#ایچی
Explore tagged Tumblr posts
Text
اسد زمان، ابو بکر، حیدر، اور سلار نے ایچی سن کالج جونیئر ٹینس چیمپئن شپ سیمی فائنل میں جگہ بنا لی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) علی ایمبریڈری ملز کے اسد زمان، واپڈا کے ابو بکر طلحہ، حیدر علی رضوان اور محمد سلار نے ایچی سن کالج مال روڈ، لاہور میں جاری ایچی سن کالج جونیئر ٹینس چیمپئن شپ کے لڑکوں کے انڈر 18 سیمی فائنل میں رسائی حاصل کر لی۔ لڑکوں کے انڈر 18 کوارٹر فائنل میں اسد زمان نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یافاط ندیم کو 7-5، 6-2 سے شکست دی، جبکہ محمد سلار نے نبیل قیوم کو 6-3، 6-2 سے زیر…
0 notes
Text
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کون ہیں؟
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی 23 جنوری 1965ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے کامن ویلتھ اسکالر شپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے 1990ء میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور 2004ء میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا۔ انہوں نے خیبر پختون خوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سر انجام دیں، 2010ء میں پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے، انہیں 15 مارچ 2012ء کو مستقل جج مقرر کیا گیا۔ 30 دسمبر 2016ء کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، 28 جون 2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ میں مختلف مقدمات کی سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بینچ کا حصہ رہے، کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کپتان کا پرانا ساتھی پرویزخٹک ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بنا ؟
پرویز خٹک اور عمران خان کی سیاسی مخالفت دشمنی میں بدلتی دکھائی دیتی ہے دونوں کے راستے تو پہلے ہی الگ ہوچکے تھے۔ تاہم سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی ایک سو نوے ملین پائونڈ کیس میں عمران خان کے خلاف گواہی کے بعد لگتا ہے کہ سارے سلسلے ٹوٹ چکے جو شاید اب کبھی نہ جڑیں۔ روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پرویز خٹک اور عمران خان کا تعلق برسوں پر محیط تھا۔ دونوں میں ایچی سن کالج کے…
0 notes
Text
اِس سال زکوٰۃو فطرانہ دیتے وقت، اُن غریب افراد کو بھی یاد رکھیے، جن کے بچے، ایچی سن کالج میں پڑہتے ہیں اور فیس نہیں دے سکتے!
SatireSale #PakistaniMemes #PoliticalMemes #AitchisonCollege #AhadCheema #GovernorPunjab #Education #EducationalMemes #Satire #PoliticalSatire #Remember #Like #Comment #Share #Facebook #FacebookPage #Funny #Comedy #Laugh
#satire sale#memes#satire#pakistani memes#political memes#pk memes#Aitchison College#ahad cheema#educational corruption#scandal#comedy#laugh#funny#trending#trending meems
1 note
·
View note
Text
گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری
ملکِ عزیز میں زبان بندی، ٹیکس گردی اور ہڑتالوں کا موسم جاری ہے۔ سنیچر کو ہونے والی ہڑتال کامیاب تھی۔ یہ ہڑتال اپوزیشن کی کال پر نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں ہی ابو بچاؤ مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم سکون سے ٹوئٹر پر سسیلیئن مافیا کو کوس رہے ہیں اور جواب میں مریم نواز انھیں میٹھے میٹھے طعنے دے رہی ہیں۔ جولائی کی گرمی میں اپنی دکانیں بند کیے چوکوں پر بیٹھے تاجروں کی کسی کو پروا نہیں۔ بابو نگری میں آئی ایم ایف کی جادو کی چھڑی سے پیسے بنانے کی ترکیب ایجاد ہوئی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو جادو کا ڈنڈا تھما کر کہا گیا کہ جائیے اور ان ٹیکس چوروں کی ہڈیوں سے ٹیکس نکال لائیے۔ شبر زیدی نظام کے پرزے ہیں، جب نظام کو ہانکنے والے وہ لوگ ہوں جنھیں کبھی گدھے ہانکنے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو تو جو صورت حال آج سامنے ہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔
ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو نہایت نازیبا زبان میں دھمکی آمیز نوٹس موصول ہوئے جس میں مقررہ وقت پر ٹیکس ادا نہ کرنے پر گرفتاری کی دھمکی بھی دی گئی۔ دوسری کارروائی یہ کی گئی کہ صنعتوں، تاجروں، زراعت وغیرہ پر نہ صرف ٹیکس بڑھائے گئے بلکہ کچھ ایسے قدامات بھی کیے گئے جو ناقابلِ قبول ہیں۔ تاجروں اور حکومت کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ ہونے ہی تھے۔ بابو نگری میں جو دو جمع دو چا�� ہوتے ہیں وہ عام دنیا میں چار نہیں ہوتے۔ منشی گیری کے علاوہ اگر یہ لوگ طبیعات بھی پڑھ لیتے تو انھیں علم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ان پٹ کا آؤٹ پٹ کبھی ایک نہیں ہوتا۔ ایک سے کم ہی ہوتا ہے۔
سال بھر پہلے جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی تو اندازہ نہ تھا کہ سال کے اندر اندر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ کئی صنعتوں کو تالا لگ چکا ہے، سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ رہا ہے ڈالر کی عمودی پرواز سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ ہنڈا اور ٹویوٹا نے اپنے یونٹ قریبا بند کر دیے ہیں۔ گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری ہے۔ آزادیِ اظہار پر پابندی ہے۔ معیشت منہ کے بل گری پڑی ہے اور وزیر اعظم چلا چلا کر کہہ رہے ہیں یہ سسیلیئن مافیا ہے، یہ سسیلیئن مافیا ہے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا انجام یہ ہوا کہ آج کسی بھی سیاسی لیڈر کی غیر موجودگی کے باوجود نہایت منظم ہڑتال ہوئی۔ جو اکا دکا دکانیں کھلی بھی تھیں ان کے شٹر بھی علامتی طور پر نصف بند تھے۔
خدا کے فضل و کرم سے ہمارے وزیراعظم کو نہ کبھی کوئی کاروبار کرنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی نوکری جیسی خفت اٹھانا پڑی۔ اس بات کا اظہار وہ اکثر اپنے محبوب ترین انداز میں کرتے ہیں جسے حاسد تکبر کہتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے یہ سب کرنے کی، بجا فرماتے ہیں، ایچی سن کالج کے کالونیل ماحول میں انھوں نے کہاں ان بچوں کو دیکھا ہو گا جو سکول میں خر دماغ ماسٹر سے پٹ کر گھر آنے کے بعد، تندور سے گرم گرم روٹی لے کے کھاتے ہیں۔ تو بڑی عیاشی یہ ہی ہوتی ہے کہ دائی دوسرے پیڑے سے ذرا سا آٹا توڑ کے روٹی بھاری کر دے ایسی روٹی کو ’بوٹی والی روٹی‘ کہا جاتا ہے۔ یقیناً خان صاحب کو میلے کچیلے، بھنکتے غریب لوگوں کی اس واحد عیاشی کا علم نہیں۔ یہ وہی روٹی ہے، جس کے نام پر پیپلز پارٹی نے سالوں پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا۔ یہ ہی سستی روٹی تھی جس کی آڑ میں خادم اعلیٰ اتنے سال حکومت کر گئے۔
شاید تاجر رام ہو جائیں گے، شاید صنعت کار مان جائیں گے، ممکن ہے ہائی کورٹ زرعی ٹیکس پر سٹے واپس لے لے لیکن جب لوگوں کو کھانے کو روٹی نہیں ملے گی، جب آٹھ بچوں کا باپ جو 500 روپے یومیہ کماتا ہے، 20 روٹیاں 300 کی خرید کر گھر لائے گا تو اس کی آہ یقیناً آپ کو لے ڈوبے گی۔ بہت ممکن ہے اس سوال کے جواب میں آپ کل ٹویٹ کریں کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ عرض فقط یہ ہے کہ یہ ڈائیلاگ، تاریخ میں ایک کردار پہلے ہی ادا کر چکا ہے۔ امریکہ کے دورے پر جاتے ہوئے ذرا اس کا انجام پڑھ لیجیے گا اور ہاں، فرات کے کنارے کتا بھوکا نہیں ہے خان صاحب، لیکن 15 روپے کی روٹی بہت مہنگی ہے۔ کتوں سے پہلے انسانوں پر ترس کھا لیجیے۔
آمنہ مفتی بشکریہ بی بی سی اردو
4 notes
·
View notes
Text
سر گنگا رام : جدید لاہور کے بانی
’خہ مہ کوہ، بد نشتہ‘ یعنی بھلا مت کرو، بُرا نہیں بھگتنا پڑے گا۔ ہے تو یہ پشتو کا مشہور محاورہ لیکن کچھ منفی سا تاثر رکھتا ہے کہ بھلا تو بھلا ہوتا ہے اس کے بطن سے برا کیسے پھوٹ سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں یہ اور بات کہ بھلا کرنے والے ایسی باتوں سے ماورا ’صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ‘ کا پیکر ہوتے ہیں۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی عہد ساز شخصیت کی جنہیں پنجاب خصوصاً لاہور کا معمار کہا جائے توغلط نہ ہو گا۔ یہ کتھا آپ کو کچھ مقامات پر یقیناً مسحور کرے گی لیکن بہرحال جھنجھوڑے جانے کے لیے بھی تیار رہیے گا۔ انیس سو سینتالیس کے اگست کا اوائل ہے، جدوجہد آزادی کی نیّا پار لگنے کو ہے، ہندو مسلم فسادات زوروں پر ہیں۔
مال روڈ پر بپھرے لوگوں کا جلوس نکلا ہے۔ چند سال قبل انگریز حکومت کی جانب سے نصب کیا گیا ایک مجسمہ ان کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔ چہرے پہ تارکول مل دی جاتی ہے، گلے میں جوتوں کا ہار ڈالا جاتا ہے۔ پھر پولیس آتی ہے۔ بھگدڑ مچتی ہے کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں جن کی جان قریبی سر گنگا رام ہسپتال میں پہنچائے جانے کی وجہ سے بچتی ہے۔ جس مجسمے کو ڈھانے کی کوشش ہوئی وہ سر گنگا رام کا تھا۔ ایسے ہی ستم کی ایک اور قسط انیس سو بانوے میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد چلی اور راوی کنارے بنی ایک سمادھی پر حملہ کر کے ڈھا دیا گیا۔ جی ہاں وہ سمادھی بھی سر گنگا رام کی تھی۔ جو بعدازاں پھر سے تعمیر کرائی گئی۔
گنگا رام کی مثال اس ابر کرم کی سی تھی جو برستا ہے تو بلاامتیاز برستا ہے وہ جدید لاہور کے بانی تھے۔ ان کی لاہور سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی راکھ خصوصی طور پر لاہور لا کر راوی میں بہائی گئی۔ سر گنگا رام اپریل اٹھارہ سو اکاون میں منگتانوالہ میں پیدا ہوئے جو شیخوپورہ میں واقع ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے اختتام کا دور تھا، انگریز قابض ہو چکے تھے۔ ان کے والد دولت رام پولیس میں انسپکٹر تھے چونکہ اصولوں کے پکے تھے اس لیے جلد ہی ملازمت چھوڑ کر امرتسر منتقل ہونا پڑا۔ وہیں پر گنگا رام پلتے بڑھتے رہے۔ میٹرک کے بعد لاہور کا رخ کیا اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ کیا۔ شروع سے ہی انجینئرنگ کی طرف میلان تھا اور اگلے چند سال میں انجینئر بن گئے۔
کچھ عرصہ بعد ان کو اسسٹنٹ انجنیئر کی حیثیت سے گورداسپور میں تعینات کر دیا گیا۔ ڈی جی خان، پشاور، گوجرانوالہ میں نمایاں خدمات انجام دینے کے بعد ان کو لاہور میں ایگزیکٹو انجینئر تعینات کر دیا گیا۔ انہوں نے لاہور میں کیتھریڈل چرچ اور ہائیکورٹ کی عمارتوں کے نقشے بنائے۔ بعد ازاں ایچی سن کالج کی تعمیر کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس کی تکمیل تک انگریز سرکار ان سے اس قدر متاثر ہو چکی تھی کہ چیف انجینئر بنا دیے گئے۔ وہ اس عہدے پر بارہ سال تک رہے اس دوران انہوں نے شہر کو بدل کر رکھ دیا۔ عجائب گھر، میو سکول آف آرٹس (این سی اے)، جی پی او، میو ہسپتال، گورنمنٹ کالج کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ جیسی عمارتوں کے ڈیزائن بنائے۔
لیڈی ویلنگٹن ہائی سکول، سرگنگا رام ہائی سکول (لاہور کالج فار ویمن)، ہیلی کالج آف کامرس (کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس) جیسی یادگار عمارتیں بھی انہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ ان کا فن لاہور سے باہر نکل کر دوسرے شہروں تک بھی پھیلا۔ فیصل آباد، سرگودھا، شیخوپورہ میں بھی کام کیا۔ وہ ایک کہنہ مشق انجینئر اور انتھک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ زرعی سائنسدان اور سماجی کارکن بھی تھے۔ انیس سو پچیس میں ان کو امپریل بنک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا۔ اس دوران انہوں نے گنگا رام ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کے پلیٹ فارم سے سر گنگا رام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، سر گنگا رام گرلز سکول (موجودہ لاہور کالج فار ویمن)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے۔ سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹیٹیوٹ آف آف ٹیکنالوجی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فائونڈیشن لاہور بھی ان کی یادگاریں ہیں۔
فیروز پور روڈ پر واقع ماڈل ٹائون بھی سر گنگا رام کا ہی دیا ہوا ہے۔ اس کا منصوبہ انہوں نے ہی انگریز حکومت دیا تھا اور پوری سوسائٹی کا نقشہ بھی بنایا۔ ان کو رائے بہادر اور سر کے خطابات کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر، کمپینئن آف دی انڈین ایمپائر کے اعزازات بھی ملے۔ دس جولائی انیس سو ستائیس کو ان کا انتقال لندن میں ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی آدھی راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ آدھی لاہور لا کر دریائے راوی میں بہائی گئی جس سے ان کی لاہور سے محبت آشکار ہوتی ہے۔ آج بھی اگر تعصب کی تمام کھڑکیاں بند کر کے اور انسانیت کا روشن دان کھول کر راوی کنارے جایا جائے تو آپ کو پانی میں ایک ایسے انسان کی شبیہہ مل سکتی ہے جو ہاتھ میں پنسل، فُٹہ، ایک چھوٹا سا تھیلا اور کاغذ تھامے بہت مصروف لگ رہا ہے۔ ان کی وفات پر گورنر پنجاب سر میلکم نے کہا تھا ’ گنگا رام نے ایک ہیرو کی طرح کمایا اور ایک درویش کی طرح لٹایا‘
جاوید مصباح -اردو نیوز، اسلام آباد
1 note
·
View note
Text
تعلیم مکمل کلب - ایکسپریس اردو
تعلیم مکمل کلب – ایکسپریس اردو
http://www.facebook.com/javed.chaudhry قاسم علی شاہ سے میری پہلی ملاقات 2010 میں ہوئی‘ یہ اس وقت لاہور کے ایک چھوٹے سے محلے میں اکیڈمی چلا رہے تھے‘ یہ پروفیسر ارشد جاوید کے ساتھ تشریف لائے‘ گپ شپ ہوئی اور میری ان سے دوستی ہو گئی‘ میں ان کی اکیڈمی بھی گیا۔ یہ چھوٹے سے پرانے گھر میں بنی ہوئی تھی اور بچے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے تھے لیکن بچوں کی علمی قابلیت ایچی سن کے طالب علموں سے زیادہ تھی‘ بہرحال…
View On WordPress
0 notes
Text
اوتاکو بودن هم فقط اون تیکه اش که بقیه می گن تو هنوز برنامه کودک می بینی در حالی که تمام صحنه های فوق خشن توکیو غول و چندش اور اتک ان تایتان داره تو ذهن ات مرور می شه
از ایچی و حارم هم نگم براتون
و ته اش کاری جز سر تکون دادن هم نمی تونی بکنی
1 note
·
View note
Text
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی علمی و تحقیقی خدمات 📚
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک سیاسی مفکر، معیشت دان، ماہر تعلیم، عظیم دینی اسکالر اور فلسفی ہیں۔ آپ ایک عظیم علمی و دینی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں، جنہوں نے علمی و ادبی اور روحانی صلاحیت اپنے جدِ امجد فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے ورثہ سے اور اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شبانہ روز تربیت و توجہ سے حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے متعدد موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ 50 سے زائد کتب اور 100 سے زائد تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی صدر اور ملک پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے ’منہاج یونی ورسٹی لاہور‘ (چارٹرڈ) کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔’منہاج ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے بھی چیئرمین ہیں جس کے تحت ملک بھر میں 610 سے زائد اسکولز اور کالجز نسلِ نو کی تربیت اور علم کا نور عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ آپ یتیم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے عظیم مراکز ’آغوش‘ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنی انسان دوستی کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حسین ’المواخات اسلامک مائکرو فنانس‘ اور ’منہاج حلال سرٹیفیکیشن بیورو‘ کے بھی خالق ہیں۔ آپ منہاج یونی ورسٹی کے School of Economics and Finance میں پروفیسر آف اِکنامکس کے ��ور پر بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ کئی سالوں سے آسٹریلیا کی University of Melbourne میں بطور سینئر فیلو (Senior Fellow) فائز ہیں۔ آپ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین قادری اکتوبر 1982ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد کینیڈا چلے گئے جہاں اُنہوں نے اکنامکس اور پولیٹکل سائنس کے موضوع پر YORK یونی ورسٹی ٹورانٹو سے گریجوایشن کی۔ اس یونی ورسٹی میں اپنے قیام کے دوران شان دار تعلیمی کام یابیوں کے ساتھ ساتھ آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے اور یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے شاندار فتح حاصل کرکے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 2006ء میں آپ فرانس چلے گئے اور پیرس کی معروف یونی ورسٹی Sciences-Po سے عالمی معیشت میں MBA کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں تدریسی و تحقیقی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر حسین قادری نے 2012ء میں آسٹریلیا کی معروف یونی ورسٹی Victoria University, Melbourne سے درج ذیل موضوع پر اپنی PhD مکمل کی ہے: An Analysis of Trade Flows Among ECO Member Countries and Potential for a Free Trade Area
اپنے مقالہ میں آپ نے پاکستان، ایران، ترکی اور نَو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں کے معاشی اِتحاد اور اُن کا تقابل کرتے ہوئے ایک رول ماڈل تشکیل دیا ہے کہ کس طرح یورپی یونین کی طرز پر یہ خطہ ایک مؤثر معاشی طاقت کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔
پروفیسر حسین ایک منجھے ہوئے ماہرِ معاشیات ہیں جو اِس میدان میں جدّتِ فکر اور بلند پرواز رکھتے ہیں۔ اپنی عمیق نظری، تخلیقی تخیل اور فکرِ رسا کی بدولت ڈاکٹر حسین معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی میں ہمہ جہتی نقطہ نظر رکھنے والے اہلِ دانش میں سے ہیں جو بڑی خوبی سے دقیق مسائل کا عملی حل پیش کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اِقتصادی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے اور مسلم ممالک کے مشترکہ سماجی، سیاسی و اقتصادی بلاک کے طور پر کام کرنے والی دولتِ مشترکہ کا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ ان ممالک کو اَقوامِ عالم میں خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
اِسلامی معاشیات اور فنانس کے میدان میں ڈاکٹر حسین کی گراں قدر خدمات کے اِعتراف میں 2019ء میں اُنہیں GIFA اسپیشل ایوارڈ دیا گیا۔ 2021ء میں اُنہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونی ورسٹی سے کارپوریٹ پائیداری اور جدّت (corporate sustainability and innovation) میں سرٹیفیکیشن حاصل کی۔ وہ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی ذیلی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین محی الدین قادری نے سیکولر سائنسز کے حصول کے ساتھ ساتھ شریعہ اور قدیم اسلامی علوم بھی معروف عالمی اسلامک اسکالرز سے حاصل کیے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں سب سے اہم آپ کے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ اسلامی علوم میں آپ کے پسندیدہ موضوعات میں الٰہیات، علوم الحدیث، تفسیر، تصوف، فقہ اور اجتہاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پسندیدہ عصری موضوعات میں معاشی افکار کی تاریخ، سیاسی معیشت، عالمی تجارت، قدرتی وسائل کی معاشیات، اسلامی معاشیات، اسلامی بینکاری، بین المذاہب رواداری، انتہا پسندی کا خاتمہ، مینجمنٹ اور فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔
🌐 ویب سائٹ https://www.minhajbooks.com/english/author/Dr-Hussain-Mohi-ud-Din-Qadri
📲 موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں https://get.minhajbooks.com
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
Text
پاکستان کی نئی معاشی ٹیم سے توقعات
اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسے کلیدی مالیاتی اداروں کے نئے سربراہوں کی حیثیت سے بالترتیب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے وابستہ ڈاکٹر رضا باقر اور ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ڈویژن احمد مجتبیٰ میمن کا تقرر اس امر کا اظہار ہے کہ وزیراعظم عمران خان اُن کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ دو ہفتے پہلے، منصب سنبھالنے والے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں مالیاتی نظم کے یہ نئے ذمہ دار قومی معیشت کو اس بحران سے نکالنے میں کامیاب رہیں گے جس سے نجات دلانے میں سابق معاشی ٹیم کامیاب نہ ہو سکی تھی۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے منصب پر تین سال کیلئے ڈاکٹر رضا باقر کی تقرری کا باضابطہ اعلان کیا گیا لیکن ایف بی آر کی سربراہی کیلئے احمد مجتبیٰ میمن کے تقرر کا نوٹیفکیشن تادمِ تحریر جاری نہیں ہوا، تاہم امید ہے کہ جلد ایسا ہو جائے گا۔ ڈاکٹر رضا باقر نے ایچی سن سے سندِ فراغت لینے کے بعد کیلیفورنیا اور برکلے یونیورسٹیوں سے اقتصادیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جبکہ پچھلے سولہ سال سے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور مالیاتی فنڈ کے ڈیٹ پالیسی ڈویژن کے سربراہ کے طور پر رکن ملکوں کے بیرونی قرضوں کے مسائل کے حل اور ری اسٹرکچرنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یونان اور یوکرائن جیسے معاشی بحران کے شکار ممالک کی مالیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی معاونت بہت کارآمد رہی ہے۔
رومانیہ اور مصر میں بھی آئی ایم ایف مشن کے سربراہ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے پہلے ڈاکٹر باقر نے ورلڈ بینک میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ اس بنا پر یہ توقع بے جا نہ ہو گی کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے پاکستان کی معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا وسیع تجربہ بہت مفید ثابت ہو گا نیز ان کی موجودگی سے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا بھی پاکستان پر اعتماد بڑھے گا اور معاشی مشکلات سے نکلنے کی راہیں ہموار ہوں گی، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسے کلیدی مالیاتی منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنے موجودہ ادارے سے بھی ان کی وابستگی برقرار رہے گی یا نہیں۔
دونوں اداروں سے بیک وقت وابستگی کی صورت میں یہ سوال بہرحال اٹھے گا کہ کسی متنازع صورت حال میں وہ دونوں میں سے کس کے مفاد کو ترجیح دیں گے۔ تاہم جہاں تک اسٹیٹ بینک کے سربراہی کے منصب پر عالمی مالیاتی اداروں کے وابستگان کے تقرر کا معاملہ ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر شمشاد اختر جو اسٹیٹ بینک کے سربراہ رہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے آئے تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر رضا باقر کا گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور اس امر کے روشن امکانات ہیں کہ وہ معیشت کی بحالی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔
جہاں تک موجودہ معاشی بحران کا تعلق ہے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس میں ماضی کی غلط پالیسیوں کا بڑا حصہ ہے جن کی وجہ سے ملکی برآمدات کم ہوتی، درآمدات بڑھتی اور توازنِ ادائیگی مسلسل منفی ہوتا چلا گیا، بجٹ خسارے میں متواتر اضافہ ہوا، معیشت پر قرضوں کا بوجھ طوفانی رفتار سے بڑھتا رہا، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان شروع ہوا اور پھر بڑھتا گیا جبکہ روپے کی حقیقی قدر گھٹتی چلی گئی۔ متعدد ماہرین کے مطابق ان حالات میں موجودہ حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن اس میں تذبذب کے باعث معاشی زبوں حالی بڑھتی گئی اور عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا محال ہو گیا۔
