#جناب خان
Explore tagged Tumblr posts
Text
سائفر کیس کا فیصلہ : انگنت دائروں کا سفر؟
سائفر کیس کا فیصلہ سنا تو دل کو ٹٹولا، وہاں نہ خوشی کے جذبات تھے نہ افسوس کے۔ یہ وہی منیر نیازی والا معاملہ تھا کہ وہ بےحسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا کچھ غور کیا تو یاد آیا کہ کپتان کے حالات حاضرہ کی شرح بھی منیر نیازی نے ہی بیان کر دی ہے کہ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی (کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے / کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا)
عمران خان کا معاملہ بھی صرف شہر کے لوگ نہیں، ان کے اپنے شوق نے بھی انہیں یہ دن دکھانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیاسی قیادت کا قانونی نزاکتوں کے ہاتھوں تحلیل ہو جانا اچھی بات نہیں۔ سیاسی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی تحلیل ہونی چاہیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، پاناما میں سے اقامہ نکلا تو جناب عارف علوی نے ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر عمران خان سے لڈو کھائے۔ معلوم نہیں آج کون لڈو کھا رہا ہو گا اور یہ بھی خبر نہیں یہ آخری لڈو ہو گا یا پیر مغاں کے انگوروں کے رس سے لڈو بنتے اور بٹتے رہیں گے۔ دائروں کا ایک سفر ہے، جسم شل ہو جاتا ہے مگر گھر نہیں آتا۔ گھوم پھر کر وہی مقام آ جاتا ہے جہاں سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوتا ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: لو جی اک بار پھر گرنا پڑ گیا۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں تو گماں گزرتا ہے سو سال یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری برسات برستی ہے تو نئی حقیقتوں کے ہاتھوں فیصلے اور منصف دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں تو قدرت نے ویسے ہی اتنی لچک رکھی ہے کہ چاہے تو ہاتھی کو گزرنے دے اور چاہے تو مچھر پکڑ لے۔ سیاسی قیادت کو بھی مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈی چوک کے اطراف میں سازگار موسم حسب ضرورت ضرور اتر سکتے ہیں لیکن ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔
ریاست کسی وجہ سے صرف نظر کر سکتی ہے لیکن دائمی ہیجان کی کیفیت میں نہیں رہ سکتی۔ عمران خان نے سیاست کو کلٹ بنایا اور سمجھا وہ اس فصیل میں محفوظ ہیں۔ یہ خوش فہمی جاڑے کی پہلی بارش کے ساتھ بہہ گئی۔ کلٹ اور ریاست زیادہ دیر ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظام نے ابھی بھی عمران خان کو نہیں اگلا۔ سزا اس سے بھی سخت ہو سکتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی میں ایسا بہت کچھ موجود ہے کہ اپیل کے مراحل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ گویا زبان حال بتا رہی ہے کہ گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کا حصول مگر کلٹ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عصبیت قانون کے کٹہرے میں ختم نہی ہوتی۔ تارا مسیح کا پھندا بھی بھٹو کی عصبیت ختم نہیں کر سکا۔ نواز شریف بھی وقت کا موسم بدلا تو میدان میں موجود ہیں۔ عمران خان کی سیاست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وقت کا موسم بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو ایک سیاست دان بن کر دکھانا ہو گا۔ بدلتے موسموں میں ان کے لیے قبیلے کے خان جیسا کوئی امتیازی مرتبہ دستیاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے ہیں، ویسے وہ بھی ہیں۔ زمینی حقائق کے ہمراہ امکانات کا جہاں اب بھی آباد ہے مگر صاحب کو زمین پر آنا ہو گا۔
عمران خان اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں۔ امور سیاست ہی کو نہیں، امور خارجہ تک کو انہوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ ابھی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی زد میں آئے ہیں، بطور وزیر اعظم جو فرد جرم انہوں نے ایران میں کھڑے ہو کر پاکستان پر عائد کی تھی، وہ کسی انتہائی سنگین روب کار کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔ شکر کریں، بچ گئے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے شاید ہی کسی مقدمے کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ فارن فنڈنگ کیس سے لے کر اب تک، ہر مقدمے کو کھیل سمجھا گیا۔ ان سب کا خیال شاید یہ تھا کہ خان تو پھر خان ہے۔ قانون کی کیا مجال خان کی طرف دیکھے۔ خان خفا ہو گا تو جون میں برف پڑنے لگے گی، خان خوش ہو گا تو جاڑے میں بہار آ جائے گی۔ اب وقت نے انہیں بتا دیا ہے کہ قانون خود ایک خان ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، قانون جب دستک دے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ملزم اور قانون کے بیچ صرف وکیل ہوتا ہے۔ اسے پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے۔
سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وکیلوں کو فیس دی جاتی ہے پارٹی ٹکٹ نہیں دیے جاتے۔ مزید سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وکیل پیپلز پارٹی سے نہیں لیے جاتے، اپنی پارٹی سے لیے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کپتان نے ہدایت کی تھی ’سائفر سے کھیلنا ہے۔‘ سوچتا ہوں، کیا سے کیا ہو گئے کھیل ہی کھیل میں۔ لیجیے منیر نیازی پھر یاد آ گئے: ہُن جے ملے تے روک کے پچھاں ویکھیا ای اپنا حال! (اب جب ملے تو روک کے پوچھوں دیکھا ہے اپنا حال؟)
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
حج2023: درخواست فارم جمع کرنے کا آغاز
نئی دہلی، 11؍فر��ری (ایس او نیوز؍پریس ریلیز) سفر حج 2023کے لیے حج فارم جمع کرنے کا باضابطہ آغازآج دہلی اسٹیٹ حج کمیٹی کے آفس حج منزل،آصف علی روڈ، نئی دہلی میں ہوا۔ اور یہ سلسلہ10؍مارچ2023 تک چلتا رہے گا۔دہلی اسٹیٹ حج کمیٹی کے ایگزیکٹو آفیسر جناب جاوید عالم خان نے اس سلسلے میں اپنے پریس بیانیہ میں بتایا کہ آج 10؍فروری2023 سے حج کمیٹی آف انڈیا کی ویب سائٹhttps://hajcommittee.gov.inپرفارم…
View On WordPress
0 notes
Text
ترکیہ زلزلہ متاثرین کی رقمی عطیات سے امدادکریں - Siasat Daily
قونصل خانہ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے جناب زاہد علی خاں و جناب افتخار حسین کی اپیل حیدرآباد11فروری(سیاست نیوز) امت مسلمہ پر جب کبھی آفت و مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ‘ادارہ ٔ سیاست نے اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے ان کی مدد و راحت کاری میں تعاون کیا ہے۔جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست و جناب افتخار حسین سکریٹری فیض عام ٹرسٹ نے ترکیہ کے مصیبت زدہ شہریوں کیلئے شہریان حیدرآباد کے جذبۂ خدمت خلق کی…
View On WordPress
0 notes
Text
ترکیہ زلزلہ متاثرین کی رقمی عطیات سے امدادکریں - Siasat Daily
قونصل خانہ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے جناب زاہد علی خاں و جناب افتخار حسین کی اپیل حیدرآباد11فروری(سیاست نیوز) امت مسلمہ پر جب کبھی آفت و مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ‘ادارہ ٔ سیاست نے اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے ان کی مدد و راحت کاری میں تعاون کیا ہے۔جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست و جناب افتخار حسین سکریٹری فیض عام ٹرسٹ نے ترکیہ کے مصیبت زدہ شہریوں کیلئے شہریان حیدرآباد کے جذبۂ خدمت خلق کی…
View On WordPress
0 notes
Text
ترکیہ زلزلہ متاثرین کی رقمی عطیات سے ام��ادکریں - Siasat Daily
قونصل خانہ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے جناب زاہد علی خاں و جناب افتخار حسین کی اپیل حیدرآباد11فروری(سیاست نیوز) امت مسلمہ پر جب کبھی آفت و مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ‘ادارہ ٔ سیاست نے اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے ان کی مدد و راحت کاری میں تعاون کیا ہے۔جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست و جناب افتخار حسین سکریٹری فیض عام ٹرسٹ نے ترکیہ کے مصیبت زدہ شہریوں کیلئے شہریان حیدرآباد کے جذبۂ خدمت خلق کی…
View On WordPress
0 notes
Text
*جشن تکمیل حفظ*
*الحمد للہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج یہ ساعت سعید دیکھنے میں آئی کہ جامعہ ضیاء الاسلام منجہ کوٹ کے اساتذہ کی محنت کے نتیجہ میں جامعہ کے دو طلبہ عزیزم حافظ محمد ارشد سلمہ تھنہ منڈی، و عزیزم حافظ محمد عباس سلمہ مہور ریاسی نے قران پاک حفظ مکمل کیا جامعہ کی تاریخ میں آج کا دن سنہری حروف سے لکھا جائے گا اسی موقعہ پر جامعہ میں طلبہ کی جانب سے ایک دعائیہ محفل کا اہتمام کیا گیا جس میں تلاوت قرآن پاک کے بعد نعت رسول مقبول سے محفل کا آغاز کیا گیا نوجوان عالم مولانا حافظ ظفر صاحب نیلی نے خطاب کیا اور طلبہ کو اپنی قیمتی اور بیش بہا نصیحتوں سے نوازا اسکے بعد جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا محمد ہارون مصباحی صاحب نے اپنا گراں قدر تاثرات پیش فرماتے ہوئے طلبہ و اساتذہ کو مبارکباد پیش کی اخر میں جامعہ کے سربراہ اعلی حضرت مولانا حافظ محمد الياس سلطانی صاحب نے طلبہ و حاضرین کو مبارک باد پیش کرتے کہا کہ اس حسین موقع پر میں ان خوش نصیب طلبہ کے والدین، اعزا اقربا،جامعہ کے جملہ اساتذہ بالخصوص شعبہ حفظ کے لائق فائق اساتذہ جناب حافظ محمد ادریس بٹ صاحب اور حافظ محمد افتار صاحب کو اور جامعہ کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جامعہ کے جملہ معاونین ومخلصین کے لئے خلوص دل سے دعا کرتا ہوں جو اپنے مال اور سامان خوردونوش کے ذریعے جامعہ کے طلبہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جامعہ کے تمام طلبہ بالخصوص ان دونوں طلبہ کو عالم باعمل بنائے۔ اس موقعہ پر ادارہ کے مخلص معاون و مشاور محترم جناب ماسٹر شوکت خان صاحب سینئر صحافی و چیئرمین انٹر نیشنل اسکول منجہ کوٹ محترم جناب پرویز خان صاحب جناب حولدار ظفر خان صاحب جناب ریاض چوہدری صاحب جناب صوفی شبیر صاحب جملہ اساتذہ و ملازمین جامعہ و دیگر احباب موجود رہے*
*آپ سب کا خادم۔*
*محمد الياس سلطانی خادم جامعہ ضیاء الاسلام منجہ کوٹ*
0 notes
Photo
’’جناب وزیراعظم آپ کے سر کے اوپر جو تصویر ہےیہ قائداعظم محمد علی جناح ہے‘‘ جو صحافی عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ،میں نے عمران خان سے کیا کہا تھاجس پر وہ متفق ہو گئے تھے ، حامد میر اندر کی بات سامنے لے آئے اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وہ صحافی جو صحافی نہیں مشیر بننے کی کوشش میں تھے انہوں نے یہ بحث شروع کروائی ۔سینئر صحافی وی اینکر پرسن حامد میر نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ جن صحافیوں کے الفاظ ہوتے ہیں میڈیا سچ بولتا ہے ۔ لیکن باہر آکر انہوں یہ کبھی یہ آج تک نہیں بتایا ۔ کہ ہم نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لو ۔ میں نے ان سے کہا جناب وزیراعظم آپ کے سر کے
#ائے#اپ#اسرائیل#اندر#اوپر#بات#پر#تسلیم#تصویر#تھاجس#تھے#جناب#جناح#جو#حامد#خان#دے#رہے#سامنے#سر#سے#صحافی#علی#عمران#قائداعظم#کا#کرنے#کہا#کو#کی
0 notes
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
خلائی پروگرام میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
پاکستان کی نیشنل پالیسی یہ ہے کہ بھارت ہمارا دوست ملک نہیں ہے۔ پالیسی کے اِس مرکزی نقطے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت میں کئی خونریز جنگیں اور لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ دونوں متحارب ممالک میں زیادہ نقصان اور خسارہ کسے اُٹھانا پڑا، یہ مناظر بھی ہمارے سامنے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اِس عداوت و عناد میں نیوکلیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ’’حقیقت‘‘ تقریباً تسلیم کی جا چکی ہے کہ بزورِ بازُو ہم بھارت سے کشمیر کا غاصبانہ قبضہ نہیں چھڑا سکتے۔ بس مکالمے کی ایک کھڑکی باقی رہ گئی ہے۔ بھارت مگر پاکستان سے مکالمے پر بھی راضی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر وہ ’’اونچے جوڑوں‘‘ میں ہے۔ G20 اور BRICS میں وہ مرکزی مقام حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان کو ڈالروں کے حصول میں مشکل ترین حالات کا سامنا ہے جب کہ بھارت کے قومی خزانے میں 600 ارب سے زائد ڈالرز پڑے ہیں۔ امریکا کے ممتاز ترین ڈیجیٹل اداروں (مائیکروسوفٹ اور گوگل وغیرہ ) کے سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ ایسے ماحول میں بھارتی چاند گاڑی ( چندریان تھری) چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی سے اُتری ہے تو بحیثیتِ مجموعی ہم پاکستانیوں کے دل مایوسیوں سے بھر گئے ہیں ۔ ’’چندریان تھری‘‘ کی کامیابی کے بعد بھارت نے 2 ستمبر 2023 کو Aditya-L1 نامی نیا راکٹ خلا میں چھوڑا ہے جو سورج پر تحقیقات کرے گا۔
بھارتی خلائی ادارے (ISRO) کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ 15 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سورج کی ماہیت اور حقیقت کا کھوج لگائے گا ( یاد رہے Aditya کا معنیٰ ہی سورج ہے) اپنا احساسِ محرومی اور اپنی فرسٹریشن دُور کرنے کے لیے ہمارے سوشل میڈیا میں عجب عجب تبصرے سامنے آئے ہیں۔ مثلاً: ’’بھارتی چاند پر تو پہنچ گئے ہیں مگر جنت میں نہیں پہنچ سکتے ۔‘‘…’’چاند ایک عظیم شئے ہے۔ اِسے دیکھ کر ہم روزہ رکھتے اور عیدین مناتے ہیں۔ اِس پر پاؤں رکھنا گناہِ کبیرہ ہے۔‘‘… ’’میں بحیثیت محب وطن پاکستانی چاند پر ناجائز بھارتی قبضے کی شدید مذمت کرتا ہُوں ۔‘‘…’’انڈیا جا جا، چاند سے نکل جا۔‘‘ راقم نے 25 اگست کو اِنہی صفحات پر ’’چندریان تھری کی کامیابی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تو کئی اطراف سے مجھے ، بذریعہ ای میلز، مطعون کیا گیا کہ ’’ دشمن بھارت کی اِس کامیابی کا ذکر کر کے آپ نے قومی غیرت کا ثبوت نہیں دیا۔‘‘ ایک معزز قاری، صدیق اعوان، نے لکھا: ’’بھارت میں اتنی استعداد و لیاقت کہاں کہ اکیلے ہی اچانک اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لے ؟ درحقیقت بھارت کے ساتھ اِس کامیابی میں امریکا اور اسرائیل کا اشتراک نظر آتا ہے۔‘‘ کینیڈا سے ایک اور قاری ، ڈاکٹر شاہد، نے لکھا: ’’بھارت نے، ترقی یافتہ ممالک کی طرح، یہ کامیابی اس لیے حاصل کی ہے کہ اُس نے مذہب اور سائنس کو جد ا جدا کر رکھا ہے۔‘‘
سچی بات یہ ہے کہ بھارت کے چاند پر پہنچ جانے کی کامیابی، حسد اور جلن سے، ہم پاکستانی ہضم نہیں کر پارہے۔ لیکن ایک پنجابی محاورے :’’ ہانڈی اُبل کر اپنے ہی کنارے جھلسائے گی‘‘ کے مصداق ، بھارت کے خلاف حسد سے جل بھن کر ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ ایسے موقع پر قومی سطح پر یہ مباحث سامنے آتے کہ بھارت کے مقابل پاکستان کا خلائی پروگرام کس مقام پر کہاں کھڑا ہے ؟ اگر کھلے قلب و ذہن کے ساتھ ایسا کوئی ایک ہی بڑا مباحثہ سامنے لایا جاتا تو مایوسیوں میں گھری اِس قوم کو کم از کم یہ تو معلوم ہو سکتا کہ بھارت تو چاند کو فتح کر کے دُنیا کی چوتھی مون پاور بن گیا ہے، مگر پاکستان اپنے خلائی پروگرام کے تحت چاند پر پہنچنے کی صلاحیت کب حاصل کر پائیگا؟ اِس پس منظر میں پاکستان کے ایوانِ بالا میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے اکلوتے سینیٹر، جناب مشتاق احمد خان، نے پاکستانی سینیٹ کے ذمے داران کے سامنے تین اہم سوالات رکھے ہیں: ’’(1) کیا وزیر انچارج برائے کابینہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کیا SUPARCO ( پاکستان کا سرکاری خلائی ادارہ) کا چاند کی تسخیر کا کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ہے تو کب تک؟ (2) اسپارکو کے جولائی 2022 سے جون 2023 تک بجٹ اور اخراجات کی تفصیلات کیا ہیں؟ (3) اسپارکو کے گزشتہ 5 سربراہ کون رہے ہیں؟اُن کے نام، تعلیمی قابلیت اور سائنسی و خلائی مہارتوں کی تفصیلات دی جائیں۔‘‘
اگر سینیٹر جناب مشتاق احمد خان کے مذکورہ بالا سوالات کے درست جوابات سامنے آ جاتے ہیں تو پاکستان کے 25 کروڑ عوام جان سکیں گے کہ عالمی خلائی پروگرام میں پاکستان کس درجے پر کھڑا ہے ؟ اور یہ کہ بھارتی چاند گاڑی کے مقابلے میں پاکستان کی چاند گاڑی کب تک چاند کی سطح پر اُتر سکے گی؟ اِن سوالات کے جوابات آنے پر ہمیں یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ خلائی دوڑ میں پاکستان کیوں بھارت سے پیچھے رہ گیا ؟ حالانکہ پاکستان کا خلائی پروگرام تو بھارتی خلائی پروگرام سے تقریباً آٹھ برس پہلے شروع ہُوا تھا۔ اُسی عرصے میں پاکستان نے خلا میں اپنا پہلا راکٹ (RAHBER1) چھوڑ کر امریکا اور رُوس کو بھی حیران کر دیا تھا۔ ساٹھ کے عشرے میں جس وقت پاکستان نے ’’رہبر وَن‘‘ خلا میں کامیابی سے بھیج کر NASA کو بھی ششدر کر دیا تھا، اُس وقت پاکستان کے پاس طارق مصطفیٰ، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی، پروفیسر عبدالسلام، انیس اے کے شیروانی، ایس این نقوی اور ایم رحمت اللہ ایسے ذہین ترین اور ��المی شہرت یافتہ سائنسدان موجود تھے۔
پھر کیا وجہ بنی کہ آج پاکستان کا خلائی ادارہ مذکورہ بالا سائنسدانوں اور خلائی ماہرین سے خالی ہو گیا ہے ؟ نوبت ایں جا رسید کہ بھارتی ’’چندریان تھری‘‘ کی کامیابی پر ہم خالی ذہن، خالی جھولی اور خالی دل کے ساتھ بس بھارت کو کوسنے دے رہے ہیں! پاکستان نے SUPARCO کی زیر نگرانی، تیس سال بعد، 1990 میں بھی ایک اور سٹیلائیٹ ’’بدر وَن‘‘(Badr1) خلا میں چھوڑا تھا۔ اِس مہم میں پاکستان نے امریکا اور چین کا تعاون حاصل کیا تھا۔ اِس کے بعد ہمارے خلائی ادارے میں بالکل خاموشی طاری ہے، حالانکہ اِس ادارے کے اخراجات بدستور بڑھ رہے ہیں۔ کام مگر؟ رواں لمحات میں امریکا کا سالانہ خلائی بجٹ 92 ارب ڈالرز، رُوس کا 4 ارب ڈالرز، چین کا 12 ارب ڈالرز اور بھارت کا 75 ملین ڈالرز ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دُنیا کی چار مون پاورز میں سے بھارت واحد ملک ہے جس نے انتہائی کم بجٹ میں چاند کو فتح کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ اِس دوران قدم قدم پر بھارت خلائی دوڑ میں آگے ہی آگے بڑھتا رہا ہے اور پاکستان قدم قدم پر پیچھے لڑھکتا رہا۔
پاکستان کے اِس زوال کی بڑی وجہ کیا بنی؟ اِس سوال کا ایک جواب ہمارے ایک انگریزی معاصر نے اپنے اداریئے میں یوں دیا ہے: ’’ہمارے خلائی پروگرام، اسپیس ایجنسی اور ادارے کی سربراہی ’’ریٹائرڈ حضرات‘‘ کے سپرد رہی ہے جن کا تعلق خلا اور جدید خلائی سائنس سے نہ ہونے کے برابر تھا۔‘‘ نتیجہ بھی پھر وہی نکلنا تھا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ بھارت سرخرو ہُوا ہے اور ہمارے ہاتھ ندامت، پسپائی اور احساسِ کمتری کے سوا کچھ نہیں لگا۔ ہم نے قومی سطح پر میرٹ کی جس طرح مٹی پلید کی ہے، جس طرح اعلیٰ سطح پر مجرمانہ اقربا پروری کی ہے اور جس بیدردی سے اپنے ذہین افراد کی توہین کی ہے، اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک سے ’’برین ڈرین‘‘ ہُوا ہے ۔ اہل اور ذہین افراد ملک سے بھاگ اُٹھے ہیں ۔ جو ذہین افراد چند ایک بچ گئے ہیں، وہ بھی اُڑنے کی تیاریوں میں ہیں!
تنویر قیصر شاہد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
احساسِ کمتری سے نکلیں
اس حقیقت سے کوئی باشعورانسان انکار نہیں کر سکتا کہ عزت نقالی سے نہیں ملتی۔ انگریزی زبان اور لباس کے استعمال کو پاکستان کا سوفٹ امیج ابھارنے کی تدبیر سمجھنے کو وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے درست طور پر بے بنیاد مفروضہ قرار دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ”زبان“ اپنے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت لے کر آتی ہے۔ آج آپ انگریزی سیکھنے کا ارادہ کر لیں۔ انگلش سیکھنے کے لئے لینگویج سینٹر جانے لگیں۔ ایک ماہ تک روزانہ جاتے رہیں۔ ٹھیک ایک مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ کے رویے، طرزِ گفتگو اور وضع قطع میں غیرمحسوس طریقے سے تبدیلی آچکی ہو گی۔ آپ کے لباس میں تبدیلی آنے لگے گی، اگر آپ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ کے رویوں تبدیلی آجائے گی، آپ اپنے قومی لباس کو غیر ملکی لباس سے حقیر سمجھنے لگیں گے بلکہ بعض افراد تو اپنے ہموطنوں حتیٰ کے قریبی عزیزوں تک کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ ”عربی زبان“ سیکھنے کے لئے دو ماہ کسی سینٹر ��لے جائیں۔ دو مہینے تک مسلسل عربی سیکھتے رہیں۔ ٹھیک دو مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں گے۔ ہر ایک کو ”السلام علیکم“ کہنے لگیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے لگیں گے۔ مسجد جا کر نماز پڑھنے لگیں گے۔ دورانِ گفتگو موقع بہ موقع سبحان اللہ، ماشاءاللہ، الحمدللہ کہنے لگیں گے۔ غیر محسوس طریقے سے مذہب اسلام کے طور طریقوں، رہن سہن اور بودوباش کو اپنانے لگیں گے۔ بحراللہ ہزاروی نے لکھا ہے کہ جب سعودی عرب میں تیل کی تلاش کیلئے امریکی ماہرین آئے۔ آنے سے پہلے ان کو عربی زبان سکھائی گئی تھی، چنانچہ ان میں سے کئی امریکی مسلمان ہو گئے تھے۔ بعض قومیں بہت ہوشیار ہوتی ہیں۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے کبھی اپنے ماہرین کو عربی نہیں سکھائی بلکہ اس نے اپنی زبان عربوں کو سکھائی۔ انگریز کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنی زبان وہاں کے مقامی لوگوں کو سکھاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں انگریزوں سے محبت پیدا ہونے لگتی ہے یا کم از کم ان کے دلوں سے نفرت نکل جاتی ہے۔ انگریز جب برصغیر آیا تو اس نے یہاں بھی یہی کام کیا۔ مقامی زبان کو تبدیل کر کے اس کی جگہ جبراً انگریزی زبان رائج کروائی۔ نتیجے کے طور پر 99 فیصد پڑھے لکھے جاہل قرار پائے اور انگریزی جاننے والا ایک فیصد طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلایا۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں اپنی زبان انگریزی پھیلانے کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے۔ اور تو اور دینی مدارس جہاں ساری دینی تعلیم ہی عربی زبان میں ہوتی ہے، قرآن سے حدیث تک، درجہ اوّل سے درجہ تخصص تک ساری کتابیں اور ساری تعلیم عربی میں ہی ہے، وہاں پر بھی انگریزی زبان مسلط کی جارہی ہے۔ ان کی مدد سے مدارس میں سینٹر کھل رہے ہیں۔ آپ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا یہی کام مسلمان کیا کرتے تھے۔
مسلمان جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کو عربی زبان سکھاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہاں کے لوگ غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو پسند کرنے لگتے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد وہ مسلمان ہو جاتے۔ مسلم فاتحین نے کبھی دوسروں کی زبانیں نہیں سیکھیں بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اپنی زبان دوسروں کو سکھائیں۔ دوسری زبانوں میں موجود علم و فن، علوم و معارف حاصل کرنے کے لئے ”دارالتراجم“ قائم کئے۔ ان علوم و فنون کو اپنی زبان عربی میں منتقل کر کے ان سے استفادہ کیا۔ صحیح طریقہ ہے بھی یہی کہ اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو نہ چھوڑا جائے۔ ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان ”اُردو“ ہے۔ ”اردو“ رواداری، اپنائیت، محبت، ایثار، ہمدردی اور خلوص سے بھرپور ہے۔ اردو زبان نے کم وقت میں زیادہ ترقی کی ہے۔۔ زندہ دل قومیں اور ملک اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت پر فخر کیا کرتے ہیں۔
اس کی بقا اور سلامتی کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ اپنی قومی زبان کی ترویج اور اس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں۔ یہ کس قدر ناانصافی بلکہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان تو ہے اردو، لیکن دفتری زبان انگریزی کو بنایا ہوا ہے۔ جب تک قومی زبان کو د��تری زبان قرار دیکر رائج نہ کیا جائے گا اس وقت تک اس کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے مرعوب ہوکر انگریزی کو دفتری زبان بنایا ہوا ہے۔ ہم خوامخواہ احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔
انور غازی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
قندپارسی
آشوب آرزو / وقار خان
اب آپ سے کیا پردہ، ہمیں فارسی اور سرائیکی بہت پسند ہیں۔ اگرچہ ہم ان زبانوں پر اتنی بھی دسترس نہیں رکھتے، جتنی واپڈا بجلی کی ترسیل پر یا عدالتیں انصاف کی فراہمی پر رکھتی ہیں، البتہ الفاظ کی نشست و برخاست، برجستگی، طرز تکلم و طرز تخاطب اور جملوں، محاوروں اور اشعار کا جامعیت سے بھرپور اختصار ہمیں بہت بھاتا ہے۔ اگر مقرر فارسی یا سرائیکی لہجے میں موتی پرونے والی کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو واللہ، اس کی گلفشانی کی پھوار ہمیں براہ راست اپنے قلب پر محسوس ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ہم دستیاب مال سے بھی اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، چاہے وہ آغا پٹھان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’سماع وعظ کجا، نغمہ رباب کجا‘‘
آغا افغانی کی مادری زبان فارسی ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے علاقے میں مزدوری کر رہا ہے۔ بوڑھا پٹھان اَن پڑھ ہے مگر سرمست حافظ شیرازی کی زبان بولتا ہے تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن سخت گرمی میں ہمارے گھر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور تھا اور نقاہت اور تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے اس کی خیریت دریافت کی ’’حال شما خوب است؟‘‘ (کیا تمہارا حال اچھا ہے؟) اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’خوب نیست، جوانی رفت‘‘ (اچھا نہیں، جوانی گزر گئی ہے) ہماری کج فہمی کہتی ہے کہ ایسے مختصر ترین مگر کوزے میں دریا بند کرنے والے جملے شاید ہی کسی زبان میں ملتے ہوں۔ ایسا ہی غالب کا ایک شعر یاد آیا ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت /جوانی مگو، زندگانی گزشت‘‘ آغا کی اردو بھی فارسیت زدہ ہے۔ شام اندھیرا ہونے سے پہلے گھر روانہ ہوتے ��وئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے ’’میرے سائیکل میں چراغ نہیں‘‘ ہمارے ملک میں کچھ پرانے لوگ کہتے ہیں ’’چشم ما روشن، دل ماشاد‘‘ ایران میں ہم نے دیکھا کہ لوگ مہمان کے سامنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور قدرے جھک کر انہی معنوں میں مختصراً ایک لفظ بولتے ہیں’’چشم‘‘... یہ لفظ اپنے اندر خلوص اور وسعت کا جہاں سمیٹے ہوتا ہے۔ وہ لوگ مٹھاس سے لبریز لہجے میں کہتے ہیں ’’تو نورچشم ما ای‘‘ شاید اسی لئے فارسی کو ’’قند پارسی‘‘یعنی شکر کی طرح میٹھی زبان کہا جاتا ہے۔
دسمبر کی اس خنک اور خشک شب ہمیں کچھ بھولی بسری خوش گفتار خواتین کی نرماہٹ سے آراستہ اور رس گھولتی، نشاط انگیز فارسی گفتگو اس لئے یاد آئی ہے کہ جناب انوؔر مسعود نے جیو کے ’’جرگہ‘‘ میں کہا ہے کہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے، جسے چھوڑ دینے سے اردو پر ہماری گرفت کمزور ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’اردو کو بچانے کے لئے ہمیں دوبارہ فارسی سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘ خوب است! لیکن ہمارے خیال میں اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا.....تیز رفتار ترقی کے اس سفر میں ہماری تہذیبی اقدار یوں گرد گرد ہوئی ہیں کہ اب یہاں نوشت و خواند، اہل علم کی صحبتیں، صاحب مطالعہ اور اہل زباں جیسے الفاظ اور اعمال بطور فیشن تو تھوڑے بہت استعمال ہوتے ہی ہیں مگر عملی طور پر متروک اور قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
آج ہم نے برصغیر میں فارسی کی تاریخ بیان نہیں کرنی۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ یقیناً ہمارا حافظہ ہزار سالہ ہو گا لیکن اب یہ حافظہ اتنا لاغر ہو گیا ہے کہ ہزار سال تو دور کی بات، اس میں تو سات دہائیاں قبل کی سب سے ضروری بات بھی محفوظ نہیں کہ محمدعلی جناح کس طرح کا ملک چاہتے تھے؟ اپنی بوسیدہ اقدار سے جان چھڑاتے ہوئے ہم نے کمپیوٹر کے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایسی قیامت خیز چال چلی کہ ’’کلاغی تگ کبک را گوش کرد، تو خودش را فراموش کرد‘‘ یعنی کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ امروز فارسی اور اردو کی مہار ہمارے ایسے ’’ایں چیست؟ پکوڑے تلیست‘‘ برانڈ ’’اہل علم‘‘ لکھاریوں اور اینکرز کے ہاتھ ہے، جو ’’داشتہ بکار آید‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ’’داشتہ کار پر آتی ہے‘‘ موزوں سمجھتے ہیں۔ اردو معلی پر دسترس کی بھی وہی مثال کافی ہے کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اس جملے میں گرامر کے لحاظ سے کون سا زمانہ پایا جاتا ہے ’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘ شاگرد نے کہا ’’امتحان کا زمانہ‘‘ ٹی وی چینلز پر ہمارے برادران و ہمشیرگان نے گیسوئے اردو سنوارتے ہوئے اسے فارسی سے پاک کر کے انگریزی کا ایسا تڑکہ لگایا ہے کہ ریختہ کی عظمت بال کھولے بین کر رہی ہے۔ خدا معلوم یہ زبان اور اقدار کا کیسا ارتقا ہے کہ اب ہمیں واعظ شیریں لساں، خزینہ علم وحکمت اور منبع فصاحت وبلاغت تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں مگر فصاحت اور حکمت تو کجا، خطبات سے رتی برابر شیرینی برآمد کرنا محال ہے۔ بس شعلہ بار لہجے ہیں اور دشنہ و خنجرکا انداز بیاں ۔
آج ہم نے بات فارسی کی وسعت اور مٹھاس تک محدود رکھنی تھی مگر بموجب نوشتہ تقدیر کے کڑواہٹ کی طرف نکل گئی۔ ہمیں اکثر ملکی حالات پر فارسی کے محاورے اور کہاوتیں یاد آتی ہیں۔ کب اور کیوں یاد آتی ہیں؟ یہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے۔ سنئے ’’آنچہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد ازخرابی بسیار‘‘ (دانا جو کام کرتا ہے، کرتا ناداں بھی وہی ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد) آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ (جس کا دامن صاف ہے، وہ محاسبے سے خوفزدہ کیوں ہے؟) ’’برزبان تسبیح و دردل گاوخر‘‘ (ظاہر میں نیک، دل میں لالچ) ’’ہرکہ درکان نمک رفت،نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں گیا، نمک ہو گیا) ’’ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر‘‘ (مفلس کی خوشی بھی ماتم سے خالی نہیں ہوتی)
’’آب آید،تیمم برخاست‘‘ (پانی مل جائے تو تیمم کی اجازت نہیں) اور ان الفاظ کا ہمیں مطلب تو معلوم نہیں مگر ان میں ردم کمال کا ہے کہ’’جواب جاہلاں، باشد خموشی‘‘(شیخ سعدی اختصار اور جامعیت کا بادشاہ ہے۔ صرف دو جملے نقل کر��ے ہیں کہ ’’بخشیدم،گرچہ مصلحت ندیدم‘‘ (معاف کر دیا اگرچہ مجھے اس میں اچھائی نظر نہیں آتی) اور وہ جو بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) انوؔر مسعود صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری کو بھی یاد کیا ہے،سو ہم اقبال کے ان سدا بہارفارسی اشعار پر بات ختم کرتے ہیں:
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی ؐرا
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام کہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا لیکن پیغام کی تاویل انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ خود خدا، جبرئیل اورمصطفیﷺ بھی حیران رہ گئے)
8 notes
·
View notes
Photo
#صبح_بخیر تنها یک کلمه نیست، بلکه کنش و باوری است برای آنکه بتوانید کل روز را خوب زندگی کنید. صبح زمانی است که تن خود را برای بقیه روز تنظیم می کنید پس درست تنظیم کنید! روز خوبی داشته باشید. * عکس از دوست بزرگوار و هنرمندمان جناب پیمان خان. با عضویت در وبسایت حس خوب از مزایای آن بهره مند خواهید شد. Www.HesseKhobCafe.ir Www.ArdabilCafe.ir Www.ArdabilCoffee.ir #حس_خوب #کافه_حس_خوب #کافی_شاپ_حس_خوب #کافیشاپ_حس_خوب #کافه #کافی_شاپ #کافه_گردی #قهوه (at کافه حس خوب) https://www.instagram.com/p/CJX4sOjgZxapqCElcrPrVItVhmaMtmAFluIQAs0/?igshid=1k6rr3zvqkm5h
1 note
·
View note
Text
@import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Scheherazade&display=swap');
انکار حدیث کا فتنہ
سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کا قول، فعل یا اقرار ہے۔ اور حدیث اسی سنت کی روایت ہے جو ہم تک محدثین کے ذریعے پہنچی ہے۔سنت سے انکار کا فتنہ کوئی نیا نہیں۔ کبھی یہ فتنہ سنت کے ماخذ شریعت ہونے سے انکار کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی حدیث پر شبہات اٹھائے جانے کی صورت میں، جو کہ خود سنت کا ایک بہت بڑا ماخذ ہے۔ چونکہ سنت قرآن کریم کے مبین کی تبیین، مجمل کی تفصیل، عموم کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور محتمل کی تعیین (یعنی احتمال کا تعین) کرنے والی ہے ، تو بعض لوگوں کا مختلف ادوار میں یہ شیوہ رہا ہے کہ یا تو سنت کے وحی ہونے کی حیثیت سے ہی انکار کر دیا جائے یا اگر یہ نہیں تو حدیث کو غیر معتبر اور نا قابل اعتماد ٹھہرانے کی کوشش کی جائے ۔ اور یہ سب اس لئے کہ قرآن کریم کی من مانی تاویل کی جا سکے ۔
م��لمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دراصل بیرونی تہذیب و افکار سے مرعوبیت ہی قرآن کریم کی یوں من مانی تاویل کا محرک بنی ہے اور یہی پھر انکار سنت یا انکار حدیث پر بھی منتج ہوئی ہے۔
مسلمانوں میں سے سب سے پہلے جنہوں نے اخبار آحاد پر اعتراضات اٹھا کر تمام احادیث کا عمومی طور پر انکار کیا وہ معتزلہ تھے۔ اس کی وجہ بھی ان کی اغیار کے فلسفے سے مرعوبیت بنی اور آج بھی جب ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ بھی غیر اسلامی افکار و تہذیب سے مرعوبیت ہی بنتی ہے۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب یونانی فلسفہ مسلمانوں میں متعارف ہوا تو مسلمانوں میں سے بعض نے منطق کو اصل الاصول قرار دے دیا ۔ لیکن چونکہ اسلام بھی ان کے مطابق دین برحق تھا تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام وہ ہے جو منطق کے مطابق ہو اور جو منطق کے مطابق نہ ہو وہ اسلام نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا انہوں نے اسلام سے منسلک ہر شے کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دیا چاہے اس کا تعلق عقائد کی اس قسم سے ہی کیوں نہ ہو جن پر ایمان لانا ایمان بالغیب کے قبیل سے ہے یا چاہے ان کا تعلق شرعی احکام سے ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بیرونی فلسفہ کی مرعوبیت ہی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم کی آ یات کی اس مبنی بر منطق فلسفہ کے مطابق تاویل کرنے اور اس سے متعارض احادیث کا مجموعی طور پر انکار کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ لیکن چونکہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں پہلے سے ہی عروج اور غلبہ حاصل تھا ، مسلمانوں کو عمومی طور پر اس طرز فکر کو اختیار کرنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہ ہوئی اور وہ مسلمانوں کے اذہان میں بہت زیادہ سرایت نہ کر سکا باوجود اس کے کہ اس نظریہ کو بعض خلفا کے ادوار میں ایک مضبوط حمایت بھی حاصل رہی۔ پھر اس وقت مسلمانوں کو عربی زبان پر دسترس اور دینی نصوص کی درست فہم بھی حاصل تھی ۔ لہٰذا معتزلہ اور ان جیسے دیگر گروہوں کے گمراہ کن افکار مسلمانوں میں زیادہ شہرت حاصل نہ کر سکے۔
انکار حدیث کا دوسرا بڑا فتنہ جو مسلمانوں میں پیدا ہوا وہ خلافت عثمانیہ کے انہدام سے کچھ عرصہ پہلے ہوا جب مسلمان فکری طور پر تنزلی کا شکار ہو چکے تھے اور اب اس کے اثرات ان کے سیاسی حالات پر بھی پوری طرح سے نمایاں تھے۔ چونکہ اب کا یہ فتنہ اس دور میں پیدا ہوا جب مسلمان اسلام کی زبان یعنی عربی اور اسلام کے درست فہم سے کوسوں دور جا چکے تھے ،تو اس کو پنپنے کا موقع بھی ملا۔ مسلمانوں کی اس تنزلی اور ابتر حالت کے پیش نظر مسلم مفکرین نے مسلمانوں کی احیا کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ مسلم مفکرین کے درمیان اس مسٔلہ پر دو گروہ ہو ئے۔ بعض نے یہ کہا کہ مغرب سے جو کچھ بھی آئے گا اس کو قابل اعتناء نہ سمجھا جائے گا چاہے وہ مغرب کے سائنسی علوم ہی کیوں نہ ہوں جن میں مغرب اپنے صنعتی انقلاب کے بعد دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا تھا یا پھر مغرب کی زبانیں جیسا کہ انگریزی، فرانسیسی وغیرہ ۔ جبکہ دوسرا گروہ ان مفکرین پر مشتمل تھا جنہوں نے مغربی افکار و تہذیب کی یلغار کی تاب نہ لاتے ہوئے اسی میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو پنہاں سمجھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کی تنزلی کی وجہ ہی دراصل یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو مغرب کے ہاں نشاۃ ثانیہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نظریات سے ہم آہنگ نہیں رکھ سکے جن میں جمہوری نظام سیاست، سرمایہ دارانہ نظام معیشت ، انسانی حقوق، حقوق نسواں اور انسانی آزادیوں جیسے افکار شامل تھے جو مغرب کے ہاں اب مسلمات کی حیثیت حاصل کر چکے تھے۔ مغربی تہذیب و افکار کے اختیار کرنے کو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ جوڑا جانا اس فکر کی مقبولیت کا باعث بھی بنا۔ مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیشِ نظر اور مغرب کے مذہب پر بالعموم اور اسلام پر بالخصوص بڑھتے ہوئے نظریاتی حملوں اور اعتراضات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں میں سے سب سے پہلے سر سید احمد خان بہادر صاحب (م ۱۸۹۸ ء) میدان میں اترے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سب کے جواب میں اسلام کے عقیدہ کو عقل سے ثابت کر کے اسلام کی صداقت کی ترویج کی جاتی ، اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کی کمزوریوں سے پردہ فاش کرتے ہوئے ان کا رد کیا جاتا اور نتیجتاً اسلام کو کفار کی آئیڈیولوجی کی نسبت ایک بہتر اور برتر آئیڈیولوجی کے طور پر پیش کیا جاتا، انہوں نے معذرت خواہانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے مضامین کا ایک سلسلہ قلمبند کیا جو " خطبات احمدیہ" کے نام سے شائع ہوا، جس میں انہوں اسلام کو ان تمام نام نہاد "الزامات "سے پاک کرنے کی کوشش کی جو مغرب نے اپنے نئے مسلمات کے تناظر میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر عائد کیے تھے۔ اس کے علاوہ سرسید صاحب نے علمی میدان میں اور بھی بہت سے کام کئے۔ انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھنا شروع کی جو وہ صرف پہلی ۲۰ سورتوں تک ہی لکھ پائے ۔
سر سید کے علاوہ اِن کے ہی ایک ہم عصر چراغ علی صاحب (م۱۸۹۵ء) بھی اسلام کے" دفاع "میں پیش پیش رہے۔ انہوں نےجہاد پر انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بھی جنگ اقدامی نہیں تھی بلکہ اسلام تو ایک بے ضرر مذہب ہے اور یہ صرف دفاع کے طور پر تلوار اٹھانے کی حمایت کرتا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ " تحقیق الجہاد " کے نام سے ہوا۔ اس کتاب کے سرورق پر لکھا ہے :" جس میں یورپین مصنفین کے اس اعتراض کے جواب میں کہ مذہب اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے ، قرآن حدیث و فقہ اور تاریخ سے نہایت عالمانہ اور محققانہ طور پر ثابت کیا ہے کہ جناب پیغمبر اسلام صلعم کے تمام غزوات و سرایا دفاعی تھے اور ان کا یہ مقصد ہر گز نہ تھا کہ غیر مسلموں کو بزور شمشیر مسلمان کیا جائے ، بلکہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام مجبوراً صرف مدافعت کرتے تھے" [۱](چراغ علی، تحقیقی الجہاد، ص۱)
عصر حاضر کے ایک منکر حدیث رحمۃ اللہ طارق نے اس جدو جہد میں سر سید اور چراغ علی کے اس ساتھ کی "دو یار غار " کہہ کر تحسین فرمائی ہے۔ وہ سر سید کو موسیٰ ؑ اور امام ابو حنیفہ جبکہ چراغ علی کو ہارون ؑ اور قاضی ابو یوسف سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنی کتاب "دانشوران قرآن " میں لکھتے ہیں:
"کہتے ہیں کہ اگر قاضی ابو یوسف نہ ہوتے تو امام ابو حنیفہ کی فکر عام نہ ہوتی۔ یہ اگر مبالغہ نہیں تو میں کہوں گا کہ اگر اعظم یا ر جنگ (جس سے چراغ علی کا تعلق تھا) کے منفرد نوعیت کے استدلالات سر سید کی حمایت میں نہ ہوتے تو ممکن تھا سید جاہلوں (یعنی روائیتی مسلمانوں ) کا تنہا مقابلہ نہ کر سکتے لیکن (بلا شبہ) اللہ نے ہند کے موسیٰ احمد خان کو چراغ علی جیسا ہارون معاون دے کر اپنی سنت کا یہاں بھی اعادہ کیا ہے "[۲]۔
ان کے بعد سید امیر علی (م ۱۹۲۸ء)کا نام سب سے زیادہ روشن ہے۔ رحمۃ اللہ طارق صاحب خود بھی لکھتے ہیں کہ :" سر سید اور چراغ علی کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ دفاع کرنے والے سید امیر علی "[۳] ۔ ان تمام حضرات نے اسلام کے ان نظریات سے دستبردار ی کا اعلان کیا جو مغرب کے نئے عقلی معیار پر پورا نہیں اترتے تھےمثلاً مسلمانوں کا اقدامی جہاد کرنا، رجم کی سزا، مرتد کی سزا، توہین رسالت کی سزا، رسول اللہ ﷺ کے معجزات، فرشتوں کی ہئیت، جنت و دوزخ کی ہئیت، رسول اللہ ﷺ کے متعدد نکاح، حضرت عائشہ ؓ کی کمسنی کی شادی، عام مسلمانوں کے لئے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونا ، ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر ہونا ، عورت کو حکمرانی کا اختیار نہ ہونا، عورت کا حجاب وغیرہ، ان سب سے اسلام کی دست برداری کا اعلان کیا گیا۔ اب ان میں سے جو احکام قرآن سے ثابت تھے ان کی من مانی تاویل کر لی گئی اور جو احکام حدیث سے ثابت تھے اور تاویل کے متحمل نہیں تھے، ان احادیث کو ہی رد کر دیا گیا اس سے قطع نظر کے وہ احادیث محدثین و فقہائے کرام کے ہاں مقبول و معروف اور زیر استدلال تھیں۔
معتزلہ کے بعد یہ دوسرا بڑا فتنہ تھا جو بیرونی افکار کو اسلام سے ثابت کرنے کے لئے اور اسلام کو ایسے افکار سے پاک کرنے کے لئے جو بیرونی فکر سے ہم آہنگ نہ ہوں ، معرض وجود میں آیا کہ جو پھر سنت و حدیث کی تحفیف و تحقیر پر منتج بھی ہوا۔خود اس دور کے منکرین حدیث بھی معتزلہ کے انکار حدیث کو بہت اونچی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رحمۃ اللہ طارق صاحب لکھتے ہیں: "معتزلہ کا ماخذ معلوم کرنے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اول و آخر قرآن پاک ہے۔وہ بلند پایہ محقق تھے۔ سکالر تھے۔ درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ قرآنی الفاظ کے مزاج سے بحث کرتے اور عقائد و احکام میں قرآن کی عمومی پالیسی کو مد نظر رکھتے ۔ بلکہ گہرائی میں جا کر دیکھئے تو صحابہ کرام ؓ کے ہاں بھی ان کا موقف اساس رکھتا ہے" [۴]۔
لیکن معتزلہ اور اس دوسرے دور میں انکار حدیث ابھی تک انکار سنت کے طور پر نہیں ابھرا تھا۔ بلکہ سنت کی تشریعی حیثی�� کا اقرار کرتے ہوئے صرف اخبار آحاد کی حد تک ہی انکار موجود تھا۔ اور اخبار آحاد کا انکار بھی بعض اوقات ہماگیر ہونے کی بجائے جزوی تھا خصوصی طور پر اس دوسرے دور میں یہ صرف ان احادیث تک محدود تھا جن کے صحیح ترین ہونے کے باوجود ان کو مغربی فکر سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث رد کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ ا س دور کے بعد انکار حدیث کے تیسرے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ یہ دور تیسرے دور کا ہی ایک تسلسل تھا لیکن اس میں احادیثِ آحاد تو کجا سنت کی تشریعی حیثیت سے ہی انکار کر دیا گیا۔ ان مفکرین میں عبد اللہ چکڑالوی، اسلم جے راج پوری (م ۱۹۵۵ ء)، خواجہ احمد الدین، عنایت اللہ مشرقی (م ۱۹۶۳ء)، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) اور ڈاکٹر سید عبد الودود (م۲۰۰۱ء) کے نام سر فہرست ہیں۔
عبد اللہ چکڑالوی صاحب نے منکرین حدیث پر مشتمل " اہل قرآن" کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔ چکڑالوی صاحب بھی سرسید کی طرح قرآن کریم کی تفسیر لکھنے بیٹھے لیکن ۱۳ سورتوں سے اوپر نہ لکھ سکے۔ اپنی تفسیر کے تعارف " ترجمۃ القرآن " میں ایک جگہ پر وہ لکھتے ہیں :" جس طرح شرک موجبِ عذاب ہے اسی طرح شرک فی الحکم یعنی دین میں اللہ کے حکم کے سوا اور کسی کا حکم ماننا بھی اعمال کا باطل کرنے والا، باعثِ ابدی و دائمی عذاب ہے۔ افسوس شرک فی الحکم میں آجکل اکثر لوگ مبتلا ہیں " [۵]۔ یہاں چکڑالوی صاحب کی " دین میں اللہ کے حکم کے سوا اور کسی کا حکم ماننا " سے مراد سنت ہے۔
سرسید اور چکڑالوی صاحب کے بر عکس خواجہ احمد الدین صاحب البتہ قرآن کی پوری تفسیر لکھ پائے۔ ان کے علاوہ غلام احمد پرویز صاحب نے اپنی لاتعداد کتب کے علاوہ " مفہوم القرآن" کے نام سے قرآن کا بامحاورہ ترجمہ لکھا جس میں وہ قوسین میں اپنے نایاب افکار بھی ساتھ ساتھ قلمبند کرتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرویز صاحب" طلوع اسلام" کے نام سے ایک جماعت کے بانی بھی ہیں ۔ یہ جماعت آج بھی قرآن کی محض عقل اور عربی لغت کے تحت افہام و تفہیم کا کام بڑے زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی ایک اسلام، دو اسلام اور دو قرآن کے نام سے کتب بہت مشہور ہوئیں۔ان تمام اصحاب کی کتب سے مغرب کی مرعوبیت سے عیاں ہے ۔ مثال کے طور پر برق صاحب " ایک اسلام " میں ایک جگہ پر انگریزوں کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہاں آپ کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے تمام انعامات سے( انگریز) لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ سلطنت اس کی علم اس کا،فضائیں اس کی ہوائیں اس کی، باغ اس کے نہریں اس کی، دانش اس کی حکمت اس کی ۔ اگر کل کو اللہ اس کی آخرت بھی سنوار دے تو آپ اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں"[6]۔معلوم پڑتا ہے کہ برق صاحب کفار کی دنیاوی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے ان کی اخروی کامیابی کے بھی قائل تھے۔ پھر "دو اسلام " میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:"متقین کا مصدر ہے تقویٰ جس کے معنی ہیں حفاظت، بچاؤ ، ڈیفنس، یعنی متقی لوگ وہ ہیں جن کا ڈیفنس مضبوط ہو، جن کی سرحدیں مستحکم ہوں، جو عسکری طاقت کے مالک ہوں اور جن کا کردار اتنا بلند ہو کہ ان پر کسی قسم کا حملہ نہ کیا جا سکے"[۷]۔ یہاں بھی اشارہ انگریز کی طرف ہی ہے۔ لیکن برق صاحب کو ایک طویل عرصے بعد سنت و حدیث کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہو ہی گیا جس کا اعتراف انہوں نے " دو اسلام " میں اس باب کے تحت کیا کہ " صحیح احادیث کو ماننا پڑے گا"۔ اور پھر اس کے بعد " ت��ریخ حدیث "کے نام سے کتاب لکھ کر اپنے انکار حدیث کی عملی اعتبار سے تلافی کی ۔ خود اس کتاب میں وہ " میری سابقہ تحریریں" کے نام سے عنوان باندھ کر اس بات کا اعتراف اس انداز میں کرتے ہیں:"جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقینا ً یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے ۔ ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے ۔ جس دن فکرِ انسان کا یہ ارتقاء رک جائے گا ، علم کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔۔۔انسان صداقت تک پہنچتے پہنچتے سو بار گرتا ہے ۔ میں بھی بارہا گرا اور پھر ان راہوں پر ڈال دیا (گیا) جو صحیح سمت کو جا رہی تھیں" [۸]۔
جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس کا اثر بر صغیر پاک و ہند میں بھی محسوس ہوا تو منکرین حدیث میں سے بعض نے اس سے مرعوبیت میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ لہٰذا مغرب نوازی کے ساتھ ساتھ روس نوازی نے بھی منکرین حدیث کے ہاں اپنی جگہ بنائی۔اسلم جے راج پوری صاحب کو بھی ایسے ہی روس زدگان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وہ روس کے مظالم کا دفاع کرتے ہوئے " نواردات" میں فرماتے ہیں:"اس میں شک نہیں کہ اس زمانہ میں سویت روس میں اہل مذاہب اور مسلمانوں پر مظالم ہوتے ہیں لیکن جو لوگ قرآنی زاویۂ نگاہ رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ عالم میں جو کچھ حرب و ضرب، شورش و انقلاب، تغیر و تبدل ہو رہا ہے وہ سب تکمیل دین اور اتمام نور کے لئے ہو رہا ہے اور اسلام کے واسطے زمین تیار کی جا رہی ہے کیونکہ انسانیت کو ایک نہ ایک دن ان حقائق ثابتہ پر پہنچنا لازمی ہے" [۹]۔پھر ان مظالم کو اسلام سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"ملت روسیہ نے بھی اسلام کے دور اول کا کام کیا اور زیادہ سختی کے ساتھ کیا۔ کیونکہ تاج کے ساتھ تمام تعلقات، نوابی، جاگیر داری ، زمینداری اور ہر قسم کی سرمایہ داری کو بھی ختم کر دیا۔ یہی نفی لا ہے جو اسلام کا اولین قدم اور اس کے کلمہ کا پہلا حرف ہے"[۱۰]۔یعنی روس نوازی کی یہ حد تھی کہ روس کے مظالم کو بر حق اور اسلام سے مشابہہ قرار دیا گیا حالانکہ اسلام نے کبھی غیر مسلم شہریوں کو جبراً اپنا مذہب چھوڑنے اور اسلام کا مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا۔
انکار حدیث کے فتنے کے اس تیسرے دور نے سب سے زیادہ مضحکہ خیز تاویلات کو جنم دیا۔ اور ایسا ہونا متوقع بھی تھا کیونکہ جب سنت کی تشریعی حیثیت سے ہی انکار کر دیا جائے تو پھر قرآن کے احکامات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتے ہیں کہ جس کو جو سوجھے وہ اس سے ویسا ہی مطلب نکال لے۔اس کی ایک مثال وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نماز کو قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب منکرین حدیث کو مسٔلہ یہ درپیش ہوا ہے کہ نماز وں کی رکعات کا ذکر تو قرآن میں ہے نہیں اور صرف سنت سے ہی ثابت ہے جو ان کے مطابق شریعت نہیں تو پھر اس آیت کے مطابق نماز کو کس طرح سے مختصر کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
وَإِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَقۡصُرُواْ مِنَ ٱلصَّلَوٰةِ إِنۡ خِفۡتُمۡ أَن يَفۡتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْۚ إِنَّ ٱلۡكَٰفِرِينَ كَانُواْ لَكُمۡ عَدُوّٗا مُّبِينٗا ١٠١ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمۡ فَأَقَمۡتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَةٞ مِّنۡهُم مَّعَكَ وَلۡيَأۡخُذُوٓاْ أَسۡلِحَتَهُمۡۖ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلۡيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمۡ وَلۡتَأۡتِ طَآئِفَةٌ أُخۡرَىٰ لَمۡ يُصَلُّواْ فَلۡيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلۡيَأۡخُذُواْ حِذۡرَهُمۡ وَأَسۡلِحَتَهُمۡۗ ۔۔۔ ١٠٢ فَإِذَا قَضَيۡتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ قِيَٰمٗا وَقُعُودٗا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمۡۚ فَإِذَا ٱطۡمَأۡنَنتُمۡ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَۚ إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ كَانَتۡ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ كِتَٰبٗا مَّوۡقُوتٗا ١٠٣(النسا ۱۰۱ تا ۱۰۲)
ترجمہ: ﴿۱۰۱﴾ اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ ﴿۱۰۲﴾ اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے, جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔۔۔ ﴿۱۰۳﴾ پھر جب تم نماز تمام کرچکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں) خدا کو یاد کرو پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بےشک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔
ان آیات کی تفسیر میں منکرین حدیث میں سے ایک "مجتہد" عبد اللہ چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں:"قصر صلوٰۃ کے مذکورہ بالا حکم اور اسکی صحیح عملی شکل پیش کر کے قرآن کریم نے ببانگ دہل اعلان کر رکھا ہے کہ اصلی صلوٰۃ جو اللہ تعالیٰ کیطرف سے فرض کیگئی ہے وہ صرف دو رکعت ہے۔ فرض نماز کے نام سے کسی وقت پر دو، کسی وقت پر تین اور کسی وقت پر چار رکعتوں کا حکم قرآن حکیم میں موجود نہیں"۔پھر اپنے اس دعوے کے بعد اس کی دلیل جو چکڑالوی صاحب پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے:" کیونکہ جب قصر صلوٰۃ کی عملی صورت کی ابتداء بتائی گئی ہے قیام، (اور) اسکی انتہا�� بتائی گئی ہے سجدہ ،تو ثابت ہوا کہ پوری نماز دو رکعت ہے" [۱۱]۔
چکڑالوی صاحب کا استدلال کچھ یوں ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے قصر نماز کے بارے میں فرمایا کہ : فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَةٞ مِّنۡهُم مَّعَكَ (یعنی ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی رہے) اور پھر فرمایا: فَإِذَا سَجَدُواْ (یعنی پھر جب وہ سجدہ کر لیں) تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصر نماز قیام سے سجدہ تک ہے یعنی ایک رکعت ہے ۔ جس سے چکڑالوی صاحب کے مطابق یہ ثابت ہوا کہ اصل نماز چاہے جس وقت کی بھی ہو وہ صرف دو رکعت ہے نہ کی دو، تین یا چار۔ لیکن چکڑالوی صاحب شاید یہ بھول گئے کہ قصر نمازکرنے کے لئے جو تَقۡصُرُواْ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ہے " مختصر کرو " یا " چھوٹا کرو"ْ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آدھا کرو۔ اس لئے یہ کہنا کہ اگر قصر ایک رکعت ہے تو اصل نماز لازماً اس سے دگنی یعنی دو رکعات ہی ہو گی، ایک صریح غلطی ہے۔ پھر اس آیت سے قصر نماز کا ایک رکعت ہونا بھی واضح نہیں ۔ آیت میں قیام اور سجدہ کا ذکر محض نماز کی طرف اشارہ کرنے کے سبب سے ہے۔ اگر ایک رکعت نماز کو قیام اور سجدہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو اسی طرح دو رکعت نماز کو بھی قیام اور سجدہ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا نہ تو قصر نماز کا اس آیت میں ایک رکعت ہونا قطعی طور پر ثابت ہے اور نہ ہی اصل نما ز کا صرف دو رکعات ہونا ۔جب کہ اس کے واضح ہونے کا ببانگ دہل دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
پھر دلچسپ با ت یہ ہے کہ خود منکرین حدیث کا اس استدلال پر اتفاق نہیں۔ خواجہ احمد الدین صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:" اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنی نماز سے کم کر لو (اور اسے عام ذکر الٰہی میں بھی بدل لو) " ۔ قوسین میں خواجہ صاحب کی عبارت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تو سفر یا خوف کی حالت میں نماز مختصر کرنے کی بجائے نماز سے جان ہی چھڑا لی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف سفر یا خوف کی حالت میں نہیں بلکہ انہوں نے عام حالات میں بھی نماز سے جان چھڑائی ہے۔ اگلی آیت جس میں عام حالات میں نمازوں کے اوقات کی پابندی کا حکم ہے، اس کی تفسیر میں خواجہ صاحب فرماتے ہیں :"حاصل یہ کہ حتی الوسع وقت کی پابندی کرو ، خواہ چل پھر کر نماز ادا کرنی پڑے ، خواہ عام ذکر الٰہی میں بدلنی پڑے۔" [۱۲]۔خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ اگر وقت کی پابندی نہ ہو سکے یعنی مصروفیت کے باعث نماز کے لئے وقت میسر نہ آ سکے تو نمازوں کے اوقات میں نمازوں کی جگہ پر محض عام ذکر سے ہی کام چلا لیا جائے نماز ہو جائے گی کیونکہ نماز اپنے اوقات میں فرض ہے۔ کوئی خواجہ صاحب سے پوچھے کہ جب نماز ہی نہ پڑھی ، تو ذکر الٰہی چاہے نماز وں کے متعین اوقات پر بھی کر لیا تو کیا فائدہ۔
اب اس بارے میں غلام احمد پرویز صاحب کا " اجتہاد" ملاحظہ ہو۔ انہوں نے اپنی کتاب "قرآنی فیصلے" میں کسی صاحب کا سوال نقل کیا ہے کہ جب حدیث صرف ایک تاریخ ہے اور تمام احکام قرآن سے ہی اخذ کرنے ہیں تو پھر آپ نمازوں کی تعداد، رکعات، نماز کے ارکان اور نماز کے اندر رکوع و سجود کی تعداد اور ترتیب وغیرہ کا تعین کیسے کریں گے۔ اس کے جواب میں پرویز صاحب عبد اللہ چکڑالوی صاحب سے اپنا اختلاف خود بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اہل قرآن (عبد اللہ چکڑالوی صاحب کی جماعت) کی بنیادی غلطی میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ ان احکام کی جزئیات بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گئے جن کا صرف اصولی حکم قرآن نے دیا ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے قیاس آرائیوں کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ پھر جن قیاسات پر یہ لوگ اس طرح سے پہنچے وہ قوم کے لئے فیصلے کی حیثیت تو نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ حق جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے صرف حکومتِ قرآنی کو حاصل ہے ۔ میں دینی لا مرکزیت کے دور میں اعمال متواترہ کو ایسے انفرادی قیاسات سے انسب (یعنی بہتر) سمجھتا ہوں" [۱۳]۔
یاد رہےیہاں" اصولی حکم" سے پرویز صاحب کی مراد صلوٰۃ کا حکم ہے جبکہ اس حکم کی جزئیات سے ان کی مراد نمازوں کی تعداد ، رکعات اور نماز میں ترتیب وغیرہ ہے جیسا کہ نقل کردہ سوال سے واضح ہے۔ لہٰذا یہ نہ سمجھا جائے کہ نماز کی جزئیات سے یہاں مراد رفع الیدین وغیرہ ہے۔ اس اقتباس میں پرویز صاحب کی مراد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن سے نماز وں کی تعداد، رکعات اور ترتیب وغیرہ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جائیں ، ان چیزوں کا تعین کا حق قرآنی حکومت کے سربراہ کو حاصل ہونا چاہیئے۔ لیکن چونکہ اس وقت ہندو ستان میں قرآنی حکومت قائم نہ تھی تو ان کے مطابق عملی تواتر سے وقتی طور پر کام چلایا جا سکتا تھا یعنی عام مسلمانوں میں جو نماز کا طریقہ رائج چلا آ رہا تھا اس کو وقتی ضرورت کے تحت اختیار کرنا اپنی قیاس آرائیاں کرنے سے بہتر ہو گا۔ البتہ ایک قرآنی حکومت کے حاکم کو حق حاصل ہو گا کہ وہ نمازوں کی تعداد، رکعات اور ترتیب تلاوت و ارکان میں وقت کی مناسبت سے جیسے چاہے ردو بدل کردے اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت لازمی ہو گی۔
یعنی ایک صاحب کے ہاں فرض نماز صرف دو رکعت ہے چاہے کسی بھی وقت کی ہو۔ دوسرے صاحب کے ہاں وقت نہ ہو تو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ خدا کا ذکر کر لیا جائے۔ جبکہ ایک اور صاحب کہتے ہیں کہ اصل حکم تو صرف نماز کا ہے باقی سب اس کی جزئیات نہیں اور مسلمان حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ ان جزئیات یعنی نمازوں کی تعداد ،رکعات اور ارکان وغیرہ میں رد و بدل کر دے اور ایسا کرنا مسلمانوں میں رائج نماز کے طریقہ کو اختیار کرنے سے بھی بہتر ہے جو طریقہ عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ یہ صرف ایک مثال تھی اس بات کے حق میں کہ اگر سنت کی تشریعی حیثیت سے انکار کر دیا جائے تو شریعت کے اصولی اور متفق علیہ ارکان کا کیا حال ہو گا۔ اور جب ان ارکان اسلام کی ہی ہئیت بدل جائے گی تو ان سے متعلق تمام فقہی احکام تو ویسے ہی غیر متعلقہ رہ جائیں گے۔
انکار حدیث کے فتنے کے اس تیسرے دور کے مطابق تواتر کو بھی کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں۔ تواتر بھی صرف ایسا قابل قبول ہو گا جو قرآن کی من مانی تعبیر کے خلاف نہ ہو۔ پرویز صاحب عملی تواتر کی قبولیت کے بارے میں ایک شرط یہ عائد فرماتے ہیں کہ:" وہ (یعنی تواتر سے چلے آنے والے اعمال) قرآن کے کسی واضح حکم سے ٹکرا نہ رہے ہوں" [۱۴]۔اب ظاہر ہے قرآن کے اس "واضح حکم "کا تعین بھی سنت سے بالا تر ہو کر عین عقل کے مطابق، یہ حضرات خود ہی کریں گے ۔ اور جو تواتر ان کی قرآن کی اس عقلی فہم کے خلاف ہو گا ، یہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔
انکار حدیث کے فتنے کا چوتھا دور جس کو کہا جا سکتا ہے اس کے امام جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ یہ دور بھی اپنے سے پچھلے دور کا ایک تسلسل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ غامدی صاحب کا احسان ہے کہ انہوں نے ، جو امور تواتر سے ثابت تھے ، انہیں واپس دین میں جگہ دی۔ لیکن اخبار آحاد کا انکار ��سی طرز پر جاری رکھا۔ ان موصوف کے مطابق سنت دین کا حصہ تو ہے لیکن صرف وہ جو تواتر سے ثابت ہے۔ اب ظاہر ہے سنت کا ایک بہت بڑا حصہ غیر متواتر اخبار آحاد (یعنی غریب، عزیز اور مشہور احادیث ) کے ذریعے مروی ہے تو حدیث کے انکار سے سنت کے ایک بہت بڑے حصہ کا انکار واضح ہے۔پھر سنت سے بھی مراد سنت ابراہیمی ہے نہ کی سنت رسول ﷺ۔ یعنی سنت بھی صرف وہ ہے جو ابراہیم ؑ سے شروع ہوئی اور رسول ﷺ نے اسے جاری رکھا۔ لہٰذا ان کے ہاں بھی قرآن کی سنت سے آزاد، عقلی تاویلوں کے قطرے قطرے سے مغرب پرستی اور مغربی تہذیب و افکار کی مرعوبیت ٹپکتی نظر آتی ہے۔
1 note
·
View note
Text
انسپکٹر جمشید اور لائبریریاں کہاں گئیں؟
اچھی طرح یاد ہے کہ محلے میں کہیں کوئی چوری چکار ی کی واردات ہو جاتی تو ہمارے جیسے جاسوسوں کا گروپ اپنی تئیں اس کی تحقیقات کرتا، اندھیرے میں تیر چلائے جاتے‘ لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ کیونکہ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں ذرا جھانک کر دیکھیں تو ہماری عمر کے اُس وقت کے نوجوانوں کے لیے لابرئیری ایک بہترین وقت گزاری کا ذریعہ ہوتی تھی۔ ہر گلی محلے میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایک چھوٹی سی دکان میں کتابوں کا یہ بڑا خزانہ مل جاتا۔ جہاں آپ دو سے پانچ روپے کرایہ ادا کر کے اپنے من پسند ناول اور جریدے کے ’ایک دن کے حاکم‘ بن جاتے۔ اتفاق سے جس وقت ہمارے اندر مطالعے کی شمع روشن ہوئی تو وہ دور اشتیاق احمد کے ناولوں کا تھا۔ انسپکٹر جمشید اور کامران اور پھر شوکی سیریز کے ذہین اور غیر معمولی کردار ہوتے، محمود‘ فاروق فرزانہ یا پھر آفتاب، فرحت یاآصف ہوں، ان سب کے کارنامے پڑھ پڑھ کر ہم بھی ’چھوٹے موٹے جاسوس‘ تو بن ہی گئے تھے۔
اچھی طرح یاد ہے کہ محلے میں کہیں کوئی چوری چکاری کی واردات ہو جاتی تو ہمارے جیسے جاسوسوں کا گروپ اپنی تئیں اس کی تحقیقات کرتا، اندھیرے میں تیر چلائے جاتے‘ لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ کیونکہ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خیر جناب عمران سیریز میں چونکہ ’بالغان‘ کے لیے کچھ مواد ہوتا‘ اسی لیے ہم جیسے ’بچوں کی پہنچ سے دور‘ رکھا جاتا۔ کیا وضع دار اور مہذبانہ دور تھا کہ لابرئیری اور بک اسٹال والا تک اسے کم عمر بچوں کے لیے ’شجر ممنوع‘ سمجھتے ہوئے مجال ہے جو جو دے دیتے ہوں۔ لڑکپن میں ہم نے دو علاقوں میں ہجرت کی اور خوش قسمتی ہی کہیے کہ وہاں جا کر ہم کسی نہ کسی طرح ’لابرئیری‘ کی کھوج میں انسپکٹر جمشید کے مجرم تلاش کرنے کی طرح کامیاب ہو ہی گئے۔
مشاہدے میں تو یہ بھی آیا کہ جب بھی ان محلوں میں کوئی ’نووارد‘ آتا تو اس کا بھی پہلا سوال یہی ہوتا کہ یہاں لابرئیری کہاں ہے؟ لابرئیری سے لائی گئی ان کتابوں، ناولوں اور جرائد کے پڑھنے کا اپنا ہی الگ نشہ یا خمار ہوتا۔ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح ان کا خیال رکھا جاتا اور ایک ایک صفحے کو بڑے سنبھال سنبھال کر پلٹا جاتا، کہیں کوئی بدنما نشان یا دھبہ نہیں لگے، اس پر تو خاص توجہ دی جاتی۔ واپسی پر لابرئیری مالکان بھی ’کسٹم حکام‘ کی طرح ایک ایک صفحے کا اچھی طرح جائزہ لیتے۔ کہیں کوئی کاٹ چھانٹ ہوتی تو زر ضمانت کے طور پر جمع رقم سے اسے منہا کر لیا جاتا۔ عام طور پر لابرئیری کی ممبر شپ حاصل کی جاتی۔ جس کے لیے معمولی سی رقم اس لیے ضمانت کے طور پر جمع کرائی جاتی کہ کہیں کوئی رسالہ یا ناول لے کر نو دو گیارہ نہ ہو جائے۔ ہمارے ایک دوست ایسے بھی تھے جن کی عادت تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ادھار کی طرح کتاب واپس نہیں کرنی۔ کئی لابرئیریز پر ان کی انٹری بند تھی۔
اچھی خاصی تع��اد میں کتابیں ان کے قبضے میں تھیں تو یار دوست ان پر یہ طنز مارتے کہ وہ کیوں نہیں گھر کے باہر 'اپنی لابرئیری' کا بورڈ لگوا دیتے۔ زمانہ طالب علمی میں ہمارے جیسے مطالعے کے ’دھتی‘ پورے ہفتے اسکول میں لابرئیری کے لیے مختص پریڈ کا انتظار کرتے۔ کیونکہ یہی وہ لمحات ہوتے جب اسکول کے کتب خزانے سے علم کے انمول اور نادر موتی ہمیں مل جاتے۔ انٹر نیٹ، اسمارٹ فون اور چینلز کی بہتات کا تو دور نہیں تھا، اسی لیے کسی بھی قسم کی معلومات، تقریر، مضمون یا حوالے کے لیے یہ سمجھیں لابریئری ’گوگل سرچ انجن‘ سے زیادہ مفید اور کارآمد تصور کی جاتی۔ گو کہ فی الذمانہ بھی شہر قائد میں کئی سرکاری اور نجی لابئرئیریز قائم ہیں لیکن ان کی خستہ حالت پر بس رحم ہی آتا ہے۔ بالخصوص سرکاری کتب خانوں میں کتب اور رسائل کی عدم دستیابی کا غم، علم کی پیاس بجھانے والوں کو سہنا پڑ رہا ہے۔
تعلیمی اداروں میں لابرئیریز تو ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہی ملیں گے۔ قصور نت نئی ٹیکنالوجی کا بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جب آپ کی ’فنگر ٹپس‘ پر سب کچھ ہو تو بھلا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ لابرئیری جا کر مطلوبہ کتاب یا اخبار کی تلاش میں گھنٹوں کھپائے، آن لائن بک دستیاب ہیں۔ تکیہ کیا جارہا ہے تو انٹر نیٹ پر۔۔ جہاں سے حاصل غیر مصدقہ اور بے بنیاد معلومات عام ہونے لگی ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ذرا سی تحقیق کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ سرکاری کتب خانوں کی کمی تو ہے لیکن جناب کہاں سرکار بہادر کے پاس وقت اور سرمایہ ہے جو اس پہلو پر غور کرے۔ دیار غیر میں تو لابرئیریز پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتوں میں ہی نہیں کہیں کسی بس میں کسی گاڑی میں تو کہیں آٹو رکشا کے ذریعے گھر کی چوکھٹ پر کتابوں کا یہ کنواں خود چل کر پہنچ رہا ہے۔ اس تناظر میں ذرا جائزہ تو لیں ہمارا، سوچیں تو ضرور کہ ہمارے یہاں یہ رحجان بھی کیوں واقعی میں ’یاد ماضی‘ بنتا جارہا ہے۔
سفیان خان
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
چوری تو کی قانون نہیں توڑا
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔
پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020 میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کر کے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔ وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت ا��گیا ہے۔
علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔ اگر تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔
واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کر دیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟
واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25 اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہو گا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں، عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے۔ عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔
شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔
ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔
واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25 اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25 اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
پیام جنابخان به خواستگار احلام کار دستش داد/ رقابت کمدینهای جوان در خنداننده شو + فیلم
New Post has been published on http://www.netdoone.com/502380/%d9%be%db%8c%d8%a7%d9%85-%d8%ac%d9%86%d8%a7%d8%a8%e2%80%8c%d8%ae%d8%a7%d9%86-%d8%a8%d9%87-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%b3%d8%aa%da%af%d8%a7%d8%b1-%d8%a7%d8%ad%d9%84%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%a7%d8%b1-%d8%af-2/
پیام جنابخان به خواستگار احلام کار دستش داد/ رقابت کمدینهای جوان در خنداننده شو + فیلم
چهار تن از جوانان پرشور ایرانی در برنامه شب گذشته خندوانه، استندآپ کمدی اجرا کردند.
0 notes