#Naqibullah Masood
Explore tagged Tumblr posts
risingpakistan · 6 years ago
Text
کیا پاکستان میں جعلی پولیس مقابلے کبھی ختم ہوں گے؟
کراچی کے رہائشی اشتیاق احمد کے لیے 13 جنوری 2018 کی رات قیامت بن کر آئی تھی۔ اس رات ان کے اکلوتے بیٹے انتظار احمد کو ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ تحقیقات اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ فائرنگ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پولیس اہلکار تھے۔ ملائیشیا سے تعلیم یافتہ انتظار احمد اپنی ایک خاتون دوست کے ہمراہ کار میں سوار تھا۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر فائرنگ کے دوران خاتون کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا مگر انتظار کے سینے میں پیوست گولیوں نے اس کی زندگی چھین لی۔ پولیس افسران اسے "مقابلہ" قرار دے رہے تھے، لیکن سی سی ٹی وی فوٹیجز نے پولیس کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس اب تک اس قتل کے تمام ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی ہے اور اس وجہ سے ٹرائل بھی شروع نہیں ہو سکا۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ جس پولیس افسر کے خلاف کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی نے محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی تھی اسے چند ماہ کی معطلی کے بعد نئی پوسٹنگ دے دی گئی۔ انتظار کے والد اشتیاق احمد کو قاتلوں کے کیفرِ کردار تک پہنچنے کی کوئی خاص امید ہے اور نہ ہی وہ اب تک کی تحقیقات سے مطمئن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ��ہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کے بقول، "میری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ کوئی پولیس سے پوچھنے والا نہیں۔ دو چار کو سزا ملے تو ہی یہ سدھر سکتے ہیں۔ میں اسی وجہ سے کیس لڑ رہا ہوں کہ کسی اور کے انتظار کو بے گناہی کی سزا نہ بھگتنا پڑے۔"
پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والا انتظار احمد بغیر کسی قصور کے سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی فہرست میں درج ہونے والا نہ پہلا نام ہے اور نہ شاید آخری۔ اپنے گھر کا واحد کفیل مقصود احمد ہو یا قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود، یا پھر نو سالہ ہنستی مسکراتی ایمل، گزشتہ سال یہ سب پولیس کے غیر پیشہ وارانہ رویے یا پھر 'نمبر لے جانے' کی غرض سے کی جانے والی کارروائیوں کی نذر ہو گئے۔ جنوری 2018 میں کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں قبائلی نوجوان اور سوشل میڈٰیا پر شہرت پانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو چار دیگر افراد کے ہمراہ اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے ان تمام کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے قرار دیا تھا۔ تاہم، سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد حکومت سندھ نے واقعے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا جس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ واقعہ جھوٹا پولیس مقابلہ تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے معاملے پر از خود نوٹس لینے پر راؤ انوار پہلے روپوش ہو گیا تھا، لیکن پھر خود کو قانون کے حوالے کر دیا تھا۔ تاہم، عدالت سے دونوں مقدمات میں ضمانت ملنے کے بعد جولائی میں ان کی رہائی عمل لائی گئی تھی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے بیرون ملک جانے کی اجازت سے متعلق درخواست مسترد کر دی تھی۔ کراچی میں جون 2011ء میں سندھ رینجرز کے جوانوں کے ہاتھوں کیمرے کے سامنے ایک شخص کے قتل کی ویڈیو بھی ساری دنیا نے دیکھی۔ پھر جون 2013ء میں رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں ایک ٹیکسی ڈرائیور مارا گیا۔ کراچی شہر کے علاوہ بھی ہمیں کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد اور ساہیوال جیسے ’پولیس مقابلوں‘ کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔
سابق گورنر اور وزیرِ داخلہ اور پاکستان کی بری فوج میں 35 سال خدمات انجام دینے والے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے باقاعدہ قواعد و ضوابط موجود ہیں جن کے تحت یہ کارروائیاں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے آپریشنز میں پہلے سے یہ ریکی ہونی چاہیے کہ ملنے والی معلومات درست ہے یا نہیں، کم سے کم انسانی نقصان ہو، اگر مزاحمت نہیں کی جارہی تو زندہ گرفتاری ہی عمل میں لائی جائے۔ ایسے قواعد تو عام طور پر سبھی کو پتا ہیں مگر جس طرح دیگر قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، ویسے ہی ان کا بھی ��ہی حال ہے۔
معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ ادارے کمزور پڑ چکے ہیں، جس طرح ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا ویسا نہیں ہو پا رہا۔ پولیس جن قوانین کے تحت کام کر رہی ہے وہ 1861ء کے قوانین ہیں۔ پولیس قوانین میں اصلاحات، جدید ٹریننگ، شواہد اکھٹا کرنے کی صلاحیت بڑھانے اور پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سابق گورنر کے مطابق حکمرانوں کو یہ سب حقائق معلوم تو ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی صورتِ حال کی بہتری میں آڑے آتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ پولیس انہی کی وفادار بن کر رہے۔ ایسے میں پیشہ وارانہ تربیت اور بہتری کیسے ممکن ہو گی؟
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں 2127 واقعات میں 3353 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا معاملہ نہایت سنگین ہے۔ اس کے لیے ایسی اپروچ کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہونے والے بلاوجہ کے نقصانات سے بچا جا سکے۔ ان کے بقول، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شفافیت اور انصاف کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ورنہ ایسے سانحات بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام داغدار کرتے رہیں گے۔
محمد ثاقب
بشکریہ وائس آف امریکہ  
2 notes · View notes
emergingpakistan · 6 years ago
Text
نقیب اللہ قتل کیس : مرکزی ملزم راؤ انوار کی ضمانت، سوشل میڈیا پر احتجاج
صحافی اور اینکر مبشر زیدی کہتے ہیں کہ یہ ناانصافی ہے۔
INJUSTICE.....#RaoAnwar gets bail in #Naqeebullah Mehsud's murder #PTM
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) July 10, 2018
جبران ناصر نے لکھا کہ ریاست کم ہی ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے اس کے شہریوں میں اس پر اعتماد پیدا ہو، لیکن عوام کی بجائے قاتلوں کو سہارا دینا کبھی نہیں بھولتی۔
#RaoAnwar granted bail in #NaqeebullahMehsud fake encounter case. He is still in custody as bail in another case of illegal weapons is still pending. State gets rare opportunities to restore faith and goodwill amongst citizens but it chose to support a murderer over the people
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) July 10, 2018
ایکٹوسٹ جلیلہ حیدر لکھتی ہیں کہ حیات پریغال جس نے نقیب اللہ محسود کے ناحق قتل پر احتجاج کیا آج مسنگ ہے اور کسی کیمپ میں ٹارچر سہہ رہا ہو گا جب کہ نقیب اللہ محسود اور 444 مزید لوگوں کے ماورائے عدالت قاتل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ضمانت دے دی ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد تقی نے کہا کہ پشتون تحفظ تحریک کو اپنے جلسے بالکل نہیں روکنے چاہئیں تھے، یہ بہت بڑی غلطی تھی۔
قلم کار رامش فاطمہ نے عدلیہ کو مخاطب کر تے ہوئے لکھ�� ہے کہ آپ کو یقین ہے کہ آپ کی ایجنسیاں جبری گمشدگیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ آپ راؤ انوار کو ضمانت پہ رہا کر سکتے ہیں۔ اب اپنے پیاروں سے کہیں کہ حیات پریغال سمیت باقی افراد کو بھی چھوڑ دیں۔ گھر والے صرف راؤ انوار کے نہیں، حقوق صرف راؤ انوار کے نہیں باقی سب کے بھی ہیں۔
رحمن بونیری نے لکھا کہ راو انوار کو ضمانت مل گئی۔ مشال کے قاتلوں کو ضمانتیں مل گئی۔ صوفی محمد کو ضمانت مل گئی۔ جنرل مشرف کو ضمانت مل گئی۔ احسان اللہ احسان سرکاری مہمان بن گیا۔ مگر ان والد��ن، بیواؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں کو بھی انصاف ملے گا جن کے اپنے بے دردی سے مارے گئے؟
سوشل میڈیا یوزر اور ہائی کورٹ کے وکیل سنگین خان کہتے ہیں کہ ناانصافی کہیں بھی ہو ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ راو انوار کو ضمانت ملنا سے قانون کی حکمرانی کی قلعی کھل گئی ہے۔ جو لوگ اس ظلم اور زیادتی کے خلاف بول رہے ہیں وہ اٹھائے جاتے ہیں اور قاتلوں کو ضمانت مل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر مقبول ایکٹوسٹ فرحان ورک کہتے ہیں کہ اگر راو انوار رہا ہو گیا تو میں پشتون تحفظ موومنٹ والوں سے معافي مانگوں گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ راو انوار ابھی بھی بری نہیں ہوا تو امید باقی ہے۔
ایسے ہی سوشل میڈیا پر مشہور شفاعت علی نے بھی ٹویٹ کیا کہ راؤ انوار کو ضمانت مل گئی۔ یعنی ہم بلا وجہ منظور پشتین کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔
صحافی خرم حسین لکھتے ہیں کہ آج ایک قاتل آزاد ہوگیا ہے اور انصاف قید۔
Today a murderer was released and justice was locked up instead. #RaoAnwar — Khurram Husain (@KhurramHusain) July 10, 2018
ملک عمید
وائس آف امریکہ  
0 notes
pakistantime · 7 years ago
Text
نقیب اللہ قتل کیس : راؤ انوار ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار، عمل دہشتگردی قرار
نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عمل کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ تیار کر لی جس میں ڈی پی او بہاولپور کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے اور ڈی پی او بہاولپور کے مطابق محمد صابر اور محمد اسحاق کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ راؤ انوار نے نقیب اللہ و د یگر کو ماورائے عدالت قتل کیا، راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران کا عمل دہشت گردی ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ اور دیگر کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا، ماورائے عدالت قتل کو تحفظ دینے کے لیے میڈیا میں جھوٹ بولا گیا، واقعے کے بعد راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں نے شواہد ضائع کیے۔ رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور دیگر ملزمان نے اپنے اختیارات کا بھی ناجائز استعمال کیا، ملزمان کا مقصد اپنے دیگر غیر قانونی اقدامات کو تقویت اور دوام پہنچانا تھا۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ کی تیاری میں جیو فینسنگ اور فارنزک رپورٹ کا سہارا لیا ہے جب کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈی این اے رپورٹ سے چاروں افراد کا الگ الگ قتل ثابت ہوتا ہے، چاروں افراد کو دو الگ الگ کمروں میں قتل کیا گیا، ایک کمرے کے قالین پر دو افراد کے خون کے شواہد ملے جب کہ دوسرے کمرے کے قالین پر چاروں کے خون کے شواہد ملے، ثابت ہوتا کہ چاروں افراد کو جھوٹے پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا جس کے بعد بعد میں لاشیں دو مختلف کمروں میں ڈال دی گئیں۔
مقتول نظر جان کے کپڑوں پر موجود گولیوں کے سوراخ کی فارنزک رپورٹ بھی حصہ ہے جب کہ بتایا گیا ہے کہ مقتول نظر جان پر ایک سے پانچ فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد اس کے ہمراہ بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا، ملزم کیس میں ملوث نہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا جب کہ پوچھ گچھ کے دوران ملزم راؤ انوار نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جیو فینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی موقع پر موجودگی ثابت ہے، مقتولین کو دہشت گرد قرار دے کر جھوٹے پولیس مقابلے میں ہلاک کرنا بخوبی ثابت ہے۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ ��ے آئی ٹی کی روشنی میں ضمنی چالان پیش کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
فہیم صدیقی بشکریہ جیو نیوز اردو
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
راؤ انوار کو گرفتار کرنے کی مہلت ختم
چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے سندھ پولیس کو راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے دی گئی 72 گھنٹے کی مہلت ختم ہو گئی لیکن ��فرور راؤ انوارسمیت پولیس پارٹی ��ب تک قانون کی گرفت میں نہیں آسکی۔ نقیب الله جعلی مقابلہ کیس میں حکومت سندھ نے مفرور ایس ایس پی راؤ انوار اور سابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر ملک الطاف کومعطل کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق معطلی کے عرصے میں دونوں افسران کو سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کی جانب سے راؤ انوار اور پولیس پارٹی کی گرفتاری کے لیے سی ٹی ڈی کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ گرفتاری کے لیے بنائی گئی ٹیم کی مدد کریں۔
دوسری جانب جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ کے ہلاکت کے معاملے پر سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے 72 گھنٹے کی مہلت دی تھی جوختم ہو چکی جبکہ گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی ہے۔ گزشتہ روز ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے کہا تھا کہ کوشش ہے راؤ انوار سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو جائے۔ مقدمے کے دو گواہان بھی عدالت میں بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں اور گرفتاری کے لیے متعدد چھاپے بھی مارے گئے جو بے سود رہے۔  
0 notes
shiningpakistan · 7 years ago
Text
زندگی میں بس رونا ہی باقی ہے اور کچھ نہیں
سوات کے علاقے مٹہ کی لمبرو بی بی چار بیٹوں کی ماں ہیں، جن میں سے کوئی بھی اب اُن کے پاس نہیں۔ دو بیٹے پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کی لاش مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جانے کے کچھ عرصے بعد ملی جبکہ ایک بیٹا اور داماد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں آج بھی لاپتہ ہیں۔ لمبرو بی بی اسلام آباد میں پشتونوں کے اس احتجاجی دھرنے میں شریک رہیں جو کراچی میں قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری رہا اور حال ہی میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا ہے۔ 
یہ دھرنا ایک ایسا مرکز بنا جہاں مبینہ 'ریاستی ظلم' کا شکار لوگ اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے کھنچے چلے آئے۔ لمبرو بی بی کی کہانی پاکستان میں مبینہ ریاستی جبر کی ایک طویل داستان کا حصہ ہے۔ ان کے دو بیٹے شوکت علی اور حیدر علی تین برس قبل کراچی میں ایسے پولیس مقابلوں میں مار دیے گئے جن کی سربراہی مبینہ طور پر کراچی پولیس کے وہی افسر کر رہے تھے جن پر نقیب محسود کے جعلی پولیس مقابلے کا بھی الزام ہے، یعنی راؤ انوار۔
لمبرو بی بی کے دونوں بیٹے بنارس کالونی میں چاول مل کے ٹھیکیدار تھے لمبرو بی بی کا دعوٰی ہے کہ شوکت علی اور حیدر علی کو 10 جنوری اور 21 مارچ 2015 کو راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس اہلکار کراچی میں شاہ لطیف ٹاؤن میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اُٹھا کر لے گئے تھے۔ ’میرے دونوں بیٹے بنارس کالونی میں چاول مل کے ٹھیکیدار تھے۔ راؤ انوار میرے دو بیٹوں کو کراچی میں ہمارے گھر سے اٹھا کر لے گیا۔ میں نے بہت کوشش کی، کراچی ہائی کورٹ میں کیس بھی کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ' اُن کے مطابق شوکت علی کو 11 مئی 2015 اور حیدر علی کو 13 جون 2015 کو مار دیا گیا۔ مئی 2015 کے ایک مقامی اخبار میں ایک خبر لگی، جس میں راؤ انوار پر جعلی پولیس مقابلے کا الزام لگایا گیا۔ لمبرو بی بی نے اسی اخبار میں چھپی اپنے دونوں بیٹوں کی خون میں لت پت تصویریں آج بھی سنبھال کر رکھی ہیں۔
اس بارے میں جب بی بی سی نے سندھ حکومت کے وزیرِ اطلاعات ناصر شاہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’نقیب محسود کے واقعے کے بعد اس طرح کی شکایات اور بھی سامنے آئی ہیں جن کی تحقیقات کے لیے بہت جلد ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں یہ ساری شکایات دیکھی جائیں گی۔‘ لمبرو بی بی نے بتایا کہ پولیس مقابلے میں اُن کے بیٹوں کو مارنے کے بعد اُن کی لاشیں 20 ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد ملیں اور اُن کے مطابق وہ بھی تب جب راؤ انوار نے اُنھیں 'راہداری' دی۔ 'میں رکشے میں راؤ انوار کے گھر گئی۔ اُن سے اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کرنے کے لیے راہداری لی کیونکہ تھانے والے لاشیں نہیں دے رہے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ میرے بیٹوں کو تو آپ میرے گھر سے اُٹھا کر لے گئے، پھر کیسے پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔'
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ لمبرو بی بی کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا صدمہ سہنا پڑا ہو۔ لمبرو بی بی کے مطابق اُن کے ایک اور بیٹے محمد اسحاق کو سنہ 2009 میں سوات میں جاری فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اُن کے گھر سے اُٹھا لیا تھا۔ محمد اسحاق کی لاش تین ماہ بعد برآمد ہوئی تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وہ سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہلاک ہوئے یا نہیں۔ لمبرو بی بی کہتی ہیں 'تین ماہ کی کوششوں کے بعد ہمیں اُن کی قبر ملی، اُن کی قبر کو کھودا اور لاش کو اپنے قبرستان لے آئے۔' اس واقعے کے تین برس بعد ان کا ایک اور بیٹا اور داماد بھی مٹہ میں لاپتہ ہوا اور آج تک ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔
لمبرو بی بی کے مطابق ان کے چوتھے بیٹے ذکریا کو چھ سال قبل سکیورٹی فورسز مٹہ میں گھر سے لے گئے۔ عین اُسی دن اُنھوں نے ان کے داماد احسان اللہ کو بھی اپنے گھر سے اُٹھا لیا تھا۔ وہ بھی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ سوات اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سنہ 2007 میں طالبان کے خلاف شروع کیے جانے والے پاکستانی فوج کے آپریشن میں سینکڑوں افراد لاپتہ ہوئے جن کے لواحقین پاکستانی سکیورٹی فورسز پر انھیں لاپتہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ 'میرے ایک بیٹے اور داماد کو پھر سوات سے اُٹھا کر لے گئے اور اب چھ سال ہو گئے ہیں۔ شام کے وقت وہ مجھ سے میرا بیٹا یہ کہہ کر لے گئے کہ اُنہیں بہت جلد واپس لے آئیں گے۔ رمضان میں ان کے چھ سال پورے ہو جائیں گے۔' لمبرو بی بی کی بیٹی اور بہو نے پشاور ہائی کورٹ اور اسپریم کورٹ میں اپنے شوہروں کی عدم بازیابی پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف درخواستیں بھی دی ہیں اور یہ معاملہ تاحال زیرِ سماعت ہے۔ یہ دونوں افراد اگر کسی وقت واپس آ بھی جائیں تو لمبرو بی بی انھیں صرف محسوس ہی کر پائیں گی کیونکہ ان کی یاد میں روتے روتے، سوات کی اس ماں کی بینائی جا چکی ہے۔ 'بیٹوں کی یاد میں اب میری بینائی بھی چلی گئی ہے۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا، بس تکلیف کی زندگی ہے۔ اب ہماری زندگی میں بس رونا ہی باقی ہے اور کچھ نہیں'۔
خدائے نور ناصر بی بی سی، اسلام آباد  
0 notes
karachitimes · 7 years ago
Text
راؤ انوار کے روپوش ہوتے ہی ان کے کالے دھندے بھی بند
راؤ انوار کی روپوشی کے بعد ان کے کالے دھندے بھی بند ہونے لگے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے روپوش ہونے کے بعد اس کے ناجائز ذرائع آمدن بھی بند ہونے لگے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عدالتی پابندی کے باوجود بھی ملیر ندی اور اس کے ملحقہ علاقوں سے ملیر میں ریتی، پتھر اور بجری چوری ہوتا تھا کیوں کہ یہ کام سابق ایس ایس پی کے زیرِ سایہ ہوتا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریتی، بجری اور پتھر ملیر ندی، درسانو چنو اور میمن گوٹھ سمیت دیگر علاقوں سے نکالا جاتا تھا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپوں کا نقصان ہوا تاہم جب سے راؤ انوار گرفتاری کے خوف سے روپوش ہوئے ہیں اس وقت سے تاحال یہ غیر قانونی کام بند ہے۔  
0 notes
risingpakistan · 7 years ago
Text
آرمی چیف کی نقیب اللہ محسود کے والد اور بچوں سے ملاقات
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نقیب اللہ محسود کے والد سے ملاقات کر کے ان کے بیٹے کی موت پر تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں نقیب اللہ محسود کے والد سے ملاقات اور مرحوم کے ایصالِ ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی۔ آرمی چیف نے یقین دہانی کرائی کہ فوج آپ کو انصاف دلانے کیلیے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے مرحوم نقیب اللہ محسود کے بچوں کو پیار بھی کیا۔ 
15 notes · View notes
pakistantime · 7 years ago
Text
Rao Anwar found ‘responsible’ of Naqeeb Mehsud’s murder
Rao Anwar, who was remanded in custody, has been found responsible for the murder of Naqeebullah Mehsud, an aspiring Pashtun model from the country’s tribal region. Mehsud was killed in a fake police encounter on Jan. 12 this year. “Rao Anwar has been found guilty,” a senior official who is part of the Joint Investigation Team (JIT) probing Anwar, told Arab News. The apex court on March 24 had formed a JIT headed by Aftab Ahmed Pathan, Additional IG Sindh, to probe the incident. The JIT comprised  Waliullah Dal, Additional IG Special Branch; Azad Ahmed Khan, DIG South; Zulfiqar Larik, DIG East; and Dr. Rizwan Ahmed, SSP Central Karachi.
The official, who requested anonymity, told Arab News that the JIT report will be produced in the court once signed by all of its members. Anwar was presented before the Anti-Terrorism Court (ATC) in Karachi on Saturday which sent him on judicial remand to prison till May 2, prosecutor Zafar Solangi told Arab News. When asked for a comment upon his appearance at the ATC, Anwar said: “I have challenged the JIT and I don’t accept its findings.” He further claimed: “I have not recorded any statement before this JIT.” On April 5, Anwar filed a petition praying for the inclusion of representatives of “the intelligence agencies, armed forces and civil armed forces.”
Anwar claimed that the inclusion of the members from intelligence agencies and armed forces was required by law. The police officer was brought to the court amid tight security arrangements, where he was produced along with 11 other accused. Investigation officer, SSP Dr. Rizwan Ahmed, who is also part of the JIT probing the incident, told the court that investigations are underway and the JIT’s report will be presented before the court once it was finalized. He sought a week for the submission of the report. Anwar was given into 30-day police custody upon the last court hearing. Anwar, who is accused of killing Mehsud in a fake police encounter, claims that the slain Pashtun model was an active member of banned terrorist outfits Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP), Al Qaeda, and Lashkar-e-Jhangvi (LeJ). However, the evident subsequently began to pile up against the police team involved in his killing.
Following the incident, a formal inquiry was launched against Anwar. As pressure mounted on him, he decided to go underground and even made a botched attempt to fly out of Pakistan. He also wrote a few letters to the Supreme Court after the top court began a suo motu hearing of Naqeebullah’s murder, telling the judges that the system was heavily stacked against him and he was not hopeful of getting any justice in the case. In response, the country’s top court decided to grant him some relief, asking him to surrender himself and let the law take its course. The court was also willing to reconstitute a joint investigation team to look into Naqeebullah’s killing since the absconding police officer had voiced concern over its composition.
Authorities froze Anwar’s accounts after his repeated non-appearance before the court. In a surprise move last month, the absconding police officer came to the court in a white car. He was clad in a black dress and wore a medical mask to cover his face. Anwar’s lawyer told the chief justice that his client had “surrendered” and wanted protective bail. However, the Supreme Court turned down the request and ordered the law enforcement authorities to lock up the former SSP.
Source : Arab News
0 notes
pakistantime · 7 years ago
Text
ان کاؤنٹر سپیشلسٹ راؤ انوار گرفتار، جعلی پولیس مقابلوں کے راز فاش ہونے لگے
نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے، عدالت نے ان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انھیں نقیب اللہ کے مقدمۂ قتل میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ راو انوار کی گرفتاری سے کراچی میں ہونے والے قتل و غارت کے تمام کیسز پر سے جلد ہی پردہ اٹھنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں حیرانگی ہے کہ آپ نے کتنی دلیری سے ہمیں دو خط لکھے اور اتنا عرصہ روپوش رہے اور کسی ادارے کو آپ کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔ راؤ انوار نے کہا کہ میں نے خود کو عدالت کے سامنے سرینڈر کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے عدالت کی عظمت کے سامنے سرینڈر کیا ہے۔
راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا تاہم بعدازاں تحقیقات میں یہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا از خود نوٹس لیا تھا اور راؤ انوار کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ راؤ انوار روال سال 19 جنوری سے روپوش تھے اور عدالتِ عظمیٰ نے ان کی گرفتاری کے لیے ملک کے خفیہ اداروں کو بھی قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کی مدد کرنے کو کہا تھا۔ 
خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کی گذشتہ سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ راؤ انوار اب بھی پیش ہو جائیں تو انھیں تحفظ مل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر معلوم ہوا ان کا کوئی سہولت کار ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔  
0 notes
risingpakistan · 7 years ago
Text
نقیب اللہ محسود کا ماں کے نام خط
ٹولو خلکو تہ سلام (آپ سب کو میرا سلام )
آپ سب کو معلوم ہے کہ ہم پشتونوں کی اردو اتنی اچھی نہیں ہوتی اس لئے میں نے سوچا تھا کہ پشتو میں ہی خط لکھوں گا تاکہ میرے جذبات و احساسات کی صحیح ترجمانی ہو سکے لیکن یہاں کراچی کے ایک ایسے اردو اسپیکنگ دوست مل گئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہے۔ چونکہ یہ خود بھی رائو انوار کی بدولت یہاں پہنچے ہیں اس لئے جب میں نے چٹھی لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ فوراً میرے خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کو تیار ہو گئے۔ آج پاکستان سے دو خبریں یہاں پہنچیں، ایک خبر سن کر عالم برزخ کے سب مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ہماری ننھی پری زینب کے درندہ صفت قاتل کو سزائے موت سنا دی گئی ہے اور بہت جلد یہ سفاک مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائے گا مگر دوسری خبر جس نے مجھ سمیت یہاں موجود بیشمار لوگوں کو مشتعل کر دیا وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے رائو انوار سے متعلق تعریفی و توصیفی کلمات ہیں۔
آصف زرداری کا کردار تو پہلے بھی مشکوک تھا اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ رائو انوار کے رسہ گیر دراصل آصف زرداری ہیں لیکن میری رائے یہ تھی کہ ایسے کرائے کے قاتل سب کو دستیاب ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے اس نے آصف زرداری کے کہنے پر بھی ماورائے عدالت قتل کئے ہوں مگر رائو انوار کو دیگر طبقات کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ یہ ان کا لے پالک اور منہ بولا بیٹا ہے جو سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل نہیں ہونے دیتے۔ لیکن آصف زرداری نے اس بزدل ترین شخص کو ’’بہادر بچہ ‘‘ کہہ کر یہ راز کھول دیا ہے کہ قانون کی وردی میں قانون کی دھجیاں اڑانے والا یہ جلاد صفت شخص ان کا بغل بچہ ہے۔
میں تو آصف زرداری صاحب سے بس اتنا کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بیان پر جتنا مرضی افسوس کا اظہار کر لیں لیکن سچ وہی ہے جو آپ کے منہ سے نکل گیا بس اتنا جان لیں کہ یہ ’’بہادربچے ‘‘ من کے سچے نہیں کھوٹے ہوتے ہیں. اور کسی سے وفا نہیں کرتے۔ یہ پیشہ ور قاتل کسی کو معاف نہیں کرتے۔ شاید آپ کو یاد نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر نے بھی طالبان کو اپنے بچے کہا تھا اور انہی طالبان نے بینظیر کو مار ڈالا۔ ویسے برا نہ مانیں تو یہ بتا دیں رائو انوار ہو یا پھر پرویز مشرف، یہ سب ’’بہادر بچے ‘‘ قانون کا سامنا کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں ؟
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب میری داستان حسرت سننا چاہتے ہیں، میں بھی آج اپنا دل چیر کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اتنا تو آپ سب جانتے ہیں کہ مجھے ماڈلنگ کا شوق تھا اور یہی شوق مجھے کراچی لے آیا ۔ ہمارے علاقے کو قبائلی علاقہ کہا جاتا ہے جسے آپ لوگ علاقہ غیر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں پاکستان کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ اب میں ایک ایسے شہر میں ہوں جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ لیکن اب بعد از مرگ سوچتا ہوں کہ اصل علاقہ غیر تو آپ لوگوں کے یہ شہر ہیں جہاں وردی والے جب جسے چاہیں دہشتگرد قرار دیکر مار ڈالیں تو نہ صرف یہ کہ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کے علمبردار انہیں ’’بہادر بچے ‘‘ کا خطاب بھی دیتے ہیں۔ چونکہ میرے خیالات منتشر ہیں اس لئے بار بار موضوع سے بھٹک جاتا ہوں ۔
میں ماڈل بننا چاہتا تھا تاکہ شہرت حاصل کرنے کے بعد پشتونوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ سکوں کہ ’’مائی نیم اِز خان اینڈ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ ‘‘۔ جب ماڈلنگ کا موقع نہ ملا تو میں نے سوچا فی الحال حصول رزق کے لئے کپڑے کی دکان بنا لیتا ہوں۔ کراچی کے باقی علاقے تو ہم پشتونوں کے لئے ویسے ہی علاقہ غیر ہیں تو سہراب گوٹھ میں دکان خریدنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی اثنا میں 3 جنوری کا دن آگیا جب کالی وردی والے اغوا کارمجھے کوئی وجہ بتائے بغیر اٹھا کر لے گئے پورے پاکستان میں شاید کہیں بھی کسی پشتون کو گرفتار کرنے کے لئے کوئی وجہ درکار نہیں ہوتی بس پشتون ہونا ہی شک کے دائرے میں کھڑا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ شاید آپ تو جی کڑا کر کے سن لیں مگر میں یہ دردناک داستان سناتے ہوئے ایک بار پھر مر جائوں گا ۔
آج میں اپنی ماں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جس ماں نے مجھے پیدا کیا ، اس کی گود میں سر رکھ کر تو میں نے کئی بار باتیں کیں مگر آج میں اپنی دھرتی ماں سے مخاطب ہوں۔ بچپن سے ہی ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ماں صرف جنم دینے والی نہیں ہوتی بلکہ مادرِ وطن بھی ماں ہوتی ہے جو اپنے شہریوں کو آغوش میں لئے رکھتی ہے اور ان پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ لیکن تکلف برطرف، ہمیں تو اس ماں نے آج تک کبھی سینے سے نہیں لگایا ۔ اگر یہ ریاست ہم سب کی حقیقی ماں ہوتی تو اس کے پیار میں کوئی تفاوت یا تفریق نہ ہوتی ۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے کچھ بچے اس ماں کو محبوب و مرغوب ہیں تو بعض بچے معتوب و مصلوب بلکہ نامطلوب ہیں۔
پشتونوں کا شمار بھی اس ماں نے ہمیشہ ان چاہے اور بن مانگے بچوں میں کیا یا کم از کم ان سے روا رکھے گئے سلوک سے یوں لگا جیسے یہ سوتیلے بچے ہیں۔ میرے اردو اسپیکنگ دوست جو یہ خط لکھ رہے ہیں ان کا بھی یہی شکوہ ہے کہ ریاست بچوں کو امتیازی سلوک کے نتیجے میں ناخلف اور گستاخ بناتی ہے اور پھر ڈائن کی طرح کھا جاتی ہے تو اسے پیار کرنے والی ماں کا رتبہ کیسے دیا جائے ؟ بلوچ بھی اپنی دھرتی ماں سے یہی گلہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے حصے کا پیار نہیں ملا۔ یہی رائو انوار جسے آصف زرداری بہادر بچہ قرار دے رہے ہیں اس نے سینکڑوں مہاجر اور پشتون نوجوانوں کا جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا ہے کیا وہ کرائے کا قاتل بہادر ہوتا ہے جو بے گناہ لوگوں کے ہاتھ اور پائوں باندھ کر گولیاں مارے؟ 
عین ممکن ہے جن لوگوں کو پولیس مقابلوں میں مارا جاتا ہے ان میں سے بعض واقعی جرائم پیشہ ہوں لیکن کسی پر مقدمہ چلائے بغیر اسے قتل کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ میں آج کسی شخص یا ادارے سے مخاطب نہیں بلکہ اپنی ماں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کیسا مذاق ہے کہ بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈ نکالنے کی شہرت رکھنے والے ایک مفرور کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں یہ کیسا انصاف ہے کہ انوکھے لاڈلے کو محض ایک گمنام خط پر حفاظتی ضمانت دیدی جاتی ہے اور وہ پھر بھی سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوتا ؟ کیا ریاست اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس کے لاڈلے بچے جو چاہیں کرتے پھریں ،کوئی قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا ؟ کیا یہ بتانا مقصود ہے کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جو محض سوتیلے بچوں کو پھانسنے کے لئے بُنا جاتا ہے؟ بچوں کو احساس محرومی کے تیزاب اور سوتیلے پن کے عذاب سے بچانا ہے تو پھر ریاست کو عملاً یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ رائو انوار جیسے ظالموں کی ماں ہے یا پھر نقیب اللہ جیسے مظلوموں کی ماں ہے ؟ پشتونوں سمیت تمام مجبور و مقہور بچوں کو یہ بتانا ہو گا کہ یہ ریاست مادرِ علاتی (سوتیلی ماں ) ہے یا پھر مادرِ گیتی (دھرتی ماں )؟
انہی الفاظ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں ۔
آپ کا اپنا ویر(پنجابی میں آپ لوگ بھائی کو ویر کہتے ہیں اور مجھے بھی میرے دوست ویر کے نام سے جانتے ہیں )
نسیم اللہ محسود المعروف نقیب اللہ محسود
بلال غوری
0 notes
pakistantime · 7 years ago
Text
راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے ک�� حکم
نقیب قتل کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے اور سیکیورٹی فراہم کرنےکا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کےدوران چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ راؤ انوار کو کسی نے نقصان پہنچایا تو ثبوت ضائع ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے انسانی حقوق ونگ کو رائو انوار کی طرف سے ڈاکخانے کے ذریعے خط ملا جس میں راؤ انوار نے موقف اختیا ر کیا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ رائو انوار نے لکھا کہ موقع پر موجود نہیں تھا، ملیر کے لوگوں کی خدمت کی ہے، جو بھی کیا قانون کے مطابق کیا۔
رائو انوار نے خط میں آزاد جے آئی ٹی بنانے کی بھی درخواست کی اور کہا کہ جو فیصلہ جے آئی ٹی کریگی منظور ہو گا۔ خط کی تصدیق کے لیے چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو رائو انوار کے دستخط دکھائے جس پر آئی جی سندھ نے کہا دستخط رائو انوار سے ملتے جلتے ہیں۔ آئی جی سندھ نے بھی رائو انوار کے مطالبے کی ہدایت کر دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں۔ عدالت نے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا اور راؤ انوار کو دالت میں طلب کر لیا۔ عدالتی حکم کےمطابق ،، جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا بریگیڈیر لیول کا آفیسر شامل ہو گا جبکہ ایک قابل افسر کا تعین عدالت خود کریگی۔  
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
راؤ انوار کے سرکے قیمت مقرر کرنے والے شخص کی تلاش
کراچی پولیس نے ایس ایس پی راؤ انوار کے سر کی قیمت مقرر کرنے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ’جو بھی راؤ انوار کا سر لائے گا میں اسے 50 لاکھ روپے انعام دوں گا. سپریم کورٹ میں کیس سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی سندھ  کی توجہ اس ویڈیو کی جانب کرائی تھی اور سوال کیا تھا کہ کیا انھوں نے سوشل میڈیا پر وائرل یہ ویڈیو دیکھی ہے، مائیک پر آئیں اور سب کو بتائیں کہ وہ کیا ہے۔ آئی جی نے کمرہ عدالت کو بتایا تھا کہ راؤ انوار کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے.
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں اب اس طرح لوگوں کے سر کی قیمتیں مقرر ہوں گی کیا یہ کلچر معتارف کرایا جائے گا، ہم شہریوں کے حقوق کے محافظ ہیں، یہ ویڈیو 24 گھنٹے سے چل رہی ہے کیا آپ نے کوئی ایکشن لیا؟ آئی جی نے انھیں بتایا کہ یہ ویڈیو راولپنڈی سے اپ لو�� کی گئی ہے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے متعلقہ آئی جی سے رابطہ کیا، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ انھوں نے سوال کیا کہ اس میں کون کون سے دفعات شامل ہو سکتی ہے، جس پر آئی جی نے انھیں بتایا کہ 153 اے، 505، 501 پی پی سی اور 61 اے ٹی اے۔  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
راؤ انوار کے نجی عقوبت خانوں کا انکشاف
قبائلی نوجوان نقیب اللہ کی ماورائے عدالت ہلاکت میں ملوث سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے نجی عقوبت خانوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف سہراب گوٹھ میں احتجاجی و تعزیتی کیمپ لگایا گیا۔ راؤ انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل دیگر بے گناہ نوجوانوں کے لواحقین اور مظالم کا شکار افراد بھی تعزیتی کیمپ پہنچ گئے۔ متاثرین اسٹیج پر پہنچے اور پولیس مظالم کی داستان سناتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ متاثرین نے بتایا کہ راؤ انوار نے انہیں اغوا کر کے رہائی کے عوض لاکھوں روپے تاوان کا مطالبہ کیا، انہیں 25 دن غیرآباد علاقے میں قید رکھا گیا، راؤ انوار نے گڈاپ میں اپنے نجی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں۔
ادھر جرگے نے نقیب اللہ قتل کی جوڈیشل انکوائری کروانے کے لئے ��کومت کو 3 دن کا الٹی میٹم دے دیا۔ جرگے کے مطابق اگر 3 دن میں جوڈیشل انکوائری شروع نہ ہوئی تو سپر ہائی وے پر دھرنا دے دیا جائے گا۔ نقیب اللہ محسود کے والد سمیت دیگر اہل خانہ بھی قبائلی علاقے وزیرستان سے کراچی پہنچ گئے ہیں اور آج مقدمہ درج کروائیں گے۔ ذرائع کے مطابق سہراب گوٹھ یا شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں مقدمہ کروایا جا سکتا ہے۔ مقدمے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے اور نقیب کے اغوا اور قتل سمیت دیگر دفعات شامل کی جائیں گی۔
دوسری جانب پولیس حکام نے شاہ لطیف ٹاؤن مقابلے میں نقیب اللہ کے ساتھ جاں بحق دیگر 3 ملزمان کے بارے میں بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ مقابلے میں مارے گئے نذر جان اور نسیم اللہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے جبکہ محمد اسحاق بہاولپور کے نواحی علاقے احمد پور شرقیہ کا رہائشی تھا۔ واضح رہے کہ 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے مبینہ پولیس مقابلے میں 4 نوجوانوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں کراچی میں کپڑوں کا تاجر نقیب اللہ بھی شامل تھا۔ راؤ انوار کو واقعے کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔  
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
انکاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار کی بیرون ملک فرار کی کوشش ناکام
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی بیرون ملک جانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ ایف آئی اے کے مطابق ��اؤ انوار کے این او سی پر شک کے باعث انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دستاویزات میں 20 جنوری کو جاری کیا گیا سندھ حکومت کا این او سی بھی تھا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایئرپورٹ نے راؤ انوار کی دستاویزات کو شک کی بنا پر مسترد کر دیا گیا، راؤ انوار نے اپنی سفری دستاویزات ایک ساتھی کے ذریعے ایئرپورٹ بھجوائیں۔ دوسری جانب شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں نقیب محسودکےساتھ دیگر 3 ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ۔  ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے تینوں ملزمان کے کرمنل ریکارڈ کے لیے پنجاب، بلوچستان، کے پی، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اوراسلام آباد کے آئی جیز کے نام خط لکھ دیا جبکہ سندھ کےتمام ڈی آئی جیز کو بھی تینوں ملزمان سے متعلق معلومات دینے کا کہا گیا ہے۔
مقابلےمیں مارے گئے نذرجان اور نسیم اللہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے رہنے والے تھے۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود سمیت چار ملزمان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے نقیب اللہ کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ نقیب محسود کے اہل خانہ نے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا.
جبکہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ راؤ انوارنے سینٹرل پولیس آفس میں انسانی حقوق کمیٹی اور آئی جی سندھ کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا جبکہ انہیں ایس پی انویسٹی گیشن ٹو کے دفتر میں بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کیا گیا ہے مگر وہ وہاں بھی پیش نہیں ہوئے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیا گیا اور پولیس پارٹی کے سربراہ راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
راؤ انوار کے جعلی پولیس مقابلوں کی تحقیقات کیلئے درخواست دائر
سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ کر تے ہوئے ان کے جعلی پولیس مقابلوں کی تحقیقات کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی، جس میں ہوم سیکریٹری، آئی جی سندھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار مزمل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پولیس افسر راؤ انوار اب تک 250 افراد کو قتل کر چکا ہے اور اب تک کسی ایک پولیس مقابلے کی آزادانہ تحقیقات نہیں کرائی گئیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ راؤ انوار نے دوران ملازمت اختیارات سے تجاوز کیا، وہ طویل عرصے سے ملیر میں ہی تعینات رہے اور جعلی پولیس مقابلوں کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ درخواست گزار مزمل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جعلی مقابلوں کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کا بورڈ تشکیل دیا جائے۔
مزمل ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ راؤ انوار کے اثاثوں کی بھی تحقیقات کرائی جائیں اور یہ بھی تحقیقات کرائی جائے کہ انہوں نے دبئی میں جائیدادیں کیسے بنائیں۔ راؤ انوار کے خلاف دائر درخواست کے مزید مندرجات میں ان کی جانب سے 1992 سے 2018 تک معصوم شہریوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کیے جانے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ مزمل ایڈووکیٹ کے مطابق راؤ انوار نے نہ صرف شہریوں کو قتل کیا بلکہ ان کے اہل خانہ سے رقم بھی بٹوری، مختلف مواقعوں پر شہریوں کی جانب سے راؤ انوار کے خلاف شکایات بھی کی گئیں مگر اعلیٰ پولیس افسران نے تحقیقات نہیں کرائیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار کو متعدد بار معطل تاہم پھر بحال کیا گیا، تحقیقات کرائی جائیں کہ راؤ انوار کو شہریوں کو قتل کرنے کے احکامات کون دیتا رہا ہے۔  
0 notes
mypakistan · 7 years ago
Text
راؤ انوار نے جعلی پولیس مقابلوں میں 250 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا
انکاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار سندھ پولیس کا متنازع ترین افسر ہے، کہا جاتا ہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے مبینہ پولیس مقابلوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، معجزاتی طور پر کسی بھی پولیس مقابلے میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے کسی ممبر کو خراش تک نہ آئی۔ سندھ پولیس کے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس میں بااختیاراورطاقتور ترین افسر سمجھے جاتےہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ راؤانور کے پاس لائسنس ٹو کل ہے تو غلط نہ ہو گا، نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلےمیں ہلاکت کے بعد ان کیخلاف اٹھنے والی آوازوں نے راؤ انوار کے پولیس مقابلوں کو ایک بار پھر مشکوک بنا دیا ہے۔
راؤ انوار قسمت کے دھنی ہیں یا پھر ان کے پاس کوئی جادوئی طاقت ہے، جہاں بھی وہ پولیس مقابلہ کرتے ہیں وہاں ہمیشہ دہشت گرد مار دیئے جاتے ہیں۔ حیران کن طور پرراؤ انوار نے جتنے پولیس مقابلے کیے، ان میں 90 فیصد مبینہ دہشت گرد مار دیئے گئے، پولیس پارٹی کو خراش تک نہ آئی۔ مبینہ پولیس مقابلوں میں دہشت گردوں سے بھاری اسلحہ برآمدگی کے دعوے بھی کیے گئے جس کا کبھی فرانزک ٹیسٹ نہیں کیا گیا، مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے راؤ انور کے مقابلوں کو جعلی قرار دیا گیا، اختیارات سے تجاوز کرنے پر انہیں کئی بار توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کیے گئے، تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں مگر راؤ انور کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔
انیس سو بیاسی میں اے ایس آئی بھرتی ہونےوالے راؤ انوار سابق صدر آصف علی زرداری کے خاص آدمی سمجھے جاتے ہیں اور اسی بنا پر وہ گریڈ 18 کے افسر ہونے کے باوجود گریڈ 19 کی پوسٹ پر براجمان ہیں۔ پولیس میں افسران کےتقرر و تبادلے معمول ہیں مگر راؤ انوار کئی سالوں سے اپنے پسندیدہ ضلع ملیر میں تعینات ہیں، ان پر دو بار مبینہ خود کش حملے بھی ہوئے ہیں مگر وہ بچ گئے، کئی بار معطل بھی ہوئے اور کچھ وقت کے بعد وہ پھربحال کر دئیے گئے، دیکھنا یہ ہے کہ ان کی اس بار کی معطلی کیا رنگ لاتی ہے؟  
0 notes