بہرحال اگر اب بھی آئی ایم ایف کے تعاون کا درست استعمال کیا جائے، ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہو، تمام غیر ضروری درآمدات روک دی جائیں، سرمایہ کاری کیلئے حالات کو سازگار بنایا جائے، نئی صنعتوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے، خصوصاً بیرونِ ملک پاکستانیوں کیلئے سرمایہ کاری کے منفعت بخش منصوبے شروع کیے جائیں تو حالات میں تیزی سے بہتری کا رونما ہونا کوئی امرِ محال نہیں اور قوم نئی معاشی ٹیم سے یہی توقع رکھتی ہے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
Ghibli Park، جاپان میں ایک نیا anime تھیم پارک، نومبر میں کھلنے والا ہے۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/ghibli-park%d8%8c-%d8%ac%d8%a7%d9%be%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d8%a7-anime-%d8%aa%da%be%db%8c%d9%85-%d9%be%d8%a7%d8%b1%da%a9%d8%8c-%d9%86%d9%88%d9%85%d8%a8%d8%b1/
Ghibli Park، جاپان میں ایک نیا anime تھیم پارک، نومبر میں کھلنے والا ہے۔
(سی این این) – “مائی نیبر ٹوٹورو،” “کیکیز ڈیلیوری سروس،” اور لیجنڈری اسٹوڈیو گھبلی کے ڈائریکٹر حیاو میازاکی کی دیگر فلموں کے شائقین کو اس سال کے آخر میں اپنی ٹریول بکٹ لسٹ میں شامل کرنے کے لیے ایک نئی منزل ملے گی۔
جاپان میں نومبر میں کھلنے والا Ghibli پارک، کسی بھی ایسے شخص کے لیے تھیم پارک کا خواب ہو گا جس نے میازاکی کی خوبصورت اور اکثر حقیقی اینی میٹڈ فلمیں دیکھی ہوں اور ان کی بنائی ہوئی دنیا میں قدم رکھنا چاہتا ہو۔ غبلی کینن فطرت، دوستی، مضبوط خواتین، اڑنے والی مشینیں، تقدیر اور بہادری کے موضوعات پر بھاری ہے۔ ان کا جمالیاتی ہے فطرت پرستی سٹیمپنک سے ملتی ہے، جادوئی حقیقت پسندی کے اپنے ملکیتی فارمولے کے ساتھ چھڑکا جاتا ہے۔
Ghibli’s Grand Warehouse میں اسٹوڈیو کے ذریعے مختلف فلموں کے نمونے اور نمائشیں رکھی جائیں گی۔
سٹوڈیو Ghibli
پچھلے ہفتے تک، افسانوی گھبلی پارک کی خبریں بہنے کی بجائے چھیڑ دی گئیں، جاپانی اشاعتوں میں چھوٹی، قیاس آرائی پر مبنی خوراکوں میں چھیڑ دی گئیں۔ یہ واضح نہیں تھا کہ شروع ہونے والی تاریخ پر وبائی مرض کا کیا اثر ہو رہا ہے اور جب یہ کھلے گا تو زائرین کو کیا ملے گا۔
وادی آف وِچز ایریا جس میں “ہاؤلز موونگ کیسل” اور “کیکی کی ڈیلیوری سروس” کے تفریحی مناظر شامل ہوں گے۔
سٹوڈیو Ghibli
لیکن یہاں تک کہ Ghibli Park کے بارے میں CNN سے سٹوڈیو کے فالو اپ سوالات کے لیے سٹوڈیو کے پریس سٹاف کو ترجمے کی ضرورت تھی، اور ہماری خواہش سے کم تفصیلات تیار کی گئیں۔ ہم خبروں کے اتنے ہی بھوکے ہیں جتنے “Spirited Away” میں No Face Ghost۔
یہاں ہم کیا جانتے ہیں
Ghibli Park میں واقع ہے ایچی ارتھ ایکسپو میموریل پارککیوٹو سے ٹرین کے ذریعے دو گھنٹے سے بھی کم۔ تھیم پارک مکمل ہونے پر تقریباً 17.5 ایکڑ پر مشتمل ہوگا۔ (ایک ایکڑ تقریباً فٹ بال کے میدان کے برابر ہے۔)
کچھ آؤٹ لیٹس نے اطلاع دی ہے کہ میازاکی نے اصرار کیا کہ پارک کے لیے درخت نہ کاٹے جائیں، لیکن جب ان سے تصدیق یا تردید کرنے کو کہا گیا تو اسٹوڈیو نے جواب دیا کہ “ہم نے میازاکی سے ایسا نہیں سنا ہے۔” انہوں نے کہا کہ غالبی پارک بڑے ایچی پارک کے اندر غیر استعمال شدہ زمینوں پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔
جب یہ نومبر میں کھلے گا، پانچ میں سے تین منصوبہ بند علاقے تیار ہو جائیں گے۔ سب سے اہم Ghibli’s Grand Warehouse ہے، ایک اندرونی سہولت ہے جس میں فلموں کے نمونے اور نمائشیں ہوں گی جن میں “کیسل ان دی اسکائی” سے روبوٹ سولجر، “ٹوٹورو” کی کیٹ بس اور “دی سیکریٹ ورلڈ آف دی سیکریٹ ورلڈ” سے باہر ایک اور تفریح۔ جھگڑا”
دائیں طرف، “دل کی سرگوشی” سے پارک کی قدیم چیزوں کی دکان کی تفریح کا ایک رینڈرنگ۔
سٹوڈیو Ghibli
ایک دوسرا علاقہ، “ہل آف یوتھ”، “ہِسپر آف دی ہارٹ” سے قدیم چیزوں کی دکان اور “دی کیٹ ریٹرنز” کا ایک اور تفریحی مقام پیش کرتا ہے۔ اور تیسرا ڈونڈوکو جنگل ہے جس میں “میرے پڑوسی ٹوٹورو” سے ساتسوکی اور میئی کے گھر کی مکمل تفریح اور ٹوٹورو تھیم والا کھیل کا میدان ہے۔
دو شعبوں میں سے ایک جو بعد میں کھلیں گے (“2023 کے بعد،” اسٹوڈیو کے پریس آفس نے کہا) مونونوک ولیج ہے، جو “شہزادی مونونوک” اور جنگل ��ے بڑے جانوروں کے دیوتاؤں میں اس کی مہم جوئی کا حوالہ دیتا ہے۔ ایک فنکار رینڈرنگ میں بچوں کو ایک بڑے مکڑی پر کھیلتے ہوئے دکھاتا ہے۔ دوسری وادی آف وِچز ہے جس میں ٹرپی “ہاؤلز موونگ کیسل” کے کچھ حصے اور ایک سنجیدہ اور محنتی نوجوان چڑیل کے بارے میں زیادہ پیاری “کیکیز ڈیلیوری سروس” شامل ہوں گے۔ ڈرائنگ کرنے والا مصور چائے کے کپ کی سواری کو دکھاتا ہے جسے کیکی کی بلی جیجی سے سجایا گیا ہے۔
Mononoke ولیج ایک ایسی دنیا کو دعوت دے گا جس میں جنگل کے بڑے جانوروں کے دیوتا ہوں۔
سٹوڈیو Ghibli
اگر آپ گھبلی پارک جاتے ہیں تو کیٹ بس رولر کوسٹر، کیکی کے جھاڑو والے “اوتار” طرز کے ایڈونچر یا پونیو انڈر دی سی سواری کی توقع نہ کریں۔ اسٹوڈیو کی سائٹ متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے، “ٹہلیں، ہوا کو محسوس کریں، اور عجائبات دریافت کریں۔ آتشبازی اور پیٹ کو موڑنے والے سنسنی کی بجائے تخیل کے لئے ڈوبنے اور اشارہ کرنے کے بارے میں سوچیں۔
جو ہم نہیں جانتے
ہم ابھی تک داخلے کی قیمت نہیں جانتے، مونونوک اور وِچز کے علاقے کب کھلیں گے، اور مرچی سیچ کیا ہوگا۔ کیا ہم ایک خرید سکیں گے۔ کیکی برانڈ والا جھاڑو یا ایک Arrietty گڑیا گھر؟ اور ہم پارک میں کیا کھا سکتے ہیں؟ میں نے “Ponyo” ramen bar تجویز کیا۔
جب تک آپ انتظار کریں۔
یہاں جن کا حوالہ دیا گیا ہے زیادہ تر اسٹوڈیو Ghibli فلمیں Disney+ سٹریمنگ سروس پر دیکھنے کے لیے دستیاب ہیں۔ اور آپ اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ Ghibli ٹویٹر فیڈ مزید چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے، جاپانی کیپشنز نے مزید پراسرار بنا دیا۔
سرفہرست تصویر: “میرے پڑوسی ٹوٹورو” سے ساتسوکی اور میئی کے گھر کی تفریح۔ ⓒ اسٹوڈیو غبلی۔
. Source link
0 notes
Text
خلاء میں قبضے
ہمیں زمین پر زندہ رہنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں سطحی باتوں پر بحث مباحثوں سے باہر نہیں نکل پا رہے ہم سے جائز نا جائز حلال حرام کا تعین نہیں ہو پا رہا ہمیں اپنی گلیوں سڑکوں راستوں کا پتہ نہیں چلتا دنیا ہماری ایچی بیچی ہائی جیک کر چکی ہم ایک دوسرے کو مرنے مارنے سے باہر نہیں نکل پا رہے اور وہ خلاء میں سپر میسی قائم کرنے اور خلاء سے دنیا کے معاملات چلانے کی صلاحیتیں حاصل کر رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان کی کامیابیاں اور ناکامیاں
عمران خان ماضی میں بہت سے ناممکن کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک عام سے باؤلر کی حیثیت سے آغاز کیا اور جنہوں نے میری طرح انہیں ایچی سن میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلتے دیکھا، ان کا یہ خیال تھا کہ وہ کبھی اچھے بولر نہیں بن سکیں گے۔ وہ ایک عظیم فاسٹ بولر اور کرکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اگر کسی نے اس پہلے ٹیسٹ کے وقت ایسا کہا ہوتا تو بلاشبہ لوگ ہنس پڑتے۔ اپنے کیرئیرکے عروج پر وہ ہر ٹیسٹ میچ میں پانچ وکٹیں لیتے تھے اور پاکستان کے کپتان کی حیثیت سے ان کی بیٹنگ اوسط 52 تھی۔ جب وہ اپنی ماں کے نام پر کینسر اسپتال بنانے کے لئے نکلے تو غیر تو غیر ان کے اپنے خاندان کو بھی یقین نہ تھا کہ ایسا ہو سکے گا۔ تاریخ میں درج رہے گا کہ وہ کامیاب ہوئے۔ اور کیسے کامیاب ہوئے۔ اب وہ کراچی میں ایک اور کینسر اسپتال بنا رہے ہیں۔ جب وہ سیاست میں آئے تو لوگوں نے سوچا کہ محض توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہے کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ لیکن وہ کامیاب ہونے کے لئے اپنا وژن اور ناقابل یقین ارادہ لے کر آئے اور بالآخر کئی الیکشن ہارنے کے بعد وہ آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔
جب وہ وزیر اعظم بنے تو اپنے ساتھ بدعنوانی اور بدانتظامی سے تنگ لوگوں کی بہت سی نیک خواہشات لے کر آئے تھے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن آج انہیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انہوں نے خود کو معیشت کی وجہ سے ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ انہیں اب بیک وقت دو بپھرے ہوئے طوفانوں کا سامنا ہے۔عمران خان نے ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کے احتساب اور ان کے جرائم کی سزا کے لئے اپنی پوری کوشش کی۔ لیکن چونکہ وہ ایک طاقتور مافیا ہیں، جیسا کہ عمران خان خود کہتے رہتے ہیں، انہوں نے اب تک خود کو بڑی حد تک احتساب سے بچا ئے رکھا ہے۔ درحقیقت، ��ن کی اولاد ان کی سیاسی جانشین بننے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ ایک حالیہ سرکاری تقرری پر ایک بڑا اختلاف اٹھا بیٹھے ہیں۔ ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ شاید اس طوفان سے نکل آئیں، لیکن انہیں اپنی بہت سی غلطیوں اور اپنی حکمرانی پر غور کرنا چاہئے۔
عمران کی سب سے بڑی ناکامی اچھی ٹیم نہ بنانا ہے۔ ثانیہ نشتر کی طرح ان کے پاس ایک یا دو اچھے لوگ تھے اور اب بھی ہیں، لیکن ان کے پاس سب سے اچھا آدمی ان کے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ تھے، جن سے انہوں نے نامعلوم کیوں چھٹکارا حاصل کیا۔ ان کی جگہ انہوں نے ایک سابق وزیر خزانہ اور ایک کمرشل بینکر کو مقرر کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جس سے عبدالحفیظ شیخ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گئے تھے، نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ یہ خسارہ اب 10 ارب ڈالر ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں بڑے اضافے کے باوجود، درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات گر رہی ہیں جس سے مزید بڑا تجارتی خسارہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جو اچھی علامت نہیں۔ جب تک آپ یہ کالم پڑھیں گے تب تک شاید یہ حل ہو چکا ہو لیکن اس کی کافی زیادہ قیمت ہو گی۔
آئی ایم ایف حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے پر مجبور کرے گا جو مہنگائی کو اور بڑھا دے گا جس سے لوگوں کی قوتِ خرید مزید کم ہو جائے گی۔ ایسی صورتحال معاشرے میں بے چینی کا باعث بن سکتی ہے اور پھر عمران کے بے شمار مخالف اس بات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ میری خواہش ہے کہ عمران خان ان مشکلات میں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ غریب آدمی نے فقیروں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دی ہے۔ غریب آدمی کو چھوڑیں، اچھی حیثیت والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے گھر میں پہلے کی نسبت کم کھانا پک رہا ہے اور میں پہلے سے کم کھاتا ہوں۔ لہٰذا جب لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ میرا وزن کم ہو گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کم کھا رہا ہوں۔ آپ اسے ’عمران خان ڈائٹ‘ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہمایوں گوہر کا وزن کم کرانا ایک ناممکن کام تھا جسے عمران خان نے ممکن کر دکھایا۔ اب گاڑی رکھنا، ہوائی جہاز سے کراچی جانا اور بہت سی دوسری چیزیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ تھیں، مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے والد نے ورثے میں مجھے ایک گھر دیا ورنہ میں اب تک بے گھر ہوتا۔
اب جائداد خریدنے کا سوچنا بھی ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ نئی گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچنا بھی سر چکرا دیتا ہے۔ ان سب کے علاوہ لوگ ذاتی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کوویڈ کی وجہ سے روزانہ بہت سی اموات ہو رہی ہیں ۔ میرے ایک برادر نسبتی کا انتقال ہو گیا اور پھر میرے پیارے کزن بابر تجمل ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔ یہ صورتحال حالات کو مزید خوفناک بنارہی ہے۔ عمران خان کے لئے ضروری ہے کہ شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کوئی فوری راستہ تلاش کریں۔ ایسا کرنا ان کے مخالفین کے غبارے سے ہوا نکال سکتا ہے۔ وہ اپنی اپنی جگہ پر ایک ڈرائونے خواب کی طرح موجود ہیں۔ آپ نے نواز شریف کی بیٹی یا بے نظیر کے بیٹے کا انداز گفتگو سنا ہو گا۔ ان کے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے کوئی اچھی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن پھر اچھے لوگ جو پاکستانی سیاست کے شیطانی میدان میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوں وہ بہت کم ہیں۔ بہت ہی کم ۔
ہمایوں گوہر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
عقیل خان کے لیے ہموار کشتی۔
عقیل خان کے لیے ہموار کشتی۔
لاہور: قومی چیمپیئن عقیل خان نے پیر کو یہاں پنجاب لان ٹینس ایسوسی ایشن کورٹ میں ایچی سن کالج اوپن نیشنل ٹینس چیمپئن شپ کے افتتاحی دن پہلی رکاوٹ کو عبور کیا۔ ٹاپ سیڈ عقیل ، جو کہ ایک اور ٹائٹل سے تازہ ہے ، جس کا کریڈٹ پچھلے ہفتے اسی عدالتوں میں شامل کیا گیا تھا ، اس نے پہلے راؤنڈ میں غیر معروف شاکر اللہ کو 6-2 ، 6-1 سے شکست دی۔ ایک اور سیڈ محمد عابد نے بھی پربت کمار کو 6-1 ، 6-1 سے آسان…
View On WordPress
0 notes
Text
پی سی بی، ایچی سن کالج نےکرکٹ اسکالرشپ پروگرام کاآغاز کردیا http://dlvr.it/S7HvCf
0 notes
Text
شاہنواز بھٹو وفات 18 جولائی
شاہنواز بھٹو وفات 18 جولائی
شاہنواز بھٹو (21 نومبر 1958۔ 18 جولائی 1985) سابق صدر اور وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے اور بیگم نصرت بھٹو ، جو ایرانی کرد نسل کی تھیں۔ شاہنواز بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو سمیت بھٹو کے چار بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ شاہنواز کو پاکستان میں تعلیم دی گئی (لاہور کے ایچی سن کالج اور راولپنڈی امریکن اسکول میں – 1979 میں انٹرنیشنل اسکول آف اسلام آباد (آئی ایس او آئی) کا نام…
View On WordPress
0 notes