#امریکی سپریم کورٹ
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
امریکی سپریم کورٹ ٹرمپ کی اہلیت کا کیس سننے پر راضی، تیز ترین شیڈول ترتیب دے دیا
امریکی سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاستی بیلٹ سے ہٹانے کے کولوراڈو سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے گی۔ امریکی سپریم کورٹ نے کولوراڈو عدالت کے فیصلے کو اپنی کاررائی تک روک دیا ہے،اگر جج یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ٹرمپ عوامی عہدے کے لیے نااہل ہیں، تو پھر ان کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کیس کی سماعت کے لیے ہائی کورٹ کے فیصلے نے امریکی سپریم کورٹ کے نو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
آئینی ترمیم،شہبازشریف نے اپنے اگلے پانچ سال کیسے پکے کئے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے باوجود پاکستان میں نہ تو عمران خان کو کوئی فوری ریلیف ملتا نظر آتا ہے اور نہ ہی شہباز شریف کی حکومت کو کوئی فوری خطرہ درپیش ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ یے کہ فیصلہ سازوں نے امریکی صدارتی الیکشن سے فوری پہلے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرتے ہوئے ایک آئینی بنچ تشکیل دے دیا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت…
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 ��رس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 ��ے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جم��وری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
besturdunews · 2 years ago
Text
ماؤنٹین ویلی پائپ لائن کو روک دیا گیا کیونکہ قانونی جھگڑا گرم ہو گیا تھا۔
تازہ ترین رچمنڈ میں ایک وفاقی عدالت نے ماؤنٹین ویلی پائپ لائن کی تعمیر کو روک دیا ہے، جس سے کانگریس کے ساتھ لڑائی شروع ہو سکتی ہے جو سپریم کورٹ تک جا سکتی ہے۔ رچمنڈ میں فورتھ سرکٹ کے لیے امریکی عدالت نے پیر اور منگل کو اس منصوبے پر کام روکنے کے لیے ایک جوڑے کے فیصلے جاری کیے، جس کا مقصد مغربی ورجینیا کے مارسیلس شیل فیلڈز سے تقریباً 300 میل کے فاصلے پر قدرتی گیس لے جانا ہے۔ ورجینیا میں ختم ہونے سے…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 years ago
Text
پاکستان سری لنکا سے بدتر ہو چکا ؟
Tumblr media
پاکستان کی معیشت کے حالات سری لنکا سے بھی بُرے ہو چکے لیکن ہماری لڑائیاں اور ہماری سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی میں سری لنکا سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے بلکہ پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذائی اشیاء بھی اُس ملک سے مہنگی ہیں جو ڈیفالٹ کر چکا اور جس کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمراں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے اور یہ کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 1964 کے بعد سب سے زیادہ ہے یعنی مہنگائی نے 58 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ یعنی پاکستان کے معاشی حالات ڈیفالٹ سے پہلے ہی اتنے بُرے ہو چکے ہیں کہ ہم نے سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہو سکی۔ یہ ڈیل کب ہو گی اس بارے میں بھی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ حکومت کئی بار کہہ چکی کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط مکمل کر چکی لیکن ڈیل پھر بھی نہیں ہو رہی اور نئی سے نئی شرائط سامنے آ رہی ہیں۔ 
اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال کے بجٹ کی تیاری پر آئی ایم ایف کی نظر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اگلا بجٹ اُس کی شرائط کے مطابق ہو۔ گویا آئی ایم ایف ڈیل کے متعلق صورتحال اب بھی گو مگو کی ہے اور اگر پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو پھر اندازہ لگا لیں کہ ہمارے حالات کس قدر تشویش ناک ہو سکتے ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی بہت زیادہ بڑھ چکی اور عوام کا حال بہت خراب ہو چکا، ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں حالات کیسے ہو سکتے ہیں سوچ کر ہی بندہ خوفزدہ ہو جاتا ہے پی ڈی ایم جو بڑے دعوئوں کے ساتھ عمران خان کی حکومت ختم کر کے اقتدار میں آئی تھی وہ معیشت کو سنبھالنے میں مکمل ناکام ہو چکی اور مہنگائی تحریک انصاف کے دورسے بہت زیادہ بڑھ چکی۔ خیال تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور تحریک انصاف کے بیچ شروع ہونے والے مذاکرات سے کچھ بہتر نتیجہ نکلے گا لیکن افسوس ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حکمراں جلد الیکشن کرانے پر تیار نہیں تو تحریک انصاف ستمبر اکتوبر تک انتظار کرنے پرراضی نہیں۔ 
Tumblr media
یہ سیاسی کشمکش دراصل اقتدار کی جنگ ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوام اور پاکستان کے نام پر سیاست کرنے والوں کو معیشت کی کوئی فکر نہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ معیشت پر سب مل کر میثاق کر لیں، اس پر سیاست سے باز رہیں لیکن معیشت کیلئے یہ دونوں فریق کبھی ا کٹھے نہیں بیٹھے۔ بیٹھے ہیں تو الیکشن کی تاریخ کیلئے یعنی ایک فریق اقتدار سے کسی بھی حالت میں چمٹا رہنا چاہتا ہے تو دوسرا اُسے باہرنکالنے کے در پے ہے اور جلد از جلد خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔ حکومتی اتحاد اور خصوصاً ن لیگ کی کوشش ہے کہ آئندہ سال کا بجٹ پیش کر کے عوام کیلئے کچھ نہ کچھ ریلیف کا اعلان کیا جائے۔ تحریک انصاف نہیں چاہتی کہ موجودہ حکومت آئندہ سال کا بجٹ پیش کرے۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو خطرہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ حکومت آئندہ الیکشن کی خاطر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایسا بجٹ پیش کر دے جو آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف ہو اور جس کی وجہ سے آئندہ آنے والی حکومت کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہوں۔ 
تحریک انصاف کو امید ہے کہ آئندہ اُ ن کی حکومت ہو گی اسی لئے وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے مشورے سے بجٹ تیار کیا جائے۔ تحریک انصاف کو شاید ڈر ہے کہ پی ڈی ایم اُس کے ساتھ وہ کچھ نہ کر دے جو اپنی حکومت کے خاتمہ سے چند ہفتہ قبل عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے عوام کو خوش کرنے کیلئے پٹرول اور ڈیزل سستا کر کے کیا تھا۔ اگر پی ڈی ایم اور ن لیگ وہی کرتے ہیں جو گزشتہ سال تحریک انصاف نے کیا تھا تو یہ دراصل پاکستان پر بڑا ظلم ہو گا، عوام سے زیادتی ہو گی۔ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کا سوچنے کی بجائے میری حکومت اور تحریک انصاف سے درخواست ہے کہ آئندہ سال کے بجٹ کو دونوں فریق مل کر پاکستان کیلئے، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے اور معیشت کو ٹھوس بنیادیں فراہم کرنےکیلئے تیار کریں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnibaattv · 3 years ago
Text
امریکی سپریم کورٹ نے پورٹو ریکو کو فلاحی پروگرام کا حقدار قرار نہیں دیا۔ عدالتوں کی خبریں۔
امریکی سپریم کورٹ نے پورٹو ریکو کو فلاحی پروگرام کا حقدار قرار نہیں دیا۔ عدالتوں کی خبریں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ پورٹو ریکو کے رہائشیوں کو مراعات دینے سے انکار کرنا ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ریاست ہائے متحدہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ امریکی علاقے پورٹو ریکو میں رہنے والے لوگ ملک کی 50 ریاستوں میں رہنے والے شہریوں کو فراہم کردہ وفاقی فلاحی مراعات کے حقدار نہیں ہیں۔ جمعرات کو آٹھ سے ایک فیصلے میں، سپریم کورٹ نے ایک کے خلاف فیصلہ دیا۔ پورٹو ریکو رہائشی جس نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sangeenalizada · 3 years ago
Text
ہم اگر موجودہ صورتحال کا موازنہ ن لیگی دور حکومت سے کریں تو ایک بات پتہ چلتی ہے. ن لیگ اس پریشر میں تھی کہ ان کے ساتھ ڈنڈے والوں کی ہمدردیاں نہیں ہیں. اگر انہوں نے ٹی ایل پہ طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا تو ممکن ہے کہ ان کی حکومت گر جائے. دراصل انہیں ڈر تھا کہ بپھرے عوام کا منہ ڈنڈے والوں نے کسی ترکیب سے پارلیمنٹ کی طرف کر دیا تو یہ عوام روکنے ناممکن ہوں گے. اب صورتحال اس کے الٹ ہے.
اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت کانفیڈینٹ ہے. بلکہ اوور کانفیڈینس کا شکار ہے. انہیں لگتا ہے کہ جتنے تعلقات ان کے ڈنڈے والوں کے ساتھ بہتر ہیں اتنے کسی کے ساتھ نہیں تھے. لہٰذا بزور قوت گاڑ دو.
انگریزی مقولہ ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو آپ کو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے. لہٰذا آپ کی پہلی سوچ ہوتی ہے
"گاڑ دو"
یہ سوچ حکومت کو طاقت دیتی ہے. اور اس طاقت کا اثر ہمیں تمام داخلہ پالیسیوں میں دکھائی دیتا ہے.
طاقت کی اپنی اخلاقیات اور اپنے ہی اثرات ہوتے ہیں. طاقت کا نشہ دور اندیشی ختم کر دیتا ہے. بین الاقوامی سیاست میں ہمیں اس کی ایک مثال بُش کے افغانستان پہ حملہ کرنے کے فیصلے میں دکھائی دیتی ہے. امریکی طاقت نے امریکہ کی روایتی دور اندیشی چھین لی. اور امریکہ روس اور برطانیہ سے ملتا جلتا اپنا انجام نا دیکھ سکا. حالانکہ وہ انجام صرف مستقبل کے بیس سالوں کے بعد سامنے رکھا تھا. واضح رہے کہ امریکی پالیسیوں کے معاملے میں سو پچاس سال آگے کی سوچ رکھتے ہیں. مگر طاقت کے نشے نے ان کی دور اندیشی ختم کر دی.
ملکی سیاست میں طاقت کے دور اندیشی کو ختم کر دینے کی مثال لال مسجد آپریشن میں بھی دکھائی دیتی ہے. لال مسجد آپریشن بالکل درست تھا. البتہ مُکے لہرا لہرا کر مشرف صاحب نے اس آپریشن کی جو پروجیکشن ملک میں کی، اس نیگیٹو پروجیکشن نے عوام کو ان سے کافی حد تک بدظن کر دیا. وہاں بھی مسئلہ مذھبی نوعیت کا تھا.
اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے ہاتھ میں "دیگر اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات" کا "ہتھوڑا" ہے اور وہ ٹی ایل پی سمیت ہر مسئلے کو کیل کی طرح گاڑ دینے پہ تلی ہوئی ہے. لیکن جو مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت دور اندیشی کھو چکی ہے.
کیا حکومت ہمیشہ ہاتھ میں رہنے والی چیز ہے؟
کیا طاقت ہمیشہ ہاتھ میں رہنے والی چیز ہے؟
عمرانیات اور انسانی تاریخ کے تمام ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں، یکسر نفی میں.
سولہویں صدی میں دنیا میں قوت کی علامت ہسپانیہ (سپین) تھا، چلا گیا. سترہویں صدی کو ولندیزیوں کی صدی کہا جاتا ہے، وہ بھی گزر گئے. اٹھارہویں صدی میں دنیا میں سیاہ و سفید کے مالک فرانسیسی سمجھے جاتے تھے، ختم ہو گیا اقتدار. انیسویں صدی برطانیہ کی صدی تھی. سلطنتِ برطانیہ، جو اتنی وسیع تھی کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا. بیسویں صدی میں سمٹ کر اتنی رہ گئی کہ کل رقبہ پنجاب کے صوبہ جتنا رہ گیا.
اکیسویں صدی امریکہ کی صدی سمجھی جا رہی تھی. پوری قوت سے دنیا پہ چڑھ دوڑا. محض اکیس سالوں میں بکھرنے لگا ہے. آگے چین آیے گا اور چلا جایے گا. یہ دنیا کی تاریخ ہے. ملکی تاریخ بھی اس سے مختلف نہیں. ایوب سے طاقتور کون تھا؟ کوئی نہیں. مگر وہ بھی بے یارو مددگار رہ گئے. بھٹو سے زیادہ مقبول لیڈر پاکستان کی تاریخ میں کون تھا؟ بے یارو مددگار پھانسی چڑھ گئے. ضیاء الحق، طاقت کا وہ استعارہ جس سے یورپ اور امریکا خوفزدہ تھا کہ ہمارا حشر روس سے بدتر کر سکتا ہے. مگر. ضیاء الحق کا اقتدار بھی ایک ہوائی دھماکے میں ختم ہو گیا. بینظیر مقبول ترین تھیں اقتدار آئے اور گزر گیے. نواز شریف اتنا طاقتور حاکم کہ ہر آرمی چیف سے لڑائی کی، سپریم کورٹ تک پہ چڑھ دوڑے، آجکل پاکستان نہیں آ پا رہے. مشرف پاکستانی تاریخ کے کمانڈو، سپہ سالار حاکم، مگر دبئی میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں. تمام تر ملٹری سپورٹ کے باوجود پاکستان واپس اپنی مٹی پہ آنے سے قاصر و مجبور.
کیا سبق ملا تاریخ سے ہمیں؟ کیا سبق ملا عمران خان صاحب کو تاریخ سے؟
یہ ہتھوڑا جسے اقتدار کہہ لیں یا دیگر اداروں سے مضبوط تعلق کہہ لیں. یہ ہتھوڑا ہمیشہ ہاتھ میں نہیں رہنا. اس کے اثرات بھیانک ہونے ہیں. یہ اپنی معینہ مدت پوری کر کے چلے جانے والے ہیں. عوام اور اداروں نے یہیں رہنا ہے. جو صورت حال اب دکھائی دے رہی ہے وہ عوام اور اداروں کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پیدا کر رہی ہے. ملک کی ستر فیصد آبادی سنی ہے. جنہیں سڑکوں پر حکومت پوری قوت سے گاڑ رہی ہے، ایک ایسے اشو پر جس پہ بات چیت کے زریعے آرام راستہ نکالا جا سکتا ہے. حاکم نے چلے جانا مگر اس دوری کے اثرات اگلی کئی قیادتوں اور نسلوں تک منتقل ہونے ہیں. کیا حکومتی ادارے یہ طویل اثرات برداشت کر لیں گے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی سمیت ہر اشو پہ آج کل انگلی پارلیمنٹ کے بجائے پنڈی کی جانب جاتی ہے. ان حالات میں حکومت رینجرز کو انوالو کر چکی ہے، مگر اس کے اثرات کون بھگتے گا؟ حکومت اب فوج کو آگے کھڑا کرنے کی فکر کر رہی ہے. اس اثرات کون بھگتے گا؟ اقتدار آنی جانی چیز ہے، دنیا کی تاریخ اسی بات پہ گواہ ہے مگر حاکموں کے فیصلوں اور ان کے اقتدار کے اثرات ہمیشہ مستقل ہوتے ہیں. ابلیس کی سرکشی کے اثرات آج تک مستقل چلتے آ رہے ہیں. آدم علیہ السلام کی خطا کے سبب نسلِ آدم آج تک جنت کے بجائے زمین پہ ہی پیدا ہوتی چلی آ رہی ہے. آفٹر ایفیکٹس اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں جتنی بڑی شخصیت اور جتنا بڑا عہدہ ہو. جو کچھ ہو رہا ہے اس کے آفٹر ایفیکٹس اور اثرات ہو رہے ہیں اور ابھی مزید ہونے ہیں. عہدوں اور کرسیوں والوں نے تو چلے جانا ہے. ادارے اور محکمے کیا اس طویل اور گہری خلیج کے متحمل ہو سکتے ہیں جو حکومت کے اوور کانفیڈینس کی وجہ سے وجود میں آ چکی ہے؟ یقیناً نہیں.
سنگین علی زادہ
Tumblr media Tumblr media
14 notes · View notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
پرتعیش دورے، دولتمندوں سے میل جول، ریئل سٹیٹ سودے، امریکی سپریم کورٹ نے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کردیا
 غیرعلانیہ پرتعیش دوروں، دولت مندوں کے ساتھ میل جول کے انکشافات کے کئی مہینوں بعد بیرونی دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ نے پیر کے روز اپنے نو ججوں کے اخلاقی رویے کو کنٹرول کرنے والے اپنے پہلے باضابطہ ضابطہ اخلاق کا اعلان کیا۔ نئے کوڈ نے ملے جلے جائزے حاصل کیے، کچھ ناقدین نے کسی بھی نفاذ کے طریقہ کار کی ظاہری غیر موجودگی کو نوٹ کیا۔ یہ میڈیا رپورٹس کی ایک سیریز کے بعد اپنایا گیا جس میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years ago
Text
آرمی چیف پر عمران خان کے یو ٹرن
شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے بحال ہو گئے ہیں اور عمران خان اب نہ گرفتار ہوں گے اور نہ ہی اُن کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لئے بغیر نئے الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک ان کے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ اُنہوں نے ایکسٹینشن کا لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن جو کہا، اُس کا مطلب موجودہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہی ہے اور یہی بات فواد چوہدری نے بھی کی۔ میری معلومات کے مطابق آرمی چیف نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے اور مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے لیکن عمران خان صاحب نے آرمی چیف سے متعلق اپنے حالیہ بیانات میں آنے والے آرمی چیف کو بلاوجہ متنازع بنا دیا جو نہ تو فوج کے ادارے کے لئے اچھی بات ہے نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ خان صاحب کی منطق کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف تعینات نہیں کر سکتی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’’بھگوڑا‘‘ نواز شریف اور ’’چور‘‘ آصف علی زرداری کیسے نیا آرمی چیف تعینات کر سکتے ہیں حالاںکہ یہ تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے اور موجودہ حکومت اگر قائم رہتی ہے تو شہباز شریف نیا آرمی چیف تعینات کریں گے اور یہی قانونی ��ور آئینی پوزیشن ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ عمران خان صاحب کو یہ اختیار دے دیا جائے یا اُن کے دوبارہ وزیراعظم بننے تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو مؤخر کردیا جائے۔ وہ آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کی بات کرتے ہیں اور شہباز شریف کی طرف سے آرمی چیف کو تعینات کرنے کے مخالف ہیں تو کوئی اُن سے پوچھے کہ پھر نواز شریف کے مقرر کئے گئے موجودہ آرمی چیف کو کیوں ایکسٹینشن دی تھی اور اپنے دور حکومت میں اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے رہے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی زمانے میں عمران خان آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف ہوتے تھے لیکن اپنی حکومت میں اُنہوں نے اپنے اُس اصولی موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کو تین سال کے لئے ایکسٹینشن دے دی۔ 
جنرل باجوہ کی وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد خان صاحب نے ایک اور یوٹرن لیا اور جنرل باجوہ کو نہ صرف اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ اُن کا نام لئے بغیر اُنہیں امریکہ کی رجیم چینج کی مبینہ سازش میں ہینڈلر تک قرار دے ڈالا اور انتہائی خطرناک القابات سے بھی نوازا۔ اب خان صاحب نے ایک اور یو ٹرن لیا اور چاہتے ہیں کہ جب تک نئے انتخابات نہیں ہو جاتے، موجودہ آرمی چیف ہی اپنے عہدے پرموجود رہیں۔ یعنی کل تک جس شخص کو وہ میر جعفر، میر صادق ، ہینڈلر، امریکی سازش کے شراکت دار اور نجانے کیا کیا کچھ کہتے رہے، اب اُسی آرمی چیف کی موجودگی میں وہ نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نئی حکومت کرے گی۔ 
اب تو عمران خان سازش کرنے والے امریکہ سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اہم امریکیوں سے چپکے چپکے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، وہ آرمی چیف جس نے اُن کو اقتدار میں لانے کے لئے بہت کچھ کیا، اُن کی حکومت کا ہر طرح سے ساتھ دیا، عمران نے اپنی حکومت جانے پر اُسی آرمی چیف کو ولن بنا لیا اور اب اُسی آرمی چیف کو آئندہ انتخابات اور نئی حکومت کے قیام تک عہدے پر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یعنی مبینہ سازش کرنے والے ملک سے دوستی چاہتے ہیں اور اس سازش کے مبینہ ہنڈلر کے ساتھ بھی کام کرنے کے خواہاں ہیں لیکن اس مبینہ سازش میں اُن کے مطابق استعمال ہونے والے مہروں، یعنی خان صاحب کے سیاسی مخالفین سے وہ کسی صورت نہ بات کریں گے، نہ اُن سے ہاتھ ملائیں گے۔ یہ کیسی سیاست ہے؟ خان صاحب پر فوری الیکشن کا جنون سوار ہے اور کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔
سینئر صحافی کامران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں خان صاحب کو بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی معیشت کی خاطر بات چیت کر لیں اور آئندہ چھ آٹھ ماہ تک ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالیں اور انتخابات کا انتظار کریں لیکن اُن پر فوری انتخابات کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ کچھ اور سننے کو تیار ہی نہیں۔ اُن سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت فوری انتخابات کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن اُن کے لئے فوری الیکشن ہی ایک آپشن ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوری طور پر اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ جہاں تک آرمی چیف کی تعیناتی کا تعلق ہے تو میری تمام سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، ایکسٹینشن کے قانون کو ختم کریں اور آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف بنانے کے فارمولے پر عمل کریں اور ہر صورت میں فوج کو سیاست زدہ ہونے سے بچائیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
پاکستانی اور امریکی سپریم کورٹ کا ضابطۂ اخلاق، ایک موازنہ
Tumblr media
امریکی سپریم کورٹ نے تاریخ میں پہلی بار اپنے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے اور یہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق سے کتنا مختلف ہے؟ امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی سب سے اہم بات اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ اور جواب دہی کا احساس ہے۔ اس کی شان نزول ہی خود پر ہونے والے تنقید کو بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ضابطے میں لکھا ہے کہ وہ یہ ضابطہ تحریری طور پر اس لیے جاری کر رہی ہے کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی کہ امریکی سپریم کورٹ کسی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق 2009 میں جاری کیا گیا تھا اور اس کی شان نزول میں ایسی کوئی بات بیان نہیں کی گئی تھی۔ یہ بس ایک ضابطہ تھا جسے آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کرنا تھا تو اس نے جاری کر دیا۔ ہو سکتا ہے پاکستان سپریم کورٹ کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی ایسی ’غلط فہمی‘ نہ پائی جاتی ہو جیسی امریکی سپریم کورٹ کے بارے امریکہ میں پائی جاتی ہے یا پھر شاید امریکہ میں اسے معیوب نہ سمجھا جاتا ہو کہ اپنے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمی کو تسلیم کیا جائے اور پھر اس کا ازالہ کیا جائے۔
امریکی ضابطہ اخلاق کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ اس غلط فہمی کے خاتمے کے لیے یہ ضابطہ اخلاق جاری کر رہے ہیں اور یہ کوئی نئے اصولوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ہم کامن لا کے جن اخلاقی ضابطوں پر عمل پیرا ہیں انہی کو تحریری شکل دے رہے ہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق کو بھی عمومی اخلاقیات اور روایات کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے خود جاری کیا ہے اور آخر میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا ضابطہ اخلاق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کیا ہے اور یہ اس کے سیکریٹری ڈاکٹر فقیر حسین کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ یعنی امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک عہد اجتماعی کا رنگ غالب ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق پر ایک حکم نامے کا رنگ غالب ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق واضح ہے اور اس پر ایک قانون کا سا گمان ہوتا ہے جس میں ججوں سے متعلق ایک ایک چیز کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے، جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق عمومی اخلاقی اصول طے کرتا ہے اور زیادہ جزئیات میں نہیں جاتا۔
Tumblr media
امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کے مطالعے سے لگتا ہے آپ قانون کی کوئی دستاویز پڑھ رہے ہیں جو اپنے متن کی شرح میں بہت واضح ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق سے بعض مقامات پر ایسے لگتا ہے جیسے آپ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 جیسی کسی چیز کا مطالعہ کر رہے ہیں جہاں ��ہت کچھ تشریح طلب ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 53 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صرف چھ جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ اس سے امریکی ضابطہ اخلاق پر یہ تنقید ہو رہی ہے کہ یہ دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا مجموعہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 11 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور سات جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ یعنی اگر ’should‘ کے استعمال سے ’دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز‘ کا تاثر جاتا ہے تو پاکستانی دستاویز میں دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا عنصر قدرے کم ہے۔ 
سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کا ذکر دونوں میں ہے، عوامی اجتماعات پر جانے کے بارے میں البتہ امریکی ضابطہ اخلاق میں زیادہ تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح امریکی ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ قانون سے متعلق امور پر جج لیکچر بھی دے سکتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے۔ یعنی قانونی امور پر لکھنے کے لیے اس کا ریٹائر ہونا ضروری نہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق میں ایسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ایسا کلچر بھی نہیں ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہاں جج صاحبان کم ہی قانونی امور پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی شاید صرف جناب قاضی فائز عیسیٰ نے دیے ہیں ورنہ ایسی کوئی رسم بھی یہاں نہیں ہے۔ البتہ جج صاحبان بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کے تعلیمی اداروں میں لیکچر اور خطاب کی خبریں آتی رہتی ہیں۔  امریکہ میں ججوں کو فنڈ ریزنگ کی مہم میں مشروط شرکت کی اجازت ہے جب کہ پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں اسے زیر بحث نہیں لایا گیا۔ سابق چیف جسٹ�� ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ کے بعد البتہ اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ضابطہ اخلاق اس بارے میں رہنمائی کرے کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ 
امریکی ضابطہ اخلاق میں کتاب اور علم کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ شاید یہ معاشرے کے عمومی ماحول کا فرق ہو۔ وہاں لکھا ہے کہ جج کسی کمرشل تقریب یا کسی کی پروموشن کے لیے کسی کاروباری تقریب میں نہیں جائے گا لیکن اگر اس کی اپنی کتاب کہیں برائے فروخت رکھی ہو تو اس تقریب میں جا سکتا ہے۔ یعنی وہاں جج دوران ملازمت بھی کتاب لکھ سکتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں البتہ بعض مقامات پر ادبی اور شاعرانہ اسلوب میں بات کی گئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ انگریزی بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہے۔ لیکن امریکی ججوں نے اپنے ضابطہ اخلاق میں سادہ، سیدھے، واضح اور دوٹوک انداز سے بات لکھی ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ انصاف کرتے ہوئے جج کو وہ شہرت مل جاتی ہے جو اس کے لیے اچھی ہوتی ہوتی ہے اس لیے اسے اس سے زیادہ شہرت کی طلب نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیز امریکی ضابطے میں نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں خاموش ہے۔ شاید یہ بھی ماحول کا فرق ہو۔
پاکستانی ضابطے میں جج کے لیے خدا خوفی کی شرط موجود ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ اختیارات کا مالک اللہ ہے اس لیے انصاف کا ماخذ بھی اللہ ہی کی ذات ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق تو اپنی روایات کے باب میں کامن لا کا ذکر کرتا ہے، ہماری سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں روایات کے حوالے سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ بھی کامن لا اور نو آبادیاتی دور غلامی کی روایات ہیں یا ان کی تعلق اسلام کی عدالتی روایات سے ہے؟ اسلام کی روایات سے ہے تو کیا وجہ ہے کہ فیصلوں میں کامن لا کے حوالے تو موجود ہیں لیکن اسلامی فقہ سے کم ہی کوئی حوالہ دیا جاتا ہے؟ آداب القاضی کب اس ضابطے کا حصہ بنی�� گے؟ امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک بڑی تنقید یہ ہو رہی ہے کہ اس میں عمل درآمد کی شقیں موجود نہیں ہیں۔ یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ ضابطہ اخلاق کی کس شق پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ان پر عمل درآمد یقینی کیسے بنایا جائے، ’should‘ والی شقوں پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ’must‘ والی شقوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ عمل درآمد کی شقیں پاکستانی ضابطہ اخلاق میں بھی موجود نہیں ہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 4 years ago
Text
عدالت کا راستہ ٹرمپ کے لیے کتنا آسان ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن نتائج کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے، لیکن بظاہر ان کے لیے یہ رستہ بھی دشوار ہونے کا امکان ہے۔ اب تک صرف دو مواقع پر امریکی صدر کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوا ہے اور وہ انتخابات بھی ابھی تک تاریخ میں تنازعات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ پہلی مرتبہ 1876 میں ری پبلکن امیدوار رتھرفورڈ بی ہائس اور ڈیموکریٹ سیموئیل ٹلڈن میں سخت مقابلے کے بعد 20 الیکٹورل ووٹ پر تنازع کھڑا ہو گیا۔  اس تنازعے کے بعد کانگرس نے سپریم کورٹ ججوں، سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین پر مشتمل ایک وفاقی انتخابی کمیشن تشکیل دیا جس نے رتھر فورڈ کو کامیاب قرار دیا۔ جدید تاریخ میں یہ معاملہ سال 2000 کے انتخابات میں پیش آیا جب ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش اور ڈیموکریٹ ایلگور کے مابین مقابلے میں ریاستی مشینری نے فلوریڈا کی ریاست میں دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا۔ یہاں جارج ڈبلیو بش کی ابتدائی کامیابی کو ایلگور نے چیلنج کر دیا۔
ریاست فلوریڈا کی سپریم کورٹ کے ایلگور کے حق میں فیصلے کے خلاف بش امریکہ کی سپریم کورٹ میں چلے گئے جس نے چار کے مقابلے میں پانچ ججوں کی رائے سے فلوریڈا کی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ گنتی رکوا دی اور بش یہ معرکہ جیت کر پانچ سو ووٹوں کے فرق سے صدر منتخب ہو گئے۔ لیکن ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے لیے یہ لڑائی اتنی آسان نہیں ہو گی۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر اور پاکستان کے سینیئر وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اس قانونی لڑائی کے لیے ایک سال تک کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ ’کوئی ایسا نظام نہیں کہ وہ (فوری فیصلے کے لیے) براہ راست سپریم کورٹ چلے جائیں۔ پہلے انہیں ان ریاستوں کی عدالتوں میں جانا پڑے گا۔ جہاں کے نتائج پر انہیں اعتراض ہے۔ اس کے بعد ان عدالتوں کے فیصلوں پر دو میں سے کوئی ایک فریق امریکی سپریم کورٹ میں جائے گا اور اس کے جج ان اپیلوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنائیں گے۔‘
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اگر گنتی کے عمل پر عدالت حکم امتناعی جاری نہیں کرتی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کا تفصیلی فیصلہ لینے کے لیے صدارت چھوڑنی پڑے گی۔ ’عدالت ووٹر کا ووٹ منسوخ نہیں کر سکتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ووٹ کو نظر انداز کر دیں۔ اگر گنتی کا مسئلہ ہے تو عدالت اس عمل پر فیصلہ دے سکتی ہے۔‘ سابق سول سرونٹ، ماہر قانون اور تجزیہ کار عدنان رندھاوا کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو عدالت سے کامیابی ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔  ’دونوں امیدواروں کے مابین ووٹوں کا مارجن کافی زیادہ ہے۔ صدر ٹرمپ کو عدالت نہیں جانا چاہیئے۔ اس سے قبل سال 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے عدالت کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن ان کے انتخاب کو آج بھی متنازع سمجھا جاتا ہے۔‘ عدنان رندھاوا کا کہنا ہے کہ مختلف تجزیہ کار امریکی سپریم کورٹ کے نو ججوں میں سے چھ کو ٹرمپ کے قریب قرار دے رہے ہیں لیکن نتائج میں مارجن اتنا زیادہ ہے کہ شاید یہ بھی ٹرمپ کے حق میں نہیں جا سکے گا۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ مخصوص حالات میں ��س مقدمے کا فیصلہ جلدی ہو سکتا ہے۔ ’صدر کے انتخاب کا معاملہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فیصلہ جلدی ہو جائے اور عدالتیں تیز رفتاری سے یہ معاملہ نمٹا دیں۔‘ امریکی قانون کو جاننے والے ایک اور آئینی ماہر حزیمہ صدیقی کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں آ سکتا ہے۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 20 جنوری کوجب نیا صدر اپنی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے اگر اس دن تک ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے مابین انتخابی تنازع طے نہیں ہوتا تو پھر کانگریس کا سپیکر صدر کا عہدہ سنبھال سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اگر پوسٹل بیلیٹ کو چیلنج کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے حامی جج یہ کہہ سکتے ہیں کہ کووڈ کی وجہ سے پوسٹل بیلیٹس کی مکمل تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔
خرم شہزاد  
بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد
1 note · View note
omega-news · 2 years ago
Text
ہم جنس پرستوں کی شادی کو تحفظ ، امریکہ میں بل منظور
ہم جنس پرستوں کی شادی کو تحفظ ، امریکہ میں بل منظور
امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان نے ہم جنس پرستوں کے درمیان شادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بل ‘ریسپیکٹ فار میریج ایکٹ’ کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ امریکی پارلیمنٹ کے 267 ارکان نے ہم جنس پرستوں اور دیگر نسلوں کے درمیان شادیوں سے متعلق بل کی حمایت کی جب کہ 157 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یہ بل اس خدشے کے پیش نظر پیش کیا گیا کہ سپریم کورٹ نےجس طرح اسقاط حمل کے حق کو ختم کردیا کہیں ہم جنس پرستوں کی شادی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 3 years ago
Text
امریکی سپریم کورٹ کے جج کلیرنس تھامس کو ہسپتال سے رہا کر دیا گیا۔ عدالتوں کی خبریں۔
امریکی سپریم کورٹ کے جج کلیرنس تھامس کو ہسپتال سے رہا کر دیا گیا۔ عدالتوں کی خبریں۔
عدالت نے کہا کہ 73 سالہ تھامس کا انٹراوینس اینٹی بائیوٹکس سے انفیکشن کا علاج کیا گیا تھا اور اس کے پاس COVID-19 نہیں تھا۔ ریاستہائے متحدہ کی سپریم کورٹ کے جج کلیرنس تھامس کو “فلو جیسی علامات” کے ساتھ لے جانے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔ 73 سالہ تھامس کا علاج انٹراوینس اینٹی بایوٹک سے انفیکشن کے لیے کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز یہ نہیں بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
اسقاطِ حمل سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ، ایشیائی خواتین کی تشویش بڑھنے لگی
اسقاطِ حمل سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ، ایشیائی خواتین کی تشویش بڑھنے لگی
اسقاطِ حمل سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ، ایشیائی خواتین کی تشویش بڑھنے لگی واشنگٹن ، 7جولائی ( آئی این ایس انڈیا ) امریکی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے کے ذریعے خواتین کو حاصل اسقاطِ حمل کے حقوق وفاقی سطح پرختم ہونے کے بعد امریکہ میں اس فیصلے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کے بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کیعدالتی فیصلے،مستقبل میں اقلیتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 2 years ago
Text
امریکہ اور برطانیہ میں " تارڑ" کی طلب!
امریکہ اور برطانیہ میں “تارڑ” کی طلب! امریکی سپریم کورٹ کے دو اور برطانوی اپیل کورٹ کے ایک فیصلے سے دونوں بڑی جمہوریتوں اور ان کے ایوان اقتدار میں ریکٹر سکیل پر 7 کے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں۔ رشی سونک اور بائیڈن بھرا (برادر) نے ناک بھوں چڑھائی، لیکن مرتے کیا نہ کرتے، کے مصداق، سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ “فیصلے سے اختلاف ہے، پر عمل ہوگا” بائیڈن بھرا نے بلا حیل و حجت فرمایا ہے کہ، “عدالتی حکم سے مفر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
‎میرے نا خدا وہی ہیں جو مجھے ڈبو رہے ہیں
Tumblr media
زرد پتوں کا بن جومرا دیس ہے اک عجیب بے بسی کے المیے سے گزر رہا ہے ۔ ہم‎ کبھی کبھی یہ سوچ کر بھی ‎اپنے رنج کم کرتے ہیں کہ حساسیت کے اس عذاب میں، اکیلے ہم نہیں‎ بہت ہیں لوگ اور بھی ‎بہت ہیں اپنے ہم سفر جو بے نیاز غم نہیں‎...جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ ناقابل یقین سا ہے۔ ملک میں جنتا نے جو کچھ بھی کیا وہ ایک منحوس خواب لگ رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں ملکی اداروں کا کردار بہت ہی مبہم رہا۔ پولیس کا کردار حسب سابق تھا۔ اس نے اپنی ہمیشہ من مانی کی اور عوام کے مفادات کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان کے اقتدار پر قابض ہے، ملکی مفادات کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ ایک طرف ملک شدید مالی بحران سے دوچارہے ۔ دوسری طرف اس سرکار کے اخراجات کا کوئی انت نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب حالیہ وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ برطانیہ بے مصرف اور غیر ضروری سا لگا ہے‎۔ ‎برطانیہ کے بزرگ بادشاہ کی تاج پوشی کی تقریب ’’غلام ملکوں‘‘ کے ساتھ تجدید ��ہد کی تقریب تھی۔ کسی آزاد اور خود مختار ملک کا کوئی بھی صدر یا وزیر اعظم اس غیر ضروری تقریب میں شریک نظر نہ آیا۔ مگر ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف اس دعوت خاص میں گئے اور ایک پنتھ کئی کاج والے محاورہ کے مصداق کئی دیگرمعاملات بھگتاتے رہے۔ 
سب سے اہم کام ان کے نزدیک ”بائو جی“ سے ملاقات تھی۔ ان کو بائوجی المعروف نواز شریف کی ترش گفتگو بھی سننا پڑی۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ تمہارے عسکری دوستوں اور مہربانوں نے اپنے وعدوں کی تکمیل نہیں کی اور نہ ہی تم خصوصی قانون سازی کروا سکے ہو، جو میرے لئے کار آمدثابت ہو سکیں۔ ‎یہ ملاقات خلوص اور الفت سے عاری رہی، میاں نواز شریف کو یقین دہانی کروا دی گئی کہ آنے والے دنوں میں قانون کے ذریعے ان کے مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔ پاکستان اس وقت شدید مالی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور ہمارے دوست ممالک بھی اس صورت حال سے لاتعلق سے نظر آ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ہمارے خصوصی دوست اور مہربان ملک امریکہ کے تیور بھی بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ امریکی بھی اس وقت عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ ان کو اندازہ ہے کہ پاکستان میں شفاف انتخابات میں ماضی کی سیاسی اشرافیہ کا جنازہ نکل سکتا ہے۔ اس بار امریکہ بہادر افواج پاکستان کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔
Tumblr media
اگرچہ موجودہ سپاہ سالار امریکی حمایت کے بعد ہی چین کی یاترا پر گئے تھے اور چین بھی پاکستان میں سیاسی استحکام چاہتا ہے۔ ‎وزیر اعظم پاکستان کے دورہ برطانیہ میں ان کے ساتھ کابینہ کے اہم رکن خواجہ آصف جو وزیر دفاع بھی ہیں، لندن کے مہنگے ترین ہوٹل میں قیام پذیر تھے اور ان کے اخراجات حکومتِ پاکستان ادا کرتی رہی جب کہ ملک شدید سیاسی اور معاشی بد حالی کا شکار ہو ایسے میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا دورہ برطانیہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے بزرگ بادشاہ کی تاج پوشی کے جشن میں پاکستان کی افواج کے لوگ بھی اپنے وزیر کی ہدایت پر شریک ہوئے تھے اور ان کے اخراجات ایسے میں کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتے۔ برطانیہ نے ابھی تک پاکستان کو مکمل آزاد نہیں کیا۔ ہم اب تک کامن ویلتھ کے رکن ہیں مگر رکن ہونے کے ناطے ہمارے ساتھ برطانیہ کا سلوک کبھی اچھا نہیں رہا۔ وہ ہمارا اچھا دوست نہیں ہے وہ امریکہ کو بھی ہمارے بارے میں اپنی رائے سے مطلع کرتا رہتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ یورپی یونین کی سیاست میں اپنی علیحدہ حیثیت میں سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔‎ 
اس وقت پاکستان کی سیاست شدید خلفشار ��ے ‎دوچار ہے۔ کوئی بھی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور جو سرکار ہے وہ عوام کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ دنیا میں پٹرول سستا ہے مگر ہمارے ہاں مہنگا ترین ہے پھر عام اشیاء پر پرائس کنٹرول نہیں ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کا قول کچھ ایسا ہے کہ ’’لہجے میں شمشیر نکالی، باتوں میں خنجر لے آئے‎‘‘ اس وقت پاکستان میں اہم ادارے آپس میں بھی بدگمانی کا شکار ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ پر نامکمل قومی اسمبلی جس قسم کی تنقید کر رہی ہے اور ممبران جس طریقہ سے اعلیٰ عدلیہ پر رائے زنی کرتے نظر آتے ہیں اس سے اعلیٰ عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے اور آئین کے اصول بھی نظرانداز ہو رہے ہیں بلکہ قومی اسمبلی کے مطالبات نے آئین کو مشکوک کر دیا ہے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور حالیہ دنوں میں کابینہ نے جو کردار ادا کیا ‎ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ آخر یہ سب کچھ ہمارے گردو پیش ہو رہا ‎ہے۔ کیا جمہوریت سے اس کا علاج ہو سکے گا اور انتخابات کے جو نتائج ہماری اشرافیہ چاہتی ہے اور وہ اس کیلئے عسکری دوستوں کی معاون ہے اور نوکر شاہی بھی ان کے ساتھ ہے اگر ان کو مطلوبہ نتائج نہ مل سکے تو عوام پر ستم جاری رہے گا اور جمہوریت کا چہرہ بھی مزید مشکوک ہو گا۔
ہماری نامکمل قومی اسمبلی کا کردار آئین کی روح کے منافی نظر آرہا ہے۔ ایسے میں متاثرین میں اہم حیثیت عوام کی ہے۔عوام کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ وہ ابھی تک اشرافیہ کے وعدوں پر جی رہے ہیں۔ مگر ملک کی خاصی بڑی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے۔ ہم ان کے مستقبل کیلئے کچھ نہیں کر رہے اور اس کی وجہ سے ملک میں شدید بے چینی ہے۔ ہماری سرکار کیوں پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے پر تُلی دکھائی دیتی ہے کہ حالات ایسے ہیں کے کل کا کوئی اعتبار بھی نہیں کر سکتا۔‎
وعدوں کا ایک شہر تھا ‎جس میں گزر رہے تھے دن‎ آنکھیں کھلیں تو دور تک پھیلے ہوئے سراب تھے‎
ایک تھا موسمِ وفا جس کی ہمیں تلاش تھی‎ اپنے نصیب میں مگر، اور ہی کچھ عذاب تھے
محمد ساجد خان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes