Tumgik
#shahbaz khan
nebulascurse · 2 years
Text
Tumblr media
The Hidden sign
123 notes · View notes
Text
Tujhe pyaar kiya to tu he bata, hum ne kya koi jurm kiya
Aur jurm kiya hai to bhi bata, ye jurm ki jurd ki kya hai saza
3 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفت�� پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
social-blogs95 · 8 months
Text
Who will be elect of pakistani prime minister in 2024
آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار ؟
Choose for Vote Pulling in pakistan
Tumblr media
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
ملک اور عوام سے سیاسی قیادت کی لاتعلقی
Tumblr media
عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو یہ ورد کرتے رہے کہ ملک معاشی طور پر ان کی توقع سے زیادہ تباہ ہے۔ شہبازشریف کی قیادت میں زرداری، مولانا، خالد مقبول، اختر مینگل اور دیگر نے مل کر حکومت سنبھالی تو یہی دہائی دیتے رہے کہ ملک کو پی ٹی آئی نے جس طرح تباہ کر رکھا ہے، وہ ان کے خدشات سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ وہ کہتے رہے کہ انہوں نے ریاست کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دی۔ لیکن اب نگران آگئے ہیں تو وہ بھی یہی فریاد کر رہے ہیں کہ معیشت ہی نہیں بلکہ آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آرہی کہ اصلاح کا آغاز کریں تو کہاں سے کریں۔ جرنیلوں اور سیاستدانوں کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن اس ملک کو ناقابل اصلاح بنانے میں بڑا کردار بیوروکریسی، عدلیہ اور مافیاز کا ہے جن کا ذکر نہیں ہو رہا تاہم یہاں پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان سب کو کس نے خراب کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ان سیاسی رہنماوں نے۔ یہ لوگ ہوشیار ہیں اور بدرجہ اتم ہوشیار ہیں لیکن افسوس کہ ملک کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنا جو ”سسٹم“ بنا رکھا ہے یہ کیا معمولی اذہان کا کام ہے؟ ”سسٹم“ بنانے کی بجائے اگر وہ یہ صلاحیت اور قابلیت سندھ کے عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرتے تو کیا آج سندھ جنت نہ ہوتا؟۔ جو بڑے سیدھے سادے اور پاک بنے پھرتے تھے، وہ عمران خان کتنے چالاک نکلے۔ 
کتنی لابیوں سے ملے ہوئے تھے۔ کس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے۔ کس طرح جھوٹے بیانئے گھڑتے اور لوگوں کے اذہان میں بٹھاتے رہے۔ کس طرح اپنے ایک ایک محسن کو لتاڑا اور کس طرح ایک ایک مافیا کو نوازا ۔ مغربی طاقتوں کی اس طرح خدمت کی کہ اپنے عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو ان کا مخالف بنا کے رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دیکھ لیجئے۔ ڈیڑھ سال حکومت کی ۔ اپنے کیسز ختم کرائے۔ حکومت سے رخصت ہوتے ہوئے بھی بیوروکریسی کو قابو میں رکھنے کیلئے نگران سیٹ اپ اور بیورکریسی میں اپنے بندے چھوڑے کہ وہ بعد میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔ محترم مولانا صاحب کو دیکھ لیجئے ۔ مرکز میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ لیا۔ خیبر پختونخوا پر نگران کے نام پر سوا سال حکومت کی اور حقیقت یہ ہے کہ سوا سال میں پانچ سال کا کام نکال ڈالا۔ باہر بڑے انقلابی اور جمہوریت پسند بنے پھرتے ہیں لیکن اندر سے گزشتہ چار سال (مسلم لیگ، پی پی پی ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی) کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا بننے کا مقابلہ جاری رہا۔ عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سپورٹ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا لیکن ہدف سویلین بالادستی نہیں بلکہ یہی تھا کہ مجھے ماضی کی طرح دوبارہ گود لے کر اقتدار دلوا دے۔ 
Tumblr media
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی کے درمیان بھی یہ میچ زوروں پر رہا کہ کون زیادہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ بظاہر انقلابی نظر آنے والے قوم پرست بھی کچھ کم نہیں لیکن درپردہ ان کا کردار باپ پارٹی جیسا ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے چینل سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہ کر چہیتا بننے کی کوشش کرتا ہے تاہم عوام کے سامنے یا میڈیا میں ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے سویلین بالادستی کے اصل چیمپئن وہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو ملک کو معاشی اور معاشرتی حوالوں سے تباہ کرنے میں جرنیلوں اور ڈکٹیٹروں کا حصہ سیاستدانوں سے زیادہ ہے جبکہ ملک کو حالیہ تباہی سے دوچار کرنے والی سونامی کا پروجیکٹ بھی جرنیلوں نے شروع کیا تھا، جس کی ملک کے ساتھ ساتھ اب خود ان جرنیلوں کے وارث بھی بھاری قیمت چکا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی رہنما بھی رہنما کہلانے کے حقدار نہیں رہے ۔ سب نے اپنی اپنی باری گزار دی اور اب عوام کو بھاری بجلی بلوں، مہنگائی، دہشت گردی اور نگران حکومت کے سپرد کر کے ہر ایک اگلی مرتبہ اپنی باری کو یقینی بنانے میں لگ گیا ہے۔ 
بلکہ اگلی باری کی تیاری کیلئے چھٹیوں پر چلے گئے ہیں۔ ادھر بجلی کے اور مہنگائی کی وجہ سے عوام سڑکوں پر ہیں۔ ادھر نگران حکمران سرجوڑ کے بیٹھے ہیں کہ کریں تو کیا کریں لیکن کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی منصوبہ عمل اور نہ اس کی فکر ہے۔ اس لئے آرمی چیف بڑے سیٹھوں سے ملاقاتیں کر کے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ یہی سیٹھ ہر سیاسی اور فوجی حکمران کو اپنے دام میں لاکر اپنی معیشت کو مضبوط اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر چکے ہیں اور اب بھی ہمہ وقت ہر حکمران اور بیوروکریٹ کو گمراہ کرنے اورکرپٹ بنانے میں مگن رہتے ہیں۔ کل کسی نے پوچھا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن سیاسی قیادت کدھر ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مولانا محترم سوا سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد خدا کا گھر دیکھنے گئے تھے جبکہ ان کے بیٹے اور بھائی خدا کی شان دیکھنے انگلستان گئے تھے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بھی اسحاق ڈار کو ساتھ لے کر انگلستان میں خدا کی شان دیکھ رہے ہیں۔ زرداری صاحب اللہ کے گھر اور اللہ کی شان کے درمیان دبئی میں بیٹھے ہیں اور سندھ میں قائم اپنے ”سسٹم“ کو بچانے کیلئے سرگرداں ہیں ۔ جبکہ عمران خان اٹک جیل میں اللہ اللہ کر رہے ہیں۔ قوم پرست جماعتیں بڑی جماعتوں کے ذریعے مستقبل کے سیاسی نقشے میں اپنے آپ کو کسی کونے میں فٹ کرنے کیلئے درپردہ رابطے کررہی ہیں۔ سر دست صرف سعد رضوی اور سراج الحق سیاست کر رہے ہیں۔ رہے غریب عوام اور ملک تو وہ اللہ، آرمی اور نگرانوں کے سپرد ہیں۔
سلیم صافی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
akultalkies · 1 year
Link
Aksha Pardasany, Rohit Vikkram, Arsh Sandhu, Kunwar Aziz, Shahbaz Baweja, Pankaj Berry, Ehsan Khan, Govind Namdeo, Liyakat Nasir, Gargi Patel, Mahendra Raghuvanshi, Deepraj Rana
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ن لیگ کی مقبولیت ؟
Tumblr media
عمران خان عوام میں جتنے مقبول ہو چکے ہیں وہ اس سے زیادہ مقبول نہیں ہو سکتے بلکہ اب وہ غیر مقبول ہی ہوں گے اور (ن) لیگ عوام میں جتنی غیر مقبول ہو چکی ہے وہ اس سے زیادہ غیر مقبول نہیں ہو گی بلکہ یہاں سے وہ اپنا مقبولیت کا سفر ہی طے کرے گی‘‘۔ یہ منطق (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما اور میرے دوست مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کئے اور ہمیں مزید وقت درکار ہے، مگر اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد بھی بہت ضروری ہے لیکن اُس سے پہلے ملکی حالات مدنظر رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ پھر عمران خان کا احتساب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ (ن) لیگ کی طرف سے آج کل اسی قسم کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بیانیے کے مقبول ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے کنفیوژن کا شکار نہ ہو، اُسے پوری پارٹی تسلیم کرے اور اُس پر من و عن یقین رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمینی حقائق بھی ایسے ہونا ضروری ہیں جو آپ کے بیانیے کو فروغ دے سکیں۔ پھر اس طرح کی سوچ کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو برقرار رہا اور عمران خان کی مقبولیت اور آپ کی غیر مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ 
کیونکہ آپ بے شک اب یا سال بعد بھی جو کچھ مرضی کر لیں، اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ ویسے تو سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس تبدیلی کیلئے کسی ٹھوس وجہ یا منطق کا ہونا از حد ضروری ہے مگر (ن) لیگ کے اس بیانیے میں ایسی کوئی ٹھوس وجہ یا منطق نظر نہیں آ رہی۔ ابھی تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا اور اسکی شرائط روز بروز مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو جون میں پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا جس کی شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کے نتیجے میں جو مشکل فیصلے کئے جاتے ہیں اُن سے براہِ راست ملک کا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے جبکہ ملک کی اشرافیہ، جس کی ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج تک پہنچے ہیں، پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ حکومتی پالیسیوں کے ردِ عمل میں بھی غریب طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ 
Tumblr media
اس ساری رسہ کشی میں حکومت ایسے موقع کی تلاش میں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکے لیکن بدقسمتی سے الیکشن اگر اپنے وقت پر ہوں یا سال بعد بھی، حکومت کی مقبولیت میں کوئی اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ اگر حکومت نے یہ مشکل فیصلے نہ کئے تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے  پھر مقبول اور غیر مقبول کا کھیل تو رہا ایک طرف، سرے سے ان کی سیاست کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے حامیوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ عمران خان جتنے مرضی یوٹرن لے لیں، جتنے مرضی بیانیے بدل لیں، جس طرح مرضی اپنی کابینہ سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں ضبط شدہ اثاثے واپس دلوا دیں، جتنی مرضی گھڑیاں بیچ لیں، اُن کے حامیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ (ن) لیگ کے لوگ اس لئے حامی تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ (ن) لیگ معیشت کو سنبھال لے گی، کچھ ڈلیور کرے گی، یا عمران خان کے غیر جمہوری اعمال اور آزادی اظہار پر حملوں کی وجہ سے (ن) لیگ کے حمایت میں کھڑے تھے۔ 
اب اگر (ن) لیگ ڈلیور نہیں کر پا رہی، جس میں (ن) لیگ والوں کی اپنی غلطی ہے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر پھر سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگا دیا جن کی معیشت کو مصنوعی سنبھالا دینے کی حکمت عملی نے عوام کی اُس تکلیف کو، جو محض چند مہینوں میں کم ہو جانی تھی، کئی سال طویل کر دیا ہے۔ دیگر شعبے بھی سست روی کا شکار یا کنفیوژڈ نظر آتے ہیں۔ حکومت کی زیادہ تک پریس کانفرنسز اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے بجائے عمران خان پر تنقید پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حامیوں کا جوش و جذبہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپنے دورِ اقتدار میں صرف اس لئے غیر مقبول ہوئی تھی کیونکہ وہ عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی تھی۔ اس دوران عوام کو شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کی اس معاشی بدحالی کے تناظر میں اگر تحریک عدم اعتماد کے فوراً بعد انتخابات ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کلین سویپ کر جاتی۔ اب مگر لگتا ہے کہ حکومت یا پی ڈی ایم عوام کی معاشی بدحالی کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔
عمران خان سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈال کر اور آزادی اظہار اور صحافیوں پر پابندیاں لگا کر اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکے تھے، اور اب پی ڈی ایم بھی جو اسی پالیسی پر گامزن نظر آرہی ہے، اس کا انجام بھی تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہو گا۔ زیادہ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ خان صاحب اگر پھر سے حکومت میں آتے ہیں تو وہ پھر سے اُسی انتقامی سیاست کی پالیسی پر رہیں گے اور ملک کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ پھر (ن) لیگ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں نہ نوازشریف پاکستان واپس آ پا رہے ہوں اور نہ ہی حکومت عمران خان کو گرفتار کر پا رہی ہو۔ نہ ہی اُنہیں اداروں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور نہ وہ ملکی مسائل حل کر پا رہے ہیں۔ بلکہ جو لوگ جمہوریت کی بقا کی خاطر اس وقت حکومت کے حامی ہیں وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا عمران خان واقعی جمہوریت کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ جمہوریت بچانے کیلئے حکومت جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر تیار ہے۔ ایسا بیانیہ نہ بن سکتا ہے اور نہ ہی بک سکتا ہے۔ حکومت کیلئے اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا اس وقت بہت مشکل ہو چکا ہے۔
علی معین نوازش 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
clemencie · 2 years
Text
NPR
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
listen
0 notes
ajnabi57 · 2 years
Text
Teen Taal: Altaf Hussain Tafu Khan
Teen Taal: Altaf Hussain Tafu Khan
