Tumgik
#گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
urduchronicle · 8 months
Text
اینٹی سٹیٹ الیکشن تھا، نتائج مسترد کرتے ہیں، پیر پگارا، 16 فروری کو حیدرآباد بائی پاس پر دھرنے کا اعلان
مسلم لیگ فنکشل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی المعروف پیر پگارا نے کہا ہے کہ انتخابی نتائج قبول نہیں کرتے،71 میں بھی یہی ہوا تھا،اقلیت کی حکومت بنائی گئی،جی ڈی اے ختم نہیں ہورہی ہے،سب کچھ تین ماہ پہلے طے  ہوچکا تھا،فیصلہ سازوں کو معلوم ہی نہیں نوجوان انتخابات میں عمران خان کے لئے نکلے،فوج کو ناراض کرکے چل نہیں سکتے ہیں،قانون کے راستے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق رکھتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
alhaqnews12 · 8 months
Text
الیکشن 2024: ملک کے مختلف حصوں سے نتائج آنے کا سلسلہ جاری، پی پی سندھ اسمبلی کی 3 نشستوں پر کامیابپاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی کی چوتھی نشست جیت لی۔سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 61 حیدرآباد 2 میں غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن بھی کامیاب ہوگئے۔غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی ایس 61 حیدرآباد 2 کے تمام135 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن63638 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔جے یو آئی ایف کے سعید احمد تالپور 11719 ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی ایس 60سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 60 حیدرآباد 1 میں غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جام خان شورو کامیاب ہوگئے۔غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی ایس 60 حیدرآباد 1 کے تمام 105 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں پیپلز پارٹی کے جام خان شورو 35352 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ایاز لطیف پلیجو 6735 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی ایس 27 سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 27 خیر پور میں غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہالار وسان کامیاب ہوگئے۔غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی ایس 27 خیر پور 2 کے تمام 145 پولنگ اسٹیشنز  کے نتائج میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہالار وسان 93421 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔جے یو آئی ایف کے محمد شریف بررو 14897 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔پی ایس 77سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 77 جامشورو میں غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے میں پی پی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کامیاب ہوگئے۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی پی کے مراد علی شاہ 66100 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ جی ڈی اے کے روشن علی برڑو 6150 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jeeveypakistan · 5 years
Link
The Grand Democratic Alliance (GDA) is also angry with the federal government after the MQM
0 notes
nowpakistan · 5 years
Text
ایم کیو ایم کے بعد جی ڈی اے بھی حکومت سے نالاں
ایم کیو ایم کے بعد جی ڈی اے بھی حکومت سے نالاں
متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) ایم کیوایم کے بعد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بھی وفاقی حکومت سے ناراض ہوگئی۔ ترجمان جی ڈی اے کا کہنا ہے کہ ہمارے تحفظات ابھی تک برقرار ہیں، ہم بھی حکومت سے ناراض ہیں۔
جی ڈی اے کے ترجمان سردار رحیم کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کی طرف سے وعدے پورے ہونے کا چند دن اور انتظار کریں گے۔ ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے سندھ کے لیے ترقیاتی منصوبے اور نوجوانوں کے لیے روزگار…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
لاڑکانہ : پیپلز پارٹی کا چراغ سحری
پیپلز پارٹی کے سیاسی قبلے لاڑکانہ میں معمول کی صبح بے نور سے ہٹ کر، ایک نئی صبح کی نمود ہوئی ہے۔ تبدیلی و تازگی کے جذبات و احساسات سے لبریز صبح پُرنور کے اجالے نے ملک بھر کو جاری نظامِ بد (اسٹیٹس کو) کو اکھاڑ پھینکنے کا پیغام نہیں دیا؟ جو قومی لازمے کے طور پر ناگزیر ہو گیا ہے۔ لاڑکانہ کے بدلے ووٹروں سمیت کون نہیں جانتا اور سمجھتا کہ کیسے مرکز اقتدار میں تبدیلی آکر بھی منجمد اداروں، سرکاری ڈھانچے کی کھلی نااہلی، قیادت اور کابینہ کے تضاد، سست ترین عدالتی و احتسابی عمل، بدستور برائلر پارلیمان اور ڈوبتے سہمتے میڈیا کے اضافے کے ساتھ الیکشن 18ء کے دوش پر آئی گنجلک تبدیلی اتنی گنجلک ہوتی جا رہی ہے کہ جاڑے کی خوشگوار آمد پر بھی لوگ لُو کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ 
شاید یقین نہیں آ رہا کہ رُت کی تبدیلی وہاں لے جائے گی یہاں جانا ان کا حق اور ضرورت۔ کسی تو تلخ تجربہ سے گزریں یا گزر رہے ہیں کہ موسم پر بھی بے ایمان ہونے کا شک ہے۔ پریشان حال اہلِ لاڑکانہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں جلد ہی موقع مل گیا کہ ووٹ کو عزت دیتے اپنا اندر باہر لے آئیں۔ ورنہ مولانا فضل الرحمٰن کو تو نجانے کیا کیا جتن کرنا پڑ رہے ہیں، کیا کیا باہر آ رہا ہے، لیکن مطمئن نہیں ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے انہیں آزادی مارچ مطمئن کرے گا نہ جکڑ بند دھرنا۔ اللہ کرے کوئی صورت بن جائے کہ ایک ضمنی انتخاب انہیں بھی مل جائے اور ان کے مدارس کے شاگرد نما کارکن یہ موقع پائیں کہ ثابت کر دیں کہ وہ کوئی لاڑکانہ کے ووٹر نہیں جو کوئی تبدیلی چاہتے ہیں بلکہ وہ بدستور مولانا کے سحر کے اسیر ہیں۔
جو کچھ لاڑکانہ میں ہوا خوب ہوا۔ کہاں، فقط پی پی کا امیدوار ہی نہیں، پارٹی کی موروثی قیادت، بھٹو کے نواسے اور زرداری کے بیٹے کا پولیٹکل سیکرٹری جمیل سومرو جو برسوں سے بلاول ہاؤس میں پارٹی اور قیادت میں رابطوں کے لیے پل کی سی خدمات انجام دیتا رہا، پارٹی قیادت کا اتنا وفادار، اتنا بااعتماد اور کہاں جمعہ جمعہ کے تبدیل سیاسی پس منظر والا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا ٹکٹ ہولڈر، پی ٹی آئی کا تائیدی امیدوار لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں جمیل سومرو کو پچھاڑ دیتا ہے۔ نصف صدی سے سندھ کی مکمل بے لچک میں کیسی عجب تبدیلی ہوئی ہے جو پارٹی کے محفوظ ترین قلعے میں وارد ہوئی۔ 
بھلے سے فصیل توڑنے کے لئے چھوٹے چھوٹے آبشاروں نے دھارا بن کر ہی پورا زور لگایا لیکن یہ بھی دیکھئے کہ پی پی کی سکہ بند وفا کو بہا لے جانے والے تبدیلی دھارے میں مولانا فضل الرحمٰن کا پڑھا پانی بھی شامل تھا، نجانے اسی ناقابل یقین انتخابی اتحاد اور سیاسی مفاہمت کی برکت ہے کہ کراچی تا لاڑکانہ سندھی بھائیوں پر مسلط کرپٹ اور کالی گورننس، جس نے انہیں 12 سال میں کچرے کے متعفن پہاڑ ، پیاس اور مصنوعی قحط، ایڈز اور پولیو، اجڑے سکول، خریدی نوکریاں، اذیت ناک سیاسی تابعداری کے سوا کیا دیا ؟ لاڑکانہ میں، ووٹر کو عزت دینے والی صبح پُرنور کی آمد پر ایک بیس بائیس سالہ بدحال سے لڑکے کو ٹی وی اسکرین پر واک پوک دیتے سوال کی طاقت کا استعمال کرتے دیکھ کر رو ح خوش ہو گئی۔ 
ٹی وی نیوز رپورٹر نے جب اسے روک کر پوچھا کہ پیپلز پارٹی لاڑکانہ میں کیسے ہار گئی؟ لاڑکانہ کے نومولود ووٹر سے سوال تو جاندار تھا، لیکن بے جان سے پریشان حال معلوم دیتے لڑکے کا جواب سوال سے کہیں زیادہ جاندار، آنکھیں کھول دینے والا، جھٹ سے بولا: انہوں نے کیا کیا ہے؟ کہاں خرچے وہ 90 ارب روپے جو لاڑکانہ کی ترقی کے لئے دیئے گئے، جس کا بہت شور مچا۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس وہ دیکھیں (کیمرہ مین کو مخاطب کر کے دور اشارہ کرتے ہوئے) ایک پل بنایا ہے، وہ بھی صحیح نہیں بنا۔ چبھتے سوالوں پر مشتمل جواں سال ووٹر کا جواب پیپلز پارٹی کی خوبرو جوان رعنا موروثی مشتعل قیادت کا اشتعال کم کرنے کے لئے کافی نہیں، جو انوکھے انتخابی نتیجے سے سیخ پا نظر آ رہے ہیں۔
اور ٹی وی اسکرینوں پر ان کا غم و غصہ دیدنی اور مولانا فضل الرحمٰن کے انتخابی نتیجے پر اشتعال سے بھی کہیں زیادہ معلوم ہوا، ظاہر ہے ایک تو نوجوانی، پھر اسٹیٹس کو کے تحفظ کا جواں عزم ہے۔ لیکن اس سوال کا درست جواب وہ دیں گے تو بات بنے گی کہ کیا لاڑکانہ کے ہر گھر میں بھٹو اب بھی موجود ہے۔ لیاری کے گھروں میں تو نہ رہا، اب لاڑکانہ کی خبر آئی۔ اگر جواب ’’نہیں‘‘ ہے تو پھر اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا پڑے گا کہ کس نے ہر گھر سے بھٹو کو باہر نکالا، کیوں نکالا؟ کیوں نکالا کا جواب تو میڈیا نے ساتھ ساتھ دیا۔ جب دیا، جب بھٹو کو ہر گھر سے نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تھی۔ لاہور سے نکالا گیا، پورے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے نکالا گیا، جواب تلاش کرنے کی نہیں، جواب پڑھنے کی ضرورت ہے۔
ایک بڑا سوال اس تناظر میں یہ بھی ہے کہ آکسفورڈ کی گریجویشن ایک تو پہلے ہی پارٹی میں تازگی اور ملکی سیاست کے لئے ناکافی تھی، لیکن جتنی کچھ پارٹی میں تبدیلی کی توقع تھی، وہ بھی نہ ہوئی۔ ولایتی گریجویشن نے تازہ دم قیادت کو تازہ ذہن نہ بنایا۔ مخالفین پی پی کے لئے یہ کوئی مسرت کا سماں نہیں ہے۔ بطور سب سے بڑی وفاقی جماعت پی پی کا یہ زوال باعث تشویش ہے، جبکہ نئی وفاقی پی ٹی آئی، ایک سال میں ہی پنجاب میں بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے اور یہ بھی کوئی امید نہیں کہ پی پی کے انکل ہوش میں آئیں گے جبکہ لاڑکانہ میں الیکشن پی پی کا چراغِ سحری بن کر انہیں واضح پیغام دے گیا۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
omega-news · 2 years
Text
قومی اسمبلی میں چھوٹی سی اپوزیشن کا اسپیکر سے شکوہ
قومی اسمبلی میں چھوٹی سی اپوزیشن کا اسپیکر سے شکوہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے ایوان میں شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب اسپیکر، ہماری اپوزیشن چھوٹی سی ہے لیکن ہمیں ٹائم دیا کریں۔ راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ممبرز کو بھی وقت دیا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ اپوزیشن اور حکومت کو برابر موقع دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ اجلاس ہے، سب ارکان نے بات کرنی ہے، سب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
جی ڈی اے کے ایم این ایز استعفیٰ نہیں دیں گے۔
جی ڈی اے کے ایم این ایز استعفیٰ نہیں دیں گے۔
سکھر: اپنے بڑے اتحادی پاکستان تحریک انصاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے فیصلے کے مطابق مستعفی ہونے کے بجائے حکومت کی تبدیلی کے تناظر میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جی ڈی اے کے سربراہ صبغت اللہ شاہ راشدی، جنہیں راجہ سائیں کے نام سے جانا جاتا ہے، نے اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو اپنی نشستیں چھوڑنے سے روک دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں جی ڈی اے کے اراکین اسمبلی میں این…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
سندھ اسمبلی نتائج: پیپلز پارٹی 84، ایم کیو ایم پاکستان 24، 14 آزاد امیدوار کامیاب
الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی تمام 130 جنرل نشستوں کے جو نتائج جاری کئے ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی صوبے کی سب سے بڑی جماعت جبکہ ایم کیو ایم دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے 84 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو 28 نشستیں ملی ہیں، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے ابھرا تھا لیکن اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ملی اور اسے صوبائی اسمبلی کی صرف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
ٹی ایل پی سے متعلق پالیسی پر اتحادی جماعتیں بھی حکومت سے نالاں - اردو نیوز پیڈیا
ٹی ایل پی سے متعلق پالیسی پر اتحادی جماعتیں بھی حکومت سے نالاں – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  لاہور /  اسلام آباد: حکومتی اتحادی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) فرانس میں ہونے والی گستاخیاں اور ٹی ایل پی کے احتجاج کا معاملہ ایوان میں لے آئی۔ پیر پگارا کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک کے مطالبات کی حمایت کے بعد پارلیمانی سطح پر بھی جی ڈی اے نے معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ حکومتی اتحادی جماعت نے فی الفور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا اور جی ڈی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
ہڈی جھپٹ سیاست کا تازہ دور
اس بار سیاستدانوں کے تجزیے بھی مجھ جیسے صحافیوں جیسے نکلے۔ نونیوں کو آخر تک امید تھی کہ نوے کا ہندسہ پار کر لیں گے مگر گاڑی چونسٹھ پر رک گئی۔ آصف زرداری کا تجزیہ تھا کہ جو بھی حکومت سازی کرے گا، اسے پہلے ہماری چوکھٹ پر سلام کرنا ہو گا اور یہ کہ اس بار آزاد امیدوار اتنی بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے کہ حکومت سازی کا مارکیٹ ریٹ وہی نکالیں گے۔ متحدہ مجلسِ عمل کو یقین تھا کہ تنگ آئے لوگ پھر سے ان کی جانب رجوع کریں گے۔ اے این پی کی قیادت سمجھتی تھی کہ پچھلی بار انھیں طالبانی تشدد نے کامیابی حاصل کرنے سے روکا مگر اس بار اتنا مینڈیٹ ضرور مل جائے گا کہ وہ خیبر پختون خوا میں کم ازکم مخلوط حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر پائیں۔ اور مسلم لیگ کے نونیوں کو پکا پکا معلوم تھا کہ پابندِ سلاسل نواز شریف اور مریم بی بی کا غصہ پنجابی عوام کے غیض میں بدل کر اتنا ووٹ پڑوائے گا کہ دشمنوں اور سازشیوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حلقوں میں یہ بحث چل نکلی تھی کہ اگلا وزیرِاعلی ایاز لطیف پلیجو ہو گا کہ حسنین مرزا کہ پیر صاحب پگارا کا کوئی فنگشنل مرید۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے گڈ گورننس نے اوپر سے نیچے تک ہر سندھی کو پچھلے دس برس میں فل تپا دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی کیلکولیشن تھی کہ کراچی کی اکیس سیٹوں میں سے دس سیٹیں تو ملی ہی ملیں۔ تحریکِ انصاف کو تین سے چار سیٹیں بھی مل جائیں تو بڑی بات ہو گی۔ مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے ساتھی اس قدر پر امید تھے کہ شہری سندھ کی تیرہ سیٹیں تو جھولی میں گر ہی رہی ہیں۔ ذرا سا زور اور لگا لیا جائے تو سولہ بھی ہو سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کا تجزیہ یہ تھا کہ کراچی چونکہ اگست دو ہزار پندرہ میں بھائی کی خود کش تقریر کے نتیجے میں کھلا شہر بن چکا اور نئی انتخابی حلقہ بندیاں بھی پیپلز پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی لہذا چھ سے آٹھ سیٹیں کراچی سے نہ نکالیں تو پھر پچاس برس سے سیاست کرنے کا فائدہ ؟ سب اپنی اپنی گنتی میں اتنے مست تھے کہ کوئی دیکھ ہی نہ پایا کہ تحریکِ لبیک کا ہاتھی بھی کھلی سیاسی چراگاہ میں گھس چکا ہے اور قومی سطح پر پانچویں اور کراچی کی حد تک تیسرے پائیدان پر کھڑا ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔ لبیک نہ ہوتی تو لیاری بلاول کا ہوتا۔
دوسری جانب یہ تجزیے ہو رہے تھے کہ نتائج پہلے سے تیار ہو چکے ہیں۔ پولنگ کا دن بس ایک رسم ہے۔ مرکز اور خیبر پختون خوا تحریکِ انصاف کو الاٹ ہو گا۔ شریفوں کی اشک شوئی کے لیے پنجاب کی زیادہ تر صوبائی نشستیں ان کے حوالے کر دی جائیں گی تاکہ وہ سادہ اکثریتی حکومت بنا لیں۔ جیسے دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا گیا۔ پنڈت کہہ رہے تھے کہ اس بار پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا اور اگر اس نے اصلی تے باتصویر اشرافیہ کی کچھ ضروری باتیں نہ مانی تو پھر سندھ میں اپوزیشن کو ویلڈ کر کے ایک جام صادق ٹائپ حکومت بنا دی جائے گی۔ مگر یہ کیا ہوا ؟ سندھ میں تو پیپلز پارٹی پچھلی بار سے زیادہ سیٹیں لے گئی اور یہ شکوہ الگ کہ ہائے ہائے دھاندلی ہو گئی۔ تو پھر دھاندلی کس نے کس کے حق میں کی ؟
جنھیں اندر کی ضرورت سے زیادہ خبر تھی انھوں نے انتخابات سے دو ہفتے پہلے ہی خود سے سیٹیں بانٹنی شروع کر دیں۔ بقول ان کے تحریکِ انصاف کی مرکز میں حکومت بنے گی ضرور مگر عمران خان کا دماغ سیٹ رکھنے کے لیے چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں جیپ گروپ کو بھی ساتھ جوڑا جائے گا۔ اور جو اکسٹھ الیکٹ ایبلز تحریکِ انصاف کو لیز کیے گئے ہیں ان کی وفاداریوں کی تلوار بھی خان کے سر پے لٹکا کے رکھی جائے گی تاکہ وہ اگلے پانچ برس سیدھی سیدھی بالنگ کرے اور باؤنسر، شارٹ پچ گیند اور بہت زیادہ وائیڈ بالیں کرنے سے باز رہے۔ مگر یہ کیا ہوا ؟ یہ کیسا نقشہ بن گیا کہ مرکز اور پنجاب میں جو بھی حکومت بنائے گا اسے پوری مدت تگڑی اپوزیشن اتنا مصروف رکھے گی کہ منشور ونشور بھول کر اپنی ہی پڑی رہے گی۔ اگر بادشاہ گروں کا یہی منصوبہ تھا تو وہ سو فیصد کامیاب ہو گیا۔ جیپ گروپ، سندھ کا گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ، کراچی کی پاک سرزمین پارٹی کے غبارے گرینڈ منصوبے سے توجہ ہٹانے کے لیے چھوڑے گئے لہذا وہ کام نکل جانے کے بعد فضا میں ہی پھٹ گئے۔
بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی مخلوط زہری حکومت کے خلاف جس سرفراز بگٹی نے پہلا بگلِ بغاوت بجایا تھا اسے وزارتِ اعلی کا خواب دکھا کر انتخابات میں پورا قالین ہی قدموں تلے سے گھسیٹ لیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی اگر اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی تو اس کی گاڑی پندرہ سیٹوں پر کیوں رک گئی۔ پچیس کیوں نہیں دلوائی گئیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان میں جو بھی پارٹی حکومت کرے اس کا نام بھلے کچھ بھی ہو مگر خدمت باپ کی طرح ہی بجا لائے گی۔ لہذا باپ جیتے کہ بیٹا کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر انجینرنگ ہوئی بھی تو کیسی ؟ بس اتنی کہ انتخابی ٹرک کھول کر انجن تحریکِ انصاف کو تھما دیا گیا اور پھر ڈھانچہ گیرج سے باہر کھڑا کر دیا گیا جس پر ہجوم ٹوٹ پڑا۔
ق لیگ کا ہاتھ بونٹ پر پڑ گیا، شیخ رشید ٹائر پکڑ کے نکل لیے۔ نونیوں کے حصے میں چیسز باڈی آگئی ، پیپلز پارٹی نے بیٹری اٹھا لی، اے این پی نے سیٹ کور نوچ لیا ، اختر مینگل نے ٹائر بدلنے کی کٹ ہتھیا لی ، جی ڈی اے کو پچھلی دو بتیاں مل گئی ۔ فضل الرحمان کو بس گئیر ہی مل پایا۔ نثار علی خان کبھی خود کو تو کبھی جیپ کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں اور پرسوز مصطفی کمال رندھے سر میں پاک سرزمین شاد باد گا رہے ہیں۔ اب کہتے ہیں تحریک چلاویں گے مگر جس جس کے ہاتھ جو آیا اسے بھی پھینکنے کو تیار نہیں۔ جس کا جہاں بس چلا حکومت بھی بنائیں گے یا شامل ہوں گے مگر چرائے ہوئے الیکشن پر سینہ کوبی بھی جاری رہے گی۔ ایسے نتائج اور ایسی اپوزیشن کسی بھی انجینیر کے لیے من و سلویٰ سے کم نہیں۔ اگلے پانچ برس کے لیے ہڈی جھپٹ سیاست کا ایک اور دور مبارک ہو۔
وسعت اللہ خان  
1 note · View note
swstarone · 4 years
Text
یوسف رضا گیلانی کو شکست، صادق سنجرانی دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ منتخب
یوسف رضا گیلانی کو شکست، صادق سنجرانی دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ منتخب
حکومتی امیدوار صادق سنجرانی دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ صادق سنجرانی نے 48 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی  نے 42 ووٹ حاصل کیے۔ یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوئے۔ ہم نیوز کے مطابق سینیٹ اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے بطور پریزائیڈنگ افسر اعلان کیا کہ یوسف رضا گیلانی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
اعتماد کو تقویت دینے کے لیے، وزیراعظم عمران نے کراچی میں ایم کیو ایم-پی، جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
اعتماد کو تقویت دینے کے لیے، وزیراعظم عمران نے کراچی میں ایم کیو ایم-پی، جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
وزیراعظم عمران خان مشترکہ اپوزیشن کے ایک روز بعد بدھ کو کراچی پہنچے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ان کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں، اور مرکز میں ان کی حکومت کے اتحادیوں، متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (MQM-P) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) کی قیادت سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم کا بہادر آباد میں عارضی ہیڈ کوارٹر پہنچنے پر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پی کے اراکین نے استقبال کیا۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر،…
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 4 years
Text
ایم کیو ایم کا کوئی بھی رکن پی ٹی آئی کی دعوت کے باوجود ظہرانے میں نہ پہنچا
ایم کیو ایم کا کوئی بھی رکن پی ٹی آئی کی دعوت کے باوجود ظہرانے میں نہ پہنچا @ImranKhanPTI #pakistan #government #Election @CMShehbaz @NawazSharifMNS @MaryamNSharif #opposition @MoulanaOfficial @BBhuttoZardari #Aajkalpk
کراچی: پی ٹی آئی نے سیف اللہ نیازی کیلئے ظہرانے کا اہتمام کیا تھا جس میں اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس  کو بھی دعوت دی گئی۔ ظہرانے میں صدرجی ڈی اے صدرالدین راشدی ، وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کے ارکان نے شرکت کی تاہم دعوت کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی رکن ظہرانے میں نہ پہنچا۔ ظہرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما مولوی محمود کا کہنا تھاکہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
پوری مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد
بدین میں این اے 23 پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) رہنماؤں اورمرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ مرزا فیملی کے خلاف پیپلز پارٹی کے امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو نے اعتراضات جمع کروائے تھے۔اعتراضات میں کہا گیا تھا کہ مرزا فیملی بینکوں کی نادہندہ ہے۔ ریٹرننگ آفیسر (آر او) محمد نواز نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مرزا فیملی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔ آر او نے کاغذات این اے 223 پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
اجمل کی پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ کانگریس کیوں ٹوٹ گئی؟
اجمل کی پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ کانگریس کیوں ٹوٹ گئی؟
آسام اسمبلی انتخابات کے چار ماہ بعد ، ریاست میں کانگریس کی زیرقیادت اپوزیشن اتحاد ٹوٹ رہا ہے یہاں تک کہ پارٹی کے ایم ایل اے حکمران بی جے پی زیرقیادت محاذ میں سبز چراگاہوں کو دیکھتے ہیں۔ کانگریس پہلے ہی ایک اہم حلقہ ، آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے ہاتھ دھو چکی ہے ، جبکہ دوسرا ، بوڈولینڈ پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) ، بی جے پی کی قیادت والے محاذ کے ساتھ مل رہا ہے کیونکہ ریاست پانچ ضمنی انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔ 126 اسمبلی حلقوں میں
کانگریس نے اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ صفوں کو توڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ واضح طور پر اس عظیم الشان پارٹی کا احساس ہوا جس نے پارٹی کے ساتھ رہنے سے نہ تو پچھلے اسمبلی انتخابات میں زیادہ مدد کی اور نہ ہی مستقبل میں اس کے مقصد میں مدد ملے گی۔ کچھ اے آئی ڈی یو ایف رہنماؤں کی وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کی تعریف آخری تنکے کے طور پر آئی۔
پچھلے مہینے ریاست کے کانگریس کے نئے صدر بھوپین بورا کی صدارت میں ایک کور کمیٹی کی میٹنگ نے اے آئی یو ڈی ایف کے “بی جے پی کے ساتھ تعلقات میں رویے اور رویہ” پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کچھ اے آئی یو ڈی ایف رہنماؤں کی طرف سے بی جے پی اور وزیر اعلیٰ کی مسلسل تعریف کانگریس کو ناقص روشنی میں دکھا رہی ہے۔
تاہم ، اے آئی یو ڈی ایف کا خیال ہے کہ اتحاد کو چند رہنماؤں کے ذاتی خیالات کی وجہ سے ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اے آئی یو ڈی ایف لیجسلیچر پارٹی کے رہنما حافظ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ وقت کی ضرورت سیکولر اور جمہوری جماعتوں کے متحد رہنے اور فرقہ وارانہ بی جے پی کو روکنے کی کوششوں کو تیز کرنے کی ہے۔
بی پی ایف ، اس دوران ، ایک بار پھر تیزی سے بی جے پی کے قریب ہوتا جا رہا ہے ، اس کے رہنماؤں نے وزیر اعلیٰ سے کثرت سے ملاقات کی اور اپوزیشن اتحاد میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے ، کانگریس کور کمیٹی نے بی پی ایف کے بارے میں فیصلہ کرنے کا فیصلہ پارٹی صدر پر چھوڑ دیا ہے۔
انتخابات سے قبل بننے والے 10 جماعتی گرینڈ الائنس میں سی پی آئی (ایم) ، سی پی آئی ، سی پی آئی (ایم ایل) ، آنچلک گان مورچہ اور آر جے ڈی بھی شامل تھے۔ اتحاد نے اسمبلی انتخابات میں 50 نشستیں جیتی تھیں اور کانگریس کو 29 ، اے آئی یو ڈی ایف کو 16 ، بی پی ایف کو چار اور سی پی آئی (ایم) کو ایک نشست ملی تھی۔
کانگریس کے ترجمان اپوربا کمار بھٹاچارجی کا کہنا ہے کہ ’’ ہم نے زبردستی سے کام نہیں لیا۔ “ہمارے پاس کافی رائے تھی کہ یہ بتائیں کہ اے آئی یو ڈی ایف کی مزید ضرورت نہیں ہے ، اور یہ کہ کانگریس اس کے بغیر بہتر ہوگی۔ ہمیں اپنے طور پر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ، خاص طور پر ضمنی انتخابات کے ساتھ۔
ماریانی ، تھوڑا ، بھبانی پور ، تمل پور اور گوسائیگاؤں کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ جبکہ ماریانی اور تھورا سیٹیں کانگریس کے ممبران روپ جیوتی کرمی اور سشانت بورگوہین نے خالی کی ہیں ، جو بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں ، بھبانی پور کی نشست خالی پڑی ہے جب اے آئی یو ڈی ایف کے ایم ایل اے فانی دھر تالکدار نے استعفیٰ دیا اور بھگوا پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ تمل پور کے ایم ایل اے لیہو رام بوڈو (یونائیٹڈ پیپلز پارٹی لبرل ، بی جے پی کے اتحادی) اور گوسائیگاؤں کے ایم ایل اے مجیندر نرزاری (بی پی ایف) کی موت ہو گئی ہے۔ سابق وزیراعلی سربانند سونووال ، جو اب مرکزی وزیر ہیں ، کے اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے بعد مجولی کی نشست بھی خالی ہوگی۔
اگر آپ مجولی کو بھی شامل کرتے ہیں ، تو تین سیٹیں (ماریانی اور تھورا دوسری دو ہیں) بالائی آسام میں ہیں ، جہاں کانگریس نے اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد کے لیے بیش قیمت ادائیگی کی ہے ، بی جے پی نے پولرائزیشن کی گہرائی کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کو تبدیل کرنا ہوگا ، ”خطے کے ایک کانگریس لیڈر کا کہنا ہے۔ کانگریس ، اپنے حصے کے لیے ، اب اکھل گوگوئی کی قیادت میں رائیجور دل کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔
(یہ پرنٹ ایڈیشن میں “اے بریک اپ ان آسام” کے طور پر شائع ہوا)
گوہاٹی میں دیپنکر رائے کی طرف سے
. Source link
0 notes
paktoday · 4 years
Text
عمرکوٹ ضمنی الیکشن سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 52 پر  پاکستان پیپلزپارٹی کے امیرعلی شاہ نے کامیابی حاصل کرلی۔
عمرکوٹ ضمنی الیکشن سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 52 پر  پاکستان پیپلزپارٹی کے امیرعلی شاہ نے کامیابی حاصل کرلی۔
عمرکوٹ ضمنی الیکشن سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 52 پر  پاکستان پیپلزپارٹی کے امیرعلی شاہ نے کامیابی حاصل کرلی۔ضمنی الیکشن میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور پیپلزپارٹی کے امیدوار امیرعلی شاہ کے درمیان بہت سخت مقابلہ تھا۔کیونکہ ارباب رحیم صوبہ سندھ کے سابق وزیر اعلی وہ چکے ہیں اس ضمنی الیکشن میں دو پولنگ اسٹیشنوں پر دونوں امیدواروں کے حامیوں میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes