#انہی
Explore tagged Tumblr posts
Text
شا ہینوں نے کینگروز کو انہی کی سرزمین پر ہرا کر تاریخ رقم کردی، وزیر اعلیٰ کی قومی کرکٹ ٹیم کو مبارکباد
لاہور( ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 22سال بعد آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے قومی کرکٹ ٹیم کو شاباش بھی دی اور کہا کہ شا ہینوں نے کینگروز کو انہی کی سرزمین پر ہرا کر تاریخ رقم کردی ہے۔ Source link
0 notes
Text
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں، کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں ،،،،، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں،،،،، کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے،،،،،،، اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سما��ے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو،،،،،،،،،،، ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی
6 notes
·
View notes
Text
یار من! میرے پاس تین سو ہڈیاں اور صرف ایک دل تھا۔ لوگوں نے میری ساری ہڈیوں کو چھوڑ کر، صرف دل کو توڑا… کاش! وہ میری ہڈی توڑتے اور میرے لیے میرے دل کو چھوڑ دیتے کہ اس کے ذریعے میں انہی محبت تو دے سکتا… My friend! I had three hundred bones and only one heart.People left all my bones, only broke my heart I wish! They would break my bones and leave my heart for me so that I could give them love…
—Adham Sharqawi
50 notes
·
View notes
Text
تم آ گئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجئے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ، ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشینوں کا انتظام کریں
رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصر
متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
- ناصر کاظمی
17 notes
·
View notes
Text
عام حالات میں تو سبھی میٹھے ہوتے ہیں ہمارے اندر کے زہر کو پرکھنے کا پیمانہ دباؤ اور طیش ہی تو ہے انہی چند لمحوں میں کچھ بت ایسے ٹوٹتے ہیں کہ کبھی جڑ ہی نہیں پاتے ۔
2 notes
·
View notes
Text
تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموز سخن وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو تو پہلے خاک نشینوں کا انتظام کریں
رہ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ متاع درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
1 note
·
View note
Text
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پ��ا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
جسمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
3 notes
·
View notes
Text
*حکومت کی خرابی تمام خرابیاں کی جڑ ھے*
لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا ، اخلاق کا بگڑنا،انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صرف ہونا ، کاروباراور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے برے طور طریق کا رواج پانا ظلم وستم اور بد افعالیاں کا پھیلنا اور خلق خدا کا تباہ ہونا، یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں جب طاقت بگڑے ہوۓ لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلق خدا کا رزق انہی کے تصرف میں ہوگا تو وہ نہ صرف خود بگاڑ کو پھیلائیں گے بلکہ بگاڑ کی ہرصورت ان کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات ان کے قبضے میں رہیں گے ، کسی چیز کی اصلاح نہ ہو سکے گی۔
( حوالہ کتاب : خطبات:۲۹۱)
~سیدابوالاعلی مودودی
3 notes
·
View notes
Text
رحیم دن تھے ،شفق دھوپ تھی ،سجل شامیں،
انہی دنوں میں میرا تُجھ سے رابطہ ہوا تھا!
रहीम दिन थे, सफक धूप थी, सजल शामें,
इन्हीं दिनों में मेरा तुझ से राब्ता हुआ था!
6 notes
·
View notes
Text
مری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن کسی طرح سے، وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو کوئی نہیں، تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انہی کا تھا، میں انہی کا ہوں، وہ مرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن کے ق��یں سہی
تیرا در تو ہم کو نہ مل سکا، تیری راہگزر کی زمین سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں وہ یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اس کا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اُٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
2 notes
·
View notes
Text
منگیتر کا ووٹ نہ ڈالنا بنا خاتون کے سگائی توڑنے کا سبب! سوشل میڈیا پر ہلچل
امریکہ میں صدارتی انتخاب کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس میں سے کس کی قسمت چمکے گی اور امریکہ کا اگلا صدر کون بنے گا۔ امریکی عوام بھی انتخابات کے حوالے سے پُرجوش ہیں اور ووٹ کی ذمہ داری کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور کئی پوسٹس وائرل ہو رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون کی پوسٹ خاصی توجہ کا مرکز…
0 notes
Text
عبدالحئی المعروف ساحر لدھیانوی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
ساحر لدھیانوی
#
1 note
·
View note
Text
میں سسکتا رہ گیا اور مر گئے فرہاد و قیس
کیا انہی دونوں کے حصے میں قضا تھی میں نہ تھا
بہادر شاہ ظفر
3 notes
·
View notes
Text
کتنی بڑی ہمت ہے…بستر سے اٹھنے کے لیے…ہر روز!…بار بار انہی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے…
What courage…to get out of bed…every day!…to face the same things over and over again…
24 notes
·
View notes
Text
مجھے وداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟
مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا
میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!
مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!
مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _______ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!
مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!
مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسہء گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____
مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____
- ن م راشد
5 notes
·
View notes
Text
ججوں کا بے جا شکوہ
عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا۔ آج اگر کچھ مخصوص جج صاحبان یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت کی جا رہی ہے تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس تمام بحران کو دعوت بھی انہی نے اپنے انوکھے فیصلوں کے ذریعے خود ہی دی ہے۔ پاکستان شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔ عدلیہ اور میڈیا اس کی معاونت کرتے تھے۔ اسی لیے ایک دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ تین ج جج، جنرل، جرنلسٹ پر کوئی…
0 notes