سیٹی بجا کر واپس چھت پر اتار کر، بدلے حقائق کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلواتے ہوئے سوائے جیل کے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند، مقدمات کا مسلسل پتھراؤ، ایک مقدمے میں ضمانت کے بدلے دس نئے پرچے تیار اور کردار کشی کی واشنگ مشین میں ڈال کے دھلائی الگ۔ اب ہر لاڈلا تو ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ نہیں گا سکتا۔ کچھ سائیڈ پکڑ لیتے ہیں، کچھ سیاسی پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں، کچھ ’باہرلے ملخ‘ چلے جاتے ہیں اور کچھ شیر معافی تلافی کر کے بلی کی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے پھر سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ مالک مکان کبھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ کرائے دار پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ تمام شرائط کاغذ پر طے ہوتی ہیں۔ مثلاً مالک مکان کی اجازت کے بغیر کوئی اضافی کیل دیوار میں نہیں ٹھونکی جائے گی۔ کوئی دروازہ، کھڑکی اور روشندان تبدیل نہیں ہو گا۔ دیواروں کو داغ دھبوں سے پاک رکھا جائے گا۔ کوئی شے تبدیل کروانی ہو تو مالک سے درخواست کی جائے گی۔ اگر اس نے مناسب سمجھا تو درخواست قبول کر لے گا۔ نہ سمجھا تو اس سے فالتو کی جرح نہ کی جاوے۔ کرایہ ہر ماہ کی طے شدہ تاریخ تک پہنچا دیا جائے یا جمع کرا دیا جائے۔
پانی کی موٹر مسلسل نہیں چلے گی۔ تمام یوٹیلٹی بلز باقاعدگی سے مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کے نقصان کی بھرپائی بھی کرائے دار کی ذمہ داری ہو گی۔ کرایہ نامہ گیارہ ماہ کے لیے ہو گا۔ مالک مطمئن ہو گا تو معاہدے کی تجدید ہو گی ورنہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ اور اگلا معاہدہ کم از کم دس فیصد اضافی کرائے کے ساتھ ہو گا۔ پھر بھی اگر مالک کو ضرورت ہو یا وہ جز بز ہو جائے تو ایک ماہ کے نوٹس پر گھر خالی کرا سکتا ہے تاکہ اسے اونچے کرائے پر کسی اور کو چڑھا سکے۔ جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کرائے دار چھ ماہ گزرنے کے بعد اپنے تئیں انوکھا لاڈلا بن کے فرمائشیں شروع کر دیتا ہے، اضافی ایگزاسٹ فین لگوا دو، پانی کی موٹر پرانی ہے اس کی جگہ بڑی موٹر ہونی چاہیے۔ گیلری کی ریلنگ بدصورت ہے اسے بھی بدلنا ہو گا۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا لہذا سنگل کے بجائے ڈبل کنکشن کی تار بدلوا دو۔ گھر فوری طور پر خالی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دوسرے برس کے لیے بھی ابھی سے معاہدہ کر لو۔ زبردستی کی تو عدالت جاؤں گا اور کرایہ تمھیں دینے کے بجائے فیصلہ ہونے تک عدالت میں جمع کرواتا رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔
تگڑے کرائے دار مالک مکان کو دبا لیتے ہیں۔ مگر ہم نے تو پچھلے پچھتر برس میں کرائے داروں کا سامان ہی سڑک پر دیکھا ہے اور احتجاج یا قانون کی دھمکی دینے پر مالک مکان کے مسٹنڈوں کے ہاتھوں چھترول اور پرچے کا اندیشہ الگ۔ ایسی صورت میں کم از کم اس محلے میں ایسے بدعقلوں کو کوئی اور اپنا مکان کرائے پر نہیں دیتا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے بھیا۔ 
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urdudottoday · 1 year
Text
غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
اردو ٹوڈے، ویب ڈیسک رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر اور سابق ضلع ناظم عارف مہر جی ڈی اے کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سید ناصر شاہ اور شرجیل میمن کی موجودگی میں غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ بھی پڑھیے باڑہ بازار میں تھانے کے قریب دھماکہ، پولیس اہلکار شہید میونسپل کمیٹی بدین کا بجٹ پیش کردیا گیا چین میں انٹرنیٹ تہذیب کی ترقی اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
ڈی جی سول ایوی ایشن کی مبینہ 2 ہزار ارب روپے کی کرپشن سامنے آگئی
آفیسرز/ائمپلائز ایسویشن نے وزیر ہوابازی اور سیکرٹری ایوی ایشن کو خط لکھ دیا (فوٹو: ٹوئٹر) ڈی جی سول ایوی ایشن (سی اے اے) خاقان مرتضیٰ اور ٹیم کی مبینہ کرپشن سامنے آگئی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سی اے اے آفیسرز/ائمپلائز ایسویشن نے وزیر ہوابازی اور سیکرٹری ایوی ایشن کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ خاقان مرتضیٰ اور انکی ٹیم نے مبینہ طور پر پاکستان کو 2 ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ خط کے متن میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
کوئٹہ میں عمارت منہدم، ایک جاں بحق اور پانچ زخمی
��خمیوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیں، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو (فوٹو: فائل)  کوئٹہ: کوئٹہ میں زیر تعمیر عمارت منہدم ہونے سے ایک مزدور جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق سٹیورٹ روڈ پر تعمیراتی کام کے دوران چھت گرنے سے پانچ افراد ملبے تلے دب گئے، عمارت کے ملبے سے ایک مزدور کی لاش جبکہ 5 کو زخمی حالت میں نکالا گیا جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد کوآرڈینیٹر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
کوئٹہ میں عمارت منہدم، ایک جاں بحق اور پانچ زخمی
زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیں، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو (فوٹو: فائل)  کوئٹہ: کوئٹہ میں زیر تعمیر عمارت منہدم ہونے سے ایک مزدور جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق سٹیورٹ روڈ پر تعمیراتی کام کے دوران چھت گرنے سے پانچ افراد ملبے تلے دب گئے، عمارت کے ملبے سے ایک مزدور کی لاش جبکہ 5 کو زخمی حالت میں نکالا گیا جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد کوآرڈینیٹر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے ہونے کی بڑی وجہ سامنے آ گئی
تحقیق سے ثابت ہواکہ گلاب کے پھولوں کے ساتھ کانٹوں کی موجودگی کاجواب پودے کے ڈی این اے میں چھپا ہے۔ ے گلاب کے پھول کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تو اُنہیں یہ پتہ چلا کہ گلاب کے پودے میں کانٹوں کی موجودگی ایک قدیم ایل او جی (LOG) جین کی وجہ سے ہے جو صرف گلاب کے پودے میں ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی پودوں میں موجود پائی گئی۔ 40کروڑ سال سےیہ کانٹے پودوں پر موجود ہیں اور پودوں کو ان کی موجودگی سے بے…
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
پوری مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد
بدین میں این اے 23 پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) رہنماؤں اورمرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ مرزا فیملی کے خلاف پیپلز پارٹی کے امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو نے اعتراضات جمع کروائے تھے۔اعتراضات میں کہا گیا تھا کہ مرزا فیملی بینکوں کی نادہندہ ہے۔ ریٹرننگ آفیسر (آر او) محمد نواز نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔ آر او نے کاغذات این اے 223 پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dpr-lahore-division · 16 days
Text
*کمشنر لاہور زید بن مقصود کی زیر صدارت ٹریفک روانی۔کیلئے کوآرڈینیشن کمیٹی کا ہفتہ وار اجلاس۔*
لاہور۔شہر میں محکموں کی مشترکہ مشاورت سے پہلے مرحلے کیلئے 16 ٹریفک چوکنگ پوائنٹس شناخت
ٹریفک پولیس۔ایم سی ایل۔ٹیپا نے 89پوائنٹس شناخت کیے تھے۔جن میں ��ے 31پوائنٹس کا تجزیہ کیا گیا
12 ٹریفک چوکنگ پوائنٹس پرٹریفک روانی کیلئے کیمپس قائم ہونگے۔کیمپس کے اوقات مقررہونگے۔کمشنر لاہور
شہر میں ٹریفک روانی کیلئے مختلف چوکنگ پوائنٹس پر کیمپس لگا کر انٹروینشنز کی جائیں گی۔کمشنر لاہور
ٹریفک پولیس اور ایم سی ایل کے تحت کیمپس قائم ہونگے۔کمشنر لاہور
انٹروینشنز میں پیچ ورک۔یوٹرن کلوز۔ لین مارکنگ۔تجاوزات خاتمہ۔پارکنگ ڈسپلن۔چالان۔مستقل نگرانی شامل ہیں۔
ٹریفک چوکنگ پوائنٹس داتا دربار۔اردو بازار۔سبزی منڈی۔رام گڑھ۔لال پل۔گلستان چوک میکلوڈ روڈ پر کیمپس لگانے کا جائزہ لیا گیا
۔کشمیری گیٹ۔بطرف مستی گیٹ۔دہلی دروازہ۔نیازی اڈا۔ چونگی امرسدھو۔ چوبرجی چوک۔عابد مارکیٹ پر ٹریفک کیمپس لگانے کا جائزہ لیا گیا
ٹریفک چوکنگ خاتمہ کے ساتھ ایئر کوالٹی کا باقاعدہ تجزیہ کیا جائیگا۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
انسداد سموگ کیلئے بھی ٹریفک چوکنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
*اجلاس میں ایڈیشنل کمشنر عبدالسلام عارف۔ڈی سی لاہور سید موسی رضا۔۔سی ٹی او لاہور عمارہ اطہر۔مستنصر فیروز پنجاب سیف سٹی اتھارٹی۔سی او ایم سی ایل ۔سی ای او ایل ڈبلیو ۔ ایم ڈی واسا ۔ ڈی جی پی ایچ اے۔چیف انجینیر ٹیپا ۔ پنجاب سیف سٹی اتھارٹی اور سی ایم روڈمیپ ٹیم افسران کی شرکت*
شہری سہولیات فراہمی و میونسپل سروسز فراہمی میں کوتاہی پر افسران زیروٹالرنس رکھیں۔کمشنرلاہور
*وزیراعلی پنجاب کی جامع ترین انٹروینشنز کی واضح ہدایات کیمطابق عملی اقدامات اٹھارہے ہیں۔کمشنر لاہور*
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
Tumblr media
الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکومت میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ 
یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ایک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دو��را یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘   دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔
Tumblr media
جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ کراچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔ 
بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔  خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر ��ئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔
اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ��یک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔
عامر خاکوانی
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
gamekai · 2 years
Text
کوئٹہ میں عمارت منہدم، ایک جاں بحق اور پانچ زخمی
زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیں، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو (فوٹو: فائل)  کوئٹہ: کوئٹہ میں زیر تعمیر عمارت منہدم ہونے سے ایک مزدور جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق سٹیورٹ روڈ پر تعمیراتی کام کے دوران چھت گرنے سے پانچ افراد ملبے تلے دب گئے، عمارت کے ملبے سے ایک مزدور کی لاش جبکہ 5 کو زخمی حالت میں نکالا گیا جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد کوآرڈینیٹر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
پاکستان اسٹیل مل : ڈیڈ اثاثہ
Tumblr media
پاکستان کے مالی بحران کی ایک بڑی وجہ حکومتی کنٹرول میں موجود خسارے والے ادارے ہیں۔ ان میں پاکستان ریلوے ، پی آئی اے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان اسٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے ایک پریس کانفرنس میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے کہ 2020 تک ان اداروں کے نقصانات جی ڈی پی کے سات فیصد کے مساوی تھے جو اب کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ پی آئی اے اورا سٹیل مل سمیت 15 بڑے اداروں کے ذمے ہزاروں ارب روپے کا قرضہ ہے۔ اس رقم سے 10 یونیورسٹیاں، بھاشا ڈیم اور ایم ایل ون کا پورا ٹریک بن سکتا تھا۔ اسٹیل مل ایک ایسا ادارہ ہے جس کی نجکاری چاہتے ہوئے بھی ممکن نہیں ہو رہی۔ وزیر نجکاری کا اسے ڈیڈ اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری ہو سکتی ہے نہ ہی بحالی۔ ادارے کا خسارہ 230 ارب کے قریب ہے اور موجودہ کپیسٹی پر چلانے کیلئے 585 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
Tumblr media
اسٹیل مل پاکستان میں اسٹیل کی کمی اور ضروریات پوری کرنے اور غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے کے ارادے سے بنائی گئی تھی جس کیلئے 1973 میں 19000 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی اور اسٹاف کیلئے تقریباً 4500 گھر بنائے گئے۔ 55 میگا واٹس کے تین تھرمل پاور پلانٹس، دنیا کی تیسری بڑی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی سہولت، ڈھائی ایکڑ پر محیط انڈر گراؤنڈ سرنگیں ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی موجودہ زمین کی مارکیٹ ویلیو بیسیوں کھرب بنتی ہے جسے اب بند کر کے ایکسپورٹ پروموشن زون بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ 1970 کے عشرے میں تمام بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا جو معاشی تباہی کا باعث بنا۔ بعد میں نجکاری کے پروگرام بنائے گئے لیکن اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔ اسٹیل مل کی نجکاری بھی سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو ایکشن لے کر روک دی تھی۔ اب ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے شفافیت کے ساتھ نجکاری کاعمل ضروری ہو گیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes