#تعین
Explore tagged Tumblr posts
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/0e3820e315f01f26567c6c96300cdb02/5b3929ab182e4cfb-51/s540x810/7272327a505700b141142df5244b16fb5b4b0149.jpg)
دنیا آپ سے آپ کی worth مانگتی ہے. وہ آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ اسے کیا دے سکتے ہیں، اس کے بعد وہ آپ کی جگہ اور اہمیت کا تعین کرتی ہے۔ یہ طے کرتی ہے کہ ایسے آپ کو کتنی عزت دینی ہے۔ اگر دنیا کو یہ احساس ہو جائے کہ آپ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو وہ آپ کو آپ کی ساری خوبیوں سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Duniya apsey apki worth mangti hai, woh aap se puchti hai ki aap usey kya de sakte hain,
us kay baad vo apki jagah aur ehmiyat ki tayeeen karti hai ye tay karti hai ki ayse apko kitni izzat Deni hai,
agar duniya ko ye ehsaas ho jaye ki ap uskey liye kuch nahin kar saktey to woh apko aapki sari khoobiyon ke samet uthaa Kay baher phenk deti hai.,
: Umera Ahmed, Thorha Sa Aasman/تھوڑا سا آسماں
#urdu literature#urdu poetry#urdu stuff#literature#shayari#hindi poetry#hindi shayari#aesthetic desi#desi tumblr#desi poetry#hindi kavita
17 notes
·
View notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/dda304db58e5e04ce5e87aef39544347/e93a0d8da1669272-66/s400x600/938c8babbb79c79eb543aecec372f2440d956fc7.jpg)
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے ال��ام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/a71e5cc223a1b4fd9fdf67a14cc05248/e93a0d8da1669272-6b/s400x600/db93abb0476f34409a03262723c6fb15aff572ea.jpg)
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو ��اتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ��نانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Link
0 notes
Text
ترقی کیلئےامن،سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے،احسن اقبال
وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھاکہ ترقی کیلئےامن اور سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے، ترقی کرنےوالوں ممالک نےپالیسیوں کا تعین کرکےان کے نتائج حاصل کرنےکیلئےایک دہائی کا وقت دیا، ہمارےپڑوسی ممالک میں بھی حکومتوں کو اپنے مدت پوری کرنے کےسبب پالیسیوں کےتسلسل کا موقع ملا۔ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں اڑان پاکستان کی تقریب ہوئی جس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے شرکت کی۔ وفاقی…
0 notes
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/3c5f3ae7178c2848f94456e7fbec0a7c/a07a284ee4f9d7cb-8c/s540x810/bb98c0c26346aa99c263be9e93ac9f1edfb3335a.jpg)
خاران: مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر رات کے اندھیرے میں دستی بم سے دھماکہ، متاثرہ فیملی بے یار و مددگار ڈیتھ سکواڈ کے رحم و کرم پر
پھلین خاران نیوز
اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات تقریباً 2 بجے کے وقت خفیہ ادارے اور ان کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز نے مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر دستی بم سے دھماکہ کیا۔ علاقائی ذرائع کے مطابق رات کے اندھیرے اور سناٹے میں دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ پورے کلی پر یکایک خوف و ہراس طاری ہوا۔
تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب پورے کلی میں لوگ اپنے گھروں میں سورہے تھے۔ تاہم، رات کے اندھیرے میں فوری طور پر دھماکے کی جائے وقوعہ کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ البتہ، دن کے وقت معلوم ہوسکا کہ یہ دھماکہ خفیہ اداروں نے اپنے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں کرایا ہے جس کا مقصد مغوی مختیار احمد مینگل کے اہل خانے کو ڈرا دھمکا کر ان سے بڑا معاوضہ وصول کیا جاسکے جنہوں نے مختیار احمد مینگل کے رہائی کے لیئے آٹھ کروڈ طلب کی ہے۔
دوسری جانب بازار پنچائت سمیت سیاسی جماعتوں اور اکثر حلقوں نے اس معاملے میں متاثرہ خاندان کے ساتھ سرد مہری روا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ایسا حملہ ہوا تھا، جس سے اس کے اہل خانہ معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ 15 جولائی 2024 کو مختیار احمد مینگل کو، جو کہ شعبے کے لحاظ سے ایک زمیندار اور تاجر ہے، خفیہ اداروں کے بدنام زمانہ کارندہ اور ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے خاران سے جبری طور پر اغوا کیا تھا جوکہ تاحال لاپتہ ہے۔ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین کو 8 کروڈ کا معاوضہ یا تاوان دینے پر مختیار مینگل کی رہائی کا شرط رکھا ہے۔
مزید یاد رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین نے شعیب نوشیروانی کے وعدوں پر یقین کرکے اپنے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ختم کردیئے تھے۔ تاہم، اس کے بعد شعیب نوشیروانی نے حسب فطرت عہد وفا نہیں کیا، اس نے آخر کار یہ کہہ کر اپنا جان چھڑایا کہ خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہاں ان کی بس نہیں چلتی لہذا متاثرہ خاندان کوئی خان مینگل جیسے ڈیتھ اسکواڈ سے سفارش کروا کر اپنے مغوی کو رہا کرائیں۔ اس کے بعد ان کے اہل خانہ مایوس ہوکر غیبی مدد کے آسرے پر بیٹھے منتظر ہیں۔ اب خفیہ ادارے اور ان کے ڈیتھ اسکواڈ مغوی مختیار مینگل کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر فیملی سے رہائی کے بدلے بھاری رقم کا مانگ کررہے ہیں اور رقم کی عدم ادائیگی پر نہ صرف آئے روز ان کو فون کرکے دھمکی دیتے ہیں بلکہ گھر پر دھماکے کررہے ہیں۔
تعجب کے ساتھ افسوس کی بات یہ ہے کہ نو جنوری کو شعیب نوشیروانی کے ٹھکانے پر حملے میں غیرمقامی متنازعہ افراد کے حق میں جو لوگ مذمتی بیانات کے ذریعے چادر و چاردیواری پر لیکچر دیے پھر رہے تھے، آج ان سمیت ��لاقے کے تمام سیاسی و سماجی حلقے مختیار آحمد کے مظلوم فیملی کے حق ڈیتھ سکواڈ کے خلاف دو لفظ تک ادا کرنے سے قاسر ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک زمیندار تاجر تھا، اس کے باوجود بازار پنچائیت کو چاہئے تھا کہ اس کی بازیابی تک ان کے فیملی کے ساتھ کھڑے رہتے مگر پنچائیت نے اس معاملے پر شروعاتی دنوں میں گرم جوشی دکھائی جبکہ بعد میں خدا جانے کن وجوہات کے تحت خاموشی اختیار کی۔
بعض افراد مختیار آحمد مینگل کی اغواء کو لین دین کا ذاتی اور آپسی مسئلہ کہہ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک ایسا شخص تھا جسکا کسی سے کوئی ذاتی دشمنی یا لین دین نہیں تھا اور نا ہی اس پر کسی کا اُدھار تھا۔ چلیں ایک لمحے کیلئے مان بھی لیں کہ اس کا لین دین تھا کسی معاملے میں، مگر پھر بھی کیا یہ بازار پنچائیت، سیاسی جماعتوں سمیت پورے خاران کا فرض نہیں بنتا کہ اس مشکل وقت میں متاثرہ اور مظلوم فیملی کے ساتھ کھڑے رہیں؟ ہر انسان کے ذاتی و کاروباری لین دین ہوتے ہیں تو کیا اسے ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں اغوا برائے تعاوان کا شکار کرواکر فیملی سے آٹھ کروڑ جیسی بھاری رقم مانگی جائے اور گھر پر بم پہنکے جائیں؟ معاملہ کچھ بھی ہو، مختیار آحمد کی فیملی کے ساتھ اس وقت ظلم ہورہا ہے اور جو کوئی اس پر خاموش ہے وہ اپنے باری کا انتظار کررہا ہے۔
0 notes
Text
20+Motivational Qoutes In Urdu
Description
One of the great things about motivational quotes in Urdu is its potential to compel people to get involved and truly motivate their soul.
There are lively and figurative messages, which push us to overcome obstacles, have faith in ourselves and go for a win. Here are 20+Motivational Qoutes In Urdu for those people who want to find some meanings of their life or for those who want to get rid of stress easily. These Urdu quotes range from hope to determination, courage to optimism. Based on the wealth of the Urdu language they convey a message that touches readers’ soul, urging them to work through all the hardships in order to succeed.
No matter you are in search of some motivation when the going gets tough or a piece of advice to keep going when the path is hard, this collection has it all. The motivational sayings in Urdu to accept the thought that success starts with the correct attitude that one should adopt for at least twenty four hours a day.
These few locutions may be quite helpful in transformation to a better you, in your employability, and in winning your heart’s contentedness. These rousing quotes in Urdu are perfect to use in your day to day life or stuck at your work to remind yourself that you have the drive and the determination to succeed.
qoutesheaven
Do something Today That Your Future Self Will Thank You For
"جتنا مشکل چڑھنا، اتنا ہی بڑا نظارہ۔"
"اگر ٹھوکر کھائی تو اسے رقص کا حصہ بنا لو۔"
"کوشش آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔"
"سفر لمبا ہو سکتا ہے، لیکن ثواب اس کے قابل ہے۔"
"ہمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خوف محسوس نہیں کرتے؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کے باوجود کام کرتے ہیں۔"
"عظمت نہیں دی جاتی، یہ پسینے اور قربانی سے کمائی جاتی ہے۔"
"آپ کی کہانی ختم نہیں ہوئی؛ یہ صرف ایک باب ہے۔"
"آپ وہیں سے شروع کریں، جو آپ کے پاس ہے اسے استعمال کریں، جو آپ کر سکتے ہیں کریں"۔
"گھڑی کو مت دیکھو؛ جو کرتی ہے وہ کرو - چلتے رہو۔"
20+Heartfelt Love Quotes
"آپ کی مستقل مزاجی آپ کی کامیابی کا تعین کرتی ہے۔"
"بہترین دن کمانے کے لیے مشکل دنوں سے گزریں۔"
"ایک جنگجو بنو، پریشان نہیں."
"آپ کا مستقبل اس سے بنتا ہے جو آپ آج کرتے ہیں، کل نہیں۔"
"آپ آج جس جدوجہد میں ہیں وہ اس طاقت کو تیار کر رہی ہے جس کی آپ کو کل کے لیے ضرورت ہے۔"
"آپ باہر کھڑے ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، فٹ ہونے کے لیے نہیں۔"
Good night quotes
"کامیابی اس سے نہیں آتی جو آپ کبھی کبھار کرتے ہیں؛ یہ اس چیز سے آتی ہے جو آپ مستقل طور پر کرتے ہیں۔"
"اپنے مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کا بہترین طریقہ اسے بنانا ہے۔"
"آپ کے خواب درست ہیں؛ کسی کو آپ کو دوسری صورت میں قائل نہ کرنے دیں۔"
"چھوٹی جیت کا جشن منائیں؛ وہ بڑی فتوحات کا باعث بنتے ہیں۔"
Conclusion
Presenting a list of 20+ motivational quotes in Urdu, this list provides upward mobility more than just motivation; a guideline. These quotes inspire confidence and getting out of comfort zones to gave the challenges into positives. In their aesthetic and philosophical ways, the Urdu quotes bring the message that only patience and perseverance can create success. Allow these inspiring words help you on your way to achievement.
More Qoutes:Top Wise Quotes to Inspire Deep Thinking
wise qoutes
0 notes
Text
غیرملکی قرض، مال مفت دل بے رحم
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/dc8c3faa20e65996817836bd89ebabee/1a3fb4f98c7bcd06-c7/s400x600/fe56f9128b600e5ab4b85d28a0135809a7d2ed92.jpg)
موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھا دے گی۔ وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔ اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری اخراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میں اخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے خود ساختہ عوامی غم خوار اللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔ اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریباً آدھا پاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیں ہو رہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی کڑی شرطوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر دیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہو جاتے ہیں۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/9e046177ac7df1d17d33386b21070121/1a3fb4f98c7bcd06-83/s400x600/6cadd52bfcb0c398b8dd8d1253e4fe07a24c7caf.jpg)
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سو فیصد نہیں چار سو سے لے کر نو سو فیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھا دی گئی ہیں۔ جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اور بھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری لگانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اور ڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملا کرتے ہیں۔ اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیا ہے۔ IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اور ہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض ادا کرنے کی بات ہو گی تو عوام سے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تو یہ کام کر کے اپنے ساتھیوں کی دلجو��ی کر دی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پر زبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اور مال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا۔ کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔ غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں، کسی شئے کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر پرانی قیمتوں کو پہنچ چکا ہے۔ عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔ وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کرو گے اتنا زیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔ سبحان اللہ سردیوں میں عام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔ غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہو رہے بلکہ نالاں اور سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ خدارا عقل کے ناخن لیں اورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اور کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے دیں۔ ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔
IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگاتی رہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خود کفیل ہو پائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دے گی۔ یہ سی پیک اور معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہو پائیںگے۔ ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کبھی سیاسی افراتفری اور کبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔ کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔ اسی طرح اور ممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔ حالات جب اتنے شکستہ اور برے ہوں تو ہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ یہی سوچ کر ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
جنوبی افریقا کا اہم فاسٹ بولر پاکستان کے خلاف ٹی20 سیریز سے باہر
جوہانسبرگ (ڈیلی پاکستان آن لائن)جنوبی افریقا کے فاسٹ بولر اینرک نوکیے بائیں پیر میں فریکچر کے باعث پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر ہوگئے۔ کرک انفو کے مطابق پاکستان کے خلاف پہلے میچ میں اینرک نوکیے کو پیر کی چوٹ کی وجہ سے بٹھایا گیا تھا۔ بعد ازاں اسکین میں فریکچر کی نشان دہی کی گئی۔ ریکووری کے وقت کے تعین کے لیے نوکیے معالج سے رجوع کریں گے۔ اینرک نوکیے کی جگہ ان کیپڈ سیمر ڈایان گیلیم کو…
0 notes
Text
https://sanaat-ab.com/human-sewage-treatment/
تصفیه فاضلاب انسانی
تصفیه فاضلاب انسانی به دلیل گسترش جمعیت انسانی و نیز شهرنشینی از چالشبرانگیزترین مسائل زندگی امروزی ما است و در صورت انجام نادرست میتواند به بروز مشکلات جدی بهداشتی در سطوح گوناگون بینجامد. عوامل گفته شده، موجب افزایش فاضلاب میشود و این مورد نیز میتواند برای محیط زیست زیانبار باشد. از اینرو، تصفیه فاضلاب تولیدشده توسط جوامع انسانی برای حفظ سلامت ما و طبیعت سیارهمان امری ضروری است. همچنین استفاده دوباره از آب به دست آمده از تصفیه اینگونه پسابها، در مصارفی مانند کشاورزی و آبیاری فضاهای سبز، میتواند روشی سودمند در حفظ و حراست هر چه بیشتر از محیط زیست در دنیای کنونی باشد. ب
انواع روشهای تصفیه فاضلاب انسانی
نفوذ فاضلاب انسانی به زمین، چه از نوع آب سیاه باشد و چه فاضلاب خاکستری، میتواند به بروز و شیوع بیماریهای عفونی بینجامد. همچنین مواد آلی، باکتریها و مواد شوینده موجود در این پسابها در صورت نفوذ به عمق بیشتر زمین، باعث آلودگی سفرههای آب زیرزمینی و آب چاهها خواهد شد. از اینرو، فرآیند تصفیه فاضلاب امری گریزناپذیر است. این روند بسته به نوع فاضلاب انواع متفاوتی را شامل میشود. همچنین برای انتخاب روش مناسب تصفیه فاضلاب انسانی باید به شرایط آبوهوایی، فضای در دسترس و شرایط اقتصادی توجه کرد.
تصفیه فیزیکی فاضلاب انسانی
در این گام (روش) زبالهها و ذرات جامد بزرگ موجود در فاضلاب از آن جدا و حذف میشود. انواع مختلف فرآیندهای تصفیه مانند دانهگیری، آشغالگیری، چربیگیری و فیلتراسیون در این بخش انجام میپذیرد.
تصفیه شیمیایی فاضلاب انسانی
در این روش که مانند روش قبل در واقع یکی از مراحل تصفیه آب به ��مار میرود، نوبت به حذف ذرات کلوئیدی میرسد. از اینرو، این بخش تاثیر فراوانی بر شفافیت آب دارد. در این نوع تصفیه، حذف و زدودن آلایندهها از فاضلاب با تزریق مواد شیمیایی گوناگون به آن انجام میشود. ضدعفونی کردن آب با تزریق ازن و یا کلرزنی به آن، انعقاد و لختهسازی، همگی جزئی از فرآیند تصفیه شیمیایی آب به شمار میروند.
تصفیه بیولوژیکی فاضلاب انسانی
این فرآیند تصفیه به چند روش مختلف ازجمله موارد زیر انجام میشود:
روش رشد چسبنده IFAS
روش بیوراکتور غشایی MBR
روش دیسک بیولوژیکی دوار RBC
بیو فیلم بستر رشد متحرک MMBR
لجن فعال با هوادهی گسترده EAAS
روش راکتورهای ناپیوسته متوالی SBR
روش لجن فعال با هوادهی گسترده EAAS از بهترین شیوههای تصفیه فاضلاب انسانی است؛ زیرا به ایجاد لجن کمتری میانجامد. ناگفته نباید گذاشت، کاربردیترین روش برای تصفیه و پاکسازی فاضلابهای انسانی ترکیب روش بیولوژیکی با دو روش دیگر است. در تصفیه فیزیکی و شیمیایی فاضلاب، پیشتصفیه و گندزدایی انجام میگیرد و ذرات درشت از فاضلاب حذف میشوند. به این ترتیب از گرفتگی لولهها نیز جلوگیری میشود.
پکیج تصفیه فاضلاب انسانی
به کمک مجموعه تجهیزات ویژهای که در نهایت پکیج تصفیه فاضلاب را تشکیل میدهند، میتوان فاضلاب بهداشتی انسانی را پاکسازی کرد. فعالیت بسیاری از این پکیجها بدون تولید سرو صداست و تصفیه فاضلاب در آنها بدون تولید بو انجام میشود. همچنین بهرهوری آنها در پیشبرد فرآیند تصفیه فاضلاب با بهترین روشهای تصفیه از نظر کاهش BOD هماهنگی دارد. جنس این دستگاههای تصفیه فاضلاب را باید بسته به شرایط اقلیمی و محیطی برگزید. در واقع میتوان دستگاه تصفیه فاضلاب بهداشتی انسانی را در انواع فلزی، پلی اتیلنی و فایبرگلاس ساخت. شایان ذکر است، پرکاربردترین روش تصفیه فاضلاب در پکیج تصفیه فاضلاب انسانی شامل روشهای هوادهی گسترده (EASS)، هوادهی با رشد چسبنده (IFAS) و هوادهی با رشد متحرک (MMBR) میشود.
قیمت پکیج تصفیه فاضلاب انسانی
فاکتورهای گوناگونی در روند تعین قیمت دستگاه تصفیه فاضلاب انسانی نقش دارند. روش تصفیه، حجم فاضلاب ورودی به سیستم، سطح تصفیه مورد نیاز، اندازه و جنس اجزاء تشکیلدهنده پکیج، شرکت سازنده، محل نصب و مدل، همه و همه بر قیمتگذاری اثرگذارند. در ادامه مهمترین این موارد را یک به یک بررسی میکنیم.
#تصفیه_فاضلاب_انسانی#پکیج_تصفیه_فاضلاب_انسانی#قیمت_پکیج_تصفیه_فاضلاب_انسانی#پکیج_تصفیه_فاضلاب#قیمت_پکیج_تصفیه_فاضلاب#انواع_پکیج_تصفیه_فاضلاب
0 notes
Text
09.11.2024Comlhroff
NT1
کمشنر لاہور زید بن مقصود کا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش پر پیغام
اقبال کی فکر متحرک و جدید معاشرے کی تشکیل کرتی ہے۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
علامہ اقبال کا فلسفہ عملی جدجہد کا ہے۔نظرے سے قوم کے کردار سازی کی ہے۔کمشنر لاہور
قوم آج شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش بھر پور عقیدت اور احترام سے منارہی ہے،کمشنر لاہور
علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا تصور دے کر منزل کا تعین کیا۔کمشنر لاہور
اقبال کے پیغام حریت نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو جدوجہد آزادی پر آمادہ کیا۔کمشنر لاہور
ہمیں اقبال کے خودی، یقین کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔کمشنر لاہور
علامہ اقبال کے افکار پرعمل پیرا ہونے سے ہی پاکستان عظیم فلاحی ریاست بنے گا۔کمشنر لاہور
0 notes
Text
ایک مرتبہ پھر بھارتی مسافر طیارے کو بم سے اڑانے کی دھمکی
اوٹاوا (ویب ڈیسک) بھارتی طیارے میں بم کی کی اطلاع ملنے پر ایئر انڈیا کو کینیڈا میں ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑ گئی ۔ ایئر انڈیا کے مطابق مسافر طیارہ نئی دہلی سے شکاگو کے لیے محو پرواز تھا، “آن لائن پوسٹ کی گئی بم کی اطلاع ’ کی وجہ سے ”احتیاطی اقدام“ کے تحت کینیڈا کے ہوائی اڈے پر اترا گیا۔۔ کمپنی نے کہا کہ ہوائی جہاز اور مسافروں کی ”تعین کردہ سیکیورٹی پروٹوکول کے مطابق دوبارہ اسکریننگ کی جا رہی…
0 notes
Text
مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنی تحریر بہتر بنانے کے طریقے
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/12dc0cbf4e36debb3882239a8dd4f983/160b494e4bebba7a-23/s400x600/6dd261e64cee1a220442c348e908f88de9ddef04.jpg)
آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ آج کل دفتروں میں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی انگریزی بہت بہتر ہو گئی ہے، بےعیب گرامر، علامات اوقاف بالکل درست جگہ پر، مناسب اور عمدہ الفاظ سے لیس جملے۔ لیکن غور کیا جائے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ تحریر مصنوعی ذہانت کی مدد سے لکھی گئی ہے۔ اے آئی کی تحریر پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے جملے روایتی اور بےجان ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی ذاتی اسلوب یا انفرادیت نہیں ہوتی، انگریزی کے گھسے پٹے محاورے اور بےجا لفاظی بھی دور سے پہچانی جاتی ہے۔ پھر ایسی تحریر میں غیر ضروری وضاحت اور تکرار بھی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے عام سی بات کو بلاوجہ لمبا کھینچا جاتا ہے۔ جو بات دو جملوں میں بیان ہو سکتی ہے، اے آئی اسے چھ جملوں میں بیان کرتی ہے۔ ایسی تحریر روبوٹک ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اسے ہونا بھی چاہیے، کیوں کہ اسے ایک روبوٹ ہی نے لکھا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اے آئی آپ کوئی تحریر لکھنے میں مدد نہیں کر سکتی۔ بس اتنا ہے کہ اسے آپ اپنا ذاتی معاون یا اسسٹنٹ بنا سکتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنی تحریر کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور بہت کم وقت میں زیادہ مواد تحریر کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کو سات طریقے بتا رہے ہیں جن کی مدد سے آپ اپنی تحریر کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
1 اے آئی کی تحریر کو ہوبہو شائع نہ کریں آے آئی سے مدد ضرور لیں مگر اس کی تحریر کو شائع کرنے سے پہلے اچھی طرح سے ایڈٹ کر لیں۔ اے آئی کی تحریر میں ان جملوں کو بدل دیں جو غلط محسوس ہوں ۔ اپنے لیے ایک فہرست بنائیں ایسے الفاظ اور جملوں کی جنہیں آپ استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ان میں شامل کریں عام الفاظ اور وہ الفاظ بھی جو چھپ کر آ جاتے ہیں۔ اس ممنوعہ فہرست کو اپنے چیٹ جی پی ٹی کے پرامپٹس میں شامل کریں۔ اسے مسلسل بہتر بناتے رہیں اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تحریر ہر بار زیادہ انسان دوست لگے گی۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/3b7610557825158bdf35a8f3cacaad0b/160b494e4bebba7a-bc/s400x600/791b7b44843abbfdb3a4e4a0cdac6eb217a352dd.jpg)
2 اپنا منفرد انداز تخلیق کریں آپ کا لکھنے کا انداز ہی آپ کو دوسروں سے الگ کر��ا ہے۔ ہر شخص کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کوئی مختصر جملے استعمال کرتا ہے، تو کوئی طویل۔ شاید آپ جملے کا آغاز ’اور‘ یا ’لیکن‘ سے کرتے ہیں۔ شاید آپ ایک جملے کے پیراگراف لکھتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے انتخاب مل کر آپ کی تحریر کو خاص بناتے ہیں۔ اے آئی یا تو اس انداز کو بہتر بنا سکتا ہے یا اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اپنی بہترین تحریروں کا باریکی سے جائزہ لیں۔ ان پیٹرنز کو پہچانیں جو آپ کی لکھائی کو منفرد بناتے ہیں۔ انہیں لکھ کر محفوظ کریں۔ چیٹ جی پی ٹی پر واضح کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ اسے اپنے جملوں کی ساخت، الفاظ کا انتخاب، اور پیراگراف کی لمبائی کے بارے میں بتائیں۔ نتیجہ چیک کریں اور اس وقت تک ایڈجسٹ کرتے رہیں جب تک کہ تحریر آپ کے انداز جیسی نہ لگے۔ ایک بار بہترین پرامپٹس تیار ہو جائیں تو انہیں محفوظ کر لیں تاکہ اگلی بار آپ مزید بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔
3 اپنے مثالی قاری کو اچھی طرح سمجھیں بےترتیب مواد کا نتیجہ بھی بےترتیب ہی نکلتا ہے۔ بہترین مصنفین جانتے ہیں کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے قارئین کو کون سی چیز پریشان کرتی ہے، کیا انہیں خوشی دیتا ہے، یا وہ کس چیز سے رک جاتے ہیں۔ یہ سمجھ بوجھ ان کی ہر تحریر میں جھلکتی ہے، چاہے وہ اے آئی کے ساتھ لکھ رہے ہوں یا بغیر۔ اپنے مثالی قارئین کا نقشہ تیار کریں۔ ان کی امیدیں اور خواب، ان کے خوف اور مایوسیاں، وہ زبان جو وہ استعمال کرتے ہیں، اور وہ مسائل جو وہ حل کرنا چاہتے ہیں، سب لکھ لیں۔ یہ معلومات چیٹ جی پی ٹی کے پرامپٹس میں شامل کریں اور اسے کہیں کہ خاص طور پر انہی لوگوں کے لیے لکھے۔ آپ کی تحریر زیادہ مؤثر ہو گی کیونکہ یہ براہ راست آپ کے قارئین کے دل سے بات کرے گی۔
4 پیشہ ورانہ انداز میں مواد کو دوبارہ ترتیب دیں اگر آپ اپنے مواد کو مختلف انداز میں پیش نہیں کر رہے تو آپ اپنے کام کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ صحیح پرامپٹس کی مدد سے ایک لنکڈ ان پوسٹ کو 10 ٹویٹس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ایک بلاگ پوسٹ پورے ہفتے کے سوشل میڈیا مواد کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ سب ہاتھ سے کرنا نہ صرف مشکل بلکہ وقت طلب ہے۔ سمجھ دار اے آئی صارفین ایسے نظام تخلیق کرتے ہیں جو تیزی سے مواد کو بڑھا دے سکیں۔ ہر پلیٹ فارم کے لیے مخصوص پرامپٹس بنائیں۔ چیٹ جی پی ٹی کو سکھائیں کہ کس طرح ایک مواد کو 20 مختلف انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اہم نکات نکالنے کا طریقہ بتائیں اور ہر پلیٹ فارم کے انداز سے ہم آہنگ کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ ان پرامپٹس کو محفوظ کریں تاکہ بار بار استعمال کیا جا سکے۔ آپ کی مواد کی مشین ہر بار بہتر کام کرے گی۔
5 اپنے بنیادی موضوعات پر قائم رہیں غیر مستقل مواد آپ کے برانڈ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ سمجھ دار تخلیق کار اپنے موضوعات کا تعین کرتے ہیں اور ان پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سے موضوعات اہم ہیں، وہ کس کے لیے کھڑے ہیں اور کن باتوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ حدود ان کی تخلیقات کو سمت دیتی ہیں، اور ان کے سامعین کو ہمیشہ ایک تسلسل کی توقع ہوتی ہے۔ اپنے مواد کے لیے تین سے پانچ بنیادی موضوعات کا انتخاب کریں۔ انہیں واضح کریں اور لکھ لیں۔ چیٹ جی پی ٹی کو بتائیں کہ کن موضوعات کو شامل کرنا ہے اور کن کو نظر انداز کرنا ہے۔ ہر تحریر کو شائع کرنے سے پہلے ان اصولوں کے مطابق چیک کریں۔
6 اخلاق کے دائرے میں رہیں کچھ لوگ دوسرے تخلیق کاروں کے کام کو اے آئی میں ڈال کر اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ آرٹیکلز، سوشل پوسٹس، حتیٰ کہ کتابیں بھی۔ یہ عمل سراسر غلط ہے اور فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ جس نے مواد تخلیق کیا، اسے اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ پہلے اپنا مواد خود لکھیں۔ اے آئی کا استعمال اپنے خیالات کے فروغ کے لیے کریں، دوسروں کے کام کو چوری کرنے کے لیے نہیں۔ جب کسی کے کام کا حوالہ دیں تو انہیں مکمل کریڈٹ دیں۔ اپنے علم اور تجربے کو بنیاد بنائیں۔ آپ کے اصل خیالات ہمیشہ نقل شدہ مواد سے بہتر ہوں گے، اور آپ سکون سے سو سکیں گے۔
7 چیٹ جی پی ٹی کو اپنا ذاتی ’گوسٹ رائٹر‘ بنائیں اے آئی کے ساتھ تحریر وقت کے ساتھ بہتر ہوتی جاتی ہے۔ ہر نیا مواد آپ کو کچھ نیا سکھاتا ہے۔ ہر پرامپٹ زیادہ موثر بنتا ہے۔ ممنوعہ الفاظ کی فہرست لمبی ہوتی ہے، اور آپ کا لکھنے کا انداز مضبوط ہوتا ہے۔ آج سے شروع کریں۔ ایک چیز چنیں، چاہے وہ سوشل پوسٹ ہو، ای میل ہو یا بلاگ۔ اسے اپنی نئی رہنما اصولوں کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی میں آزمائیں۔ جو نتیجہ نکلے، اسے ایڈٹ کریں۔ دیکھیں کیا اچھا رہا اور کیا بہتر کرنا ہے۔ کل دوبارہ کریں۔ برے اے آئی مصنف وہی رہتے ہیں جو اپنے عمل کو بہتر نہیں کرتے۔ اچھے مصنف مسلسل تجربہ کرتے ہیں اور اس وقت تک درستگی لاتے ہیں جب تک نتیجہ بالکل ان کے معیار کے مطابق نہ ہو جائے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/8b269bf87a36a3ffa4f0f8aeb1957ad9/42a6ff32f9b0acd0-57/s2048x3072/76e557c184e22cf34351671457a074fc7592f2ec.jpg)
مناسک حج کے لیے کوئی مخصوص دعائیں نہیں ہیں سوال ۵۰۴:کیا طواف وسعی اور دیگر مناسک حج کے لیے کوئی مخصوص دعائیں بھی ہیں؟ جواب :حج و عمرہ کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے بلکہ انسان جو چاہے دعا کر سکتا ہے، البتہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعاؤں کو پڑھے تو وہ زیادہ افضل واکمل ہے، مثلاً: رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھے: ((رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب الدعاء فی الطواف، ح: ۱۸۹۳۔) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخش اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘ اسی طرح یوم عرفہ اور صفا و مروہ پر جو ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے اختیار کرنا افضل واکمل ہے۔ پس سنت سے جو دعائیں اسے معلوم ہوں، انہیں اختیار کرے اور جو معلوم نہ ہوں تو اپنے ذہن کے مطابق جو دعائیں چاہے پڑھ لے لیکن ان دعاؤں کو پڑھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس مناسبت سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حج و عمرہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں موجود کتابچوں میں طواف کے ہر چکر کی جو مخصوص دعائیں لکھی ہیں، یہ بدعت ہیں اور ان میں بہت سے مفاسد ہیں۔ انہیں پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، لہٰذا وہ انہی معین الفاظ کے ساتھ طواف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں پڑھتے تو ہیں مگر ان کے معنی نہیں جانتے اور ہر چکر کے لیے ایک دعا کو مخصوص کر لیتے ہیں اور اگر چکر ختم ہونے سے پہلے دعا ختم ہو جائے، جیسا کہ مطاف میں ہجوم کے وقت ایسا ہوتا ہے، تو وہ چکر کے باقی حصے میں خاموش رہتے ہیں اور اگر دعا کے پورا ہونے سے پہلے چکر ختم ہو جائے تو باقی دعا ترک کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اگر وہ ((اللّٰه م)) کے لفظ پر رکیں تو دعا کے باقی حصے کو نہیں پڑھتے۔ یہ سب نقصانات اس بدعت کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح ان کتابچوں میں مقام ابراہیم کی جو خاص دعا لکھی ہوتی ہے، وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ آپ جب مقام ابراہیم پر تشریف لائے تو آپ نے قرآن مجید کے یہ الفاظ پڑھے تھے: ﴿وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہِیْمَ مُصَلًّی﴾ (البقرۃ: ۱۲۵) ’’جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔‘‘ اور پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں لیکن مقام ابراہیم ہی کی خاص دعا جو یہ لوگ بلندآوازسے پڑھتے ہیں اور نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں، دو وجہ سے منکر ہے: (۱) یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے بدعت ہے۔ (۲) یہ لوگ بلند آواز کے ساتھ اس دعا کو پڑھ کر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ان کتابچوں میں حج و عمرہ کے جو طریقے لکھے ہوئے ہیں‘ ان میں سے اکثر وبیشتر باتیں کیفیت یا وقت یا جگہ کے تعین کے اعتبار سے بدعت ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۳۷، ۴۳۸ ) #FAI00414 ID: FAI00414 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
آئی ایم ایف کی شرط پوری،بجلی ٹیرف کے تعین کیلئے سالانہ ری بیسنگ کی سمری منظور
وفاقی حکومت نےعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک اور شرط پوری کردی۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کا اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی اور بجلی ٹیرف کےتعین کیلئے سالانہ ری بیسنگ کی سمری منظور کی۔ اعلامیے کےمطابق اجلاس میں سالانہ ری بیسنگ کیلئے نیپرا کو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا…
0 notes
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/af10b1d343146036b82f254952d19ff4/a41ce2d3ecec3b5b-8a/s540x810/a1752f643a6ee00dccbbf61ede0f0e03ab1ea507.jpg)
بلوچستان: چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت
حفیظ حسن آبادی
اس سے پہلے کہ چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت پر بات کی جائے لازم ہے کہ مختصراً اسکے بنیادی مقاصد پر ایک سرسری نظر دؤڑاکر ایک خلاصہ پیش کریں تاکہ قارئین شعوری طور پر اس بحث کا حصہ بنیں اور ہم کسی کج بحثی سے بچ سکیں کیونکہ ابھی تک ایسے محسوس ہورہا ہے اکثر مبصر سُنی سُنائی باتوں کو لیکر رائے قائم کرنے کی سعی میں لگے ہیں جو کہ ایک جاندار رویہ نہیں ہے اورخاصکر ایسے حالات میں جب بلوچ قوم بے پناہ قربانیاں دے رہی ہےتو بجا طور پر اندھی تقلید اور سیاسی بے راہ روی کی کوئی گنجائش نہیں ہربلوچ کو ہر معاملے میں شعوری طور بحث کا حصہ بنکر اپنےقومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اپنا کردار ادا کرنا چایئے۔
چارٹر آف لبریشن کا خلاصہ
:حصہ اول بنیادی حقوق
بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان اُسکے مرضی کیخلاف استعماری سیاست کی نذر ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے اور بلوچ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام کیا گیا ہے ۔اگر یہ بات درست اور پوری دنیا مانتی ہے تو بلوچ قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی یگانگت کے لئے جد و جہد کرکے خود دنیا کے دیگر بے شمار گم شدہ قوموں کی صف میں شامل ہونے بچانے اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق جد و جہد کرے۔جوبلوچستان آزاد کی جائیگی وہاں مردو عورتوں کو برابری حاصل ہوگی او ر یہ ’’مساوات معاشرے کے تمام حلقوں میں سماجی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں یکساں ہوگی‘‘ ۔ کوئی کسی سے نسلی یا کسی اور بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ تصور نہیں ہوگا بلکہ ہر کے قدر و منزلت کا تعین اُسکا معاشرے میں مثبت عمل زاتی محنت و مشقت اور اُس سے معاشرے میں موجود مثبت تاثر اور نتیجے سے ہوگا ۔خیالات پر پہرے نہیں لگیں گے کسی بھی بحث کی گنجائش موجود ہے۔مذہبی آزادی کوریاست یقینی بنائے گی۔ مذہب کوریاست سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دنیا کے پیش رفتہ اقوام و مما لک کی طرح لوگ زیادہ آزادی سے بلا خوف و خطر اپنے مذہبی عبادات و دیگر رسومات ادا کرسکیں ۔ اور مذہب کے مقدس نام کو کوئی اپنے گروہی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہ کر سکے جس طرح پاکستان و ایران میں ہوا ہے جو دنیا میں اُنکے تنہائی اور مذہب کے بدنامی کا سبب بنا ہے۔اس ریاست میں بلاامتیاز سب کے زندہ رہنے کے حق کی گارنٹی ریاست کی پہلی ترجیع ہوگی
حصہ دوئم
جد و جہد کے جامع طریقے : یہ چونکہ قومی آزادی کی تحریک ہے اس لئے اسکے تقاضوں کے عین مطابق معاشرے کے تمام طبقوں کی شمولیت کو خیر مقدم کیا جائیگا اسمیں شامل ہونے کوئی نسلی،جنسی ، لسانی ،نظریاتی و مذہبی بندش نہیں ۔ اور دنیا کے مروجہ قوانین و انسانیت دوستی کے تقاضوں کے مطابق اگر کوئی بین القوامی قوت بھی مدد کی پیشکش کرے گا تو اُسے قبول کیا جائیگا تاکہ بلوچ قوم کم از کم نقصان سے اپنی آزاد ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہان دو چیزیں بہت لازم ہیں جو اس پوری تحریک کی بنیاد ہیں پہلہ یہ کہ یہ جد وجہد پوری طرح بین القوامی قوانین کے عین مطابق آگے لے جایا جائیگا دوسرا اس جہد میں شامل کوئی بھی قوت پاکستان یا ایران کے پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا اور اسکے اس عمل کوچارٹر آف لبریشن ا ور اس جہد کے روح کے منافی سمجھا جائیگ۔ انسانی حقوق کےادارے طلباء تنظیمیں ٹریڈ یونینز غرض جد و جہد کے وہ تمام حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں جو دنیا میں اپنی حفاظت کیلئے اپنائے گئے ہیں ۔
حصہ سوئم
سیاسی نظام کا جواز : اس پوری جد وجہدکا مقصد بلوچ قوم کو اپنے تقدیر کا مالک بنانا ہےجس کے لیئے لازم ہے کہ آزادی کے بعد لوگ اپنی حق رائے دہی میں مکمل آزاد ہوں ۔ملک میں ایسے انتخابات کرائے جائیں جن کی نگرانی اقوام متحدہ و دیگر بین القوامی غیر جانبدار ادارے و میڈیا کریں ۔ایسے شفاف طریقے سے آئے بغیر کسی بھی پارلیمنٹ کو ملک کے اختیارات ہاتھ میں رکھنے کا قانونی حق نہیں ۔لہذا اب پاکستان اور ایران کی زیر نگرانی میں منتخب نمائندوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ قابض ریاست کے مفادات کی نگرانی کیلئے چُنے گئے ہیںگویا آزادی، انسانی حقوق، سماجی انصاف، یکساں مواقع کی فراہمی، اور معاشی قابلیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک جمہوری سیاسی نظام ہی آزاد بلوچستان میں رائج کیا جائیگا۔
حصہ چہارم
بامعنی جمہوریت اور امن : ایک بامعنی جمہوریت کو یقینی بنانے لازم ہے کہ معاشرے کو ایک جمہوری ماحول فراہم ہو۔ آزاد میڈیا اور صحافت، خود مختار اور آزاد عدلیہ، آزاد اسمبلیاں اور ایسوسی ایشنز، معاشی مواقع میں برابری، موزوں تعلیم اور کثیر الجماعتی سیاست کو یقینی بنا کر ایک بامعنی جمہوری نظام نافذ ہوگی تاکہ معاشرہ، تہذیب، سیاست، قانون، اخلاقیات، زبان، معیشت اور ماحولیات ایک معاندانہ نوآبادیاتی قوّت کے شکنجے سے آزادی کے بعد اطمنان سے ترقی کرسکیں اور جمہوریت کے وہ تمام تقاضے پورے ہوں جنکے لئے قوم آج قربانیاں دے رہی ہے۔اس ضمن میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد قابض ریاستوں کے تحویل میں موجو د قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائیگا ،بلوچستان کے تمام گمشدگاں کی بازیابی اور انکے خلاف جرائم میں ملوث عناصر و ریاستوں کو بین القوامی عدالت انصاف کے کٹہرے لانے یو این او کے زیر نگرانی کمیٹی بنائی جائیگی ۔
نئی آزاد ریاست کی تشکیل میں پہلے قدم کے طور پر بلوچستان سے قابض قوتوں کوغیر مشروط پر نکل جانے کا کہا جائیگا بعد میں بین القوامی قوتوں کی ثالثی میں سرحدوں کی حد بندی و حفاظت جیسے دیگر معاملات طے کئے جائیں گے۔نوزائیدہ ریاست میں سیاسی اور قانونی اداروں کے قیام کیلئے بین القوامی مدد کو خوش آمدید کہا جائیگا اور بلوچستان تمام ��ین القوامی میڈیا،انسانی حقوق کے تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کیلئے کھلا ہوگا اُنھیں کہیں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔ آزادی کی مزاحمتی تحریکوں اور مسلح تصادم کے حوالے سے قابض ریاستوں کے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن کی مکمل پابندی کی جائیگی۔
حصہ پنجم
آئینی قانون اور انصاف : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک جدید سیکولر اور جمہوری آئین تیار کر کے اسے اپنائے گی جہاں اقتدار پر ناجائزقبضے کے تمام رستے مسدود کئے جائیں گے ۔ہرشہری کے آزادی اور انصاف کے فراہمی کو آسان و شفاف کیا جائیگا ہرشخص کو اپنے اوپر لگائے الزام کی صفائی میں دلائل و ثبوت پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جائیگا اور وہ شخص اُس وقت تک مجرم نہیں کہلائے گا جب تک عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر اُس کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں دیا ہے ۔
کوئی کسی کی نجی زندگی ومعاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا کوئی کسی کےجائیداد پر قبضہ نہیں کرسکتاکیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے کوئی کسی سے کسی لحاظ سےبھی برتر و بہتر نہیں مانا جائیگا اور قانون سب کو یکساں تحفظ فراہم کرے گی۔سولی پر چڑھا کر سزائے موت، تشدد یا کسی بھی دیگر قسم کے غیر انسانی اقدام کے ذریعے ظالمانہ انداز میں کسی فرد کو زندگی سے محروم کر نےکوانسانیت کی روح، بلوچ اخلاقی ضابطےاوراقدار کےسخت منافی تصور کیا جائیگا۔ہےاور وہ جمہوریہِ بلوچستان میں قطعی طور پر ممنوع ہوں گے۔
حصہ ششم
حق تلفی کے خلاف اور مساوی مواقع کے حق میں : آزاد اور جمہوری بلوچستان کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور بلا سمجھوتہ نقطہِ نظر رکھے گا اور اس کو ہر سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر کوشش کرے گا۔
اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قومی یا مقامی حکومت کے سول ملازمین کا تقرر کھلے مقابلہ کے ذریعے میرٹ کے بنیاد پر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ، سول ملازمین کو لازمی طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ یہ چیز مختلف منتخب حکومتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے ساتھ اور منصفانہ ذہن کے ساتھ کام کرنے کیلئے بجا ہے۔
بلوچستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیّتوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زبانوں اور روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے آبادی کے باقی حصوں کی طرح بالکل ایک ہی پیمانے پر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ خاندانی تعلقات، اقرباء پروری یا طرف داری کے بجائے انفرادی میرٹ کے اصول پرسختی سےکاربندرہنے کو ممکن بنایا جائیگا۔
سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشوو نما و انکے عزت نفس کی خیالداری ریاست کی پہلی ترجیحات میں شامل ہوگی
حصہ ہفتم
مابعدِ حصولِ آزادی : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک سول، کھلی رواداری اور جمہوری معاشرہ ہو گا،جہاں ریاست جمہوری اور نجی آزادیوں کا تحفظ کرے گی بشمول آزادانہ ، کثیر جماعتی انتخابات، احتجاج کرنے کا حق، اظہارِ خیال اور صحافت کی آزادی، جیسا کہ یو این کے انسانی حقوق پر عالمی اعلامیہ اور سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ میں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ایک ایسا سیاسی نظام رائج کیا جائیگا جہاں ایک فرد ایک ووٹ ک�� اصول پر کئے گئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائیگا۔
بلوچستان کی قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) بلوچ قوم کا اعلیٰ ترین جمہوری ادارہ ہو گا جو بلوچستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق کو یقینی بنائے گا اور ان کا تحفظ کرے گا۔ یہ کسی قسم کے مطلق العنّان سیاسی نظام کے خلاف قلعے کا کردار ادا کرے گا۔ تمام ریاستی اہلکار اپنے اقدامات کیلئے بلوچستان قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) کو اوربالآخر بلوچستان کے لوگوں کو جواب دہ ہوں گے۔
بلوچستان کی قومی فوج ، سرمچاروں کےمسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں مختلف گروہوں میں سے تیار کی جائے گی۔ بلوچستان کی قومی فوج منتخب شدہ سول سیاسی اتھارٹی کا ایک ماتحت ریاستی عضو ہو گا – بلوچستان کی قومی فوج کے دائرہِ کار اور منشور کی تعریف قومی اسمبلی، بلوچستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہوگا ۔ یہ فوج بلوچستان کی ریاست، عدلیہ، سول معاشرے اور میڈیا کی قریبی جانچ پڑتال کے تحت اور ان کو جواب دہ ہوگی۔اس فوج کا اوّلین فریضہ بلوچستان کی علاقائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا۔ بلوچستان کی مسلح افواج کے اراکین کیلئے ملازمت میں رہتے ہوئے سیاسی، تجارتی یا کسی قسم کی دیگر ملازمت سے متعلقہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔
جرائم کے رو ک تھام کیلئے بغیر لائسنس کے نجی اسلحہ اور کسی قسم کی نجی فوج رکھنا غیر قانونی ہو گا۔اور قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے ریاست خصوصی توجہ دے گی تاکہ لوگ آپس کی دشمنیوں میں الجھ کر معاشرے کی تعمیر وترقی کی رفتار کو متاثر نہ کرسکیں۔
حصہ ھشتم
خود مختار ریاستِ بلوچستان : بلوچ جدوجہد آزادی کااصل مقصد بلوچ وطن کے منقسم علاقوں کو دوبارہ بلوچ وطن میں متحد کرکے ایک کامل بلوچ قومی ریاست کی آزاد حیثیت کو تسلم کرانا ہے۔
بیرونی جارحیت سے تحفظ، داخلی امن و امان کی برقرار ی، انصاف کی فراہمی، فلاحی خدمات کی فراہمی اور بیرونی تعلقات میں توازن ،از سرنو تمام شعبہ ہائ زندگی میں بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل ریاست کی زمہ داری ہوگی ۔
بلوچستان کے تمام شہری بلوچستان کے کسی بھی حصّہ میں سفر کرنے، کسی کاروباری سرگرمی یا کام کے قیام کیلئے آزاد ہیں۔
بلوچستان میں موجود تمام قدرتی وسائل بلوچستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ ان وسائل کا نظم و نسق اور اختیار ریاستِ بلوچستان کے پاس ہو گا۔ ان کا استعمال بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی فلاح کیلئے ہو گا ۔ کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنے ذاتی فائدہ اور مفاد کیلئے ان وسائل کے استحصال کا حق نہیں ہوگا۔
بلوچستان سے نکالے گئے تمام قدرتی وسائل کی بلوچستان اور تمام دیگر اقوام کے مابین تجارت بین الاقوامی اور مقامی منڈی کی قیمتوں کے تحت ہو گی۔
حکومتِ بلوچستان سوشل سیکیورٹی کا ایک جامع نظام اور ایک فلاحی ریاست کا نظام متعارف کروانے کی ذمہ دار ہے۔جسکے تحت ریاست بچے ،بزرگ شہری ، معذور افراد ،کمزور اور بلانمائندہ گروہوں کےمعاشی ،سیاسی و سماجی تحفظ کا زمہ دارہوگا۔
بلوچستان کی آزاد ریاست اُن سابقہ قابض قوتوں سے معاوضہ کا تقاضا کرے گی جنہوں نے بلوچستان کو لوٹا ہے اور اس کے قدرتی وسائل کو چھینا ہے۔
ریاست بلوچستان ان لوگوں کے اوّلین اہلِ کنبہ کی معاونت کیلئے ایک فنڈ قائم کرے گی جنہوں نے ہماری مادر وطن کی آزادی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی
حصہ نہم
سماج، معیشت اور ماحول : بلوچ زبانیں بلوچی اور براہوی بلوچستان کی قومی زبانیں ہوں گی۔ انگریزی ثانوی سرکاری زبان اور بین الاقوامی میدان میں رابطہ کاری کا ذریعہ ہو گا۔
بلوچستان ایک مخلوط معیشت کا کردار ادا کرے گا جہاں معیشت کے نجی، سرکاری اور رضاکار شعبہ جات ملک میں مروجہ قوانین کے اندر رہ کر فعال ہو ں گے۔
"ما چکیں بلوچانی" بلوچ جدوجہد آزادی کا ترانہ ہے۔ آزاد بلوچستان کے قومی ترانہ کو بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی منتخب اور منظور کرے گی۔
بلوچ جدوجہد آزادی کا جھنڈا جو کہ بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنایا جاتا رہا ہے تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ مرفاع کے برابر میں ایک ستارے کے ساتھ ایک نیلے رنگ کا تکونا امتیازی نشان خصوصی علامت (یا چارج ) کے طور پر ہے ۔ تکونے امتیازی نشان سے لے کر پھریرے تک ، دو افقی پٹّیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اوپر والی افقی پٹّی سرخ ہے اور نیچے والی افقی پٹّی سبزآزادی تک یہی جھنڈا ہوگا ۔آزاد بلوچستان کے قومی جھنڈے کا فیصلہ اور منظوری بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی کرے گی۔
ہماری آزادی کی بحالی کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہماری آزادی کی جدوجہد کے جانثاروں کی قومی یاد منانے کا منتخب شدہ حتمی تاریخ 13 نومبر کو ہوگی۔ 1839 میں اس دن میر محراب خان اور ان کے کئی سپاہیوں نے سلطنتِ برطانیہ کی حملہ آور فوج کے خلاف بلوچستان کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
آزادی حاصل کرنے کےفوراً بعد بلوچستان میں سے تمام جوہری سرگرمیوں کے خاتمے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے فوری اقدام کیا جائے گا۔ بلوچستان میں، جوہری تجربات بلوچ عوام کی خواہشات کے برخلاف اور ان کی اجازت کے بغیر کئے گئے تھے۔ بلوچستان کے عوام اور ان علاقوں کی ماحولیات پران تجربات کے اثرات پر اقوامِ متحدہ سےایک غیر جانبدارانہ تفتیش وتحقیق کی درخواست کی جائے گی۔ وہ علاقےجو کہ تابکاری کے زہر یلے اثرات سے آلودہ ہوئے ہیں ان کو صاف کیا جائے گا اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر شعاعوں کے اثرات کا تعین کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار سائنسی تحقیق کی جائے گی۔ بلوچ عوام کے خلاف اس جُرم کی ذمہ دار ریاست کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا اور بین الاقوامی نظامِ انصاف کے ذریعے انصاف ومعاوضہ کا تقاضا کیا جائے گا۔
حصّہ دھم
عبوری آئین : اس منشور کے نافذ ہو جانے کے بعد بلوچستان کے عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اس آئین میں بلوچ عوام کے وہ حقوق اور ذمہ داریاں شامل ہوں گی جن کا تصوّر اس منشور میں پیش کیا گیا ہے۔عبوری آئین ایک جدید جمہوری ریاست کے ترقی پسند عوامل اور بلوچستان کی انوکھی تاریخ، تہذیب، حالات اور ضروریات کو یکجا کرے گا۔
-----------------------------------------------------------------
یہ تھا چارٹر آف لبریشن کا مختصر خلاصہ جسے پڑھکر صاحب نظر لوگوں کے زہن میں یقیناً چند فطری اور اہم سوال اُٹھتے ہوں گے کہ ان باتوں میں سے کس بات سےاعتراض کرنے والوں کو اعتراض ہے ؟ اس میں شامل کونسا نکتہ ایساہے جو اس جد و جہدکے روکے منافی ہے؟ ۔اس میں کو نسی ایسی بات موجود ہے جو بلوچ نفسیات ،سیاسی ،سماجی و اقتصادی تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔کیا یہ وہی مطالبات و خواہشات نہیں ہیں جو قوم نے بارہا دہرائے ہیں جنہیں اس چارٹر کمیٹی نے صرف یکجا ہ و ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں یا لیڈروں کی طرف سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس دستاویز کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے وہ بھی اس کے کسی ایک نکتہ سے بھی عدم اتفاق کا اظہار نہیں کرسکتے ۔ اور ہم یہ بات وثوق کے کیساتھ کہتے ہیں وہ جہاں بھی جائیں گے نئے بلوچستان بارے ان نکات سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کہہ سکیں گے۔
تاہم اس دؤراں کچھ باتیں اس تواتر سے دہرائی گئیں کہ ہمیں اس سے پہلے بہت کچھ لکھنے کے باوجود پھر سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ بات کیا جاتا ہے کہ اس چارٹر نے قوم میں انتشار پیدا کیا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ ایسا کہنے والوں کی اکثریت نے دوسروں کے سنے سُنائی باتوں کے زیر اثر ایسا تاثر قائم کیا ہے اگر وہ خوداِسے پڑھتے یقیناً ایسی بےمنطقی بات نہیں کرتے ۔مذکورہ دستاویز میں بلوچ قوم کی غلامی، اس سے نجات کی راہیں اور اسکے بعد اسکے تعمیر کے خدوخال ہیں۔ ایک دستاویز جسکی روح یہی ہے کہ بکھرے بلوچستان کو مشترکہ قوت سے یکجاہ کیا جائے اس سے انتشار کیسے پھیلایاجاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر انتشار پہلے سے ہمارے زہنوں میں موجود ہو تو وہ کسی نہ کسی بہانے خود کا اظہار کربیٹھتی ہے۔ یہ ایک ایسا دستاویز ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی فورم میں بلا امتیاز کہ آپ کس پارٹی یا تنظیم سے ہیں بلوچ وطن کے تعمیر میں تمہاری وکالت کرتا ہے وہ کیسے تمہیں انتشار کی طرف لے جائیگا ؟
کچھ دوست کہتے ہیں اس کی ترتیب سے پہلے سب کو بلا کر سب سے مشورہ لینا چائیے تھا بعد میں اس کو بنانا تھا ۔بظاہر یہ ایک معصومانہ خواہش معلوم ہوتا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستانی کمیٹی در کمیٹی اور معاملات سردخانوں میں ڈالنے کی ہماری کمزوری ہماری روحوں کے اندر بھی جاگزیں ہوچکی ہے ۔اور جو چیز ہمیں نہیں کرنا ہوتا ہے اسکے لئے ایسی راہیں بتاتے ہیں جن سے ہمیں سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ اس ڈگر پر چل کر ضرور الجھا جائیگااور بات ہماری بد نیتی کے بجائے مدمقابل کے نااہلی پر ٹکے گی اور دنیا ہمارے رویے کے بجائے پیش کرنے والے کی نالائقی پر نالاں ہوگا۔
کیا یہ دوست نہیں جانتے کہ بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی جیسا زیرک مدبر اور مدلل لیڈر شاہد صدیوں میں پیدا ہو جب آپ نے بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اِسی مذکورہ بالا فارمولے کے تحت سب کو بلایا قومی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہوئے سنگل پارٹی بنانے کا تجویز رکھا اور اسکے لئے سب سے پہلے اپنی جماعت کےتحلیل و ضم ہونے کا پیش کش کیا لیکن جواب میں کسی نے کہاکہ لیڈر کون ہوگا؟ تو کسی نے کہا اسکی کوئی ضرورت نہیں آپ جو فیصلہ کریں گے ہم آپکے ساتھ ہیں اگر آپ پر ایک گولی چلے گی تو ہم دس گولیاں چلائیں گےلیکن یہی لوگ جب باہر نکلے توسب نے کہا نواب بگٹی پھنس گیا ہے اس لئے ہمارا سہارا لیکر اسلام آباد کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے ۔بعد میں اپنے تماشائی بننے والی کردار اور غائبانہ نماز جنازہ کا ڈرامہ بازیوں سےاپنی بد نیتی ،منافقت و سیاسی مفت خوری کی خواہش ثابت کرگئے۔ سنگل پارٹی بنانے سے بہانہ بناکر بھاگنے والے شروع ہی سے ساتھ نہیں تھے بلکہ اُنکا مقصد صرف اور صرف نواب بگٹی و دیگر کی قربانیوں کو کیش کرنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یا دوسرے لفظوں میں اُنھوں نے اس بلوچی دیوان میں صرف اس لئے شرکت کی کہ لڑے بھی بگٹی ہارے بھی بگٹی لیکن اگر جیتے تو ہم کسی نہ کسی طرح شریک رہیں ۔
ایک بہت ہی حاجزانہ سوال ہے اگر نواب صاحب انکے جھوٹے وعدوں اور بعد میں دیکھیں گے جیسے باتوں کیلئے رُکتے تو آج بلوچ قومی تحریک آزادی اتنی منزل طے کرچکی ہوتی ؟یقیناً نہیں! ویسے بھی پوری دنیا میں ایسے کاموں کا طریقہ کار یہی ہوتاہے کہ جس کا آئیڈیا ہوتا ہے وہ اُسے ترتیب دے کر پیش کرتا ہے جس پر بعد میں بحث مباحثہ ہوتا ہے اُسمیں کمی بیشی کی جاتی ہے ۔ہاں اگر ایسا دستاویز تیار ہوتا اور کسی کو اسمیں اضافہ یا کٹوتی کا اجازت نہیں ہوتا تب اُنھیں یہ سب کچھ کہنے کا حق تھا جو اب کہہ رہے ہیں۔کچھ لوگ تو اس حد تک زیادتی کرکے کہتے ہیں کہ منشور اُسکے بنانے والوں نےمقدس کتاب بنایا ہے ۔بات بالکل ایسی نہیں بات صرف اتنی ہے کہ جو چارٹر اس کمیٹی نے بنائی ہے اگر آپ اس سے متفق ہیں تو چلو اِسی کو روڈ میپ مان کر اسی کی روسے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کو اس منشور سے ہٹ کر کسی دوسرے شکل میں دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں وہ روڈ میپ ہمیں دے دیں ہم آپ کے روڈ میپ کو بھی دیکھیں گے ویسے بھی اسمیں دو نکات کے علاوہ باقی سب کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے اگرچارٹر بنانے والے اس دستاویز کو مقدس کتا ب کہتے یا سمجھتے تو وہ کسی کو اسمیں ردوبدل کی اجازت نہیں دیتے ۔
کچھ دوست کہتے ہیں بس یہ دستاویز متنازعہ ہوگیا اسکو چھوڑیں ، ہے نا جہالت کا شاھکار جملہ جب کوئی چیز قوم کے سامنے پہلی بار یکم مارچ کو پیش ہوا وہ ایک دوسال پہلے کیسے متنازعہ ہوا ؟ اُنکا ایسا کہنا خود اُنکے اپنے سابقہ دلیل کی منافی کرتا ہے کہ اِسے قوم سے منظور کرانے کی ضرورت تھی لو یہ دستاویز آپکی فرمائش پر قوم کے سامنے پیش خدمت ہے قوم باشعور ہے وہ خود اِسے پڑھے ،اپنی رائے قائم کرے اور ہم سب کی راہنمائی بھی کرے ۔اس منشور کا بلوچ قوم کے سامنے پیش کرنا اور انھیں مکمل بحث کا حصہ بنانے کی کوشش ایک ایسی نیک خواہش ہے کہ کوئی بھی لیڈر قوم کے پیچھے چھپ کر اپنی انا کی تسکین یا سماج میں جوابدہی سے بچنے اپنے کسی غیر سیاسی عمل کو عوامی و قومی نہ کہہ سکے۔اس سے پہلے اس پر اعتراض کرنے والوں کے سیاسی رویے کااحاطہ کریں پہلے یہ بات ضرور کہیں گےکہ چارٹر کےمخالفین کو ریشہ دوانیوں کا موقع چارٹر کمیٹی کے دو غیرضروری و غلط اقدامات نے دئیے۔ ان دو غلطیوں سے چارٹر مخالفین نے جہاں تک ممکن ہوا فاہدہ اُٹھایا اور ایک جاندار و سیاسی بحث کے بجائے کج بحثی میں ایک بیزاری کی کیفیت پیدا کی جو کسی حد تک مجموعی مایوسی کا سبب بھی بنا ۔ چارٹر کمیٹی کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنھوں نے اِسے مختلف لوگوں کو پیش کیا ج��کہ چارٹر کو کسی کو پیش کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی خاصکر خان قلات اور اختر مینگل کو تو قطعناً پیش نہیں کرنا چائیے تھا ۔ خان قلات کو اس لئے نہیں کہ آپ ایک فرد ہیں اوراس کے لئے یہ دلیل دی جائے کہ وہ آزادی کی بات کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے دیگر لوگ بھی ہیں جو آزادی کی بات کرتے ہیں جب آپ اُنکو یہ دستاویزپیش نہیں کرتے تو یہاں یہ رعایت کیوں ؟ ۔اختر مینگل کو اس لئے پیش نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ اُنھیں و چارٹر پیش کرنا ایک مصنوعی دباؤ کا نتیجہ تھا چارٹر گروپ کو دباؤ میں آئے بغیر اس جماعت بارے اپنے رویے کو ٹھیک ایسے رکھنا تھا جیسے دیگر تمام پاکستانی پارلیمانی سیاست کرنے والے جماعتوں کے بارے میں رکھتا ہے یہ پریشر گروپ پہلے اختر سے اتحاد کیلئے دباؤ بڑھا رہا تھا اب دیکھا کہ اختر کی براہ راست حمایت نا ممکن ہے تو یہ جاوید مینگل اور مہران مری کیساتھ اتحاد پر زور دے کر تمام صفوں میں بدنظمی پھیلانے مصروف ہے۔ اس پریشر گروپ کا مقصد اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ اصل آزادی پسند لوگوں کے درمیان اُنکا کوئی ضرور موجود ہو تاکہ بہ وقت ضرورت حسب سابق تحریک کو اسلام آباد کی جھولی میں ڈالا جاسکے ۔ چارٹر کو انھیں پیش کرنے کے بجائے براہ راست شائع کرکے عوام کے سامنے ایسے پیش کرنا تھا جیسے اب کیا جاچکا اور اُس وقت بھی یہی دعوت دی جاتی کہ آپ جو بھی تجویز دیں گے اُنھیں چارٹر کمیٹی دیکھے گی بلکہ یہ کہ وہ آن دی ریکارڈ اپنے تجاویز میڈیا کے زریعے بھی شائع کرواسکتے ہیں۔ دوسری غلطی پہلے والے سے کئی زیادہ سنگین تھی کہ اِسے لیڈروں کو پیش کرنے کے بعد عوام کے سامنے لانے میں تاخیر ہوئی۔ جس سے جن بد نیت لوگوں کو آپ کے ساتھ آنا نہیں تھا اُنھوں نے عوام کے پیچھے چھپتے ہوئے اسکے خلاف تاویلیں تلاش کی کہ پوری قوم کا معاملہ ہے لہذا قوم کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ہم کیسے اسکے بارے میں رائے دے سکتے ہیں جبکہ اُنکے قوم دوستی کا یہ عالم تھا کہ اُنھوں نےعام آدمی تو در کنار اُنکے سینئر تریں و تجربہ کار تریں مرکزی ممبران تک کو نہیں دکھایا گیا تھا۔ ڈیڑھ برس پہلے اُس وقت میری عیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نےچند بی آر پی اور بی این پی مینگل کے سینئر دوستوں سے چارٹر بارے فیڈ بیک کا کہا تو جواب میں سب نے یہی کہا کہ اُنھیں ابھی تک چارٹر پارٹی کی طرف سے نہیں ملاہے گو کہ اُس وقت ان جماعتوں کی قیادت کو یہ چارٹر ایک سال پہلے پیش کیا جاچکاتھا۔ اگر یہ دستاویز صرف اُن لیڈروں تک محدود رہی ہے اور اُنھوں نے اپنے سینئر ممبراں تک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے تو ایسے لوگ کس بنیاد پر پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرکے کسی دستاویز کے متنازعہ یا غیر متنازعہ ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔
اگر ان سینئر دوستوں کو وقت پر چارٹر دیا جاتا اور اس پر تمام تر تعصبات سے پاک واقعی سیاسی بحث مباحثہ ہوتا اور اُس بحث مباحثہ کے نتیجے میں ایک رائے قائم کی جاتی تو یقیناً آج ایسے قدم اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جس سے کسی جمہوری پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے کے تاثر سے پارٹی کی ساق کو ہمیشہ کیلئے نقصان پہنچتا ۔
اِسے ہماری اجتماعی بد نصیبی کہیئے کہ ہمارے اکثر دوست ابھی تک قبائلیت کے سوچ کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں بات جمہوری سیاست کی کرتے ہیں لیکن مزاج و اقدامات شہنشاؤں جیسے ہیں ۔ بات گروہی سیاست سے نکلنے کی کرتے ہیں لیکن خود گروپوں سے نکل نہیں پاتے دوسروں کو سیاسی رویہ اپنا کر ہر بات اداروں کے تابع کرکے فیصلوں میں توازن لانے کی کہتے ہیں لیکن اپنے تمام فیصلے ذاتی ہوتے ہیں نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، سب کو رائے دینے اور تعمیری تنقید کا کہتے ہیں لیکن ہر بات اور تنقید اُس وقت ناقابل برداشت ہوتی ہے جب بات اُنکے کوتائیوں کی طرف مڑ جائے ،بات اتحاد و اتفاق کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہر اُس عمل کی طرفداری کرتے ہیں جس سے راستے کبھی ملنے نہ پائیں ۔
حرف آخر: بلوچ قوم نے بڑی مشکلوں سے یہ توجہ حاصل کیا ہے اس وقت اس کارواں کو اس پڑاؤ سے آگے لیجانا ہے لیکن تحریک کے’’ اجزائے ترکیبی‘‘ اُسکی موجودہ ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ غیر اہم ،غیر ضروری و مکمل طور پر سیاسی طالع آزما ؤں کی خاطر اصل قوتیں آپس میں گتھم گھتا ہیں اور ایک دوسرے پر سنگ باری کی جارہی ہے جسے کچھ لوگ صفائی کا عمل کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک بجا بھی ہیں لیکن یہ صفائی کا عمل اگر حد سے زیادہ لمبا ہوگیا تو صفائی کے ساتھ چمڑی بھی اُترجائیگا ۔اسمیں طالع آزماؤں کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر نقصان ہوگا تو سب سے پہلے قوم کا اس قومی تحریک کیساتھ ہوگا۔ آج بلوچ قومی تحریک کو حقیقی طور پر اداروں کی ضرورت ہے جو اُسکے ہر شعبے کو جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ طور پر چلائیں اب اسکا پھیلاؤ بہت وسیع ہو چکا اِسے اس طرح’’ شوقیہ فنکاروں ‘‘سے چلایا نہیں جاسکتا پالیسی ساز اداروں اور موثر پروپگنڈہ مشنری کی ضرورت ہے۔چارٹر آف لبریشن تاحال واحد ایسا دستاویز ہے جس کو بنیاد بناکر تمام اصل آزادی پسند قوتیں اپنی اپنی صف بندیاں کرکےایک دوسرے کیساتھ مشترکہ جد وجہد کی راہیں تلاش کرسکتی ہیں ۔ اس دستاویز کو کسی ایک فرد سے منسوب کرکے ’’بغض معاویہ ‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے وسیع النظری سے اسکا مطالعہ کرکے اِسے مکمل کیا جائے اگر کہیں کسی کو کوئی کمزوری یاخامی نظر آتی ہے ۔
بحث سمیٹتے ہوئے ایک بہت ہی تلخ حقیقت دوستوں کو بتاتا چلوں کہ دنیا آج بھی بلوچ کیساتھ ہمدردی ضرور رکھتا ہے لیکن اُسکےآزاد ریاست بنانے کے خواہشوں کی تکمیل کیلئے ابھی تک تذبذب کا شکار ہے ۔بلوچ کو اُسے قائل کرنے واقعی ایک چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ اُسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ ہم جس بلوچستان کے بنانے کی حمایت کریں گے اُسکے چلانے والے کون لوگ ہوں گے اور انکے سیاسی ،معاشی و سماجی خیالات کیسے ہیں اور وہ خود اپنے تصورات سے کس حد تک مخلص ہیں اگر ہماری حالت یہی رہی کہ ایک جگہ پانچ آدمی ہوکر چھ جماعتوں میں تقسیم ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری بد اعمالیوں کی سزا سے ہمیں نہیں بچا سکتا۔ (ختم شُد)
0 notes
Text
8 قابلیت جذاب و کاربردی ردیاب خودرو برای رانندگان
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/a7b546e861f88250f43ea8c64270e5d8/35e740f514fe797f-08/s540x810/9b70259d93182de823e3c54e250c4d785cfd30b4.jpg)
استفاده از ردیابهای خودرو بهعنوان یک ابزار پیشرفته برای نظارت و افزایش امنیت خودروها، در سالهای اخیر رشد چشمگیری داشته است. این دستگاهها با ترکیب تکنولوژی GPS و ویژگیهای پیشرفته دیگر، امکان ردیابی لحظهای و ارائه اطلاعات دقیق از وضعیت و موقعیت خودرو را فراهم میکنند. در این مطلب، نگاهی به امکانات اصلی ردیابهای خودرو و مزایای آنها خواهیم داشت.
۱. ردیابی لحظهای (Real-time Tracking)
ردیابی لحظهای، یکی از مهمترین امکاناتی است که یک ردیاب خودرو ارائه میدهد. این ویژگی به کاربران اجازه میدهد تا بهصورت زنده موقعیت خودرو را روی نقشه مشاهده کنند.
در صورتیکه خودرو دزدیده شود، ردیابی سریع به پلیس کمک میکند تا موقعیت دقیق خودرو را پیدا کند.
همچنین شرکتهایی که یک مجموعه خودرو دارند، با این قابلیت میتوانند عملکرد رانندگان خود را در زمان واقعی بررسی کنند و مطمئن شوند که از مسیرهای تعیینشده میگذرند.
۲. ثبت تاریخچه مسیرها
علاوه بر ردیابی زنده موقعیت مکانی، ردیابهای خودرو اطلاعات مربوط به مسیرهای پیمودهشده را ذخیره میکنند. این ویژگی امکان مشاهده و بررسی مسیرهای طیشده در یک بازه زمانی مشخص را به کاربر میدهد.
درصورتیکه جریمهای برایتان صادر شود که مطمئنید اشتباه است، با این قابلیت میتوانید ثابت کنید که در روز و ساعت صدور جریمه در خیابان مذکور نبودهاید.
۳. هشدارهای امنیتی
بسیاری از ردیابهای خودرو مجهز به سیستم هشداردهی هستند. این سیستمها میتوانند در صورت وقوع اتفاقات مشکوک مانند باز شدن دربها، روشن شدن خودرو، خروج از محدوده جغرافیایی (Geo-fence) یا دستکاری دستگاه، به صورت خودکار هشدار ارسال کنند.
با وجود این هشدارها، در صورت تلاش برای سرقت یا جابجایی خودرو بدون اجازهی شما، به سرعت از طریق پیامک یا تماس تلفنی که ردیاب با شما برقرار میکند، مطلع میشوید.
۴. خاموش کردن خودرو از راه دور
برخی از ردیابهای پیشرفته قابلیت قطع برق خودرو از راه دور را نیز دارند. این ویژگی به صاحب خودرو این امکان را میدهد که در هر زمان احساس خطر کردند (مثل وقتی خودروی خود را در یک منطقهی ناامن پارک میکنند) یا حتی وقتی ماشینشان دزدیده شد، با زدن یک دکمه، برق ماشین خود را قطع کنند تا دیگر بههیچعنوان روشن نشود.
۵. نظارت بر سرعت و رفتار رانندگی
ردیابهای خودرو میتوانند دادههایی مانند سرعت، شتابگیری و ترمزهای ناگهانی را ثبت و گزارش کنند. نظارت بر سرعت و رفتار رانندگی میتواند به بهبود رانندگی و کاهش خطرات تصادف کمک کند. این اطلاعات بهخصوص برای شرکتهای حملونقل و مدیریت ناوگان مفید است.
۶. امکان شنود صدا از راه دور
برخی از ردیابهای پیشرفته دارای یک میکروفن داخلی یا خارجی هستند که در کابین خودرو نصب میشود. این میکروفن به کاربران اجازه میدهد تا از راه دور صدای داخل خودرو را بشنوند.
۷. دکمهی sos
دکمهی SOS که به آن دکمهی کمک اضطراری هم گفته میشود، همانطور که از نامش پیداست برای درخواست کمک در شرایط اضطراری کاربرد دارد. این دکمه در سالهای اخیر به تلفنهای همراه، ساعتّای هوشمند و برخی از خودروها افزوده شود.
در حال حاضر برخی از ردیابهای هوشمند و پیشرفته نیز از این قابلیت پشتیبانی میکنند. با این قابلیت هر زمان در شرایط اضطراری قرار بگیرید یا حادثهای برایتان رخ دهد میتوانید این دکمه را فشار دهید تا با شمارههای پیشفرضی که خودتان از قبل در اپلیکیشن ردیاب ذخیره کردهاید (مثل امداد یا حتی شمارهی اعضای خانواده) تماس گرفته شود و موقعیت مکانیتان برای آنها ارسال شود. در برخی از ردیابها این قابلیت بهصورت خودکار و با تشخیص تصادف، فعال میشود و نیازی به فشردن دکمه نیست.
۸. تعیین محدودهی مجاز رانندگی
با کمک ردیاب شما میتوانید یک محدودهی مشخصی را برای خودروی خود تعریف کنید تا در صورت خروج یا ورود خودرو به این محدوده، هشدار دریافت کنید.
این قابلیت بیشتر برای شرکتهایی نظیر اجازه خودرو و سرویس مدارس میتواند کاربردی باشد. همچنین اگر خودروی خود را به شخصی میسپارید و نمیخواهید از محدودهی شهر خارج شود نیز میتوانید از این قابلیت ردیاب کمک بگیرید.
نتیجهگیری
اکثر مردم ردیاب را تنها با قابلیت مکانیابی آن میشناسند، اما امروزه ردیابها امکاناتی فراتر از ردیابی موقعیت مکانی ارائه میدهند. مواردی مثل ارسال هشدار، شنود صدا، کنترل سرعت، تعین محدودهی مجاز و sos از مهمترن قابلیتهای ردیاب هستند. امکانات نهتنها برای جلوگیری از سرقت خودروها کارآمد هستند، بلکه به بهبود بهرهوری و ایمنی در صنعت حملونقل و مدیریت شخصی خودروها نیز کمک شایانی میکنند. با انتخاب ردیاب مناسب، میتوان از تمام این ویژگیها بهرهمند شد و آرامش خاطر بیشتری داشت.
0 notes