Tumgik
#الیکٹرانک
urduchronicle · 1 year
Text
عمران خان کا وزیراطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مارتا تھا، ملک میں 4 سال میڈیا سنسرشپ رہی، مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کا وزیراطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مارتا تھا، پیمرا کی ایک جنبش سے چینل بند ہو جاتے تھے، ملک پر 4 سال میڈیا سنسر شپ نافذ رہی۔ اسلام آباد میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ترمیمی بل سے متعلق پریس بریفنگ میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان  میں اس وقت پیمرا لائسنس یافتہ 140 چینلز ہیں، سوشل میڈیا کا نیا دور ہے جس سے ہم سب گزر رہے ہیں، ملک میں 4 سال میڈیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
"میں الیکٹرانک گفتگو کی وجہ سے پیدا ہونے والی غلط فہمی سے نفرت کرتا ہوں، اس میں دوسرے فریق کی آنکھ، اس کی آواز اور چہرے کے خدوخال کو دیکھنے سے پہلے اس کی حالت اور مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔"
"I hate the misunderstanding caused by an electronic conversation, it lacks to see the other party's eye, tone of his voice and facial features to realize his condition and mood before you make your judgment."
8 notes · View notes
Text
باتسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
تاریخ18ستمبر2024 ہینڈ آؤٹ نمبر (525)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکرز برائے الیکٹرانک میڈیا
قصور۔ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کے حکم پر کھڈیاں خاص میں تجاوزت کیخلاف آپریشن۔
قصور۔اسسٹنٹ کمشنرقصور عطیہ عنایت مدنی نے تجاوزات کیخلاف آپریشن کی نگرانی کی۔
قصور۔ دوکانوں کے آگے تعمیر پختہ تھڑے مسمار اور عارضی رکاوٹیں ہٹاکر سامان ضبط کیا گیا۔
قصور۔ ناجائز تجاوزات کو ختم کرکے بازاروں اور راستوں کو کشادہ کر دیا گیا۔
قصور۔تین دن پہلے متعلقہ بازاروں میں انکروچمنٹ کیخلاف ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بینرز اور اعلانات کروائے گے تھے۔
قصور۔ شہریوں کیطرف سے تجاوزات کیخلاف گرینڈ آپریشن کرنے پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو خراج تحسین۔
قصور۔ بازاروں و سڑکوں پر ناجائز تجاوزات قائم کرنیوالوں کیساتھ سختی سے نمٹا جائیگا۔اسسٹنٹ کمشنر عطیہ عنایت مدنی
قصور۔ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ میری اولین ترجیح ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر
قصور۔ شہر کا حسن بحال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ عطیہ عنایت مدنی
٭٭٭٭٭
0 notes
paymentspro123 · 23 days
Text
Tumblr media
ہائ رسک مرچنٹ اکاؤنٹس ایسے کاروباروں کے لیے ہوتے ہیں جو زیادہ مالی نقصان، دھوکہ دہی یا چارج بیکس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ کاروبار مختلف صنعتوں جیسے بالغ تفریح، آن لائن گیمنگ، سفر، سی بی ڈی مصنوعات، اور الیکٹرانک سگریٹ میں سرگرم ہوتے ہیں جنہیں مخصوص مرچنٹ اکاؤنٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اکاؤنٹس کے ذریعے کاروبار ادائیگیوں کو منظم کر سکتے ہیں، دھوکہ دہی سے بچاؤ اور چارج بیکس کا انتظام کر سکتے ہیں۔ ہائ رسک مرچنٹ اکاؤنٹس عام طور پر زیادہ فیس، طویل ہولڈنگ ٹائمز اور اضافی سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ آتے ہیں۔
1 note · View note
googlynewstv · 2 months
Text
ٹی وی پروگراموں میں پولیس کا مذاق اڑانے پر پابندی عائد
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے شوز میں پولیس کو طنزیہ انداز میں پیش نہ کریں۔پیمرا کے ایک حالیہ ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی چینلز مزاحیہ اسکٹس اور طنزیہ پروگراموں کے دوران پولیس یونیفارم میں کرداروں کو توہین آمیز انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ہدایت نامے میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ بات انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھی گئی ہے کہ سیٹلائٹ ٹی…
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
نوکیا فونز کا عہد ختم ہونے کے قریب
Tumblr media
کئی سال تک دنیا بھر میں مقبول فون برانڈ کا درجہ رکھنے والے برانڈ نوکیا کے اسمارٹ فونز بند ہونے کے قریب ہیں اور ممکنہ طور پر دو سال بعد اس کے اسمارٹ فونز نہیں بنائے جائیں گے۔ نوکیا کے اسمارٹ فونز کا لائسنس رکھنے والی کمپنی ہیومن موبائل ڈیوائسز (ایچ ایم ڈی) نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے نام سے فونز متعارف کرائے گی جب کہ نوکیا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تصدیق کی گئی کہ اس کے اکاوؕنٹس اگلے ہفتے سے بند کر دیے جائیں گے۔ ایچ ایم ڈی کی جانب سے اپنے نام سے اسمارٹ فونز کو متعارف کرائے جانے کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کمپنی نوکیا کے نام سے اسمارٹ فونز متعارف نہیں کرائے گی۔ مذکورہ کمپنی نے نوکیا کے نام سے اسمارٹ موبائل متعارف کرانے کا لائسنس 2016 میں حاصل کیا تھا اور ان کے پاس لائسنس کے حقوق 2026 تک ہوں گے، اس وقت تک کمپنی موبائل فونز متعارف کرا سکتی ہے لیکن 2026 کے بعد کمپنی نوکیا کے فون بنانا بند کرے گی اور ممکنہ طور پر کوئی دوسری کمپنی بھی نوکیا کے برانڈ کے فونز نہیں بنائے گی، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
Tumblr media
عین ممکن ہے کہ کوئی دوسری کمپنی نوکیا کے اسمارٹ فونز بنانے کا لائسنس حاصل کرے اور وہ برانڈ کو اپنائے لیکن فوری طور پر اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ اسمارٹ موبائلز کے علاوہ نوکیا کے فیچر یعنی سادہ موبائلز مختلف کمپنیاں متعارف کراتی رہیں گی اور نوکیا کے سادہ فونز کو متعارف کرانے کے لائسنس بھی مختلف کمپنیوں نے حاصل کر رکھے ہیں۔ نوکیا فن لینڈ کی ایک ملٹی نیشنل موبائل، کمیونی کیشن اینڈ الیکٹرانک ڈیوائسز مینوفیکچرنگ کمپنی ہے جو مختلف کمپنیوں کو اپنی ڈیوائسز بنانے کے لائسنس فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ کمپنی اگرچہ 1850 میں بنائی گئی تھی لیکن نوکیا نے موبائل فونز بنانے کا آغاز 1990 میں کیا تھا اور ابتدائی طور پر کمپنی نے سادہ فونز متعارف کرائے تھے، جنہوں نے بہت مقبولیت حاصل کی اور نوکیا فونز 2010 تک مقبول رہے۔ اسمارٹ فونز کے دور کے بعد حیران کن طور پر نوکیا اپنا نام برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے اسمارٹ فونز بھی وہ توجہ حاصل نہ کر سکے جو دیگر کمپنیوں نے حاصل کی۔
بشکریہ ڈان نیوز  
0 notes
shiningpakistan · 9 months
Text
ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا
Tumblr media
میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ بغداد پر بموں کی بارش شروع ہوئی تو دنیا کے پہلے عالمی نیوز چینل نے لائیو دکھایا اور غالباً ہیڈلائن اسی طرح کی تھی کہ ’بغداد کا آسمان بمباری سے جگمگا اٹھا ہے‘۔ خبریں پڑھنے والے نے ہیڈلائن کچھ اس طرح پڑھی تھی جیسے فٹ بال میچوں پر کمنٹری کرنے والے جوش میں آ کر کسی گول کا منظر بیان کرتے ہیں۔ اسی دن سے عالمی جنگیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ آپ کسی بھی دن، رات کے کھانے کے وقت ٹی وی لگائیں تو دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی شہر کا آسمان بمباری سے جگمگا رہا ہو گا اور گورے صحافیوں کو اس شہر کا درست نام لینا کبھی نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ لائیو کوریج اور میڈیا جنگ کا لازمی حصہ بن گئے جس طرح کسی زمانے فوج کے ساتھ طبل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے، جو اپنی سپاہ کا خون گرماتے تھے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کے مدبر صحافی پہلے جنگ کا جواز سمجھاتے تھے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بھائی بہن حملہ آور فوجوں کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر جنگ کی کوریج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ 
ان جنگوں میں بندوق کی نالی اور ان کی آنکھ دشمن کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔  جب ہنستی بستی آبادیاں تباہ کر دی جاتیں اور لوگ اپنے گھروں کے ملبوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور کھانے کے برتن ڈھونڈ رہے ہوتے تو مغرب سے مغربی ضمیر کے رحم دل دستے سوکھا راشن اور بچوں کے کھلونے لے کر پہنچ جاتے۔ ان کے امدادی ٹرکوں پر بھی کیمرے والے صحافی موجود ہوتے جو راشن کے لیے اٹھے ہاتھوں اور بے کس چہروں کی تصویریں دنیا تک پہنچاتے اور داد پاتے۔ جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انھیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلتا رہتا۔ پہلے آسمانوں سے بمباری، پھر بستیاں روندتے ہوئے ٹینک، اس کے بعد جنگ بندی کے مطالبے اور پھر امدادی ٹرکوں کے قافلے۔ اسلحے کی فیکٹریاں بھی تین شفٹوں میں چلتیں اور انسانی ہمدری سے لبریز مغربی ضمیر کی دیہاڑیاں بھی لگتی رہتیں۔ 
Tumblr media
جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائیڈ لائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوس سے شروع نہیں ہوئی 70 سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہ��ار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ ہم تک ننھے بچوں کی تصویریں اور کہانیاں دنیا تک پہنچانے والے 70 صحافی بھی مار دیے ہیں۔ ان میں سے کئی پورے خاندان کے ساتھ۔ لیکن مغربی ضمیر اسرائیل سے صرف یہ کہلوا سکا ہے کہ ہم نے غلط بم مار دیا۔ چند دن پہلے کرسمس منایا گیا، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی حضرت عیسٰی کے پیروکاروں کی ہے۔ 
حضرت عیسیٰ بھی فلسطینی ہیں لیکن مغرب نے انھیں گورا، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والا بنا لیا۔ ان کی جائے پیدائش بیت اللحم ہے، وہاں بھی اسرائیل کئی دفعہ گولے چلا چکا ہے۔ اس مرتبہ کرسمس پر وہاں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے مجسمے کو ایک ملبے کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھایا گیا اور محترم پادری منتھر آئزیک نے اپنے کرسمس کے خطبے میں فرمایا: ’اور آج کے بعد ہمارا کوئی یورپی دوست ہمیں انسانی حقوق یا عالمی قانون پر لیکچر نہ دے کیونکہ ہم گورے نہیں ہیں اور تمہاری اپنی ہی منطق کے مطابق انسانی حقوق اور عالمی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 11 months
Text
فلسطین-اسرائیل جنگ : مغربی میڈیا جنگ کے خواہش مند افراد کا آلہ کار بن رہا ہے
Tumblr media
غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ نے اس کی معروضیت کے دعووں کو بےنقاب کیا ہے۔ حماس-اسرائیل تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کو انتہائی کم کوریج دی جارہی ہے اسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع اس جملے سے کیا جارہا ہے کہ ’اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دینے والی اس وحشیانہ بمباری کے دوران مارے جانے والے درجن سے زائد عرب صحافیوں کی ہلاکت پر بھی مغربی میڈیا کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا رویہ چونکا دینے والا ہے۔  جہاں مغربی صحافیوں کی بڑی تعداد اسرائیل سے کوریج کر رہی ہے وہیں گنتی کے صحافی غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی فیلڈ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کو دکھا رہا ہے۔
اسرائیل-فلسطین تنازع کی میڈیا رپورٹنگ کا بڑا حصہ متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے 7 اکتوبر کے واقعات کی صرف حماس کے حملے کے طور پر منظر کشی کی جارہی ہے جبکہ اس حملے کے پیچھے موجود اصل وجہ یعنیٰ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی غیرمصدقہ خبروں سے مغرب کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور غزہ کی پٹی پر بسنے والے 22 لاکھ لوگوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اس جھوٹے جواز کو استعمال کیا گیا۔ کچھ اسرائیلی رہنماؤں اور مغربی میڈیا کے تجزیہ کاروں نے حماس کے حملے کو 9 ستمبر کے حملوں سے تشبیہہ دی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دونوں جانب ہونے والی بےگناہ لوگوں کی اموات کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن غزہ میں اس وقت جو قیامت ڈھائی جارہی ہے، ماضی قریب میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوآبادیاتی قوت کی جانب سے مظلوم اور محکوم آبادی کی نسل کشی سے بدتر کوئی امر نہیں ہے۔
Tumblr media
اپنی حالیہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل، غزہ اور لبنان میں اپنی عسکری کارروائیوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کر رہا ہے جس سے عام شہری سنگین اور دیر تک رہنے والے زخموں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک، غزہ پر وائٹ فاسفورس کے استعمال سے وہاں کی آبادی کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ یہ شہریوں کو غیرضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالنے کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری سے سیکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ’تصاویر اور خبروں سے صورتحال واضح ہے، بچوں پر جلنے کے خوفناک نشانات ہیں، وہ بمباری سے زخمی ہوئے ہیں اور اعضا سے محروم ہوئے ہیں‘۔ ان کیسز کی تعداد میں ہر لمحے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ علاج سے بھی محروم ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والی ہر قیمتی جان، غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی نشاندہی کرتی ہے۔
لیکن غزہ کے انسانی المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اسرائیل کے ملٹری ایکشن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقائق کو مسخ کر کے مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلانے میں ان لوگوں کا آلہ کار بن رہا ہے جو جنگ کے خواہش مند ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان کی معروضی صحافت کا مقصد صرف اپنے حکمرانوں کی اسرائیلی حمایت کی غیرمبہم پالیسی کی حمایت کرنا ہے۔ گویا الیکٹرانک میڈیا پر جیسے کوئی ورچول سنسرشپ لاگو ہے اور یہاں منطقی خیالات کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے مبینہ طور پر 3 مسلمان اینکرز کو معطل کر دیا کیونکہ وہ غزہ میں محصور عوام کی پبتا اپنے شو کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے۔ عرب نیوز کے مطابق ایک صحافی نے کہا کہ ’یہ بالکل 9 ستمبر کے بعد کا دور لگ رہا ہے کہ یا تو اس بحث میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف‘۔ جس طرح چند مغربی میڈیا گروپس اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بےرحمانہ قتلِ عام کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کررہے ہیں، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے۔ 
بی بی سی ٹی وی کی رپورٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہرے کو ’حماس کی حمایت میں مظاہرے‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ بعدازاں ادارے نے عوام کو گمراہ کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس پر معذرت نہیں کی۔ بہت سے یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگرچہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس بھرپور کوریج کررہے ہیں۔ مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی پلٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر اور کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر عظمت خان نے بتایا کہ انسٹاگرام اسٹوری پر غزہ میں جنگ کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر ان کے اکاؤنٹ کو ’شیڈوبین‘ کر دیا گیا۔ وہ ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’یہ جنگ میں معتبر صحافت اور معلومات کے تبادلے کے لیے غیرمعمولی خطرہ ہے‘۔
غزہ پر اسرائیل کی بلاتعطل بمباری، اسے فلسطینی بچوں کا مقتل بنانے اور لاکھوں لوگوں کو بےگھر کرنے کے دوران نیو یارک ٹائمز کے اداریے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’اسرائیل جس کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو انسانی زندگی اور قانون کی حکمرانی کو اہمیت دیتا ہے‘۔ ایک ایسا اخبار جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، اس کے ایڈیٹرز کی جانب سے جرائم کی مرتکب نسل پرست حکومت کے دفاع سے زیادہ عجیب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس اداریے میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی سرزمین کو نوآبادی بنانے اور وہاں کے باشندوں کو بےگھر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اور نیو یارک ٹائمز آخر کس قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے؟ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے اور اسرائیلی خواتین اور بچوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرز نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ اسرائیل کے پاس 5 ہزار فلسطینی قیدی ہیں۔ شہری آبادی پر فاسفورس بمبوں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا، کیا یہ ایک ایسے ملک کی روش ہو سکتی ہے جو انسانی زندگی کو اہمیت دیتا ہے؟ اس طرح کے دوغلے پن اور مغرب کی حمایت نے اسرائیل کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے اور حالات کو پہلے سے زیادہ غیر مستحکم کیا ہے۔
زاہد حسین   یہ مضمون 18 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
discoverislam · 1 year
Text
بہتان تراشی کا عذاب
Tumblr media
کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو ﷲ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے۔‘‘ (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے) (مسند احمد، سنن ابی داؤد، مشکوۃ المصابیح ) کسی آدمی میں ایسی برائی بیان کرنا جو اس کے اندر نہیں یا کسی ایسے بُرے عمل کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس نے کیا ہی نہیں ہے، افترا اور بہتان کہلاتا ہے۔ مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی پر بغیر تحقیق و ثبوت الزام یا بہتان لگاتا ہے تو شرعاً یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ 
ہمارے یہاں معاشرے کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے کا کام کرتے ہیں، اس میں ان کو ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ شیطان ان کو اس کام پر ابھارتا ہے اور لایعنی باتوں اور کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، شریعت کے نزدیک یہ عمل انتہائی بُرا، ناپسندیدہ اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوٹوک اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت کی وجہ سے کچھ ایسا کر بیٹھو جو بعد میں تمہارے لیے ندامت کا سبب بن جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بات کے پیچھے نہ پڑیں جس کا ہمیں علم نہیں، بے شک! کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہو گا، ﷲ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور ﷲ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے۔‘‘ ( ابو داؤد)
Tumblr media
تہمت کا تعلق کسی کی عزت و آبرو سے ہو تو دنیا و آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، معاشرہ میں تہمت لگانا لوگوں کے معمول کا حصہ بن گیا ہے، اس میں بدگمانی عام ہو جاتی ہے، جو خود ایک گناہ ہے، تجسس کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے، جس سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے، تہمت اور بہتان کو پھیلانے کی وجہ سے غیبت کا بھی صدور ہوتا ہے۔ جسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بُرے عمل کی وجہ سے اعتماد میں کمی آتی ہے اور لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، گویا تہمت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو بے شمار گناہوں میں مبتلا کرتی ہے، اس لیے اس سے حد درجہ بچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا لی ہے، پہلے خبروں کی ترسیل ایڈیٹر کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، وہ اس کو جانچتے، پرکھتے اور سوچ سمجھ کر شایع کرتے تھے کہ کیا بات حقیقی اور معاشرے کے لیے درست ہے اور کیا نہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لکھنے والے کو آزاد کر دیا ہے، جو چاہے لکھے اور جس پر چاہے کیچڑ اچھال دے، پھر اس پر بحث شروع ہوتی ہے اور ایسی ایسی بدکلامی اور ایسے ایسے نامناسب نکتے پوسٹ کیے جانے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’جو لوگ بدکاری کا چرچا چاہتے ہیں ایمان والوں میں سے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، ﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (النور) شریعت میں عزت و آبرو پر تہمت کے معاملہ میں شہادت کے بھی اصول سخت ہیں۔ ابُوداؤد شریف کی روایت ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو ﷲ اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ ان آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ صرف شبہہ کی بنیاد پر کسی کو کوئی شخص طعنہ نہیں دے سکتا، اب اگر کسی شخص سے ان امور میں کوتاہی ہو رہی ہے تو اس کو سمجھایا جائے گا، مگر اسے سرِعام رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور بغیر ثبوت شرعی کے کسی کے بارے میں کوئی بات نہیں پھیلانا چاہیے۔ شریعت کی منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ثبوت شرعی کے کسی پر الزام یا تہمت نہ لگائے، اگر ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا بھی حکومت کی طرف سے ملنی چاہیے، گو یہ سزا ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے بعد دی جاسکے گی۔
کیوں کہ اصل معاملہ اس شخص کا ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے، وہ اگر تہمت لگانے والے پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا تو تہمت لگانے والا سزا سے محفوظ رہے گا۔ اﷲ رب العزت نے ہدایت دی کہ افواہ سنی سنائی باتوں کو بنا تحقیق زبان سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایسی خبروں کے سننے کے بعد مسلمانوں کا کیا رد عمل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے، کسی انسان پر بغیر کسی شرعی دلیل کے الزام لگانا بہتان ہے۔ جہاں ثبوت نہ ہو وہاں اس طرح کی بے حیائی کی خبروں کو شہرت دینا جس کا مشاہدہ آج کل سوشل میڈیا پر روزانہ ہوتا ہے، سنگین گناہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے، قرآن کریم میں بہتان سے متعلق آیات و احکام کا تعلق خاص واقعہ سے ہے، لیکن اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ عام ہیں، کیوں کہ بعض مخصوص آیتوں کو چھوڑ کر احکام شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے بل کہ حکم عام ہوتا ہے۔ اس لیے واقعہ افک کی وجہ سے جو احکام نازل ہوئے وہ بھی تہمت و بہتان کے باب میں عام ہوں گے۔ 
تہمت کے ایک جملے اور ذرا سی بات کی وجہ سے عبرت ناک انجام ہو سکتا ہے۔ کسی پر بہتان لگانا ﷲ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ اور ملائکہ مقربین کی ناراضی کا سبب ہے۔ لوگوں پر بہتان لگانے والے کو معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عبرت ناک واقعہ ان لوگوں کو نصیحت کے لیے کافی ہونا چاہیے، جو آج کل سوشل میڈیا کو علم اور ترقی کے استعمال کے بہ جائے، کسی مرد کی، کسی بھی نامحرم عورت کے ساتھ تصویریں جوڑتے ہیں، اس پر گانے لگا دیتے ہیں، دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں، آگے اسے پھیلایا جاتا ہے، اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ مفہوم: ’’اور جو شخص کوئی گناہ کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر ﷲ سے معافی مانگ لے تو وہ ﷲ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)  اس آیت کی روشنی میں، ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے، دانستہ یا نادانستہ ہم سے یہ گناہ ہو گیا ہے تو ﷲ رب العزت سے سچے دل سے معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ ایسی باتوں کو پھیلانے کا سبب نہ بننے کی کوشش کی جائے۔
عالیہ اظہر  
1 note · View note
kanpururdunewsa · 1 year
Text
Tumblr media
سیاحت کے فروغ کیلئے وزیراعلی یوگی پرعزم عید میلادالنبی کے موقع پر وزیر اعلیٰ نے عوام کو دی مبارکباد لکھنو، ۔ اتر اہم سیاحی مقامات پر ملے گی الیکٹرانک گاڑیوں کی سہولیت
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل منظور
http://dlvr.it/St5Z31
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پولنگ سٹیشنز پر کسی قسم کا سروے نہ کیا جائے، فیک نیوز نشر نہ کی جائے، الیکشن کمیشن کا پیمرا کو خط
قومی میڈیا میں ضابطہ اخلاق پر عمل یقینی بنانے کےلئے الیکشن کمیشن نے چیئرمین پیمرا کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پیمرا میڈیا کو آگاہ کرے کہ پاکستان کے نظریہ، خودمختاری اور سلامتی کے خلاف کوئی مواد نشر نہ کیا جائے، عدلیہ کی آزادی اور قومی اداروں کے خلاف کسی قسم کا مواد نشر نہ کیا جائے، قومی یکجہتی کے خلاف کوئی الزام یا بیان الیکٹرانک، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر نشر نہ کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mount airy casino resort - blog تعارف: ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ کی تلاش آپ پر پہنچ گئے ہیں۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریسارٹپنسلوانیا کے خوبصورت پوکونو پہاڑوں کے مرکز میں ایک عالمی معیار کی سہولت۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ ان لوگوں کے لیے حتمی منزل ہے جو جوش و خروش، تفریح ​​اور خوبصورتی کی تلاش میں ہیں، کیونکہ یہ دیگر چیزوں کے علاوہ تینوں کو سپیڈز میں پیش کرتا ہے۔ کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو کی خبریں۔. ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ: اس کی تاریخ کا مختصر جائزہ ماؤنٹ ہوا دار کیسینو ریزورٹ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ، جو 2007 میں کھولا گیا تھا، اس کا ایک طویل اور منزلہ ماضی ہے جو خطے کی رنگین ثقافت میں گہرا ہے۔ یہ ریزورٹ، جو پچھلے ماؤنٹ ایری لاج کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا تھا، جو کئی دہائیوں سے چھٹیوں کا پسندیدہ مقام ہے، کامیابی کے ساتھ پرانی یادوں کو جدید عیش و آرام کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اب یہ پوکونو پہاڑوں کی مہمان نوازی اور تفریحی صنعتوں کی ترقی کی علامت ہے۔ گیمنگ میں بے مثال تفریح ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ آپ کی دہلیز پر جوئے کا جوش لاتا ہے۔ جوئے بازی کے اڈوں میں تجربہ کار جواریوں اور نئے آنے والوں دونوں کے لیے اپنی قسمت آزمانے کے لیے مختلف قسم کے کھیل موجود ہیں، بشمول الیکٹرانک سلاٹ مشینیں، روایتی ٹیبل گیمز، اور ایک متحرک پوکر روم۔ کیسینو فلور میں ہر قسم کے کھلاڑی کے لیے گیمز موجود ہیں، چاہے وہ جدید ترین ویڈیو سلاٹس کی تیز رفتار کارروائی سے لطف اندوز ہوں یا بلیک جیک اور رولیٹی کے زیادہ اسٹریٹجک کھیل سے۔ کسی بھی ترجیح کے مطابق شاندار سوئٹ گیمنگ یا دیکھنے کے دلچسپ دن کے بعد اپنے عالیشان کمرے کے آرام سے آرام کریں۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ کے کمرے اور سویٹس آپ کے زیادہ سے زیادہ آرام اور لطف اندوزی کے لیے تمام خوبصورتی سے آراستہ اور فرنشڈ ہیں۔ ان کمروں کے بارے میں ہر چیز، بادشاہی سائز کے بستروں اور عصری سہولیات سے لے کر آس پاس کے پہاڑوں کے دلکش نظاروں تک، آپ کو خوش کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ ریستوراں کا بہترین انتخاب ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ میں کھانے کے بہترین اختیارات ہیں، لہذا اپنی بھوک کو پورا کریں۔ اس ریزورٹ میں کھانے کے مختلف اختیارات ہیں، خصوصی ریستوراں سے لے کر زیادہ آرام دہ کیفے تک۔ منہ سے پانی بھرنے والے اسٹیک کے لیے گائے فیری کے ماؤنٹ پوکونو کچن، مستند اطالوی کرایے کے لیے ال ملینو کے Bistecca اور سشی بار کے جاندار تجربے کے لیے ریڈ مینگو ملاحظہ کریں۔ [embed]https://www.youtube.com/watch?v=hQCv5nq_ZEs[/embed] سپا اور ہیلتھ ریزورٹ تعطیلات سے لطف اندوز ہوں۔ ماؤنٹ ایری کا سپا آپ کے مصروف شیڈول سے آرام کرنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ علاج کے مساج کے ساتھ جوان ہو جائیں، سونا میں آرام کریں، اور اپنے آپ کو ایک پرتعیش چہرے کے ساتھ علاج کریں۔ سپا ایک پر سکون پناہ گاہ ہے جہاں آپ ان کی بہت سی آرام دہ خدمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے جسم، دماغ اور روح کو جوان کر سکتے ہیں۔ دلچسپ رات کی زندگی اور تفریح ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ نہ صرف اپنے گیمنگ آپشنز اور پرتعیش کمروں کے لیے بلکہ اپنی دلچسپ اور متنوع رات کی زندگی کے لیے بھی مشہور ہے۔ ریسارٹ کے جدید ترین ایونٹ سینٹر میں عالمی معیار کے کنسرٹس، اسٹینڈ اپ کامیڈی اور دیگر لائیو ایکٹس کا تجربہ کریں۔ سورج غروب ہونے کے بعد، بہت سے پبوں یا لاؤنجز میں سے کسی ایک کا راستہ بنائیں جہاں آپ جاندار ماحول اور بہترین لائیو میوزک لیتے ہوئے اچھی طرح سے تیار کاک ٹیل لے سکتے ہیں۔ باہر کی سرگرمیاں اور تفریح شاندار پوکونو پہاڑ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ میں دستیاب بیرونی سرگرمیوں کے لیے بہترین پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ پیدل سفر یا موٹر سائیکل کی سواری پر علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو دریافت کریں، گولف کا ایک چکر کھیلیں، یا زپ لائن پر ہوا میں اڑان بھریں۔ ریزورٹ کی ترتیب تمام دھاریوں کے فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے مثالی ہے، چاہے وہ سنسنی کی تلاش میں ہوں یا باہر کے باہر کچھ پرسکون وقت گزاریں۔ اپنے خوابوں کی پارٹی کو منظم کریں۔ ماؤنٹ ہوا دار کیسینو ریزورٹ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ شادیوں، کاروباری تقریبات اور دیگر خاص مواقع کے لیے بہترین جگہ ہے جس کی بدولت اپنے دلکش مناظر، شاندار مقامات اور بے عیب سروس ہے۔ ریزورٹ کے ماہر ایونٹ پلانرز آپ کے ساتھ ایک فنکشن ڈیزائن کرنے کے لیے کام کریں گے جو آپ کی ضروریات کے مطابق ہو، چاہے یہ چھوٹا ہو، نجی اجتماع ہو یا کوئی بڑا، عوامی جشن۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے تفریحی اختیارات جوئے کی لت کے خطرات پرتعیش رہائش کھانے کے محدود انتخاب خوبصورت قدرتی مقام چوٹی کے اوقات میں ممکنہ طور پر بھیڑ گیمنگ کے متنوع اختیارات کچھ علاقوں میں سگریٹ نوشی کی اجازت ہے۔ سپا اور فلاح و بہبود کی سہولیات
مصروف موسموں کے دوران کمرے کے اعلی نرخ گولف کورس اور بیرونی سرگرمیاں بڑے شہروں سے فاصلہ دوستانہ اور توجہ دینے والا عملہ عوامی نقل و حمل کے محدود اختیارات باقاعدہ پروموشنز اور آفرز کیسینو کے فرش سے شور اور ہنگامہ کانفرنس اور ایونٹ کی سہولیات Wi-Fi کنیکٹوٹی متضاد ہو سکتی ہے۔ مفت والیٹ پارکنگ ماحول کا اثر نتیجہ آخر میں، ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ ایک پرکشش مقام ہے جس کی بدولت اعلیٰ درجے کی سہولیات، پرجوش نائٹ لائف، اور دلکش مناظر ہیں۔ یہ ریزورٹ مہمانوں کو چھٹیوں کے متبادل کی مکمل رینج فراہم کرتا ہے، سنسنی خیز کیسینو تفریح ​​اور عمدہ کھانے سے لے کر آرام دہ سپا علاج اور شاندار قدرتی مناظر تک۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ، جو پنسلوانیا کے خوبصورت پوکونو پہاڑوں میں واقع ہے، مہمانوں کو بے مثال مہمان نوازی اور جوش و خروش کی دنیا پیش کرتا ہے۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر. ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ کے بارے میں پوچھ گچھ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ میں ان سرپرستوں کے لیے 21 اور اپ کی سخت پالیسی ہے جو کیسینو کا دورہ کرنا اور اس کی کسی بھی گیمنگ سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ سروس جانوروں کے علاوہ کتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ ماؤنٹ ایری کیسینو ریزورٹ میں سیلف پارکنگ دستیاب اور مفت ہے۔ سپا اپوائنٹمنٹ پہلے سے بک کر لی جانی چاہیے، کیونکہ واک ان کی ضمانت نہیں ہے۔ ریزورٹ، حقیقت میں، وسیع ذوق اور بجٹ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے شادی کے پیکجوں کا انتخاب فراہم کرتا ہے۔ https://blog.myfinancemoney.com/mount-airy-casino-resort/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/mount-airy-casino-resort/
0 notes
Text
باتسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
تاریخ17ستمبر2024 ہینڈ آؤٹ نمبر (522)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکرز برائے الیکٹرانک میڈیا
قصور۔ ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان اور ڈی پی او محمد عیسیٰ خاں سکھیرا کا عید میلاد النبی ﷺکے مرکزی جلوس کے روٹ کا دورہ۔
قصور۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل محمد جعفر چوہدری، اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی، ڈی ایس پی سٹی سیف اللہ بھٹی، امن کمیٹی کے ممبران بھی ہمراہ تھے۔
قصور۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او نے ریلوے اسٹیشن، چاندنی چوک سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کر کے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کے روٹس کا جائزہ لیا۔
قصور۔ وزیر اعلی پنجاب کے احکامات کی روشنی میں جلوسوں کے روٹس پر لگائی گئی سبیلوں کا بھی معائنہ کیا۔
قصور۔ ٹھنڈے مشروبات کی وافر مقدار میں فراہمی، مٹھائی کی تقسیم سمیت دیگر انتظامات کو چیک کیا۔
قصور۔عید میلاد النبی ﷺکے موقع پر سیکورٹی سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر
٭٭٭٭٭
0 notes
irtibaat · 1 year
Text
پیمرا نیٹ فلکس اور دیگر اسٹریمنگ سروسز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے جا رہا ہے۔
کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین خالد آرائیں کے مطابق، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) مبینہ طور پر عیدالاضحی کی تعطیلات کے بعد نیٹ فلکس جیسے اوور دی ٹاپ (OTT) پلیٹ فارمز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ آرائیں نے بتایا کہ کیبل آپریٹرز اور پیمرا کے سینئر حکام کے درمیان نتیجہ خیز بات چیت ہوئی، جس کے دوران کیبل آپریٹرز کے تحفظات سے آگاہ کیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
ٹیکنالوجی سے انسان کی زندگی بہتر ہوئی یا پریشانی میں اضافہ ہوا؟
Tumblr media
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی نے انسان کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم یہ ایک غلط خیال ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے دماغی صحت اور انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن سے بچنا محال ہو جاتا ہے خاص طورپر اس کا مسلسل استعمال اور روز مرہ کے کاموں میں اس پر انحصار کرنا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نے واقعی آپ کی زندگی کو بہتر بنایا ہے؟
ٹیکنالوجی کے نفسیات پر اثرات ٹیکنالوجی کا مسلسل استعمال اور اس پر مکمل انحصار کرنے سے نفسیات پر جلد یا بدیر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سے چند کی مثال ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
تنہائی اگرچہ جدید سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو دیکھیں تو اس سے فاصلے تو سمٹ گئے ہیں اور باہمی روابط بھی بہتر ہو گئے ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے 19 سے 32 برس کے افراد پر ایک ریسرچ کی گئی جس میں یہ ثابت ہوا کہ جو افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے مسلسل جڑے رہتے ہیں وہ ان کے مقابلے میں جو اس کا کثرت سے استعمال نہیں کرتے، تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔  مسلسل سوشل میڈیا سے منسلک رہنے والے 73 فیصد افراد نے تصدیق کی کہ وہ عملی طور پر سماجی زندگی میں تنہائی کا شکار ہیں۔
Tumblr media
پریشانی و ڈپریشن ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد جو مسلسل سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے منسلک ہوتے ہیں ان میں ذہنی مسائل بڑھ جاتے ہیں جیسے بے چینی اور ڈپریشن وغیرہ۔ ماہرین نے اس حوالے سے مختلف نتائج بھی پیش کیے ہیں جن میں ایسے افراد جنہیں سماجی ویب سائٹس پر مثبت رویہ اور حوصلہ افزائی ملتی ہے ان میں پریشانی اور ڈپریشن کافی کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جنہیں سوشل نیٹ ورک پر حوصلہ افزائی کا سامنا نہیں ہوتا ان میں ڈپریشن کافی زیادہ ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل ڈیمنشیا کچھ لوگ ٹیکنالوجی کی کثرت استعمال سے ڈیجیٹل ڈیمنشیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں معلومات پر توجہ مرکوز کرنے یا یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سائبر کونڈریا ’الیکٹرانک ہائپوکونڈریا‘ اس سے مراد حد سے زیادہ پریشانی جو کسی بھی شخص کو اس کی صحت کے بارے میں پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہے وہ یہ کہ آن لائن اپنے طبی مسائل کے بارے میں دریافت کرنے سے صحت کے حوالے سے بے چینی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے بھی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
انٹرنیٹ کے استعمال کی عادت بعض افراد اس قدر انٹرنیٹ کے استعمال کے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے اس کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں جس سے ان کے سماجی راوبط ہی نہیں بلکہ کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
احساس کمتری اور خود اعتمادی کا فقدان اس حوالے سے کی گئی ایک تحقیق، جو ’جے اے ایم اے‘ میگزین میں شائع ہوئی، میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو یومیہ تین گھنٹے سے زیادہ وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی کمی اور احساس محرومی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ذہنی انتشار اور اضطراری عمل اگرآپ آن لائن گیمز یا سمارٹ فون سرفنگ میں کافی وقت گزارتے ہیں تو اس صورت میں ذہنی انتشار جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں دیگر مسائل بھی پیش آ سکتے ہیں اور آپ کے پیشہ ورانہ شب روز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
توجہ کا فقدان تاہم یہ بات حتمی نہیں کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے پریشانی اور بے چینی میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے، تاہم جدید تحقیق میں توجہ کے فقدان کا بڑا سبب انٹرنیٹ پر زیادہ دیر گزارنے کو قرار دیا گیا ہے۔
نیند کی مشکلات بعض افراد کی یہ عادت بن جاتی ہے کہ وہ سوتے وقت اپنے ساتھ موبائل فون رکھ لیتے ہیں۔ ان کو گمان ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی میسج آئے گا یا فیس بک پر کوئی اپ ڈیٹ ہی آ سکتی ہے۔ بعض اوقات ان کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی اور وہ سوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ نیند میں دشواری کا دوسرا سبب ’بلو ریز‘ یعنی نیلی روشنی ہوتی ہے جو سمارٹ فون کی سکرین سے خارج ہوتی ہے۔ یہ بھی نیند میں دشواری کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے میلاٹوئین نامی ہارمونز کا اخراج متاثر ہوتا ہے اور یہ شعاعیں جسمانی اعضا کو بھی متاثر کرنے کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق گذشتہ 50 برسوں سے بالغ افراد کی نیند کا اوسط دورانیہ آٹھ گھنٹے ہوتا ہے جس میں اب کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور آج کے وقت میں یہ سات گھنٹے ہو گیا ہے اور یہ عمل یقینی طور پر جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جسم پر ٹیکنالوجی کے اثرات صرف نفسیاتی صحت ہی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کی زد میں نہیں رہتی بلکہ جسمانی صحت کو بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے غیرضروری استعمال سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ اس بارے میں بعض مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں جو جسمانی صحت کے حوالے سے ہیں۔
1 ۔ آنکھوں پر دباؤ سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر کا مسلسل استعمال کرنے والوں کو آنکھوں میں جلن، خشکی اور دباؤ کے علاوہ سر، گردن اور کندھوں میں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ کے بعض عوامل کی ذیل میں نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ۔ وہ وقت جو سکرین کے سامنے گزارتے ہیں ۔ سکرین کی تیز روشنی ۔ آنکھوں سے سکرین کا غیرمناسب فاصلہ ۔ آنکھوں کے مسائل کا پہلے سے شکار ہونا اس لیے آنکھوں پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے دباؤ کو کم کرنے اور انہیں بار بار ہونے والی تکلیف سے بچانے کے لیے بیس بیس کی مشق پر عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ مشق خاص طور پر ان لوگوں کے لیے کارآمد ہوتی ہے جو طویل دورانیہ تک سمارٹ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہیں۔
2 ۔ غلط نشست اکثر لوگ سکرین کے سامنے غلط طریقے سے بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر افراد کے کمپیوٹر کی سکرین نیچے کی جانب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ افراد جو زیادہ دیر تک ڈیسک پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں وہ ہر تھوڑی دیر بعد اٹھ جائیں اور اعضا کو حرکت دیں تاکہ جسم پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ 3 ۔ جسمانی حرکت یا عمل میں کمی یہاں خطرے کی گھنٹی آپ کو متنبہ کرتی ہے کیونکہ زیادہ دیر تک بغیر جسمانی حرکت کے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے مختلف نوعیت کی جسمانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں موٹاپا�� دل اور شریانوں کے امراض اور شوگر یا دوسرے درجے کی ذیابیطیس شامل ہے۔
ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنی نفسیاتی اور جسمانی صحت کو برقرار رکھا جائے؟ جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کا مقابلہ دانش مندی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ذیل میں چند تجاویز بیان کی جا رہی ہیں۔ ۔ ایسی کسی بھی ایپلی کیشن اور دوستوں کو ڈیلیٹ کر دیں جن سے رابطے پر آپ کو اداسی کا سامنا کرنا پڑے۔ ۔ ای میل پر ایسی اپ ڈیٹس کو بلاک کر دیں جو آپ کے لیے غیرضروری ہوں، جتنی کم میلز ہوں گی اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ۔ نوٹیفکیشن ساؤنڈ کو آف کر دیں جب آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ ۔ دن کا کچھ وقت ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رہیں۔ ۔ سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل اپنی تمام ڈیجیٹل ڈیوائسز کو آف کر دیں جس سے آپ پرسکون نیند حاصل کر سکیں گے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes