#ہائیر
Explore tagged Tumblr posts
Text
پنجاب حکومت کا پرائمری سے ہائیر سیکنڈری تک سکولز بند کرنے کا اعلان
(راو دلشادحسین) پنجاب حکومت نے پرائمری سے ہائیر سیکنڈری تک سکول بند کرنے کا اعلان کردیا جبکہ ماسک کا استعمال لازم قرار دے دیا گیا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ اسموگ کے خاتمے کے لیے تمام محکمے کام کر رہے ہیں، ایئر کوالٹی انڈیکس کی مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم جدید آلات سے بنایا گیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ تمام محکموں کو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے…
0 notes
Text
3 سیکشن افسروں نے اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر 51 پروفیسرز کے تبادلے کر دئیے، اینٹی کرپشن نے نوٹس لے لیا
پنجاب بھر میں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے پروفیسرز کے بغیر اجازت تبادلے کر دیئے گئے ،ایچ ای سی نے نوٹس لے لیا انکوئری اور کاروائی کے لئے محکمہ انٹی کرپشن پنجاب کو لکھ دیا گیا۔ پنجاب بھر میں اگر کسی بھی پروفیسر کا تبادلہ کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے پہلے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے تاہم گزشتہ کئی ماہ سے یہ سلسلہ بغیر اجازت چلایا جاتا رہا ۔ بتایا گیا ہے کہ 51 پروفیسرز کے تبادلے…
View On WordPress
0 notes
Text
College Teaching Interns (CTIs) Jobs in Punjab
پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کالج ٹیچنگ انٹرنز (CTIs) کی 7354 نئی آسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ مزید تفصیلات جاننے اور مکمل اشتہار دیکھنے کے لیے ابھی کلک کریں: 👇👇
Latest Jobs in Punjab for College Teaching Interns (CTIs) October 2024 The Higher Education Department (HED), Government of Punjab, is announcing the recruitment of 7354 College Teaching Interns (CTIs) (including a 5% quota for minorities and a 3% quota for persons with disabilities) for a period of six months (November 1, 2024, to April 30, 2025). Who can apply? Applicants must hold a Master’s…
0 notes
Text
ایک سال میں 380 ارب روپے کی بجلی چوری کا انکشاف
ملک میں ایک سال میں تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہونے اور بجلی چوری کے فرم ہائیر کرنے کا انکشاف ہوا۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا ہے کہ بجلی ٹیرف میں اضافے سے آئندہ سال پانچ سوبیس ارب روپے تک بجلی چوری کا تخمینہ لگایا گیا ہے صرف بنوں کے ایک گریڈ اسٹیشن سالانہ پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی رہی۔ سکھر والوں نے بجلی چوری کے لیے فرمز ہائر کرنے کا طریقہ ایجاد کیاہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے…
View On WordPress
0 notes
Text
ایک سال میں 380 ارب روپے کی بجلی چوری کا انکشاف
ملک میں ایک سال میں تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہونے اور بجلی چوری کے فرم ہائیر کرنے کا انکشاف ہوا۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا ہے کہ بجلی ٹیرف میں اضافے سے آئندہ سال پانچ سوبیس ارب روپے تک بجلی چوری کا تخمینہ لگایا گیا ہے صرف بنوں کے ایک گریڈ اسٹیشن سالانہ پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی رہی۔ سکھر والوں نے بجلی چوری کے لیے فرمز ہائر کرنے کا طریقہ ایجاد کیاہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے…
View On WordPress
0 notes
Photo
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 2 سالہ ڈگری پروگرام کے متعلق بڑا اعلان کردیا #Degreeprogram #HigherEducation #aajkalpk اسلام آباد: ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 2 سالہ ڈگری پروگرام ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
0 notes
Text
راحت اندوری ایک عہد ساز شاعر
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری کے وصال کی خبر مجھے راویش کمار سے کچھ یوں ملی کہ میں سنتا گیا بکھرتا گیا
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اندور کے راحت اندوری اب ہم میں نہیں رہے ۔ اپنی شاعری سے اندور کو ایک پہچان دی اور اپنی شہرت سے ایک بلند مقام پایا کبھی اندور کو خود سے الگ نہیں کیا، آج راحت اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو الوادع کہہ گیا اک شاعر کی زندگی کا حساب آپ چلتے پھرتے ٹی وی شوز کو دیکھ کر تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن وہ تھے مزاج سے بہت ضدی لگتا تھا کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے دنیا سے ٹکرا گئے ہیں لکھتے ہیں۔
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا دنیا کو
راحت تو مزاج اور کلام کے اعتبار سے بھی راحت تھے۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا راحت، دنیا کو داغ مفارقت دے گیا۔ راحت سچے جذبوں کا امین اور مرزا کی طرح ضدی، حبیب جالب کی طرح طوفانوں سے ٹکرانے والا ، مخالفین کے ہوش ٹھکانے لگانے والا، لاکھوں کے مجمع میں اپنے موقف کو اشعار میں بدلنے والا کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والا، راحت شعراء کی مجلس کے لیے راحت تھا ، ادب کا یہ بلند درخت اہل علم وفن کے لیے سایہ دار پیڑ تھا، وہ مشہور بھی تھا اورمعروف بھی۔
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ، آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
میں نہ جگنو ہیں، دیا ہوں نہ کوئی تار ا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
راحت ، محبت ، امن ، بغاوت ، مزاحمت اور سبق اموز شاعری کا روشن باب تھا۔ راحت جوش ملیحہ آبادی کی طرح فتنہ پردازوں کی خوب کلاس لیتا اپنے کلام کے ذریعے بھارت میں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والوں کی خوب کلاس لیتا۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
منفی سیاست کے چال چلن کا بھرپور پوسٹ مارٹم کیا کرتے ۔ اپنے انوکھے انداز اور حسین امتزاج اور شاندار کلام سے لوگوں کے من موہ لیتے، بلاشبہ وہ اپنے ہم عصروں میں بلند پایہ مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مشاعروں کو اپنے موجودگی سے پہچان بخشی، ان کے بغیر انٹرنیشنل مشاعرہے ادھورے رہا کرتے ۔
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر یہ مِری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
راحت مزاج کے اعتبار سے نرم دل اپنے دوست شعراء کا خاص خیال رکھتے۔ سلیم احمد کاظمی لکھتے ہیں کہ غریب شعرا کی مدد اور مرحوم شعرا کے گھر والوں خبر گیری خاموشی سے کرتے تھے ایک بار غالباً طویٰ کے مشاعرہ میں کمیٹی بغیر پیمنٹ دیے غائب ہو گی تھی، کی شعرا کو کرایہ دیا اور کچھ رقم خاموشی سے ان کی جیب میں ڈال دی، مجھے مشاعرہ کی دنیا میں اس سے اچھا انسان نہیں ملا ـ۔
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
مولانا فیضی نے کہا کہ راحت صاحب نے برسوں تک اردو ادب کے گیسو سنوارنے کے ساتھ کئی نسلوں کی اس طرح تربیت کی کہ آج پوری اردو دنیا میں قدم قدم پر آپ کے ایسے پروردہ افراد نظر آتے ہیں جن کو آپ نے اردو ادب کے ساتھ چلنے کا ہنر سکھایا تھا، انہوں نے کہا کہ راحت صاحب نے تو دنیا کو الوداع کہہ دیا؛ مگر انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی برادری کے لئے جو پیغام چھوڑے ہیں وہ ہمیشہ ادب سے وابستہ افراد کو ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔ بلاشبہ راحت کی بے باکی اور للکار ایوانوں اور ادبی محفلوں کی رونق رہے گی ۔
گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
بہُت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
مَیں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
راحت کے اشعار میں زندگی کا ہر رنگ نظرآتا ہے دوستی اور دشمنی سے متعلق لکھتے ہیں۔
دوستی جب کسی سے کی جائے دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
راحت اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950 کو ہوئی تھی۔ اندور کے ہی نوتن سکول میں انھوں نے ہائیر سیکنڈری کی تعلیم حاصل کی اور وہیں کے اسلامیہ کریمیہ کالج سے انھوں نے گریجوئیشن کرنے کے بعد برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ایک سنجیدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب جانتے تھے۔
مرے بیٹے کسی سے عشق کر مگر حد سے گزر جانے کا نئیں وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں
سڑک پر ارتھیاں ہی ارتھیاں ہیں ابھی ماحول مر جانے کا نئیں وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف ابھی ماحول مر جانے کا نئیں
راحت صاحب کی مجموعی شاعری میں سچائی وبے باکی کی روشن علامت ہے۔سیدھے سادھے لفظوں سے راحت نے تلخ سے تلخ پیغام بڑے اچھوتے انداز سے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار مرزا، سودا، جالب اور جوش کی یاد تازہ کرتے ہیں ، ان کا اچھوتا انداز منفرد لہجہ انہیں دیگر شعرا سے ممتاز دکھاتا ہے ۔
میں نہ جگنو ہیں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
راحت کے وصال کی خبر عالم ادب کے لیے بجلی بن کر گری ہر خاص وعام بلادِ ہند سے لے کر بلادِ حجاز ومغرب سبھی راحت کے چلے جانے پر دکھی ہیں ۔
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
راشد علی
بشکریہ روزنامہ جسارت
6 notes
·
View notes
Text
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں تعمیر استعدادوصلاحیت پروگرام کا آغاز
(24 نیوز )ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے تعمیر استعدادوصلاحیت پروگرامز کی افتتاحی تقریب منعقدہوئی ، جس میں ڈاکٹر نور آمنہ ملک، منیجنگ ڈائریکٹر ، نیشنل اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن ( ایچ ای سی )نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، وائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل نے بطور سر پرست اعلٰی شرکت کی۔ وائس چانسلر…
0 notes
Text
تبدیلی کا نعرہ، تعلیم وصحت کے بجٹ میں کمی
تعلیم و صحت کے بجٹ میں کمی کر دی گئی ۔ مراعات یافتہ طبقے کو ایک انکم ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اساتذہ اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا مگر انکم ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔ مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ محض 17500 مقرر ہوئی۔ مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی، تحریک انصاف کا منشور پسِ پشت چلا گیا۔ صرف ایک اچھی خبر یہ ہے کہ شرح خواندگی ایک فیصد سے کچھ بڑھ گئی ہے، یعنی تریسٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب بھی سینتیس فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان خواندگی کے لحاظ سے بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش اور مالدیپ سے پیچھے ہے۔ وفاقی بجٹ کا کل حجم 949896 بلین ہے۔ اس میں تعلیم کا حصہ 33780 بلین ہے، گزشتہ سال اس مد میں 42776 بلین روپے رکھے گئے تھے اس طرح صحت کے شعبے کے لیے 12671 ملین روپے رکھے گئے ہیں گزشتہ سال کے بجٹ میں 29999 ملین روپے رکھے گئے تھے۔
اس سال کے شروع میں بھارت کے زیر کنٹرول علاقے پلوامہ میں فوجی قافلے پر حملہ ہوا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی تو حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں تعلیم اورصحت کی مد میں مختص رقم میں کٹوتی کر لی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے کئی پروگرام منسوخ کرنے پڑ گئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مشیر تعلیم اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاالرحمن نے صدر پاکستان کے نام ایک خط میں ان پروگراموں کے منسوخ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا اور یہ رقم سہولتوں کو بہتر بنانے پر خرچ ہو گی مگر شاید ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دباؤ زیادہ تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کو شامل نہیں کیا گیا۔
پاکستان تعلیم اور صحت کے شعبوں میں گزشتہ ستر سالوں سے پسماندہ ہے۔ انگریزوں کے دور میں جس رفتارسے شرح خواندگی بڑھی تھی، آزادی کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومتیں اس رفتارکو برقرار نہیں رکھ سکیں۔ 1947 سے 1972 تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے صحت اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، یوں ان دونوں شعبوں کو منافع کمانے والے لوگوں کے سپرد کر دیا گیا۔ ان ادوار میں سرکاری کالج ، اسکول بہت کم تعداد میں قائم ہوئے، بڑے شہروں میں غیر سرکاری ادارے قائم ہوئے ، رفاحی اداروں نے بھی غیر سرکاری ادارے قائم کرنے میں کافی مدد فراہم کی۔ مگر انھیں چھوٹے دیہاتوں وشہروں میں کوئی کشش نظر نہیں آئی۔ نجی تعلیمی اداروں نے والدین سے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا اور اساتذہ کا بد ترین استحصال شروع کر دیا ۔
پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم اور صحت کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا، یوں تعلیمی ادارے قومیائے گئے ان تعلیمی اداروں کے قومیانے سے اساتذہ کے حالات تو بہتر ہوئے مگر سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے تعلیمی شعبے کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کر دیا، نااہل لوگ استاد کے منصب پر فائض ہوئے،غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ وجود میں آیا یوں وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جس کی توقع تھی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں نجی اداروں نے اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ یونیورسٹیاں بھی قائم کیں، امراء کے لیے یورپی یونیورسٹی کی ڈگریاں ملک میں ہی میسر آنے کے مواقعے پیدا ہوئے مگر پھر نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مارکا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ جنرل مشرف کے دور میں عالمی بینک کی امداد سے یونیورسٹی گرانٹ کا مشن ہائیر ایجوکیشن میں تبدیل ہوا۔
ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے معیار کی بہتری کے لیے قابل ستائش اقدامات کیے، ایچ ای سی نے نصاب کو بہتر بنانے، اساتذہ کی ٹریننگ کے ورکشاپ کے انعقاد، پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک میں اسکالرشپ کے اجرا اور یونیورسٹیوں کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اربوں روپے مختص کیے۔ یونیورسٹیوں میں نئے شعبے قائم ہوئے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کی تعد��د میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، ایچ ای سی کے اس رویے سے یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا۔ گزشتہ حکومت نے خواندگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے، وفاقی حکومت کی مدد سے دور درازعلاقوں میں اسکولز کے قیا م کا سلسلہ شروع ہوا مگر اس دوران تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم بہت کم تھی اور پاکستان تعلیم کے شعبے میں دنیا سے بہت پیچھے بھی تھا مگر اب تعلیم کے شعبے میں بجٹ کی کمی سے اور منفی نتائج سامنے آئیں گے ۔
وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ترقیاتی پروگراموں کے صرف 29 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ اس فنڈ میں صرف دو نئی یونیورسٹیوں کا قیام جب کہ بقیہ پرانی یونیورسٹیوں میں ہی نئے شعبوں کے قیام کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلا ن کیا تھا مگر بجٹ کی دستاویزات میں ایک وفاقی انسٹیوٹ کے لیے 49 بلین روپے رکھے گئے۔ بظاہر بجٹ کے دستاویزات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاقی حکومت حیدرآباد میں ایک مکمل یونیورسٹی کے بجائے اعلیٰ تعلیم کا کوئی انسٹیوٹ بنانے کا خیال ہی رکھتی ہے۔ یہ خبر حیدرآباد کے شہریوں اور تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے لیے یقینا مایوس کن ہو گی ۔
وفاقی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کمی کی ہے، اب ایچ ای سی کی بیرون ملک اسکالرشپ کی اسکیم موخر ہو جائے گی۔ امریکا اور یورپ میں اسکالرشپ کے زریعے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم اس خوف کا شکار ہیں کہ حکومت ان کی اسکالرشپ کی گرانٹ کو روک دے گی۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کی تربیت کے لیے جو پروگرام شروع کیے تھے وہ سب بند کر دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کسی نئے منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔بچوں کو جبری مزدوری اور بیگار سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ بچوں اور ان کے والدین کو فری تعلیم کے ساتھ مفت یونیفارم ،کتب اور کھانے کی سہولیات ہی اسکول کی جانب راغب کر سکتی ہیں۔ عمران خان جس طرح گزشتہ تیس سالوں سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا کرتے تھے اور حکمرانوں کی نااہلی پر گرما گرم تقریریں کیا کرتے تھے اس سے ہزاروں نوجوان متاثر ہوئے مگر عمران خان کی حکومت یہ بجٹ تو ماضی کی حکومتوں کی یاد دلا رہا ہے ۔
شعبہ صحت کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کی بہت کمی ہے، صرف اسلام آباد کے اسپتالوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت بار بار آشکار ہوتی ہے کہ شمالی علاقہ جات کشمیر اور پنجاب کے بہت سارے علاقوں مثلا، اٹک، چکوال، راولپنڈی، جہلم، میانوالی اور بھکر تک کے لوگ اسلام آباد کے اسپتالوں میں آتے ہیں۔ ان اسپتالوں میں بیڈز، دوائیوں اور ڈاکٹروں کی کمی پائی جاتی ہے بعض اوقات تو ایک بیڈ پر کئی مریض لیٹے نظر آتے ہیں، پھر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ان اسپتالوں میں علاج کی سہولیات مفت ہیں مگر عملی طور پر تو کچھ اور ہی نظر آتا ہے ،ان اسپتالوں کے اسٹورز پر دوائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لوگ دوائیاں نجی میڈیکل اسٹورز سے خریدنے پر مجبور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ لیبارٹریوں کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے مریض اپنے ٹیسٹ باہر سے کرانے پر مجبور ہیں اور جو مریض باہر سے ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے انھیں ٹیسٹ کرانے کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ پہلے تو اسلام آباد میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے کے قریبی اضلاع میں جدید قسم کے اسپتال قائم کیے جائیں ۔
وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کے تین اسپتالوں کا انتظام سنبھال لیا ہے یہ اسپتال وفاقی حکومت نے قائم کیے تھے مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے حوالے کر دیے گئے تھے مگر سندھ حکومت کے زیراہتمام اسپتالوں کی کارکردگی خاصی مایوس کن تھی ۔ مریضوں کو ادویات، آپریشن کے سامان اور فیسٹو کے لیے باہر رجوع کرنا پڑتا تھا ۔ ان میں ایک امراض قلب کا قومی ادارہ (NIC) بھی ہے اس میں تو بعض اوقات ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ اگر کوئی خاتون اپنے والد یا والدہ کو دل کا دورہ پڑنے پر لائی ہے اور مریض کو فوری جان بچانے کے لیے انجیکشن کی ضرورت ہے تو اس خاتون کو اپنی انگوٹھیاں اور بالیاں کیمسٹ کے پاس گروی رکھوانی پڑ جاتی تھیں مگر اٹھاریوں ترمیم کے بعد یہ اسپتال سندھ حکومت کے پاس آئے تو ان کی کارکردگی بہت بہتر ہو گئی مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مفت مہیا ہونے لگا۔
انجیوپلاسٹی اور بائی پاس جیسے مہنگے آپریشن مفت ہونے لگے بہت سارے ڈاکٹروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسپتال شہر کے بہت سے دوسرے مہنگے اسپتالوں سے بہتر ہو گئے ہیں مگر اب وفاقی حکومت نے دوبارہ ان اسپتالوں کے انتظامات سنبھال لیے ہیں۔ اب جب کہ وفاقی حکومت نے صحت کے بجٹ میں کمی کر دی ہے تو ظاہر ہے اس کمی سے یہ تینوں اسپتال براہ راست متاثر ہونگے ۔ اب کراچی کے شہریوں کو یہ خوف ہے کہ ان اسپتالوں کے حالات ماضی جیسے ہو جائیں گے جس کا سب سے زیادہ نقصان مریضو ں کو ہو گا۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تبدیلی کا نعرہ محض ایک ڈھونگ تھا۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes
·
View notes
Text
اردو ہائیر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں تعلیمی بیداری جلسے کا انعقاد اور اعزازات
اردو ہائیر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں تعلیمی بیداری جلسے کا انعقاد اور اعزازات
اردو ہائیر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں تعلیمی بیداری جلسے کا انعقاد اور اعزازات حکومت نے ضرورت کے مطابق اردو اسکول کھلولنے میں ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان اردو اسکولوں کو رتعلیم و تربیت کا گہوارا بنانا اور اسے بند ہونے سے بچانا اساتذہ کی محنت اور لگن پر انحصار کرتا ہے۔:حافظؔ کرناٹکی آج بروز بدھ تاریخ ۱۵؍جون ۲۰۲۲ء کو سرکاری اردو ہائر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں…
View On WordPress
0 notes
Text
سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی طلبا کیلیے بڑی خوشخبری
سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی طلبا کیلیے بڑی خوشخبری
سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی طلبا کیلیے بڑی خوشخبری ریاض: سعودی عرب نے اپنی 25 جامعات میں پاکستانی طلبا کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کردیا جس کے تحت منتخب طلبا کو ماہانہ وظیفہ اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مطابق سعودی عرب نے پاکستانی طلبا کے لیے سیاسیات، قانون، تعلیم، ایڈمنسٹریشن، معاشیات، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس ، ذراعت، عربی، اسلامک…
View On WordPress
#اہم#اور#بڑی#پاکستانی#تعلیم#ٹیکنالوجی#حاصل#خبریں#خواہش#خوشخبری#سائنس#سعودی#طلبا#عرب#کرنے#کیلیے#مند#میں
0 notes
Text
Chairman HEC, Jamia Punjab Mai (2)
Chairman HEC, Jamia Punjab Mai (2)
چیئر مین ایچ۔ای۔سی، جامعہ پنجاب میں (دوسری قسط) جامعہ پنجاب میں اساتذہ کیساتھ ہونے والی علمی نشست میں چیئر مین ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) ڈاکٹر طارق بنوری نے پاکستان میں ہونے والی ناقص تحقیق اور اعلیٰ ڈگریوں کی اندھا دھند تقسیم پر طویل گفتگو کی۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ افرادبرسوںسے ان معاملات پر نوحہ کناں ہیں ۔ ماہرین تعلیم اکثر نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں…
View On WordPress
0 notes
Text
طالبان کا 2 فروری سے تمام یونیورسٹیز کھولنے کا اعلان - اردو نیوز پیڈیا
طالبان کا 2 فروری سے تمام یونیورسٹیز کھولنے کا اعلان – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کابل: طالبان حکومت کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ 2 فروری سے تمام جامعات کھول دی جائیں گی تاہم سرد علاقوں کی یونیورسٹیز میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز 26 فروری سے ہوگا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن شیخ عبدالباقی حقانی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملک بھر کی اگست سے بند جامعات کو فوری طور پر کھولنے کا فیصلہ کرلیا…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈی جی صاحب نے مزید کیا کہا ؟
فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی میڈیا بریفنگ میں فوج کے نقطہ ِ نظر سے معروضی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے حسبِ توقع پشتون تحفظ موومنٹ کے مصالحے پر پورا فوکس کیا اور ڈی جی صاحب نے دیگر موضوعات پر جو اہم باتیں کیں ان کا سرسری تذکرہ کیا۔ چنانچہ میرا جی چاہا کہ ڈی جی صاحب کی ان باتوں پر فوکس کروں جو میڈیا نے قدرے آؤٹ فوکس کر دیں۔ یہاں میرے الفاظ ختم ہوئے۔ آگے آپ جو پڑھیں گے وہ ڈی جی صاحب کے فرمودات ہیں۔
بھارت جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ سچ ایک دفعہ بولا جاتا ہے۔ جن کے پاس جوہری صلاحیت ہوتی ہے۔ سمجھ داری یہ ہوتی ہے کہ اس جوہری صلاحیت کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ ڈیٹیرنس کا ہتھیار ہے اور اس ملک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جس کے پاس یہ ہتھیار ہو۔ یہ بھی یاد رکھیں ( بھارت ) کہ یہ انیس سو اکہتر نہیں ، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات۔
میڈیا اگر انیس سو اکہتر میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا جیسا ہوتا تو وہ آپ کی (بھارت) سازشوں کو بے نقاب کر سکتا۔ وہاں ( مشرقی پاکستان ) کے حالات کی رپورٹنگ کر سکتا، وہاں پر ہونے والی اندرونی زیادتیوں کو رپورٹ کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ آج کے ماحول میں ریڑھی والا ، رکشے والا، تانگے والا، بیوروکریٹ، سیا ستداں ہر کوئی بول سکتا ہے۔ مگر ایک آرمی چیف ہے جس نے چالیس سال اس ملک کے لیے ایک سسٹم میں رہتے ہوئے کام کیا ہے۔ وہ پاکستان کا شہری ہے مگر وہ نہیں بول سکتا۔ میں اس کا ترجمان ہوں مگر آپ کو نہیں پتہ کہ میں کتنا بندھ کر بولتا ہوں۔ میرے پاس وہ آزادی نہیں کہ جو دل میں آئے وہ رات کو ایک بجے اٹھ کر بول دوں۔
میں نے بڑے دل سے کہا ہے کہ اگر آپ انیس سو اکہتر میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے۔ سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے۔ ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنیے، ہماری رہنمائی کیجیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کو شائد فوج یا آئی ایس پی آر کنٹرول کرتا ہے۔ کیا کوئی ایک اینکر بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کرنے سے منع کیا گیا اور وہ بات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ میں آپ کو اپنی لاجک دوں گا۔ اگر آپ اس سے قائل نہیں ہوتے تو پلیز بات کریں۔
انتہا پسندی اور مدارس ان (شدت پسند) تنظیموں کے اسپتال ہیں، مدرسے ہیں۔ اگر ان میں سے دس فیصد لوگ شدت پسندی کی طرف راغب ہیں تو نوے فیصد فلاحی کام کر رہے ہیں جس پر حکومت اور اداروں کی نظر ہے۔ ان کو پیسہ کہاں سے آتا ہے، کون کون فنانس کرتا ہے، کون کون چندہ دیتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ آپ اس طرح خیرات دیں کہ دائیں ہاتھ کا بائیں کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اگر دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنا ہے تو پھر دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ کو پتہ ہونا چاہیے۔ اب اس رقم کے استعمال اور ان کے مدارس حکومتی عمل داری میں لانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ دنیا کے ایجوکیشنل انڈیکس میں شامل ایک سو انتیس ممالک میں سے ہمارا نمبر ایک سو تیرہواں ہے۔
یہ شرمندگی کی بات ہے۔ پچیس ملین پاکستانی بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سرکاری و نجی اسکول اور مدارس شامل ہیں۔ انیس سو سینتالیس میں دو سو سینتالیس مدرسے تھے جو انیس سو اسی تک دو ہزار آٹھ سو اکسٹھ ہو گئے اور آج تیس ہزار سے زائد ہیں۔ ان میں ڈھائی ملین بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں سے متشدد انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد ہماری اسکریننگ کے مطابق سو سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی مدرسے انتہا پسند یا دہشت گرد پیدا نہیں کر رہے۔ ان مدارس میں آٹھ سال درسِ نظامی پڑھایا جاتا ہے، مزید دو برس کے تخصص سے ایک طالبِ علم مفتی بن سکتا ہے۔ مگر یہ فارغ التحصیل طلبا صرف دینی اداروں میں ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، اینکر، رپورٹر یا فوجی بن سکیں۔
جامعہ رشیدیہ کے ایک طالبِ علم کو فوج میں کمیشن ملا کیونکہ وہ میرٹ پر اترتا تھا۔ لیکن ایسے مدارس کم ہیں۔ اب حکومتِ پاکستان اور مددگار اداروں نے ان مدارس کو مین اسٹریم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھیں وزارتِ صنعت کے بجائے وزارتِ تعلیم کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انھیں تعلیمی بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک کیا جائے گا۔ ان اداروں میں جدید مضامین پڑھائے جائیں گے۔ دینی نصاب وہی رہے گا مگر اس میں سے نفرت انگیز مواد خارج کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف کہتے ہیں اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ اب ہم دہشت گردی کے مقابلے سے نسبتاً فارغ ہوئے ہیں۔ اب ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کا پاکستان سے خاتمہ کرنا ہے۔ اور یہ تب ہی ہو گا جب ہمارے بچوں کو یکساں تعلیم اور یکساں مواقعے ملیں گے۔
پی ٹی ایم اور لاپتہ افراد جب تحریکِ لبیک کے خلاف ایکشن ہوا تو لوگوں نے کہا پی ٹی ایم ( پشتون تحفظ موومنٹ ) بہت بولتی ہے آپ ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں کرتے۔ ان کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ چیک پوسٹوں میں کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتہ افراد کی بازیابی۔ فوج کی اڑتالیس ٹیموں نے پینتالیس فیصد ایریا بارودی سرنگوں سے کل��ئر کر دیا ہے۔ اس کام کے دوران پاک فوج کے ایک سو ایک جوانوں کا جانی نقصان ہوا۔ لاپتہ افراد کی فہرست پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اب ڈھائی ہزار کیسز بچے ہیں۔ میری آپ ( پی ٹی ایم ) سے درخواست ہے کہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) کی جو افرادی قوت اس وقت افغانستان میں بیٹھی ہے۔ ان کی لسٹ بھی مجھے دے دیں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ آپ کی لاپتہ افراد کی لسٹ کا کوئی بندہ ان میں تو شامل نہیں۔ پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ باقی لاپتہ افراد کہاں گئے۔
بہت ساری اور تنظیمیں بھی بہت سی جگہ لڑ رہی ہیں آپ کے تو بہت وسائل ہیں۔ ان کی لسٹ بھی ہمیں دے دیں تاکہ ہم اپنے لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ڈی جی صاحب نے پی ٹی ایم کے بیرونی ڈانڈوں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط) کے بارے میں بھی سوالات کی ایک فہرست سنائی۔ اور کہا کہ آپ کا وقت پورا ہو گیا۔ اب آپ سے قانونی طریقوں سے نمٹا جائے گا۔ حامد میر نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ تو پی ٹی ایم نے گزشتہ سال اٹھایا ہے مگر یہ بات تو دو ہزار پانچ اور چھ سے چل رہی ہے۔ آپ نے پی ٹی ایم کے سامنے جو سوالات رکھے ہیں تو پی ٹی ایم والے کہتے ہیں کہ ہم پر تو الیکٹرونک میڈیا کے دروازے بند ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ وہ میڈیا پر آ کر جواب دیں۔
اس پر ڈی جی صاحب نے فرمایا کہ حامد میر صاحب مجھے پتہ ہے کہ لاپتہ افراد کے ساتھ آپ کو دلی لگاؤ ہے۔ ہمارا بھی اتنا ہی لگاؤ ہے۔ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی بندہ مسنگ ہو۔ مگر جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ محبت و جنگ میں سب جائز ہے۔ جنگ بہت سفاک ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اور دوسرے سیکیورٹی ادارے اسے فرض سمجھ کے لڑتے ہیں۔ یہ ان کی کوئی ذاتی جنگ تو نہیں۔ میں نے آپ سے کہا نا کہ لاپتہ لوگ وہ نہیں جو یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ ٹی ٹی پی کی لسٹ دے دیں تاکہ ہم اپنے مسنگ پرسنز کو کلیئر کر لیں۔ آج میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط ) یہ تو لوگوں کو پہلے سے نہیں پتہ۔ ان سوالوں کے جواب ہم قانونی طریقے سے لیں گے۔ میڈیا پر ڈبیٹ نہیں کروائیں گے۔ جب ان کی زبان سیدھی ہو جائے گی جب وہ ایکسپوز ہو جائیںگے پھر آپ انھیں سات دن چوبیس گھنٹے ٹی وی پر رکھیں۔
متفرقات پاکستان میں اس وقت کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں۔ مگر یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی موجود نہیں۔ ابھی ہمیں بہت کام کرنا ہے۔ فوج کا کام ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں معیشت ترقی کر سکے۔ اللہ کا شکر ہے فوج بہت بہتری لے آئی ہے۔ اب جو کام باقی لوگوں نے کرنے ہیں وہی کریں گے انشاء اللہ۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں یونیورسٹیز کی تعمیرات ڈاکٹر احتشام انور کو بریفنگ
ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں یونیورسٹیز کی تعمیرات ڈاکٹر احتشام انور کو بریفنگ
ایک ارب 28 کروڑ 40 لاکھ روپے کی لاگت سے ملتان میں ایم این ایس یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی نئی بلڈنگ کی تعمیر، گورنمنٹ ایمرسن کالج کے بی ایس بلاک کی تعمیراور گورنمنٹ سائنس کالج میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہائیر ایجوکیشن کے جاری منصوبوں پر کام جاری ہے، جب کہ گرلز انٹرکالج سمیجہ آبادکی اپ گریڈیشن ، گورنمنٹ ایمرسن کالج کی یونیورسٹی کے طور پر اپ گریڈیشن اور ویمن یونیورسٹی کی بلڈنگ…
View On WordPress
0 notes
Text
جامعات کے اساتذہ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن
جامعات کے اساتذہ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن
ہائیر ایجوکیشن کمیشن اساتذہ کو اچھا اور پرسکون ماحول فراہم کرسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل) ادارے خواہ نجی ہوں یا سرکاری، وہاں کام کرنے والوں کو اچھا ماحول اور ترقی کے مواقعے پیش کرنا، تاکہ کام کرنے والے ترقی کی خواہش میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کریں، ایک نمایاں اصول رہا ہے۔ نجی ادارے اپنے ملازمین کو اس ضمن میں تجربے، سینیارٹی کے مواقع پر ترقی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے سالانہ منافع پر بونس بھی…
View On WordPress
0 notes