#جی ڈی اے
Explore tagged Tumblr posts
Text
فواد چودھری کا جی ڈی اے،جماعت اسلامی،پی ٹی آئی کو اتحادکامشورہ
سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے جی ڈی اے ،جماعت اسلامی،تحریک انصاف کو حکومت کیخلاف تحریک کیلئے اتحاد کا مشورہ دیدیا۔ سابق وزیر فواد چوہدری کاصحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہنا تھا کہ جیل سے ہی اسد قیصر کو مولانا فضل الرحمان سے بات چیت کرنے کا کہا گیا۔9فروری کو کور کمیٹی نے احتجاج کرنے کا کہا۔شبلی فراز اور حامد خان نے کہا ہم پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرینگے۔اب جب احتجاج کی کال دی جاتی ہے تو 25…
0 notes
Text
اینٹی سٹیٹ الیکشن تھا، نتائج مسترد کرتے ہیں، پیر پگارا، 16 فروری کو حیدرآباد بائی پاس پر دھرنے کا اعلان
مسلم لیگ فنکشل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی المعروف پیر پگارا نے کہا ہے کہ انتخابی نتائج قبول نہیں کرتے،71 میں بھی یہی ہوا تھا،اقلیت کی حکومت بنائی گئی،جی ڈی اے ختم نہیں ہورہی ہے،سب کچھ تین ماہ پہلے طے ہوچکا تھا،فیصلہ سازوں کو معلوم ہی نہیں نوجوان انتخابات میں عمران خان کے لئے نکلے،فوج کو ناراض کرکے چل نہیں سکتے ہیں،قانون کے راستے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق رکھتے…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد پولیس کے 240 افسران کی اگلے عہدوں پر ترقیاں
(24 نیوز)اسلام آباد پولیس کے 240 افسران کی اگلے عہدوں پر ترقیاں ہوگئیں۔ ڈی آئی جی ڈاکٹر سید مصطفیٰ تنویر کی زیر صدارت ڈپارٹمنٹل پروموشن بورڈز کا اجلاس ہوا۔ پروموشن بورڈ نے 2 انسپکٹرز، 20 سب انسپکٹر، 55 اے ایس آئیز، 65 ہیڈ کانسٹیبلز کی اگلے عہدوں پر ترقی کی سفارش کی۔ کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل کی ترقی کا بورڈ اجلاس اے آئی جی لاجسٹکس شعیب مسعود کی زیرِ صدارت ہوا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق بورڈ نے 98…
0 notes
Text
سول ایوی ایشن اتھارٹی ( سی اے اے ) نے سعودی عرب کی ایک اور ائیرلائن کو پاکستان کے لیے فضائی آپریشن کی اجازت دے دی۔ ذرائع کے مطابق سی اے اے نے ’’ فلائی عدیل ‘‘ کو پاکستان کے لئے فضائی آپریشن کی درخواست پر اجازت دے دی ہے۔ فلائی عدیل کو پاکستان کے لئے ہفتہ وار 11 فلائٹس کا سلاٹ سول ایوی ایشن نے منظور کیا ہے اور ائیرلائن جلد پاکستان کے لیے فضائی آپریشن شروع کر دے گی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ڈی جی سی اے اے نے فلائی عدیل کو پاکستان کے لیےفضائی آپریشن کی اجازت دی۔
0 notes
Text
پریس ریلیز
31 اکتوبر 2024ء
*عظمیٰ بخاری نے ڈیمارکیشن لیٹر صحافی کالونی ایف بلاک کے متاثرہ الاٹیوں کے حوالے کر دیئے*
*صحافیوں کے فلاح کے لئےکام کر کے بہت خوشی ہوتی ہے: عظمٰی بخاری*
*میرے لئے رپورٹرز اور کیمرہ مینز برابر ہیں، میں نے کمرہ میںنز کے لئے پلاٹس کی بڑی بہت جنگ لڑی: عظمٰی بخاری*
صحافیوں کے لئے مخصوص گرانٹ کو کئی گنا بڑھا دیا گیا، گرانٹ کے لئے پہلے سے موجود تمام درخواستوں کو منظور کر کے بھیج دیا ہے: عظمٰی بخاری
اللہ کرے پنجاب کا خزانہ اتنا مضبوط ہو کہ میں صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں: عظمٰی بخاری
عظمی بخاری ہمارے لئے وزیر نہیں، بہن کی طرح ہیں،ان کا رویہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا ہے: ارشد انصاری
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ صحافی کالونی کے ایف بلاک کے متاثرہ الاٹیوں کے ڈیمارکیشن لیٹر ان کے حوالے کر دیئے ہیں،مجھےصحافیوں کے فلاح کے لئے کام کر کے بہت خوشی ہوتی ہے۔میرے لئے تمام رپورٹرز اور کیمرہ مینز برابر ہیں، میں نے کمرہ میںنز کے لئے پلاٹس کی بڑی جنگ لڑی یے۔ صحافیوں کے لئے مخصوص گرانٹ کو کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے، گرانٹ کے لئے پہلے سے موجود تمام درخواستوں کو منظور کر کے بھیج دیا ہے۔ اللہ کرے پنجاب کا خزانہ اتنا مضبوط ہو کہ میں صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں "میٹ دی پریس" میں بطور مہمان خصوصی کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری خوش ��سمتی ہے کہ میری لیڈر مریم نواز ہیں۔ میری وزیراعلٰی صحافیوں کی فلاح کے لئے ہر بات پر فورا مان جاتی ہیں۔ وزیراعلی پنجاب خود آ کر صحافیوں کیلئے پریس کلب میں 5 کروڑ کا چیک دینا چاہتی تھیں مگر وہ جلد صحوفیوں کو پلاٹس تقسیم کرنے آئیں گی۔ جلد ہی اس نئی سکیم کے لئے درخواستیں مانگ لی جائیں گی، جن میں ڈی جی پی آر، ریڈیو پاکستان ، پی ٹی وی اور اے پی پی کے ملازمین کا کوٹا بھی ہوگا۔ مریم نواز بطور وزیراعلٰی بہت زیادہ کام کر رہی ہیں۔ ایک سال سے کم عرصے میں 80 مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ جو کام حکومتیں پانچ پانچ سالوں میں نہیں کر پاتیں وہ ہم چند مہینوں میں کر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ لاہور پریس کلب کے باہر ہم سخت موسم میں احتجاج کیا کرتے تھے تو میں سوچتی تھی کہ مجھے جب بھی موقع ملا میں صحافیوں کے لئے کچھ کروں گی۔ مجھے آج موقع ملا ہے کہ میں لوگوں کے لئے کچھ کر سکوں۔ میں آج ایف بلاک کی ڈیمارکیشن کا لیٹر ساتھ لے کر آئی ہوں۔ کئی وزیر یہ کام بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود نہیں کر سکے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج ملک میں مخالفین کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ ہر معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔حکومتوں کو فساد نہیں بلکہ کام کرنے چاہئیں۔ میری وزیراعلٰی کام اور خدمت پر یقین رکھتی ہیں۔حکومت پنجاب کسانوں کے لئے بہت سے اقدامات کر چکی ہے۔کسانوں کو تمام زرعی آلات پر سبسڈی اور غریب کسانوں کو کرائے پر زرعی آلات دیئے جائیں گے۔ ایک وقت تھا جب لاہور پریس کلب کے باہر مفت ادویات بند ہونے پر مریض اور لواحقین احتجاج کیا کرتے تھے، مگر اب سب کو ان کی دہلیز پر مفت ادویات مل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ارشد انصاری نے وزیراعلی کی طرف سے دی گئی پانچ کروڑ روپے گرانٹ میں سے سولر سسٹم لگا کر گرانٹ کا صحیح استعمال کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کلب کو فیملی کلب بنایا جائے جس کے لئے کلچر ڈیپارٹمنٹ سے کوئی مدد درکار ہے تو میں حاضر ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلٰی نے خواتین کے لئے سکوٹیز کی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے، صحافی خواتین کے لئے وزیراعلٰی سے سکوٹیز کا اعلان جلد کرواؤں گی۔ فیز ٹو کے لئے جب درخواستیں آئیں گی تو ان کی میرٹ پر سکروٹنی کرینگے۔ پریس کلب کے جن اراکین کی فہرست ہمارے پاس آ چکی ہے ان کو دوبارہ درخواستیں دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میری خواہش ہے کہ جب ہماری حکومت پانچ سال پورے کر کے جائے تو ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر پر صحافیوں کی اپنی کالونی ہونی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد کے حق میں ہوں اور میں اس پر ہمیشہ بات بھی کرتی ہوں۔میں مالکان سے درخواست کروں گی کہ میڈیا ورکرز کی کم از کم تنخواہ لازمی دی جائے اور تنخواہیں تاخیر کر کے میڈیا ورکرز کیساتھ زیادتی نہ کریں۔ اس موقع پر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ عظمٰی بخاری ہمارے لئے وزیر نہیں ہیں بلکہ بہن کی طرح ہیں،یہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ان کا رویہ ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا ہے۔ کلب اور صحافیوں کے کسی بھی مسئلے اور حقوق کے لئے ان کی کاوشوں کی مثال نہیں ملتی۔ یہ بہترین صحافی دوست وزیر ہیں۔ ہم وزیراعلٰی ��ریم نواز کے بھی انتہائی مشکور ہیں جنہوں نے لاہور پریس کلب کو 5 کروڑ روپے کی گرانٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت عظمٰی بخاری پر صحافیوں کو دھمکی دینے کا غلط الزام لگایا گیا۔
عظمٰی بخاری نے بطور وزیر جو کام کیا ہے وہ قابل تعریف ہیں۔اس موقع پر سیکریٹری اطلاعات سید طاہر رضا ہمدانی بھی موجود تھے۔
0 notes
Text
بھارتی الیکشن اور مسلمانوں کی شامت
بھارت میں اگلے دو ماہ میں عام انتخابات متوقع ہیں۔ اب تک کے آنکڑوں کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کی جیت بظاہر یقینی ہے۔ یوں دو ہزار چودہ کے بعد سے نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ حزبِ اختلاف کی دو درجن جماعتوں نے چند ماہ قبل ’’ انڈیا‘‘ نامی اتحاد قائم کیا تھا، وہ باہمی نفاق کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ اس اتحاد میں جتنی جماعتیں ہیں، ان سب کے رہنما اگلا وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت جنتا دل کے سربراہ اور ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے دوبارہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے جب کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینر جی اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے درمیان کچھاؤ کھل کے سامنے آ رہا ہے۔ راہول کانگریس کی حالیہ ریاستی انتخابات میں خراب کارکردگی کے باوجود خود کو بادشاہ گر اور بی جے پی کے بعد سب سے بڑی ملک گیر جماعت کا قائد سمجھ رہے ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت سے آنکھیں چار نہیں کر پا رہے کہ کانگریس کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی، اب نہیں ہے۔ ’’ انڈیا ’’ اتحاد میں لوک سبھا کے ٹکٹوں کی تقسیم کی بابت بھی اختلافات ہیں۔ میڈیا ننانوے فیصد بی جے پی نواز ہے اور اپوزیشن اتحاد کو مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔
بی جے پی نے ’’ انڈیا ’’ اتحاد کے اردگرد دائرہ مزید تنگ کرنے کے لیے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے پیچھے لگا کر بدعنوانی اور کرپشن کے پرانے اور نئے مقدمات کھول دیے ہیں۔ جب کہ بی جے پی کی سوشل میڈیا طاقت بھی بھرپور طریقے سے حرکت میں ہے۔ بظاہر بی جے پی کو اس بار ’’ مسلم کارڈ ’’ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی یہ محاذ مسلسل گرم ہے۔ اکیس جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی نے جس انداز سے اپنی انتخابی مہم کا صور پھونکا ہے۔ اس کا اثر ان تمام ریاستوں میں محسوس ہونے لگا ہے جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ مثلاً بنارس کی قدیم گیان وپی مسجد کو ایک مقامی عدالت نے پرانا مندر قرار دے کر اسے سربمہر کرنے کے بعد احاطے میں پوجاپاٹ کی اجازت دے دی۔ دارلحکومت دلی میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے دو مساجد گرا دی ہیں۔ ان میں سے ایک چھ سو سال پرانی مسجد جو مہرولی کے علاقے میں واقع تھی، اسے سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر قرار دے کے منہدم کیا گیا۔
اس دوران واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب ( آئی ایچ ایل ) نے گذشتہ ہفتے جو سالانہ تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق دو ہزار تئیس میں روزانہ ملک میں اوسطاً دو مسلم دشمن واقعات رونما ہوئے۔ چھ سو اڑسٹھ نفرت انگیز واقعات میں سے پچھتر فیصد ( چار سو تریپن ) ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ان میں سے بھی تین ریاستوں (مہاراشٹر ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش) میں مجموعی طور پر تینتالیس فیصد نفرت انگیز تقاریر ہوئیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کا مواد پھیلایا گیا۔ ہریانہ اور اترا کھنڈ کا شمار اگرچہ بی جے پی کی زیرِ اقتدار چھوٹی ریاستوں میں ہوتا ہے مگر وہاں مسلمان برادریوں کے خلاف اگست سے اب تک سب سے زیادہ پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرتی تقاریر اور مواد کا پھیلاؤ آر ایس ایس سے جڑی دو ذیلی تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعے ہوا۔ دونوں تنظیموں کو دو ہزار اٹھارہ میں امریکی سی آئی اے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارموں سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ اب بھارت میں ایک معمول کی بات کے طور پر نچلی سطح تک قبول کیا جا چکا ہے۔ اگلے دو ماہ کے دوران انتخابی مہم میں اس نفرت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نفرت انگیز پروپیگنڈے کا محور وہی پرانے موضوعات ہیں۔ لو جہاد یعنی ہندو لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر مسلمان مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ لینڈ جہاد یعنی مسلمان سرکاری زمین ہتھیا کر اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں۔ حلال جہاد یعنی مسلمان تاجر حلال کو بہانہ بنا کے ہندو کاروباریوں سے سامان نہیں لیتے تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہو جائیں۔ پاپولیشن جہاد یعنی مسلمان اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں تاکہ ہندوؤں پر غلبہ حاصل ہو سکے۔ حالانکہ یہ تمام پروپیگنڈہ نکات یکے بعد دیگرے منطق کی کسوٹی پر ڈھے چکے ہیں۔ مثلاً سرکار کے اپنے اعداد و شمار ��ے مطابق حالیہ برسوں میں مسلمانوں میں پیدائش کی شرح دیگر طبقات کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔
جب سے اسرائیل اور حماس کا جھگڑا شروع ہوا ہے، آر ایس ایس کے بھگتوں کو مسلمان مخالف ایمونیشن کی ایک نئی کھیپ ہاتھ لگ گئی ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہر پانچویں تقریر فلسطینیوں سے نمٹنے کی اسرائیلی حکمتِ عملی کی سراہنا سے بھری ہوئی ہے۔ مثلاً وشو ہندو پریشد کے سربراہ پراوین تگڑیا نے ریاست ہریانہ میں سنگھی بھگتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس وقت اسرائیل کی باری ہے۔ ہمیں بھی اپنے گلی محلوں میں ایسے ہی فلسطینیوں (مسلمان) کا سامنا ہے اور ان سے اپنی خوشحالی اور عورتوں کو بچانا ہمارے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ بی جے پی کے ایک رہنما کپل مشرا کے بقول اسرائیل کو آج جس صورتِ حال کا سامنا ہے، ہمیں تو یہ چودہ سو سال سے درپیش ہے۔ بی جے پی حکومت نے آئی ایچ ایل اور ہندوتوا واچ نامی تھنک ٹینک کی ویب سائٹس بھارت کی حدود میں بلاک کر دی ہیں۔ کیونکہ دونوں ویب سائٹس مسلم مخالف سرکاری و سیاسی پروپیگنڈے میں پیش کردہ خود ساختہ حقائق کو مسلسل چیلنج کر کے متوازی بیانیے کو تقویت دے رہی ہیں۔
( ٹیپ کا بند یہ ہے کہ دو روز قبل دلی کے علاقے کھجوری خاص میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے وکیل حسن کا گھر تجاوز قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا۔ یہ وہی وکیل حسن ہیں۔ جنہوں نے نومبر میں اپنے ساتھیوں کی ریسکیو ٹیم کی مدد سے اتراکھنڈ میں کوئلے کی ایک کان کی دیواریں منہدم ہونے کے سبب دو ہفتے سے کان میں پھنسے اکتالیس مزدوروں کو بحفاظت زندہ نکال لیا تھا اور اس کارنامے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے لے کے نیشنل میڈیا تک سب نے ہی وکیل حسن کو ایک قومی ہیرو قرار دیا تھا اور انھیں اور ان کی ٹیم کو چوطرف سے انعامات اور مبارک باد کے پیغامات سے لاد دیا تھا)۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی کروڑوں کی مصنوعات ضبط - ایکسپریس اردو
ایف بی آر نے ٹریڈ مارک ضبط کرکے نیلامی شروع کر دی، یوٹیلٹی اسٹورز کو بھی مراسلہ (فوٹو: فائل) اسلام آباد: پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے)نے ایف بی آر کی طرف سے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی مصنوعات کی مارکیٹ میں فروخت ممنوعہ قرار دے دی ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی ڈی جی عصمت گل خٹک کی ہدایت پر خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کمپنیوں…
View On WordPress
0 notes
Text
جب شیر بلی کی تنخواہ پر کام کرنے لگے
ویسے پچھتر برس میں ایسا کون سا وزیرِ اعظم یا وزیر گزرا ہے جو لاڈلا ہونے کی سند لیے بغیر اپنے عہدے پر آیا بھی ہو اور ٹک بھی پایا ہو۔ پچپن برس پہلے اپنے بچپن میں رحمے نائی کی دکان سے سردار موچی کے کھوکھے اور تانگہ سٹینڈ کے جیرو کوچوان تک ہر ماجھے ساجھے کن کٹے کو پورے تیقن سے یہی کہتے سنا کہ اگر کوئی امریکہ کا لاڈلا نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر پتا تک نہیں ہلا سکتا۔ پھر اس آقا جاتی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا۔ مگر آج کی جنریشن سمجھتی ہے کہ اب نہ وہ امریکہ رہا نہ اس کے ویسے وفادار۔ سعودی عرب بھی اب پہچانا نہیں جاتا۔ ان دونوں سمیت کسی کو بھی پاکستان کی شکل میں ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ کی فی الحال ضرورت نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو جرنیل جسے چاہیں وہی ہیرو۔ نہ چاہیں تو وہی ہیرو زیرو۔ جو خود کو لاڈلا نہیں سمجھتے انھیں بھی سردار اپنا کام نکلوانے کے لیے اٹھا کے لے جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نکاح نامے اور طلاق نامے پر ایک ساتھ دستخط کروا لیتا ہے۔
سندھ کے ایک اسٹیبلشمنٹی چہیتے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ جس پر مہربان ہوتے تو سرکاری دکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق کوئی بھی پلاٹ یا قطعہِ اراضی بخش دیتے اور جب متعلقہ سیکریٹری ممنمناتا کہ حضور نے جو پلاٹ اپنے جس لاڈلے کو کوڑیوں کے مول بخشا ہے قانون میں اس کی گنجائش نہیں بنتی۔ اس اعتراضِ بے جا پر جام صاحب گرجتے کہ بابا میں نے تیرے کو سیکرٹری مفت کا مشورہ دینے کے لیے نہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ میں نے آرڈر نکال دیا ہے اب اس کے لیے قانون ڈھونڈنا تیرا کام ہے۔ ورنہ قانون مجھے تیرے تبادلے یا ڈیموٹ کرنے یا او ایس ڈی بنا کے کراچی سے نکال کے کشمور میں پھینکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ یہ ’جام صادق ڈاکٹرائن‘ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا چکی ہے۔ مہربان ہو تو کھل جا سم سم، ہر مقدمہ خارج، ہر موڑ پر سرخ قالین، دانے دنکے کے اسیر ہر کبوتر کو لاڈلے کے کندھے پر بیٹھنے کا اشارہ، ہر قانون و ضابطہ موم کی ناک۔
سنگ دل ہو جائے تو قدموں تلے سے وہی سرخ قالین کھینچ کر، کبوتروں کو سیٹی بجا کر واپس چھت پر اتار کر، بدلے حقائق کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلواتے ہوئے سوائے جیل کے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند، مقدمات کا مسلسل پتھراؤ، ایک مقدمے میں ضمانت کے بدلے دس نئے پرچے تیار اور کردار کشی کی واشنگ مشین میں ڈال کے دھلائی الگ۔ اب ہر لاڈلا تو ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ نہیں گا سکتا۔ کچھ سائیڈ پکڑ لیتے ہیں، کچھ سیاسی پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں، کچھ ’باہرلے ملخ‘ چلے جاتے ہیں اور کچھ شیر معافی تلافی کر کے بلی کی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے پھر سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ مالک مکان کبھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ کرائے دار پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ تمام شرائط کاغذ پر طے ہوتی ہیں۔ مثلاً مالک مکان کی اجازت کے بغیر کوئی اضافی کیل دیوار میں نہیں ٹھونکی جائے گی۔ کوئی دروازہ، کھڑکی اور روشندان تبدیل نہیں ہو گا۔ دیواروں کو داغ دھبوں سے پاک رکھا جائے گا۔ کوئی شے تبدیل کروانی ہو تو مالک سے درخواست کی جائے گی۔ اگر اس نے مناسب سمجھا تو درخواست قبول کر لے گا۔ نہ سمجھا تو اس سے فالتو کی جرح نہ کی جاوے۔ کرایہ ہر ماہ کی طے شدہ تاریخ تک پہنچا دیا جائے یا جمع کرا دیا جائے۔
پانی کی موٹر مسلسل نہیں چلے گی۔ تمام یوٹیلٹی بلز باقاعدگی سے مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کے نقصان کی بھرپائی بھی کرائے دار کی ذمہ داری ہو گی۔ کرایہ نامہ گیارہ ماہ کے لیے ہو گا۔ مالک مطمئن ہو گا تو معاہدے کی تجدید ہو گی ورنہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ اور اگلا معاہدہ کم از کم دس فیصد اضافی کرائے کے ساتھ ہو گا۔ پھر بھی اگر مالک کو ضرورت ہو یا وہ جز بز ہو جائے تو ایک ماہ کے نوٹس پر گھر خالی کرا سکتا ہے تاکہ اسے اونچے کرائے پر کسی اور کو چڑھا سکے۔ جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کرائے دار چھ ماہ گزرنے کے ب��د اپنے تئیں انوکھا لاڈلا بن کے فرمائشیں شروع کر دیتا ہے، اضافی ایگزاسٹ فین لگوا دو، پانی کی موٹر پرانی ہے اس کی جگہ بڑی موٹر ہونی چاہیے۔ گیلری کی ریلنگ بدصورت ہے اسے بھی بدلنا ہو گا۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا لہذا سنگل کے بجائے ڈبل کنکشن کی تار بدلوا دو۔ گھر فوری طور پر خالی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دوسرے برس کے لیے بھی ابھی سے معاہدہ کر لو۔ زبردستی کی تو عدالت جاؤں گا اور کرایہ تمھیں دینے کے بجائے فیصلہ ہونے تک عدالت میں جمع کرواتا رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔
تگڑے کرائے دار مالک مکان کو دبا لیتے ہیں۔ مگر ہم نے تو پچھلے پچھتر برس میں کرائے داروں کا سامان ہی سڑک پر دیکھا ہے اور احتجاج یا قانون کی دھمکی دینے پر مالک مکان کے مسٹنڈوں کے ہاتھوں چھترول اور پرچے کا اندیشہ الگ۔ ایسی صورت میں کم از کم اس محلے میں ایسے بدعقلوں کو کوئی اور اپنا مکان کرائے پر نہیں دیتا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے بھیا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
اردو ٹوڈے، ویب ڈیسک رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر اور سابق ضلع ناظم عارف مہر جی ڈی اے کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سید ناصر شاہ اور شرجیل میمن کی موجودگی میں غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ بھی پڑھیے باڑہ بازار میں تھانے کے قریب دھماکہ، پولیس اہلکار شہید میونسپل کمیٹی بدین کا بجٹ پیش کردیا گیا چین میں انٹرنیٹ تہذیب کی ترقی اس…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈی جی سول ایوی ایشن کی مبینہ 2 ہزار ارب روپے کی کرپشن سامنے آگئی
آفیسرز/ائمپلائز ایسویشن نے وزیر ہوابازی اور سیکرٹری ایوی ایشن کو خط لکھ دیا (فوٹو: ٹوئٹر) ڈی جی سول ایوی ایشن (سی اے اے) خاقان مرتضیٰ اور ٹیم کی مبینہ کرپشن سامنے آگئی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سی اے اے آفیسرز/ائمپلائز ایسویشن نے وزیر ہوابازی اور سیکرٹری ایوی ایشن کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ خاقان مرتضیٰ اور انکی ٹیم نے مبینہ طور پر پاکستان کو 2 ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ خط کے متن میں…
View On WordPress
0 notes
Text
گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے ہونے کی بڑی وجہ سامنے آ گئی
تحقیق سے ثابت ہواکہ گلاب کے پھولوں کے ساتھ کانٹوں کی موجودگی کاجواب پودے کے ڈی این اے میں چھپا ہے۔ ے گلاب کے پھول کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تو اُنہیں یہ پتہ چلا کہ گلاب کے پودے میں کانٹوں کی موجودگی ایک قدیم ایل او جی (LOG) جین کی وجہ سے ہے جو صرف گلاب کے پودے میں ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی پودوں میں موجود پائی گئی۔ 40کروڑ سال سےیہ کانٹے پودوں پر موجود ہیں اور پودوں کو ان کی موجودگی سے بے…
0 notes
Text
پوری مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد
بدین میں این اے 23 پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) رہنماؤں اورمرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ مرزا فیملی کے خلاف پیپلز پارٹی کے امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو نے اعتراضات جمع کروائے تھے۔اعتراضات میں کہا گیا تھا کہ مرزا فیملی بینکوں کی نادہندہ ہے۔ ریٹرننگ آفیسر (آر او) محمد نواز نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔ آر او نے کاغذات این اے 223 پر…
View On WordPress
0 notes
Text
صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری وائرل ویڈیو سے متعلق کیس کی سماعت کل ہو گی
(ملک اشرف) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری سے منسوب وائرل ویڈیو ، طالبات کو ہراساں کرنے اور ایکس پر پابندی کے کیسز پر سماعت کل ہو گی ۔ چیف جسٹس ��ائیکورٹ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ تینوں یکجا کیسز کی سماعت کل کرے گا، ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق انکوائری رپورٹ سمیت پیش ہوں گے،آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ،رجسٹرار لاہور وومن یونیورسٹی سمیت دیگر افسران پیش ہوں گے،ڈائریکٹر سائبر کرائم سمیت ایف آئی…
0 notes
Text
جہلم: روز مرہ کی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے پنجاب حکومت نے انتہائی سخت پالیسی اختیار کی ہے، اب زائد قیمتوں پر جرمانے نہیں بلکہ جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ یہ بات ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل جہلم صباء سحر نے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کے اجلاس میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پرائس مجسٹریٹس زائد قیمتوں کی وصولی پر متعلقہ افراد کے خلاف فوری مقدمات درج کروائیں اور کاروباری مراکز کو سیل کریں۔ اجلاس میں گزشتہ ہفتہ کے دوران قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے کئے گئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ اے ڈی سی جی نے ہدایت کی کہ معمولی جرمانوں سے لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور تا حال زائد قیمتوں کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ اس لئے اب کسی قسم کی رعایت یا معافی کا سلسلہ نہیں ہونا چاہیے اور فوری مقدمات اور گرفتاری کے ساتھ کاروباری مراکز کو سیل کرنا یقینی بنایا جائے۔
0 notes
Text
12.10.2024 Comlhroff
NT1
کمشنر لاہور زید بن مقصود کا ڈی جی ایل ڈی اے طاہر فاروق کے ہمراہ مختلف علاقوں کا دورہ
کمشنر لاہور زید بن مقصود نے جیل روڈ، ٹولنٹن مارکیٹ، حالی روڈ گلبرگ، حفیظ سنٹر اور کینال روڈ.برکت مارکیٹ۔جناح ہسپتال چوک کا دورہ کیا۔
کمشنر لاہور نے ایل ڈی اے اور ٹیپا کی جانب سے پیچ ورک اور زیبراکراسنگ کے کاموں کا جائزہ لیا۔
ڈی جی ایل ڈی اے طاہر فاروق نے پیچ ورک اور زیبراکراسنگ کے کاموں پر بریفنگ دی۔
وزیراعلی پنجاب کی ہدایت پر ایل ڈی اے اور ٹیپا ایل ڈی اے کنٹرولڈ ایریا کی 95 سڑکوں پر پیچ ورک کر رہا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے 300 کلومیٹر کے ایریا کو پیچ ورک اور گڑھوں سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔
کمشنر لاہور زید بن مقصود نے پیچ ورک کے کاموں کے معیار اور لین مارکنگ کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
کمشنر لاہور زید بن مقصود نے ٹولنٹن مارکیٹ کا دورہ بھی کیا۔
ڈی جی ایل ڈی اے نے ٹولنٹن مارکیٹ کی اپ گریڈیشن کے مجوذہ کاموں بارے بریفنگ دی۔
کمشنر لاہور نے اسسٹنٹ کمشنر سٹی کو اطراف سے تجاوزات ہٹانے اور نالے کے اطراف آگ جلانے پر سخت ایکشن لینے کی ہدایت کی۔
بعدازاں کمشنر لاہور نے ڈی جی ایل ڈی اے کے ہمراہ حالی روڈ گلبرگ، حفیظ سنٹر اور کینال روڈ کا دورہ کیا۔
ایل ڈی اے کی جانب سے حالی روڈ گلبرگ اور حفیظ سنٹر کے اطراف پیچ ورک کے کاموں کا جائزہ لیا۔
کمشنر لاہور کی حفیظ سنٹر کے اطراف سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت۔
کمشنر لاہور نے ڈی جی ایل ڈی اے کے ہمراہ کینال روڈ پر مرمت و بحالی اور پیچ ورک کے کاموں کا بھی جائزہ لیا۔
اس موقع پر چیف انجینئر ایل ڈی اے، چیف انجینئر ٹیپا، پراجیکٹ ڈائریکٹر، ایل ڈی اے اور ٹیپا کے افسران موجود تھے۔
0 notes
Text
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکوم�� میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ایک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی ��ریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دوسرا یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘ دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔
جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ کراچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔
بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔ خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔
اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ایک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔
عامر خاکوانی
بشکریہ اردو نیوز
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
0 notes