#گھنٹوں
Explore tagged Tumblr posts
Text
دھند کے باعث ٹرینوں کی آمد و رفت میں گھنٹوں تاخیر
(24نیوز)دھند کے باعث کراچی میں کینٹ اسٹیشن پر ٹرینوں کی آمد و رفت گھنٹوں تاخیر کا شکار ہے۔ ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے,ایک مسافر نے بتایا ہے کہ خیبر میل کو رات 10 بجے کینٹ اسٹیشن پہنچنا تھا جو صبح 5 بجے پہنچی ہے، مسافروں کو ٹرینوں سے متعلق معلومات دینے والا بھی کوئی نہیں،مسافر کا کہنا ہے کہ سکھر ایکسپریس اکثر تاخیر سے روانہ ہوتی ہے، ریلوے انتظامیہ کہہ رہی ہے…
0 notes
Text
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دن اور رات 12 12 گھنٹوں پر مشتمل ہوگا
(24نیوز) آج پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں دن اور رات کا دورانیہ برابر ہوگا، جس کے مطابق دن اور رات دونوں 12 گھنٹے پر مشتمل ہوں گے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ قدرتی مظہر سال میں دو مرتبہ 22 مارچ اور 22 ستمبر کو ہوتا ہے، جب سورج خط استواء کے عین اوپر ہوتا ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج سال میں دو بار خط استواء کو عبور کرتا ہے , پہلی مرتبہ 22 مارچ کو جب سورج جنوبی کرہ میں واقع خط جدی سے شمالی…
0 notes
Text
میں دھنوں اور اقتباسات کی تلاش میں گھنٹوں صرف کرتا ہوں صرف ان لفظوں کو ڈھونڈنے کے لیے جو میں کہہ نہیں سکتا۔
I spend hours searching for lyrics and quotes only to find the words I can't say.
35 notes
·
View notes
Text
is it true¿?
ہر چیز سے دِلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے
فون ہاتھ میں پکڑے گھنٹوں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا کروں؟
پیج کھول لُوں تو سمجھ نہیں آتا آج کیا پوسٹ کروں؟
جیسے زِندگی کہیں گُم ہو گئی ہے
مُکمل کِنارہ کرنے کو جِی چاہتا ہے
اور جب سہنے کی لت لگ جائے ، تو کُچھ کہنے کی چاہ نہیں رہتی
#urdu ghazal#urdu quote#urdu literature#love#urdu shairi#urdupoetry#unsaid#urdu#poetry#explore#recent#urdu poet#urdu lines
19 notes
·
View notes
Text
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے
ترچھے ترچھے تیر نظر کے لگتے ہیں
سیدھا سیدھا دل پہ نشانا لگتا ہے
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے
پاؤں نا باندھا پنچھی کا پر باندھا
آج کا بچہ کتنا سیانا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے
ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے
سننے والے گھنٹوں سنتے رہتے ہیں
میرا فسانہ سب کا فسانا لگتا ہے
کیفؔ بتا کیا تیری غزل میں جادو ہے
بچہ بچہ تیرا دوانا لگتا ہے
2 notes
·
View notes
Text
وہ خوش تھی
جب خاک پہ بیٹھتی تھی
وہ خوش تھی
جب اسے درگاہ کی دہلیز پہ
عشق دکھائی دیتا تھا
نہ کوئی اور آواز تھی
نہ ہی کچھ سنائی دیتا تھا
وہ خوش اپنی روح کے ساتھ
کہ جب جسموں کی سرحدوں پہ کو پہرے نہ تھے
جب اس کے اردگرد رہنے والے بہرے نہ تھے
وہ خوش تھی اس اک شخص کے ساتھ
جو تہی دست تھا مگر
اپنے ساتھ چاند ستارے سب لاتا تھا
جو گھنٹوں جدوجہد کر کے اسے ہنساتاتھا
جو اپنے لمحوں کی ساری بارشیں فقط اس پہ لٹاتا تھا
جو اسکے جسم سے بہت دور روح میں سما جاتا تھا
وہ خوش تھی
کہ جب وہ قید نہ تھی سنگ مرمر کی دیواروں میں
جب وہ تنہا نہ تھی ہزاروں میں
کہ جب کھڑکی کے سرہانے چاند تکتی تھی
آنکھوں کی چمک سے شمع سی چمکتی تھی
جب اندھیروں میں نور ہوتا تھا
اس کے چہرے پہ یار کا نور ہوتا تھا
وہ خوش تھی جب فراق منہ زور نہ تھا
جب وصل بس میں تھا درمیاں کوئی اور نہ تھا
جب ہجر کے ناخن روح کو نہ نوچتے تھے
جب پہروں بیٹھ کے نہ سوچتے تھے
وہ خوش تھی
جب کاجل پانی بن کے نہ بہتا تھا
کوئی ہر پل چاکا و چوبند آنکھوں میں رہتا تھا
خوابوں کی کھڑکیاں جب کھلی تھیں
جب نیندوں پہ نہ کوئی پہرہ تھا
ہاں وہ خوش تھی
جب پگڑیوں نے اسے قربان نہ کیا تھا
جب اسکے دل کی دنیا کو ویران نہ کیا تھا
ہاں وہ خوش تھی
کہ جب رات یوں کالی نہ تھی
کہ جب اسکے کانوں میں غیر کی بالی نہ تھی
کہ جب کھڑکی کی دوسری طرف کوئی جالی نہ تھی
کہ جب کھڑکی کی دوسری طرف کوئی جالی نہ تھی
ازقلم توصیف انیس
3 notes
·
View notes
Text
میری نظریں میری ماں کے چہرے پر مرکوز تھی وہ بڑی مشکل سے سانس لے پا رہی تھی جب میری ماں کی سانس لینا کی آواز دھیمی ہو جاتی تو میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھی میں فورا ان کے قریب جاتا ان کی جانب دیکھتا بعض اسے پکڑ کر ہلاتا ہاتھ تھام لیتا اور کہتا اماں اماں بولتی کیوں نہیں ہو اگلے ہی پل میری اماں کی تھوڑی سی آنکھیں کھلتی اور آنکھیں کھول کر کہتی کہ بیٹا ابھی تیری ماں کی سانسیں باقی ہیں ۔اماں ایسی باتیں کیوں کرتی ہو ابھی تو تم نے بہت کچھ دیکھنا ہے تم سونا چاہتی ہو سو جاؤ لیکن اگر ذرا سا بھی تکلیف محسوس کرو تو مجھے بتانا میں فورا ڈاکٹر کو بلا لوں گا میری اماں نے صرف سر کو جمبش دی تھی اور پھر آنکھیں موند لی ایک دم سے اس کی سانسوں کی آواز اس قدر تیز ہو جاتی میرا دل گھبرانے لگتا عجیب طرح کے وسوسے میرے دماغ میں آنے لگتے تھے لیکن اگلے ہی پل وہ ایک دم سے پھر نارمل ہو جاتی تھی میرے ہاتھ میں سورہ یاسین تھی میں پچھلے تین گھنٹوں سے کتنی ہی مرتبہ سورہ یاسین پڑھ کر اپنی ماں پر پھونک چکا تھا ایسے کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ میری ماں ٹھیک ہو جائے اس کا جو بھی مسئلہ ہے خدا معجزاتی طور پر ٹھیک کر دے لیکن معجزے مجھ جیسے لو��وں کے لیے عام تھوڑی ہوا کرتے ہیں میں رونے لگا بے بسی کا شکار تھا کاش میں اپنی ماں کی قدر پہلے کر لیتا جیسے اب کر رہا تھا میں پہلے ہی اپنی ماں کی ہر حرکت پر نظر رکھتا دیکھتا کہ وہ کیا چاہتی ہیں کیا محسوس کر رہی ہیں لیکن میں نے ان کے بارے میں ہمیشہ لاپرواہی کا ہی مظاہرہ کیا تھا نہ جانے ��پنی ماں کے ہاتھ پر رکھے میری بھی آنکھ لگ چکی تھی جب میری انک کھلی تو میرے بالوں میں کوئی ہاتھ پھیر رہا تھا آنکھیں کھول کر دیکھا تو بے ساختہ میرے منہ سے اماں نکلا تھا میری ماں بھلے ہی نیند کی شکار تھی لیکن اس کے باوجود وہ میرے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہی تھی کہنے لگا کہ بیٹا سو جانا جا کر مت فکر کر میری میں ٹھیک ہو جاؤں گی اب دیکھنا میں تو یہاں پر لیٹی آرام کر رہی ہوں لیکن تجھے میں نے اس قدر پریشان رکھا ہے درد ہو جائے گا تجھے کمر میں ایسے بیٹھ بیٹھ کر جا شاباش گھر جا کر آرام کر لے میری فکر مت کر میری طبیعت خراب ہوئی تو میں یہاں پر نرس کو بولوں گی وہ تجھے بلا لے گی میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو ٹوٹ کر نکلنے پر آئے تھے کتنی فکر تھی میری ماں کو میری اس حالت میں بھی اسے صرف میری ہی فکر تھی میں رونے لگا روتے ہوئے کہنے لگا کہ اماں بس کر دو مت کیا کرو میری فکر میں کوئی بچہ نہیں ہوں تمہارا بیٹا ہوں بیٹا اور بیٹوں پر کئی طرح کے فرائض ہوتے ہیں میں نے تو ٹھیک سے وہ فرائض بھی نہیں نبھائیں جو کہ ہر بیٹے کو اپنی ماں کے لیے نبھانے چاہیے تھے تم تو میرا ماں اور باپ دونوں بن کر میرے ساتھ رہی لیکن میں اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا اماں میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں بس میرا اللہ تجھے جلدی جلدی ٹھیک کر دے مجھے ماضی کا وہ وقت یاد آنے لگا میں اس وقت صرف چھ سال کا تھا جیسے ہی ہوش سنبھالا تھا تو گھر میں لڑائی جھگڑے ہی دیکھے تھے ۔ میرے ابا زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ مگر پھر بھی تھوڑا بہت پیسہ ضرور جمع کر رکھا تھا۔ مگر مجھے اپنے ابا زیادہ پسند نہ تھے۔ کیونکہ وہ ایک جھگڑالو قسم کے مرد تھے۔یہی کہتے تھے کہ بیٹا تیری ماں سے تو شادی کر کے میں نے غلطی کر دی ارے اس نے کوئی سیدھا کام کیا ہی کیا ہے میں خاموشی سے ابا کی باتیں سنتا رہتا تھا اماں روتی بھی رہتی اور ابا کے کام بھی کرتی رہتی اسے جھگڑتی بھی رہتی اور اس کی ٹانگیں بھی دباتی رہتی جبکہ ابا اسے وہی ٹانگ ٹھوکر مار کر بستر سے گرا دیا کرتا تھا بار بار اماں کو کہتا تھا کہ اپنی اوقات میں رہ تو میرے پاؤں کی جوتی ہے جوتی اگر زیادہ تکلیف دینے لگ گئی تو اتار کر پھینک دوں گا اور نہیں جوتی پاؤں میں پہن لوں گا اس طرح کی باتیں کر کر کے ابا اماں کو بہت تکلیف دیا کرتے تھے پہلے پہل تو میں بھی ابا کی طرح اماں سے نفرت کرنے لگا تھا لیکن دھیرے دھیرے مجھے احساس ہونے لگا کہ ابا کو نہ ہی مجھ سے محبت ہے اور نہ ہی اماں سے بلکہ انہیں تو ہر اس عورت سے محبت ہے جو ان سے ہنس کر دو گھڑی بات کر لیا کرتی ہے گاؤں میں کوئی تقریب ہوتی یا ہمارے گھر میں مہمان خواتین آ جاتی تو ابا کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی وہ تو ان عورتوں کے آگے پیچھے گھومنے لگتا تھا ایسے پیار بھری رسیلی باتیں کرتا کہ جیسے اس سے زیادہ میٹھا اور اخلاق والا بندہ ہی کوئی نہیں ہے آج تک میں نے ابا کو اماں سے محبت بھری باتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ہاں شاید جب نئی نئی شادی ہوئی ہوگی تب کچھ عرصے تک ابا اماں سے محبت بھری باتیں کرتے رہے ہوں گے لیکن میں نے تو اب صرف اور صرف ان کو اماں سے لڑتے دیکھا تھا اور غیر عورتوں میں دلچسپی لیتے ہی دیکھا تھی ایک روز اماں کی سہیلی ہمارے ہاں آئی وہ بھی کالا
youtube
0 notes
Text
قوتِ برداشت میں کمی محسوس ہو تو کیا کریں؟
معمولاتِ زندگی انجام دینے کے بعد تھکن کا شکار ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر آپ کو اکثر اپنی قوتِ برداشت معدوم پڑتی محسوس ہوتی یا جلد تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے یا پھر سانس کی روانی میں پریشانی محسوس کرتے ہیں تو اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان علامات کا مطلب ہے کہ زیادہ تر وقت بیٹھ کر، بہت زیادہ اسٹریس میں یا دوسری غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں گزارتے ہیں تو یہ بھی قوتِ برداشت میں کمی یا تھکاوٹ کی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس سلسلے میں چند کارآمد مشورے درج ذیل میں دیے گئے ہیں۔
ناشتہ نہ چھوڑیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ دن کا آغاز ناشتے سے ہو کیونکہ ناشتہ 24 گھنٹوں میں سب سے اہم کھانا ہوتا ہے، جو میٹابولزم کو تقویت دینے میں بہت کام آتا ہے۔
کونسی غذائیں ڈپریشن کم کرتی ہیں؟ اگر ناشتہ ٹھیک سے نہیں کریں گے تو اپنے میٹا بولزم کو کمزور کر لیں گے، اگر ممکن ہو تو اپنے ناشتے میں روزانہ جوَ کا دلیہ یا لال آٹے والی ڈبل روٹی اور انڈوں کو ضرور شامل کریں۔ کبھی کبھار پی نٹ بٹر سے اپنی کیلوریز بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ توانائی حاصل ہو۔
پانی کی کمی سے بچیں اگر کبھی بھی توانائی کی کمی محسوس کریں تو فوراً پانی پی لیں اور کوشش کریں کہ وقفے وقفے سے پانی اور مشروبات باقاعدگی سے لیتے رہیں۔ اگر ناشتے میں ایک گلاس چقندر کا جوس پی لیتے ہیں تو اس کے حیرت انگیز فوائد محسوس ہوں گے۔ چقندر میں بے پناہ نائٹریٹ ہوتا ہے، جو قوتِ برداشت بڑھاتا ہے، صبح نیم گرم پانی پینے سے بھی میٹا بولزم کو فائدہ ہوتا ہے اور نظامِ ہاضمہ بہترین طریقے سے کام کرتا ہے۔ میگنیشیئم اہم ہے اگر آپ کھیلوں یا جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں تو میگنیشیئم روزانہ کی ڈائٹ کا لازمی حصہ ہونا چاہئے۔ میگنیشیئم گلوکوز کو توانائی میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے، جس سے تقویت ملتی ہے۔ ہرے پتوں والی سبزیاں، بادام، گریاں، بیج، مچھلی، سویا بین، ایواکاڈو، کیلا اور ڈارک چاکلیٹ میگنیشیئم کے حصول کا عمدہ ذریعہ ہیں۔
روزانہ ورزش کریں کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ سارا دن کام کاج میں مصروف رہنے کے بعد ورزش کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ باقاعدہ ورزش کرنے سے تھکن دور کی جا سکتی ہے اور فٹ رہ سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ایکسر سائز جیسے روزانہ چند منٹ کی جاگنگ، واکنگ اور سوئمنگ مضبوط بناتی ہیں۔ رننگ اور سائیکلنگ ایک ہی وقت میں کیلوریز بھی جلا رہی ہوتی ہیں اور قوتِ برداشت بھی بڑھاتی ہیں۔ اگر گھر سے باہر نہیں جا سکتے تو گھر میں ٹریڈ مل پر رننگ یا جاگنگ کر سکتے ہیں۔ آرام دہ حالت میں دل و دماغ کو سکون پہنچانے کے لیے یوگا کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار مشکل ایکسر سائز جیسے جمپنگ اور ڈمبلنگ بھی اسٹیمنا کو مزید بڑھا سکتی ہیں، تاہم اس کے لیے ماہرین کی خدمات اور مشورے درکار ہوں گے۔
کاربوہا��ڈریٹ نہ بھولیں کاربوہائڈریٹ (نشاستے) سے بھرپور غذائیں جیسے کہ شکر قندی، براؤن بریڈ وغیرہ اسٹارچ اور شوگر فراہم کرتی ہیں، جو جسم میں توانائی میں تبدیل ہو کر قوتِ برداشت بڑھاتی ہیں۔ مزید یہ کہ روٹی، پاستا اور چاول میں موجود پیچیدہ کاربوہائڈریٹس، سادہ کاربوہائڈریٹس کے برعکس چاق و چوبند رکھتے ہیں اور سارا دن مستعدی سے کام کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، یعنی یہ غذائیں سارا دن چلانے کے لیے ایندھن کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔
وزن کم کرنے کیلئے ورزش سے قبل کیا کھائیں اور کیا نہیں؟ اپنی خوراک میں تازہ پھلوں، میوہ جات اور جوَ کو بھی شامل رکھیں، یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور کولیسٹرول کی سطح کم رکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
بھرپور نیند جیسے آپ اپنا موبائل فون چارج کرنا نہیں بھولتے، اسی طرح آپ کو بھرپور نیند کے ساتھ خود کو چارج کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔ کم از کم 7 سے 8 گھنٹے کی نیند لینے سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے تازہ دم ہو کر ہر کام کر پائیں گے۔ اگر رات کو نیند نہ آئے تو مراقبہ یا یو گا کریں، اس سے ذہنی تھکن اور اسٹریس دور کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ رات کھانا کھاتے ہی فوراً سونے سے جسم میں چربی کی مقدار بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے، اسی لیے رات کے کھانے اور سونے کے درمیان کم سے کم ایک گھنٹے کا وقفہ ضروری ہونا چاہیے۔ کھانا کھانے کے بعد تیز تیز چلنے سے میٹا بولزم اور نظامِ ہاضمہ بہتر ہوتا ہے۔
صحت بخش غذائیں قوتِ برداشت بڑھانے کا مطلب یہ نہیں کہ جو ہاتھ میں آیا اسے کھا لیا، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ ایسا کیا کھایا جائے جو صحت بخش ہو۔ اپنے جسم کو مسلسل توانائی فراہم کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ دن میں تین 3 وقت کے کھانے کو 5 وقت میں تقسیم کر دیا جائے۔ وٹامن سی والی غذائیں توانائی بڑھانے میں مدد کرتی ہیں، ان سے قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے۔
ایک سیب روزانہ، واقعی رکھے ڈاکٹر سے دور؟ کینو، کیوی، لیمن، سنگترے، ہر قسم کی بیریز، سیب، امرود، گریپ فروٹ، پالک، شملہ مرچ، ٹماٹر، بروکلی، گوبھی وغیرہ وٹامن سی کے حصول کا عمدہ ذریعہ ہیں جبکہ مچھلی، انڈے، چکن، دودھ، پنیر، خشک میوے، دودھ، دہی، ہرے پتوں والی سبزیاں اور سارڈین مچھلی آئرن اور کیلشیئم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔
نمک کے استعمال میں احتیاط جسمانی مشقت یا ایکسر سائز کرتے وقت بہت زیادہ پسینہ آنے سے جسم میں نمکیات کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور چکر آنے یا غنودگی ہونے سے اسٹیمنا کم ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیں اپنی توانائی بحال رکھنے کے لیے روزانہ 2300-2400 ملی گرام سوڈیئم درکار ہوتا ہے، جو روزانہ کی غذاؤں سے پورا ہو جاتا ہے، تاہم اس کی زیادتی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے چپس، فاسٹ فوڈز، کین فوڈ، پہلے سے تیار شدہ سوپ، فروزن فوڈز یا پراسیسڈ غذاؤں سے اجتناب ضروری ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد : اسرائیلی فوج رفح سے نکلنا شروع
غزہ میں جنگ بندی معاہدے پرعمل شروع ہونے میں چند گھنٹوں کا اور انتظار باقی رہ گیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ میں رفح سٹی سے نکلنا شروع کردیا ہے۔ فوجیں مصر سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی راہداری کے ساتھ موجود رہیں گی۔ لٹے پٹے فلسطینی بچے کچھے سامان کے ساتھ تباہ حال گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں، جنگ بندی شروع ہونے سے پہلے اسرائیلی حملوں میں 33 بچوں سمیت مزید 122 فلسطینی شہید…
0 notes
Text
0 notes
Text
24 گھنٹوں میں 11 لاکھ سے زائد جرمانے عائد
(فاران یامین)لاہور سمیت مختلف اضلاع میں سموگ کریک ڈان کے دوران 434 دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر 8 لاکھ 68 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ مریم نواز اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب کے حکم پر سموگ تدارک کے لیے کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے ، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 434 دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر 8 لاکھ 68 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس کے علاوہ 85 گاڑیوں کو بغیر ترپال…
0 notes
Text
گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبہ بھر میں ڈینگی کے109 کیسز رپورٹ
زاہد چودھری:ڈینگی نے پھر سر اٹھا لیا،باغوں کے شہرمیں ڈینگی کے وارجاری ہیں۔محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے میں لاہور سے ڈینگی کے تین کیسز جبکہ 24گھنٹےمیں صوبہ بھر میں ڈینگی کے109کیسز جبکہ ایک ہفتہ میں859ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے۔محکمہ صحت کے ترجمان کے نے بتایا ہے کہ رواں سال ابتک ڈینگی کے2ہزار976ڈینگی کیسزرپورٹ ہوئے، انسداد ڈینگی کے لئے انتظامات مکمل کر رکھے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی سمیت…
0 notes
Text
پی آئی اے کا عروج و زوال
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز‘‘ کے ساتھ ایک رومانس رکھتے تھے۔ جو شخص بھی بیرون ملک روانہ ہوتا یا پاکستان واپس جاتا تو پاکستانی پرچم بردار ائیر لائن کو ترجیح دیتا۔ دیار غیر میں ایئرپورٹ پر کہیں کونے میں بھی پی آئی اے کا کیبن دیکھتے تو وہیں ایک چھوٹا سا پاکستان آباد ہو جاتا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ایک ہی اڑان میں یورپ اور کینیڈا سے مسافروں کو اپنی بانہوں میں بھرتی اور لاہور اسلام آباد یا کراچی میں انکے مطلوبہ ایئرپورٹ پر اتار دیتی۔ اگر کوئی شخص بیرون ملک مزدوری کرتے ہوئے وفات پا جاتا تو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ایک ہمدرد ادارے کی طرح اسکے سارے فرائض اپنے ذمہ لیتی اور اسکی میت کو پاکستان منتقل کرنے کے تمام انتظامات منٹوں میں طے پا جاتے۔ ایک طویل عرصہ تک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن بیرون ملک رہنے والوں کیلئے ایک ماں کا کردار ادا کرتی رہی۔ پھر اس ایئرلائن کو نظر لگ گئی۔ محافظ، راہزن بن گئے۔ عروج سے زوال تک کا سفر ایسے بے ڈھنگے طریقے سے طے ہوا کہ آج اسکا نوحہ لکھتے ہوئے قلم بھی رو رہا ہے اور دل بھی بوجھل ہے۔
میں ان دنوں بیرون ملک سفر پر ہوں جس جگہ بیٹھتا ہوں پی آئی اے کا نوحہ شروع ہو جاتا ہے ہر پاکستانی کا دل پی آئی اے کے توہین آمیز اختتام پر انتہائی اداس ہے۔ جو مسافر ایک ہی اڑان میں دنیا کے کسی بھی کونے سے پاکستان پہنچ جاتے تھے آج انہیں پاکستان آنے کیلئے دربدر ہونا پڑتا ہے، پروازیں بدلنا پڑتی ہیں، کئی ملکوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، سامان اتارنا اور چڑھانا پڑتا ہے اور جو کام پی آئی اے سات گھنٹوں میں سر انجام دے دیتی تھی آج وہ 12 گھنٹوں میں بھی بطریق احسن انجام نہیں پاتا۔ دیار غیر میں وفات پانے والوں کی میتیں جو ضروری کارروائی کے بعد پی آئی اے اپنے ذمے لے لیتی تھی آج اس میت کو کئی کئی دن سرد خانے کی نذر ہونا پڑتا ہے۔ اول تو کوئی ائیر لائن میت لانے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی تیار ہو بھی جائے تو اس کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ مرنے والے کی ساری جمع پونجی بھی لگا دی جائے وہ اخراجات پورے نہ ہو سکیں۔ مجبوراً پاکستانی کمیونٹی سے چندہ کر کے اپنے بھائی کی میت دیار غیر سے وطن بھیجی جاتی ہے اور وہ بھی کارگو کے ذریعے۔
ایک شخص کے خاندان کیلئے اس سے بڑی اذیت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص ساری عمر دیار غیر کی خاک چھانتا رہا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے، انکے گھر بنانے، بچوں کی شادیاں کرنے کیلئے اپنی عمر صرف کر دی جب اسے مردہ حالت میں پاکستان آنا پڑا تو وہ مناسب طریقے کے بجائے ایک کارگو سامان کے ایک حصے کے طور پر پاکستانی ایئرپورٹ پر اترتا ہے۔ اخراجات کی تو بات چھوڑیں اصل بات تو عزت و وقار کی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل کا پرچم دنیا کے ہر ایئرپورٹ پر لہراتا تھا آج وہ پرچم اندرون ملک بھی رسوا ہو رہا ہے، جس کے طیاروں پر غیر ملکی ایئر لائنز تربیت لیا کرتی تھیں آج ان طیاروں کی حالت ایسی ہے کہ شاید انہیں سڑکوں پر بھی نہ چلایا جا سکے۔ جو ادارہ غیر ملکی ایئر لائنوں کو فضائی میزبان تیار کر کے دیتا تھا آج وہاں پر ڈھنگ کے میزبان بھی دستیاب نہیں ، جس کے پائلٹ دنیا بھر کیلئے عزت و فخر کا نشان ہوا کرتے تھے آج ان کے ماتھے پر جعلی ڈگری کا جھوٹا داغ لگا کر پوری دنیا میں ان کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔
پی آئی اے کے زوال کا ہر دن پاکستانیوں کے دل زخمی کرنے والی داستان ہے، یہ کہانی لکھتے ہوئے انگلیاں فگار ہیں، کس کے ہاتھ پہ میں پی آئی اے کا لہو تلاش کروں۔ ایک ایسی ائیر لائن جسکے پاس کل 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے 320، 12 بوئنگ 777 اور چار اے ٹی آر ہیں۔ جس کے مجموعی اثاثوں کی بک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کر رکھی ہو، اس کی بولی محض دس ارب روپے لگانا بذات خود توہین آمیز اور ناقابل یقین ہے۔ ایک ایسی کمپنی جیسے ہوا بازی کا تجربہ ہی نہیں اس کو نیلامی کی بولی میں شامل کرنا کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ ’’غیر سیاسی‘‘ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر نجکاری جناب عبدالعلیم خان، وزیر خزانہ جناب محمد اورنگزیب کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر قومی اثاثہ برائے فروخت نہیں ہوتا۔
ہم تو یہ توقع لگائے ہوئے تھےکہ ملکی معیشت کے اشاریے بہتر ہوں گے اور اسٹیل مل پی آئی اے جیسے ادارے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔ خدارا ملک کی سلامتی اور ملک کا امتیازی نشان بننے والے اداروں کو فروخت کرنے کے بجائے ان کی بحالی پر توجہ دیں۔ اگر صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ پنجاب اور پلاٹ بیچنے والی کمپنی یہ ادارہ چلانے کا دعوی�� کر سکتی ہے تو خود حکومت کیوں نہیں چلا سکتی۔ پی آئی اے بچائیں اور اسے چلائیں۔ امیگریشن حکام کی بدسلوکی اور بے توقیری کا نشانہ بننے والوں کے زخموں پر مرہم اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ایک مرتبہ پھر اڑان بھرے اور سبز ہلالی پرچم پوری دنیا میں لہرائے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پریس ریلیز
*پنجاب میں کام ہو رہا ہے جبکہ فتنہ پارٹی فتنہ گردی میں مصروف ہے: عظمٰی بخاری*
*ایک صوبے کا ''مولا جٹ'' ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے: عظمٰی بخاری*
*میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار ��ضع کیا جا رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*صحافیوں کے لئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، ان کے مسائل کا حل میری پہلی ترجیح ہے: سید طاہر رضا ہمدانی*
*ڈی جی پی آر کو جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا میرا مشن ہے: غلام صغیر شاہد*
لاہور30 ستمبر:- نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز غلام صغیر شاہد کی جانب سے نجی ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری اور سیکریٹری انفارمیشن سید طاہر رضا ہمدانی نے خصوصی شرکت کی۔ بیٹ رپورٹرز، بیورو چیفس، کالم نگار اور نیوز ایڈیٹرز بھی ظہرانے میں مدعو تھے۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے کہا کہ پنجاب میں کام ہو رہا ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز ہر روز عوام کے مسائل کے حل کے لئے گھنٹوں میٹنگز کرتی ہیں۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی آپ سب کے سامنے ہے۔ اس لئے پنجاب کے لوگ فتنہ پارٹی کی فتنہ گردی کا حصہ نہیں بنتے۔ ایک صوبے کا مولا جٹ ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ ایک مخصوص جماعت اور اس کے کارندوں نے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لاہور کے ناکام جلسے اور راولپنڈی کے فلاپ احتجاج کے بعد یہ باولے ہو چکے ہیں۔ان کا اپنا صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن ان کو فکر صرف پنجاب میں جلسے اور احتجاج کرنے کی ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو بھی بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے۔جس طرح پنجاب کے بچوں کو لیپ ٹاپس، سکالرشپس اور الیکٹرک بائکس مل رہی ہیں اسی طرح خیبر پختونخواہ کے بچوں کو بھی یہ سب کچھ ملے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہم میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کر رہے ہیں اور وزیراعلی پنجاب جلد ڈی جی پی آر کا دورہ کریں گی۔ اس موقع پر سیکریٹری انفارمیشن سید رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے مسائل حل کرنا ہماری پہلی ترجیح ہے۔ میرے دروازے صحافیوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ صحافی کالونی کے مسائل ہوں یا صحافیوں کی گرانٹ کے، انکے حل کو ترجیح دی جائے گی۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمیشہ مثبت رول ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے کہا کہ وزیر اطلاعات پنجاب نے جو ٹاسکس دیے ہیں انکو جلد از جلد پورا کریں گے۔ وزیراعلٰی پنجاب کے ویژن کے مطابق محکمہ اطلاعات کو چلایا جارہا ہے۔ ڈی جی پی آر کے آپریشنل ہیڈ متحرک اور موثر بنانا میرا مشن ہے۔ ہم نے آتے ہی میڈیا کے التواء شدہ بقایاجات میں سے 20 کروڑ ادا کئے ہیں۔ باقی ادائیگیاں آنے والے دنوں میں کردی جائیں گی۔ ڈی جی پی آر کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا بھی میرے ٹاسکس میں شامل ہے-
٭٭٭
0 notes
Text
گھنٹہ فرق نہیں پڑتا والا ایٹیٹوڈ گھنٹوں فرق پڑنے کے بعد ہی آتا ہے
1 note
·
View note
Text
مہنگے ریلوے سفر میں بدحال مسافر
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے کرایوں میں اضافے کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود برقرار ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی و بیشی ہوتی رہی مگر پاکستان ریلوے کے کرایوں میں کمی نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے ریلوے کے اہم محکمے کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے، جہاں کوئی وزیر موجود نہیں اور اویس لغاری ��و چند روز کے لیے ریلوے کا وزیر بنایا گیا تھا جس کے بعد سے ریلوے افسران ہی فیصلے کر رہے ہیں۔ جنھیں مسافروں کا کوئی احساس نہیں جس کی وجہ سے ریلوے مسافر لاوارث ہو کر سفر کر رہے ہیں جب کہ ریلوے کے بڑے افسروں کے سفر کے لیے ریلوے کے خصوصی اور شاہانہ سہولتوں سے آراستہ سیلون موجود ہیں جو مسافروں کا سفر ان کی بوگیوں میں جا کر دیکھیں تو شاید انھیں احساس ہو جائے کہ ریلوے مسافر کس بدحالی میں سفر کرتے آ رہے ہیں مگر وہ ایسا کیوں کریں گے ریلوے ٹرینوں میں بزنس کلاس اور اسٹینڈرڈ اے سی ہیں جب کہ اکنامی کلاس تیسرے درجے کی کلاس ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں جن کے کرائے بھی کچھ زیادہ ہیں ان میں کچھ بہتر بوگیاں اکنامی میں لگا دی جاتی ہیں مگر بعض دفعہ قراقرم اور بزنس ٹرین میں بھی پرانی اور خستہ بوگیاں جو سفر کے اب قابل نہیں مگر وہ بھی لگا دی جاتی ہیں جب کہ باقی ٹرینوں میں لگائی جانے والی اکنامی بوگیاں انتہائی خستہ حال اور ناقابل سفر ہوتی ہیں۔
جن کے پنکھے خراب، بلب غائب، واش روم گندے اور بعض میں اندر سے بند کرنے کے لاک تک نہیں ہوتے۔ اے سی کلاسز میں تو لوٹے اور ٹشو رول اور ہاتھ دھونے کا لیکوڈ ضرور ہوتا ہے مگر اکنامی کے لاوارث مسافر لوٹوں تک سے محروم ہوتے ہیں اور مسافر خریدے ہوئے پانی کو پینے کے بعد وہ خالی بوتلیں واش روم میں رکھ دیتے ہیں جو دوسروں کے بھی کام آ جاتی ہیں۔ اے سی بوگیوں میں مسافر کم اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ جہاں فاصلے کے بعد صفائی کرنے والے دوران سفر آ جاتے ہیں یا کوئٹہ سے پشاور یا کراچی سے لاہور، روہڑی اور راولپنڈی و پشاور تک کی گاڑیوں میں صفائی کا عملہ مقرر ہے جو پورے سفر میں ایک دو اسٹیشنوں پر اے سی کوچز کی صفائی کر دیتے ہیں مگر اکنامی کلاس کے مسافروں کو رفع حاجت کے لیے پانی کی معقول فراہمی، صفائی اور روشنی اور پنکھوں کی ہوا سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے جہاں گرمی میں پنکھے چلتے ہیں تو لائٹ نہیں ہوتی۔ واش رومز بدتر اور پانی سے محروم ہوتے ہیں۔ اکنامی کلاس میں بہت سے مسافر سیٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں فرش پر بھی سفر کر لیتے ہیں۔ اکنامی کلاسز میں مسافر بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان بوگیوں میں پانی جلد ختم ہو جاتا ہے۔
کراچی سے چلنے والی ٹرینوں میں روہڑی، ملتان اور لاہور میں پانی بھرا جاتا ہے اور دوران سفر واش رومز کا پانی ختم ہو جائے تو مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے یا ضرورت پر خود ہی متبادل انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ایئرپورٹس کی طرح تمام ریلوے اسٹیشنوں پر فراہم کر��ہ کھانا اور غیر معیاری ہوتا ہے جب کہ دوران سفر خوردنی اشیا، پانی کی بوتلوں اور کنفیکیشنری کے نرخ اسٹیشنوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور چائے و کھانا فروخت کرانے والوں کے ٹھیکیدار ریلوے عملے اور افسروں کو مفت کھانا اور چائے فراہم کرتے ہیں اور قیمت مسافروں سے وصول کر لیتے ہیں۔ ٹرینوں میں دوران سفر مسافروں کو تکیے اور چادریں مہنگے کرائے پر دی جاتی ہیں جو صاف نہیں ہوتے اور پرانے ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور دوران سفر فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت اور خوردنی کے سرکاری طور پر نرخ مقرر نہیں ہوتے اور مسافروں کو بازار سے کافی مہنگے ملتے ہیں جن کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ ریلوے کے سفر سڑکوں کے سفر کے مقابلے میں آسان اور آرام دہ کہا جاتا ہے مگر لمبے سفر کی ٹرینوں کی بعض بوگیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی اوپر کی نشست پر صرف لیٹا جا سکتا ہے بیٹھا نہیں جا سکتا۔ دوران سفر سامان کی حفاظت خود مسافروں کی ذمے داری ہے مگر رات کو بوگی میں روشنی کی فراہمی ریلوے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتی اور مسافروں کو کھانا کھانے اور ضرورت پر اپنے موبائل فونز سے روشنی کرنا پڑتی ہے۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
#Economy#Pakistan Economy#Pakistan Railway Crisis#Pakistan Railway History#Pakistan Railway Problems#Pakistan Railways#World
0 notes