#ہومیوپیتھک
Explore tagged Tumblr posts
Text
**شراب نوشی کی عادت اور اس کے علاج کے لئے ہومیوپیتھک ادویات**
#Alcoholism #Homeopathy #Health #Wellness #Recovery #Addiction #Treatment #Homeopathy #DrAshfaqAhmad #HolisticHealth #NaturalHealing #HealthTips #HealthyLifestyle
0 notes
Text
سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے
سیاست میں آدھا کام سیاستدان کی عام آدمی سے رابطے کی صلاحیت اور محنت کرتی ہے اور باق کام اس پر لگی چھاپ سے ہو جاتا ہے۔ یعنی سیاستدان دائیں بازو کا ہے کہ بائیں کا، دبنگ ہے کہ موقع پرست، وعدہ نبھانے والا ہے یا وعدہ فراموش عوامی طاقت پر کامل یقین رکھتا ہے یا چور دروازے کو بھی مباح سمجھتا ہے۔ وقت آنے پر وفاداروں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے یا ترغیب و تحریص و دباؤ کے سبب ان کی بلی چڑھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اپنی بات پر اڑ جاتا ہے یا حالات و ذاتی و بقائی فائدہ دیکھ کے رنگ بدل لیتا ہے۔ سیدھی بات کرتا ہے یا خود کو ہر بار درست ثابت کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی جلیبی بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی کچھ بھی ہو مگر چھاپ اکثر سچائی کو دبا لیتی ہے۔ مثلاً جماعتِ اسلامی لاکھ کہتی رہے کہ اس کے ارکان دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ منظم، ایمان دار، متقی و پرہیز گار ہیں۔ مگر جب جماعت کے سیاسی کردار کی بات ہوتی ہے تو عموماً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے چھوڑیے صاحب وہ تو ہر اہم دوراہے پر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ثابت ہوئی ہے۔
جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمان کے والدِ محترم مفتی محمود کی سیاست بے شک اصولی رہی ہو گی۔ خود فضل الرحمان نے بھی اپنی جوانی میں مارشل لا مخالف ایم آر ڈی جیسی جمہوریت پسند تحریکوں کا ساتھ دیا ہو گا۔ مگر آج مولانا کی تصویر یوں ہے کہ وہ عملی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ اعصابی تناؤ سے دور ہیں۔ اسی لیے بیک وقت پانچ گیندیں ہوا میں اچھال سکتے ہیں اور کبھی گرنے نہیں دیتے۔ لفافہ دیکھ کے خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ کسی بھی فائدہ مند سودے بازی میں اپنے قریبی عزیز و اقارب کو بھی برابر کا حصہ دار بناتے ہیں۔ شکار اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بوقت ضرورت وضع داری و سہولت برقرار رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی کام آ جاتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جب تک نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تھی تب تک بائیں بازو کی ایک سرکردہ قوم پرست جماعت کہلاتی تھی۔ مگر جدید اے این پی ایک ایسی خاندانی جاگیر ہے جو عملیت پسند سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
اس میں اگر کوئی نظریاتی مخلوق پائی جاتی ہے تو وہ اس کے پرانے سیاسی کارکن ہی ہیں۔ اگر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت نہیں تو دشمنی بھی نہیں۔ پہلے وہ قومیتی مفاد کی حامی تھی۔ اب ’وسیع تر قومی مفاد‘ کی حامی ہے۔ خان عبدل ولی خان کی زندگی تک اس کی جڑیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خاصے بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اب اس کے زیادہ تر اثرات ولی باغ سے پشاور تک ہیں۔ گویا یہ اپنی ہی عظمتِ رفتہ کی نشانی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف جب عوامی سطح پر متعارف کروائی گئی تو اسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تازہ فخریہ پیش کش اور ملکی مسائل کے حل اور سیاسی گند کی صفائی کرنے والا الہ دین ٹائپ چراغ بتایا گیا مگر پونے چار برس کے اقتدار میں ہی یہ فخریہ پیش کش ایسا کمبل بن گئی جس سے اسٹیبلشمنٹ تو جان چھڑانا چاہ رہی ہے لیکن کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔ حالانکہ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کی کمبل کٹائی بھی لگاتار جاری ہے۔ الہ دین اندر ہے اور چراغ باہر اور وہ بھی بجھا بجھا سا۔ فی الحال اس پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ہے۔
مگر پاکستان میں وقت اور چھاپ بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔ مثلاً جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف ’اینٹی اسسٹیٹس کو‘ جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہو گئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ اس کی قیادت ذاتی ’سٹیٹس کو‘ کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی ہے۔ جب تشکیل پائی تھی تو ڈرائنگ روم کی سیاست کو سڑک پر کھینچ لائی تھی۔ پچپن برس بعد وہ سیاست کو دوبارہ ڈرائنگ روم میں لے گئی ہے اور عام آدمی جو پہلے لیڈر کے بنگلے میں پاؤں پسارے بیٹھا رہتا تھا اب گیٹ کے باہر بٹھایا جاتا ہے۔ جو قربانیوں کا پارٹی سرمایہ تھا وہ بھی دو ہزار آٹھ تک کھلا کرا لیا گیا۔ اب عوام کو کچھ نیا دینے کو نہیں بچا۔
مسلم لیگ نواز آغاز سے ہی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کے اکثریتی شیئرز ایک ہی خاندان کے پاس ہیں۔ ابتدا میں یہ بھی اصلی مسلم لیگ کی ایک دور پار کی فرنچائز تھی مگر اس نے دیگر لیگی دھڑوں کے برعکس رفتہ رفتہ پنجاب کی حد تک عام آدمی کو متوجہ کر کے ایک مقبول جماعت بننے میں کامیابی حاصل کی۔ شروع میں اس پر ضیا نوازی کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور اسے پیپلز پارٹی کو ’وختہ‘ ڈالنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر تیسری بار اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی قیادت نے کچھ عرصے کے لیے چی گویرا اور منڈیلا بننے کی کوشش کی۔ لیکن اب دوبارہ اس مصرعے کی قائل ہو گئی ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چالیس برس میں کئی مد و جزر آئے مگر کوئی طوفان بھی نونی خاندان کا اندرونی اتحاد نہ توڑ سکا۔ پارٹی سٹرکچر بہت سادہ اور نظامِ شمسی کے اصول پر استوار ہے۔ ایک سورج اور اس کے گرد گھومتے گوجرانوالہ کے مریخ، سرگودھا کے عطارد، سیالکوٹ کے پلوٹو، گجرات کے نیپچون، فیصل آباد کے زحل اور لاہور کے زہرہ وغیر وغیرہ۔
بلوچستان میں جو سیاستدان اور جماعتیں آج بھی وفاق پرست ہیں۔ ان کا کردار سٹیپنی کا رہا ہے۔ جب اور جہاں جس گاڑی کے لیے ضرورت پڑی بارعائیت دستیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔ مندرجہ بالا تمام جماعتیں دراصل سیاسی قبائل ہیں۔ جب تک یہ قبائل خود کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسی سیاسی جماعت کے جسم میں نہیں ڈھالتے جس میں نیا خون مسلسل بننا اور گردش میں رہنا چاہیے تب تک یہ طرح طرح کی متعدی بیماریوں کا شکار رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کی اسی دلجمعی سے عیادت و علاج کرتی رہے گی۔ ایسے میں الیکشن سوائے ایک لاحاصل ورزش کے کچھ نہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
بجٹ آ گیا : حزب اختلاف کہاں تھی؟
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف اور قائد حزب اختلاف کہاں تھے؟ روایت تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک عدد قائد حزب اختلاف تشریف فرما ہوتے ہیں، جنہیں تفنن طبع میں ساتھی پارلیمنٹیرین وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کہتے ہیں۔ کیا ہم جان سکتے ہیں اس بجٹ پر ان کا موقف کیا ہے؟ راجہ ریاض صاحب کے پاس اس بجٹ پر تنقید کرنے کے لیے یا اصلاح احوال کے لیے کچھ تجاویز ہیں؟ یا وہ بھی وزیر خزانہ کو دیکھ کر دل ہی دل میں گنگنا لیتے ہیں: ’ڈار تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔‘ نیز یہ کہ ڈار صاحب جواب میں التفات فرماتے ہیں یا وہ اردو کے مسکین اور عزت نفس سے محروم شاعروں کے سنگدل محبوب کی طرح ہیں، جو اپنے چاہنے والوں کو ’پشانتے‘ ہی نہیں۔پارلیمانی جمہوریت صرف حزب اقتدار کا نام نہیں، حزب اختلاف کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے جو بجٹ جیسے مواقع پر دوچند ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر اگر حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ہی موجود نہ ہو تو یہ نیک شگون نہیں ہوتا۔ بجٹ صرف حکومت کی جانب سے پیش کردہ الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں ہوتا، اس میں حزب اختلاف کی مشاورت بھی شامل ہوتی ہے، اس مشاورت کو حکومت سنجیدگی سے نہ لے تو پھر وہ تنقید کر کے عوام کو بتاتی ہے کہ بجٹ میں کیا خامی ہے اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔
میں کسی اَن دیکھی دنیا کی بات نہیں کر رہا۔ خود سندھ اسمبلی میں حکومت کی حالیہ بجٹ کے حوالے سے یہ قرارداد منظور ہو چکی ہے کہ حزب اختلاف کی سفارشات کا جائزہ لے کر بجٹ بنایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں حزب اختلاف کہاں ہے؟ اس کی مشاورت کیا ہوئی؟ اس کا بنایا ہوا متبادل یعنی شیڈو بجٹ کدھر ہے؟ یہ سوالات اصل میں پاکستان تحریک انصاف کے فکری بحران کا اعلانِ عام ہیں۔ کیسی مقبولیت تھی، کاش تھوڑی سی بصیرت بھی منی بس کے روٹ کی طرح ہمراہ ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ تحریک عدم اعتماد آتی رہتی ہے، پارلیمانی سیاست کا یہ لازمی جزو ہے۔ عمران پارلیمان میں رہتے تو دھوپ چھاؤں کا آنا جانا لگا رہتا، لیکن یہ سیاسی جماعت تھی ہی کب۔ یہ تو ایک ’کلٹ‘ تھا، جہاں ریڈ لائن ہی نہیں، عقل کا گھنٹہ گھر بھی فرد واحد تھا۔ اس جماعت میں مشاورت کا عالم وہی تھا جو انور مسعود اپنی نظم میں بیان کر چکے۔ کپتان خان انور مسعود کے چوہدری کی طرح پوچھتے تھے: ’اج کیہہ پکائیے؟‘ جواب میں ڈھیر سارے رحمے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور پھر پکار اٹھتے: ’بجھ لیا کپتان جی چھولیاں دی دال اے۔‘ چھولیاں دی دال یوں کھائی گئی کہ اب بد ہضمی کا شکار انقلابی نونہال پریس کانفرنسوں کے لیے قطاروں میں لگے ہیں۔
یکے بعد دیگرے غلط فیصلے کیے گئے، جیسے کہیں طے کر لیا کہ عقل و شعور کو تو میں نے چھوڑنا نہیں۔ عقل اور سنجیدگی کو دلیپ دوشی سمجھ کر باؤنسر مارے گئے۔ اب ساری پارٹی کا ’مسل پُل‘ ہوا پڑا ہے۔ طنطنے سے استعفے دے کر ایوان کے جو دروازے خود پر بند کیے گئے وہ منتوں ترلوں سے بھی نہیں کھل سکے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت تھی اپنے ہاتھوں ختم کر دی۔ باقی پارٹی بچی تھی، جو غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ افتاد طبع کی نذر ہو گئی۔ خیر خواہانہ تنقید کرنے والوں کو جن کے اشاروں پر گالیوں سے نوازا جاتا تھا وہ خود اب ترین فارم کے آم کھا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس سارے عمل میں جمہوریت کو کیا ملا؟ سونامی نے آتے وقت بھی جمہوریت اور اہل سیاست کے لیے گنجائش کو محدود سے محدود تر کیا اور اپنی بے بصیرتی سے جاتے ہوئے بھی یہی کام کیا۔ اب ایسا خلا ہے کہ بجٹ دستاویز ایوان میں رکھے ہیں اور حزب اختلاف کا کہیں وجود ہی نہیں کہ اس ڈاکیومنٹ پر کوئی با مقصد گفتگو ہو سکے اور اس میں اصلاح احوال کی کوئی تجویز سامنے آ سکے۔ اور نہیں تو کم از کم اتنا تو ہوتا کہ بجٹ کے دوران تھوڑی رونق ہی لگ جاتی۔
پارلیمان میں کوئی نعرہ بازی ہوتی، کوئی شور مچایا جاتا، پلے کارڈ لے کر وزیر خزانہ کا گھیراؤ ہوتا، ان کی تقریر کے دوران ڈیسک بجائے جاتے۔ کچھ تو ہوتا۔ ایسا ہومیوپیتھک بجٹ بھی بھلا کوئی بجٹ ہوتا ہے۔ پارلیمان سے باہر نکلا تو سامنے ٹریل فائیو تھی۔ ایک دوست ملے۔ ہم نے اکٹھے چائے پی۔ پھر میں نے یہی دکھڑا ان کے سامنے رکھا کہ کہ بجٹ تو آ گیا ہے حزب اختلاف نظر نہیں آ رہی۔ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’کیا تمہیں حزب اقتدار کہیں نظر آ رہی ہے؟ کیا تم بتا سکتے ہو وہ کہاں ہے؟‘ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے مارگلہ کا جنگل تھا۔ جنگل میں ہُو کا عالم تھا۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
Homeopathy
ہومیوپیتھک میں تاثیری مزاجوں کی کیا اہمیت ہے ؟ ہومیوپیتھک ادویہ کے مزاج موجود ہیں. تمام ہومیو ادویہ کچھ گرم مزاج، کچھ تر مزاج اور کچھ خشک سوداوی مزاج کی ہوتی ہیں. اس کی یہ دلیل ہے. تمام ہومیو ادویہ مادہ اشیاءسے بنتی ہیں. ان تمام اشیاء کے مزاج ہوتے ہیں. اس لئے تمام ہومیو ادویہ کے مزاج ہیں. ہومیو پیتھک کی مشہور دواء سلفر گندک سے بنتی ہے. گندک کا مزاج گرم خشک ہے. طب یونانی میں اس کو صفراوی مزاج…
View On WordPress
0 notes
Photo
حضرت #امیرالمومنین #خلیفۃ_المسیح_الخامس ایّدہ اللہ نے ازراہِ شفقت #CovidVaccine ( ASTRAZENECA# اور PFIZER# ) کے بداثرات کےتدارک کے لیے بعض #ہومیوپیتھک ادویہ تجویز فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے Repost from Al Fazl. Follow Al Fazl on Twitter. #COVID #Islam #Ahmadiyya #Ramadhan #allah #love #ramadanmubarak #islamicquotes #ramadankareem #covid #puasa #muslimah #islamic #stayhome #instagram #sunnah #dirumahaja #hijab #makkah #eidmubarak #iftar #allahuakbar #dua #ramazan #alhamdulillah (at Dhaka, Bangladesh) https://www.instagram.com/p/CNsJZsRnzHC/?igshid=139gmd6pckvq6
#امیرالمومنین#خلیفۃ_المسیح_الخامس#covidvaccine#ہومیوپیتھک#covid#islam#ahmadiyya#ramadhan#allah#love#ramadanmubarak#islamicquotes#ramadankareem#puasa#muslimah#islamic#stayhome#instagram#sunnah#dirumahaja#hijab#makkah#eidmubarak#iftar#allahuakbar#dua#ramazan#alhamdulillah
0 notes
Photo
#Homeopathic medicine for the prevention of #Corona its increased resistance power in the body. Medicine Name 1,Eupatorium perfolitum 30 2,R-88 ( Dr Reckeweg ) 3,Influenzinum 30 4,Acconite 30 5,Arsenicum album 30 Take 10 drop of each medicine and Mix all together in half Glass of water and give everyone two table spoon for three days Homeo Dr. Zahid Akhtar Khanzada D, H, M, S, (Pakistan) Alternative Medical Practitioner (US) Board Certified American Alternative Medical Association USA کرونا سے بچاؤ اور #کرونا کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے کیلیئے #ہومیوپیتھک دوا کا نسخہ۔ یہ سب دوائوں کے دس دس قطرے ملاکر ایک گلاس پانی میں ملالیں اور سبکو دو دودو چمچہ دن میں تین مرتبہ دیں بچاؤ کیلئے تین دن مستقل دیں ہومیو ڈاکٹر زاہد اختر خانزادہ ڈی، ایچ، ایم، ایس، (پاکستان) الٹنرنٹیو میڈیکل پریکٹشنر( امریکہ) بورڈ سرٹیفائڈ امریکن الٹرنییٹو میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ #Homeopathic_for_Corona https://www.instagram.com/p/B-Dxk4Yl8Si/?igshid=13yq02xd5tlze
0 notes
Text
برسٹ دیلوپنگ…
بہت سی خواتین بریسٹ سائز بڑھانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں جن میں بہت مہنگے اور تکلیف دہ طریقے بھی استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً سرجری ایک مہنگا اور خطرناک طریقہ ہے جیسا کہ آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں یعنی اس کے مضر اثرات زیادہ ہیں اور فوائد میں نسبتاً کم موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے عام درجے اور دیگر خواتین سرجری جیسے تکلیف دہ عمل سے گریز کرتی ہیں۔ بریسٹ سائز کی بڑھوتری کا دارومدار عمر اور صحت پر منحصر ہوتا ہے لیکن بعض خواتین ہارمون کی کمی و زیادتی اور غیر تسلی بخش صحت بھی بریسٹ کی نشونما پر اثر انداز ہوتی ہے۔
چند قدرتی طریقے اپنا کر آپ بریسٹ سائز کو بڑھا سکتی ہیں۔
اگر آپ بغیر سرجری اور لیزر کے اپنے بریسٹ کو پرکشش بنانا چاہتی ہیں تو آپ کو اپنی مکمل صحت کیلئے وقت کرنا ہوگی جس کیلئے آپ اپنی خوراک اور معیاری اور متوازن صورت میں ترتیب دیں یہ آپکی مکمل صحت اور فٹنس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اچھی اور معیاری خوراک کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور پر ورزش کو اپنا معمول بنایا جائے اور ہوسکے تو کسی جم یا کلب میں مخصوص چیسٹ ایکسر سائز کی جائے اس سے آپ کی چھاتی کے مسلز مضبوط ہوں گے اور بہتر طور پر نشونما پاسکیں گے۔
بعض خواتین کا بلوغت کی ابتداء میں ہی ہارمون کے مسائل پیش آجاتے ہیں اور مخصوص ہامون جیسے ایسٹروجن کہتے ہیں اپنا کام سر انجام نہیں دے سکتا اور خواتین کے بریسٹ بڑھنا رک جاتے ہیں اس کیلئے مارکیٹ میں بہت سے قدرتی سپلیمنٹ دستیاب ہیں جن میں ایسٹروجن موجود ہوتا ہے اس کے استعمال سے مناسب طور پر بریسٹ کو پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازین حیض کے دوران پیچیدگی کی صورت میں ہارمون پروجسٹرون کے قدرتی عمل میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور یہ ہارمون باقاعدگی سے اوریز اور میمری گلینڈ کو متحرک نہیں کرپاتا جس سے اعضائے مخصوصہ کی نشونما متاثر ہوتی ہے اس لئے ایسٹروجن اور پروجسٹرون پر مبنی ادویات ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق استعمال کریں یہ بذریعہ دہن اور بیرونی استعمال کیلئے موثر ثابت ہوتی ہے اور ان کے استعمال سے بہتر طور پر بریسٹ کو نمایوں کیا جاسکتا ہے۔
مڈل ایسٹ کی خواتین بہت سی جڑی بوٹیاں استعمال کرتی ہیں جن سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ان میں فنگریک اور فینیل کا نام قابل ذکر ہیں ان کے ایکسٹریکٹ چھاتیوں کے مسلز کو کافی حد تک بڑھا دیتے ہیں اور عمر کے تقاضے سے چھاتیاں بہتر طور پر نشونما پاتی ہیں یہ اجزاء آپ کو کسی بھی یونانی اسٹور سے مل سکتے ہیں جن کو آپ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق خرید سکتی ہیں۔
بریسٹ سائز بڑھانے کے کچھ دیسی ٹوٹکے
شہد کو روغن ارنڈ میں ملا کر نیم گرم کریں اور ہلکے ہاتھ سے بریسٹ پر مالش کریں بعد میں برگ ارنڈ اوپر سے باندھ لیں۔ اس عمل سے بریسٹ دن بدن بڑھنا شروع ہوجائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ عمل متواتر کیا جائے۔
ہومیو پیتھک دوا فائی ٹو لاڈی سینڈرا 30 کی طاقت کا کہہ کر کسی بڑے ہومیوپیتھک اسٹور سے طلب فرمائیں یہ آزمودہ نسخہ ہے۔
اگر بریسٹ میں ورم ہو تو عرق گلاب ‘ اسپغول کی بھوسی اور سرکہ ان تمام چیزوں کو بریسٹ پر لگائیں۔
سرکہ انگوری میں کپڑا تر کرکے ہر وقت بریسٹ پر لپیٹ کر رکھیں اس سے بہت جلد ہی بریسٹ کا سائز بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے...
26 notes
·
View notes
Text
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمتہ اللہ علیہ پیشہ کے اعتبار سے ہومیوپیتھک معالج تھے اور مطب (کلینک) کرتے تھے۔
جید علماء ان سے بیعت ہوئے، جیسے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب وغیرہ، ڈاکٹر صاحب سے بیعت ہوئے۔
مشہور کتاب اسوۂ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈاکٹر صاحب ہی کی لکھی ہوئی ہے۔
ایک دفعہ حاضرین مجلس سے فرمانے لگے؛
آپ کہاں لمبے لمبے مراقبے اور وظائف کرو گے۔ میں تمہیں اللہ کے قرب کا مختصر راستہ بتائے دیتا ہوں۔ کچھ دن کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، قرب کی منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں:
1 ____ اللہ پاک سے چُپکے چُپکے باتیں کرنے کی عادت ڈالو۔ وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی جائز کام کرنے لگو دل میں یہ کہا کرو؛
اللہ جی۔۔
(ا) اس کام میں میری مدد فرمائیں۔۔
(ب) میرے لئے آسان فرما دیں۔۔
(ج) عافیت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔۔
(د) اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں۔۔
یہ چار مختصر جملے ہیں، مگر دن میں سینکڑوں دفعہ اللہ کی طرف رجوع ہو جائیگا اور یہ ہی مومن کا مطلوب ہے کہ اسکا تعلق ہر وقت اللہ سے قائم رہے۔
2 ____ انسان کو روز مرہ زندگی میں چار حالتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔۔
(ا)۔ طبیعت کے مطابق۔
(ب)۔ طبیعت کے خلاف۔
(ج)۔ ماضی کی غلطیاں اور نقصان کی یاد۔
(د)۔ مستقبل کے خطرات اور اندیشے۔
جو معاملہ طبیعت کے مطابق ہو جائے اس پر اللهم لَكَ الحَمدُ ولَكَ الشُّكر کہنے کی عادت ڈالو۔
جو معاملہ طبیعت کے خلاف ہو جائے تو انا لله وانا اليه راجعون کہو۔
ماضی کی لغزش یاد آجائے تو فورا استغفراللہ کہو۔
مستقبل کے خطرات سامنے ہوں تو کہو
اللهم اِنّى أعوذ بكَ مِن جَمِيعِ الفِتَنِ ما ظَهَرَ مِنها وما بَطَن۔
شکر سے موجودہ نعمت محفوظ ہو گئی۔
نقصان پر صبر سے اجر محفوظ ہو گیا اور اللہ کی معیت نصیب ہو گی۔۔
استغفار سے ماضی صاف ہو گیا۔۔
اور اللهم انى أعوذ بك سے مستقبل کی حفاظت ہوگئی۔۔
3 ____ شریعت کے فرائض و واجبات کا علم حاصل کر کے وہ ادا کرتے رہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتے رہو۔
4 ____ تھوڑی دیر کوئی بھی مسنون ذکر کر کے اللہ پاک سے یہ درخواست کر لیا کرو؛
اللہ جی۔۔۔ میں آپ کا بننا چاھتا ہوں، مجھے اپنا بنا لیں، اپنی محبت اور معرفت عطا فرما دیں۔
چند دن یہ نسخہ استعمال کرو پھر دیکھو کیا سے کیا ہوتا ہے اور قرب کی منزلیں کیسے تیزی سے طے ہوتی ہیں۔۔!!
9 notes
·
View notes
Text
سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والے اطہر شاہ خان
اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943ء میں ہندوستان کی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے خاندانی لحاظ سے اخون خیل پٹھان تھے۔ چوتھی جماعت میں تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والد محکمہ ریلوے میں ملازم تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ والدین کے بعد ان کے بڑے بھائی سلیم شاہ خان نے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بچپن سے انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ تیسری جماعت میں والدہ نے انہیں علامہ ��قبال کی کتاب بانگ درا انعام میں دی۔ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک تعلیم حاصل کی اور پھر کراچی میں اردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ سینٹرل ہومیو پیتھک میڈیکل کالج سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی سند بھی حاصل کی۔
پیشہ ورانہ زندگی کا مختصر جائزہ اطہر شاہ خان نے ٹیلی وژن اور اسٹیج پر بطور ڈراما نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا۔ ان کے تحریر کردہ مزاحیہ ڈراموں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ جیدی کے نام سے مشہور اطہر شاہ خان نے ریڈیو پاکستان سے کیریئر شروع کیا اور میڈیا انڈسٹری میں ایک ممتاز شخصیت بن گئے۔ انہوں نے سب سے زیادہ مشہور ڈرامے ’’جیدی کے سنگ‘‘ سمیت 700 سے زائد پلے لکھے۔ علاوہ ازیں ’’انتظار فرمائیے‘‘ میں اطہر شاہ خان کی عمدہ کارکردگی کو بہت سے لوگ بھلا نہیں سکتے۔ ان کا ایک ڈرامہ ’’باادب باملاحظہ ہوشیار‘‘ آج بھی حالات حاضرہ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے حاکم وقت کا کردار بھی ادا کیا تھا۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے ہی ایک ڈرامے کے ایک اداکار کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کر رہے تھے کہ سواری میں کوئی نقص پیدا ہو گیا، جب اسے ٹھیک کرنے کے لیے رکے تو لوگوں نے اداکار کو پہچان لیا لیکن مصنف (یعنی اطہر شاہ خان) کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ بقول اطہر شاہ خان کے اس واقعہ نے انہیں اداکاری پر مائل کیا جس کے نتیجہ میں جیدی کا کردار تخلیق ہوا۔ جیدی کے کردار پر مرکوز پاکستان ٹیلی وژن کا آخری ڈراما ’’ہائے جیدی‘‘ 1997ء میں پیش کیا گیا۔ ان کے بہترین ڈراموں میں ’انتظار فرمائیے‘، ’جانے دو‘، ’برگر فیملی‘، ’آشیانہ‘، ’ہیلو ہیلو‘، ’ ہائے جیدی‘ سمیت ’با اَدب با ملاحظہ ہوشیار‘ اور دیگر شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اطہر شاہ خان کو 2001ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جبکہ پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی سلور جوبلی کے موقع پر انھیں گولڈ میڈل عطا کیا تھا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Video
youtube
ہومیوپیتھک پوٹینسی کا استعمال ،ہومیو سٹوڈنٹس اور نیو ہومیو ڈاکٹرز خاص ,U...
1 note
·
View note
Video
ذہنی دباو ڈپریشن کا ہومیوپیتھک علاج Tension and Depression T...
1 note
·
View note
Text
الکحل ملی ہوئی دوا کا استعمال جائز ہے یاناجائز؟
الکحل ملی ہوئی دوا کا استعمال جائز ہے یاناجائز؟
الکحل ملی ہوئی دوا کا استعمال جائز ہے یاناجائز؟ ہومیوپیتھک دوا کاکھانا کیسا ہے ، میں نے سنا ہے اس میں الکحل ملا رہتا ہے. المستفتی:قاری عرفان بھجواری ضلع سدھارتھ نگر یوپی انڈیا الجواب بعون الملک الوھاب الکحل آمیز دواؤں کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس مسئلہ پر جامعہ اشرفیہ مبارک پور یوپی انڈیا میں فقہی سیمینار ہوا جس کا نتیجہ مفتی نظام الدين صاحب نے ان الفاظ میں تحریر فرمایا: “مجلس شرعی کی ساری ابحاث…
View On WordPress
#Al kohal mili hui dawa ka istemal#الکحل ملی ہوئ دوا کا استعمال کرنا کیسا ہے#الکحل ملی ہوئی دوا کا استعمال جائز ہے یاناجائز
0 notes
Text
2 Bemar Doston Ki Mulaqat
2 Bemar Doston Ki Mulaqat
دو بیمار دوستوں کی ملاقات میرے سامنے بے شمار ’’کھانے پینے‘‘ کی اشیا دھری تھیں، میرے پاس میرا پوتا ارسلان بیٹھا تھا، میں ابھی کھانے پینے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میرا پرانا دوست مسعود لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور کرسی پر براجمان ہو گیا۔ میں نے اس سے سلام دعا کے بعد ارسلان سے کہا ’’لو بیٹے پہلے پروسٹیٹ کی میڈیسن نکالو‘‘۔ اس نے فوراً ہومیوپیتھک ڈراپس دیئے اور اس کے بعد پروسٹیٹ کی ایلوپیتھک میڈیسن دی۔…
View On WordPress
0 notes
Text
Antimonium Crudum
سرمہ سے بننے والی ہومیوپیتھک دوا اردو – سرمہ سیاہ عربی – کحل / اثمد ہندی – انجن اصفہانی اور باجور کا معدنی سرمہ بہترین سمجھا جاتا ہے۔ جو سرمہ گندھک اور جست کے ساتھ ملا ہوتا پے وہ زیادہ سخت ہوتا ہے لیکن قندھاری سرمہ گندھک اور پارہ سے مل کر بنتا ہے۔ مارکیٹ میں ملنے والا سفید سرمہ ماربل کی قسم یعنی کاربوہائیڈریٹ آف لائم ہے جس کی ایک قسم کالی ہے۔ اینٹیمنی ایک سیاہ چمکدار دھات ہے۔ افعال و…
View On WordPress
0 notes
Text
دمہ : علامات ، وجوہات اور ہومیوپیتھک علاج - اردو نیوز پیڈیا
دمہ : علامات ، وجوہات اور ہومیوپیتھک علاج – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین دمہ میڈیکل سائنس میں پھیپھڑوں کی دائمی بیماری کو کہتے ہیں۔ اس میں سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں ، یوں مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس بیماری میں خاص طور پر پھیپھڑوں کی دو بڑی نالیاں جو سانس لینے میں مددگار ہوتی ہیں، سوجن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ چونکہ دمہ ہوا کی نالیوں میں تنگی سے ہوتا ہے جس کے سبب سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ، یوں سانس لینے میں سیٹی کی آواز…
View On WordPress
0 notes
Text
ہومیوپیتھک ڈاکٹر رجسٹریشن کھو بیٹھا ، لیکن مہم جاری رکھنے کا عزم کیا۔
ہومیوپیتھک ڈاکٹر رجسٹریشن کھو بیٹھا ، لیکن مہم جاری رکھنے کا عزم کیا۔
Travancore-Cochin Medical Councils (TCMC) نے شاید ایک سال کے لیے اس کی رجسٹریشن معطل کر دی ہے۔ لیکن عارف حسین ، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر جو کہ اب اس نظام طب کے سخت ناقد ہیں ، بے زار ہیں اور اپنی مہم جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
28 جولائی کو ٹی سی ایم سی نے ڈاکٹر حسین کو نوٹس جاری کیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ وہ “سوشل میڈیا اور تقاریر کے ذریعے ہومیوپیتھک نظام طب کا غلط استعمال کرتے ہوئے پایا گیا”۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ کونسل نے ان سے وضاحت طلب کی اور انہیں اپنے دفتر میں پیش ہونے کی ہدایت کی ، ڈاکٹر حسین نے “جواب دینے سے انکار کر دیا۔” کونسل نے اسے “دانستہ گمراہی” کے طور پر دیکھا۔ چونکہ کونسل کو یقین ہے کہ اس کی کارروائی طبی اخلاقیات کے خلاف تھی ، اس لیے 23 مارچ 2010 سے اس کی رجسٹریشن ٹی سی ایم سی کی ہومیو کونسل نے ایک سال کے لیے منسوخ کر دی تھی۔ ڈاکٹر حسین کو اس دوران ہومیوپیتھی پریکٹس یا میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے خلاف مشورہ دیا جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر حسین نے کہا کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ہومیوپیتھی کی پریکٹس بند کر دی تھی۔ “میں ہومیوپیتھی کی غیر سائنسی نوعیت کے خلاف مہم چلا رہا ہوں۔ یہ قدرتی طور پر اپنے پریکٹیشنرز کے درمیان کچھ جلن کا باعث بن رہا ہے۔ وہ ان مسائل کو حل کر سکتے تھے جو میں اٹھا رہا ہوں۔ اس کے بجائے وہ طاقت کے استعمال اور طاقت کے غلط استعمال سے مجھے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر وہ مجھے غلط ثابت کر سکتے ہیں تو میں فطری طور پر خاموش ہو جاؤں گا۔ وہ یہ کیوں نہیں کر رہے؟ ” اسنے سوچا. ڈاکٹر حسین نے کہا کہ وہ ممکنہ میڈیکل طلباء میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر ہومیوپیتھی کو بطور پیشہ لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ، “اگر مجھے اس بارے میں پہلے بتایا جاتا تو میں کورس میں شامل نہ ہوتا۔”
Source link
0 notes