For all you drummers and percussionists out there this is a special treat. A recital of tabla playing by one of the famous Tafu brothers. Like the studio bands that backed the stars of Motown, Stax and other record labels back in the 60’s and 70’s, the Tafu brothers contributed their musicianship to countless Pakistani film scores. They worked particularly close with music director M. Ashraf in…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
therigh · 2 years
Text
The new army chief should first investigate what happened in the last 8 months
The new army chief should first investigate what happened in the last 8 months
The real problem was not the no-confidence motion, but giving the impression that Imran Khan failed, and the nation is still suffering from the consequences of the action taken. Secretary General PTI Asad Umar’s speech. Secretary General of Pakistan Tehreek-e-Insaaf Asad Umar has said that the new army chief should first investigate what happened in the last 8 months. The nation is also…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newsso · 2 years
Text
Asim Munir became Pakistan new Army Chief
Asim Munir became Pakistan new Army Chief
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
وزیراعظم، آرمی چیف غلط مشوروں سے ہوشیار
دو دن قبل مجھے ذرائع نے اطلاع دی کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ایک دو دن میں تفصیل معلوم ہو جائے گی۔ ملکی حالات کو دیکھ کر سوچا کہ کیا گڑ بڑ ہو سکتی ہے؟ سوچا کہیں مارشل لاء یا ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ تو نہیں کرلیا گیا ؟۔ اسی فکر میں عسکری ذرائع سے رابطہ کیا، اپنے خدشات کا اظہار کیا تو بتایا گیا ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، تاہم جو سیاسی صورتحال اس وقت ملک میں ہے اُس کے تناظر میں بدقسمتی سے بے شمار لوگ یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے بہتر تو مارشل لاء ہے۔ اس بارے میں ہمارے سیاستدانوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیوں اُن کا ایسا رویہ ہوتا ہے کہ لوگ جمہوریت سے ہی متنفر ہو جاتے ہیں۔ اس ملک میں بار بار مارشل لاء بھی لگتے رہے اور اُن کے نتیجے میں ملک کا جو حال ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ 
ہمارے سیاست دان بھی جمہوریت کے نام پر ووٹ تو لیتے ہیں لیکن عموعی طور پر اُن کے رویے اور طرز حکمرانی انتہائی مایوس کن ہوتا ہے چنانچہ لوگ اُن سے بھی خوش نہیں ہوتے۔ حل تو صرف یہی ہے کہ آئین کی پاسداری کی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف سب ادارے اپنا اپنا کام کریں تو دوسری طرف حکومتیں اور اسمبلیاں آئین کی منشاء کے مطابق پرفارم کریں، لوگوں کے مسائل حل کریں، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں، حکومتی اداروں میں عوام کے لئے ڈلیوری سسٹم کو فعال بنائیں۔ جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بس نواز شریف، زرداری اور عمران خان وغیرہ کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں بٹھا دیا جائے، جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت عوام کی زندگیوں کو بہتر بنائے اور ملک و قوم کی ترقی کیلئے دن رات ایک کر دے، وہ قانون کی حکمرانی، خود احتسابی، میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائے۔ 
جمہوریت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ الیکشن جیتنے والوں کو ملک پانچ سال کیلئے ٹھیکے پر دے دیا جائے کہ جو جی میں آئے کرتے پھریں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔ میں بات کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن مارشل لاء کے ذکر کی وجہ سے کہیں اور نکل گیا۔ گزشتہ روز مجھے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو کچھ لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کیلئے ایکسٹینشن دے دی جائے جبکہ جنرل باجوہ پہلے ہی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے اور اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔مجھے ذاتی طور پر بھی اہم عسکری ذرائع نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن کسی صورت میں نہیں لیں گے۔ اب کچھ افراد اس کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے راضی کریں۔
ایسا مشورہ دینے والے نہ حکومت کے خیر خواہ ہیں نہ جنرل باجوہ کے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگ کی قیادت کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ بھی ایسے مشورے کو سختی سے رد کریں گے۔ میری تو ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ایکسٹینشن تو ہونی ہی نہیں چاہئے، کیوں کہ اس سے فوج کے ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ میں تو شروع سے 2019 میں بنائے گئے اُس قانون کے بھی خلاف ہوں جس کے ذریعے افواج پاکستان کے سربراہان کو ایکسٹینشن دینے کیلئے ایک قانونی جواز پیدا کیا گیا، جس میں سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ دونوں نے بہت متنازعہ کردار ادا کیا۔ پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سب کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے اور ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ آئندہ ایکسٹینشن کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہان کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کی طرح سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔ اس سے ہر تین سال بعد اس تعیناتی کے گرد گھومتی سیاست، افواہوں اور رسہ کشی سے جان چھوٹ جائے گی جو نہ صرف اداروں کیلئے بہتر ہو گا بلکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے بھی مفید ہو گا اور بے جا کے سیاسی عدم استحکام سے حکومتوں کی جان چھوٹ جائے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
ہم کہاں کھڑے ہیں
یہ کوئی چند برس کی بات نہیں بلکہ پون صدی کا قصہ ہے لیکن اس قصے میں ہم پاکستانی عوام کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتے کیونکہ ہمیں قصے کہانیاں ہی سنائی گئی ہیں، عملاً کوئی کام نہیں کیا گیا البتہ پون صدی میں ایک کام بڑی تندہی سے کیا گیا ہے وہ عوام کو بے وقوف بنانے کا کام ہے۔ اس میں بلاتفریق ہر حکمران کامیاب رہا ہے حکمرانی چاہے سویلین ہو یا فوج کی عوام کو تسلی دلاسوں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ہے بلکہ اقتدار میں آکر تسلیوں ، دلاسوں اور وعدوں سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔ سیاست کا کوئی بھی فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جو گندے کپڑے گھر کے اندر دھونے چاہئیں وہ بیچ چوراہے دھوئے جا رہے ہیں، دنیا ہمارا تماشہ دیکھ رہی ہے اور ایک ایٹمی ملک کا مذاق اڑایا جارہا ہے دشمن کے ہاں شادیانے بج رہے ہیں اور ہم نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں گے کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔ الغرض اب کہنے کو کچھ رہ نہیں گیا۔
ہر پاکستانی جو کچھ اپنے گردو پیش میں دیکھ اور سن رہا ہے، اس کی وجہ سے خوف کا شکار ہے۔ ایک بے بسی کا عالم ہے جو قوم پر طاری ہے اور قوم گنگ ہو کر اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جن لوگوں نے علیحدہ وطن کے لیے قربانیاں دیں، وہ ان قربانیوں کے ساتھ اب اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور ہم جیسے ناشکرے زندہ رہ گئے ہیں جن کو پلیٹ میں رکھ کر ایک آزاد وطن مل گیا۔ ہمیں آزادی کی اس قدرومنزلت کا اندازہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان مشکل وقتوں میں شریک سفر ہی نہیں تھے، وہ سر فروش لوگ تھے جنھوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کر دیا اور اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔ لیکن یہ نئی مملکت وہ ایسے لوگوں کے سپرد کر گئے جو اس کے قابل ہی نہیں تھے، ان نااہل اور بے رحم لوگوں نے اس ملک کے ساتھ وہی کچھ کیا جس کی ان سے توقع تھی۔
انھوں نے پون صدی کے اس سفر میں ملکی وسائل کو اپنے گھر کی باندی بنا لیا جب اور جیسے چاہا ان کو بے دریغ استعمال کیا اور یہ صورتحال آج بھی جاری و ساری ہے، اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں، کسی کے ہاتھ پاکستان کے لوٹ کے مال سے خالی نہیں ہیں، سب کے ہاتھ پاکستان کے ارمانوں کے خون لتھڑے ہوئے ہیں۔ کس کس چیز کا ماتم کریں اور کس کو قصور وار ٹھہرائیں کہ سب ایک ہی طرف نظر آتے ہیں، دوسری طرف عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اوروہ صرف واہ واہ کرنے کے لیے اس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔ استاد امام دین گجراتی کے بقول دو ہی گھڑیاں عمر بھر میں مجھ پر گزری ہیں کٹھن اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد لیکن افسوس کہ ہم پر تو گھڑیوں سے بھی بات آگے نکل گئی اور دوچار برس کی بات نہیں رہی بلکہ پون صدی کا طویل قصہ ہے جو ہم پر بھاری ہی گزرا ہے اور ابھی دکھوں اور مصائب کے جانے کی گھڑی ٹلنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
معلوم یوں ہوتا ہے کہ ترقی معکوس کا سفر ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے اور ہم دو قدم آگے بڑھنے کے بجائے چار قدم پیچھے کا سفر طے کر رہے ہیں اور یہ سفر تیزی سے جاری ہے، کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ سب اس فقیر کی طرح ہیں جو صبح سویرے ایک شہر میں داخل ہوا تو عوام نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا، وہ حیران پریشان ہو گیا اور لوگوں سے استفسار کیا تو فقیر کو بتایا گیا کہ ان کے بادشاہ کا انتقال ہو گیا ہے اور عوام نے یہ فیصلہ کیا کہ جو بھی شخص صبح سویرے شہر میں داخل ہو گا اسے اپنا بادشاہ بنا لیں گے۔ لہٰذا آپ آج سے ہمارے بادشاہ ہیں۔ یوں فقیرکو شاہی لباس پہنا کر تخت نشین کر دیا گیا۔ فقیر جس کا بادشاہی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اس نے عقلمندی کی کہ اپنا پرانا اور بوسیدہ لباس ایک گٹھڑی کی صورت میں لپیٹ کر محفوظ کر لیا۔ فقیر کو حلوے کا شوق تھا، اس نے پہلا حکم جاری کیا کہ عوام کے لیے حلوہ پکایا جائے۔ 
عوام خوش ہو گئی، عوام اور جی بھر کر کھاتے رہے اور جب دشمن کی فوجیں اس کے قلعے کے دروازے پر پہنچ گئیں تو وزیر نے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے تو اس نے کہا کہ میری گٹھڑی لائی جائے۔ فقیر نے شاہی لباس اتارا، فقیرانہ لباس پہن کر شہر سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے، آپ اپنے شہر کی حفاظت خود کریں۔ تو ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ ہم پر حلوہ کھانے والے مسلط چلے آرہے ہیں اور جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ایوان اقتدار سے نکل جاتے ہیں اور ہم عوام کو بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے ، بقول غالب
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
’لگتا ہے نواز شریف نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘
Tumblr media
اسے شطرنج کا کھیل کہیں یا میوزیکل چیئر، طویل عرصے سے ملک کے سیاسی اسٹیج پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں شطرنج کے پیادے اور کرسی پر قبضہ کرنے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ایک منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ یہ یقینی طور پر اختلاف کرنے والے اس سیاست دان کی وطن واپسی نہیں تھی جنہیں عدالت نے اس وعدے پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی کہ وہ اپنی سزا پوری کرنے کے لیے ملک واپس آئیں گے۔ اب وہ چار سال بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں واپس آئے ہیں اور یہ امر پاکستانی سیاست میں آنے والے بدلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مفرور قرار دیے گئے نواز شریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ انتخابات سے پہلے ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا یقینی ہے۔ جیسا کہ خیال کیا جارہا تھا لاہور میں مینار پاکستان پر ان کی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی نہیں تھی۔ اس میں ان ذاتی غموں کا ذکر تھا جن سے وہ دوران حراست گزرے تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن تب تک جب تک کہ وہ مقتدر حلقوں کے منظور نظر ہوں۔
صوبے بھر سے آنے والے عوام کے لحاظ سے یہ واقعی ایک متاثر کن جلسہ تھا، لیکن بڑے پیمانے پر جوش و خروش نظر نہ آیا۔ یہ ویسا استقبال نہیں تھا جیسا عام طور پر مقبول لیڈروں کا کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ایک ایسے ملک میں واپس آئے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں بدل گیا ہے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کے قیام کے بعد، جس میں ان کے بھائی وزیر اعظم تھے، نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہ عمران خان کی ہائبرڈ حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ پاکستانی سیاست میں آنے والی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کے ایک نئے انتظام میں اکٹھا کیا۔ نواز شریف نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور وزارت عظمیٰ کے لیے کوششیں کرنے سے پہلے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مزید 18 ماہ انتظار کیا۔ پاکستان سیاست میں اس بدلتی صف بندی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ عمران خان کے زوال نے ہائبرڈ حکمرانی کا ایک اور دور شروع کیا جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی واپسی ہوئی۔ 
Tumblr media
شہباز شریف جب وزیراعظم تھے تو بڑے بھائی ہی تھے جو لندن سے حکومت کرتے تھے۔ ہر اہم پالیسی فیصلے کے لیے بڑے بھائی کی منظوری درکار ہوتی تھی۔ ان کا قریبی ساتھی اور خاندان کا ایک فرد بھی ملک کے معاشی زار کے طور پر واپس آیا تھا۔ حالات جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اس کے بعد اب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت زیر عتاب ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ایسے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کی ملک کی سیاسی تاریخ میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اب عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں بغاوت سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے جو انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی حراستیں ملک کی سب سے زیاہ مقبول جماعت، جو کہ مسلم لیگ (ن) کی اصل حریف بھی ہے، کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے خاتمے کو مسلم لیگ (ن) کی آشیرباد حاصل ہے، لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ نواز شریف کی تقریر میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان کی واپسی کے فوراً بعد خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کر دی۔ ان کے طاقتور ترین مخالف کو انتخابی منظر سے ہٹانے نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور انہیں کبھی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد قبول کرنے پر خوش ہیں۔ قبل از انتخابات جوڑ توڑ مسلم لیگ (ن) کو کھلا میدان فراہم کرسکتی ہے لیکن اس طرح جمہوری عمل مزید کمزور اور غیر منتخب قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ان سازگار حالات کے باوجود نواز شریف کو اب بھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ انہیں چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ جب تک ان کی سزا برقرار ہے انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بارے میں کچھ قانونی خدشات رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے ان کی سزا کے بارے میں نظرثانی کی درخواست کا دروازہ بھی بند کر دیا ہے۔ یعنی نواز شریف کو ابھی ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔ نواز شریف کی واپسی سے یقیناً پارٹی میں اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت اور انتخابی منظر نامے سے پی ٹی آئی کے منصوبہ بند خاتمے کے باوجود بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی ماحول میں عوامی حمایت حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ 
نگران سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگست میں اقتدار چھوڑنے والی مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی خراب کارکردگی سے یہ امکان اور بھی کم ہوتا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو نئے آئیڈیاز یا ٹھوس پروگرام سے اپنی سابقہ ​​سیاسی قوت حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے بغیر انتخابات میں جانا مشکل ہو گا۔ اپنی واپسی پر نواز شریف کی تقریر بیان بازی سے بھرپور تھی، جس میں ان کی سابقہ ​​حکومت کی کارکردگی کو سراہا گیا، جس پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو اور اپنی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی ناکام پالیسیوں سے الگ نہیں کر سکتے جو مالیاتی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سبب بنیں۔ یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی کو ملک کے تیز سیاسی اور سماجی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی پر شریف خاندان کی بڑھتی ہوئی گرفت بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس چیز کا ادراک نہیں کہ نوجوان نسل اور شہری متوسط ​​طبقہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف کی تقریر نے بھی کس قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پارٹی مشکوک انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں تو آسکتی ہے۔ لیکن اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔
زاہد حسین  یہ مضمون 25 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
shiningpakistan · 2 years
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گفتگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔   جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں تو پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی بابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان 
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
آج میں کس کی حمایت کروں؟
Tumblr media
یا توان لوگوں کو ادراک نہیں کہ ہم کھائی میں گر چکے ہیں اور اپنا وزن اٹھانے کے لیے کرین اور اس کے کرائے کا انتظام بھی ہمیں خود ہی کرنا ہے۔ پھر گمان ہوتا ہے کہ جو ریاست اپنے ہی چڑیا گھر میں ایک ہاتھی (نور جہاں) کو ہی خشک تالاب سے اٹھا کے کھڑا نہ کر پائی وہ اپنے ہی وزن کو کیسے کھائی سے نکال پائے گی؟ یا پھر ان لوگوں کو پورا ادراک ہے کہ انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں اس ملک کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا ہے اور اب یہ خود سامان باندھ کے کسی بھی ناگہانی کے سر پے ٹوٹنے سے پہلے پہلے پتلی گلی سے نکلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور زندگی بھر اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرنے اور اپنی ہی ناک سے آگے کچھ بھی دیکھنے کے ناقابل یہ لوگ باقیوں کو اللہ پر بھروسے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یا ان لوگوں کو اب بھی انتظار ہے کہ کوئی مسیحا اچانک فلمی انداز میں سپر مین کی طرح آسمان سے اترے گا اور موجودہ لوٹ افزا نظام سمیت انھیں ٹوٹے ہوئے گھر کی چھت سے اٹھا کے دریا پار اتار دے گا۔ یا یہ لوگ اب بھی اس ناممکن خواہش کو تعبیر کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں کہ یہ سب مل بانٹ کے کیک بھی کھاتے رہیں مگر کیک ثابت کا ثابت رہے۔ یا یہ لوگ ہنوز دلی دور است کے داستانی مسخرے ہیں۔
یا پھر یہ سب کے سب اس نااہل پیڑھی کی طرح ہیں جسے یہ ریاست ورثے میں ملی باپ دادا کی موروثی جائیداد لگتی ہو اور اسے آخری سانس تلک مجرئی شب و روز برقرار رکھنے کے لیے آخری بیگھے تک بیچا جا سکتا ہو۔ اس پر رسائی و اختیار کا نشہ بھی اس قدر چڑھا ہوا کہ اپنی ہی گول پوسٹ میں گول پر گول کر کے ایک دوسرے کو بدھائی دے رہے ہوں اور وفاداروں سے اندھی داد وصول کر رہے ہوں۔ یا پھر یہ ٹولہ وہ جواری ہے جو آخری فیصلہ کن ہاتھ کی امید پر ہر شے گروی رکھ چکا ہے مگر پتے رکھنے پر ہرگز تیار نہیں۔ چین ہمارا یار تو ہے مگر اسی چین میں ہزاروں برس پہلے سن زو نام کا جو ماہرِ عسکریات گزرا اس کے بقول ’جب دشمن فاش غلطی پر غلطی کر رہا ہو تو ہرگز، ہرگز نہ ٹوکا جائے‘ اور بہترین لڑائی وہ ہے جو شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لی جائے ۔ کہیں باہر سے نہیں گھر سے اٹھا ہے فتنہ شہر میں اپنے ہی لشکر سے اٹھا ہے فتنہ حاکمِ شہر کے دفتر سے اٹھا ہے فتنہ آج کسی دشمن کو اس ’ مل بانٹ‘ گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے ایک گولی ضائع کرنے یا ایک پیسہ خرچ کرنے یا کوئی چھوٹی موٹی سازش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ بس گیلری میں بیٹھ کے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے تھیٹر سے لطف اندوز ہونے کی گھڑی ہے۔
Tumblr media
دشمن تو دشمن دوست بھی دانتوں تلے انگلیاں دابے یہ فی البدیہہ بلیک کامیڈی دیکھ رہے ہیں۔ سکرپٹ سیدھا کرنے میں مدد کرے بھی تو کون کرے جب اسے یقین ہی نہ ہو کہ یہ نوٹنکی فن کار بزعم خود یوری پیڈیس اور شیکسپئر کے منبر سے ایک قدمچہ بھی نیچے اترنے کو تیار نہیں۔ اس ریاست کے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم جو دوست بچ گئے ہیں انھیں پہلی بار پتہ چل رہا ہو گا کہ گنوار کی اکڑ کا اصل مطلب کیا ہے۔ اب سے پہلے تک ہم اپنی پسند کے ولن کے سینگوں سے اپنی ناکامیوں کی دھجیاں باندھ کے خود کو تسلی دے لیتے تھے۔ مگر آج تو 75 برس میں یکے بعد دیگرے آنے والے ولنز کی ارواح بھی موجودہ اشرافیوں کو گرو مان کے سجدہ ریز ہیں۔ ان لال بھجکڑوں کے ہوتے دولے شاہ کے چوہے بھی آئن سٹائن سے اوپر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے تو وہ افسانوی بندر بھی کود پھاند بھول گیا ہے جس کے ہاتھ میں استرا تھا۔ وہ تین جاپانی بندر تو عرصہ ہوا دیوار کود کے فرار ہو چکے جو ’نہ برا کہو ، نہ برا سنو ، نہ برا دیکھو‘ کے مبلغ تھے۔ 
چند برس پہلے احمد پور شرقیہ میں دورِ نوابی کے سب سے لاڈلے محل صادق گڑھ پیلس کو اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس محل پر جب جوبن تھا تو دنیا کا کون سا بڑا آدمی یہاں قدم رنجہ نہیں ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ ورثا ہی اس کی آخری چوکھٹ اکھاڑ لے گئے۔ بکنگھم پیلس میں نصب میگا سائز آئینوں سے بھی بڑے صادق گڑھ پیلس کے مرکزی ہال میں نصب وکٹوریہ دور کے آئینے اپنے پیچھے صرف نشان چھوڑ گئے۔ اب اس عظیم الشان کھنڈر کی حفاظت چند جدی پشتی چوکیدار کرتے ہیں اور ورثا آج بھی اس سانحے پر پشیمان ہونے کے بجائے الزام در الزام کی رکابی میں بھر بھر کے دلیلیں کھاتے اور جواز پیتے ہیں۔ تین دیگر لاڈلے محل فوج کی تحویل میں چلے گئے اور ان میں کوئی عام آدمی بلا اجازت پر نہیں مار سکتا۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes