#ایکٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
بشریٰ بی بی کیخلاف ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
(24نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ بشریٰ بی بی کے خلاف ایف آئی آر ڈیرہ غازی خان میں درج کی گئی ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے لوگوں کو ورغلانے کیلئے نفرت انگیز بیان دیا۔پولیس کے مطابق ملزمہ کے خلاف دفعہ 126 ٹیلی گراف ایکٹ اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ…
0 notes
Text
آرمی ایکٹ میں ترمیم،سروسزچیفس کی مدت ملازمت بڑھانے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نےآرمی ایکٹ میں ترمیم لانےکافیصلہ کرلیا۔سروسزچیفس کی مدت ملازمت3سال سے بڑھا کر 5سال کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کی ترمیم منظور کر لی۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال، پارلیمانی امور اور قانون سازی سے متعلق مشاورت کی…
0 notes
Text
مفتی سلمان ازھری صاحب کے ساتھ حکومت کا غیرمنصفانہ سلوک۔از عرفان احمد ازہری
مفتی سلمان ازھری صاحب کے ساتھ حکومت کا غیرمنصفانہ سلوک۔ تحریر: عرفان احمد ازہری – Irfan Azhari رواں سال 2024 میں فروری کے پہلے ہفتے میں مفتی صاحب پر جب گجرات کے جونا گڑھ میں ایف آئی آر کی خبر ملی تو ذہن میں اسی وقت ایک سوال ابھرا تھا کہ مفتی صاحب کی تقریریں تو پورے ملک میں گزشتہ دو سالوں سے ہو رہی ہیں، گستاخ لعین یتی نرسمہانند کو للکارنے کے بعد ملنے والی شہرت نے مفتی سلمان ازہری صاحب کو ملک کا سب…
View On WordPress
#مفتی سلمان ازھری صاحب کے ساتھ حکومت کا غیرمنصفانہ سلوک۔#پاسا ایکٹ کیا ہے جو مفتی سلمان ازہری صاحب پر لگایا گیا ہے ؟
0 notes
Text
سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کے خلاف 5 گواہ دوبارہ عدالت طلب
آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں گواہان دوبارہ طلب کر لیا ،وکلاء صفائی نے اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلہ کی کاپی عدالت میں پیش کی جس پر عدالت نے پانچ گواہان کو دوبارہ طلب کرلیا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی۔ وکلاء صفائی علی بخاری، بیرسٹر تیمورملک اور دیگر عدالت پیش ہوئے اور اسلام…
View On WordPress
0 notes
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰ��ا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر حکومت پنجاب ننکانہ صاحب فون نمبر056-9201028
ہینڈ آوٹ نمبر535
ننکانہ صاحب:( )19 نومبر 20224۔۔۔۔۔۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ستھرا پنجاب ویژن کے تحت ضلع کے تمام شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں صفائی کا عمل بلاتفریق جاری ہے۔تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو کی زیرصدارت ضلع میں جاری صفائی مہم اور سی ایم انیشیٹوز پر عملدرآمد بارے اہم اجلاس کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل رائے ذوالفقار علی ، تینوں تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز ، ضلع کونسل، لوکل گورنمنٹ ، لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سمیت دیگر متعلقہ افسران بھی اجلاس میں شریک تھے۔لوکل گورنمنٹ، ضلع کونسل اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے افسران نے صفائی ستھرائی بارے ڈپٹی کمشنر کو بریفنگ دی۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ایم انیشیٹوز پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے ، ون ڈش ، میرج ایکٹ اور ٹائمنگ پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا ضلع کے تمام شہر ، قصبے اور دیہات صاف نظر آئیں ، کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر صفائی ٹیموں کی نگرانی کریں ، خود بھی اچانک دورے کرکے صورتحال کا جائزہ لیتا رہوں گا ، اسسٹنٹ کمشنرز اپنی نگرانی میں تجاوزات کا خاتمہ یقینی بنائیں ، دوبارہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔انہوں نے کہا کہ آوارہ کتوں کے تلفی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں ، ہیلتھ ، لائیو سٹاک اور ضلع کونسل پر مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں ۔
0 notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان ��سلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈی��ں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کا پابند ہے، سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے کیس میں دوسری وضاحت
(24نیوز)مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے اکثریتی 8 ججز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ سے دوسری وضاحت دی گئی ہے،اکثریتی ججز کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہوسکتا، لہٰذا، مختصر حکمنامے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کا…
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 08 ؍ستمبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 08 September 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ : ۸ ؍ستمبر۲۰۲۴ ء
وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ گنیش اُتسو کا آغاز ‘ جگہ جگہ گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں
٭ متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر عہدے سے بر طرف
٭ پنجاب میں 3؍ افراد کا قتل کرنے والے 7؍ قاتل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں گرفتار
٭ دھارا شیو - تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کے تعمیر کا م کا آغاز
اور
٭ پیرس پیرا لِمپک میں نیزہ باز نودیپ سنگھ نے حاصل کیا سونے کا تمغہ
اب خبریں تفصیل سے...
کل سےگنیش اُتسو کا آغاز ہو ا ۔ ریاست بھر میں جگہ جگہ گنپتی کی موتیاں بٹھائیں گئیں ہیں۔ اِس 10؍ روزہ فیسٹیول کے دوران ریاست میں 11؍ ��زار کروڑ روپیوں کی تجارت ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ۔
صدر جمہوریہ محتر مہ درو پدی مُر مو ‘ وزیر اعظم نریندر مودی اور ایوان زیرین یعنی لوک سبھا میں حزب مخالف کے رہنما راہل گاندھی نے عوام کو گنیش اُتسو کی مبارکباد پیش کی ہے ۔
ممبئی میں واقع راج بھون میں گور نر سی پی رادھا کرشنن کے ہاتھوں اور وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ ’’ور شا‘‘ میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں کل گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں ۔
***** ***** *****
غیر ممالک میں آباد ہندوبرادان بھی گنیش اُتسو منا تے ہیں ۔ پاکستان کے شہر کراچی میں رہنے والے وشال راجپوت نے بتا یا کہ وہاں بھی گنیش اُتسو منا یا جا تا ہےاور یہ سلسلہ تقسیم ہند کے بعد سے جاری ہے ۔ وِشال راجپوت نے بتا یا کہ وہاں دیڑھ دن کے لیے گنپتی کی مورتی بٹھائی جا تی ہے ۔ انھوں نے مزید بتا یا کہ گنیش اُتسو کے دوران ہم گنپتی کے بھجن اور ست سنگ وغیرہ تقاریب کا بھی اہتمام کر تے ہیں ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں آباد ہندو برا دری نے اپنے مکا نات میں اِسی طرح عوامی مقامات پر گنیش منڈلوں نے بھی جوش و خروش سے کل گنپتی کی مورتیاں بٹھائی۔ اِس موقعے پر شہر کے سنستھان گنپتی مندر میں مشہور شخصیات کے ہاتھوں آرتی کی گئی۔ چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے میں ایک ہزار 660؍ گنیش منڈلوں کا اندراج کیاگیا ہے ۔ضلعے کے 544؍ دیہاتوں میں ’’ ایک گائوں ایک گنپتی ‘‘ اِس خیال پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے ۔
اِسی دوران گنپتی وسر جن جلوس راستوں کا میونسپل کمشنر جی شری کانت نے کل معائنہ کیا ۔ اِس دوران انھوں نے راستوں میں جھول رہی بجلی کی تاروں کو آئندہ 15؍ تاریخ سے قبل درست طریقے سے تاننے کی ہدایت دی ۔
***** ***** *****
اُمید اپنی مدد آپ گروہ میں شامل خواتین کے لیے چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلع پریشد کی جانب سے گنیش مورتیاں فروخت کرنے کا پروگرام چلا گیا ۔ خبر ہے کہ اِس کے ذریعے تقریباً ایک کروڑ روپئے کی تجارت ہوئی ہے ۔
***** ***** *****
جالنہ ضلعے میں کل گنیش اُتسو کا آغاز جوش و خروش سے کیاگیا ۔ اِس سال جالنہ گنیش فیسٹیول کی جانب سے 8؍ روزہ ثقافتی پروگرامس کا اہتمام کیا گیا ہے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ میں سابق وزیراعلیٰ نیز رکن پارلیمان اشوک چوہا ن کے گھر میں اِسی طرح چھتر پتی سنبھا جی نگر میں ہائوسنگ کے وزیر اتُل ساوے کےگھر میں کل جوش و خروش سے گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں ۔
***** ***** *****
بیڑ شہر میں واقع سِدھ وِنائک کمرشیل کامپلیکس میں گنیش کی مورتیاں خرید نے کے لیے کل گاہکوں کا ہجوم دیکھا گیا ۔ اِسی طرح پر بھنی کے بازاروں میں بھی کثیر تعداد میں گاہک گنپتی کی مورتیاں اور سجاوٹ کا سامان خریدتے دیکھتے گئے ۔ ضلعے کے کئی گنیش منڈلوں نے اِس مرتبہ ماحول دوست گنپتی کی مورتیاں بٹھائیں ہیں ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلع اغذیہ و ادویہ انتظامیہ نے شہر یان سے اپیل کی ہے کہ وہ تہواروں کے دنوں میں مٹھائی اور پر ساد کی خوردنی اشیاء خرید تے وقت تمام ضروری باتوں کی تسلی کر لیں۔ انتظامیہ نے گنیش منڈلوں کو کہا ہے کہ وہ پر ساد کے لیے مٹھائی تیار کر نے سے پہلے فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ ایکٹ کے تحت اندراج لازمی کروائیں۔
***** ***** *****
متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر کو عہدے سے ہٹا دیاگیا ہے ۔ خیال رہے کہ پو جا کھیڈ کرنے معذوری کے جعلی سرٹیفکیٹ کی بناء پر سرکاری ملازمت حاصل کر نے کا انکشاف ہوا تھا۔ جس کے بعد مرکزی حکو مت نے انتظامی ایکٹ 1954ء کے تحت کارروائی کر تے ہوئے اُسے زیر تربیت انتظامی افسر کے عہدے سے بر طرف کر دیا ہے ۔
***** ***** *****
پنجات کےشہر فیروز پور میں ایک ہی خاندانہ کے 3؍ افرادکاقتل کرنے والے 7؍قاتلوں کو چھتر پتی سنبھا جی نگر پولس نےکل گرفتار کرلیا ہے ۔
پولس نے ناگپور - ممبئی قومی شاہراہ پر کل صبح جال بچھا کر قاتلوں کو گرفتار کیا ۔ پولس کمشنر پر وین پوار نے یہ اطلاع دی ہے ۔ انھوں نے بتا یا کہ مذکورہ قاتلوں کو پنجاب پولس کے سپرد کیا جائے گا ۔
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
افیم کی اسمگلنگ کرنے والے ایک شخص کو ناندیڑ شہر کے وزیر آباد پولس نے کل گرفتار کر لیا ۔ اُس شخص کا نام سُکھ وِندر سنگھ بتا یاگیا ہے ۔ موصولہ خبر میں بتا یا گیا ہے کہ اُس کے پاس سے 27؍ گرام افیم بر آمد ہوئی ہے ۔
***** ***** *****
جالنہ کرائم برانچ کے دستے نے ‘ غنودی آور گولیاں فروخت نے والے 4؍ مشتبہ افراد کو کل جال بچھا کر گرفتار کر لیا ۔ اُن کے پاس سے نشہ آور گولیاں ‘ اسقاطِ حمل کی گولیاں اور شہوت انگیز گولیوں کا ذخیرہ بر آمد ہوا ہے ۔ اِس کی مالیت تقریباً 8؍ لاکھ 18؍ ہزار روپئے بتائی جارہی ہے ۔ گرفتار کیے گئے چاروں ملزمین کے خلاف معاملہ درج کر لیاگیا ہے ۔ جالنہ کرائم برانچ کے پولس انسپکٹر پنکج جادھو نے یہ اطلاع دی ہے ۔
***** ***** *****
گوندیا ضلعے کے پوگ جھر گائوں میں بہنے والے نالے میں سیلاب آنے کی وجہ سے ایک ہی کُنبے کے 2؍ بچوں کی موت واقع ہو گئی ۔ موصولہ خبر میں بتا یا گیا ہے کہ مہلوکین میں ایک بچے کی عمر 3؍ سال اور دوسرے بچے کی عمر دیڑھ سال تھی۔
***** ***** *****
ناسک ضلعے کے وانی پیپل گائوں راستے پر کل چار پہیہ گاڑی اور دو پہیہ گاڑی کے ما بین ہوئے تصا دم میں موٹر سائیکل پر سوار 3؍ افراد کی موت واقع ہوگئی ۔ مہلو کین میں سے 2؍ سگے بھائی تھے ۔ ہمارے نمائندے نے خبر دی ہے کہ چار پہیہ گاڑی نے موٹر سائیکل کو پیچھے سے ٹکر مار نے کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ۔
***** ***** *****
دھارا شیو- تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کا تعمیر کام کل سے شروع کر دیاگیا ہے ۔ اُپڑا کے مقا م پر ساز و سامان کی پو جا کرکے اِس کام کا آغاز کیاگیا ۔ رکن اسمبلی رانا جگجیت سنگھ پاٹل نے بتا یا کہ یہ کام 2؍ سال میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے ۔
***** ***** *****
پیرس پیرا لمپک میں کل بھارت کے نیزہ باز نو دیپ سنگھ نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔اِسی طرح 200؍ میٹر ٹریک مقابلے میں سِمرن شر ما نے کانسے کا تمغہ حاصل کیا ۔ یہ پرا لِمپک آ�� ختم ہو رہا ہے ۔ اِس پیرالمپک میں بھارت نے 7؍ سونے کے ‘ 9؍ چاندی کے اور 13؍ کانسے کے تمغے اِس طرح مجموعی طور پر 29؍ تمغے حاصل کیے ہیں ۔ تمغوں کی درجہ بندی میں بھارت 16؍ ویں درجہ پر ہے ۔ پیرا لمپک کی تاریخ میں یہ بھارت کی اب تک کی سب سے اچھی کار کر دگی ہے ۔ اِس پیرالمپک کی اختتامی تقریب میں تیر انداز ہر وِندر سنگھ اور رنر پریتی پال بھارتی پرچم بردار ہوں گے ۔
***** ***** *****
حکومت کی مختلف اسکیمات سے عوام کو واقف کر وانے کے لیے ’’ وزیر اعلیٰ اسکیمات کا سفیر ‘‘ نام سے ایک طریقہ اختیار کیاگیا ہے ۔ اِس کے تحت لاتور ضلعے کی تمام گرام پنچایتوں میں ایک ایک اور شہری علاقوں میں 5؍ ہزار افراد کا حلقہ بنا کر ایک سفیر مقرر کیا جائے ��ا ۔ اِس سرگر می میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد www.mahayojanadoot.org نامی ویب سائٹ پر آئندہ 13؍ ستمبر تک اندراج کر وا سکتے ہیں ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے عیسیٰ پور میں واقع ڈیم 97؍ فیصد بھر چکا ہے ۔ اِسی لیے ڈیم کے 3؍ در وازے تقریباً آدھا فیٹ کھول دیے گئے ہیں ۔ ڈیم سے ایک ہزار 21؍ مکعب فیٹ فی سیکینڈ کی رفتار سے پانی چھوڑا جا رہا ہے ۔متعلقہ انتظامیہ نے ندی کنارے آبا دیہاتوں کو چوکنا رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
***** ***** *****
پیٹھن کا جائیکواڑی ڈیم 95؍ فیصد سے زیادہ بھر چکا ہے ۔ انتظامیہ نے مطلع کیا ہے کہ اگر ڈیم میں پانی کی آمد بڑھتی ہے تو کسی بھی وقت ڈیم سے پانی چھوڑا جا سکتا ہے ۔جائیکواڑی ڈیم انتظامیہ نے گودا وری ندی کے کنارے آبا د دیہاتوں کو چوکس رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
***** ***** *****
آج عالمی یومِ خواندگی منا یا جا رہاہے ۔ یہ دن ہر سال 8؍ ستمبر کو منا یا جا تا ہے ۔ اِس کا مقصد معاشرے میں خواندگی کی اہمیت کااعادہ کر نا ہے ۔ اِس سال یومِ خواندگی کا عنوان ہے ’’ کثیر لسانی تعلیم کو فروغ دینا : باہمی مفاہمت اور امن کے لیے خواندگی ‘‘ -
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ گنیش اُتسو کا آغاز ‘ جگہ جگہ گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں
٭ متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر عہدے سے بر طرف
٭ پنجاب میں 3؍ افراد کا قتل کرنے والے 7؍ قاتل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں گرفتار
٭ دھارا شیو - تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کے تعمیر کا م کا آغاز
اور
٭ پیرس پیرا لِمپک میں نیزہ باز نودیپ سنگھ نے حاصل کیا سونے کا تمغہ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
وقف ایکٹ میں ترامیم کو کابینہ کی منظوری
0 notes
Text
کوئٹہ سٹیشن دھماکے کا مقدمہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت نامعلوم افراد کیخلاف درج
(عیسیٰ ترین)بلوچستان کے دارالحکومت کے ریلوے سٹیشن پر دھماکے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 27 تک پہنچ گئی جبکہ 62 افراد زخمی ہیں جن میں سے کچھ کی حالت خطرے میں ہے۔ انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے مطابق ریلوے سٹیشن دھماکے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف ایس ایچ او ریلوے…
0 notes
Text
بجلی کمپنیوں میں احتجاج کےپیش نظرلازمی سروس ایکٹ نافذ
حکومت نےسرکاری بجلی کمپنیوں کی نجکاری پراحتجاج کےخدشےکےپیش نظر لازمی سروس ایکٹ نافذکردیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نےڈسکوز، این ٹی ڈی سی اورجنکوز پرلازمی سروس ایکٹ نافذ کیا ہےاورلازمی سروس ایکٹ کے تحت ان کمپنیوں میں احتجاج اور ہڑتال پرپابندی ہوگی۔ حکومت نےڈسکوز،این ٹی ڈی سی اورجنکوز میں یونین کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کردی ہےاورلازمی سروس ایکٹ کی خلاف ورزی کرنےوالوں کے خلاف کارروائی کا…
0 notes
Text
الیکشن ایکٹ میں مجوزہ ترامیم: پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھو سکتی ہے؟
http://dlvr.it/TBRSFy
0 notes
Text
تاحیات نااہلی پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ ترمیم میں تضاد پر سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا، جنوری میں سماعت
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لے لیا ۔۔اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس بھی جاری کرد یئے۔۔ سپریم کورٹ نے تاحیات ناہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجز بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا۔ عدالت نے قراردیا کہ کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی، موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر…
View On WordPress
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات ��ور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes